خواتین کی تعلیم کی اہمیت اور مطلوبہ لائحہ عمل

’جدید تحریک ِنسواں اور اسلام‘


علم نور ہے اورجہالت گمراہی !

انسانی معاشرہ کی تعمیر و ترقی کے لئے تعلیم و تربیت، علم و آگہی اور شعور بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ طبقہ نسواں معاشرے کا نصف حصہ ہیں۔ لہٰذا اس طبقہ نسواں کی تعلیم و تربیت معاشرے کی صلاح و فلاح کے لئے از بس ضروری اور ناگزیر ہے۔

لفظ تعلیم و تربیت دو اجزا سے مرکب ہے۔ ایک تعلیم، یعنی زندگی گزارنے کے لئے بنیادی اوصاف کا شعور دینا، سکھانا، پڑھانا، معلومات بہم پہنچانا اور دوسرا لفظ 'تربیت'ہے جس سے مراد پرورش کرنا، اچھی عادات،یعنی فضائل اخلاق سکھانا اور رذائل اخلاق سے بچانا اور بچوں میں خدا خوفی اور تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ لہٰذا تعلیم اور تربیت دونوں اسلام میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

اسلام کانکتہ نظر

اسلام نے علم اور تقویٰ کو یعنی تعلیم و تربیت کو ابتدا ہی سے بنیادی اہمیت دی ۔ چونکہ شریعت اسلامیہ نے مرد و عورت دونوں پریکساں حقوق و فرائض عائد کئے ہیں اور دونوں ہی اپنے فرائض کو پورا کرنے کے لئے یکساں مکلف اور ذمہ دار ہیں۔ یہ واضح امر ہے کہ جب تک اپنے فرائض سے متعلق کماحقہ واقفیت نہ ہو،کوئی اپنے فرائض سے متعلق صحیح طور پر عہدہ برآ نہیں ہوسکتا، لہٰذا جب تک علم دین حاصل نہ کیا جائے تب تک دین کے احکام پورا کرنا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام نے حصولِ علم کو مرد وعورت دونوں کے لئے یکساں لازمی قرار دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :

«طلب العلم فريضة علی کل مسلم» (طبرانی :۱۰/۲۴۰)

"یعنی ہر مسلمان مرد (ا ورعورت) پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔"

قرآن کریم اور احادیث ِ نبویہ میں علم کی بے مثال فضیلت بیان کی گئی ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں حصولِ علم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:

﴿إِنَّما يَخشَى اللَّهَ مِن عِبادِهِ العُلَمـٰؤُا...٢٨ ﴾... سورة فاطر

"درحقیقت اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔"

آقاے نامدار پر جو پہلی وحی نازل ہوئی اس کا آغاز بھی لفظ اقرأ(یعنی پڑھو) سے ہوا تھا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ علم والے لوگوں کا مقابلہ علم سے بے بہرہ جاہل لوگ کیسے کرسکتے ہیں۔ اس لئے اسلام نے حصول علم کی بہت تاکید کی۔ مثلاً قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے :

﴿قُل هَل يَستَوِى الَّذينَ يَعلَمونَ وَالَّذينَ لا يَعلَمونَ...٩﴾... سورة الزمر

"ان سے پوچھو! کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں۔"

مندرجہ ذیل ارشادِ نبوی حدیث کی متعدد کتب میں موجود ہے :

"عبادت گزار کے مقابلے میں عالم کو وہی فضیلت حاصل ہے جو چودہویں رات کے چاند کو عام تاروں پر ، علما انبیا کے وارث ہیں، کیونکہ انبیا نے ترکہ میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ علم چھوڑا ہے۔ سو جس نے علم حاصل کرلیا اس نے نبوی ترکہ میں سے وافر حصہ حاصل کرلیا۔"

(صحیح ترمذی للالبانی:۲۱۵۹)

نیز ارشادنبویﷺ ہے:

"عبادت گزار کے مقابلے میں عالم کو وہی فضیلت حاصل ہے جو مجھے تم میں سے ادنیٰ ترین شخص کے مقابلے میں حاصل ہے۔" (ترمذی:۲۶۸۵)

علم کی اہمیت کے بارے میں بطورِ نمونہ چند آیات اور احادیث پیش کی گئی ہیں جن سے علم کی بے پایاں فضیلت ثابت ہورہی ہے۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ علم کے جتنے فضائل بیان ہوئے ہیں، صرف اسی عالم کے لئے ہیں جو خود اپنے علم کا پابند ہے۔ اس پر مکمل عمل کرتا ہے۔ اس علم کے ذریعے اللہ کی رضا جوئی میں مصروف رہتا ہے۔ اس کے اوامر بجا لاتا ہے اور اس کے نواہی سے دور رہتا ہے کیونکہ علم بغیر عمل کے وبال ہوتا ہے۔

اسلام میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام

قبل از اسلام جاہلی معاشروں میں عورت ہر قسم کے حق سے محروم تھی۔ جہاں عورت زندگی کے حق سے ہی محروم ہو، وہاں اس کے پڑھنے لکھنے کے حق کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر اسلام نے جہاں عورت کو اعلیٰ و ارفع مقام دیا وہاں اس پر ایک احسان یہ بھی فرمایا کہ اسے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت میں مردوں کے برابر مکلف قرار دیا۔ چونکہ شریعت ِاسلامی کے مخاطب مرد اور عورت دونوں ہیں۔ دینی احکام دونوں پر واجب ہیں اور روزِ قیامت مردوں کی طرح عورتیں بھی ربّ العالمین کے سامنے جواب دہ ہیں۔ لہٰذا عورتوں کے لئے بھی حصولِ علم جو اُن کو بنیادی دینی اُمور کی تعلیم دے اور احکامِ اسلامی کے مطابق زندگی گزارنے کاڈھنگ سکھائے وہ ان کے لئے فرضِ عین قرا ردیا گیا ہے۔ فرضِ عین سے مراد یہ ہے کہ اسے سیکھنا لازمی ہے اور اگر عورت یا مرد اس میں کوتاہی کرے تو وہ عنداللہ مجرم ہے۔

چنانچہ آنحضور نے ابتدا ہی سے خواتین کی تعلیم کی طرف توجہ فرمائی۔ آپ نے سورة البقرة کی آیات کے متعلق فرمایا:

"تم خود بھی ان کو سیکھو اور اپنی خواتین کو بھی سکھاوٴ۔" (سنن دارمی:۳۳۹۰)

تربیت کے لئے اپنی خدمت میں حاضر ہونے والے وفدوں کو آپ تلقین فرماتے کہ

"تم اپنے گھروں میں واپس جاوٴ، اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہو، ان کو دین کی تعلیم دو اور ان سے احکامِ دینی پر عمل کراوٴ۔" (صحیح بخاری:۶۳) آپ کافرمان ہے:

"جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ، ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی، ان سے حسن سلوک کیا، پھر ان کا نکاح کردیا تو اس کے لئے جنت ہے۔" (ابوداود :۵۱۴۷)

رسولِ اکرم ﷺ کے تبلیغی مشن میں ہفتہ میں ایک دن صرف خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے مخصوص ہوتا تھا۔ اس دن خواتین آپ کی خدمت میں حاضر ہوتیں اور آپ سے مختلف قسم کے سوالات اور روزمرہ مسائل پوچھتیں۔ نمازِ عید کے بعد آپ ان سے الگ سے خطاب کرتے۔ اُمہات الموٴمنین کو بھی آپ نے حکم دے رکھا تھا کہ وہ مسلم خواتین کو دینی مسائل سے آگاہ کیا کریں۔ پھر آپ نے خواتین کے لئے کتابت یعنی لکھنے کی بھی تاکید فرمائی۔ حضرت شفاء بنت عبداللہ لکھنا جانتی تھیں۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ تم اُمّ الموٴمنین حضرت حفصہ کو بھی لکھنا سکھا دو۔ چنانچہ انہوں نے حضرت حفصہ کو بھی لکھنا سکھا دیا۔ آہستہ آہستہ خواتین میں لکھنے اور پڑھنے کا اہتمام اور ذوق و شوق بہت بڑھ گیا۔ عہد ِنبوی کے بعد خلفاے راشدین کے مبارک دور میں بھی خواتین کی تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دی گئی۔ حضرت عمر بن خطاب نے اپنی مملکت کے تمام اطراف میں یہ فرمان جاری کردیا تھا :

«علِّموا نساوٴکم سورة النور...» ( الدر المنثور:۵/۱۸)

" اپنی خواتین کو سورة النور ضرور سکھاوٴ کہ اس میں خانگی زندگی اور معاشرتی زندگی کے متعلق بے شمار مسائل واَحکام موجود ہیں۔"

تعلیم نسواں کی اہمیت

اسلا م میں تعلیم نسواں کے بارے میں کبھی دو رائیں نہیں ہوسکتیں۔ ایک ہی محکم اور پختہ حکم ہے اور وہ ہے عورتوں کو زیورِ تعلیم سے لازماً آراستہ کرنے کا کیونکہ بے علم اور جاہل عورت معاشرے کی پسماندگی اور ابتری کا باعث بنتی ہے۔ جاہل عورتوں کو نہ کفر وشرک کی کچھ تمیز ہے، نہ دین و ایمان سے کچھ واقفیت۔ اللہ اور رسول کے مرتبہ و مقام سے ناواقف بعض اوقات شانِ خداوندی میں بڑی گستاخی و بے ادبی سے گلے شکوے کرتی رہتی ہیں۔ اسی طرح شانِ پیغمبری میں بڑی بے باکی سے زبان طعن دراز کرتی ہیں۔ احکامِ شرعیہ کی حکمت اور افادیت سے واقف نہ ہونے کی بنا پر اُلٹی سیدھی باتیں کرتی ہیں، اس کے برعکس ہر طرح کے فیشن، بے حجابی و عریانی اور فضول رسم و رواج کے پیچھے بھاگتی ہیں، اولاد و شوہر کے بارے میں طرح طرح کے منتر جھاڑ پھونک اور کالے علم میں ملوث ہوتی رہتی ہیں۔ شوہروں کی کمائی اسی طرح کے غلط اور باطل کاموں میں ضائع کردیتی ہیں۔ شوہر سے ان کی بنتی ہے نہ سسرالی رشتہ داروں سے، انہیں اپنے بہن بھائیوں، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے حق حقوق کی ذرا خبر نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس لڑائی جھگڑا اور گالی گلوچ، زبان درازی و لعن طعن کرکے سب سے بگاڑ کر خوش رہتی ہیں۔ زیور، کپڑے کے ناجائز مطالبوں سے ہر وقت شوہر کا ناک میں دم کئے رکھتی ہیں۔ بالآخر اس کو حرام کمائی میں ملوث کرکے چھوڑتی ہیں۔ وقت کی بھی ان کو قدر نہیں ہوتی۔ فضول باتوں میں ، لعن طعن میں، غیبت اور گالم گلوچ میں سارا وقت برباد کردیتی ہیں۔

غرض عورتوں کی جہالت کے کون کون سے نقصانات گنوائے جائیں: شوہر، بچے، گھر، اللہ کی دی ہوئی نعمتیں، کسی بھی بات کا ان کو احساس نہیں ہوتا۔ ان کی زندگی قرآن پاک کے الفاظ ہیں خَسِرَالدُّنْيَا وَالآخِرَةِ کا مصداق ہوتی ہے، یعنی ان کی دنیا بھی برباد اور آخرت بھی تباہ ہوگئی۔ اس طرح کی خواتین یقینا معاشرے کی تباہی وبربادی کا ہراول دستہ ثابت ہوتی ہیں کہ اپنی گودوں میں پلنے والی اولاد کی تربیت ہی نہ کرسکیں۔ جیسی گنوار خود تھیں ، ان کی اولاد یعنی نسل نو بھی اسی طرح گمراہ، جاہل اور گنوار ثابت ہوئی۔ اس طرح وہ قوم کو جرائم کی دلدل میں پھنساتی چلی جاتی ہیں۔

اس کے برعکس علم دین رکھنے والی خاتون صحیح اور غلط، حق اور باطل، جائز اور ناجائز کی حدود کو جانتی اور پہچانتی ہے اور وہ اپنی زندگی کے پیش آمدہ مسائل کو خوش اُسلوبی سے نمٹا لیتی ہے۔ یہ علم دین اس کو شائستہ اور مہذب بناتا ہے ۔ وہ اپنے بچوں کی بھی صالح تربیت کرکے صالح معاشرہ تعمیر کرنے کا باعث ثابت ہوتی ہے۔

تعلیم نسواں اور مغربی تعلیم

اہل مغرب نے آج سے دو صدیاں قبل تعلیم نسواں کا نعرہ بلند کیا، اس سے پہلے مغربی خاتون حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کررہی تھی۔ سب سے پہلے نپولین نے نعرہ بلند کیا

"مجھے پڑھی لکھی مائیں دو، میں تم کو ترقی یافتہ قوم دوں گا۔"

اس کے اس نعرہ کو عورتوں کے حقوق کے سلسلے میں بڑا بنیادی اور انقلابی قرار دیا گیا۔ تعلیم نسواں کے اس نعرہ نے آہستہ آہستہ پیش رفت کی تو وہ ترقی نسواں، حقوقِ نسواں اور پھر مساواتِ مرد وزن کے مختلف مدارج طے کرتا چلا گیا۔ چونکہ اہل مغرب خود اپنے مذہب سے بیگانہ ہوچکے تھے۔ ان کے معاشرے سیکولر، لبرل اور مادّی ہوتے جارہے تھے۔ اس کے زیر اثر مغربی عورت کو مردوں کی جکڑ بندیوں اور ظلم وجور سے قدرے آزادی نصیب ہوئی۔ اس نے مردوں کی طرح تعلیم حاصل کی۔ مخلوط ماحول میں تعلیم پانے کے بعد مخلوط ماحول میں اپنی زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے ملازمت کرنے لگی۔ بے خدا تعلیم، بے مقصد زندگی، سیکولر ماحول اور اختلاطِ مرد وزن، فحش فلمیں، گندی تصاویر اور مخرب اخلاق لٹریچر اور عریاں لباس ان سب عوامل نے مل کر عورت کو بالکل گمراہ اور بے راہرو کردیا۔

پھر اس بے راہرو عورت نے مساواتِ مرد وزن کا نعرہ بلند کیا۔ آہستہ آہستہ مردوں کے خلاف محاذ کھولا گیا۔ عورتوں کو شادی، شوہر، بچے اور گھر کے خلاف اُکسایا گیا۔ ہم جنس پرستی عام ہوگئی۔ گھر بے آباد ہوگئے۔ مرد نے عورت کا خرچ اُٹھانے سے انکار کردیا۔ اب مرد صرف اپنے لئے کمائے اورعورت اپنے لئے۔ غرض اس تصورِ تعلیم کے ساتھ مغرب میں جو عورت بگاڑ تحریک شروع ہوئی، اس نے معاشرے کو جڑسے کھوکھلا کردیا۔ فواحش کثرت سے پھوٹ پڑے۔ طلاقوں کی کثرت ہوگئی، جنسی امراض کی زیادتی نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بچے نرسیوں میں پل کرجرائم پیشہ اور وحشی بننے لگے اور اب مغرب کا ماحول مکمل طور پر نسوانیت زدہ ہے۔ ناچنے گانے اور مرد کا دل لبھانے کے لئے ہر جگہ اور ہر پلیٹ فارم پر عورت موجود ہے لیکن اس کا اصل مقام یعنی گھر اُجڑ چکا ہے۔

دوسری طرف مغربی معاشرے میں ذمہ دارانہ عہدوں پر عورتوں کو آج بھی تعینات نہیں کیا جاتا۔ تیسری طرف عورتوں کی تنخواہیں آج بھی مردوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ یہ ہے اس مغربی تعلیم نسواں کا اثر کہ اس نے مغربی معاشرہ کو ہر طرح سے نقصان ہی پہنچایا ہے اور عورت بالکل شتر بے مہار ہوگئی ہے۔ جو سر عام جنسی ورکر کے طور پر پیسہ کمانے میں مصروف ہے۔

مغرب کا اصرار

آج مغربی تہذیب دنیا میں بالادست ہے۔ اس لئے اہل مغرب مختلف حیلوں سے اسی مغربی بے خدا تعلیم اور ملحدانہ افکار کو اسلامی معاشروں میں رائج کرنا اپنا فرضِ اوّلین سمجھتے ہیں۔ وہ برابر دو صدیوں سے اس کام میں مصروف ہیں۔ لارڈ میکالے کے نظامِ تعلیم نے مسلمانوں کے اندر دین بیزاری اور الحاد کے بیج بونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آغاز میں مسلم اہل درد مفکرین و دانشوروں نے خواتین کو مغربی تعلیم کے زہریلے اثرات سے بچانے کی بہت کوشش کی۔ علامہ اقبال نے بہت درد مندی سے قوم کو انتباہ کیا :

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازَن      کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت


لیکن مسلمان اپنی سیاسی، ایمانی اور اخلاقی کمزوریوں کے باعث اہل مغرب کے سامنے پسپا ہوتے چلے گئے۔ مغربی تعلیم یافتہ مسلمان اسلامی معاشرہ میں اہل مغرب کے لبرل اثرات کو تعلیم نسواں کے پردے میں پھیلانے میں مصروف ہوگئے۔

پاکستان اگرچہ اسلام کے نام پر ہی دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا تھا لیکن عملاً یہاں اسلامی نظامِ حکومت رائج ہونا تو کجا، اسلامی نظام تعلیم بھی پاکستان کی نوزائیدہ اسلامی مملکت میں آج تک رائج نہیں ہوسکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ خود ہماری درسگاہیں مغربی تہذیب اور ان کے افکار کو وطن عزیز میں مقبول و معروف بنانے میں مصروف ہیں۔ تعلیمی ادارے ناچ گانے، رقص اور موسیقی سکھانے کے مرکز بن چکے ہیں۔ موسیقی کی تعلیم باقاعدہ نصاب کا حصہ قرار دی جارہی ہے۔ مینا بازار، ڈریس شوز اور ورائٹی شوز سونے پر سہاگہ ہیں ...بقول ماہر القادری مرحوم

قوم کی وہ بیٹیاں جن کو بننا تھا بتول      مدرسوں میں سیکھتی ہیں ناچ گانوں کے اُصول


ہمارے ذرائع ابلاغ بھی اسی مغربی ماحول کو پاکستان میں متعارف کروانے میں دن رات کوشاں ہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، انٹرنیٹ، جرائد و اخبارات صبح و شام فحش گانے، گندی فلمیں اور ننگی تصویریں دکھا رہے ہیں۔ اوپر سے این جی اوز کی اشاعت ِتعلیم کے نام پر مسلمان معاشروں میں اسلامی تعلیم اور تہذیب کے خلاف جدوجہد۔ پھر عورت کے حقوق کے نام پر منعقد ہونے والی یو این او کی کانفرنسزجن میں ان کے اپنے دیے گئے ایجنڈے پر عمل درآمد کے سلسلے میں باقاعدہ رپورٹ طلب کی جاتی ہے، عدمِ اطاعت کی شکل میں ایسے ممالک پر معاشی پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ اور میڈیا کے ذریعے لعن طعن اور دشنام طرازی کے ذریعہ ان کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض مغربی تہذیب کو اسلامی ممالک میں مقبول وہردل عزیز بنانے کے لئے اہل مغرب اپنے تمام لاوٴ لشکر اور وسائل سمیت مسلم ممالک پر حملہ آور ہیں۔ یہ مغربی یلغار اتنی جارحانہ اور شدید ہے جبکہ مسلم ممالک اپنی ایمانی واخلاقی کمزوریوں کے باعث اس کے آگے پسپا ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کوئی مسلمان حکمران ایسا نہیں جو ان کے مقابل اسلام کے معاشرتی و خاندانی نظام کا دفاع کرسکے!

اب اہل مغرب کا دعویٰ یہ ہے کہ کسی دور میں اسلام نے عورت کو واقعی حقوق دیے تھے، مگر وہ تو اب فرسودہ بات ہوچکی۔ آج کے دور میں وہ تہذیب اور تعلیم بے کار ہے۔ آج ترقی کے مدارج طے کرنے کے لئے تمہیں عورتوں کو گھر کی چاردیواری سے نکالنا ہوگا۔اس کو گھر داری کے روایتی کردار کے بجائے معاشی و سیاسی میدانوں میں اپنا برابر کاحصہ ڈالنا ہوگا۔ ہر عورت کمائے،آخر یہ پچاس فیصد آبادی کیوں بیکار گھروں میں پڑی رہے۔ پھر خواتین ملکی سیاست میں بھی پچاس فیصد نمائندگی کریں۔ اگر پچاس فیصد ممکن نہیں تو کم از کم ۳۳ فیصد؛ یعنی عورت کی سیاسی اداروں میں شرکت ۳۳ فیصد لازمی ہونی چاہئے۔ عورت اور مرد کے لئے الگ الگ ادارے بنانے کا کون سا جواز ہے۔ ہر جگہ مرد اورعورتیں مل کر پڑھیں اور کام کریں۔ غرض ہر جگہ اور ہر پلیٹ فارم پر عورت بنی سجی مردوں کے پہلو بہ پہلو موجود، اپنی معاش خود کمانے میں مشغول ہو۔ وہ والدین کی سرپرستی سے نکل کر اپنے نکاح، طلاق اور ملازمت وغیرہ کے مسائل خود ہی طے کیا کریں۔ ہر عورت کو اتنا بااختیار ضرور بنانا چاہئے کہ اس پر والدین، باپ، شوہر ، بھائی وغیرہ کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ رہے۔

چنانچہ آج اہل مغرب کی طرف سے اسلام پر عورت کے حوالے سے بے شمار اعتراضات کئے جارہے ہیں۔ وہ فلموں، پرنٹ میڈیا، ٹی وی وغیرہ پر ہر وقت اسلام کی معاشرتی تعلیمات پر طعن کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا یہی اہل مغرب کا تعمیر قوم کا تصور ہے کہ عورت اپنے بنیادی فرائض اور خانگی اُمور کو چھوڑ کر کمانے کے لئے گھر سے باہر نکل آئے اور دوسری طرف گھر میں ماں بچے، شوہر اور بیوی میں کشمکش شروع ہوجائے۔ بقول علامہ اقبال

کیا یہی ہے فرنگی معاشرے کا کمال      مرد بے کار و زن تہی آغوش


مغرب کی اس جارحانہ یلغار کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم ممالک کی خواتین دوراہے پر کھڑی ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو تیز ی سے یہ مغربی اثرات قبول کرکے برقع، پردہ بلکہ دوپٹہ کی قید سے بھی آزاد ہوچکی ہیں۔ وہ بن سنور کر اس طرح عریاں انداز میں تعلیمی اداروں میں پڑھنے اور پڑھانے کے لئے جاتی ہیں،گویا ابھی ابھی کوئی دلہن بیوٹی پارلر سے آرہی ہو۔ سادگی اور قناعت رخصت ہوتی جارہی ہے۔ کپڑے، زیور اور میک اَپ کے سامان پر خواتین کے بے شمار اِخراجات ہورہے ہیں۔ وہ ساتھ ساتھ بے پردگی پھیلانے کے لئے باقاعدہ مبلغ کا کام بھی کرتی جاتی ہیں۔ وہ قرآن و حدیث کے صریح احکام کی خلاف ورزی نہ صرف خود کرتی ہیں اور پھر ان کو فخر سے بیان کرتی ہیں بلکہ حجابِ شرعی کی پابندی کرنے والی خواتین کو لعنت وملامت کرتی رہتی ہیں۔ اس طرح ان کوبھی غیرتِ ایمانی سے بے گانہ اور اطاعت ِالٰہی کی حدود سے خارج کروانے کی مہم جاری رکھتی ہیں۔

این جی اوز نے تو نوخیز طالبات کو 'عشق بازانہ نکاح' یعنی لو میرج کرنے کی اتنی کثرت سے ترغیب دلائی ہے کہ یونیورسٹیاں اور مخلوط تعلیمی ادارے اس کی وقتاً فوقتاً مثالیں پیش کرتے رہتے ہیں۔ ایک بچی نے بڑی معصومیت سے اپنے کلاس فیلو کے ساتھ نکاح کرنے کا پروگرام جب اپنی ایک سہیلی کو بتایا تو اس دین دار سہیلی نے اس کو اس کے خراب انجام سے ڈرانے کی کوشش کی تو آگے سے نکاح کا ارادہ رکھنے والی طالبہ نے جواب دیا ۔ لو، اس میں ایسی کون سی مشکل بات ہے۔ دن بھر ہم گھوم پھر لیا کریں گے، پھر وقت ِمقررہ پر میں گھر چلی جایا کروں گی والدین کو پتہ ہی نہیں چلے گا لہٰذا مجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یہ واقعہ مجھے پھر اس کی سہیلی نے بتایا ۔ ہم نے اس کو سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنے ارادے کو پورا کرنے پر مصر رہی۔ بات اس سے کہیں آگے بڑھ چکی ہے۔

گینگ ریپ،یعنی اجتماعی آبرو ریزی کے بیشتر واقعات اب پیش آنے لگے ہیں۔یہ کتنی گھمبیر صورت حال ہے۔ دراصل مغرب کی دی ہوئی مخلوط تعلیم کے یہ نتائج تو نکلنے ہی ہیں۔ جب عورتیں مردوں والا نصاب مردوں کے ماحول میں پڑھتی ہیں تو ہر وقت کلاس روم میں مسابقت کی فضا برقرار رہتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ایک تو وہ مساواتِ مرد و زن کا سبق سیکھتے رہتے ہیں۔ خواتین کی نسوانیت رخصت ہونے لگتی ہے۔ زنانہ ذمہ داریاں ان کو حقیر محسوس ہونے لگتی ہیں اور صرف مردانہ کام اور ذمہ داریاں انجام دینے کی خواہش ان میں انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ مگر فطرت کے داعیات تو ہر صورت موجود رہتے ہیں جو ہر وقت سر اُٹھاتے رہتے ہیں۔ چنانچہ اس مخلوط ماحول میں ہر وقت ہوس رانی کی آگ لگی رہتی ہے اور عشق و محبت کے سینکڑوں واقعات روزانہ دہرائے جاتے ہیں۔

مغربی تعلیم کا مقصد

اہل مغرب کے پیش نظرچونکہ ہر کام کا مقصد ومنشا مادّی اغراض ہوتی ہیں، لہٰذا مغرب میں تعلیم دینے کا مقصد محض اور محض مادّی ہوتا ہے۔ وہ انسان کو صرف معاش کمانے اور خواہشات کی تسکین کا مقصد دیتا ہے۔ لہٰذا وہ معاوضے کو بھی تن +خواہ (یعنی جسم کی خواہش اور ضرورت) قرا ردیتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں میں بھی مغربی تعلیم بیش قیمت ملازمتوں کے حصول کے پردے میں دی گئی۔ پہلے ان پر کاری وار کرکے ان کے معاش کے دروازے بند کئے گئے۔ پھر اپنی تعلیم کے ذریعے ان کو ملازمتوں کا فریب دیا گیا۔

آج کل گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ امریکہ تمام دنیا سے اپنے معاشی فوائد سمیٹنا چاہتا ہے، اس کامنشا یہ ہے کہ WTO ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت جب وہ مسلم ممالک میں داخل ہوں وہاں اسے اپنی مصنوعات کی خاطر سستی لیبر مل سکے۔ وہ اسی صورت میں ممکن ہے جب خواتین گھروں سے باہر ملازمتوں کے حصول کے لئے موجود ہوں۔ اگر عورتیں پردہ دار اور گھروں میں بیٹھنے والی ہوں تو ان کے مفادات پورے نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ وہ اپنے معاشی مفاد کی خاطربھی عورتوں کو گھروں سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔

اسی چیز کو علامہ اکبر الہ آبادی نے کتنی خوبصورتی سے یوں بیان کیا ہے

مذہب چھوڑو، ملت چھوڑو، صورت بدلو، عمر گنواوٴ
صرف کلرکی کی اُمید اور اتنی مصیبت توبہ ! توبہ!


گویا اہل مغرب کا تعلیم نسواں کا مقصد بھی اسلام کے مقصد سے یکسر متصادم اور مختلف ہے۔ لہٰذا نتائج بھی مختلف ہونے لازمی ہیں۔اس وقت مغربی تعلیم یافتہ طبقے میں صرف مال زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کا ایک جنون طاری ہے۔ اعلیٰ گھر، بیش قیمت فرنیچر، نئے ماڈل کی گاڑی، سٹیٹس کا حصول، غرض مادّی مفادات کی دوڑ لگی ہے۔ حلال و حرام سے بے نیاز، رشوت، سود، کرپشن کا بازار گرم ہے۔ نظروں میں پیرس، لندن، واشنگٹن اور نیویارک سمائے ہوئے ہیں۔ بچوں کو دھڑا دھڑ وہاں تعلیم کے حصول کے نام پر بھیجا جارہا ہے۔ دوسری طرف غیروں کے رسوم رواج بڑی تیزی سے اپنائے جارہے ہیں۔ کھانے پینے، چلنے پھرنے، ملنے ملانے کے وہی مغربی انداز ہیں۔ پتنگ بازی اور ویلنٹائن ڈے جیسی بے ہودہ رسومات کو ہماری ثقافت کا حصہ بنایا جارہا ہے جبکہ اسلامی شعائر تضحیک اور طعن و تشنیع کا نشانہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں بن رہے ہیں۔ کہیں ایک غیر مسلم اور ایک مسلمان طالبہ کھڑی ہوں تو دونوں کا لباس اور گفتگو کا انداز بالکل یکساں ہوگا۔ یہ پہچاننا مشکل ہے کہ ان میں سے کوئی مسلمان بھی ہے یا نہیں؟ آخر ایسا کیوں نہ ہو جب دینی تعلیم کا کوئی بندوبست نہ ہو، تعلیمی ادارے یہی ماحول سکھائیں۔ بچے ٹی وی کی دھنوں پر سوئیں اور ٹی وی کی آغوش میں آنکھیں کھولیں۔ گھر میں کوئی ان کو نماز یا قرآن پڑھتا نظر نہ آئے، کوئی اسلام کے حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا، اور ثواب کا درس دینے والا نہ ہو تو پھر یہ نتیجہ نکلنا لازمی ہے۔

تعلیم نسواں کا مقصد

تعلیم نسواں کی اسلام نے بہت تاکید کی ہے اور مغربی تہذیب بھی تعلیم نسواں پر بڑا زور دیتی ہے مگر دونوں کے مقاصد میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ مقاصد مختلف ہونے کی بنا پر دونوں تعلیموں کی نوعیت و کیفیت بھی جداگانہ ہے۔

تعلیم نسواں سے متعلق اسلام کے مقاصد


صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک اہم حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"سنو! تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے (روزِقیامت) اپنی اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔ ایک مرد اپنے گھر والوں کا نگران ہے۔ اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی نگران ہے، اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا۔ غلام اپنے آقا کے مال کا نگران ہے وہ اس کے بارے میں جواب دہ ہے۔ سنو! تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور اس سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔" (بخاری:۸۹۳)

عورت پر شوہر اور اولاد کی ذمہ داریاں

(1) قرآن پاک میں نیک عورت کی ذمہ داریوں اور فرائض کاذکر اس طرح ہوتا ہے :

﴿فَالصّـٰلِحـٰتُ قـٰنِتـٰتٌ حـٰفِظـٰتٌ لِلغَيبِ بِما حَفِظَ اللَّهُ...٣٤﴾... سورة النساء

"جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں، مردوں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت ونگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔"

(2) اسی طرح سورة الروم آیت نمبر ۲۱ میں ارشاد ہوتا ہے :

"اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقینا ً اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔"

مندرجہ بالا دونوں آیات اور حدیث ِنبوی سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت شوہر کی فرمانبردار ہو اس کے مال، گھر، اولاد کی بخوبی حفاظت کرے اور گھر کو اپنے مکینوں کے لئے باعث ِآرام وسکون بنا دے۔ نبی کریم ﷺ نے قریش کی خواتین کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:

"قریش کی نیک عورتیں بھی خوب ہیں، ان میں دو باتیں ایسی ہیں جو دوسروں میں نہیں۔ ایک تو وہ اپنے بچوں پر خوب شفقت کرتی ہیں ۔ دوم اپنے خاوند کے مال کی حفاظت کرتی ہیں۔" (بخاری :۵۳۶۵)

اس لحاظ سے عورت کی تعلیم ایسی ہونی چاہئے جو اس کو صالح بیٹی، وفا شعار بہن، فرمانبردار بیوی اور باکردارو ہمدرد ماں بنا سکے۔ ابتدائی تعلیم بہت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ ابتدائی پانچ سال میں ایک لڑکے اور ایک لڑکی کی ابتدائی تعلیم اسلامی نکتہ نظر سے یکساں ہونی چاہئے، یعنی ہرمسلم بچے کو یہ سبق دینا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کاخالق و مالک ہے۔ اس نے اپنی تمام مخلوق کے رزق کا ذمہ لے رکھا ہے اور ہم سب اس کے بندے ہیں، ہمیں اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا لازم ہے۔ پھر ہر مسلمان بچے کے دل میں عقیدئہ توحید، عقیدہ رسالت، عقیدہ آخرت اور قرآن و سنت کی اہمیت و راسخ کی جائے۔ کفر، شرک اور دہریت یا سیکولرزم کے باطل ہونے کا نقش ان کے دل میں بٹھایا جائے۔ پھر ان کو نیکی اور بھلائی کے کاموں کی پہچان کروائی جائے۔ سچائی، صفائی، وقت کی پابندی، محبت، ہمدردی اور ایثار کا سبق دیا جائے۔ افرادِ خانہ کے ساتھ مروّت سے پیش آنے کا عملی درس والدین اپنے روزمرہ معمولات سے ان کو مہیا کریں۔ پھر طہارت و پاکیزگی کے احکام، وضو کا طریقہ، نماز اور روزے کی ادائیگی، حلال و حرام کے ابتدائی حدود، والدین، رشتہ داروں اور ہمسایوں کے حقوق، شائستہ لباس کے انداز اور معاشرتی زندگی کی پسندیدہ عادات و اطوار ان کو اس طرح ذہن نشین کروائے جائیں کہ وہ اس ابتدائی تعلیم و تدریس کی بنا پر ستھری اور پاکیزہ اسلامی زندگی بسر کرسکیں۔

اس ابتدائی تعلیم کی بیشتر بنیاد گھر میں ہی رکھی جاتی ہے کہ ماں کی گود معصوم بچے کا اوّلین مدرسہ ہے۔ وہی اپنے گھر کی عملی مثالوں سے بچے کو کفروشرک ، گمراہ کن عقائد اور فضول رسوم ورواج سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

بعدازاں طالبات کے لئے ثانوی تعلیم اس طر ح کی ہونی چاہئے جس میں عربی زبان کی تدریس لازمی ہو تاکہ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر سمجھنا اور ان کے لئے ممکن ہوسکے۔ وہ اپنے پیارے نبی کی احادیث کو پڑھ سکیں تاکہ اس سے ان کے عقائد اور اخلاق میں نکھار پیدا ہو۔ انہیں صالحین کے کردار سے آشنائی ہو ۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور رسولوں کی عدمِ اطاعت کے نقصانات سے وہ واقف ہوسکیں حیا کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔ عفت و پاکدامنی اور ستر وحجاب کے حدود سے ان کو آگاہ کیا جائے۔ کم ا زکم وہ دین کے بنیادی مسائل اس حد تک سیکھ لیں کہ صحیح اسلامی زندگی گزار سکیں، پھر ان کو انبیا کرام کی تاریخ پڑھائی جائے اپنے اسلاف کی تاریخ سے آگاہی دی جائے۔ عہد ِنبوی اور خلفاے راشدین کی تاریخ سے واقفیت ہو تاکہ بچے کے دل پر یہ نقش گہرا پختہ اور مضبوط ہوجائے کہ صرف نیک اور صالح لوگ ہی دنیا میں تعمیر اور ترقی کا کام سرانجام دے سکتے ہیں اور بنی نوع انسان کی خدمت کرسکتے ہیں جبکہ ظالم اور جابر لوگ تو ہمیشہ دنیا میں فساد اور تباہی و بربادی کا باعث ہی بنتے رہے ہیں۔ یہ بات بھی ان کے ذہنوں میں راسخ کردی جائے کہ صرف اسلام ہی ان کی فلاح کاضامن ہے۔

خواتین کے لئے الگ نصابِ تعلیم

خواتین کیلئے ایسی تعلیم لازمی٭ ہے جوبچوں کی پرورش، تربیت اور سیرت سازی میں معاون ثابت ہوسکے۔ لہٰذا اسکو وہ اُمور ضرور سیکھنے چاہئیں جو ساری عمر گھر میں انجام دینے ہیں مثلاً:

(1) خانہ داری: میسر وسائل میں غذائیت سے بھرپور کھانا تیار کرنا۔

(2) گھر کی ضرورت کے مطابق سلائی کٹائی اور بیکار چیزوں کو کارآمد بنانا، پھٹے کپڑوں کو پیوند لگا کر دوبارہ قابل استعمال بنانا۔

(3) موسم کے مطابق ستر کی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے لباس تیار کرنا، پھر لباس پہننے کا سلیقہ بھی ہو، تاکہ صفائی ستھرائی سے کم قیمت لباس کو بھی دیدہ زیب بنا سکے۔

(4) گھر کی صفائی ستھرائی اور آرائش میں سلیقہ اور ترتیب کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کم قیمت مگر سلیقہ سے رکھا ہوا سامان بیش قیمت، مگر بے ترتیبی سے رکھے گئے سامان کے مقابلے میں زیادہ دیدہ زیب اور خوبصورت معلوم ہوتا ہے۔ جبکہ عورت کابے سلیقہ اور پھوہڑ ہونا پورے گھر کو منتشر اور خراب کردیتا ہے۔

(5) گھر کا بجٹ تیا رکرنا: اپنی چادر کے مطابق پاوٴں پھیلانا تاکہ کسی سے ادھار مانگنے کی نوبت پیش نہ آئے۔ ضروری اور اہم چیزوں کو ترجیح دینا، تعیش اور سجاوٹ کی اشیا کو نظر انداز کرنا ضروری ہے۔

(6) گھر کا اس طرح بندوبست کرنا کہ ہر ایک کے لئے گھر میں سکون و اطمینان میسر ہو، ہر ایک کی ضرورت و ترجیحات کو سامنے رکھ کر ان کو آرام مہیا کیا جائے۔ بیمار کی تیمار داری ہو، بچوں کو پڑھانے کا بندوبست ہو۔ افرادِ خانہ باہم پیار و محبت اور حسن سلوک سے پیش آئیں کہ قرآن پاک نے گھر کی اہم صفت اس کا سکون و اطمینان ہونا ہی بتائی گئی ہے۔لہٰذا عزیزوں،رشتہ داروں اور ہمسایوں سے خوشگوار تعلقات قائم رکھنے کا سلیقہ بھی عورت کو سکھایا جانا چاہئے۔

(7) ابتدائی طبی امداد یا فرسٹ ایڈ اور مریضوں کی تیمار داری وغیرہ

(8) بجلی کی گھریلو استعمال کی اشیا کو ٹھیک کرنے کے لئے ابتدائی واقفیت بھی ضروری ہے۔

(9) عورتوں کو فوجی ٹریننگ بھی اتنی ضرور دی جانی چاہئے کہ وہ اپنا دفاع اور تحفظ کرسکیں۔ ضرورت کے وقت ان کو پریشانی نہ اُٹھانا پڑے۔

اعلیٰ تعلیم

مندرجہ بالا تعلیم کے علاوہ جو خواتین مزید تعلیم حاصل کرنا چاہئیں، ان کے لئے تدریس اور طب کے شعبے موجود ہیں، وہ علم و ادب کے میدان میں بہت آگے بڑھ سکتی ہیں۔ نرسنگ اور ہوم اکنامکس کے کورس حاصل کرسکتی ہیں۔ ایسے کام جو گھریلو حدود کے اندر انجام دیے جاسکتے ہوں ، ان کاعورت کو علم ہونا چاہئے۔ان نصابات میں عورت کی نفسیات، شخصیت اور فطری فرائض کو پیش نظر رکھنا بڑا ضروری ہے مثلاً یہ کہ

(1) خواتین کا منصب اور ان کے حقوق و فرائض

(2) دائرئہ زوجیت اور فریضہ مادریت کے بارے میں اسلامی حکمت عملی

(3) عہد ِنبوی سے لیکر دورِ حاضر تک خواتین کی دینی، علمی، ادبی، ملی، رفاہی اور تعلیمی و تصنیفی سرگرمیاں

(4) ترقی نسواں اور مساواتِ مرد و زن کے نظریہ کا تنقیدی جائزہ

(5) پردے کے موضوع پر عقلی تجربات اور مشاہدے کی روشنی میں دینی احکام کی حکمت اور مصلحت

(6) مذاہب ِعالم اور اسلامی علوم کا تقابلی مطالعہ اور اسلام کی فوقیت و برتری

غرض قرآن و سنت کا گہرا شعور دینا اورنبی پاک کی سیرتِ طیبہ کو زندگی کا محور و مرکز بنا دینا لازمی ہے۔ایسے ہی خواتین کے مسائل اور موضوعات پر ان کو مہارت ہونی چاہئے۔

ملازمت

پھر جو خواتین اپنے دائرہ کارکے اندر مناسب ملازمت کرنا چاہیں، لازمی ہے کہ وہ پردہ اور حجاب کی شرط کو ملحوظ رکھیں۔ سادگی اور وقار سے اپنے بیرونِ خانہ فرائض انجام دیں۔ مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عورت کا بہرحال دائرہ کار اس کا گھر، اس کا شوہر، بچے اور دیگر افرادِ خانہ ہیں۔ گھر کے نقصانات کی قیمت پر بیرونِ خانہ ملازمت اسلام کے طے شدہ پروگرام کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں اس کی عفت و عصمت محفوظ و مامون رہے۔ اگر کبھی حیا و عفت پر کوئی گندی چھینٹ پڑگئی تو یہ بہت بڑا نقصان ہوگا۔

مطلوبہ لائحہ عمل

ہمارا میڈیا، سرکاری شعبہ اور مغربی لابی تو وطن عزیز کے ماحول کومغرب کے رنگ میں رنگنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں یہ کام دینی تحریکوں کا ہی ہوسکتا ہے کہ وہ عورت بگاڑ پروگرام کے لئے انسدادی تدابیر کریں۔

الحمد للہ! وطن عزیز کا متدین اور درد مند طبقہ ہر دور میں اپنے فرائض کو ادا کرنے میں کوشاں رہا ہے۔ آج بے شمار زنانہ مدارس اس سلسلے میں اپنے فرائض ادا کرنے میں کوشاں ہیں۔ اور خواتین کو دشمن کی پُرفریب چالوں سے بچ کراسلام کے سایہ امن و عافیت میں پناہ لینے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اس طرح ۱۹۸۰ء سے مسلم تحریکوں کی طرف سے مثبت پیش رفت ہورہی ہے۔ ہمیں اس بات کا شدید احساس ہے کہ مغربی لابی کا وار بڑا کاری ہے۔ ان کی پشت پر بے شمار وسائل ہیں، ہمارا سرکاری میڈیا بھی ان کی پشت پناہی کررہا ہے۔ سب سے بُری بات یہ کہ یو این او ان کو ہر طرح کی مادی اور اخلاقی مدد فراہم کررہی ہے۔

ہمارے پاس بے شک وہ وسائل نہیں مگر ہمیں یہ یقین کامل حاصل ہے کہ اقوام عالم کے عروج و زوال میں یہ با ت یکساں رہی ہے کہ جب عورت اپنے صحیح مقام پر فائز ہوئی اور اس نے اپنے فطری فرائض ذمہ داری سے ادا کئے تو زندگی کے تمام شعبوں کے لئے معاشرے کو مہذب قابل اور محنتی افراد بکثرت میسر آئے پھر ان پر خوشحالی اور برکت کے باب کھلتے چلے گئے اور یہ سب کچھ تبھی ہوسکتا ہے جب ہر مرد اور ہر عورت دینی تعلیم سے آراستہ اور اس پر کاربند ہو۔ عورت کا احترام سے محروم ہونا اور بچوں کا ماں سے محروم ہونا کسی بھی معاشرہ کی نہایت ابتر حالت ہے۔ جب گھر والی گھر میں نہ رہے بلکہ کمانے کے لئے نکل کھڑی ہو تو اس سے گھر میں جو بدنظمی اور انتشار ہوگا، اس سے زندگی کی اعلیٰ قدریں قدم قدم پر پامال ہوتی ہیں اور معاشرے میں امن وسکون عنقا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا عورت کو اس کا صحیح احترام ملنا بھی نتیجہ ہوتاہے ؛ عورت کی صحیح دینی تعلیم اور درست انداز فکر کا...

قرآن و سنت کی تعلیم ہمیں ا س یقین کامل سے مالا مال کررہی ہے اور تجربہ و مشاہدہ اس کی پشت پر مہر تصدیق ثبت کررہا ہے کہ شریعت سکول کالج کا وسیع نیٹ ورک ہی ہمارے لئے کامیابی کی راہیں کھولے گا اور ہماری خواتین کے مسائل حل کرے گا۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ہم اپنی مساعی کو زیادہ وسیع پیمانے پر پھیلائیں۔ ایسے شریعت سکول کالج زیادہ سے زیادہ پیمانے پر وجود میں آئیں جو اسلامی تعلیم کو اپنے روزمرہ نصاب کا حصہ بنائیں۔ جن کے ماحول اسلامی ہوں، ستروحجاب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر ان کونصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔پرائیویٹ ٹی وی چینل، جرائد و اخبارات اور پریس کانفرنسز میں عورت کی دینی تعلیم پر زور دیا جائے۔

ہمارے استاد، علما ، صحافی ، سیاستدان اور دیگر سب لوگ مل کر یہ تحریک برپا کریں کہ عورت کو وہ مقام اور حقوق دے دیے جائیں جو اس کو اسلام نے دیئے ہیں۔ اس غرض کے لئے مغربی نظریہ کا فریب سب پر واضح کرنا چاہئے کہ یہ عورت کے حق میں بلکہ خود معاشرے کے حق میں بھی زہر قاتل ہے۔ اس کے برعکس اسلام کا دیا ہوا نظام نہ صرف مسلمان عورت کے لئے بلکہ دنیا بھر کی غیرمسلم عورتوں کے لئے بھی بہت دلکشی اور جاذبیت رکھتا ہے اور معاشی لحاظ سے بھی یہی نظام مسلمان معاشرے کے حق میں مفید و معاون ہے۔ اس نظام سے صرف چند مٹھی بھر اوباش فطرت اور آوارہ مزاج خواتین کو پریشانی لاحق ہوسکتی ہے جو اپنی فطرت مسخ کرکے مغرب کی نقالی کرتی ہیں اور مساوات کے تصور میں مگن مخلوط روزگار کو چند روزہ پُرلطف زندگی گزارنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں۔ ایسی خواتین کا زبردست علمی محاکمہ کرکے ان کو لاجواب کردیا جائے، یہ مسلم خواتین کا فرض ہے!


 

نوٹ