تحریک' نا زَ ن 'ایک ناقدانہ جائزہ

جس علم کی تاثیر سے 'زَن' ہوتی ہے نازَن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ ہنر موت


مغرب میں برپا کی جانے والی 'تحریک ِآزادیٴ نسواں' نے عورت کو جو مراعات اور آزادیاں بخشی ہیں، ان کی افادیت کے متعلق خود اہل مغرب کے درمیان بھی اتفاقِ رائے نہیں ہے، البتہ آزادی کے اس دو سو سالہ سفر کے بعد بلاشبہ عورت ایک ناقابل تلافی نقصان سے دو چار ضرور ہوئی ہے،وہ یہ کہ مغربی عورت اپنے عورت ہونے کے تشخص کو گم کر بیٹھی ہے۔ نسوانیت کا وہ انمول زیور جو فطرت نے عورت کو عطا کیا تھا، وہ برابری اور حقوق کی دھول میں ایسا گم ہوا ہے کہ اب اسے 'چراغِ رُخِ زیبا' کا سہارا لے کر بھی ڈھونڈنا چاہیں تو نہیں ڈھونڈ سکیں گے۔ چراغ کی بات ہی الگ ہے، رُخِ زیبا کا وجود ہی باقی نہیں رہا، گھر کی پاکیزہ فضا سے نکل کر بازار، دفتر اور جنسی ہوس ناکی کی منڈیوں میں خوار ہو کرجمال پرور نسوانی چہرہ زمانے کی دھول سے اس قدر اَٹا ہوا ہے کہ حسن و جمال کا پیکر عجب بھبھوکے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ لیکن واے افسوس !اس عظیم المیہ کا احساسِ زیاں جاتا رہا ہے، مغرب کی عورت اپنی مسخ شدہ فطرت کو بحال کرنے کی بجائے اسے مزید بگاڑنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لا رہی ہے۔

اُردو زبان میں جس انسان کے لئے لفظ 'عورت' استعمال کیاجاتا ہے، وہ مغرب میں لغوی اور اصطلاحی دونوں اعتبار سے اپنی معنویت و مفہوم کھو چکا ہے۔ 'عورت' کا لفظ سنتے یا پڑھتے ہی انسانی ذہن میں ایک حیاتیاتی وجود کی شکل و صورت اور پیکر ِظاہری کے علاوہ اس سے وابستہ شرم و حیا، عفت و عصمت، حسن و جمال، نزاکت و لطافت، اُلفت واُمومت، تقدس و نظافت، مروّت و شرافت، ایثار و اخلاص کی رمزیت و ایمائیت کا جو ایک جہانِ حقیقی آباد تھا؛ افسوس! تحریک ِنسواں کے سیلاب نے اسے غارت و تباہ کر دیا ہے۔ اس اعتبار سے گذشتہ تین ہزار برس کے طویل سفر میں دنیا کے مذہبی اور اَدبی لٹریچر اور فنونِ لطیفہ نے عورت کے متعلق علوم وفنون کا جو عظیم محل تعمیر کیا تھا وہ زمین بوس ہوتا دکھائی دیتا ہے اور اس ضمن میں انسانی فکر نے جواہرپاروں کے جو پہاڑ جمع کئے تھے، ان کی حیثیت اب سنگریزوں یا پتھروں کی چٹانوں سے زیادہ نہیں رہی۔ انسانیت نے خدائی تعلیمات اور اپنی عقل کی روشنی میں جو انسانوں کے مفاد میں سماجی اور اخلاقی قدریں تشکیل دیں جو فی الواقع انسانی اجتماعی حکمت کا شاہکار ہیں، وہ اب محض اِضافی اور غیر متعلق ہو کر رہ گئی ہیں، کیونکہ جدید تحریک ِنسواں نے ان سب کی مذمت کی بنیاد پر ہی اپنی عمارت کھڑی کی ہے۔

مغرب کے بعض راست فکر دانشور جو تحریک ِنسواں کے انسانی معاشرے پر خطرناک نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، انہوں نے بار بار خبردار کیا کہ 'عورت کو عورت ہی رہنے دو' لیکن تحریک ِنسواں کے علمبردار خواتین و حضرات نے نسوانیت کی پرانی قدروں کو مردوں کے ظلم اور استحصال کے لئے ایک ہتھیار قرار دے کر اس طرح کے وعظ و نصیحت کو عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا اور عورتوں کی متواتر ذہن سازی کی کہ اگر وہ مردوں کے ظلم سے نجات چاہتی ہیں تو اس کی واحد صورت یہی ہے کہ وہ 'مرد' ہی بن جائیں یا کم از کم اس کی کاربن کاپی؛ نتیجہ معلوم ! عورت'مرد' تو نہ بن سکی البتہ 'عورت' بھی نہ رہی...!!

مغربی عورت اپنے فطری مقام و مرتبے سے، اپنی رضا و رغبت یا پھر فریب کاری کے جال میں پھنس کر نیچے گری تو ہزار مجموعہ ہائے خرابی کا نمونہ بن گئی ۔ کسی شاعر نے اپنے ممدوح کی بے شمار خوبیاں دیکھ کر بے اختیار کہا تھا ع

اے مجموعہٴ خوبی! بچہ نامت خوانم


یعنی "اے سراسر خوبیوں کے مجموعہ! میں تمہیں کس نام سے پکاروں؟"

مغربی عورت کے بارے میں معمولی تصرف کے ساتھ بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ع

اے مجموعہٴ خرابی! بچہ نامت خوانم


تحریک ِنسواں کی علمبردار خواتین کو 'عورت' کہنا لفظ ِعورت کی توہین، بلکہ معنوی تحریف ہے۔ عورت کا لغوی مطلب 'چھپی ہوئی' مجسم حیا ہے۔ مغربی عورت نے پردہ اور حجاب سے بہت پہلے 'آزادی' حاصل کر لی تھی، مذکورہ تحریک کے زیر اثر شرم و حیا کا جوا بھی اُتار پھینکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی عورتوں کے لئے کون سا لفظ یا اصطلاح استعمال کی جائے۔ یہ ذمہ داری تو دراصل ان مغرب زدہ بیگمات کی تھی کہ وہ نسوانی تشخص سے جان چھڑانے کے بعد اپنے لئے نیا نام ایجاد کریں۔

ویسے تو ان کا ذہن مختلف جدت طرازیوں اور روایتی اصلاحات کی بجائے نت نئی جدت پسندیوں کی تحقیق کرتا رہتا ہے، لیکن لفظ 'عورت' کے متعلق ان کی تخلیقی صلاحیت ابھی تک سامنے نہیں آئی، وہ نجانے 'عورت' جیسی 'شرمناک' اور دَقیانوسی اصطلاح اپنے لئے ابھی تک کیوں گوارا کئے ہوئے ہیں؟ وہ 'محجوب و مستور' ہونے کو اپنے لئے توہین آمیز تصور کرتی ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ 'عورت' کے لفظ کو استحصالی معاشرے کی اصطلاح سمجھتے ہوئے کوئی نئی اصطلاح وضع کریں۔ لگتا ہے اس معاملے میں وہ خود خاصی روایت پسند واقع ہوئی ہیں!!

'عورت' عربی، اردو اور فارسی میں

مغرب کی مادر پدر آزاد خواتین اور ان کی اَندھی مقلد پاکستانی بیگمات کے لئے 'عورت' کا لفظ استعمال کرنے میں راقم الحروف کو ہمیشہ تامل رہا ہے۔ کیونکہ عورت کا جو مفہوم و مطلب اپنے وسیع تر علمی اور ثقافتی دائرے میں اس کے ذہن میں رہا ہے، یہ طبقہ اُناث اس کی عین ضد ہے۔ یہ اُلجھن محض لفظ 'عورت' تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ عربی، فارسی، ترکی اور اردو زبانوں میں طبقہ اُناث کے لئے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ سب اپنے لغوی اور اصطلاحی مطالب کے اعتبار سے 'جدید عورتوں' کے لئے مناسب نہیں ہیں۔ عربی زبان میں عورت کے لئے النساء اور المرأة کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن مجید نے النسائکو بکثرت استعمال کیا۔ 'نسوانیت' کا مادّہ بھی النساء سے نکلا ہے۔

فارسی میں 'زَن' اور 'خاتون' کے الفاظ ہیں۔ زَن عام عورتوں کے لئے جبکہ خاتون خاص عورتوں کے لئے جبکہ ترکی زبان میں 'خانم' استعمال ہوتا ہے۔

یہ اَمر دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے مخصوص ثقافتی پس منظر اور غایت درجہ شرم و حیا کی پاسداری کی بنا پر یہاں کے ادب میں فارسی اور عربی کے معروف الفاظ کونہیں اَپنایا گیا، بلکہ اس کے لئے اُردو میں 'عورت' کے لفظ کو نئے معنی پہنا کر اسے عام طور پر استعمال کیا گیا ۔ قرآن مجید میں ایک جگہ عورٰت النساء کے الفاظ بھی ملتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ النساء کے ساتھ عورت بطور ِاسم صفت کے استعمال کی گئی ہے۔

ہندوستانی مسلم ادب میں عورت کی تمام خوبیوں میں شرم و حیا اور ستر کے اُمور کو اس کی صفات کے ذکر میں اوّلین درجہ عطا کیا گیا۔ 'عورت' کو مزید تقدس یا عفت کا لبادہ اوڑھانے کے لئے 'مستورات' کالفظ بھی ایجاد کیا گیا جس کا مطلب تقریباً وہی ہے، یعنی وہ عورتیں جو عام نگاہوں سے چھپی رہتی ہیں، اس کا اُلٹ ہے 'مکشوفات' یعنی وہ عورتیں جو کھلی ہوئی یا بے پردہ ہیں۔

علامہ اقبال کی اصطلاح

علامہ اقبال نے مغرب سے اُٹھنے والی تحریک ِنسواں کی تباہ کاریوں کا یورپ میں مشاہدہ کرنے کے بعد مسلمان خواتین کو اس عظیم فتنہ سے بچنے کے لئے آج سے ۸۰ سال پہلے خبردار کر دیا تھا۔ انہوں نے جدید مغربی تعلیم کو مسلمان عورتوں کے لئے مہلک قرار دیا۔ عورتوں کے حقوق کے نام پر برپا کی جانے والی تحریک کے اندر 'عورت دشمنی' کے عناصر کو ان کی حکیمانہ بصیرت نے بہت جلد بھانپ لیا تھا۔ اسی لئے اُنہوں نے فرمایا:

جس علم کی تاثیر سے زَن ہوتی ہے نازَن     کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ ہنر موت


اس شعر میں انہوں نے حد درجہ بلیغ طریقے سے سامراجی نظامِ تعلیم کے ذریعے پھیلائے جانے والے علم کو عورتوں کے لئے اس قدر ضرر رساں محسوس کیا کہ اس کی تحصیل سے 'زَن' اپنا تشخص کھو کر 'نازَن' بن جاتی ہے۔ گویا عورت، عورت نہیں رہتی۔ ایسا علم جو عورت کو عورت ہی نہ رہنے دے، وہ اس کے لئے موت ہے ۔وہ محض 'علم' نہیں بلکہ 'علم نافع' کے داعی اور مبلغ علامہ اقبال نے مغربی تہذیب کی دل دادہ عورتوں کو 'نازن' کا نام دیا ہے۔ افرنگ زدہ عورتوں کے لئے اس سے زیادہ جامع، معنی خیز اور مفہوم کو صحیح ادا کرنے والا کوئی اور لفظ راقم کی نگاہ سے نہیں گزرا۔ حضرت علامہ اقبال کی اس اصطلاح نے راقم الحروف کو 'تجھے کس نام سے پکاروں' والی فکر وپریشانی سے بھی بہت حد تک نجات دلا دی۔ 'نازَن' کی اصطلاح 'بے عورت' یا 'ناعورت' جیسے الفاظ سے زیادہ موزوں اور بلیغ ہے، کیونکہ یہ اصطلاح کسی معمولی شاعر یا اَدیب کی وضع کردہ نہیں ہے، بلکہ یہ حکیم ُالامت اور شاعر مشرق علامہ اقبال کی تخلیق کردہ ہے۔

'تحریک ِآزادیٴ نسواں'

یورپ میں طبقہ اُناث اور ان کے بہی خواہوں کی طرف سے آزادی اور حقوق کے نام سے جو تحریک ۱۸۰۰ء کے لگ بھگ شروع کی گئی تھی، اسے تحریک ِآزادیٴ نسواں کا نام دینا بھی درست نہیں ہے۔ یہ تحریک قابل احترام، معتدل مزاج، تعلیم یافتہ، اعلیٰ خاندانوں کی بیگمات نے برپا نہیں کی تھی، وہ تو اس سے الگ تھلگ رہی تھیں۔ یہ تحریک میری وولسٹن کرافٹ Mary Wolston Craft جیسی اعصابی و نفسیاتی امراض میں مبتلا، جنونی اور انتہا پسند عورتوں نے شروع کی تھی جو مردوں کے مقابلے میں احساسِ کمتری کا شکار تھیں اور جنہیں مردوں کی ہر میدان میں برابری کا خبط اور مالیخولیا لاحق تھا۔اس لئے اس تحریک کو تحریک ِنسواں کی بجائے اگر'تحریک ِنازَن' کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ مغرب میں اس تحریک ِنازن کی شروع میں اَچھی خاصی مذمت کی جاتی رہی، اسے معاشرتی توازن کے لئے 'خطرناک خیالات پر مبنی 'تحریک کا نام دیا گیا لیکن اس تحریک ِنازَن کو زیادہ پذیرائی اس وقت ملی جب جان سٹورٹ مل جیسے آزادی پسند دانشوروں نے اس کی پرزور حمایت کی۔ اس مضمون کے آغاز اور درمیان میں راقم الحروف نے یہ' تحریک ِنسواں' کی ترکیب محض روایتی انداز میں استعمال کی ہے۔ یہ جہاں بھی استعمال ہوئی ہے اس سے مراد تحریک ِنازن ہی ہے۔ تحریک ِنازن کی ترکیب کے استعمال سے چند دیگر تراکیب مثلاً 'تحریک ِآوارگی ٴنسواں' یا 'تحریک ِبربادیٴ نسواں' کے استعمال کی ضرورت بھی باقی نہیں رہے گی۔

'عورت' انگریزی زبان میں

اکیسویں صدی کی ابتدا میں جبکہ یورپ و امریکہ میں 'تحریک نازَن' کا بہت چرچا ہے، اب بھی اس تحریک کی اصل روح رواں 'نازَنوں کی متحرک اقلیت' ہے۔ مغرب کی عورتوں کی اچھی خاصی تعداد تحریک ِنازن کی انتہا پسندی کو اب بھی پسند نہیں کرتی۔ اس مضمون میں تحریک ِنازن کے آغاز، ارتقا اور تازہ ترین صورتحال کا تفصیلی جائزہ لینا ممکن نہیں ہے، اس کے لئے الگ سے ایک مبسوط مقالہ کی ضروت ہے۔ البتہ بعض ضروری اشارات اور حوالہ جات ضرور دیے گئے ہیں۔مندرجہ بالا سطور میں عربی، فارسی اور بالخصوص اُردو زبان میں 'عورت' کے لفظ کے معنی اور مفہوم کے حوالے سے 'نازَن' کے تصور کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مناسب ہوگا اگر انگریزی زبان وادب کے حوالے سے اس مضمون کو مزید واضح کیا جائے۔

انگریزی زبان میں 'عورت' کے لئے کوئی بالکل آزاد اصطلاح وضع نہیں کی گئی۔ عیسائیت میں آدم اور حوا کی تخلیق کے حولے سے یہ بات ملتی ہے کہ'خدا نے مر د کو بالکل اپنی شکل Image پر تخلیق کیا اور عورت کو مرد کے 'امیج' پر پیدا کیا۔' عیسائی لٹریچر میں آدم کے جنت سے نکالے جانے کا تمام تر ذمہ دار حوا کو قرار دیا گیا ہے۔ حوا کے اس 'قصور' کی بنا پر مسیحی یورپ میں صدیوں تک عورت گناہ کی پوٹلی، اور گھٹیا مخلوق تصور کی جاتی رہی ہے۔ مسیحی زبان و ادب میں عورت کوئی آزاد عقلی یا سماجی وجود کی حامل ہستی نہیں ہے، وہ بس مرد کا ایک عکس ہی ہے۔ اسی لئے عورت کے لئے انگریزی زبان میں Woman کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس کا لفظی مطلب ہے 'آدھا مرد' ۔ اسی طرحShe بنیادی طور پر He کا ضمیمہ ہے۔ عورت کے لئے دوسرا لفظ Femaleہے، یہ بھی دراصل Maleکے نصف کا مطلب ظاہر کرتا ہے۔

۱۶۷۳ء میں معروف پادری رچرڈ باکسٹر نےA Christion Dictionary میں عورتوں کے بارے میں یوں اظہارِ خیال کیا ہے :

"They are betwixt a man and child: Some few have more of the man, and many have more the child; but most are but in the middle state"

یعنی "وہ مرد اور بچے کے درمیان ہیں، کچھ تو مردوں کی خصوصیات زیادہ رکھتی ہیں،بہت سی بچگانہ مزاج کی زیادہ حامل ہیں، جبکہ زیادہ تر درمیانی حالت والیاں ہیں۔"

اہل مغرب کی اس تشریح کے مطابق تو تمام عورتیں'نصف مرد' کے درجہ پر بھی فائز نہیں ہیں، کیونکہ ان میں بچگانہ صفات پائی جاتی ہیں۔

اہل مغرب کی اصطلاح

صرف علامہ اقبال یا مسلمان مصنّفین نے ہی باغیانہ مزاج رکھنے والی مادر پدر آزاد عورتوں کو نشانہٴ تنقید نہیں بنایا ہے بلکہ یورپ میں اس طرح کی تحریریں سترھویں صدی یا اس سے قبل کے دور میں بھی مل جاتی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں 'تحریک ِنازن'کی اِکا دُکا مبلّغات اس تحریک کے باقاعدہ آغاز سے کہیں پہلے اپنے باغیانہ، اور غیر فطری رویوں کا اظہار کر چکی تھیں۔ ۱۶۲۰ء میں Anon نے The man-womanکے عنوان سے رسالہ تحریر کیا جس میں ان عورتوں کی شدید مذمت کی جو مردوں کی طرح کا لباس پہنتی ہیں یا اُن جیسے کام کرتی ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں فرڈیننڈ لنڈبرگ نے Modern Woman; the lost sex (جدید عورت: صنف ِگم گشتہ) کے نام سے تحریک ِنازَن کے خلاف بہت موٴثر کتاب لکھی۔اس کتاب کے پہلے باب کا عنوان نازَن کے خلاف کس قدر نفرت کے جذبات لئے ہوئے ہے۔ ملاحظہ کیجئے : Chimaera; or Modern Woman

یعنی "چڑیل (ڈائن) یا جدید عورت"

Websterکی ڈکشنری کے مطابق Chimaeraیونانی اَصنام پرستی Mythology میں ایک چڑیل عورت کو کہتے ہیں جو منہ سے آگ کے شعلے نکالتی تھی، جس کا سر شیر کا تھا، جسم بکری کا اور دُم سانپ کی تھی۔ یہ اصطلاح ایک مغربی مصنف نے جدید عورتوں کے لئے استعمال کی ہے۔'نازَن' تو اس کے مقابلے میں بے حد کم درجے کی اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔ مغربی نازَن کے افکار اور اعمال کو پیش نظر رکھا جائے تو واقعی وہ Chimaera ہی کی نسل لگتی ہیں۔ اِن کی زبانیں ہر وقت مردوں کے خلاف اَنگارے برساتی ہیں، ان کی سوچ میں ربط ہے نہ تعلق، ان کی باتوں کا سر پیر کوئی نہیں ہے...!!

'عورت' کالم نگاروں کی نظر میں

موٴرخہ ۲۳ دسمبر۱۹۹۹ء کے 'نوائے وقت' میں معروف کالم نگار عطا ء الحق قاسمی نے تحریر کیا کہ عورتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ان کی ایک قسم تو 'خاتونِ خانہ' کہلاتی ہے جبکہ دوسری 'خاتونِ خانہ خراب'... عطاء الحق قاسمی نے یہ فکاہی کالم مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کے اس بیان کے پس منظر میں تحریر کیا کہ اگر انہیں دوسرا جنم مل جائے تو وہ مرد کی بجائے عورت کے روپ میں دوبارہ زندہ ہونا چاہیں گے۔ کیونکہ اگلی صدی میں عورتوں کو زیادہ حقوق حاصل ہوں گے اور شاید بچے پیدا کرنے کا فریضہ بھی مردوں کو ادا کرنا پڑے۔

قاسمی صاحب کے کالم میں جن عورتوں کے لئے 'خاتون خانہ خراب' کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ وہ راقم الحروف کے خیال میں 'نازن' کے علاوہ کچھ اور نہیں ہیں۔ 'نازن' کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان کا 'گھریلو اُمور' میں ہرگز دل نہیں لگتا۔ ان کی دلچسپیوں کا محور و مرکز بازار کاماحول ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنی عدمِ توجہ کی وجہ سے اپنے گھر کا عملاً 'خانہ خراب' ہی کرتی ہیں۔ گرہستن ہونا ان کے نزدیک ایک ایسا عیب ہے کہ جسے وہ کبھی بھی اپنے نام کے ساتھ لکھنا پسند نہیں کرتیں۔

موزوں اصطلاح کا تعین ؛ ایک مخمصہ

جدید تحریک ِنسواں کی علمبردار 'عورتوں' کے لئے کسی مناسب اصطلاح یا لفظ کی تلاش کا مسئلہ صرف ان کے مخالفین کو ہی درپیش نہیں رہا ہے۔ فیمی نزم کے نظریات کے پرچارک بھی اس اُلجھن کا شکار نظر آتے ہیں۔ جیساکہ ایک انقلابی Feministلکھتی ہیں:

"There is forever in feminist thought a problem of what term to employ when speaking of say "Women". The use of "Women" is problem atic. I know that there will be times when I say "Women" without meaning "all Women" (Judith Evans, Feminist Theory Today, p.11)

"نازن پسندانہ فکر میں ہمیشہ سے یہ مسئلہ رہا ہے کہ آخر جب 'عورت' کاذکر کیا جائے تو کون سی اصطلاح استعمال کی جانی چاہیے۔'ویمن' کے لفظ کا استعمال تو مسئلہ پیدا کرتا ہے، میں جانتی ہوں کہ بعض اوقات میں 'ویمن' (عورت) کا لفظ استعمال کرتی ہوں جبکہ اس سے میری مراد 'تمام عورتیں' نہیں ہوتیں۔"

گویا یہ جدید انقلابی 'عورتیں' بھی عام روایتی عورتوں کو اپنے سے مختلف گردانتی ہیں۔

تحریک ِنازن کے لٹریچر میں'مساوات' کے ساتھ ایک اصطلاح کثرت سے استعمال کی جاتی ہے، وہ ہے Androgyny۔ چیمبرز ڈکشنری میں اس کے معانی درج ذیل ہیں:

"Having the charateristics of both male and female in one individual."

یعنی "ایک فرد میں مرد اور عورت دونوں کی خصوصیات کا جمع ہونا۔"

لیکن Judith Even نے جو اس لفظ کے معانی اپنی کتاب میں درج کئے ہیں۔ وہ خاصے چونکا دینے والے ہیں۔ وہ ہیں:

"Neither man, nore women." (p.29)یعنی "نہ عورت ،نہ مرد"

اُردو زبان میں ایسے فرد کے لئے مخنث کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کا ایک جملہ ہے : "حضرت مخنث ہیں۔ نہ 'ہی اوں' میں؛ نہ 'شی اوں' میں۔"

یاد رہے تحریک ِنازن کا ہدف Androgynous معاشرے کا قیام ہے جہاں مرد و زن کے تمام امتیازات مٹا دیئے جائیں گے۔ Gender (صنف) پرمبنی اختلافات کو مٹانا تحریک ِنازن کے اہم اہداف میں شامل ہے۔

'عورت' شاعروں کے ہاں

'نازن' سے صوتی مشابہت رکھنے والی ایک اور اصطلاح 'نازنین' ہے۔'نازنین' اُردو شاعری اور ادبی روایت میں مستعمل ایک ترکیب ہے جس سے مراد محبوبہ نازک ادا ہے۔ 'نازنین' دراصل نازو انداز، عشوہ طرازیاں اور نخرے اور پندارِ حسن کے اظہار کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ عورت شرم و حیا اور عفت و عصمت کی متوازن صورتوں کے اظہار سے نکل کر جب نازو انداز کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتی ہے تو وہ 'نازنین' کا روپ اختیار کرلیتی ہے۔ 'نازنین' عورت پن کے اظہار میں افراط اور'نازن' تفریط کا نام ہے۔

اسلام میں عفت وحیا کے پیمانوں کو سامنے رکھا جائے تو 'نازن' اور'نازنین' دونوں ناپسندیدہ درجات ہیں۔ اسلام حسن و اعتدال اور توازن فکر کو پسند کرتا ہے۔ جبکہ ان دونوں اصطلاحات میں عدمِ توازن پایا جاتاہے۔ اُردو شاعری کے مطالبے سے ظاہرہوتا ہے کہ اس دور کی عورتیں بھی اپنے آپ کو 'نازنین' کہلوانا پسند نہیں کرتی تھیں۔ شاعر حضرات اپنی ہوس ناکی کے اظہار اور محض چھیڑ خوانی کے لئے نازنین کی ترکیب استعمال کرتے تھے۔ نواب سعادت یار خان رنگین کا ایک شعر اس ناپسندیدگی کو ظاہر کرتا ہے

گر نازنین کہے سے بُرا مانتے ہیں آپ
مجھے نازنین کہو میں نازنین سی


تحریک ِنازن نے مشرقی ادب میں'نازنین 'کے کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ 'نازن' کسی بھی صورت میں 'نازنین' بننے کو تیارنہیں ہیں۔ اب ہمارے شعرا کو ماہ جبینوں، نازنینوں وغیرہ جیسی تراکیب کے استعمال میں بھی محتاط رہنا پڑے گا۔ ورنہ وہ نازنین تلاش کرتے کرتے کسی 'نازن' کے عتاب کا موجب بن سکتے ہیں!!

اہل مغرب کا مخمصہ

'عورت' اور 'نازن' کا فرق صرف ہمارے پیش نظر ہی نہیں ہے۔ مغرب کے بعض دانشور بھی اس کااعتبار ضرور کرتے ہیں۔ مغرب میں تحریک ِآزادیٴ نسواں کے حامیوں کو "Feminists" کہا جاتاہے۔ وہ دانشور جو عام عورتوں کے مخالف تو نہیں مگر تحریک ِنازن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اپنے لئے "Womanist" کی اصطلاح پسند کرتے ہیں۔ گویا 'عورت پسندی' (Womanism) اور نازن پسندی (Feminism) دو مختلف مکاتیب ِفکر ہیں۔ Neil Lyndon کا نام تحریک ِنازن کے معروف ناقدین میں ہوتاہے۔ انہوں نے "The failure of feminism" اور "No more sex war" جیسی فکر انگیز کتابیں لکھی ہیں۔ تحریک ِنازن کے علمبردار انہیں Anti-Woman یعنی عورت مخالف ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔اس الزام کی تردید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں :

"It is perfectly illotical to say that somebody who espouses anti-feminist beliefs must be anti-woman. It makes no more sense than is would to say that an anti-Nazi must be anti-German of an anti-Communist must be anti-Russian." ("No more sex" p.10)

"یہ کہنا قطعی طور پر غیر منقطی ہے کہ جو شخص 'نازن مخالف' خیالات رکھتا ہے وہ لازمی طور پر 'عورت مخالف' بھی ہو۔ یہ بالکل اس طرح ہوگا اگر کہاجائے ایک شخص جو نازیوں کے خلاف ہے، وہ ضروری طور پر جرمن قوم کا بھی مخالف ہو یا جو کمیونسٹوں کا مخالف ہے، وہ روسی قوم کے بھی خلاف ہے۔" وہ آگے لکھتے ہیں:

"Feminists do make a balit of advancing the claim to represent all Woman." (ایضاً، صفحہ ۱۱)

"نازن پسندوں نے ایک عادت سی بنا لی ہے کہ وہ تمام عورتوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں․"

پاکستان میں این جی اوز کی بیگمات تمام پاکستانی عورتوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہیں، وہ یہ حقیقت فراموش کردیتی ہیں کہ وہ مغرب کے اتباع میں پاکستانی عورتوں کو جو حقوق دلوانا چاہتی ہیں، پاکستان خواتین کی اکثریت ان میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ پاکستان کی عام عورت مغربی اقدار کے مقابلے میں اسلامی اور مشرقی اقدار کو زیادہ عزیز رکھتی ہیں۔

مغرب میں آزائ نسواں کی انتہا پسند علمبردار عورتوں کو Manly womanکہا جاتا ہے یعنی وہ عورتیں جو مردانہ اوصاف کی حامل ہیں یا جو نسوانیت سے عاری ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب 'پاکستانی عورت دوراہے پر' میں ایسی عورتوں کے لئے 'مترجلات' کی ترکیب استعمال کی ہے یعنی وہ عورتیں جو رَجُل (یعنی مرد) بننے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ 'نازن' اور 'مترجلات' یکساں مفہوم کے حامل الفاظ ہیں۔

ایلنرروزویلٹ Eleaner Rosewelt امریکی صدر روز ویلٹ کی بیوی تھیں۔ انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے حوالہ سے ان کی خدمات کی بے حد تعریف کی جاتی ہے۔ ۱۹۴۸ء میں اقوامِ متحدہ کی جس کمیٹی نے 'انسانی حقوق کے آفاقی اعلامیہ' کا ڈرافٹ (مسودّہ) تیا رکیا تھا، وہ اس کی چیئرپرسن تھیں۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں انہوں نے تحریک ِنسواں کی علمبردار خواتین میں انتہاپسندی اور آوارگی کا مشاہدہ کیا تو برملا اعلان کیا کہ وہ Feminist نہیں بلکہ Womanistہیں۔ ((A Lesser Life

راقم کی نگاہ سے مذکورہ کتاب میں ایلنرروزویلٹ کا یہ اعلانِ برأت گذرا تو اسے سخت حیرت ہوئی۔مگر امریکہ اور یورپ کے سنجیدہ فکر دانشور تحریک ِنازن کو خاندانی اقدار کی تباہی کا ذمہ دار قرا ردے کر سخت تنقیدکا نشانہ بنارہے ہیں۔ امریکہ میں تحریک ِنسواں کے ارتقا پرنظر رکھنے والے قارئین بخوبی واقف ہیں کہ امریکہ میں ERA(مساوی حقوق کی ترمیم) کی تحریک کو امریکی خواتین نے مسترد کردیا۔ ایلننرروز ویلٹ بھی عورتوں اور مردوں کی مطلق مساوات کی قائل نہ تھی، وہ خاندانی اقدار پر یقین رکھتی تھی۔ اس نے ایک دفعہ کہا :

"عورتیں مردوں سے مختلف ہیں، ان کے جسمانی فرائض مختلف ہیں، ہماری نسل کا مستقبل اس بات سے وابستہ ہے کہ عورتیں کس قدر صحت مند بچے پیدا کرتی ہیں۔"

(A lesser life, by. S.A Hewlet, p.91)

اسی کتاب کے صفحہ نمبر۹۱ کی یہ سطر ملاحظہ کیجئے :

"Mrs. Roosewelt was so issitated by the equal rights emphasis of mainstreem American feminists that she refused to be labelled a feminist beself. (do)

"مسز روزویلٹ امریکی نازن پسندوں کی مساوی حقوق کے بارے میں تکرار پر اس قدر مشتعل ہوئیں کہ انہوں نے اپنے آپ کو Feminist کہلانے سے انکار کردیا۔"

ایک اسلامی معاشرے میں نازنوں اور مترجلات کی بجائے مستورات اور عفت مآب خواتین کے کردار کو نمونہ (رول ماڈل) بنانے کی ضرورت ہے۔ عورتوں کوحیاو عفت اور ممتا کے کردار سے محروم کردینے والی تحریک کو حقوقِ نسواں کی بجائے 'حقوقِ نازن'کا نام دینا زیادہ مناسب ہے۔ اسلام نے مرد وزن کی مساوات اور حقوق کا ایک متوازن تصور پیش کیاہے۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو جدید دور میں معاشرتی توازن کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔ کیونکہ مغرب کی تحریک ِنسواں اپنے نتائج کے اعتبار سے معاشرتی عدمِ توازن کا باعث بنی ہے !!

پاکستان میں نئی حکومت کے آتے ہی مغرب نوازحلقوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ حکومت کے ابتدائی دنوں میں ہی مغرب زدہ این جی اوز کے دیرینہ مطالبوں کو بل کی صورت میں قومی اسمبلی میں پیش کرناان رجحانات کی عکاسی کرتا ہے جو موجودہ حکومت کے پیش نظر ہیں جبکہ یہ بل اور ایسے مطالبات کم وبیش ۸ سالوں سے معرضِ التوا میں تھے۔ کیا پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ اس کو اس قدر ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے جبکہ اس سے کئی گنا سنگین مسائل اوران پر موزوں قانون سازی کیلئے حکومت کے پاس کوئی فرصت نہیں۔

پاکستان کی فوجی حکومت جس طرح امریکی عزائم کے لئے والہانہ طور پر مصروفِ کار ہے اس کے تناظر میں یہ بات بعید از قیاس نہیں کہ آئندہ دنوں میں پاکستان شدید ثقافتی یلغار کی زد میں آنے والا ہے اور اس ملک ِخداداد کی ایسی تہذیب ومعاشرت کو بدلنے کا عالمی قوتیں تہیہ کئے ہوئے ہیں جس سے دینی تنظیموں، دینی مدارس اور عالمی اسلامی تحریکوں کو مدد ملتی ہے۔

ظاہر ہے کہ جس تہذیب اور بے حیائی وفحاشی کو یہاں نافذ کیا جانا مقصود ہے، اس کے لئے خواتین کو بے حجاب اور آزاد رو کرنا اشد ضروری ہے۔کیونکہ خواتین کی معاشرے میں آزادانہ چلت پھرت اور ہرجگہ دستیابی ہی اس قوم کی ایمانی بنیادوں کو کھوکھلا اور عیش وعشرت کا دل دادہ بنا سکتی ہے۔ ایسے ہی نوجوان نسل کو عشق ومحبت کے فسق وفجور میں مبتلا کرنا ہی انہیں ملی فرائض سے غافل وبیگانہ کرسکتا ہے۔ اسی مقصد کے لئے ہمسایہ ملک کے بیسیوں چینل ہردم مصروف ہیں اور کیبل کے ذریعے یہ زہر ہر گلی محلے میں اُتارا جارہا ہے۔

'خواتین کے حقوق' کے نام پر مادر پدر آزادی کا حصول ا ور اس کے ذریعے فحاشی وعریانی کا فروغ پاکستانی ثقافت اور خاندانی نظام کے خاتمے کے لئے ایک سنہرا جال ہے جس کے ساتھ عدالتی ایوانوں سے محبت کی شادی کے بعد، آزادانہ تعلقات پر روک ٹوک ختم کرنے کی راہ ہموا رکی جارہی ہے۔ مذکورہ بالا تناظر میں 'محدث' کے تازہ شمارہ میں اس نوعیت کے تمام مضامین کو یکجا کرکے خصوصی اشاعت کی صورت میں شائع کیا جارہا ہے تاکہ اپنے ذمہ عائد فرض کو کم از کم ادا کیا جائے۔ اس شمارے کے تمام مضامین کا مرکزی موضوع یہی مسائل ہیں جو اِن سطور میں بیان ہوئے اور مختلف حوالوں سے نامور دینی شخصیات کا نقطہ نظر اس میں پیش کیا گیا ہے۔ہمیں اُمید ہے کہ اس شمارے کے تمام مضامین کا مطالعہ قارئین کے ذہنوں کو ایک واضح رخ دینے میں اہم کردا ر ادا کرے گا-