فتاویٰ جات
٭ خاوند کی اجازت کے بغیر اپنے مال کا وقف٭مطلقہ عورت کابیٹے کو ولی بنا کر نکاح کرنا
٭ رکوع کے بعد والے قیام میں ہاتھ باندھنا٭وتر نماز کے بعد مزید نوافل پڑھنا
٭ دو سجدوں کے درمیان انگلی کو حرکت دینا ٭ نکاح کے بعد رخصتی سے قبل بیوی کی وراثت
٭ بیت الخلاء میں وضو کے وقت بسم اللہ پڑھنا٭غسل کے بعد بدن کو تو لئے سے پونچھنا
٭سوال :کیا عورت بلا اِجازت شوہر اپنے مال کو وقف کرسکتی ہے؟ نیز کیا مطلقہ اپنے بیٹے کو ولی بنا کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے؟ (محمد یونس :مدرّس جامعہ تقویہ الاسلام ، لاہور)
جواب : عورت اپنے مال میں تصرف کرنے میں خود مختار ہے۔ شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شرعاً عورت خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے۔ جبکہ خاوند عورت کو نہیں دے سکتا کیونکہ اس کا نفقہ ؍خرچ بذمہ شوہر ہے۔ اس امر کی واضح دلیل حضرت ابن مسعودؓ کی بیوی کا قصہ ہے جب اس نے اپنے خاوند پر صدقہ کرنا چاہا تو نبیﷺ سے اجازت طلب کی۔ آپﷺ نے بطورِ استحسان فرمایا: «ولھا أجران: أجر القرابة وأجر الصدقة» (صحیح بخاري: باب الزکوٰة علی الزوج) ’’اس کے لئے دوہرا اجر ہے: قرابت کا اجر اور صدقے کا اجر‘‘۔
اسی بنا پر اہل علم نے کہا ہے کہ خاوند اگر بیوی کی چوری کرلے تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا بخلاف بیوی کے کیونکہ اس کا حق اس کے مال میں موجود ہے۔اسی استحقاق کی بنا پر نبیﷺ نے ابوسفیان کی بیوی ہند کو اپنا اور اولاد کا حق بلا اجازت ِشوہر وصول کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ (صحیح بخاري باب إذا لم یُنفق الرجل… الخ)
ابن مسعودؓ کی بیوی کے قصہ میں حافظ ابن حجر مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«وفیه الحثّ علی صلة الرحم وجواز تبرّع المرأة بمالها بغیر إذن زوجها»
اس حدیث میں صلہ رحمی کی ترغیب ہے اور بلا اجازت شوہر عورت کا اپنے مال سے صدقہ کرنے کا جواز ہے ہاں البتہ شوہر کے مال سے اگر وہ صدقہ کرنا چاہے تو اجازت واضح یا عرفی تفصیلی یا اجمالی ہونی چاہئے۔ (فتح الباری ۳؍۲۹۴ اور۳؍۳۳۰)
٭ جہاں تک مسئلہ ولایت کا تعلق ہے تو اس میں مطلقہ کی رائے کو ولی کی رائے پر فوقیت حاصل ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے ’’لاتنکح الأیم حتی تستأمر‘‘ (باب لا ینکح الأب وغیرہ… الخ) ور صحیح مسلم میں ہے «الأیم أحق بنفسها من ولیها »
لفظ الأیم کی تشریح میں حافظ ابن حجر رقم طراز ہیں
«ظاهر هذا الحدیث أن الأیم هي الثیب التي فارقت زوجها بموت أوطلاق لمقا بلتها بالبکر وهذا هو الأصل في الأیم»
اس حدیث کا ظاہر یہ ہے کہ أیم بمعنی ثیّب ہے وہ عورت جو اپنے خاوند سے موت یا طلاق کے ذریعے علیحدگی اختیار کرچکی ہو اس لئے یہ لفظ بِکر (کنواری) کے مقابلہ میں آیا ہے: لفظ الایم میں اصل یہی ہے۔‘‘
لہٰذا مذکورہ صورت میں عورت اپنے بیٹے کو ولی بنا کر آگے نکاح کرسکتی ہے۔ ویسے بھی امام مالک ؒ وغیرہ نے بیٹے کی ولایت کو فوقیت دی ہے۔ فرماتے ہیں ’’الْاِبْنُ أوْلیٰ‘‘ (المغنی لابن قدامہ ۹؍۳۵۵) ’’بیٹا ولایت کا زیادہ حقدار ہے‘‘ …اگرچہ یہ مسلک عام حالات میں قابل اعتناء نہیں کیونکہ اصلاً تولیت میں باپ کو فوقیت حاصل ہے۔ لیکن عورت کی حالت کے پیش نظر یہاں قابل اعتبار ہے۔
٭ سوال:وتر آخری نماز ہونی چاہئے یا وتروں کے بعد نوافل اَدا کئے جاسکتی ہیں۔ چند اَحباب کہتے ہیں کہ وتر آخری نماز ہونی چاہئے اور جو دو رکعت ثابت ہیں وہ حضورﷺ کا خاصہ ہے۔ تراویح اور وتر ادا کرنے کے بعد نوافل اَداکرسکتے ہیں ؟
جواب: وتر کے بعد دو رکعت پڑھنا سنت سے ثابت ہے، چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث ہے «ثمَّ یُوترثمَّ یصلّي وهو جالس» (۱؍۲۵۴) ’’پھر آپ وِتر پڑھتے پھر بیٹھ کر دو رکعتیں پڑھتے‘‘… شارحِ مسلم امام نوویؒ فرماتے ہیں: «قلت الصواب أن هاتین الرکعتین فعلهما بعد الوتر جالسا لبیان جواز الصلوة بعد الوتر» ’’میں کہتا ہوں کہ درست بات یہ ہے کہ یہ دو رکعتیں وتروں کے بعد جو آپﷺ نے بیٹھ کر پڑھی ہیںتو وتر کے بعد نماز پڑھنے کا جواز بیان کرنے کے لئے پڑھی ہیں‘‘… اس سے معلوم ہوا کہ شارحین حدیث نے ان دو رکعتوں کو نبیﷺ کا خاصہ نہیں سمجھا ۔ ہاں البتہ بعض اہل علم نے کہا کہ «اجعلوا آخر صلوتکم باللیل وترا»(اپنی رات کی آخری نماز کو وِتر بنائو)تووِتر کو رات کی آخری نماز بنانے والی یہ حدیث قولی ہے جبکہ وتر کے بعد نماز والی حدیث فعلی ہے۔ فعل میں چونکہ خاصہ نبویؐ ہونے کا احتمال ہوتا ہے بخلاف قول کے، اس لئے بہتر ہے وتر کے بعد کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔
٭ سوال: رکوع کے بعد ہاتھ باندھنا بدعت ہے یا سنت یا دونوں طرح درست ہے؟
جواب: قِیام میں ہاتھ باندھنا مسنون ہے جبکہ شریعت کی اصطلاح میں قیام کا اِطلاق صرف قبل از رکوع حالت پر ہے جس میں قراء ت بھی کی جاتی ہے ورنہ لازم آئے گا کہ ہر رکعت میں دو سجدوں کی طرح دو قیام بھی ہوں جبکہ اس با ت کا قائل کوئی بھی نہیں ۔سب لوگ جانتے ہیں ایک رکعت میں تکرارِ قیام صرف صلوٰۃِ کسوف میں معروف ہے۔ اسی بنا پر بعد از رکوع کی حالت کو اِعتدال یا رفع بعدالرکوع یا قَومہ سے تعبیر کیا جاتا ہے(حجۃ اللہ البالغہ)
محدثین کرام کی عادت ہے کہ پہلے قیام کو مطلقبیان کرتے ہیں اور دوسرے کو مقید اور جہاں دونوں اکٹھے آئیں توپہلے کو لفظ قِیام سے تعبیر کرتے ہیں اور دوسرے کو اعتدال یا رفع بعد الرکوع سے۔ اس سے معلوم ہواکہ سنن نسائی کی روایت میں «إذا کان قائما قبض بیمینه علی شماله»(جب آپ قیام کرتے تو اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑتے) کا تعلق پہلے قیام سے مخصوص ہے۔ لفظ إذا رکوع سے پہلی حالت کے ساتھ مختص ہے عام نہیں۔ اگرچہ بعض حالات میں إذا سے عموم بھی مراد لیا جاتا ہے لیکن إذَا عموم کے لئے نص نہیں ہے ۔ عموم کیلئے مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿إِذا تُتلىٰ عَلَيهِم ءايـٰتُ الرَّحمـٰنِ خَرّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ٥٨﴾... سورة مريم’’جب ان پر اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ سجدے کرتے اور روتے ہوئے جھک جاتے ہیں‘‘
﴿وَإِذا قُرِئَ عَلَيهِمُ القُرءانُ لا يَسجُدونَ ٢١﴾... سورة الانشقاق
’’اور جب ان پر قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ بجا نہیں لاتے‘‘
علاوہ ازیں رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑنے کے لئے دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ انسان کی طبعی حالت یہی ہے۔ البتہ ہاتھ باندھنے کے لئے دلیل کی ضرورت ہے جو موجود نہیں۔ اس بنا پر اہل علم نے کہا کہ وضو کے بعد شرمگاہ کو ہاتھ لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جس طرح کہ بسرہ کی روایت میں ہے اور طلق بن علی کی روایت میں ہے کہ وضو نہیں ٹوٹتا تو طلق کی حدیث چونکہ اصل کے مطابق ہے اس لئے اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔ اور بسرہ کی حدیث اصل حالت سے کسی تبدیلی کو بیان کرنے والی ہے لہٰذا راجح بات یہی ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔
او ربراء کی حدیث میں ہے کہ نبیﷺ کا رکوع ، سجود، سجدوں کے درمیان وقفہ اور رکوع کے بعد وقفہ قریباً برابرہوتا سوائے قیام اورتشہد کے جو لمبے ہوتے ۔اس سے بھی معلوم ہوا کہ قیام کا اطلاق صرف رکوع سے پہلی حالت پر ہے۔ رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے کے بارے میں علامہ البانی ؒفرماتے ہیں:
’’مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قیام میں ہاتھ باندھنا بدعت اور گمراہی ہے کیونکہ صفۃ الصلاۃ کی اتنی ساری احادیث میں سے کسی میں وارد نہیں، اگر اس کا کوئی اصل موجود ہوتا تو منقول ہوتا، چاہے ایک طریق سے کیوں نہ ہو اس کی تائید اس بات سے ہوئی ہے کہ سلف صالحین میں سے کسی نے یہ فعل نہیں کیا اور جہاں تک مجھے علم ہے ،ائمہ حدیث میں سے کسی نے اس مسئلہ کو چھیڑا تک نہیں۔ ‘‘ (صفۃ الصلاۃ ص ۱۱۵)
٭ سوال: تشہد کی حالت میں شروع ہی میں انگلی کو حرکت دینی شروع کردینی چاہئے یا درود کے بعد جب دعائیں شروع کریں پھر حرکت دینا چاہئے۔ مسنون عمل کون سا ہے؟ اسی طرح دو سجدوں کے درمیان بھی حرکت دینی چاہئے؟
سوال: ظاہر یہ ہے کہ تشہد میں اُنگلی کو حرکت شروع سے دے۔ حدیث کے لفظ یحرّکھا کا تقاضا یہی ہے کہ اسے سلام پھیرنے تک حرکت دیتا رہے۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری ؒفرماتے ہیں:
«ظاهر الأحادیث یدلّ علی الإشارة من ابتداء الجلوس»(تحفۃ الاحوذی: ۲؍۱۸۵)
’’احادیث کی ظاہری دلالت تو یہی ہے کہ تشہد میں بیٹھنے کی ابتدا سے ہی اشارہ کیا جائے‘‘
پھر یدعو بھا (انگلی کے اشارے سے دعا کرتے )کا مفہوم بھی یہی ہے …سجدوں کے درمیان اشارہ والی حدیث عبدالرزاق نے المُصَنَّف(۲؍۶۸) اور اس سے احمد(۴؍۳۱۷) نے اور طبرانی نے معجم کبیر (۲۲؍۳۳) میں ذکر کیا ہے۔ اس روایت کے راوی وائل بن حجر ہیں۔لیکن اس بارے میں وائل کی جملہ روایات اس کے خلاف ہیں او رجن دوسرے صحابہ نے نبیﷺ کی نماز کی حالت بیان کیا ہے، ان کی روایات بھی وائل کی اس روایت کے خلاف ہیں۔ ان کے مطلق اور مقید الفاظ کا تعلق تشہد کی بیٹھک سے ہے ۔ پھر علامہ بکر بن عبداللہ ابوزید فرماتے ہیں:
’’علمائِ سلف میں سے کسی نے سجدوں کے درمیان اشارہ کرنے کی صراحت نہیں کی او رنہ کسی نے اس کے متعلق کوئی عنوان قائم کیا ہے اور مسلمانوں کا مسلسل عمل سجدوں کے درمیان اشارہ نہ کرنا اور انگلی کو حرکت نہ دینا ہے ‘‘
امام بیہقی نے السنن الکبریٰ (۲؍۱۳۱) میں اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن باز او رعلامہ البانی رحمہما اللہ نے کہا کہ
’’عبدالرزاق کی یہ روایت ثوری عن عاصم بہ سے ہے جس میں عبدالرزاق، ثوری سے متفرد ہے اور محمدبن یوسف فریابی اس کا مخالف ہے جبکہ وہ ہمہ وقت ثوری کے ساتھ رہے۔ انہوں نے حدیث کے آخر میں سجدئہ مذکور کا ذکر نہیں کیا۔ عبداللہ بن الولید نے محمد کی متابعت کی ہے۔حدیث کے آخر میں یہ زیادتی ثُمّ سَجَدَ عبدالرزاق کے وہموں سے ہے۔ روایات اس بات پر متفق ہیں کہ اشارہ کا تعلق پہلے اور دوسرے تشہد کے بیٹھنے سے ہے‘‘ ( تمام المنۃ :۱؍۲۱۴ تا ۲۱۷ ،السلسلۃ الصحیحۃ (۵؍۳۰۸ تا۳۱۴ حدیث نمبر۲۲۴۷،۲۲۴۸)
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو کتاب لاجدید فی أحکام الصلاۃ، ص ۳۸ تا ۴۶ ازعلامہ بکر بن عبداللہ ابوزید۔
٭ سوال: ایک آدمی کا نکاح ہوا لیکن لڑکی کی رخصتی سے قبل ہی آدمی فوت ہوگیا۔ کیا وہ لڑکی آدمی کی وراثت کی حقدار ہے اور اگر وہ کہیں اور نکاح کرلیتی ہے پھر بھی وہ وراثت کے حقدار ہوگی؟
جواب: نکاح کے بعد اور رخصتی سے پہلے اگر شوہر فوت ہوجائے تو بیوی اس کے ترکہ سے ورثہ کی حقدار ہے اور بعد میں عورت اگر دوسری جگہ نکاح کر لے پھر بھی حقدار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شوہر کا انتقال اس کی زوجیت میں ہوا ہے جبکہ تین اسبابِ وراثت سے ایک نکاح بھی ہے۔ سنن ابوداود میں حدیث ہے
’’حضرت ابن مسعود ؓسے ایسے آدمی کے بارے میں سوال ہوا جس نے کسی عورت سے نکاح کیا لیکن دخول نہیں ہوا اور نہ اس کا حق مہر مقرر ہوا اور وہ مرگیا۔ جواباً ابن مسعود ؓنے کہا: اس کے لئے مکمل مہر ہے اور اس پر عدت بھی ہے اور اس کے لئے وراثت بھی ۔ معقل بن یسار نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا تھا کہ آپ نے بروع بنت واشق کے حق میں اسی طرح فیصلہ دیا تھا‘‘ (باب فیمن تزوج ولم یسمّ صداقا)
یہ واضح دلیل ہے کہ قبل از دخول عورت خاوند کی جائیداد سے وارث بنتی ہے۔
٭سوال: موجودہ رہائشی مکانوں میں غسل خانہ اور بیت الخلاء مشترکہ بنائے جاتے ہیں۔ کیا ان بیت الخلاء والے غسل خانوں میں وضو کیا جاسکتا ہے ، ان میں بسم اللہ پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:مشترکہ غسل خانہ اور بیت الخلاء میں وضو کا جواز ہے لیکن وہاں بسم اللہ نہیں پڑھنی چاہئے۔ داخل ہونے سے پہلے بہ نیت ِوضو بسم اللہ پڑھ لے یا فراغت کے بعد باہر آکر بسم اللہ پڑھ کر پھر واپس جاکر وضو کرلے۔ سعودی عرب کے مفتی شیخ ابن عثیمین کا فتویٰ ہے کہ دل میں پڑھ لے، بآوازِ بلند نہ پڑھے۔ فرماتے ہیں: «التسمیة إذا کان الإنسان في الحمام تکون بقلبه ولا ینطق بها بلسانه» (فتاویٰ اسلامیہ:۱؍۲۱۹)
’’جب انسان بیت الخلاء میں ہو تو بسم اللہ دل میں ہی پڑھے ، زبان سے اس کو ادا نہ کرے‘‘
٭سوال: غسل کے بعد بدن کو کپڑے ؍تولئے سے نہ پونچھنا اور وضو کے بعد اعضاء کو تولئے وغیرہ سے خشک کر لینا کوئی شرعی مسئلہ ہے تو واضح کریں؟
جواب: غسل اور وضو ء کے بعد اعضاء کو خشک کیا جاسکتا ہے۔ منع نہیں، کیونکہ اصل اباحت ہے اور حضرت میمونہ کی جس روایت میں ہے کہ آپﷺ کے غسل کے بعد وہ تولیہ لے کر حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے واپس کردیا، یہ واقعہ خاص ہے۔ قاعدہ مشہور ہے وقائع الأعیان لا یحتج بھا علی العموم ’’خاص واقعات سے عموم پر استدلال کرنا درست نہیں‘‘ یہاں احتمال ہے، ممکن ہے اس تولیہ میں عدمِ جواز کا کوئی سبب ہو یا آپ جلدی میں ہوں یا وہ پاک صاف نہ ہو یا اس بات سے ڈرے ہوں کہ تولیہ پانی سے خود ہی تر نہ ہوجائے جو غیر مناسب ہے وغیرہ۔
بلکہ غسل کے موقعہ پر حضرت میمونہ کا تولیہ پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ پہلے آپﷺ اپنے اعضاء کو خشک کرتے تھے ،ورنہ وہ پیش نہ کرتیں۔نیز سنن ابن ماجہ میں بسند ِحسن حضرت سلمان سے مروی ہے۔ رسول اللہﷺ نے وضوء کیا اورصفا کا جبہ جو آپ نے پہنا ہوا تھا ،اس سے اپنے چہرے کو صاف کیا ۔(مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو عون المعبود :۱؍۱۰۱)