قتل غيرت كے نام پر،قرآن و سنت سے متصادم قانون سازى
پاكستان كى تاريخ ميں سال ٢٠٠٤ء كو 'اسلامى تشدد پسندى' كے خلاف حكومتى سرگرمى اور مسلح مہم جوئى كے علاوہ حدود قوانين اور توہين ِرسالت سے متعلق ضوابط كے خلا ف وفاقى حكومت اور بعض مغرب زدہ اين جى اوز كى تحريك كے حوالے سے ايك خاص اہميت كا حامل قرار ديا جاسكتا ہے- اس سال كے دوران پاكستان كے قبائلى علاقوں، پاك افغان سرحد كے ساتھ ساتھ اور وطن عزيز كے اندر فوجى كارروائى ميں سينكڑوں 'اسلامى جنگجووٴں' كو 'ہلاك' كياگيا اور يہ كارروائى دمِ تحرير بهى پورے زور و شور سے جارى ہے-
دوسرا محاذ جو سارا سال گرم رہا، وہ حدود قوانين اور توہين رسالت كى مخالفت كا ہے- ان دونوں مہمات كى بازگشت نہ صرف يہ كہ پورى دنيا ميں سنى جاتى رہى بلكہ اكنافِ عالم سے ان دونوں محاذوں پر حكومت اور اين جى اوز كو ہر طرح كى كمك بهى فراہم كى جاتى رہى ہے- اس كمك ميں يہ اَعداد وشمار بهى شامل ہيں كہ غيرت كے نام پر پاكستان ميں ٢٠٠١ء كے دوران ٧٥٨، ٢٠٠٢ء ميں ٨٢٣ اور ٢٠٠٣ء ميں ١٢٦١ عورتوں كو ہلاك كيا گيا ہے- ان اعدادوشمار سے يہ ثابت كرنا مقصود ہے كہ رائج الوقت قوانين عورتوں پر ڈهائے جانے والے مظالم كو كنٹرول كرنے ميں نہ صرف يہ كہ ناكام ہيں بلكہ متعلقہ جرائم ميں اضافے كى حوصلہ افزائى كا سبب بهى بن رہے ہيں- اس پس منظر كے ساتھ آئندہ دنوں ميں ايك اور قانونى جنگ كى منصوبہ بندى بهى كرلى گئى ہے، اس سلسلے ميں قومى اسمبلى ميں تين ترميمى سفارشات زير بحث آنے والى ہيں :
(1) بين الاقوامى سطح كے دباوٴ كے زير اثر حكومتى حلقوں نے عالمى طاقتوں كو مطمئن كرنے كے لئے ايك بل تيار كركے تقسيم كياجس ميں ايسى تجاويز سامنے لائى گئى ہيں جو حدود آرڈيننس ميں تبديلياں لاكر حدود آرڈيننس كے دائرہ ميں آنے والى خواتين كے گرد حفاظتى حصار تعمير كرنے ميں معاون ثابت ہوسكتى ہيں- اس كے ساتھ ساتھ اس بل ميں كچھ ايسى تبديلياں بهى تجويز كى گئى ہيں جن كے نفاذ كے بعد توہين رسالت كے حوالے سے دائر ہونے والے مقدمات كا طریقہ تفتيش بدل جائے گا اور ان مقدمات كو دائر ہونے كے بعد تفتيش كے مراحل ہى ميں ختم كردينے كے امكانات اور مواقع بڑھ جائيں گے-
(2)حكومتى بل كو ناكافى گرداننے والى پارٹى' پيپلزپارٹى، پيٹرياٹ' نے خواتين كو اپنے 'حقوق' كے حوالے سے مضبوط بنانے كے لئے اپنى طرف سے بهى ايك بل اسمبلى ميں پيش كيا- اس بل ميں اپنى پسند سے محبت كى شادى كرنے والى خواتين كے رستے ميں ركاوٹ بننے والے ماں باپ اور ديگر لوگوں كے لئے سزاے قيد تجويز كى گئى ہے- اور رائج الوقت حدود قوانين بہ يك جنبش ِقلم مسترد اور كالعدم قرار دينے كى سفارش كى گئى ہے-
(3)ان دونوں بلوں كے مقابلے ميں اسلامى قانونى حلقوں كى جانب سے رائج الوقت اسلامى قوانين وضوابط كو مزيد مستحكم بنانے كے لئے ايك عليحدہ بل مرتب كركے متعلقہ حلقوں ميں تقسيم كياگيا ہے- اس بل ميں زور ديا گيا ہے كہ اسلامى جمہوريہ پاكستان ميں رائج الوقت تمام قوانين كو قرآن و سنت كے سانچے ميں ڈهالا جانا لازمى قرار ديا جائے اور اس امر كى آئينى يقين دہانى عوام كومہيا كى جائے كہ آئنده بهى كوئى ايسا قانون وضع اور نافذ نہيں كيا جاسكے گا جو كسى بهى طرح سے قرآن و سنت كى تعليمات اور تقاضوں كے منافى يا ان سے متصادم ہو-
مقامِ حيرت ہے كہ ابهى تك ا ن ميں سے كوئى بهى بل بحث كے لئے قومى اسمبلى كے ايوان ميں پيش نہيں كيا گيا- ماہرين كا خيال ہے كہ چونكہ ان بلوں پر بحث بہت گرما گرم ہونے كا امكان ہے اور اس بحث كے نتيجے ميں عوامى سطح پر بهى اشتعال اور بدامنى كے انديشوں كو ردّ نہيں كيا جاسكتا- اس پس منظر كے ساتھ ساتھ اسى دوران جنرل پرويز مشرف كى وردى اُتارنے يا نہ اُتارنے كا فيصلہ بهى ہونے والاہے- وردى نہ اُتارنے كا فيصلہ بجائے خود ايك عوامى آتش فشاں ثابت ہوسكتا ہے- اس لئے عین ممكن ہے كہ حدود آرڈيننس ميں تبديليوں اور توہين رسالت كے قانون ميں اندراجِ مقدمہ كے طريقے ميں تبديلى كا بل اس سال قومى اسمبلى ميں زير بحث نہ آسكے- اس مہلت سے فائدہ اٹهاتے ہوئے اس تمام صورتِ حال كو عوامى آگہى اور معاملات كى بہتر تفہیم كے لئے استعمال كيا جاسكتا ہے- آنے والى سطور ميں ہم تينوں مذكورہ مجوزہ آئينى بلوں كے ايك جائزے كے ساتھ ساتھ ان كے ممكنہ اثرات كا تجزيہ كرنے كى كوشش كرتے ہيں-
(1) وفاقى حكومت كا ترميمى مسودہ
وفاقى حكومت نے حدود آرڈيننس، قانون توہين رسالت اور قانون ديت وقصاص سے متعلق رائج الوقت قوانين ميں تبديليوں كے لئے ايك بل تيار كيا ہے جس كا مسودہ وزيرمملكت برائے قانون كے وستخطوں كے ساتھ قومى اسمبلى ميں برائے مطالعہ تقسيم كيا گيا ہے- اس مسودے ميں مذكورہ بالا قوانين ميں ترميم و تبدل كى جو وجوہات بيان كى گئى ہيں، ان كا ترجمہ حسب ِذيل ہے :
"غيرت كے نام پر قتل اور اسى عنوان سے كئے گئے ديگر جرائم جن ميں 'كاروكارى' اور 'سياہ كارى' وغيرہ شامل ہيں، عوام الناس اور بنيادى انسانى حقوق كے لئے كام كرنے والى تنظيموں ميں ہميشہ سے زير بحث چلے آرہے ہيں- ليكن گذشتہ چند سالوں كے دوران يہ مباحث زيادہ اہميت اختيا ركرتے چلے گئے ہيں- بدقسمتى يہ ہے كہ مختلف عوامى سطحوں كے ساتھ ساتھ پوليس نے بهى غيرت كے نام پر كئے جانے والے جرائم كو قابل معافى تصور كرليا ہے- ايسے جرائم ميں سے بہت سے واقعات پر اكثر اوقات پرچہ تك درج نہيں كيا جاتا يا پهر مناسب تحقیق نہيں كى جاتى، مزيد يہ كہ اس كے بعد سنجيدگى سے مقدمات كى پيروى سے گريز كيا جاتاہے- بہت سے مقدمات ميں صلح كروا دى جاتى ہے- اس طرح مجرم اكثر اوقات سزا سے صاف بچ نكلتے ہيں اور اگر سزا ہو بهى تو جرم كى شدت كے تناسب سے نہيں ہوتى-
يہى وجہ ہے كہ غيرت كے نام پر كئے جانے والے جرائم كى سزاوٴں ميں اضافہ تجويز كرنا ضرورى ہوگيا ہے- يہ بهى محسوس كيا گيا ہے كہ بالخصوص پوليس اہلكار توہين رسالت كے مقدمات ميں اور حدود آرڈيننس كے تحت جرمِ زنا ميں ملوث خواتين كے معاملات ميں قانون كا غلط استعمال كررہے ہيں- اس لئے ان معاملات ميں پوليس كى تفتيش كا معيا ربلند كيا جانا مقصود ہے- تاكہ ايسے جرائم كى تفتيش سپرنٹنڈنٹ پوليس كے عہدے سے كم رتبے كا كوئى اہلكار نہ كرسكے- اور زنا كے زير الزام كسى خاتون كو عدالت كى اجازت كے بغير پوليس گرفتار نہ كرسكے- زير تجويز بل انہى مقاصد كے حصول كے لئے وضع كيا گيا ہے-"
مذكورہ بالا زير تجويز بل كى دفعہ نمبر ١ ميں كہا گيا ہے كہ اس قانون كا نام 'دى كريمنل لاء (امينڈمنٹ) ايكٹ ٢٠٠٤ء' ہوگا اور يہ فورى طور پر پورے ملك ميں نافذ العمل قرار پائے گا-
' غيرت كے نام پر جرائم' ميں ترميم
حكومتى بل كى دفعہ ٢ كے تحت تعزيراتِ پاكستان (پاكستان پينل كوڈ مجريہ ١٨٦٠ء) كى دفعہ ٢٩٩ كى ذيلى دفعہ 'ايچ' كے بعد ايك نئى دفعہ 'ايچ ايچ' كا اضافہ كرنے كى تجويز دى گئى ہے جس كا ترجمہ حسب ِذيل ہے :
"(ايچ ايچ) 'جرائم غيرت' سے مراد ايسے جرائم ہيں جو غيرت يا عزت كے نام پر كئے جائيں يا پهر غيرت اور بے عزتى كا بدلہ لينے كے لئے جن كا ارتكاب كياجائے- ان جرائم ميں قتل غيرت كے علاوہ كاروكارى، سياہ كارى اور ايسى ہى دوسرى مماثل رسومات بهى شامل ہيں-"
'قانونِ قصاص وديت' ميں ترميم
اس كے بعد دفعہ ٢٩٩ كى ذيلى دفعہ 'ايم' ميں بهى حسب ِذيل تبديلى تجويز كى گئى ہے اور كہا گيا ہے كہ اس دفعہ ميں جہاں لفظ 'قصاص' آيا ہے- اس كے بعد حسب ِذيل الفاظ كا اضافہ كياجائے گا ... "ماسوائے اس فرد كے جس نے قتل كا ارتكاب كيا ہو-"
ياد رہے كہ تعزيراتِ پاكستان كى دفعہ ٢٩٩ كى ذيلى دفعہ 'ايم' ميں 'ولى'كى تعريف بيان كى گئى ہے جس كامفہوم درج ذيل ہے :
"ولى سے مراد وہ شخص ہے جو طلبى قصاص كا حق دار ہو-"
بل ميں تجويز كى گئى ترميم كے بعد ولى كى تعريف كچھ اس طرح ہوجائے گى :
"ولى سے مراد وہ شخص ہے جو طلبى قصاص كا حقدار ہو ماسوائے اس شخص كے جس نے قتل كا ارتكاب كيا ہو-"
'قتل' ميں ترميم
پاكستان پينل كوڈ كى دفعہ ٣٠٢ جرمِ قتل سے متعلق ہے- اس ميں بهى دو تبديلياں تجويز كى گئى ہيں جو اس طرح سے ہيں :
دفعہ ٣٠٢ كى ذيلى دفعہ 'سى' ميں جہاں ٢٥ سال كے الفاظ درج ہيں، ان كے بعد حسب ذيل الفاظ درج كئے جائيں : "ليكن يہ سزا دس سال سے كم نہ ہوگى-"
اور پهر دوسرى تبديلى يہ كہ دفعہ 'سى' كے آخر ميں مندرجہ ذيل جملے كا اضافہ كيا جائے گا :
"اس شق ميں د ى گئى كسى چيز كا اطلاق اس قتل عمد پر نہيں ہوگا جو غيرت سے متعلقہ جرائم كے نتيجے ميں كيا گيا ہو- ايسے جرائم دفعہ ٣٠٢ كى ذيلى دفعات 'اے' اور 'بى' كے دائرے ميں آئيں گے- "
اس مجوزہ تبديلى كے بعد دفعہ ٣٠٢ حسب ِذيل صورت ميں اطلاق پذير ہوگى :
"٣٠٢- قتل عمد كى سزا: جو كوئى قتل عمد كا ارتكاب كرتا ہے- اسے اس باب (نمبر١٤) كے تحت:
(1) قصاص كے طور پر سزاے موت دى جائے گى-
(2) سزاے موت يا مقدمہ كے حالات و حقائق كے مطابق عمر قيد كى تعزيرى سزا دى جائے گى بشرطیكہ دفعہ ٣٠٤ كے مطابق ثبوت مہيا نہ ہوسكے-
(3) اگر اسلامى قانون كے تحت قصاص كى سزا لاگو نہ ہوسكے تو مذكورہ جرم پر ٢٥ سال تك سزا دى جاسكے گى ليكن يہ سزا دس سال سے كم نہ ہوگى-
حكومت كى جانب سے تيار كئے گئے ترميمى بل ميں پاكستان پينل كوڈ كى دفعہ ٣١٠ كى ذيلى دفعہ '١' ميں ايك تبديلى تجويز كى گئى ہے جو اس طرح ہے :
"كسى عورت كو بدلِ صلح كے نتيجے ميں بذريعہ شادى يا كسى اور طريقے سے كسى كے حوالے نہيں ديا جائے گا-"
اس مجوزہ ترميم كے بعد دفعہ ٣١٠ كى نئى صورت اس انداز ميں نفاذ پذير ہوگى :
"٣١٠- قتل عمد ميں قصاص پر صلح: قتل عمد كے مقدمہ ميں ايك عاقل بالغ ولى كسى مرحلے پر بهى بدلِ صلح قبول كركے اپنے حق قصاص سے دست بردار ہوسكتا ہے- البتہ كسى عورت كو بدلِ صلح كے نتيجے ميں بذريعہ شادى يا كسى اور طريقے سے كسى كے حوالے نہيں كياجائے گا-"
دفعہ ٣١٠ كے ساتھ ساتھ دفعہ ٣١١ ميں بهى دو تبديلياں تجويز كى گئى ہيں جو يوں ہيں:
(i) الفاظ ١٤ سال كے بعد مندرجہ ذيل الفاظ لكھے جائيں گے: "ليكن يہ دس سال سے كم نہيں ہوگى-"
(ii) لفظ Conscience كے بعد اس دفعہ كى وضاحتى شق ميں حسب ِذيل الفاظ كا اضافہ كيا جائے گا : "يا وہ فعل جو جرمِ غيرت سے متعلق ہو-"
مذكورہ بالا تبديليوں كے بعد دفعہ ٣١١ درج ذيل صورت ميں نفاذ پذير ہوگى:
"٣١١- قتل عمد ميں حق قصاص پر صلح كے بعد تعزير: دفعہ ٣٠٤ اور ٣١٠ ميں ديے گئے ضوابط سے قطع نظر ولى كا درجہ ركهنے والے تمام افراد نے صلح نہ كى ہو يا قصاص معاف نہ كيا ہو تو ايسے مقدمات ميں يا پهر فساد فى الارض كے پيش نظر حقائق اور حالات كو سامنے ركهتے ہوئے عدالت قتل عمد كے مجرم كو سزاے تعزير سناسكتى ہے- يہ سزا چودہ سال تك ہوسكتى ہے ليكن يہ سزا دس سال سے كم نہ ہوگى-
اس كے بعد پاكستان پينل كوڈ كى دفعہ ٣٢٤ ميں بهى ايك تبديلى تجويز كى گئى ہے اور كہا گيا ہے كہ اس دفعہ ميں لكھے گئے الفاظ 'دس سال' كے بعد حسب ِذيل لفظوں كا اضافہ كيا جائے گا:
"ليكن يہ سزا چار سال سے كم نہ ہوگى بشرطيكہ جرم كا تعلق غيرت سے متعلقہ جرائم سے ہو-"
بل ميں تجويز كى گئى اس ترميم كے بعد دفعہ ٣٢٤ حسب ِذيل صورت اختيار كرلے گى :
"٣٢٤- قتل عمد كى كوشش: اگر كوئى يہ جانتے ہوئے كہ اس كے اقدام سے جان جاسكتى ہے، جرم كا ارتكاب كرتا ہے تو اسے قتل عمد كى كوشش سمجھا جائے گا- ايسے جرم پر دس سال تك كى قيد اور جرمانہ كى سزا دى جاسكے گى- اس كے علاوہ مجرم كو ضربات پہنچانے كى الگ سزا بهى دى جائے گى ليكن يہ سزا چار سال سے كم نہ ہوگى بشرطيكہ جرم كا تعلق غيرت سے متعلق جرائم سے ہو-"
اس كے علاوہ پاكستان پينل كوڈ كى دفعہ ٣٣٧ 'اين' كى ذيلى دفعہ '٢' ميں بهى دو تبديلياں تجويز كى گئى ہيں يعنى ايك تبديلى كے ساتھ ايك وضاحت كا اضافہ بهى كيا گيا ہے- ان تبديليوں اور اضافے كى تفصيل حسب ِذيل ہے:
(اے) لفظ 'كرمينل' كے بعد درج ذيل الفاظ بڑهائے جائيں گے:
"يا اس نے جو ضربات لگائى ہوں، وہ جرائم غيرت سے تعلق ركھتى ہوں-"
(بى) فل سٹاپ كے بعد مندرجہ ذيل وضاحت بهى قانون ميں شامل كى جائے گى :
"اگر جرم كا تعلق غيرت سے ہو تو متعلقہ جرم كے لئے قانون ميں دى گئى زيادہ سے زيادہ سزا كو پيش نظر ركهتے ہوئے تعزير كى ايسى سزا دى جائے گى جو ضربات پر زيادہ سے زيادہ سزا كے ايك تهائى سے كم نہ ہوگى- ليكن اگر يہ ضربات غيرت سے متعلق جرائم كے نتيجے ميں پہنچائى گئى ہو تو تعزير زيادہ سے زيادہ سزا كے نصف سے كم نہ ہوگى-"
ياد رہے كہ دفعہ ٣٣٧'اين' ان ضربات سے متعلق ہے جن ميں قصاص كى سزا لاگو نہيں ہوتى- اس كى ذيلى دفعہ '٢' ميں كہا گيا ہے كہ ايسے مقدمات عدالت اپنى صوابديد كے مطابق ارش (اتلافِ عضو وغيرہ كا عوضانہ) كے علاوہ تعزير بهى دے سكے گى بشرطيكہ مجرم سابقہ سزا يافتہ ہو، عادى يا سنگدل مجرم ہو يا پهر مشتعل اور خطرناك جرائم پيشہ ہو-
پاكستان پينل كوڈ كى دفعہ ٣٣٨'اى' كى ذيلى دفعہ '١' كے آخر ميں حسب ِذيل الفاظ كے اضافے كى سفارش بهى كى گئى ہے :
"مزيديہ كہ اگر اس باب كے تحت قتل عمد يا كوئى اور ارتكابِ فعل غيرت كے نام پر كيا گيا ہو تو ايسا جرم نہ تو قابل معافى ہوگا اور نہ صلح كے قابل گردانا جائے گا- ماسواے اس كے كہ عدالت اپنى دانست كے مطابق شرائط عائد كركے صلح يا معافى كى اجاز ت دے- عدالت اس ضمن ميں حالات و واقعات كو سامنے ركہ كر حكم جارى كرے گى-"
قارئين كى دلچسپى كے لئے يہاں يہ عرض كرنا ضرورى معلوم ہوتاہے كہ اوپر دى گئى عبارت ميں لفظ باب سے مراد پاكستان پينل كوڈ (تعزيراتِ پاكستان) كے باب نمبر١٦ سے ہے- ١٩٩٧ء ميں كرمينل لاء (امينڈمنٹ) ايكٹ نمبر II كے تحت ١١/ اپريل ١٩٩٧ء كو تعزيراتِ پاكستان ميں تبديلى كركے دفعہ نمبر ٢٩٩ تا ٣٣٨ ميں ردّوبدل كيا گيا تها اور انسانى جان كو ضرر پہنچانے سے متعلق سزاوٴں كو اسلامى قانون كے دائرے ميں لايا گيا تها اور مختلف ضربات سميت قتل عمد اور قتل خطا كى تعريف متعين كى گئى تهى-
اس باب كے تحت قتل عمد، قتل خطا، جبرى قتل، قتل عمد ناسزاوار قصاص، قتل عمد بعد از معافى قصاص، قتل شبہ عمد، قتل بالسبب، حملہ برائے قتل عمد، خود كشى كى كوشش، بچوں كے اغوا اور ڈكيتى ميں معاونت، بارہ سال سے كم عمر كے بچے كى زندگى كوخطرات ميں ڈالنا، كسى پيدائش كو چھپانا، نومولود كے مردہ جسم كو ضائع كرنا، كسى انسان كو مجروح كرنا، جسمانى اعضا سے محروم كرنا، جسمانى عضو كو ناكارہ بنانا، سر يا چہرے پر ضربات لگانا، سر اور چہرے كے علاوہ بدن كے ديگر حصوں پر چوٹ لگانا، تيز رفتار گاڑى سے كسى كو زخم پہنچانا، كوئى بات منوانے كے لئے تشدد كرنا، جائيداد حاصل كرنے كے لئے تشدد كرنا، دانت ضائع كرنا، بالوں سے محروم كرنا، اسقاطِ حمل كروانا يا كرنا، اسقاطِ جنين كرنا يا كروانا جيسے جرائم شامل ہيں-
اسى باب ميں ان تمام جرائم كى تعريف متعين كرنے كے ساتھ ساتھ ان كى سزائيں بهى بيان كى گئى ہيں اور ديت و قصاص كى ادائيگى اور ان رقوم كے حق دار افراد كا تعين بهى كيا گيا ہے- حكومت كى طرف سے تجويز كردہ بل ميں اوپر بيان كى گئى سطور اگر باقاعدہ قانون سازى كے ذريعے نافذ العمل ہوجاتى ہيں تو ان كا اثر باب نمبر١٦ ميں بيان كئے گئے مذكورہ بالا جرائم پر پڑے گا- يعنى جن جرائم ميں يہ ثابت ہوگيا كہ يہ جرائم غيرت كے غلبہ ميں آكر كئے گئے ہيں ان ميں معافى اور صلح كى سہولت ميں فريقين كا اختيار ختم ہوجائے گا- البتہ حالات و واقعات كى روشنى ميں عدالت اگر يہ مناسب سمجھے كہ صلح يا معافى قرين انصاف دكهائى ديتى ہے تو مجرم فريق پر اپنى دانست اور صوابديد كے مطابق شرائط عائد كرتے ہوئے صلح يامعافى كا حكم جارى كرسكتى ہے- يہاں يہ عرض كرنے كى ضرورت نہيں ہے كہ اگر مجرم فريق عدالت كى عائد كردہ شرائط پورى نہ كرسكے گا تو صلح يا معافى غير موٴثر ہوجائے گى-
توہين ِ رسالت قانون ميں تبديلى!
حكومت كے مجوزہ ترميمى بل كى دفعہ ٩ كے تحت ضابطہ فوجدارى كى دفعہ ١٥٦ ميں اضافہ كرتے ہوئے ذيلى دفعات ١٥٦'اے' اور ١٥٦'بى' كا اضافہ كرنے كى تجويز بهى دى گئى ہے- ضابطہ فوجدارى كى دفعہ ١٥٦ كسى وقوعہ كى ابتدائى رپورٹ درج كروانے سے متعلق ہے- ترميمى بل ميں جو دو اضافے تجويز كئے گئے ہيں- ان كا مفہوم حسب ذيل ہے:
١٥٦'اے': تعزيراتِ پاكستان كى دفعہ ٢٩٥ 'سى' كے تحت جرم كى تفتيش :
"سپرنٹنڈنٹ پوليس كے عہدے سے كم رتبے كا كوئى پوليس افسر تعزيرات ِپاكستان كى دفعہ ٢٩٥ سى كے تحت درج مقدمے كے ملزم سے تفتيش نہيں كرسكے گا-"
١٥٦ 'بى' : جرم زنا كى ملزمہ عورت كے خلاف تفتيش:
"جہاں جرمِ زنا (نفاذِ حدود) آرڈيننس ١٩٧٩ء كے تحت جرم زنا كى ملزم كسى عور ت سے تفتيش مقصود ہو تو ايسى تفتيش سپرنٹنڈنٹ كے عہدے سے كم رتبے كا پوليس آفيسر نہيں كرسكے گا، نہ ہى ملزمہ عورت كو عدالت كى اجازت كے بغير گرفتار كيا جاسكے گا-"
مجلس عمل نے بهى حكومتى بل كى بعض شقوں پر اعتراض كرتے ہوئے اسے مسترد كرنے كا اعلان كيا- مجلس عمل كا موقف ہے كہ اس بل كے ذريعے شرعى قوانين سے چھیڑ چهاڑ كى كوشش كى گئى ہے- مجلس عمل تسليم كرتى ہے كہ غيرت كے نام پر قتل دراصل قتل عمد ہى ہوتا ہے اور قتل عمد كى واضح سزا ہمارے قانون ميں موجود ہے مگر حكومتى بل ٢٠٠٤ء كى بعض دفعات قرآنى احكامات سے متصادم ہيں- اس بل كى آڑ ميں ولى يا مقتول كے ورثا سے معاف كردينے كا قرآنى حق چھینا جارہا ہے جو كہ پاكستان كے آئين كى صريح خلاف ورزى ہے- مجلس عمل كا كہنا ہے كہ سورئہ بقرہ كى آيت نمبر ١٧٨ واضح طور پرمعاف كردينے كا حق ديتى ہے- ليكن بل كى دفعات ٣، ٨ اور ١٠ قرآن كے عطا كردہ' اس حق' كو سلب كرنے كے مترادف ہيں- جبكہ دفعہ نمبر ٣ ميں غيرت كے نام پر قتل كى سزا صرف سزاے موت يا عمر قيد ہى مقرر كى گئى ہے- ولى سے معافى يا صلح نامے كا حق چهينا جارہا ہے-
مجلس عمل كا كہنا ہے كہ اين جى اوز كى يہ دليل كہ چونكہ ايسے اكثر مقدمات ميں خود باپ اور بهائى قاتل ہوتے ہيں اس لئے ان كى معافى كا كوئى حق كسى كو نہيں ديا جاسكتا حالانكہ شريعت كا يہ طے شدہ اصول ہے كہ باپ يعنى اصل كو اولاد يعنى فرع كے بدلے ميں قتل نہيں كيا جاسكتا- اس ميں سماجى مصلحت يہ ہے كہ اگر ولى كو قتل كرديا گيا تو خاندان كے بچوں سے ان كے سربراہ يا كفيل بهى چهن جائے گا- اس طرح خاندانى سسٹم مزيد تباہ ہوكر رہ جائے گا-
(2) پيپلز پارٹى پيٹرياٹس كا ترميمى مسودہ
حكومتى بل كے مقابلے ميں پاكستان پيپلز پارٹى پيٹرياٹس كى خاتون اركانِ قومى اسمبلى كى جانب سے عورتوں كو 'بااختيار' بنانے كے لئے ايوان ميں پيش كيا جانے والے مجوزہ قانون كا ابتدائيہ حسب ِذيل ہے:
"آئين پاكستان كى رو سے چونكہ يہ امر ممنوع ہے كہ كسى جنس كو دوسرى پر برتر امتيازات حاصل ہوں، اس لئے پاكستانى خواتين كو تحفظ اور اختيار دينا ضرورى ہے تاكہ وہ پاكستان كى مساوى شہرى ہونے كى حيثيت سے عزت و وقار كے ساتھ زندگى كے حق سے مستفيد ہوں جو كہ پورى قوم كى آزادى اور بہبود كے لئے لازمى ہے- لہٰذا بذريعہ ہذا حسب ِذيل قانون وضع كياجاتا ہے-"
اب پيپلز پارٹى پيٹرياٹس كى جانب سے پيش كردہ مجوزہ بل كا مسودہ پيش خدمت ہے:
(1) مختصر عنوان اور آغازِ نفاذ
(1) يہ ايكٹ 'خواتين كے تحفظ اور اختيار كے ايكٹ ٢٠٠٤ء' كے نام سے موسوم ہوگا-
(2) يہ فى الفور نافذ العمل ہوگا-
(2) ہمہ گير خواندگى
(1) بذريعہ ہذا قانون وضع كيا جاتا ہے كہ دس سال سے كم عمر تمام بچوں كے لئے پرائمرى تعليم فورى طور پر لازم ہوگى-
(2) ہروالد يا سرپرست كا فرض ہوگا كہ وہ ايكٹ ہذا كے نفاذ كے ايك ماہ كے اندر ہر بچے كو داخل كروائے-
(3) ہر ضلعى حكومت ضلع ميں رہائش پذير دس سال عمر كے ہر بچے كو مفت پرائمرى تعليم دينے كى پابند ہوگى-
(4) ہر يونين كونسل اپنى حدود ميں رہائش پذير دس سال سے كم عمر كے بچوں كا رجسٹر ركهے گى-
(5) ايكٹ ہذا كے نفاذ سے ايك ماہ كا عرصہ ختم ہونے پر چيئرمين يونين كونسل ضلعى حكومت كے پاس مردم شمارى ريكارڈ كے مطابق دس سال سے كم عمر بچوں كے نام وپتے، سكول كا نام جس پر يہ بچے زير تعليم ہيں اور دس سال سے كم عمر اُن بچوں كے نام اور پتے جو سكول نہيں جارہے، ان پر مبنى ايك گوشوارہ جمع كروائے گا-
(6) ضلعى حكومت گوشوارے كى وصولى كے ايك ہفتے كے اندر والدين يا سرپرست كو نوٹس دے گى كہ وہ بچے كو نوٹس ميں صراحت كردہ سكول ميں داخل كروائے جو بچے كى رہائش گاہ سے دو ميل كے فاصلے سے زيادہ دور نہ ہوگا-
(7) كوئى والد يا سرپرست جو دفعہ ہذا كى تصريحات پر عمل كرنے سے قاصر رہے گا وہ امتناعى سزا كا مستوجب ہوگا جب تك وہ بچے كو داخل نہ كروا دے-
(8) يونين كونسل كا ناظم جو گوشوارہ جمع كروانے سے قاصر رہے اور ضلعى ناظم جو دفعہ ہذا كى خلاف ورزى كرے وہ بلدياتى انتخاب ميں اليكشن كے لئے نااہل قرار پائيں گے-
(3)مثبت كارروائى
(1) وفاقى و صوبائى حكومتيں زندگى كے تمام شعبوں ميں عورتوں كى مساوى شركت كو يقينى بنائيں گى.
(2) رياست اس مقصد كے حصول كى غرض سے تمام انتظامى اور آئينى ذرائع كو بروئے كار لاتے ہوئے ايك مثبت منصوبہ متعارف كرائے گى-
(3) فيڈرل پبلك سروس كميشن اور تمام صوبائى پبلك سروس كميشن يكم جنورى ٢٠٠٥ء سے كل ملازمتوں كا ايك تهائيخواتين كو تفويض كريں گے-
(4)مساوى تنخواہ
(1) جنس كى بنياد پر تنخواہ ميں امتياز كى ممانعت ہوگى-
(2) ہر ايك ملازم، چاہے سركارى يا نجى شعبہ ميں ہو؛ 'آئى ايل او كنونشن ١٠٠' كا پابند ہوگا جس ميں مساوى كام كے لئے مساوى تنخواہ كا ذكر كيا گيا ہے-
(3)كسى نجى ملازم كا چيف ايگزيكٹو يا كسى سركارى ادارہ يا حكومت كے محكمے كا سربراہ آئى 'ايل او كنونشن ١٠٠' كى خلاف ورزى كى صورت ميں ايك لاكھ روپے جرمانے اور ايك سال قيد بامشقت كا مستوجب ہوگا-
(5)گهريلو تشدد اور عزت كے نام پر قتل كى ممانعت
(1) گهريلو تشدد بشمول عزت كے نام پر قتل يا جسم كو ضرر پہنچانا ايسے ہى قابل سزاہوگا جيسے مجموعہ تعزيراتِ پاكستان كے تحت ذاتى زخم لگانا يا لائق تعزير قتل، قابل سزا ہے-
(2) جو كوئى بهى كسى عورت كا شوہر يا شوہر كا رشتہ دار ہوتے ہوئے عورت پرتشدد كرتا ہے يا ظلم كرتا ہے ، وہ ذ ہنى يا جسمانى، سزاے قيد كا مستوجب ہوگا- قيد جو تين سال تك ہوسكتى ہے ايسے ہى ٥ لاكھ روپے جرمانہ كا بهى مستوجب ہوگا-
(3) عدالت عاليہ كا ہر ايك بنچ ايكٹ ہذا كے تحت جرائم پر مقدمہ چلانے كے لئے ايك جج مقرر كرے گا-
(4) اس طرح سے تقرر يافتہ ہائى كورٹ كے واحد جج كو جوڈيشل مجسٹريٹ اور/يا عدالت سيشن كے اختيارات حاصل ہوں گے-
(6) احتمال
(1) چولہا پهٹنے كے تمام كيسوں ميں عورت كا شوہر يا اس كى عدم موجودگى ميں گهرانے كا مكين بزرگ ترين مرد ذمہ دار ٹھہرايا جائے گا اور مجموعہ تعزيراتِ پاكستان ١٨٦٠ء كے تحت شديد ضرريا قتل عمد مستلزم سزا كا مستوجب ہوگا-
(2) نابالغ كى ماں كو فطرى سرپرست فرض كيا جائے گا جب تك كہ نابالغ كى بہبود، سرپرست اور وارڈز كورٹ كى طرف سے قلمبند كردہ وجوہات كى بنا پر كسى دوسرى صورت كى متقاضى نہ ہو-
(7) انتخاب ميں آزادى
(1) ہر عورت كو اپنى ذاتى پسند كے فرد سے شادى كرنے كا حق ہوگا-
(2) نكاح خواں كا يہ فرض ہوگا كہ وہ دلہن اور وكيل كو نكاح نامہ كى دفعات كى وضاحت كرے اور دلہن كو طلاق كا حق اور مہر كى رقم جو خاوند كى دولت كے مطابق ہو،كے ضمن ميں بهى وضاحت كرے-
(3)كسى عورت كى شادى ميں ناجائز دباوٴ، سختى يا جبر كااستعمال ايسا جرم ہوگا جس كے لئے ايك سال كى سزائے قيد اور جرمانہ كى سزا ہوگى-
(8)جيلوں ميں حلقہ خواتين
(1) ٢٠٠٤ء كے اختتام تك ہر ايك جيل ميں ويمن پوليس كے زير انتظام ايك عليحدہ اور خود مختار احاطہ قائم كيا جائے گا-
(2) ہر ايك جيل ويمن وارڈ كے لئے ايك اضافى انسپكٹر جنرل كا تقرر كرے گا جس كے انسپكٹر جنرل برائے جيل خانہ جات ايسے اختيارات اور فرائض ہوں گے-
(3) جملہ خواتين قيديوں كے نابالغ بچوں كى رہائش و تعليم كيلئے انتظامات كئے جائيں گے-
(9) خواتين كى شركت
(1) اسلامى نظرياتى كونسل، منصوبہ بندى كميشن، پى آئى اے كے بورڈ آف ڈائريكٹرز اور خود مختار اداروں اور اعلىٰ تعليم كميشن ميں كم از كم ايك تہائى نشستيں خواتين كيلئے مخصوص ہوں گى-
(10) حقوقِ جائيداد اور وراثت
(1) بيوگان اور يتيموں كى وراثت كے معاملات كا چھ ماہ كے اندر اندر فيصلہ كيا جائے گا-
(2) كسى خاتون كى جانب سے كى جانيوالى جائيداد كى منتقلى كو جائز خيال نہيں كيا جائے گا تاوقتيكہ اندراج ايكٹ يا مجموعہ ماليہ اراضى كے تحت منتقل كنندہ حاكم مجاز كے سامنے خود پيش نہ ہو-
(3) كسى خاتون كو منتقل كى جانے والى جملہ جائيداد كا اس كے نام اندراج كيا جائے گا اور اس كو اُصولِ بيع نامى سے مشروط نہيں كيا جائے گا-
(11) حدود آرڈيننس كى منسوخى
لہٰذا بذريعہ ہذا حدود آرڈيننس كومنسوخ كيا جاتا ہے-
بيان اغراض و وجوہ
(1) بانى پاكستان محمد على جناح كى طرف سے خواتين كو ديے گئے حقوق پر عمل درآمد كو يقينى بنانا-
(2) پاكستان كى خواتين كو تحفظ اور اختيار دينا كہ وہ پاكستان كے مساوى شہرى ہونے كى حيثيت سے عزت و وقار كے ساتھ زندگى كے حق سے مستفيد ہوں-
(3) پاكستان ميں خواتين كى آزادى اور ان كے مقام و مرتبے كو بلند كرنے كا اہتمام كرنا-
بل ہذا كا مقصد انہى مذكورہ بالا مقاصد كا حصول ہے-
دستخط بيگم شيرى رحمن، بيگم رضيہ خانم سومرو،ڈاكٹر عذرا افضل پيچوہو،
بيگم ناہيد خان، بيگم نفيسہ منور راجہ،ڈاكٹر فہميدہ مرزا،بيگم شمشاد ستار بچانى،
محترمہ رخسانہ بنگش،محترمہ فوزيہ حبيب (اراكين قومى اسمبلى)
(3) اسلامى حلقوں كى مجوزہ ترميم
ايك طرف تو پاكستان پيپلزپارٹى پيٹرياٹس كا 'مختارئ خواتين' سے متعلق بل ہے اور دوسرى طرف حكومت كا اپنا تجويز كردہ بل بهى اركانِ اسمبلى كے ہاتهوں ميں پہنچ چكا ہے- ليكن اس كے ساتھ ساتھ اسلامى حلقوں كى جانب سے بهى نفاذِ اسلام سے متعلق ضوابط كو مضبوط اور مستحكم بنانے كے لئے ماہرين كى ايك جماعت نے ايك بل كا مسودہ تيار كيا ہے- اس بل كى تيارى بعض اسلامى دانشوروں كى تحريك پر ہوئى ہے-
بل كا مسودہ تيار كرنے والى ٹيم نے پاكستان كے معروف قانون دان محمد اسمٰعيل قريشى كى قيادت ميں آئين ميں ترميمات كے لئے ايك مسودہ تيار كيا ہے- يہاں اس مسودے كا بهى ايك جائزہ بے جا نہ ہوگا- اس بل كے ابتدائيہ ميں واضح كيا گياہے كہ آئين كے تحت اسلام كو رياست كا مذہب قرار ديا گيا ہے اور شہريوں پر لازم ہے كہ وہ اپنى زندگيوں كو قرآن و سنت ميں بيان كردہ شعائر كے مطابق ڈهاليں- اس لئے مذكورہ بالا مقاصد كو سرعت كے ساتھ حاصل كرنے كے آئين پاكستان ميں مزيد تبديلى ضرورى ہوگئى ہے-
اس بل كا عنوان 'آئين (ترميم) ايكٹ ٢٠٠٤ء' تجويز كيا گيا ہے اور اس كے فورى طور پر پورے پاكستان ميں نافذ العمل ہونے كى سفارش كى گئى ہے-
اسلامى حلقوں كے تيار كردہ اس بل ميں آئين پاكستان كے آرٹيكل ٢'اے' كے بعد ايك نئے آرٹيكل ٢'بى' كے اضافے كى تجويز دى گئى ہے جس كے متن كا مفہوم حسب ِذيل ہے:
"آرٹيكل ٢بى:تمام رائج الوقت قوانين كو قرآن اور سنت كے لوازم كے مطابق بنايا جائے گا اور كوئى ايسا قانون نافذ نہيں كيا جائے گا جو قرآن و سنت كى روح كے منافى ہو-
(1) آئين كا كوئى آرٹيكل غير مسلموں كے شخصى قوانين، مذہبى آزادى اور رسوم و رواج پر اثر انداز نہيں ہوگا-
(2) اس آرٹيكل كے مندرجات موٴثر اور زيرعمل رہيں گے اور از خود كارروائى كى صلاحيت سے بہرہ ور ہوں گے-"
زير مطالعہ بل كى دفعہ ٥ميں كہا گيا ہے كہ آئين پاكستان كا آرٹيكل ٢٢٧ معہ اپنى وضاحت اور كلاز ٢ و٣ حذف قرار ديا جائے گا- يہاں قارئين كے سہولت كے لئے آرٹيكل ٢٢٧ كا متن بهى تحرير كيا جارہا ہے:
آرٹيكل ٢٢٧ آئين كے دسويں باب كا پہلا آرٹيكل ہے ، يہ باب اسلامى ضوابط سے متعلق ہے-
٢٢٧- قرآن اور سنت سے متعلق ضوابط:
(1) تمام رائج الوقت قوانين كو قرآن و سنت كے تقاضوں كے مطابق بنايا جائے گا اور ايسا كوئى قانون وضع نہيں كيا جائے گا جو قرآن و سنت سے متصادم ہو-
وضاحت: مختلف مكاتب ِفكر كے شخصى قوانين كى روشنى ميں 'قرآن و سنت كے تقاضوں كے مطابق' الفاظ سے وہى تشريح مراد لى جائے گى جسے متعلقہ مكتب ِفكر درست سمجھتا ہے-
(2) ذيلى آرٹيكل ١ پر عمل درآمد صرف اسى طريقے سے ہوگا جواس باب (باب نمبر ١٠) ميں بيان كيا گياہے-
(3) آئين كے اس حصے (يعنى اسلامى ضوابط سے متعلقہ حصے) كا كوئى قانونى اثر غيرمسلم شہريوں كے شخصى قوانين پر نہيں ہوگا-
آرٹيكل ٢٢٧ كو حذف كرنے كى يہ تجويز شايد اس لئے پيش كى گئى ہے كہ اس سے قبل اسى بل ميں آرٹيكل ٢(اے) كے بعد ايك نيا آرٹيكل ٢(بى) اضافہ كرنے كى سفارش شامل ہے-
آرٹيكل ٢٢٧ كے ضابطہ (اے) كى عبارت تقريباً وہى ہے جو مجوزہ نئے آرٹيكل ٢(بى) ميں وضع كى گئى ہے؛ ماسوائے ہر طبقہ فكر كے شخصى قوانين كے احترام والى وضاحت كے- اسى طرح غير مسلم پاكستانيوں كے شخصى قوانين كے احترام اور ان كى مذہبى آزادى كى جو ضمانت آرٹيكل ٢٢٧ ميں بيان كى گئى تھى اسے قدرے وسعت كے ساتھ نئى مجوزه ترميم ميں برقرار ركها گيا ہے-
اس مجوزہ بل ميں آئين كے آرٹيكل ٢٠٣ (بى)كى ذيلى كلاز (سى) ميں بهى ايك ترميم تجويز كى گئى ہے- آئين كا آرٹيكل ٢٠٣(بى) وفاقى شرعى عدالت كى تشكيل اور طريقہ كار سے متعلق ہے- كلاز (سى) كا مفہوم حسب ِذيل ہے :
(سى) 'قانون' سے مراد وہ رسوم اور طريقے ہيں جنہيں قانونى طاقت حاصل ہے- ليكن مسلمانوں كا شخصى قانون، كسى عدالت يا ٹربيونل كا طريقہ كار اور اس باب كے نفاذ سے آئندہ دس سال تك كوئى مالى قانون،ٹيكسوں كے نفاذ اور وصولى كے قانون يا بنكنگ انشورنس پریكٹس اور طریقہ ہائے اس ميں شامل متصور نہيں ہوں گے-"
مجوزہ بل ميں تجويز كى گئى ترميم كے مطابق مطالبہ كيا گيا ہے كہ ذيلى آرٹيكل 'سى' ميں سے عبارت كاوہ حصہ جو مندرجہ ذيل الفاظ و مفہوم كا حامل ہے، حذف كرديا جائے :
"اور اس باب كے نفاذ سے آئندہ دس سال تك كوئى مالى قانون، ٹيكسوں كے نفاذ اور وصولى كے قانون يا بنكنگ انشورنس پريكٹس اور طريقہ ہائے شامل متصور نہيں ہوں گے-"
اس عبارت كو حذف كرنے كا جواز شايد يہ ہے كہ سود پر مبنى مالى قوانين اور بنك ضوابط كو شروع ميں چار سال كے لئے تحفظ ديا گياتها- بعد ازاں ١٩٨٣ء ميں صدارتى حكم نمبر ٧ كے ذريعے يہ مدت كم كركے تين سال كردى گئى- اس كے بعد ١٩٨٤ء ميں صدارتى حكم نمبر ٢ كے تحت تين سال كے الفاظ كو 'پانچ سال' سے بدل ديا گيا- ليكن پهر ١٩٨٥ء ميں صدارتى حكم نمبر ١٤ كے تحت يہ مدت پانچ سال سے بڑها كر دس سال كردى گئى اور اب يہ دس سال گزرے ہوئے چودہ سال كا عرصہ گزر چكا ہے - یعنى آئين كى حد تك حكومت اس امر كى پابند ہوچكى ہے كہ تمام مالى قوانين، بنك كارى سے متعلق ضوابط اور طريقہ كار كے علاوہ ٹيكسوں كے نفاذ اور وصولى كے طريقوں كو بهى قرآن اور سنت كے مطابق بنائے-
اسلامى حلقوں كى جانب سے پيش كردہ آئين كے ترميمى مجوزہ بل ميں وفاقى شرعى عدالت كى حيثيت اور ججوں كے مرتبے كو مزيد مستحكم كرنے كے لئے اقدامات بهى تجويز كئے گئے ہيں اور آئين كے آرٹيكل ٢٠٣ (سى سى) كى ذيلى كلاز (٢) ميں الفاظ كى ترتيب ميں حسب ِذيل ترميم كى سفارش كى گئى ہے-
(2) وفاقى شرعى عدالت پاكستان كے جج كو وہى تنخواہ، الاوٴنس اور پنشن دى جائے گى جس كاحقدار ہائى كورٹ كے ايك مستقل جج كو گردانا جاتا ہے-
اسى طرح آئين كے آرٹيكل ٢٠٣(ايف) كى كلاز (٣) كى ذيلى كلاز (بى) ميں بهى حسب ذيل ترميم تجويز كى گئى ہے جسے مختصر الفاظ ميں يوں بيان كيا جاسكتا ہے :
"صدرِ پاكستان دو علما كو سپريم كورٹ كامستقل جج مقرر كريں گے-ان كا انتخاب وفاقى شرعى عدالت كے حاضر ججوں ميں سے كيا جائے گا يا پهر علما كے ايك پينل ميں سے انتخاب كيا جائے گا جو كہ صدرِ پاكستان چيف جسٹس آف پاكستان كے مشورے سے تشكيل ديں گے- ان علما ججوں كو وہى تنخواہ اور مراعات حاصل ہوں گى جو سپريم كورٹ كے ايك جج كو حاصل ہوتى ہيں-"
وفاقى شرعى عدالت كے ججوں كى ملازمت كو تحفظ دينے اور بغير دباوٴ كے فيصلے كرنے كا ماحول پيدا كرنے كے لئے مجوزہ بل ميں تجويز كيا گيا ہے كہ آئين كے آرٹيكل ٢٠٣(ايف) كى ذيلى دفعہ ٤ كو دستور سے حذف كرديا جائے- قارئين كى دلچسپى كے لئے عرض ہے كہ ذيلى دفعہ ٤ ميں كہا گيا ہے كہ شرعى عدالت كے يہ جج اس مدت تك كام كرسكيں گے جس كا تعين صدر پاكستان اپنى صوابديد كے مطابق كرے گا-
تجزيہ وتبصرہ
اس مرحلے پر حكومت، پيپلزپارٹى پيٹرياٹس اور اسلامى حلقوں كى جانب سے تجويز كردہ مذكورہ بالا تينوں ترمیمى بلوں كا ايك مختصر تجزياتى جائزہ بے جا نہ ہوگا- حكومت كى جانب سے ترتيب پانے والے بل ميں حدود قوانين اور قانونِ توہين رسالت كو برقرار ركهنے كا عزم موجود ہے اور انہيں يكسر ختم كرنے كى كوئى بات نہيں كى گئى بلكہ رائج الوقت قوانين ميں ايسى تبديلياں اور ترمیمات تجويز كى گئى ہيں جن كے نافذ العمل ہونے كے بعد ملك ميں غلط طور پر رائج كاروكارى، سياہ كارى جيسى رسوم كى حوصلہ شكنى ہوسكے اور غيرت كے نام پر قتل اور ديگر جرائم كا ارتكاب كرنے والے عناصر كے ساتھ سختى سے نمٹا جاسكے-
اس مقصد كے لئے اس بل ميں غيرت سے متعلقہ جرائم كى انتہائى سزا كو واضح طور پر قتل عمد كے زمرے ميں شامل كرديا گيا ہے اور ديگر متعلقہ جرائم پر يا تو تعزيرى سزاوٴں ميں اضافہ كرديا گيا ہے يا پهر سزاوٴں كى كم سے كم حد مقرر كردى گئى ہے- تاكہ عدالت اگر چاہے بهى تو ايك خاص حد سے كم سزا نہ سنا سكے-
يہاں يہ سوال قابل توجہ ہے كہ خاندانى عزت و وقار كى بحالى اور غيرت كے نام پر قتل اور ديگر پُرتشدد اقدامات پر اسلامى فقہ كا نقطہ نظر كيا ہے- يا پهر قرآن و حديث كى روشنى ميں اس مسئلے پر كيا رہنمائى سامنے آتى ہے اور كيا حكومت كى تجويز كردہ ترمیمات قرآن و سنت كے ثابت شدہ اُصولوں (يا رعايتوں، اگر كوئى ہيں) سے متصادم تو نہيں ہيں-
ديت و قصاص پر قرآن سے متصادم قانون سازى
اس سلسلے ميں دفعہ ٣٣٨ كى ذيلى دفعہ ايف كا معاملہ بہت حساس نوعیت كا ہے- اس دفعہ ميں ترميم اور تبديلى كے ذريعے عدالتوں سے راضى نامے كى منظورى اور مدعى فريق سے صلح كا حق چھین ليا گيا ہے جو كہ قرآنى نصوص سے سراسر متصادم ہے- قرآن فريقين ميں صلح اور راضى نامے كى صورت ميں قصاص كو ترك كركے ديت وصول كرنے كى اجازت ديتا ہے- اسى طرح اگر قاتل والد يا ولى ہو تو اسلامى قانون كى روشنى ميں اس پر بهى قصاص لاگو نہيں ہوتا- خود پاكستان كى سپريم كورٹ ١٩٩٩ء ميں خليل الزمان كيس ميں حتمى طور پر يہ قرار دے چكى ہے كہ اگر والد، اپنے بيٹے، بيٹى، پوتے يا پوتى كا قتل كردے تو وہ قصاص كى سزا سے مستثنىٰ ہوگا- (البتہ اسے اس جرم پر تعزير كى زيادہ سے زيادہ سزا دى جاسكتى ہے) اس امر پر كوئى دوسرى رائے نہيں ہوسكتى كہ قصاص و ديت سے متعلق دفعات ٣٠٦ تا ٣١١ ميں تراميم كے ذريعے قرآنى احكامات سے صرفِ نظر كرنے كى كوشش كى گئى ہے- حالانكہ سورئہ بقرہ كى آيت ١٧٨ واضح طور پر جہاں قتل عمد پر بطور قصاص سزائے موت كا حكم ديا گيا ہے وہيں اس جرم پر راضى نامے اور سزا ميں معافى كى نہ صرف رعايت دى گئى ہے بلكہ اسے باعث ِ رحمت بهى قرار ديا گيا ہے-
يہاں يہ بات بهى قابل ذكر ہے كہ قرآن كے علاوہ مذكورہ بالا تراميم خود پاكستان كے آئين سے بهى متصادم ہيں- آئين كى دفعہ ٢٢٧ ميں واضح طور پر حكومت كو پابند كرديا گيا ہے كہ وہ قرآن و سنت كے خلاف كسى طرح قانون سازى نہ كرے- اسى طرح آئين كے آرٹيكل ٢'اے' ميں حكومت كو پابند كيا گيا ہے كہ وہ مسلمانوں كى انفرادى اور اجتماعى زندگيوں كو قرآن و سنت كے سانچے ميں ڈهالے-
دوسرے دو مسوداتِ قانون كى طرح حكومت كے پيش كردہ بل كا بهى روشن پہلو يہ ہے كہ اس بل پر ابهى قومى اسمبلى اور سينٹ ميں بحث ہونا باقى ہے- معتبر ذرائع سے حاصل ہونے والى اطلاعات سے ثابت ہوتا ہے كہ خود حكومتى اركان اسمبلى كا ايك مضبوط گروپ قتل غيرت كے مسئلے پر سركارى بل كے حوالے سے تحفظات ركهتا ہے- اگرچہ حكومتى پارٹى مسلم ليگ (ق) كے سربراہ چوہدرى شجاعت حسين اس بل كى حمايت ميں سرگرم ہيں- ليكن وفاقى وزير قانون چوہدرى وصى ظفر، وزير پارليمانى امور ڈاكٹر شيرافگن، پارليمانى كميٹى كے چيئرمين رائے منصب على، ملك اللہ يار ايم اين اے، سردار طفيل ايم اين اے اور ثناء اللہ مستى خيل ايم اين اے كا كہنا ہے كہ يہ بل پاكستانى معاشرت كے اُصولوں سے متصادم ہے- اس كے نفاذ سے صلح كا دروازہ بند ہوجائے گا جبكہ بدكارى كى حوصلہ افزائى ہوگى-
اسلامى فكر كے حامل دانشوروں اور علماے كرام پر يہ دينى فريضہ عائد ہوتا ہے كہ وہ اس مہلت سے فائدہ اُٹهاتے ہوئے لفظ غيرت كى اسلامى تعريف متعين كريں- اصل اور رسمى غيرت ميں فرق قائم كريں اور اركانِ اسمبلى كو واضح دلائل كے ساتھ مواد فراہم كريں- تاكہ جب يہ بل ايوان ميں زير بحث آئے تو اركانِ اسمبلى اس ضمن ميں دينى نقطہ نظر سے كماحقہ طور پر آگاہ ہوں اور ہر ہر شق كے متن اور مقاصد پر تفصيلى بحث كے بعد غيرت كے حوالے سے كى جانے والى مجوزہ تراميم كو اسلامى ضوابط كے دائرے ميں ركهنے كى ٹهوس كوشش كرسكيں- اسى خلا كو پورا كرنے كے لئے محدث كے اسى شمارے ميں قتل غيرت كى سزا پربالتفصیل شرعى نكتہ نظر سے بحث كى گئى ہے، جس ميں مذكورہ بالا سوالات كا جواب بهى ديا گيا ہے- شائقين كے لئے اس كا مطالعہ افاديت سے خالى نہ ہوگا-ايسے مرحلہ پر جب حكومت اور قانونى حلقوں كو يہ مسئلہ درپيش ہے، اس بحث سے بطورِ خاص استفادہ كيا جانا چاہئے-
توہين رسالت قانون كو بے اثر بنانے كى كوشش
ترمیمى بل كى دفعہ ٩ ميں بظاہر تو ايف آئى آر كى تفتيش كے طریقہٴ كار ميں تبديلى تجويز كى گئى ہے- ليكن درحقيقت يہ تبديلى ديت و قصاص كے علاوہ قانون توہين رسالت كے تحت درج مقدمات ميں بهى پيش رفت كو سست بلكہ بے اثر بنانے كے مترادف ہے-
فوجدارى قانون كا يہ ايك مسلمہ اُصول ہے كہ جب بهى كسى تهانہ كے انچارج پوليس آفيسر كو كسى قابل دست اندازى پوليس جرم كى اطلاع موصول ہو تو اس پر لازم ہے كہ وہ اس اطلاع كى بنياد پر ايف آئى آر درج كرے اور اس كے بعد اپنى تفتيش كا آغاز كرے- تفتيش كے بعد اگر وہ اس نتيجے پر پہنچتا ہے كہ يہ اطلاع غلط يا بے بنياد تهى تو وہ ديگر اختيارات كے علاوہ ضابطہ فوجدارى كى دفعہ ١٥٧ كے تحت متعلقہ مجسٹريٹ كو تحريرى رپورٹ بھیجوا كر مزيد تفتيش كو روك سكتا ہے اور حتمى رائے قائم كرنے كے بعد دفعہ ١٨٢ كے تحت جهوٹا مقدمہ درج كروانے پر، اطلاع دہندہ كے خلاف كارروائى كرتے ہوئے اسے عدالت سے باقاعدہ سزا بهى دلوا سكتا ہے-
اس طے شدہ قانونى طريقے سے انحراف كركے توہين رسالت كے معاملے ميں تفتيش كو ايس ايچ او كے بجائے ايس پى كے حوالے كرنا ايك تو رائج الوقت عام تقاضوں سے ہٹ كر ہے- اس كے علاوہ پاكستان كا ہر شخص جانتا ہے كہ ايك وسيع و عريض سركل ميں صرف ايك ايس پى تعينات ہوتا ہے- بے شمار ديگر انتظامى اُمور اس كے ذمہ ہوتے ہيں- عام آدمى كا اپنے علاقے كے تهانہ تك پہنچنا دشوار ہوتا ہے- دوسرے قصبات اور علاقوں سے سفر كركے ايس پى صاحب كے دفتر ميں حاضر ہونا اور پهر مسلسل شامل تفتيش ہونے كے مراحل سے گزرنا عملى طور پر ممكن دكهائى نہيں ديتا- اس كا لازمى نتيجہ يہ ہوگا كہ اس جرم كے ارتكاب كى اطلاعات كا اندراج درپيش مشكلات كى وجہ سے از خود كم ہوجائے گا اور جو افراد ايس پى تك رسائى كركے اطلاع فراہم بهى كرديں گے- اُنہيں ايك مجرم كى طرح تفتيش كے مراحل سے گزرنا پڑے گا اور گواہوں كے سفروحضر كے اخراجات برداشت كرنا ہوں گے-يہ صورتِ حال ديكھ كر يقين ہونے لگتا ہے كہ توہين رسالت كے متعلق مقدمات كے اندراج اور مقدمات پر كارروائى كو عملى طور پر ناممكن بنايا جارہا ہے-
يہاں يہ امر بهى قابل ذكر ہے كہ قانون توہين رسالت كى مخالفت كرنے والى اين جى اوز ديگر خود ساختہ وجوہات كے علاوہ يہ اعتراض بهى بہت شدومد سے كرتى ہيں كہ قانون توہين رسالت ايك امتيازى قانون ہے- ترمیمى قانون كے ذريعے اس كا طریقہ تفتيش ضابطہ فوجدارى ميں بيان كردہ عام طريقے سے الگ كرنا بجائے خود ايك امتيازى اقدام ہے- جس كے نتيجے ميں لازمى طور پر فريقين كو مشكلات كا سامنا كرنے پڑے گا- لہٰذا جديد اين جى اوز كے اپنے نكتہ نظر كى روشنى ميں بهى امتيازى خصوصیت كے باوصف يہ ترميم قابل استرداد ہے- قانونى ماہرين اور اسلامى مفكرين كا فرض ہے كہ وہ اس سلسلے ميں عوام الناس ميں آگہى كى ايك تحريك چلائيں اور معزز اركانِ اسمبلى كو درست سمت ميں رہنمائى مہيا كركے انہيں اس تبديلى كے خلاف متحرك كريں-
پيپلزپارٹى پيٹرياٹس كے پيش كردہ مسودہ قانون كى مجوزہ دفعہ ١١ ميں حدود آرڈيننس كو منسوخ كرنے كى سفارش كى گئى ہے- راقم الحروف كے علم كے مطابق اسلامى نظرياتى كونسل جو قوانين كى جانچ پركھ كا ايك آئينى ادارہ ہے، حدود قوانين كى ايك سے زيادہ مرتبہ جانچ كرچكا ہے اور اپنى رپورٹوں ميں لكھ چكا ہے كہ يہ قانون بنيادى طور پر قرآن و سنت سے متصادم نہيں ہے اور چند معمولى تراميم اسے مزيد بہتر اور موٴثر بناسكتى ہيں- ايك قومى اور آئينى ادارے كى اس سوچى سمجھى رائے كى موجودگى ميں محض حلقوں كا يہ كہنا كہ يہ قوانين مكمل طور پر قرآن وسنت سے متصادم ہيں، بادىٴ النظر ميں بلا جواز دكهائى ديتا ہے- پهر بهى ہمارى تجويز ہے كہ اتمامِ حجت كے لئے معترض حلقوں كے اعتراضات كو نكتہ وار ترتيب دے كر انہيں ايك مرتبہ پهر اسلامى نظرياتى كونسل كے سامنے ركها جائے اور علماے كرام كے ساتھ ساتھ جديد اسلامى مفكرين كوبهى ان اعتراضات پر اپنى رائے دينے كى دعوت دى جائے اور پهر ان اعتراضات پرايك اعلىٰ سطحى قومى مباحثہ كے ذريعے تمام امكانات كا تجزيہ كرنے كے بعد تمام مواد معزز اركانِ اسمبلى كے سامنے ركها جائے تاكہ پيپلزپارٹى كے مجوزہ مسودے پربحث كے دوران ہر زاويے سے بات ہوسكے-
اس مسودے كى شق نمبر ٣ ميں كہا گيا ہے كہ وفاقى اورصوبائى حكومتيں تمام شعبوں ميں عورتوں كى مساوى شركت كو يقينى بنائيں گى- اس مسودے ميں خواتين كى مساوى شركت كے حوالے سے تضاد پايا جاتا ہے- شق نمبر ٣ كے برعكس شق نمبر ٩ ميں تجويز كيا گيا ہے كہ اسلامى نظرياتى كونسل، منصوبہ بندى كميشن، پى آئى اے كے بورڈ آف ڈائريكٹرز، خود مختار اداروں اور اعلىٰ تعليم كميشن ميں ايك تہائى نشستیں خواتين كے لئے مختص كى جائيں- اسى طرح شق نمبر ٣ كى ذيلى دفعہ '٣' ميں تجويز كيا گيا ہے كہ فيڈرل پبلك سروس كميشن اور تمام صوبائى پبلك سروس كميشن يكم جنورى ٢٠٠٥ء سے كل ملازمتوں كا ايك تہائى خواتين كوتفويض كريں-
زير بحث مسودے كى شق نمبر ٥ گهريلو تشدد اور عزت كے نام پر قتل سے متعلق ہے- اس ميں بيان كردہ تمام تفصيلات يہ بيان كرتى ہيں كہ خواتين خاص كر بيوى پر شوہر اور اس كے رشتہ داروں كى طرف سے تشدد كو قابل تعزير قرار ديا جائے جوكہ تين سال قيد اور پانچ لاكھ روپے جرمانہ تك ہو- ليكن اس شق ميں ان شوہروں كے تحفظ كا كوئى ذكر موجود نہيں ہے جو اپنى بيويوں يا سسرالى رشتہ داروں كى طرف سے ذ ہنى اور جسمانى تشدد كا نشانہ بن سكتے ہوں- گهريلو تشدد كو يكطرفہ اور غير مشروط طور پر قابل تعزير ٹھہرانابهى بحث كے بہت سے دروازے كهولتا ہے-
اسلامى تعلیمات كى روشنى ميں بهى اس مسئلے اور صورتِ حال كاتجزيہ ضرورى ہے- مسودئہ قانون ميں گهريلو تشدد كے الفاظ كو اگر'بلا جواز گهريلو تشدد' كے الفاظ سے بدل ديا جائے تو اس قانون كو عوامى سطح پر زيادہ قابل قبول بنايا جاسكتا ہے-
ايسے ہى شق نمبر ٥ ميں يہ بهى تجويز كيا گيا ہے كہ گهريلو تشدد اور قتل غيرت جيسے جرائم كى سماعت دوسرے مماثل جرائم كى طرح ماتحت عدالت نہ كرے بلكہ ان مقدمات كى سماعت ہائيكورٹ كا جج كرے- اگر اس تجويز كو قانونى درجہ حاصل ہوگيا تو صوبے بهر كى خواتين كو دادرسى كے لئے دور دراز كا سفر كركے ہائى كورٹ كے دروازے پر دستك كے لئے آنا پڑے گا- مثال كے طور پر صوبہ پنجاب ميں ايسے تمام مقدمات صرف راولپنڈى، لاہور، ملتان اور بهاولپور ميں سنے جاسكيں گے- مزيد يہ كہ عورتوں كے مقدمات كو ہائى كورٹ كے لئے مخصوص كرنا اور اسى نوعیت كے اس مقدمات جن ميں مرد مدعى ہوں كو ماتحت عدالتوں تك محدود ركهنا، بجائے خود وطن عزيز كى آدهى آبادى سے غير مساوى سلوك كے مترادف ہوگا-
پيپلزپارٹى پيٹرياٹس كى جانب سے پيش كردہ بل كى شق نمبر٦ بهى بحث طلب ہے- كسى بهى خانہ دار خاتون كو آگ لگا كر ہلاك كرنا كسى طرح سے بهى قابل معافى جرم نہيں ہے- عام قتل عمد سے بڑھ كر اس عمل ميں ايك وحشيانہ اور سنگدلانہ تشدد بهى شامل ہوتا ہے- اس لئے اس جرم كى جتنى بهى مذمت كى جائے، وہ كم ہے اور جتنى بهى زيادہ سے زيادہ سزا دى جائے وہ مناسب ہے- جبكہ زير بحث بل كى شق نمبر ٦ ميں كہا گيا ہے كہ چولہا پھٹنے كے تمام كيسوں ميں عورت كا شوہر يا اس كى موجودگى ميں واردات والے گهر كے مكینوں ميں سے بزرگ ترين مرد كو قتل وغيرہ كا ذمہ دار ٹھہرايا جائے گا- ترميم كى اس تجويز سے كوئى بهى ذى ہوش اتفاق نہيں كرسكتا-
اس ترميم كو قانون كا درجہ دينے سے بہت سے بے گناہ معمر مرد شہريوں كو ناقابل بيان مشكلات كا سامنا ہوسكتا ہے اور يہ بات بهى كوئى راز نہيں ہے كہ جو خانہ دار خواتين چولہے پھٹنے سے زخمى يا ہلاك ہوتى ہيں يا گهر ميں كپڑوں كو آگ لگ جانے كے سبب جان بحق ہوتى ہيں، اگر يہ حادثہ اتفاقيہ نہ ہو تو عام طور پر اس حادثے كى بنيادى وجہ مرد نہيں بلكہ اس گهر كى سسرالى خواتين ہى ہوتى ہيں- مزيد برآں چولہا بنانے والى بہت سى كمپنياں بهى غيرمعيارى چولہے تيار كررہى ہيں جو كم قیمت ہونے كى وجہ سے بهارى تعداد ميں ہر سال فروخت ہوتے ہيں- ايسے حالات ميں چولہا پھٹنے كے واقعات ميں چولہا بنانے والى كمپنيوں كو بهى یكسر برى الذمہ قرار نہيں ديا جاسكتا- ان معروضات كى روشنى ميں شق نمبر ٦ پر مزيد غوروخوض كرنے اور اسے بہتر بنانے كى ضرورت ہے- پيپلزپارٹى كے پيش كردہ مسودہ ميں ہمہ گير خواندگى كے زير عنوان بہت اچهى تجاويز دى گئى ہيں- البتہ اس ميں دينى تعليم كى اہميت كویكسر نظر انداز كرديا گيا ہے جو دراصل انسان كو انسانيت اور دنيا ميں آنے كا مقصد سكھاتى ہے- ايك اسلامى ملك ہونے كے ناطے قوم كے نونہالوں كى جہاں ديگر تعلیمى ضروريات كى كفالت حكومت كا فرض ہے وہاں اسے ان كى دينى تعليم وتربيت كا بهى فكر اور احساس ہونا چاہئے اور اس تمامتر ذمہ دارى كو خالصتاً نجى مدارس كے ذمہ كرنا بهى اپنے فرائض سے غفلت كے مترادف ہے بالخصوص سكولوں ميں اسلامى تعليم ميں بهى معيار بہتر ہونے كى بہت ضرورت ہے اور موجودہ اسلاميات كا نصاب اس نوعيت كے قومى تقاضے پورا نہيں كررہا- حكومت كو اس بارے ميں بهى قانون سازى كرنا چاہئے-
پيپلزپارٹى پيٹرياٹس كے پيش كردہ بل كى دفعہ (٧) ذيلى دفعہ (٢) ميں كہا گيا ہے كہ
"نكاح خواں كا فرض ہوگا وہ دلہن كو طلاق كا حق اور مہر كى رقم جو خاوند كى دولت كے مطابق ہو، كے ضمن ميں بهى وضاحت كرے-"
ان دونوں مسودات كے مقابلے ميں اسلامى حلقوں كى جانب سے پيش كيا جانے والا مسودئہ قانون اپنے مزاج كے اعتبار سے بالكل جداگانہ ہے- اس مسودے ميں حدود قوانين كو ختم كرنے كے بجائے تمام رائج الوقت قوانين كو اسلامى سانچے ميں ڈهالنے كى بات كى گئى ہے اور آئين كے آرٹيكل ٢/اے كو دستور كے ديگر آرٹیكلز سے ممتاز اور مميز كرنے كے لئے آئينى تراميم تجويز كى گئى ہيں- اس كے علاوہ وفاقى شرعى عدالت كے ججوں كو حكومت كے دباوٴ سے نكالنے كے اقدامات بهى تجويز كئے گئے ہيں-
اس مسودہ ميں آئين كے آرٹيكل ٢٢٧ كو حذف كرنے كى بهى سفارش كى گئى ہے اور زير بحث مسودے ميں آرٹيكل ٢٢٧ كے زيادہ تر حصے كو ايك نئے آرٹيكل ٢(بى) كى صورت ميں برقرار ركها گيا ہے ليكن ايك وضاحت كو حذف كرنے كى سفارش كى گئى ہے جس ميں كہا گيا تهاكہ
"قرآن وسنت كى تعليمات سے مراد وہ تشريح ہوگى جو كوئى خاص مكتب ِفكر اپنے شخصى قانون كى حد تك درست سمجھتا ہے- "
بظاہر اس شق كے ذريعے مختلف مكاتب ِفكر كى فقہى آراكو قانونى تحفظ عطا كيا گيا ہے- اس شق كو ختم كرنے كا يہ مقصد ہرگز نہيں ہونا چاہئے كہ كثير تعداد والے عوام كى فقہى آرا دوسرے مسلمانوں پر قانون كى قوت سے نافذ كردى جائيں كيونكہ مسلمان صرف كتاب وسنت كے ہى پابند ہيں اور وہى تاقيامت دائمى شریعت ہيں اور مسلمانوں كے تمام مكاتب ِفكر كا صر ف كتاب وسنت پر ہى اتفاق ہوسكتا ہے ، البتہ كتاب وسنت كى تشريحات كے سلسلے ميں علما وفقہا كى آرا كو نظر انداز كركے چلنا اس مرعوبيت كے دور ميں الحاد كا موجب ہوگا- اس كے ساتھ ساتھ مختلف مكاتب ِ فكر كو اپنى آرا كے دائرے ميں بند ركهنا بهى گروہ بندى كى راہ ہموا ركرے گا-
اگر اسلامى شریعت كى تشريح ميں حكومت ايسے علما سے مدد لے سكے جو دينى علم ميں رسوخ ركهتے ہوں تو اس سے مسلمانانِ پاكستان كتاب وسنت كى وسعتوں سے زيادہ بہتر طور پر متمتع ہوسكتے ہيں- ماہر علما كى مدد سے ادارئہ اجتہاد كا احيا اور كتاب وسنت كى اِنہى وسعتوں سے فائدہ اُٹهانا دور حاضر كے مسائل كا حل اور اسلامى شريعت كا حسن وامتياز ہے-
پسِ تحرير: محدث كا زير ِنظر شمارہ پريس ميں جارہا كہ ٢٧/ اكتوبر كے اخبارات نے خبر دى كہ ٢٦/اكتوبر كو قومى اسمبلى نے حكومتى بل كو كسى ترميم كے بغير منظور كرليا ہے- اس بل كے باقاعدہ قانونى شكل اختيار كرنے ميں ابهى دو مراحل باقى ہيں- یعنى سينٹ اور پهر صدرِ پاكستان كى منظورى- اُميد ہے كہ سينٹ اس انتہائى اہم مسودہ كو منظور كرنے سے قبل اس پر تفصيلى بحث كے مواقع فراہم كرے گى اور اس كے بعد صدرِ پاكستان بهى اسلامى نظرياتى كونسل سے مشورہ كے بعد ہى اس كى نامنظورى يا پارليمنٹ كو نظرثانى كے لئے واپس بهجوانے كا فيصلہ كريں گے-
مذكورہ فوجدارى(ترميمى)ايكٹ ٢٠٠٤ء پر عوامى تحفظات كا ايك اجمالى تذكرہ روزنامہ نوائے وقت، موٴرخہ ٢٨/ اكتوبر كے ادارتى نوٹ ميں بهى ملتا ہے- صدر پاكستان، اركانِ سينٹ اور قارئين كى دلچسپى كے لئے اس كے متن كو بهى ذيل ميں شامل اشاعت كيا جارہا ہے :
"قومى اسمبلى نے كاروكارى اور غيرت كے نام پر قتل كے خلاف ترمیمى بل منگل كے روز منظور كر ليا ہے- يہ ايك زمينى حقيقت ہے كہ ہمارے ہاں لگ بھگ پورے ملك ميں ايسى رسوم اور غلط روايات موجود ہيں جن كى تكميل كى خاطر ہميشہ سے خواتين كو نشانہ بنايا جاتا ہے اور ان كى بڑے پيمانے پر حق تلفى كى جاتى ہے - كاروكارى، قرآن سے شادى مذہب كى آڑ ميں عورت كو كنوارى ركهنا اور ونى وغيرہ - پاكستان ايك نظرياتى اسلامى جمہورى مملكت ہے جب كہ اسلام كسى طرح بهى عورت اور مرد كے بنيادى حقوق ميں كوئى فرق يا امتياز روا نہيں ركهتا- قومى اسمبلى ميں كاروكارى اور غيرت كے نام پر قتل كے خلاف ترمیمى بل كى منظورى كے ساتھ ہى يہ ہرگز نظر انداز نہيں كيا جانا چاہيے كہ بل كى منظورى سے غيرت كا بهى صفايا نہ ہو جائے اور جس طرح غيرت كے نام پر عورت كے ساتھ زيادتى ہوتى ہے، اسى طرح يہ نہ ہو كہ اس بل كے نام پر زناكارى كا بازار گرم ہو جائے يا اسے يك گونہ چهوٹ مل جائے- ہم اسلامى معاشرت ميں رہتے ہيں اوركوئى بهى شخص ايسا نہيں كرسكتا كہ اپنى بہن يا بيوى كو كسى كے ساتھ قابل اعتراض حالت ميں ديكھ كر خود پر قابو پا سكے يا اس منظر سے صرفِ نظر كر سكے- ہمارے تمدن اور رہن سہن كى اپنى اقدار اور ہمارے اپنا ايك اسلامى اخلاقيات وتعلیمات پر مبنى معاشرہ ہے جس ميں آزادى مرد كى ہو يا عورت كى، مخصوص حدود وقيود ميں ركهى جاتى ہے-البتہ قبائلى ،مقامى اور خود ساختہ غلط رسوم ورواج كے تحت عورت كو نشانہ بنانے كو كسى طرح بهى روا نہيں ركها جا سكتا-
اس ترمیمى بل ميں توہين رسالت ايكٹ ميں بهى ترميم كر كے اسے سائل كے ليے ناقابل رسائى بنا دياگيا ہے اور اس وقت تك رپورٹ درج نہيں كى جا سكے گى جب تك ايس پى اس كى اپنے طور پر تفتيش مكمل نہ كر لے-ظاہر ہے ايك بیسويں گريڈ كا ڈسٹركٹ پوليس افسر جب تك رپورٹ كنندہ كو ملے گا، اس وقت تك معاملہ قابو سے نكل گيا ہوگا-ضرورت اس امر كى ہے كہ اس بل پر عمل درآمد كے ساتھ اس كو سہل بنانے پر بهى توجہ دى جائے-
ان دنوں ہمارى حكومت چونكہ امريكہ كے كہنے پر پاكستان كے طول وبلد ميں 'روشن خيالى' عام كرنا چاہتى ہے اوريہ بل بهى اسى سلسلے كى ايك كڑى ہے-تا ہم ضرورت ہے كہ اسے اعتدال اور شرم وحيا كے اسلامى تقاضوں سے دور نہ ہونے ديا جائے،كيونكہ آزاد خيالى كے ميدان ميں ہم جس قدر بهى آگے بڑهيں گے، امريكہ پهر بهى راضى نہ ہو گا اوراس طرح ہمارے ہاں فحاشى وبے حيائى اور اسلامى اقدار كى خلاف ورزى كا سلسلہ عام چل نكلے گا-"
٭٭٭٭٭