شریر جادوگروں کاقلع قمع کرنے والی تلوار
(الصّارم التبّار في التصدي للسحرة الأشرار)
(حصہ چہارم ) جادوگر جنات کو کیسے حاضر کرتا ہے؟
جادوگر اور شیطانوں کے درمیان طے پانے والا معاہدہ
جادوگر اور شیطان کے درمیان اکثر و بیشتر ایک معاہدہ طے پاتا ہے، جس کے مطابق جادوگر کو کچھ شرکیہ یا کفریہ کام چھپ کر یا علیٰ الاعلان کرنا ہوتے ہیں اور اس کے بدلے شیطان کو جادوگر کی خدمت کرنا ہوتی ہے یا اس کے لئے خدمت گار مہیا کرنے ہوتے ہیں، کیونکہ جس شیطان کے ساتھ جادوگر معاہدہ کرتا ہے وہ جنوں اور شیطانوں کے کسی ایک قبیلے کا سردار ہوتا ہے، چنانچہ وہ اپنے قبیلے کے کسی بے وقوف کو اَحکامات جاری کرتا ہے کہ وہ اس جادوگر کا ساتھ دے اور اس کی ہر بات تسلیم کرے چاہے وہ واقعات کی خبریں لانے کا کہے ، یا دو آدمیوں کے درمیان جدائی ڈالنے یاان میں محبت پیدا کردینے کا حکم دے یا خاوند کو اس کی بیوی سے الگ کردینے کا آرڈر جاری کرے (۵۵) …اس طرح جادوگر اس جن کو اپنی پسند کے برے کاموں کے لئے استعمال کرتا ہے، اگر جن اس کی نافرمانی کرے تو جادوگر اس کے قبیلے کے سردار سے رابطہ کرتاہے اور مختلف تحائف پیش کرکے اس کو یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس سردار کی تعظیم کرتا ہے اور اسی کو اپنا مددگار تصور کرتا ہے، چنانچہ وہ سردار اس جن کو سزا دیتا ہے اور اسے جادوگر کی خدمت کرنے یا اس کے لئے خدمت گار مہیا کرنے کا حکم صادر کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جادوگر اور اس کی خدمت کے لئے مقرر کئے گئے اس جن کے درمیان نفرت ہوتی ہے اور یہ جن خود جادوگر کو یا اس کے گھر والوں کو پریشان کئے رکھتا ہے، چنانچہ جادوگر ہمیشہ سردرد او ربے خوابی کا شکار رہتا ہے اور رات کے وقت اس پر گھبراہٹ طاری رہتی ہے، بلکہ گھٹیا قسم کے جادوگر تو اولاد سے بھی محروم ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے خدمت گار جن ان کی اولاد کو ماں کے پیٹ میں ہی مار دیتے ہیں اور یہ بات خود جادوگر اچھی طرح سے جانتے ہیں اور کئی جادوگر تو صرف اس لئے جادو کا پیشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ ان کو اولاد کی نعمت عطا ہو۔
اور مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک خاتون کا علاج کیا جس پر جادو کیا گیا تھا، میں نے اس پر جب قرآنِ مجیدکو پڑھا تو جن خاتون کی زبان سے بولا: میں اس سے نہیں نکل سکتا۔
کیوں؟… کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ جادوگر مجھے قتل کردے گا۔
تم کسی ایسی جگہ پر چلے جانا جہاں جادوگر تمہارا پتہ نہ چلا سکے۔
وہ میرے پیچھے دوسرے جنوں کو بھیج کر مجھے پکڑوالے گا۔
اگر تم اسلام قبول کر لو اور سچے دل سے توبہ کر لو تو میں تمہیں ایسی قرآنی آیات سکھلا دوں گا جو تمہیں کافر جنوں کے شر سے بچا لیں گی۔
نہیں، میں ہرگز اسلام قبول نہیں کروں گا اور عیسائی ہی رہوں گا۔
چلو خیر، دین میں جبر نہیں ہے، البتہ اس عورت سے تمہارا نکل جانا ضروری ہے!
میں ہرگز نہیں نکلوں گا۔
میں تمہیں نکال دینے کی طاقت رکھتا ہوں (اللہ کی مدد کے ساتھ) ابھی میں قرآن پڑھوں گا اور تم جل جائو گے۔
پھر میں نے اسے شدید مارا، اور آخر کار کہنے لگا: میں نکل جائوں گا !!
اوراس طرح وہ الحمدللہ اس خاتون سے نکل کر چلا گیا۔ اور یہ بات یقینی ہے کہ جادوگر جس قدر زیادہ کفریہ کام کرے گا جن اتنا زیادہ اس کے اَحکامات کو مانیں گے اور بڑی تیزی کے ساتھ ان پر عمل کریں گے اور وہ جتنا کم کفریہ کاموں کے قریب جائے گا، جنات اس کی باتوں پر اتنا کم عمل کریں گے۔
جادوگر جنوں کو کیسے حاضر کرتا ہے
اس کے بہت سارے طریقے ہیں اور ہر ایک میںشرک یا واضح کفر موجود ہوتا ہے، میں یہاں آٹھ طریقے ذکر کروں گا او رہر طریقے میں جس طرح سے کفر و شرک موجود ہوتا ہے، اس کی وضاحت کروں گا، البتہ اس ضمن میں شدید اختصار کروں گا او رہر طریقے کی پوری تفصیلات ہرگز ذکر نہیں کروں گا تاکہ کوئی شخص اسے آزما نہ سکے:
ہر طریقے میں موجود کفر و شرک کی وضاحت کرنے کی ضرورت ا س لئے پیش آئی کہ کئی لوگ قرآنی علاج اور جادو میں فرق نہیں کرپاتے، حالانکہ پہلا ایمانی اور دوسرا شیطانی طریقۂ علاج ہے، اور اس سلسلے میں مزید اِبہام اس وقت پیدا ہوجاتا ہے جب کئی جادوگر اپنے کفریہ تعویذات آہستہ آواز میں اور قرآنی آیات اونچی آواز میں پڑھتے ہیں چنانچہ مریض سمجھتا ہے کہ اس کا علاج قرآن کے ذریعہ ہو رہا ہے حالانکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا… الغرض میرامندرجہ ذیل طریقے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میرے مسلمان بھائی گمراہی اور شر کے راستوں سے بچ جائیں اور مجرم پیشہ لوگوں کا راستہ کھل کر سامنے آجائے
پہلا طریقہ
جادو گر ناپاکی کی حالت میں ایک تاریک کمرے میں بیٹھ جاتا ہے، پھر اس میں آگ جلاتا ہے اور اس پر ایک دھونی کو رکھ دیتا ہے، اگر اس کا مقصد نفرت پیدا کرنا یا میاں بیوی میں جدائی ڈالنا ہو تو بدبودار دھونی آگ پررکھ دیتا ہے اور اگر اس کا مقصد محبت پیدا کرنا یا جن میاں بیوی پر جادو کیا گیاتھا اور وہ ایک دوسرے کے قریب نہیں جاسکتے تھے، ان سے جادو کے اثر کو ختم کرنا ہو تو وہ آگ پر خوشبودار دھونی رکھتا ہے، پھر شرکیہ تعویذات جو جادوگر کے خاص طلسم ہوتے ہیں کو پڑھنا شروع کرتا ہے اور جنوں کو ان کے سردار کی قسم دیتا ہے اور اس کا واسطہ دے کر ان سے مختلف مطالبات کرتا ہے… اسی دوران اسے کتے کی شکل میں یا اژدہے یا کسی اور شک میں ایک خیالی تصویر نظر آتی ہے جسے وہ اپنا مقصد پورا کرنے کے لئے اَحکامات جاری کرتا ہے، اور کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اسے کوئی چیز نظر نہیں آتی بلکہ اس کے کانوں میں ایک مخصوص قسم کی آواز پڑتی ہے اور کبھی کبھار یوں بھی ہوتا ہے کہ اسے کوئی آواز بھی سنائی نہیں دیتی اور اسے جس شخص پر جادو کرنا ہوتا ہے ، اس کے بال یا اس کا کوئی کپڑا منگوا لیتاہے جس سے اس شخص کے پسینے کی بو آرہی ہوتی ہے… اور پھر اسے جو کچھ کرنا ہوتا ہے اس کے متعلق وہ جنوں کو حکم جاری کر دیتا ہے۔اس طریقے میں درج ذیل باتیں نمایاں ہیں :
(1) جن تاریک کمروں کو پسند کرتے ہیں۔
(2) جنوں کو ایسی دھونی کی بو سے غذا ملتی ہے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو۔
(3) جن ناپاکی کو پسند کرتے ہیں او رشیطان ناپاک لوگوں کے بالکل قریب ہوتے ہیں۔
دوسرا طریقہ
جادوگر کوئی پرندہ (فاختہ وغیرہ) یا کوئی جانور (مرغی وغیرہ) جنوں کی بتائی گئی خاص شکل و صورت کے مطابق منگواتا ہے جس کا رنگ غالباً سیاہ ہوتا ہے کیونکہ جن سیاہ رنگ کو دوسرے رنگوں پر فوقیت دیتے ہیں۔ پھر وہ اسے ’بسم اللہ‘ پڑھے بغیر ذبح کردیتا ہے اور اس کا خون مریض کے جسم پر ملتا ہے، پھر اسے کھنڈرات میں یا کنوئوں میں یا غیر آباد جگہوں میں پھینک دیتا ہے جو کہ عموماً جنوں کے گھر ہوتے ہیں، اور اسے ان میں پھینکتے ہوئے بھی ’بسم اللہ‘ نہیں پڑھتا، پھر اپنے گھر چلا جاتاہے اور شرکیہ تعویذات پڑھنے کے بعد جو چاہتا ہے اس کا جنوں کو حکم جاری کردیتا ہے۔
مندرجہ طریقے میں دو طرح سے شرک پایا جاتاہے :
(1) تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جنوں کے لئے جانور کو ذبح کرنا حرام بلکہ شرک ہے کیونکہ یہ ذبح لغیراللہ ہے، چنانچہ ایسے جانور کا گوشت کھانا بھی کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے چہ جائیکہ اسے غیر اللہ کے لئے ذبح کیا جائے، جبکہ جاہل لوگ ایساناپاک فعل پر زمانے میں اور ہر جگہ پر کرتے رہتے ہیں۔ یحییٰ بن یحییٰ کہتے ہیں کہ مجھے وہب نے بیان کیا ہے کہ کسی خلیفہ ٔ وقت کے دور میں ایک چشمہ دریافت ہوا، ا س نے اسے عام لوگوںکے لئے کھول دینے کا ارادہ کیا اور اس پر جنوں کے لئے جانور ذبح کیا تاکہ جن اس کا پانی گہرائی تک نہ پہنچا دیں، پھر اس کا گوشت لوگوں کو کھلا دیا، یہ بات امام ابن شہاب زہری ؒتک پہنچی تو وہ فرمانے لگے:
’’خبردار! ذبح شدہ جاندار حرام ہے اور خلیفہ ٔ وقت نے لوگوں کو حرام کھلایا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے ایسے جانور کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے جسے جنوں کے لئے ذبح کیا گیا ہو‘‘(۵۶)
اور صحیح مسلم میں حضرت علی بن ابی طالبؓ سے مروی ایک حدیث میں آیاہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے غیر اللہ کے لئے کوئی جانور ذبح کیا‘‘
(2) شرکیہ تعویذات جنہیں جادوگر جنوں کو حاضر کرنے کے لئے پڑھتاہے، ان میں واضح طور پر شرک موجود ہوتا ہے اور اس کی وضاحت شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے اپنی کئی کتابوں میں کی ہے۔
تیسرا طریقہ
یہ طریقہ جادوگروں میں انتہائی گھٹیا طریقے کے طور پر مشہور ہے اور اس طریقے کو اپنانے والے جادوگر کی خدمت کے لئے اور اس کے اَحکامات پر عمل کرنے کے لئے شیطانوں کا بہت بڑا گروہ اس کے پاس موجود رہتا ہے، کیونکہ ایسا جادوگر کفر والحاد کے اعتبار سے بہت بڑا جادوگر تصور کیا جاتا ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہو۔یہ طریقہ مختصر طور پر کچھ یوں ہے:
جادوگر… اس پر اللہ کی ڈھیروں لعنتیں ہوں۔ قرآن مجید کو جوتا بنا کر اپنے قدموں میں پہن لیتا ہے، پھر بیت الخلاء میں جاکر کفریہ طلسموں کوپڑھتا ہے، پھر باہر آکر اپنے کمرے میں بیٹھ جاتا ہے اور جنوںکو اَحکامات جاری کرتا ہے، چنانچہ جن بہت جلد اس کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور اس کے اَحکامات نافذ کرتے ہیں، کیونکہ وہ مندرجہ بالا طریقے پر عمل کرکے کافر اور شیطانوں کا بھائی بن چکا ہوتا ہے ،سو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
یاد رہے کہ ایسا جادوگر مندرجہ بالا کفریہ کام کے علاوہ دوسرے بڑے بڑے گناہوں کا اِرتکاب بھی کرتاہے ، مثلاً محرم عورتوں سے زِنا کرنا، لواطت کرنا اور دین اسلام کو گالیاں بکنا وغیرہ اور یہ سب اس لئے کرتا ہے کہ تاکہ شیطان اس پر راضی ہوجائیں۔
چوتھا طریقہ
ملعون جادوگر قرآنِ مجید کی کوئی سورت حیض کے خون سے یا کسی اور ناپاک چیز سے لکھتا ہے پھر شرکیہ طلسم پڑھتا ہے اور اس طرح جنوں کو اپنی فرمانبرداری کے لئے حاضر کر لیتا ہے اور جو چاہتا ہے اس کا انہیں حکم دے دیتا ہے۔
اس طریقے میں بھی کفر صریح موجود ہے کیونکہ قرآنِ مجید کی ایک آیت کے ساتھ استہزاء کرنا بھی کفر ہے، چہ جائیکہ اسے ناپاک چیز کے ساتھ لکھا جائے۔
پانچواں طریقہ
ملعون جادوگر قرآن مجید کی کوئی سورت اُلٹے حروف میں لکھتا ہے، پھر شرکیہ تعویذ پڑھ کر جنوں کو حاضر کر لیتا ہے… یہ طریقہ بھی حرام ہے ، کیونکہ قرآن مجید کو اُلٹے حروف میں لکھنا کفر اور شرکیہ تعویذات کوپڑھنا شرک ہے۔
چھٹا طریقہ
جادوگر ایک خاص ستارے کے طلوع ہونے کا انتظار کرتا ہے، اور جب طلوع ہوجاتا ہے تو جادوگر اس سے مخاطب ہوتا ہے۔ پھر جادو والے وِرد پڑھتا ہے جن میں کفر اور شرک موجود ہوتا ہے، پھر چند ایسی حرکتیں کرتا ہے کہ اس کے خیال کے مطابق ان حرکتوں سے اس ستارے کی برکات اس پر نازل ہوتی ہیں، حالانکہ حقیقت میںوہ اپنی ان حرکات سے اس ستارے کی پوجا کر رہا ہوتا ہے، اور جب وہ غیر اللہ کی پوجا شروع کرتا ہے تو شیطان اس ملعون کے اَحکامات پر لبیک کہتے ہیں، جبکہ جادوگر یہ سمجھتا ہے کہ اس ستارے نے اس کی مدد کی ہے، حالانکہ ستارے کو تو اسکی کسی حرکت کا علم ہی نہیں ہوتا ہے۔
اور جادوگر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا طریقے سے کیا گیا جادو اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتا جب تک یہ ستارہ دوبارہ طلوع نہ ہو اور ایسے ستارے بھی ہیں جو سال میں صرف ایک مرتبہ طلوع ہوتے ہیں، چنانچہ وہ سال بھر اس ستارے کے طلوع ہونے کا انتظار کرتے ہیں، پھر ایسے وِرد پڑھتے ہیں جن میں اس ستارے کو مدد کے لئے پکارا جاتاہے تاکہ جادو کااثر ختم ہوجائے، بہرحال یہ تو جادوگروں کا خیال ہے جبکہ قرآنی علاج کرنے والے لوگ اس ستارے کاانتظار کئے بغیر کسی بھی وقت اس جادو کو توڑ سکتے ہیں۔
اس طریقے میں بھی شرک واضح طور پر موجود ہے کیونکہ اس میں غیر اللہ کی تعظیم اور غیر اللہ کو مدد کے لئے پکارنا جیسے قبیح فعل موجود ہیں۔
ساتواں طریقہ
جادوگر ایک نابالغ بچے کو جو بے وضو ہوتا ہے اپنے سامنے بیٹھا لیتاہے، پھر اس کی بائیں ہتھیلی پر ایک مربعہ بناتا ہے، اور اس کے ارد گرد چاروں طرف جادو والے طلسم لکھتاہے، پھر اس کے بالکل درمیان میں تیل اور نیلگوں پتے یا تیل اور روشنائی رکھ دیتا ہے، پھر ایک لمبے کاغذ پر مفرد حروف کے ساتھ جادو والے چند طلسم لکھتا ہے اور اسے بچے کے چہرے پر رکھ کر اس کے سر پر ٹوپی پہنا دیتا ہے تاکہ وہ ورقہ گرنے نہ پائے، اور پھربچے کو ایک بھاری چادر کے ساتھ ڈھانپ دیتا ہے۔
اس کے بعد وہ اپنے کفریہ وِرد پڑھنا شروع کردیتا ہے، جبکہ بچے کو اپنی ہتھیلی پر دیکھنا ہوتا ہے حالانکہ اندھیرے کی وجہ سے اسے کچھ نظر نہیں آرہا ہوتا ہے، اچانک بچہ محسوس کرتا ہے کہ روشنی پھیلی گئی ہے اور اس کی ہتھیلی میں کچھ شکلیں حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہیں، چنانچہ جادوگر بچے سے پوچھتا ہے: تم کیا دیکھ رہے ہو؟ بچہ جواباً کہتا ہے:میں اپنے سامنے ایک آدمی کی شکل دیکھ رہا ہوں۔
جادوگر بچے سے کہتا ہے کہ جس آدمی کی شکل تم دیکھ رہے ہو اسے کہو کہ جادوگر تم سے یہ یہ مطالبہ کر رہا ہے، سو اس طرح وہ شکلیں جادوگر کے احکامات کے مطابق حرکت میں آجاتی ہیں۔
یہ طریقہ عموماً گم شدہ چیزوں کی تلاش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اس میں جو کفر وشرک پایا جاتا ہے، وہ بالکل واضح ہے۔
آٹھواں طریقہ
جادوگر مریض کے کپڑوں میں سے کوئی ایک کپڑا مثلاً رومال، پگڑی، قمیص وغیرہ جس سے مریض کے پسینے کی بو آرہی ہو، منگوا لیتا ہے، پھر اس کپڑے کے ایک کونے کو گرہ لگاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی چار انگلیوں کے برابر کپڑا مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے، پھر اونچی آواز کے ساتھ سورئہ کوثر یا کوئی اور چھوٹی سورت پڑھتا ہے، اس کے بعد آہستہ آواز میں اپنے شرکیہ وِرد پڑھتا ہے اور پھر جنوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتا ہے:
’’اگر اس مریض کے مرض کا سبب جن ہیں تو کپڑے کو چھوٹا کردو، اور اگر اسے نظر لگ گئی ہے تو اسے لمبا کردو، اور اگر اسے کوئی دوسری بیماری ہے تو اس کپڑے کو اتنا رہنے دو جتنا اس وقت ہے‘‘
پھر وہ اس چار انگلیوں کے برابر کپڑے کو دوبارہ ناپتا ہے، اگر وہ چار انگلیوں سے بڑا ہوچکا ہو تو مریض سے کہتا ہے کہ تمہیں نظر لگ گئی ہے، اور اگر وہ کپڑا چار انگلیوں سے چھوٹا ہوچکا ہو تو مریض سے کہتا ہے کہ تم آسیب زدہ ہو، اور اگر وہ کپڑا چار انگلیوں کے برابر ہی ہو تو اسے کہتا ہے کہ تمہیں کوئی بیماری ہے لہٰذا تم ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔ اس طریقہ کار میں تین باتیں قابل ملاحظہ ہیں:
(1) مریض کو دھوکہ دیا جاتا ہے، چنانچہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا علاج قرآن کے ذریعے ہو رہا ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ اس کے علاج کا اصل راز ان شرکیہ وِردوں میں ہوتا ہے جنہیں جادوگرآہستہ آواز میں پڑھتا ہے۔
(2) اس طریقے میں جنوں کو مدد کے لئے پکارا جاتا ہے جو کہ شرک ہے۔
(3) جن اکثر و بیشتر جھوٹ بولتے ہیں اور خود جادوگر کو معلوم نہیں ہوتا کہ یہ جن سچا ہے یا جھوٹا، سو اس کی بات پر کس طرح اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ او رہم نے خود کئی جادوگروں کا تجربہ کیاہے، ان میں سچے کم اور جھوٹے زیادہ تھے، اور کئی مریض ہمارے پاس آکر بتاتے ہیں کہ جادوگر کے کہنے کے مطابق انہیں نظر لگ گئی ہے، پھر ہم جب ان پر قرآنِ مجید پڑھتے تو معلوم ہوتا کہ ان پر جنوں کا اثر ہے، نظر نہیں لگی۔ سو اس طرح سے ان کا جھوٹ ثابت ہوجاتا ہے۔
مندرجہ بالا آٹھ طریقوں کے علاوہ دوسرے طریقے بھی ہوسکتے ہیں جو کہ مجھے معلوم نہیں ہیں۔
جادوگر کو پہچاننے کی نشانیاں
مندرجہ ذیل علامات میں سے کوئی ایک علامت اگر کسی علاج کرنے والے شخص کے اندر پائی جاتی ہو تو یقین کر لینا چاہئے کہ یہ جادوگر ہے۔
(1) جادوگر مریض سے اس کا اور اس کی ماں کا نام پوچھتا ہے۔
(2) جادوگر مریض کے کپڑوں میں سے کوئی کپڑا مثلاً قمیص، ٹوپی، رومال وغیرہ منگواتا ہے۔
(3) جادوگر کبھی کوئی جانور بھی طلب کرلیتا ہے جسے وہ ’بسم اللہ‘ پڑھے بغیر ذبح کرتا ہے، پھر اس کا خون مریض کے جسم پر ملتا ہے اور پھر اسے غیر آباد جگہ پر پھینک دیتا ہے۔
(4) جادو والے طلسم کو لکھنا۔
(5) جادو والے طلسم کو پڑھنا جو کہ کسی عام آدمی کو سمجھ بوجھ سے بالاتر ہوتا ہے۔
(6) مریض کو ایسا حجاب دینا جس میں مربعات (ڈبے)بنے ہوئے ہوں اور ان کے اندر چند حروف یا نمبر لکھے ہوئے ہوں۔
(7) مریض کو یہ حکم دینا کہ وہ لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر ایک معینہ مدت کے لئے کسی ایسے کمرے میں چلا جائے جہاں سورج کی روشنی نہ پہنچتی ہو۔
(8) مریض سے کبھی اس بات کا مطالبہ کرنا کہ وہ ایک معینہ مدت کے لئے جوکہ عموماً چالیس دن ہوتی ہے، پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ اور یہ علامت اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ یہ جادوگر جس جن سے خدمت لیتا ہے، وہ عیسائی ہے۔
(9) مریض کوکچھ ایسی چیزیں دینا جنہیں زمین میں دفن کرنا ہوتا ہے۔
(10) مریض کو کچھ ایسے کاغذ دینا جنہیں جلا کر ان کے دھوئیں سے دھونی لینی ہوتی ہے۔
(11) ایسے کلام کے ساتھ بڑبڑانا جیسے سمجھا نہ جاسکے۔
(12) جادوگر کبھی مریض کو اس کا نام، اس کے شہر کا نام اور جس وجہ سے وہ اس کے پاس آتا ہے، اس کے متعلق آتے ہی اسے بتا دیتا ہے۔
(13) جادوگر مریض کوایک کاغذ میں یا پکی ہوئی مٹی کی پلیٹ میں چند حروف لکھ کر دیتا ہے جنہیں پانی میں ملا کر مریض کو پینا ہوتا ہے۔
آپ کو اگر ان علامات میں سے کوئی ایک علامت کسی شخص میں موجود نظر آئے اور یقین ہوجائے کہ یہ جادوگر ہے تواس کے پاس مت جائیں ورنہ آپ پر آپﷺ کا یہ فرمان صادقآجائے گا:
’’جو آدمی کسی نجومی کے پاس آیا، پھر اس کی باتوں کی تصدیق کی تو اس نے محمدﷺ پر نازل کئے گئے دین سے کفر کیا‘‘(۵۷)
حصہ پنجم
شریعت ِاسلامیہ میں جادو کا حکم
شریعت میں جادوگر کے متعلق فیصلہ
(1) امام مالکؒ فرماتے ہیں:
’’جادوگر جو جادو کا عمل کرتا ہو اور کسی نے اس پر جادو کا عمل نہ کیا ہو، اس کی مثال اس شخص کی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
﴿وَلَقَد عَلِموا لَمَنِ اشتَرىٰهُ ما لَهُ فِى الءاخِرَةِ مِن خَلـٰقٍ...١٠٢﴾... سورة البقرة
’’سو میری رائے یہ ہے کہ وہ جب جادو کا عمل کرے تو اسے قتل کردیا جائے‘‘(۵۸)
(2) امام ابن قدامہ ؒ فرماتے ہیں:
’’جادوگر کی حد قتل ہے، اور یہ حضرت عمر، عثمان، ابن عمر، حفصہ، جندب بن عبداللہ، جندب بن کعب، قیس بن سعد، عمر بن عبداللہ رضوان اللہ علیہم سے مروی ہے اور یہی مذہب امام ابوحنیفہؒ اور امام مالک ؒ کا ہے‘‘
(3) امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں:
’’مسلم جادوگر اور ذمی جادوگر کے متعلق فقہاء کے درمیان اختلاف پایا جاتاہے، چنانچہ امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ مسلم جادوگر جب از خود ایسے کلام سے جادو کرے، جس میں کفر پایا جاتا ہو اسے توبہ کا موقع دیئے بغیر قتل کردیا جائے اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے، کیونکہ جادو کا عمل ایسا ہے جسے وہ خفیہ طور پر سرانجام دیتا ہے، جیسا کہ زندیق اور زانی اپنا کام خفیہ طور پر کرتے ہیں، اور اس لئے بھی کہ اللہ نے جادو کو کفر کہا ہے ﴿وَما يُعَلِّمانِ مِن أَحَدٍ حَتّىٰ يَقولا إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر﴾‘‘ اور یہی مذہب امام احمد بن حنبل، ابوثور، اسحاق اور امام شافعی(۵۹) اور امام ابوحنیفہ کا ہے‘‘ (۶۰)
(4) امام ابن منذرؒ فرماتے ہیں:
’’کوئی شخص جب اس بات کا اعتراف کر لے کہ اس نے ایسے کلام کے ساتھ جادو کیا ہے جس میں کفر پایا جاتاہے اور وہ اس سے توبہ نہیں کرتا تو اسے قتل کردینا واجب ہوگا اور اسی طرح اگر دلیل سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس نے واقعتا کفریہ کلام کے ساتھ جادو کا عمل کیا ہے تو اسے قتل کردینا ضروری ہوگا۔
اور اگر اس نے ایسے کلام کے ساتھ جادو کیا ہو جس میں کفر نہیں پایا جاتا تو اسے قتل کرناجائز نہیں ہوگا، ہاں اگر جادوگر نے جادو کا عمل کرکے جان بوجھ کر دوسرے شخص کو ایسا نقصان پہنچایا جس سے قصاص واجب ہوجاتا ہے تو اس سے قصاص لیا جائے گا اور اگر اس نقصان سے قصاص لازم نہیں آتا تو اس سے دیت وصول کی جائے گی‘‘(۶۱)
(5) امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿وَلَو أَنَّهُم ءامَنوا وَاتَّقَوا﴾ سے ان علماء نے دلیل لی ہے جو جادوگر کو کافر کہتے ہیں، اور وہ ہیں امام احمد بن حنبل اور سلف صالحین کا ایک گروہ جبکہ امام شافعی اور امام احمد (دوسری روایت کے مطابق) کہتے ہیں کہ جادوگر کافر تو نہیں ہوتا البتہ واجب ُالقتل ہوتا ہے، بَجالۃ بن عَبدۃ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے اپنے عاملین کو خط لکھا تھا کہ ہر جادوگر مرد و عورت کو قتل کردو، چنانچہ ہم نے تین جادوگروں کو قتل کیا، یہ اَثر صحیح بخاری میں مروی ہے۔(۶۲) اور اسی طرح حضرت حفصہ ؓامّ المومنین کے متعلق بھی یہ مروی ہے کہ ایک لونڈی نے ان پر جادو کردیا تو انہوں نے اسے قتل کردینے کا حکم دیا اور امام احمدؒ کہتے ہیں کہ جادوگر کو قتل کردینا تین صحابہ کرام ؓ سے صحیح ثابت ہے‘‘(۶۳)
(6) حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
’’امام مالکؒ کا مسلک یہ ہے کہ جادوگر کا حکم زندیق کے حکم جیسا ہے، لہٰذا اگر اس کا جادو کرنا ثابت ہوجائے تواس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی او راسے قتل کردیا جائے گا، اور یہی مذہب امام احمدؒ کا بھی ہے، جبکہ امام شافعیؒ کہتے ہیں: صرف ثبوت سے اسے قتل نہیں کیا جائے گا، ہاں اگر وہ اعتراف کر لے کہ اس نے جادو کرکے کسی کو قتل کیا ہے، اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔‘‘(۶۴)
خلاصۂ کلام
مندرجہ بالا اَقوالِ علماء وائمہ سے معلوم ہوا کہ اکثر علماء جادوگر کو قتل کر دینے کا حکم دیتے ہیں جبکہ امام شافعیؒ صرف اس شکل میں اس کے قتل کے قائل ہیں جب وہ جادو گرکے کسی عزیز کو قتل کردے، تو اس کو بھی قصاصاً قتل کردیا جائے گا۔
اہل کتاب کے جادوگر کا حکم
امام ابوحنیفہؒ کہتے ہیں کہ ساحر ِاہل کتاب بھی واجب ُالقتل ہے، کیونکہ ایک تو اس سلسلے میں وارد احادیث تمام جادوگروں کو شامل ہیں جن میں اہل کتاب کے جادوگر بھی آجاتے ہیں اور دوسرا اس لئے کہ جادو ایک ایسا جرم ہے جس سے قتل مسلم لازم آتا ہے اور جس طرح قتل مسلم کے بدلے میں ذمی کو قتل کر دیا جاتاہے، اسی طرح جادو کے بدلے میں بھی اسے قتل کردیا جائے گا۔(۶۵)
امام مالکؒ کہتے ہیں کہ ساحر ِاہل کتاب واجب ُالقتل نہیں ہے، اِلا یہ کہ وہ جادوکے عمل سے کسی کو قتل کر دے تو اسے بھی قتل کردیا جائے گا۔(۶۶)
امام شافعیؒ کامسلک بھی وہی ہے جو امام مالکؒ کا ہے۔(۶۷)
امام ابن قدامہؒ نے بھی امام مالکؒ و امام شافعیؒ کے مذہب کی تائید کی ہے، نیز کہتے ہیں کہ آنحضورﷺ نے لبید بن اعصم کو قتل نہیں کیا تھا حالانکہ اس نے آپؐ پر جادو کیا تھا، سو ساحر اہل کتاب واجب القتل نہیں، لیکن اگر جادو کے عمل سے کوئی آدمی قتل ہوجاتا ہے تو اسے قصاص کے طور پر قتل کردیاجائے گا اور اس بات کی دوسری دلیل یہ ہے کہ اہل کتاب کو شرک کی وجہ سے قتل نہیں کیا جاتا حالانکہ شرک جادو سے بڑا جرم ہے تو جادو کے جرم پر بھی ساحر اہل کتاب واجب القتل نہیں ہوگا۔(۶۸)
کیا جادو کا علاج جادو سے کیا جاسکتا ہے؟
(1) امام ابن قدامہ ؒ کہتے ہیں:
’’جادو کا توڑ اگر قرآن سے کیا جائے یا ذکر اذکار سے یا ایسے کلام سے کیا جائے جس میں شرعاً کوئی قباحت نہ ہو تو ایسا کرنے میں کوحرج نہیں ہے اور اگر جادو کا علاج جادو سے کیا جائے تو اس بارے میں احمد بن حنبلؒ نے تو قف کیاہے۔‘‘(۶۹)
(2) حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
’’رسولِ اکرم ﷺ کا یہ فرمان: «النَّشْرَة من عمَل الشیطان»(۷۰)
’’جادو کا توڑ شیطانی عمل ہے‘‘…اس بات کی طرف اشارہ کرتاہے کہ جادو کا علاج اگر خیر کی نیت سے ہوتا تو درست ہوگا ورنہ درست نہیں ہوگا۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ جادو کے علاج کی دو قسمیں ہیں:
(1) جائز علاج جو کہ قرآنِ مجید اور مسنون اذکار اور دعائوں سے ہوتا ہے۔
(2) ناجائز علاج جو کہ شیطانوں کا تقرب حاصل کرکے اور انہیں مدد کے لئے پکار کرکے جادو ہی کے ذریعے ہوتاہے، او ریہی علاج آپﷺ کی مذکورہ حدیث سے مراد ہے، اور ایسا علاج کس طرح سے درست ہوسکتا ہے جبکہ آپﷺ نے جادوگروں کے پاس جانے سے روکا ہے اور ان کی باتوں کی تصدیق کرنے کو کفر قرار دیا ہے!!
امام ابن قیمؒ نے بھی جادو کے علاج کی یہی دو قسمیں ذکر کی ہیں او ران میں سے پہلی کو جائز اور دوسری کو ناجائز قرار دیا ہے۔
کیا جادو کا علم سیکھنا درست ہے؟
(1) حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ﴿إِنَّما نَحنُ فِتنَةٌ فَلا تَكفُر﴾ میں اس بات کی دلیل ہے کہ جادو کا علم سیکھنا کفر ہے‘‘۔(۷۱)
(2) ابن قدامہؒ کا کہنا ہے کہ:
’’جادو سیکھنا اور سکھانا حرام ہے، اور اس میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیںہے، سو اسے سیکھنے اور اس پر عمل کرنے سے آدمی کافر ہوجاتا ہے خواہ وہ اس کی تحریم کا عقیدہ رکھے یا اِباحت کا‘‘۔(۷۲)
(3) ابوعبداللہ رازیؒ کہتے ہیں:
’’جادو کا علم برا ہے نہ ممنوع ہے، اور اس پر محقق علماء کا اتفاق ہے، کیونکہ ایک تو علم بذات خود معزز ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿قُل هَل يَستَوِى الَّذينَ يَعلَمونَ وَالَّذينَ لا يَعلَمونَ...٩ ﴾... سورة الزمر" (کہہ دیجئے: کیا عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں؟ )اور دوسرا اس لئے کہ اگر جادو کا علم حاصل کرنا درست نہ ہوگا تو اس میں اور معجزہ میں فرق کرنا ناممکن ہوتا، سو ان دونوں میں فرق کرنے کیلئے جادو کا علم سیکھنا واجب ہے، اور جو چیز واجب ہوتی ہے وہ حرام او ربری کیسے ہوسکتی ہے؟(۷۳)
(4) حافظ ابن کثیرؒ امام رازی کے مسلک ِمذکور کی تردید میں لکھتے ہیں:
’’رازی کا کلام درج ذیل کئی اعتبارات سے قابل مؤاخذہ ہے:
(1) ان کایہ کہنا کہ جادو کا علم حاصل کرنا برا نہیں، تو اس سے ان کی مراد اگر یہ ہے کہ جادو کا علم حاصل کرنا عقلاً برا نہیں، تو ان کے مخالف معتزلہ اس بات سے انکار کرتے ہیں، اور اگر ان کی مراد یہ ہے کہ جادو سیکھنا شرعاً برا نہیں، تو اس آیت ﴿وَاتَّبَعوا ما تَتلُوا الشَّيـٰطينُ﴾ میں جادو سیکھنے کو برا قرار دیا گیا ہے، نیز صحیح مسلم میں رسول اکرمﷺ کا فرمان یوں مروی ہے:
’’جو بھی کسی جادوگر یا نجومی کے پاس آیا اس نے شریعت ِمحمدیہ سے کفر کیا‘‘
اور سنن اربعہ میں آپﷺ کا دوسرا فرمان یوں آتاہے:
’’جس نے گرہ باندھی اور پھر اس میں جھاڑ پھونک کی تو گویا اس نے جادو کیا‘‘
(2) ان کا یہ کہنا کہ جادو سیکھنا ممنوع بھی نہیں اور اس پر محقق علماء کا اتفاق ہے تو مذکورہ آیت اور حدیث کی موجودگی میں یہ ممنوع کیسے نہیں ہوگا؟ او رمحقق علماء کا اتفاق تو تب ہو جب اس سلسلے میں ان کی عبارات موجود ہوں، کہاں ہیں وہ عبارات؟
(3) آیت ﴿قُل هَل يَستَوِى الَّذينَ يَعلَمونَ وَالَّذينَ لا يَعلَمونَ...٩ ﴾... سورة الزمر" میں جادو کے علم کو داخل کرنا بھی درست نہیںہے، کیونکہ اس میں صرف علم شرعی رکھنے والے علماء کی تعریف کی گئی ہے۔
(4) یہ کہنا کہ ’’جادو اور معجزہ کے درمیان فرق کرنے کے لئے علم جادو حاصل کرنا واجب ہے، کیسے درست ہوسکتا ہے جبکہ صحابہ کرامؓ ، تابعین او رائمہ کرام جادو کا علم نہ رکھنے کے باوجود معجزات کو جانتے تھے اور ان میں اور جادو میں فرق کر لیتے تھے۔ ‘‘(۷۴ )
(5) ابوحیان البحر المحیط میں کہتے ہیں:
’’جادو کا علم اگر ایسا ہو کہ اس میں ستارے اور شیاطین جیسے غیر اللہ کی تعظیم ہو اور ان کی طرف ایسے کام منسوب کئے جائیں جنہیں صرف اللہ ہی کرسکتا ہے، تو ایسا علم حاصل کرنا بالا جماع کفر ہے، اور اسی طرح اگر اس علم کے ذریعے قتل کرنا اور خاوند بیوی اور دوستوں کے درمیان جدائی ڈالنا مقصود ہو تو تب بھی اسے حاصل کرنا قطعاً درست نہیں ہوگا، اور اگر جادو کا علم وہم ، فریب او رشعبدہ بازی کی قسم سے ہو تو بھی اسے نہیں سیکھنا چاہئے کیونکہ یہ باطل کا ایک حصہ ہے اور اسکے ذریعے کھیل تماشہ اور لوگوں کا دل بہلانا مقصود ہو تو تب بھی اسے سیکھنا مکروہ ہے‘‘(۷۵)
جادو، کرامت اور معجزہ میں فرق
امام المازریؒ اس فرق کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جادو کرنے کے لئے جادوگر کو چند اَقوال و اَفعال سرانجام دینا پڑتے ہیں، جبکہ کرامت میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ اتفاقاً واقع ہوجاتی ہے اور رہا معجزہ تو اس میں باقاعدہ چیلنج ہوتا ہے جوکہ کرامت میں نہیں ہوتا۔‘‘(۷۶)
حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
’’امام الحرمین نے اس بات پر اتفاق نقل کیا ہے کہ جادو فاسق و فاجر آدمی کرتا ہے اور کرامت فاسق سے ظاہر نہیں ہوتی، سو جس آدمی سے کوئی خلاف ِعادت کام واقع ہو اس کی حالت کو دیکھنا چاہئے، اگر وہ دین کا پابند او رکبیرہ گناہوں سے پرہیز کرنے والا ہو تو اس کے ہاتھوں خلافِ عادت واقع ہونے والا کام کرامت سمجھنا چاہئے، اور اگر وہ ایسا نہیں ہے تو اسے جادو تصور کرنا چاہئے کیونکہ وہ یقینا شیطانوں کی مدد سے وقوع پذیر ہوا ہے۔‘‘(۷۷)
تنبیہ:بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک آدمی جادوگر نہیں ہوتا اور نہ اسے جادو کے متعلق کچھ معلوم ہوتا ہے، اور وہ بعض کبیرہ گناہوں کاارتکاب بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے ہاتھوں بھی کئی خلافِ عادت کام ہوجاتے ہیں، اور ایسا شخص یا تو اہل بدعت میں سے ہوتا ہے یا قبروں کے پجاریوں میں سے، سو اس کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا کہ شیطانوں نے اس کی مدد کی ہے تاکہ لوگ اس کی بدعات کی پیروی کریں اور سنت ِنبویہ کو چھوڑ دیں، اور یہ بات خاص طور پر صوفیا میں پائی جاتی ہے۔
حوالہ جات
(۵۵) مزید تفصیل اور جادو کے توڑ وغیرہ کیلئے اس مضمون کا چھٹا حصہ پڑھیں…(۵۶) آکام المرجان، ص۷۸… (۵۷) یہ حدیث اپنے شواہد کے اعتبار سے حسن درجے کی ہے، اسے البزار، احمد اور الحاکم نے روایت کیا ہے نیز دیکھئے، صحیح الجامع، ۵۹۳۹ …(۵۸) المؤطا (۶۲۸)، کتاب العقول باب ماجاء فی الغیلۃ والسحر…(۵۹) امام قرطبی نے شافعی کا یہی مسلک بیان کیا ہے جبکہ ان کا مشہور مسلک یہ ہے کہ جادوگر کو محض جادو کی وجہ سے قتل نہ کیا جائے، ہاں اگر وہ جادو کرکے کسی کو قتل کرتا ہے تو اسے قصاصاً قتل کردیا جائے گا…(۶۰) تفسیر القرطبی، ج۲ ص۴۸…(۶۱) تفسیر القرطبی، ج۲ ص۴۸ … (۶۲) البخاری، ج۶ ص۲۵۷۔ الفتح…(۶۳) تفسیر ابن کثیر، ج۱ ص۱۴۴…(۶۴) فتح الباری، ج۱۰ ص۲۳۶… (۶۵) المغنی، ج۱۰ ص۱۱۵…(۶۶) فتح الباری ،ج۱۰ ص۲۳۶…(۶۷) فتح الباری، ج۱۰ ص۲۳۶ (۶۸) المغنی ،ج۱۰ ص۱۱۵ …(۶۹) المغنی، ج۱۰ ص۱۱۴…(۷۰) اصد۔ ابودائود، حافظابن حجر نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے، الفتح، ج۱۰ ص۲۳۳…(۷۱) فتح الباری، ج۱۰ ص۲۲۵…(۷۲) المغنی، ج۱۰ ص۱۰۶…(۷۳) ابن کثیر، ج۱ ص۱۴۵ … (۷۴) تفسیر ابن کثیر، ج۱ ص۱۴۵…(۷۵) روائع البیان، ج۱ ص۸۵…(۷۶) فتح الباری،ج۱۰ ص۲۲۳ … (۷۷) فتح الباری، ج۱۰ ص۲۲۳ (باقی آئندہ)