ویلنٹائن ڈ ے (یومِ محبت ) منانا ضروری ہے؟
مغربی ذرائع اَبلاغ کی تعلیمات و ہدایات کے زیراثر ہمارے ہاں تواتر سے طبقہ ٔ اشراف سے تعلق رکھنے والا ایک جنونی گروہ پروان چڑھ رہا ہے جس نے تہذیب ِمغرب کی بھونڈی نقالی کو ہی اپنا ایمان بنا رکھا ہے۔ اپنے آپ کو ’ماڈرن‘ سمجھنے اور دکھانے کا اُنہوں نے واحد اسلوب ہی یہ سمجھ رکھا ہے کہ اہل مغرب سال بھر میںجو جو تقریبات منائیں، ان کے قدم بہ قدم بلکہ سانس بہ سانس اس شاغلانہ ہنگامہ آرائی میں دیوانہ وار شامل ہوجائیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ آخر مغربی تہواروں کا پس منظر کیا ہے؟ ان کے لئے تو بس یہی امر ہی کافی ہے کہ وہ CNNیاکسی اور ذریعہ ٔ اَبلاغ پر ایک جھلک دیکھ لیں یا معمولی سی خبر سن لیں کہ فلاں تاریخ کو مغرب کی جدید و جواں نسل کوئی تہوار منا رہی ہے۔ اس جدیدیت گزیدہ طبقہ کو تو تہوار منانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے۔
نہ یہ ہندئوں کے دیوالی، ہولی اور بسنت کے تہواروں کو معاف کرتے ہیں، نہ عیسائیوں کے کرسمس یا دیگر تہواروں میں شریک ہونے میں کوئی عیب سمجھتے ہیں۔ بظاہر یہ مسلمانوں کی اولاد ہیں، لیکن مسلمانوں کے اصل تہوار یعنی عیدین کے موقعوں پر ان کے جذبات میں کوئی خاطر خواہ تحریک ہوتی ہے، نہ انہیں منانے میں انہیں کوئی لطف آتا ہے۔ بلکہ ان اسلامی تہواروں کو تو وہ ’عامی‘ مسلمانوں کا ہی تہوار سمجھتے ہیں جن میں شریک ہونا ان کی کھوکھلی اَشرافیت اور سطحی جدیدیت کے تقاضوں کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ ان شریف زادوں کے روشن دماغ میں یہ سوال کبھی نہیں اُبھرتا کہ ’گلوبل کلچر‘ میں ان کی شرکت یکطرفہ اور غلامانہ کیوں ہے؟ …تقریبات منانے کے شغل کو یہ وسعت ظرفی اور روشن خیالی سمجھتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے ممدوح اہل مغرب سے بھی بڑھ کر وسیع المشرب اور روشن خیال ہیں کیونکہ انہوں نے تو کبھی مسلمانوں کے تہوار وں میں اس جوش و خروش سے حصہ نہیں لیا۔
جس’ویلنٹائن ڈے‘ کو منا منا کر ہمارے بعض ’’محبت کے متوالے‘‘ ہلکان ہوتے رہے ہیں، وہ ’’تقریب شریف‘‘ تو اہل مغرب کے لئے بھی بدعت ِجدیدہ کا درجہ رکھتی ہے۔ ماضی میں یورپ میں بھی اس کو منانے والے نہ ہونے کے برابر تھے، اس دن کے متعلق مغربی ذرائع اَبلاغ بھی اس قدر حساس نہیں تھے۔ اگر یہ کوئی بہت اہم یا ہردلعزیز تہوار ہوتا تو انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں اس کا ذکر محض چار سطور پر مبنی نہ ہوتا، جہاں معمولی معمولی واقعات کی تفصیلات بیان کی جاتی ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں سینٹ ویلنٹائن کے متعلق چند سطری تعارف کے بعد ویلنٹائن ڈے کے متعلق تذکرہ محض ان الفاظ میں ملتا ہے:
’’سینٹ ویلنٹائن ڈے‘‘ کو آج کل جس طرح عاشقوں کے تہوار(Lover's Fesitival) کے طور پر منایا جاتا ہے یا ویلنٹائن کارڈز بھیجنے کی جو نئی روایت چل نکلی ہے، اس کا سینٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق یا تو رومیوں کے دیوتا لوپر کالیا کے حوالہ سے پندرہ فروری کو منائے جانے والے تہوار بار آوری یا پرندوں کے ’’ایامِ اختلاط‘‘(Meating Season) سے ہے۔‘‘
گویا اس مستند حوالہ کی کتاب کے مطابق اس دن کو سینٹ سے سرے سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ بعض رومانویت پسند ادیبوں نے جدت طرازی فرماتے ہوئے اس کو خواہ مخواہ سینٹ ویلنٹائن کے سرتھوپ دیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ نے ماضی میں کبھی بھی اس تہوار کو قومی یا ثقافتی تہوار کے طور پر قبول نہیں کیا۔ التبہ آج کے یورپ کے روایت شکن جنونیوں کا معاملہ الگ ہے۔
ایک اور انسائیکلو پیڈیا ’’بک آف نالج‘‘ میں اس دن کے بارے میں نسبتاً زیادہ تفصیلات ملتی ہیں مگر وہ بھی تہائی صفحہ سے زیادہ نہیں ہیں۔ اس کی پہلی سطر ہی رومان انگیز ہے
’’۱۴ ؍فروری مجبوبوں کے لئے خاص دن ہے‘‘
اس کے بعد وہی پرندوں کے اختلاط کاملتا جلتا تذکرہ ان الفاظ میں ملتا ہے:
’’ایک وقت تھا کہ اسے سال کا وہ وقت خیال کیا جاتا تھا جب پرندے صنفی مواصلت کا آغاز کرتے ہیں اور محبت کا دیوتا نوجوان مردوں اور عورتوں کے دلوں پر تیر برسا کر انہیں چھلنی کرتا ہے۔ بعض لوگ خیال کرتے تھے کہ انکے مستقبل کی خوشیاں ویلنٹائن کے تہوار سے وابستہ ہیں‘‘
اس انسائیکلو پیڈیا میں ’ویلنٹائن ڈے‘ کا تاریخی پس منظر یوں بیان کیا گیا ہے:
’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے بارے میں یقین کیا جاتاہے کہ اس کا آغاز ایک رومی تہوار لوپر کالیا (Luper Calia) کی صورت میں ہوا۔ قدیم رومی مرد اس تہوار کے موقع پر اپنی دوست لڑکیوں کے نام اپنی قمیصوں کی آستینوں پر لگا کر چلتے تھے۔ بعض اوقات یہ جوڑے تحائف کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ بعد میں جب اس تہوار کو سینٹ ویلنٹائن کے نام سے منایا جانے لگا تو اس کی بعض روایات کو برقرار رکھا گیا۔ اسے ہر اس فرد کے لئے اہم دن سمجھا جانے لگا جو رفیق یا رفیقۂ حیات کی تلاش میں تھا۔ سترہویں صدی کی ایک پراُمید دوشیزہ سے یہ بات منسوب ہے کہ اس نے ویلنٹائن والی شام کو سونے سے پہلے اپنے تکیے کے ساتھ پانچ پتے ٹانکے۔ اس کا خیال تھا کہ ایساکرنے سے وہ خواب میں اپنے ہونے والے خاوند کو دیکھ سکے گی۔ بعد ازاں لوگوں نے تحائف کی جگہ ویلنٹائن کارڈز کا سلسلہ شروع کردیا‘‘
۱۴؍ فروری کو سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کے متعلق کوئی مستند حوالہ تو موجود نہیں ہے البتہ ایک غیر مستند خیالی داستان پائی جاتی ہے کہ تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نام کے ایک پادری تھے جو ایک راہبہ(Nun) کی زلف ِگرہ گیر کے اسیر ہوئے۔ چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لئے نکاح ممنوع تھااس لئے ایک دن ویلنٹائن صاحب نے اپنی معشوقہ کی تشفی کے لئے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ ۱۴؍ فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ بھی کرلیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔ راہبہ نے ان پر یقین کیا اور دونوں جوشِ عشق میں یہ سب کچھ کر گزرے۔
کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کا حشر وہی ہوا جو عموماً ہوا کرتا ہے یعنی انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد میں کچھ منچلوں نے ویلنٹائن صاحب کو ’’شہید ِمحبت‘‘ کے درجہ پر فائز کرتے ہوئے ان کی یاد میں دن منانا شروع کردیا۔ چرچ نے اس خرافات کی ہمیشہ مذمت کی اور اسے جنسی بے راہ روی کی تبلیغ پر مبنی قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال بھی عیسائی کی پادریوں نے اس دن کی مذمت میں سخت بیانات دیئے۔ بنکاک میں تو ایک عیسائی پادری نے بعض افراد کو لے کر ایک ایسی دکان کو نذرِ آتش کردیا جس پر ’’ویلنٹائن کارڈ‘‘ فروخت ہو رہے تھے۔
آج کل یورپ و امریکہ میں ویلنٹائن ڈے کیسے منایا جاتا ہے اور اس کو منانے والے دراصل کون ہیں؟ اس کی تفصیلات جاننے کے بعد اس دن کو محض ’یومِ محبت‘ سمجھنا درست نہیں ہے۔ یہ تہوارہر اعتبار سے یومِ اوباشی یا یومِ اباحیت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ مغرب میں ’محبت‘ کا تصور ومفہوم یکسر مختلف ہے ۔ جس جذبے کو وہاں ’محبت‘(Love) کا نام دیا جاتا ہے ، وہ در حقیقت بو الہوسی(Lust) ہے۔ مغرب کے تہذیبی اہداف میں جنسی ہوس ناکی او رجنسی بائولا پن کی تسکین کی خاطر مرد وزن کے آزادانہ اختلاط کو بھر پور ہوا دینا ہے۔ اُس معاشرے میں عشق او رفسق میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ مرد وزن کی باہمی رضامندی ہر طرح کی شہوت رانی اور زنا کاری وہاں ’محبت‘(Love) ہی کہلاتی ہے ۔ اسی طرح ویلنٹائن ڈے منانے والوں کی جانب سے ’محبت‘ (Love) کا لفظ جنسی بے راہ روی کے لئے بطورِ استعارہ استعمال ہوتا ہے۔
ہمارے ایک فاضل دوست جو نہ صرف امریکہ سے بین الاقوامی قانون میں پی۔ایچ۔ ڈی کرکے آئے ہیں بلکہ وہاں ایک معروف یونیورسٹی میںپڑھانے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے چشم دید واقعات کی روشنی میں اس کا پس منظر بیان کیا کہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور یورپ میں اس دن کو جوش و خروش سے منانے والوں میںہم جنس پرستی میں مبتلا نوجوان لڑکے (Gay)اورلڑکیاں پیش پیش تھیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سان فرانسسکو میں ویلنٹائن ڈے کے موقع پر ہم جنس پرست خواتین و حضرات کے برہنہ جلوس دیکھے۔ جلوس کے شرکاء نے اپنے سینوں اور اعضائے مخصوصہ پر اپنے محبوبوں کے نام چپکا رکھے تھے۔ وہاں یہ ایسا دن سمجھا جاتا ہے جب ’محبت‘ کے نام پر آوارہ مرد اور عورتیں جنسی ہوسناکی کی تسکین کے شغل میں غرق رہتی ہیں۔ جنسی انارکی کا بدترین مظاہرہ اسی دن کیا جاتا ہے۔ ہمارے یہ دوست آج کل لاہور میں ایک پرائیویٹ لاء کالج کے پرنسپل ہیں۔ ایک جدید، روشن خیال اور وسیع المطالعہ شخص ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان میں ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منانے والوں کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے کہا کہ’’ میرا جی چاہتا ہے کہ اس دن کو منانے کے لئے جہاں جہاں اسٹال لگائے گئے ہیں، انہیں آگ لگا دوں‘‘
قدیم رومی کلچر کی روایات ہوں یا جدید مغرب کا اسلوبِ جنس پرستی، ان کا ہماری مذہبی تعلیمات تو ایک طرف، مشرقی کلچر سے بھی دور کا واسطہ نہیں ہے۔ قدیم روم میں اس تہوار کو’خاوند کے شکار‘ کا دن سمجھا جاتا تھا۔ ہمارے ہاں کسی عورت کے لئے مارکیٹ میں خاوند کی تلاش میں نکل کھڑے ہونا بے حمیتی اور بے غیرتی کی بات سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے خاندانی نظام میںعورت کو جو احترام حاصل ہے اس کے پیش نظر اس کی شادی بیاہ کا اہتمام اس کے خاندان کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔
’’ویلنٹائن ڈے‘‘ ہر اعتبار سے ’’یومِ اوباشی‘‘ ہے۔ اس کا اصل مقصود عورت اور مرد کے درمیان ناجائز تعلقات کو فروغ دینا بلکہ تقدس عطا کرنا ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے ہاں نوجوان نسل کو اس خرافات کے مضمرات سے آگاہ نہیں کیا جارہا۔ اخبارات میں اس ’یوم‘ کے حوالے سے منعقدہ تقریبات کو جس طرح ’کوریج‘ دی گئی ہے، اس سے اس کے مزید بڑھنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ ہمارے وہ دانشور جو اسلامی کلچر کے مقابلے میں برصغیر کے قدیم کلچر کے احیا کا پرچار کرتے ہیں، مغربی تہذیب کے اس حیا سوز تہوار کے خلاف آخر خاموش کیوں ہیں؟ ہندوستان کی بعض ہندو تنظیموں بشمول کانگرس نے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے لیکن ہمارے ہاں مذہبی تنظیموں اور مقامی کلچر سے ’محبت‘ کرنے والے دانشوروں نے اس طرح کے مظاہرے نہیں کئے۔ ان کی خاموشی کو کیا نیم رضا سمجھا جائے؟… مغرب کی ثقافتی استعماریت کا اس قدر غلبہ ہے کہ ہماری قوم کے اندر بے حسی پیدا ہوتی جارہی ہے !!
اخباری اطلاعات کے مطابق اس دفعہ ایران میں بھی ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے موقع پر اجتماعی شادی کی تقریبات منعقد کی گئی۔ معلوم ہوتا ہے، مغربی ذرائع ابلاغ کی ایران کے خلاف رجعت پسند، قدامت پسند اور بنیاد پرست ہونے کی تکرار نے ایرانی قیادت کے اَعصاب کو بھی متاثر کیا ہے۔ انہوں نے بھی ایسی تقریبات منانے کی اجازت دے کر، معلوم ہوتا ہے اپنے خلاف مذکورہ پراپیگنڈہ کا اثر زائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام میں نہ تو اجتماعی شادیوں پر کوئی پابندی ہے اور نہ ہی میاں بیوی کے درمیان محبت کے اظہار پر کوئی بندش ہے لیکن ا س کے لئے ایک ایسے دن کا انتخاب کرنا جو مغرب کی جنس پرست تہذیب کا علامتی اظہار بن چکا ہے، کسی بھی اعتبار سے مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ کیا ہمارے ذرائع اَبلاغ کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ محض خبروں کی سننی خیز اشاعت کے ساتھ ساتھ ایسے مسائل میں پاکستانی قوم کی راہنمائی کا فریضہ بھی ادا کریں؟ دعوتِ فکر ہے ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران کے لئے!