طبقہ نسواں کے لئے اسلامی تعلیمات
اسلام سے قبل عورت کی جو حالت تھی، محتاجِ وضاحت نہیں۔ اہل علم اس سے پوری طرح باخبر ہیں۔ اسلام نے اسے قعر مذلت سے نکالا اور عزت و احترام کے مقام پر فائز کیا۔ وہ وراثت سے محروم تھی، اسے وراثت میں حصے دار بنایا۔نکاح و طلاق میں اس کی پسندیدگی وناپسندیدگی کا قطعاً کوئی دخل نہ تھا، اسلام نے نکاح و طلاق میں اسے خاص حقوق عطا کئے۔ اسی طرح اسے تمام وہ تمدنی و معاشرتی حقوق عطا کئے جو مردوں کو حاصل تھے۔
عورت کی بابت اسلامی تعلیمات کا خلاصہ حسب ِذیل ہے :
(1) بحیثیت ِانسان عورت بھی مرد ہی کی طرح انسانی شرف و احترام کی مستحق ہے۔ اس لحاظ سے مرد و عورت کے مابین کوئی فرق نہیں۔ قرآنِ کریم نے اس حقیقت کو ﴿خَلَقَكُم مِن نَفسٍ وٰحِدَةٍ...١ ﴾... سورة النساء "تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا۔" کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«إنما النساء شقائق الرجال»
"عورتیں مردوں ہی کی شقیقہ (ہم جنس ) ہیں۔"
(سنن أبو داود، الطھارة، باب في الرجال یجد البلة في منامہ : ۱/۱۶۲، ج:۲۳۶ مع شرحہ معالم السنن للخطابي طبع مصر)
'شقیقہ' کا مطلب ہے "پیدائش اور طبیعت میں یکساں ہونا۔ " چنانچہ امام خطابی لکھتے ہیں :
"أي نظائرهم وأمثالهم في الخلق والطبائع فکأنهن شققن من الرجال"
"عورتیں پیدائش اور طبعی اوصاف میں مردوں ہی کی طرح ہیں، گویا وہ مردوں ہی سے نکلی ہوئی ہیں۔" (ایضاً)
یوں اسلام نے عورت کے بارے میں اس تصور کو کہ عورت مرد کے مقابلے میں ذلیل وحقیر مخلوق ہے، باطل قرار دیا اور واضح الفاظ میں صراحت کردی کہ تکریم آدمیت اور شرفِ انسانیت کے لحاظ سے مرد و عورت میں فر ق روا نہیں رکھنا چاہئے۔
(3) اسی بنیاد پر، اسلام میں و جہ ِفضیلت اور وجہ ِذلت یہ نہیں ہے کہ فلاں مرد ہے، اس لئے افضل ہے اور فلاں عورت ہے، اسلئے ذلیل ہے، بلکہ شرف وفضل کا معیار ایمان و تقویٰ ہے!
﴿إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّهِ أَتقىٰكُم...١٣﴾... سورة الحجرات
"اللہ کے نزدیک تم میں سب سے معزز وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہے۔"
اس نکتے کو قرآن کریم نے کھول کر بیان فرمایا:
﴿مَن عَمِلَ صـٰلِحًا مِن ذَكَرٍ أَو أُنثىٰ وَهُوَ مُؤمِنٌ فَلَنُحيِيَنَّهُ حَيوٰةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجزِيَنَّهُم أَجرَهُم بِأَحسَنِ ما كانوا يَعمَلونَ ٩٧﴾... سورة النحل
"جس کسی نے بھی،چاہے وہ مرد ہو یا عورت، عمل صالح کیا، درآں حالے کہ وہ موٴمن ہے تو ہم اس کو پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور ان کے بہترین عملوں کا ضرور بدلہ دیں گے۔"
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿أَنّى لا أُضيعُ عَمَلَ عـٰمِلٍ مِنكُم مِن ذَكَرٍ أَو أُنثىٰ...١٩٥﴾... سورة آل عمران
"میں تم میں سے کسی کا رکن (عامل) کا عمل ضائع نہیں کروں گا (بلکہ بہترین بدلہ دوں گا) چاہے وہ مرد ہو یا عورت..."
اور اس مفہوم کو سورہ ٴ احزاب میں تفصیل سے بیان کیا، فرمایا:
﴿إِنَّ المُسلِمينَ وَالمُسلِمـٰتِ وَالمُؤمِنينَ وَالمُؤمِنـٰتِ وَالقـٰنِتينَ وَالقـٰنِتـٰتِ وَالصّـٰدِقينَ وَالصّـٰدِقـٰتِ وَالصّـٰبِرينَ وَالصّـٰبِرٰتِ وَالخـٰشِعينَ وَالخـٰشِعـٰتِ وَالمُتَصَدِّقينَ وَالمُتَصَدِّقـٰتِ وَالصّـٰئِمينَ وَالصّـٰئِمـٰتِ وَالحـٰفِظينَ فُروجَهُم وَالحـٰفِظـٰتِ وَالذّٰكِرينَ اللَّهَ كَثيرًا وَالذّٰكِرٰتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَغفِرَةً وَأَجرًا عَظيمًا ٣٥﴾... سورة الاحزاب
"بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، موٴمن مرد اور موٴمن عورتیں، فرماں بردار مرد اور فرماں بردار عورتیں، راست گو مرد اور راست گو عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، خشوع کرنے والے مرد، اور خشوع کرنے والی عورتیں، صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں، روزے دار مرد اور روزے دار عورتیں، شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اللہ کو بہت یاد کرنے والے مرد اور اللہ کو بہت یاد کرنے والی عورتیں، اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہے۔"
غرض ایمان، اعمالِ صالحہ جو فلاحِ ابدی کے ضامن ہیں، ان میں مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ جو بھی اپنی سیرت و کردار کو اس سانچے میں ڈھال لے گا، وہ اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہوگا اور جو اس ایمان و عمل صالح سے محروم ہوگا، وہ مستحق ِعذاب ہوگا۔ قطع نظر اس بات کے کہ اس کا تعلق صنف ِذکور سے ہے یا صنف ِاُناث سے۔
(3) اسلام سے قبل لڑکی کی ولادت کومنحوس سمجھاجاتاتھا حتیٰ کہ بعض درندہ صفت لڑکی کو زندہ درگور تک کردیتے تھے۔ زمانہٴ جاہلیت کے اس رویے کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے :
﴿وَإِذا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالأُنثىٰ ظَلَّ وَجهُهُ مُسوَدًّا وَهُوَ كَظيمٌ ٥٨ يَتَوٰرىٰ مِنَ القَومِ مِن سوءِ ما بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمسِكُهُ عَلىٰ هونٍ أَم يَدُسُّهُ فِى التُّرابِ...٥٩﴾... سورة النحل
"جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی نوید سنائی جاتی ہے، تواس کا چہرہ (مارے غم اور افسوس کے) سیاہ ہوجاتا ہے اور دل میں وہ گھٹ رہا ہوتا ہے۔ وہ اس خبر کو برا سمجھتے ہوئے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس ذلت کو برداشت کرے یا اس کو مٹی میں دبا دے۔"
اسلام نے ان کے اس رویے کی سخت مذمت کی اور بچیوں کو اس طرح زندہ درگور کرنے سے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ اگر کسی نے اس فعل شنیع کا ارتکاب کیا تو اس سے بارگاہِ الٰہی میں باز پرس ہوگی : ﴿وَإِذَا المَوءۥدَةُ سُئِلَت ٨ بِأَىِّ ذَنبٍ قُتِلَت ٩﴾... سورة التكوير
نبی اکرم ﷺ نے بھی لڑکے کے مقابلے میں لڑکی کو حقیر سمجھنے اور اسے زندہ درگور کرنے کی مذمت بیان فرمائی اور بچیوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت کے فضائل بیان فرمائے۔ فرمایا:
«من کانت له أنثی فلم يَئدها ولم يُهنها ولم يوٴثر ولده عليها قال: يعنی الذکور،أدخله الله الجنة» (ابی داود، ادب، باب فضل من عال یتامیٰ، ح:۵۱۴۶)
"جس کے ہاں لڑکی ہوئی اس نے اسے زندہ درگور نہیں کیا، نہ اسے حقیر سمجھا اور نہ لڑکے کو اس پر ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائے گا۔" اور فرمایا:
«من عال ثلاث بنات، فأدّبهن وزوّجهن، وأحسن إليهن فله الجنة»
"جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، ان کی تعلیم و تربیت کی، ان کی شادیاں کیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے۔" (ایضاً، ح:۵۱۴۷)
ایک اور روایت میں یہ الفاظ اس طرح ہیں:
«ثلاث أخوات أو ثلاث بنات، أو ابنتان أو أختان»(ایضاً،ح:۵۱۴۸)
"جس نے تین بہنوں یا تین لڑکیوں یا دو لڑکیوں یا دو بہنوں کی پرورش کی، اس کے لئے جنت ہے۔"
اس مفہوم کی متعدد روایات کتب ِحدیث میں موجود ہیں جن میں لڑکیوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اسلام کی انہی تعلیمات و ہدایات کا نتیجہ ہے کہ بہت سے گھرانوں میں اگرچہ جہالت کی وجہ سے لڑکیوں کی پیدائش پر کراہت کا اظہار کیا جاتا ہے، لیکن جہاں تک ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا تعلق ہے، کسی بھی مسلم گھرانے میں اس میں کوتاہی نہیں کی جاتی اور بچیوں کو شہزادیوں کی طرح پالا اور رکھا جاتاہے۔
خواتین کے لئے مردوں کو ہدایات
اسلامی معاشرے میں عورت کی چار حیثیتیں ہیں: وہ کسی کی بیٹی ہے، کسی کی بہن ہے، کسی کی بیوی اور کسی کی ماں ہے۔ اسلام نے ان چاروں حیثیتوں میں اس کی عزت و احترام کی تلقین و تاکید کی ہے۔ بیٹی اور بہن کی حیثیت سے اس کی تعلیم و پرداخت کا مختصر ذکر تو گزرچکا ہے۔
بحیثیت ِبیوی کے اس کے لئے جو تعلیم دی گئی ہے، وہ حسب ِذیل آیات واحادیث سے واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَمِن ءايـٰتِهِ أَن خَلَقَ لَكُم مِن أَنفُسِكُم أَزوٰجًا لِتَسكُنوا إِلَيها وَجَعَلَ بَينَكُم مَوَدَّةً وَرَحمَةً...٢١﴾... سورة الروم
"اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان مودّت و رحمت پیدا فرما دی۔"
اس آیت ِکریمہ میں ایک توعورت کو مرد کے لئے وجہ ِتسکین بتلایا، جس سے اس کی اہمیت و عظمت واضح ہے۔ دوسرے، دونوں صنفوں کے تعلق کی نوعیت کو واضح کیا کہ ان کے مابین کشاکش اور تناوٴ کی بجائے اُلفت و محبت اور شفقت و رحمت کا رشتہ قائم ہونا اور رہنا چاہئے۔ ایک دوسرے مقام پر عورت کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید اس طرح کی:
﴿وَعاشِروهُنَّ بِالمَعروفِ ۚ فَإِن كَرِهتُموهُنَّ فَعَسىٰ أَن تَكرَهوا شَيـًٔا وَيَجعَلَ اللَّهُ فيهِ خَيرًا كَثيرًا ١٩﴾... سورة النساء
"عورتوں کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں (تب بھی ان سے نباہ کرو) ہوسکتا ہے کہ جس کو تم ناپسند کرتے ہو، اس میں اللہ تعالیٰ خیرکثیر پیدافرما دے۔"
ایک اور مقام پر عورت کے حقوق کا ان الفاظ میں تذکرہ فرمایا:
﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعروفِ...٢٢٨﴾... سورة البقرة
"ان عورتوں کے لئے (مردوں پر) معروف کے مطابق وہی (حقوق) ہیں جو عورتوں پر (مردوں کے لئے) عائد ہوتے ہیں۔"
احادیث میں نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی اُمت کو بڑی تاکید فرمائی ہے۔ فرمایا:
«إن من أکمل المومنين إيمانا أحسنهم خلقا وألطفهم بأهله» (جامع الترمذي،الإیمان،باب في استکمال الإيمان والزيادة والنقصان،ح: ۲۶۱۲)
"کامل ترین موٴمن وہ ہے جو اخلاق میں سب سے بہتر اور اپنے بیوی بچوں پر سب سے زیادہ مہربان ہو۔" اور فرمایا:
«خيرکم خيرکم لأهله وأنا خيرکم لأهلي» (سنن ابن ما جة، النکاح، باب حسن معاشرة النساء ،ح:۱۹۷۷)
"تم میں سب سے بہتر وہ ہے ، جواپنی بیوی کے حق میں سب سے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لئے سب سے بہتر ہوں۔"
ایک اور روایت میں اس کو یوں بیان فرمایا: «خيارکم خيارکم لنسائهم»
"تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔" (ایضاً،ح:۱۹۷۸ء)
حجة الوداع کے موقع پر نبی ﷺ نے جو اہم باتیں اپنی اُمت کو ارشاد فرمائیں، ان میں ایک یہ بھی تھی:«استوصوا بالنساء خيرا فإنهن عندکم عوان» (سنن ابن ماجة، النکاح، باب حق المرأة علی الزوج، ح:۱۸۵۱)
"عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا، وہ تمہارے پاس اسیر (قیدی) ہیں۔"
ایک موقع پر کچھ عورتوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے خاوندوں کی شکایتیں کیں تو آپ نے ایسے مردوں کی بابت فرمایا:
«فلا تجدون أولئك خيارکم»(سنن ابن ماجة، النکاح، باب ضرب النساء ح:۱۹۸۵)
"ان لوگوں کو تم اپنے میں بہتر نہیں پاوٴ گے۔"
ایک اور حدیث میں نیک عورت کو بہترین متاع قرا ردیا گیا ہے:
«خير متاع الدنيا ؛ المرأة الصالحة» (صحیح مسلم، النکاح، باب خیر متاع الدنیا المراة الصالحة، ح:۱۴۶۹)
ماں کی حیثیت سے اسلام میں عورت کا مقام بہت اونچا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِوٰلِدَيهِ حَمَلَتهُ أُمُّهُ وَهنًا عَلىٰ وَهنٍ وَفِصـٰلُهُ فى عامَينِ أَنِ اشكُر لى وَلِوٰلِدَيكَ...١٤﴾... سورة لقمان
"ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں (حسن سلوک کی) بڑی تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری برداشت کرتے ہوئے حمل کی مدت پوری کی اور ا س کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے۔ (یہ اس لئے) کہ وہ میرا اور اپنے والدین کا شکر اداکرے۔"
دوسری جگہ فرمایا:
﴿وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِوٰلِدَيهِ إِحسـٰنًا ۖ حَمَلَتهُ أُمُّهُ كُرهًا وَوَضَعَتهُ كُرهًا...١٥﴾... سورة الاحقاف
"ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ہے، اس کی ماں نے اسے مشقت کے ساتھ حمل میں رکھا اور مشقت و تکلیف کے ساتھ اس کو جنا"
ان دونوں آیات میں اگرچہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اور اس کی تاکید کی گئی ہے، لیکن ماں کا ذکر جس انداز میں ہوا ہے اور حمل و ولادت کی تکلیف کا بطورِ خاص جس طرح ذکر کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا حق باپ سے کئی گنازیادہ ہے اور حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا :
«من أحق الناس بحسن صحابتي؟ قال: أمك، قال: ثم من؟ قال: ثم أمك، قال: ثم من؟ قال: ثم أمك، قال: ثم من؟ قال: ثم أبوك» (البخاري، الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة، ح: ۹۷۱ھ ومسلم، البر والصلة والأدب، باب بر الوالدين وأيهما أحق به، ح:۲ ۴۸ ھ و اللفظ له)
"میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا: پھر کون ؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پھر پوچھا: پھر کون؟ اپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے کہا، پھر کون؟ آپ نے جواب میں فرمایا: پھر تمہارا باپ۔"
اس حدیث میں تین مرتبہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمانے کے بعد چوتھی مرتبہ باپ کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ علما نے یہ لکھی ہے کہ
تین تکلیفیں ایسی ہیں جو صرف ماں برداشت کرتی ہے، بچے کے باپ کا اس میں حصہ نہیں۔ ایک حمل کی تکلیف، جو نو مہینے عورت برداشت کرتی ہے۔ دوسری وضع حمل (زچگی) کی تکلیف، جو عورت کے لئے موت و حیات کی کشمکش کا ایک جاں گسل مرحلہ ہوتا ہے۔ تیسری رضاعت (دودھ پلانے) کی تکلیف، جو دو سال تک محیط ہے۔ بچے کی شیر خوارگی کا یہ زمانہ ایسا ہوتاہے کہ ماں راتوں کو جاگ کر بھی بچے کی حفاظت و نگہداشت کا مشکل فريضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس دوران بچہ بول کر نہ اپنی ضرورت بتلاسکتا ہے، نہ اپنی کسی تکلیف کا اظہار ہی کرسکتا ہے۔صرف ماں کی ممتا اور اس کی بے پناہ شفقت اور پیار ہی اس کا واحد سہارا ہوتا ہے۔ عورت یہ تکلیف بھی ہنسی خوشی برداشت کرتی ہے۔
یہ تین مواقع ایسے ہیں کہ صرف عورت ہی اس میں اپنا عظیم کردار ادا کرتی ہے اور مرد کا اس میں حصہ نہیں۔ انہی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے شریعت نے باپ کے مقابلے میں ماں کے ساتھ حسن سلوک کی زیادہ تاکید کی ہے۔
نکاح میں رہنے یا چھوڑنے میں عورت کی رضامندی
شادی سے قبل اس کی تعلیم وپرداخت کی فضیلت اور شادی کے بعد عورت سے حسن معاشرت کی تاکید کی تفصیل بیان ہوچکی ہے، لیکن عورت کے لئے دو مرحلے اس کی زندگی میں بڑے اہم موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک مرحلہ شادی سے قبل رشتہ ازدواج سے انسلاک میں اس کی پسند اور ناپسند کا مسئلہ ہے اور دوسرا مرحلہ وہ ہے کہ شادی کے بعد اگر خاوند صحیح کردار کا ثابت نہ ہو، تو اس سے گلوخلاصی کی کیا صورت ہے؟ ان دونوں مرحلوں کے لئے بھی اسلام نے عورت کے جذبات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسی معقول ہدایت دی ہیں کہ عورت پر کسی طرح سے جبروظلم نہ ہوسکے۔
(1) نکاح میں عورت کی پسند اور اس کے اختیار کے مسئلے میں بالعموم بڑی افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔کہیں تو عورت کو بالکل بے دست و پا بنا دیا گیا ہے، ا س کی پسند و ناپسند کی قطعاً کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور کہیں ایسا بااختیار بنا دیا گیا ہے کہ ماں باپ اور اس کے سرپرستوں کی رائے اور مشورے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ اسلام نے اس افراط و تفریط کے مقابلے میں یہ راہِ اعتدال اختیار کی کہ ایک طرف ولی (سرپرست) کی ولایت اور اجازت کو ضروری قرار دیا اور فرمایا:
«لا نکاح إلا بولي» (سنن أبي داود، النکاح، باب فی الولي، ح:۲۰۸۵)
"ولی کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔"
اس حدیث کی روشنی میں اکثر ائمہ کے نزدیک ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا، تاہم فقہا کا ایک گروہ اس حدیث کی تضعیف یا تاویل کی وجہ سے انعقادِ نکاح کا تو قائل ہے، لیکن اس کے ناپسندیدہ ہونے میں اُسے بھی کلام نہیں اور بعض شکلوں میں سرپرستوں کو ایسا نکاح فسخ کرانے کا اختیار بھی رہتا ہے۔ (فتح القدیر لابن ہمام:ج ۳/ص۲۵۵)
دوسری طرف عورت کی رضا مندی اور اسکی اجازت بھی ضروری قرار دی گئی ہے اور فرمایا:
«لا تنکح الأيم حتی تستأمر» (صحیح البخاري، النکاح، باب لاينكح الأب وغيرہ البکر والثيب إلابرضاهما، ح:۵۱۳۶)
"بیوہ عورت کا نکاح اس کے مشورے کے بغیرنہ کیا جائے۔" اور «لاتنکح البکر حتی تستأذن» (حوالہ مذکور)
"کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے۔"
کنواری عورت کے اندر شرم و حیا زیادہ ہوتی ہے، اس لئے اس سے اجازت طلبی کا مسئلہ مشکل تھا، اسے بھی شریعت نے اس طرح حل فرما دیا کہ 'باکرہ'کی خاموشی ہی اس کی اجازت اور رضا مندی ہے۔" (حوالہ مذکور)
عورت کی رضا مندی اور اس کی اجازت کی شریعت میں کتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ عہد رسالت مآب ﷺ کے ایک واقعے سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک خاتون خنساء بنت خذام انصاریہ کا نکاح ان کے والد نے ان کی اجازت کے بغیر کردیا۔ انہیں یہ رشتہ ناپسند تھا۔ انہوں نے آکر نبی ﷺ کی خدمت میں باپ کی شکایت کی تو آپ نے اس کو ناپسند فرمایا اور نکاح کو ردّ کردیا یعنی کالعدم قرار دے دیا۔ (صحیح بخاری، النکاح، باب إذا زوّج الرجل ابنته وهي کارهة فنکاحه مردود حديث: ۵۱۳۸)
(2) دوسرا مرحلہ:
شادی کے بعد اگر خاوند عورت کے نزدیک ناپسندیدہ ہو، تو اس سے گلو خلاصی حاصل کرنے کے لئے اسی طرح عورت کو خلع کا حق دیا گیا ہے، جس طرح مرد کو ناپسندیدہ بیوی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے طلاق کا حق حاصل ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مرد کو تو طلاق کا حق ہے، لیکن اس کے مقابلے میں عورت مجبور ہے۔ وہ اگر خاوند کو ناپسند کرتی ہے تو اس کے لئے اس سے نجات حاصل کرنے کی کوئی صورت نہیں، یہ تصور صحیح نہیں۔ عورت کو مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں اسلام نے حق خلع عطا کیا ہے، البتہ اس نے مرد وعورت دونوں کو یہ تاکید کی ہے کہ دونوں اپنا یہ حق انتہائی ناگزیر حالات ہی میں استعمال کریں۔ محض ذائقہ بدلنے کے لئے استعمال نہ کریں۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو سخت گناہگار ہوگا۔
اسی طرح شریعت ِاسلامیہ نے مرد کو طلاق دینے کے بعد رجوع کا حق دیا ہے، اس میں عورت پر ظلم کی صورت ہوسکتی تھی کہ طلاق دینے کے بعد عدت کے اندر بار بار مرد رجوع کرلے اور یوں عورت کو نہ آباد کرے نہ مکمل آزاد کرے اور وہ بیچ میں معلق رہے، جس طرح زمانہٴ جاہلیت میں عورت کو اس طرح تنگ کیا جاتا تھا کہ نہ اس کو طلاق دیتے تھے نہ آباد کرتے تھے، طلاق دیتے اور عدت گزرنے سے قبل ہی رجوع کرلیتے، پھر طلاق دیتے اور پھر عدت گزرنے سے قبل رجوع کرلیتے اور یہ سلسلہ سالہا سال تک اس طرح معلق چلتا رہتا۔ شریعت نے اس ظلم کے انسداد کے لئے حق طلاق کو محدود کردیا کہ مرد دو مرتبہ تو طلاق دینے کے بعد رجوع کرسکتا ہے، لیکن تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کا بالکل حق نہیں رہتا۔ پھر مسئلہ حتی تنکح زوجا غیرہ (یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح کرے) والا آجاتا ہے۔
یہ چند مختصر اشارات ہیں جن سے واضح ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت و احترام کا وہ مقام عطا کیا ہے جو کسی بھی مذہب اور نظام نے نہیں دیا۔
مرد اور عورت کے دائرہ کار کا اختلاف
اسی طرح اسلام کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے مرد اور عورت دونوں کے دائرہ کار کو بھی متعین کردیا ہے۔ اس امر میں تو اختلاف کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہیں کہ قدرت نے مرد اور عورت دونوں کو الگ الگ مقاصد کے لئے پیدا فرمایاہے۔ اس لئے دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں صنفوں کی ذ ہنی و عملی صلاحیتوں میں قدرتی فرق کو بھی تسلیم کیاجائے اور اس فرق کی بنیاد پر دونوں کے دائرہٴ کار کے اختلاف کو بھی۔ اگرچہ دونوں اپنے اپنے دائرے میں انسانی زندگی کے لئے ناگزیر اور ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عورت مرد سے بے نیاز نہیں رہ سکتی اور مرد عورت کو نظر انداز کرکے زندگی کی شاہراہ پر ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، تاہم دونوں کی ذ ہنی صلاحیتوں میں فرق ہے، دونوں کا مقصد ِتخلیق الگ الگ ہے اور دونوں کے دائرہ کار ایک دوسرے سے مختلف اور جدا گانہ ہیں۔
بنا بریں شریعت ِاسلامیہ نے ذ ہنی و عملی فرق و تفاوت اور دائرہ کار کے اختلاف کی و جہ سے بہت سی چیزوں میں مرد و عورت کے درمیان فرق ملحوظ رکھا ہے اور بعض ذمہ داریاں صرف مردوں پرعائد کی ہیں، عورتوں کو ان سے مستثنیٰ رکھا ہے۔ اسی طرح بعض خصوصیات سے عورتوں کو نوازا ہے، مردوں کو ان سے محروم رکھا ہے، لیکن ان فطری صلاحیتوں کے فرق وتفاوت کا مطلب کسی صنف کی برتری اور دوسری صنف کی کمتری و حقارت نہیں ہے۔
مثال کے طور پرمرد کے اندر اللہ تعالیٰ نے صلاحیت رکھی ہے کہ وہ عورت کو بار آور کرسکتا ہے، لیکن خود بارآور نہیں ہوسکتا، اس کے برعکس عورت کے اندر صلاحیت رکھی ہے کہ وہ بارآور ہوسکتی ہے، لیکن وہ بار آور کرنہیں سکتی۔ گویا مرد کے اندر تخلیق و ایجاد کا جوہر رکھا گیا ہے، تو عورت کو اس تخلیق و ایجاد کے ثمرات و نتائج سنبھالنے کا سلیقہ اور ہنر عطا کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر مرد کو حکمرانی و جہانبانی کا حوصلہ عنایت کیا گیا ہے، تو عورت کو گھر بسانے کی قابلیت بخشی گئی ہے۔ مرد کے اندر قوت و عزیمت کے اوصاف رکھے گئے ہیں، تو عورت کو دل کشی و دل ربائی کا جمال عطاگیا ہے اور اس کارخانہٴ عالم کی زیب و زینت کسی ایک ہی صنف کے اوصاف سے نہیں ہے، بلکہ دونوں قسم کے اوصاف سے ہے اور دونوں ہی انسانی معاشرے کے اہم رکن ہیں۔
انسانی معاشرے کا وجود، اس کی بقا اور اس کا تسلسل ان دونوں میں سے کسی ایک ہی پر منحصر نہیں ہے کہ ساری اہمیت بس اسی کو دے دی جائے اور دوسرے کو یکسر نظر انداز کردیاجائے، بلکہ اس پہلو سے دونوں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ خصوصیات اور صلاحیتیں دونوں الگ الگ لے کر آئے ہیں۔ اس لئے مرد جو کام کرسکتے ہیں، عورتیں وہ سارے کام نہیں کرسکتیں، لیکن ایسے مردانہ کام نہ کرسکنا، عورت کی تحقیر نہیں ہے۔ اسی طرح عورت کے بعض کام مرد نہیں کرسکتے، تو اس میں ان کے لئے حقارت کا کوئی پہلو نہیں۔ دونوں اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اعمال کے مکلف ہیں۔ اس لئے اسلام اسی بات کو پسند کرتا ہے کہ دونوں صنفیں اپنے اپنے دائرے میں کام کرکے قدرت کے منشا کی تکمیل کریں۔ ایک دوسرے کے کاموں میں دخیل ہوکر فسادِ تمدن کا باعث نہ بنیں۔ وہ ایک دوسرے کے معاون ہوں، متحارب نہ ہوں؛ حلیف ہوں، حریف نہ ہوں؛ جو بھی انسانی معاشرہ اس فطری اصول سے انحراف کرے گا، امن و سکون سے محروم ہوجائے گا۔
اس لئے اسلام نے انسانی معاشرے کو فساد سے بچانے کے لئے مرد و عورت دونوں کے دائرئہ کار کو ان کی فطری صلاحیتوں کے مطابق متعین کردیا ہے ۔ مرد کا دائرہ کار گھر سے باہر ہے اور عورت کا اصل دائرہ کار گھر کی چاردیواری اور اسی بنیاد پر اس نے مرد اور عورت کے درمیان بہت سے اُمور میں فرق کیا ہے، جس کی مختصر تفصیل حسب ِذیل ہے :
معاشی کفالت کی ذمے دار ی مرد پر!
اسلام نے عورت کو کمانے (ملازمت کرنے یا تجارت و کاروبار کرنے) سے مستثنیٰ رکھا ہے اور نان و نفقہ کی ساری ذمے داری مرد پر ڈالی ہے۔ چنانچہ عورت جب تک، وہ غیر شادی شدہ ہے، ماں، باپ یا بھائی یا بصورتِ دیگرچچا وغیرہ اس کے کفیل ہوں گے اور شادی کے بعد اس کا خاوند، اِسی اعتبارسے مرد کو عورتوں کا قوام (سربراہ، حاکم اور نگران ) کہا گیا ہے :
﴿الرِّجالُ قَوّٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَموٰلِهِم...﴿٣٤﴾... سورة النساء
"مرد عورتوں پر قوام ہیں، بہ سبب اس کے جو اللہ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی اور بہ سبب اس کے جووہ مرد اپنے مالوں سے خرچ کرتے ہیں۔"
مرد کی جس فضیلت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ چونکہ خاندان کا کفیل وہ ہے اور تجارت و کاروبار اسی کی ذمے داری ہے۔ اس کو اسی قسم کی صلاحیتوں سے نوازا گیا ہے اور وہی یہ بوجھ اُٹھانے کے قابل بھی ہے۔ اس لئے اس کی ذمہ داری کی نسبت سے اس کا حق بھی زیادہ ہے اور وہ حق یہ ہے کہ سربراہ خاندان بھی وہ ہے۔ مرد کی اس فضیلت اور تفوق کو دوسری آیت میں یوں بیان کیا گیا ہے: ﴿وَلِلرِّجَالَ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةً﴾... سورة البقرة
"مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ (مرتبہ) حاصل ہے۔"
عورت کے لئے گھر میں رہنے کا حکم
اسلام نے عورت کو چونکہ بیرونِ خانہ کی ذمے داریوں سے مستثنیٰ رکھا ہے، اس لئے اس نے عورت کے لئے یہ تاکید کی ہے کہ وہ اپنا وقت گھر کے اندر گزاریں:
﴿وَقَرنَ فى بُيوتِكُنَّ وَلا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجـٰهِلِيَّةِ الأولىٰ...٣٣﴾... سورة الاحزاب
"اپنے گھروں میں بیٹھی رہو اور پہلے زمانہٴ جاہلیت کی طرح بناوٴ سنگھار کا اظہار نہ کرتی پھرو"
اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا منصب یہ قطعاً نہیں کہ وہ بازار کی تاجر، دفتر کی کلرک، عدالت کی جج، فوج کی سپاہی، کسی افسر کی سیکرٹری، کسی دکان میں ماڈل گرل یا ائر ہوسٹس بنے، بلکہ اس کے عمل کا حقیقی میدان اس کا گھر ہی ہے، چنانچہ امام جصاص اس آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں:
«وفيه الدلالة علی أن النساء مأمورات بلزوم البيت منهيات عن الخروج»
"یہ آیت اس امر پر دلیل ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں ٹک کر رہنے پر مامور ہیں اور باہر نکلنا ان کے لئے ممنوع ہے۔"
یہ آیت ازواجِ مطہرات کے ضمن میں نازل ہوئی تھی، لیکن اس میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ تمام مسلمان عورتوں کے لئے عام ہیں، چنانچہ یہی امام جصاص لکھتے ہیں:
«فهذه الأمور کلها مما أدب الله تعالیٰ به نساء النبي ﷺ صيانة لهن وسائر نساء المومنين مرادات بها»(احکام القرآن:۳/۴۴۳)
"یہ تمام اُمور وہ ہیں جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو ان کی عزت و حرمت کی حفاظت کے لئے آداب سکھلائے اور مراد ان سے تمام موٴمن عورتیں ہیں۔"
البتہ ضرورت کے وقت وہ گھر سے باہر نکل سکتی ہیں، لیکن پردے کی پابندی کے ساتھ، جس کا حکم بھی قرآنِ مجید میں موجود ہے اور احادیث میں بھی یہ تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
شریعت کی نگاہ میں عورت کے لئے لزومِ بیت کی جتنی اہمیت ہے، اس کا اندازہ اس سے بآسانی لگایاجاسکتا ہے کہ عبادات ہوں یا دیگر فرائض ِحیات ان کو عورت پراجتماعی شکل میں فرض ہی نہیں کیا گیا ہے۔
نماز جو سب سے اہم عبادت ہے، مرد پر تو باجماعت فرض ہے اور بغیر جماعت کے پڑھنے پر سخت وعیدین بیان کی گئی ہیں، لیکن عورت پر نماز تو ضرور فرض ہے، لیکن اس کے لئے جماعت ضروری نہیں ہے۔ اگرچہ اسے یہ اجازت تو حاصل ہے کہ اگر وہ مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھنا چاہتی ہے، تو پردے کے اہتمام میں آکر ادا کرسکتی ہے لیکن اسے ترغیب یہ دی گئی ہے کہ اس کیلئے زیادہ بہتر گھر کے اندر ہی نما زپڑھنا ہے، بلکہ گھر کے اندر بھی وہ حصہ یا گوشہ زیادہ بہتر ہے جو گھر کا زیادہ سے زیادہ اندرونی حصہ یا گوشہ ہو۔ چنانچہ فرمایا:
«خير مساجد النساء قعر بيوتهن» (مسنداحمد:۶/۲۹۷، ح:۲۷۰۷۷)
"عورتوں کے لئے بہترین مساجد (جائے عبادت) ان کے گھروں کے سب سے اندرونی حصے ہیں۔"
مشہور صحابی حضرت ابوحمید ساعدی کی اہلیہ محترمہ حضرت امّ حمید رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا :«إني أحبّ الصلاة معك»
" میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں۔"
تو آپ نے فرمایا: "مجھے یقین ہے کہ تمہاری خواہش یہی ہے، لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا اپنے مکان کی کسی تنگ کوٹھڑی میں نماز پڑھنا تمہارے لئے کشادہ کمرے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تمہاری جو نماز کمرے میں ادا ہووہ مکان کے وسط میں ادا کی جانے والی نماز سے اولیٰ ہے اور تمہاری وسط ِمکان میں پڑھی جانے والی نماز اس نماز سے افضل ہے جو تم اپنے محلے کی کسی مسجد میں پڑھو۔ اسی طرح تمہاری جو نماز اپنے محلے کی کسی مسجد میں ادا ہو وہ تمہارے حق میں میری مسجد (مسجد ِنبوی) میں پڑھی جانے والی نماز سے بہتر ہے۔"
اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن سوید بیان کرتے ہیں (جو حضر ت اُمّ حمید کے بھتیجے ہیں) کہ ان کی پھوپھی نے اپنے لئے مکان کا سب سے اندرونی اور تاریک حصہ نماز کے لئے متعین کرلیا تھا اور وہیں ساری عمر نماز پڑھتی رہیں۔ (مسنداحمد:۶/۳۷۱)
جمعہ بھی اجتماعی عبادت کا ایک اہم مظہر ہے۔ اس میں بھی عورتیں اگرچہ شرکت کرسکتی ہیں لیکن یہ اجتماعی عبادت بھی عورت پر فرض نہیں ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
«الجمعة حق واجب علی کل مسلم في جماعة إلا أربعة: عبد مملوك أوامراةأو صبي أو مريض» (سنن ابو داود، الصلوٰة ، ح:۱۰۶۷)
"جمعہ ہر مسلمان پر باجماعت پڑھنا واجب ہے۔ البتہ غلام، عورت، بچہ اور مریض اس (وجوبِ جمعہ) سے مستثنیٰ ہیں۔"
شریعت نے مسلمانوں کو اپنے مرنے والے مسلمان بھائیوں کی نماز جنازہ پڑھنے کی بڑی تاکید کی ہے اور اس کی خاص فضیلت بیان کی ہے، لیکن عورتوں کے لئے اس کو ضروری نہیں سمجھا، بلکہ ان کو جنازوں میں شرکت سے منع کردیا گیا۔ حضرت اُمّ عطیہ روایت کرتی ہیں:
«نهينا عن اتباع الجنائز ولم يعزم علينا»
"ہم (عورتوں) کو جنازے کی متابعت کرنے سے منع کردیا گیا ہے تاہم اس میں زیادہ سختی نہیں کی گئی۔" (صحیح البخاری، الجنائز باب اتباع النساء الجنازة، ح:۱۲۷۸)
اور حدیث مذکور(نهيْنَا عَنْ اِتَّبَاعِ الْجَنَائِزِ)کےتحت حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
«فصل المصنف بين هذه الترجمة وبين فضل اتباع الجنائز بتراجم کثيرة تشعر بالتفرقة بين النساء والرجال، وأن الفضل الثابت في ذلك يختص بالرجال دون النساء لأن النهي يقتضي التحريم أو الکراهة والفضل يدل علی الا ستحباب ولا يجتمعان وأطلق الحکم هنا لما يتطرق إلیه من الاحتمال ومن ثم اختلف العلماء في ذلك ولا يخفی أن محل النزاع إنما هو حيث توٴمن المفسدة» ( بحوالہ ابن منیر ، فتح الباری، الجنائز، باب اتباع النساء الجنائز:۳/۱۸۵)
"امام بخاری نے باب اتباع النساء الجنائز اور باب فضل اتباع الجنائز کے درمیان متعدد ابواب کے ساتھ فاصلہ کردیا ہے ، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلے میں مرد و عورت کے درمیان فرق ہے اور جنازے میں شرکت کی جو فضیلت ہے، وہ صرف مردوں کے ساتھ خاص ہے۔ عورتیں اس کی مخاطب نہیں۔ اس لئے کہ عورتوں کو جنازے میں شرکت سے منع کیا گیا ہے۔ یہ ممانعت تحریم یا کراہت کی مقتضی ہے۔جبکہ فضیلت استحباب پر دال ہے اور تحریم، یا کراہت فضل کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتے اور یہاں "اتباع النساء الجنائز" میں حکم کو مطلق رکھا گیا، کیونکہ ا س میں (دوسرے) احتمال (عدمِ فضیلت) کا بھی امکان ہے، اسی وجہ سے اس میں علما کے مابین اختلاف ہوا اور مخفی نہ رہے کہ اصل محل نزاع وہ صورت ہے جس میں کسی مفسدہ کا اندیشہ نہ رہے۔ (اور جس جگہ مفسدہ کا اندیشہ ہو وہ بالاتفاق ناجائز ہوگی)"
جہاد بھی اسلام کاایک اہم فریضہ ہے، لیکن اسے بھی مردوں ہی پر فرض کیا گیا ہے، عورتوں پر نہیں۔ حضرت عائشہ نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:
«علی النساء جهاد؟ قال: نعم علیهن جهاد لا قتال فيه: الحج والعمرة»
(سنن ابن ماجة، المناسك، باب: الحج جهاد النساء، ح:۲۹۰۱)
"کیا عورتوں پر بھی جہاد فرض ہے؟" آپ نے فرمایا: "ہاں! ان پر بھی جہاد فرض ہے، لیکن لڑائی والا جہاد نہیں، ان کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔"
غزوئہ بدر کے موقع پر حضرت اُمّ ورقہ بنت نوفل نے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:
«ائذن لي في الغزو معك أمرض مرضاکم لعل الله أن يرزقني شهادة»
"مجھے بھی اجازت دیجئے کہ آپ کے ساتھ جنگ میں چلوں اور زخمیوں اور بیماروں کی دیکھ بھال کا کام کروں، شاید اس طریقے سے اللہ تعالیٰ مجھے بھی رتبہ شہادت سے سرفراز فرما دے۔"
آپ نے فرمایا:
«قري في بيتك ،فإن الله عزوجل يرزقك الشهادة»
"تم اپنے گھر ہی میں ٹک کر رہو، تمہیں اللہ (ایسے ہی ) شہادت کا رتبہ عطا فرما دے گا۔"
راوی کا بیان ہے:« فکانت تسمی الشهيدة» "ان کا نام ہی شھیدہ پڑ گیا تھا۔" (سنن أبي داود، الصلاة، باب إمامة النساء، :۵۹۱)
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض غزوات میں چند خواتین اسلام نے حصہ لیا ہے، لیکن وہ محض گنتی کی چند عورتیں تھیں اور انہو ں نے وہاں جاکر مردوں کے دوش بدوش مورچے نہیں سنبھالے تھے، نہ توپ و تفنگ سے وہ مسلح تھیں، بلکہ صرف پیچھے رہ کر فوجیوں کی خوراک اور مرہم پٹی کا کام کرتی رہی تھیں۔ جس طرح حضرت اُمّ عطیہ انصاری نے وضاحت کی ہے:
«غزوت مع رسول الله ! سبع غزوات، أخلفهم في رحالهم فأصنع لهم الطعام وأداوي الجرحی وأقوم علی المرضی» (مسلم، الجهاد، باب النساء الغازیات،الخ ح:۱۸۱۲،وسنن ابن ماجة، الجهاد،ح:۲۸۵۶)
"میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی۔میں ان کے خیموں میں پیچھے رہتی، ان کے لئے کھانا تیار کرتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی بیمار پرسی کرتی۔"
ان احادیث سے واضح ہے کہ جمعہ، جماعت، جنازہ او ر جہاد وغیرہ فرائض میں عورتوں کی شرکت کو ضروری قرار نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ان کے ساتھ یہ خصوصی رعایت کی گئی ہے کہ گھر بیٹھے ہی ان کو ان فرائض کا اجروثواب مردوں ہی کی طرح مل جائے گا بشرطیکہ وہ گھریلو اُمور پوری ذمے داری سے ادا کریں۔
شریعت کے ان احکام سے علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے معاشرے میں آزادانہ نکلنے اور چلنے پھرنے کو پسند نہیں کیا اور کارزارِ حیات میں معاش کی جدوجہد کرنا مرد کی ذمہ داری ٹھہرایا ہے۔ عورت کی کوئی بھی حیثیت ہو، اس کی کفالت کا ذمہ دار مرد کوبنا یا گیا ہے، جبکہ مغربی معاشرے نے حق کے نام پر عورت کو اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ کیا یہ عورت کا حق ہے ، یا اس پر ایک اور فرض لاد دیا گیا ہے!!
اسلام ہی طبقہ نسواں کا اصل محسن ہے اور اس نے ہردو صنف کی اس فطرت اور جبلت کے عین مطابق احکامات دیے ہیں، جن پر عمل کرکے ہی معاشرہ خیر وفلاح کی منزل پاسکتا ہے۔
مزید تفصیل کے لئے راقم کی نو طبع شدہ کتاب 'عورتوں کے امتیازی مسائل و قوانین' کا مطالعہ کریں