مسلمان عورت اور كارزارِ حيات

برصغير ميں مرد وعورت ہر دوصنفوں كى ايك دوسرے پر برترى يا مساوات كى بحثيں مغربى تہذيب كے زير اثر عرصہٴ دراز سے چلى آرہى ہيں، جن ميں عورتوں كى كلى مساوات كے نعرہ سے لے كر ان كے پردہ كے مسائل بهى زير بحث آتے ہيں- اسى تناظر ميں ہمارے دينى ادب ميں بہت سى كتب بهى تحرير كى گئيں جن ميں متوازن اسلامى موقف پيش كرنے كى كوشش كے ساتھ اسلامى حجاب كى مصلحتوں پر بهى بہت لكها گيا-

ايك صدى قبل ايسے ہى موضوع پر مصر كے فريد وجدى آفندى نے المرأة المسلمة كے نام سے ايك اہم كتاب تحرير كى جس كا اُردو ترجمہ مولانا ابوالكلام آزاد نے 'مسلمان عورت' كے نام سے كركے شائع كيا- يہ ترجمہ توكتابى شكل ميں بہت سى لائبريريوں ميں موجود ہوگا، ليكن اس تمام بحث كا خلاصہ ہم يہاں محدث كے قارئين كى خدمت ميں پيش كررہے ہيں جواسى كتاب كے آخرى صفحات سے ليا گيا ہے - مكمل تفصيل كے شائقين اصل كتاب ملاحظہ كريں- مدير

گو ہم اپنى بحث ميں حس اور تجربہ كے ايسے دلائل پيش كرنے كے راستے پر قدم زن رہے ہيں- جن كو بجز اس كے اور كسى صورت ميں غلط نہيں قرار ديا جاسكتا كہ پہلے ان كے چشم ديد اور محسوس مقدمات كى تكذيب كرلى جائے جو ايك ناممكن امر ہے- تاہم مجهے يہ خوف ہے كہ موضوعِ بحث كے متعدد اقسام ميں بٹ جانے سے مضمون طويل ہوگيا ہے اور اس حالت ميں ممكن ہے كہ ناظرين كو وہ بہت سے نظريات ياد نہ رہے ہوں جوعورت كى پردہ نشينى كى ضرورت ثابت كرتے ہوئے بكار آمد دلائل ہوسكتے ہيں- اس لئے ميں نے ارادہ كيا كہ ان اُمور كو بالاجمال چند صفحوں ميں لكھ دوں تاكہ معمولى غور سے بهى ان كى اجمالى شكل پر احاطہ كرنا آسان ہو اور ميں نے اس كى تفصيلى باريكياں معلوم كرنے كابار ناظرين كى يادداشت يا دوبارہ مطالعہ كتاب پرچهوڑ ديا ہے... وہ نظريات حسب ِذيل ہيں :

(1) عورت جسمانى اعتبار سے نسبت مرد كے بہت كمزور ہے اورعلم قبول كرنے ميں اس كا درجہ گھٹا ہواہے- عورت كى يہ كمزورى اس لئے نہيں كہ اس طرح پر وہ مرد كى مطيع اور اس سے حقير بنى رہى بلكہ اس لئے كہ اس كا وظيفہ طبيعى اور خاص فرض اس سے زائد قوت كا خواہاں نہيں ہوتا جو اس كو دى گئى ہے- يہ ايك طبعى اور فطرى حالت ہے، يعنى عورت ہزار كوشش كرے كہ وہ جسم اور اِدراك كے لحاظ سے مرد كى ہم پلہ بن جائے، ليكن يہ انہونى بات ہے اور وہ ہرگز اس مرتبہ تك نہيں پہنچ سكتى-

(2) ہرايك مخلوق كا خاص كمال ہے اور عورت كا كمال جسمى توانائى اور وسعت ِمعلومات پرموقوف نہيں بلكہ وہ ايك روحانى قوت ميں منحصر ہے جو عورت كو بہ نسبت مرد كے بہت زيادہ اور اعلىٰ درجہ كى دى گئى ہے- وہ قوت كيا ہے؟ عورت كا رقيق، زيادہ شعور اور اس كے حد درجہ رقيق احساسات اور پهر ان سب پر بڑھ چڑھ كرعورت كانيكى كے راستہ پراپنى جان تك قربان كردينے كے لئے تيار رہنا- اس لئے اگر يہ مواہب اور فطرى قوتيں اپنے صحيح قواعد كے مطابق عورت ميں نشوونما پائيں تو وہ اپنے حقوق كى حفاظت وتائيد كے لئے مرد كى طرح زور آور كلائى اور تيزدم تلوار كى محتاج نہ رہے،بلكہ يہى باطنى قوتيں اس كو معاشرت كے ايك ايسے اعلىٰ مرتبہ پرپہنچا ديں كہ اس كے سامنے عزت و تكريم كے لئے مردوں كے سرخود بخود جھك جائيں ليكن اللہ كريم نے اس كے ساتھ ہى يہ فيصلہ فرماديا ہے كہ عورت كى يہ اندرونى قوتيں اس وقت نشوونما پاسكتى ہيں جبكہ وہ مرد كے زيراثر اور زير حفاظت زندگى بسر كرے-خواہ وہ اسى حالت ميں رہ كر اپنے مواہب ميں مرد پر فوقيت كيوں نہ لے جائے اور اسے اپنا بندئہ بے دام ہى كيوں نہ بنا لے پهربهى عورت كو يہ بات نہيں بهاتى كہ وہ مرد كو اپنى فطرى خوبيوں كے دام ميں اسير كرلے كيونكہ ايسى صورت واقع ہونے ميں اس كے ہتهيار كى برش (كاٹ)ميں فرق آجاتاہے اور اس كى فطرى محبت كى چمك دمك ماند پڑ جاتى ہے، جس كى وجہ سے وہ خود ايك ايسى كشمكش ميں گرفتار ہوجاتى ہے جو اسے پسند نہيں آتى-

(3) عورت اس كمال كو اس وقت تك كبهى حاصل نہيں كرسكتى جب تك وہ كسى مرد كى بيوى اور چند بچوں كى صحيح تربيت دينے والى ماں نہ ہو اور اس كى كچھ يہى وجہ نہيں ہے كہ حق بحقدار رسيد والى مثل ہو- بلكہ عورت كے ملكات كا نشوونما اور اس كے اندرونى جذبات كى تہذيب و درستى اسى ميں ہوسكتى ہے كہ وہ بيوى اور ماں بنے،كيونكہ اسى غرض كے لئے وہ جسمانى اور روحانى دونوں اعتبار سے پيدا كى گئى ہے-

(4) عورت كامردوں كے كاروبار ميں حصہ لينا اور خارجى زندگى كے خطرناك معركوں ميں اس كى شريك بننا دراصل يہ معنى ركهتا ہے كہ وہ اپنے فطرى جذبات كوقتل كر رہى ہے، اپنے ملكات كو مٹا رہى ہے اور اپنى رونق اور طراوت كو پژمردہ ،اپنى تركيب كو خراب اور اپنى قوم كے جسم ميں خلل پيدا كرنے كى كوشش كر رہى ہے- يورپين عورت كا منزل زندگى كے دائرہ سے قدم نكالنا ان ممالك كے علما كى نگاہوں ميں قوم كے دل اور جگر پر زخم كارى نظر آتا ہے اور اس بات كا ايك نشان تصور كيا جاتا ہے كہ مرد چاہے تو عورت كو سخت سے سخت مصيبت و آفت ميں مبتلاكرسكتا ہے- چنانچہ اب وہى اس حالت كا دائرئہ تنگ كرنے پر زور لگا رہا ہے-

(5) عام طور پر نوعِ انسانى كى بہترى اور خاص كر خود عورت كى بہبودى كے لئے عو رتوں كا پردہ ميں رہنا ايك ضرورى امر ہے - كيونكہ پردہ عورت كى خودمختارى اور استقلال كا ضامن اور اس كى حريت كا كفيل ہے، نہ كہ اس كى ذلت كى علامت اور اس كے اسيرى كا پيش خيمہ اور ہم اس بات كو بيان كر آئے ہيں كہ پردہ عورت كے كمال كا مانع نہيں،بلكہ وہ اسے كمال كے ذرائع واسباب مہيا كرنے والا ہے- تاہم چونكہ ہر چيز ميں كچھ نقصانات بهى ضرور ہوتے ہيں، اس لحاظ سے اگر پردہ ميں بهى بعض جزوى مسائل پائے جائيں تو اس كے بالمقابل جو فوائد اور خوبياں ہيں وہ حد سے بڑھ كر قيمتى ہيں اور سب سے زائد رو خوبى يہ ہے كہ پردہ عورت كو اپنے وظيفہ طبيعى كے دائرہ سے قدم باہرركهنے ميں مانع ہے -وہ وظيفہ طبيعى جس ميں ہر عورت كى سعادت كا انحصار ہے اور يہى پردہ عورت كو اپنى ان اعلىٰ خصوصيتوں كو نشوونما دينے كا موقع ديتا ہے جو اس معركہ زندگى ميں اس كے يكتا ہتهيار ہيں-

(6) مادّى مدنيت كى عورتوں ميں چاہے جس قدرظاہرى نمائش اور دل فريبى پائى جاتى ہے- ليكن وہ كامل جنس نسواں كى نمونہ يا كمالِ نسوانى كے راستہ پرچلنے والى ہرگز نہيں ہيں اور خود ان ممالك كے علما بهى اس حالت كے شاكى پائے جاتے ہيں اور اس رفتار كوروكنے كى كوشش كررہے ہيں-

(7) يورپ اور امريكہ كے تمام ممالك ميں تعليم نسواں كے طريقے عورتوں كى حالت كے لئے مفيد اور مناسب نہيں جس كى شہادت وہيں كے اہل علم كے اقوال سے بہم پہنچتى ہے-

(8) اسلام نے عورت كے بارے ميں جو ہدايتيں كى ہيں، وہ فطرى نسوانيت سے پورى طرح مطابق اور موافق ہيں- گويا اسلامى تعليمات عورت كے جملہ خصائص اور ملكات كو اچهى صورت ميں ڈهالنے كے لئے اعلىٰ درجہ كے سانچہ سے مشابہ ہيں،يعنى اگر ان تعليمات كے موافق عورت كے خصائص نشوونما پائيں تو مسلمان خاتون بغير اس كے كہ اپنے طبيعى حدود سے ايك قدم بهى آگے بڑهے بہت اعلىٰ درجہ كى كامل و اكمل عورت بن سكتى ہے-

(9) مسلمان خاتون ميں كمالِ جنس نسوانى كے اعلىٰ واكمل مركز تك پہنچنے ميں صرف اتنى ہى كمى ہے كہ صرف علومِ ضروريہ كے مبادى سے بے خبر ہے اور جب اسے اتنى تعليم دے دى جائے تو پهر اس ميں كوئى نقص باقى نہ رہے گا-

يہ سب تو مسائل ہيں جن كے ثبوت ميں مشاہدات اور واقعات اور تجربے كے علوم كے زبردست اُصول پيش كركے ميں نے استدلال كيا ہے يا موجودہ زمانہ كے سب سے بڑے علماءِ تمدن و عمران كے اقوال سے استشہاد كيا ہے- نيز اس بحث ميں مَيں نے جہاں تك بن پڑا عملى فلسفہ (پريكٹيكل سائنس) كے اُسلوب كا دهيان ركهاہے- گو اس ميں سخت مشقت اور دشوارى پيش آئى، تاہم ميرى اس سے دو اعلىٰ درجہ كى غرضيں تهيں جو حسب ِذيل ہيں:

اوّل يہ كہ پردئہ نسواں كے حاميوں كا پہلو قوى كياجائے تاكہ ان پر پردہ كى رسم كو معترضين كے حملوں سے بچانے ميں آخر دم تك ثابت قدمى دكهانا آسان بن جائے اور وہ عملاً اس بات سے واقف ہوجائيں كہ حق انہيں كى جانب ہے اور ان كو يہ بهى معلوم ہوجائے كہ دنيا كى ہرايك حركت خواہ وہ بظاہر كسى حالت ميں نظر آئے ليكن دراصل اس كا رخ ہرايك كاروبارِ زندگى ميں فطرتِ انسانى كے اصل مركز كى طرف ہى ہوگا اور وہ فطرت وہى ہے جس كى ہدايت ہمارا دين حنيف فرماتا ہے- اصل يہ ہے كہ مسلمان ميں برى قسم كا اور قابل افسوس تعصب ہرگز نہيں پايا جاتا- مگر يہ ضرورت ہے كہ وہ ان نئى بدعتوں كے انبوہ ميں فطرتِ سليمہ كى محافظت كا فرض ادا كر رہے ہيں اور يوں وہ چاہے جس قدر بهى مادّى طريقہ زندگى كے گهڑدوڑ ميں اَور قوموں سے پیچھے ہوں ليكن اس كى وجہ ان ميں كسى اندرونى بيمارى كا پايا جانا نہيں- ہاں چند خارجى اور 'سرالزوال' حالتيں ان كو لاحق ہورہى ہيں جو معمولى كوشش سے دور ہوجائيں گى اور پهر مسلمانوں كى توانائى بحال ہوسكے گى- اس حيثيت سے تو مسلمان بہ نسبت ان مادّى مدنيت والوں كے باقى اور قائم رہنے كے لئے زيادہ موزوں ہيں جن كى مدنيت نے انسانيت كا چھرہ بدنما بنانے اور فطرتِ بشرى كو اس كے اكثر پہلوں سے مسخ كر ڈالنے ميں كوئى كسر باقى نہيں چهوڑى ہے- يہاں تك كہ ان كى اس خلاف ورزى سے ان ميں بہت سے ايسے مہلك امراض پيدا ہوگئے ہيں جو عنقريب ان كا خاتمہ كر دينے كى دهمكى دے رہے ہيں-

دوسرى عرض يہ ہے كہ ہمارے وه بهائى جو خواہ مخواہ ہاتھ دهو كر پرده كے پیچھے پڑ گئے ہيں اس بات كے قائل ہوجائيں كہ ہم نے تعصب اور رسم و رواج كى كسى تقليد كى وجہ سے پردہ كى حمايت نہيں كى ہے، بلكہ ہمارا يہ فعل فطرت كى اِمداد كے لئے سرزد ہوا ہے اور فطرت كيا ہے؟ دين اسلام ... ہم اس صريح حق كى جنبہ دارى كرتے ہيں جو اس دنيا كے پردہ پر صرف مسلمانوں كے حصہ ميں آيا ہے تا كہ شايد ہمارے وہ مہربان صحيح غور كے بعد بجائے اپنى پردہ دارى كے، پردہ دارى پر آمادہ ہوجائيں اور ہمارے ہم آہنگ بن كر ان علاماتِ مرض كوزائل كرنے كى كوشش كريں جو ہمارى مصيبت كا باعث بن گئى ہيں اوراس طرح ہم اس مقدس فرض كو بهى ادا كرسكيں گے جو ہمارا ضمير قوم و ملت كے لئے ہم پر واجب قرار ديتا ہے۔