<p>حدود قوانین کا بدستور نفاذ یا استرداد!</p>

2003ء میں وطن ِعزیز کو جہاں آئین اور جمہوریت کے حوالے سے گونا گوں صدمات برداشت کرنا پڑے، وہاں پاکستان میں 1980ء کی دہائی میں نافذ ہونے والے اسلامی قوانین پر بھی مغرب نواز حلقوں کی جانب سے حکومتی سطح پر نفوذ کرنے اور ان قوانین کو ختم کروانے کی مؤثر کوششیں کی گئیں ۔ ان کوششوں اور دباؤ کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے 'نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن' کی چیئرپرسن جسٹس (ر) واجدہ رضوی کو حدود قوانین کا جائزہ لینے اور سفارشات مرتب کرنے کا فریضہ سونپا۔ اس کمیشن کے ارکان کو نامزد کرنے کا اختیار مزید مطالعہ

<p>آئین پاکستان اور ریفرنڈم</p>

۱۲/اکتوبر۱۹۹۹ء کو افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے عنانِ اقتدار سنبھالی تو اپنی تقاریر میں یہ تاثر دیا تھا کہ انہیں حادثاتی طور پر یہ ذمہ داری بہ امر مجبوری قبول کرنا پڑی ہے اوریہ کہ ان کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اس پس منظر میں اپنے آپ کو چیف ایگزیکٹو کہلوانا پسند کیا۔ وہ نہ تو 'چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر' بنے اورنہ ہی صدارتی منصب کو چھیڑا۔ بلکہ منتخب آئینی سربراہ کے طور پر پہلے سے کارفرما جناب محمد رفیق تارڑ کو بطورِ صدر قبول کرلیا۔بعد ازاں پاکستان کی عدالت ِعظمی مزید مطالعہ

<p>'علما کا غیر فرقہ وارانہ قتل' اور تازہ پس منظر</p>

سیکولرزم کی نئی لہر...ایک لمحہ فکریہ!۲۰۰۲ء کے ماہ مارچ اور پھر ماہ مئی کے دوران وطن عزیز کی پاک سرزمین اپنے دو ایسے فرزندانِ جلیل کے لہو سے گل رنگ ہوئی جن کی شہادت نے اہل و فکر ونظر کو بے تاب وبے قرار کردیا۔ مملکت خدادادِ پاکستان میں امر ربی کے قیام اور تسلسل کا خواب دیکھنے والی آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور اس ملک کے طول و عرض میں قرآن و سنت کی سرفرازی کا ارمان رکھنے والے دل مجروح ہوکر رہ گئے!!پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب شہید دینی حلقوں میں ایک غیر متنازع شخصیت کے حامل تھے۔ آپ نے اپنی زندگی عربی زبان مزید مطالعہ

<p>سُودکا مقدّمہ نیا رُخ یا واپسی؟</p>

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایامِ گذشتہ کا منظرنامہ دیکھئے تو 'وطن عزیز کی آئینی تاریخ' اور 'حرمت ِسود' کا مسئلہ روزِ اوّل ہی سے پہلو بہ پہلو سفر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے پہلا آئین ۱۹۵۶ء میں نافذ ہوا اور دوسرا ۱۹۶۲ء میں تشکیل دیا گیا۔ ان دونوں دساتیر میں صاف اور غیر مبہم طور پر یہ بات درج تھی کہ حکومت، پاکستان کے نظامِ معیشت سے سود کی لعنت کو ختم کرنے کے لئے بھرپور مساعی کرے گی۔ اس کے بعد ۱۹۷۳ء کا آئین عالم وجود میں آیا جو اَب تک متفقہ طور پر قوتِ نافذہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس آئ مزید مطالعہ

<p>سپریم کورٹ (شریعت اپلیٹ بنچ ) میں مقدّمہ سود</p>

سودی نظام کے خلاف موجودہ قانون، حکومت ، جدید معاشیات اور اسلامی شریعت کے محاذ پر ایک طویل عدالتی جنگ کئی ماہ مسلسل جاری رہنے کے بعد جولائی ۱۹۹۹ء؁ میں اختتام پذیر ہوئی۔ عرفِ عام میں اس عدالتی جنگ کو ''سود کا مقدمہ'' کا نام دیا گیا۔ لیکن جس انداز میں سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بنچ کے روبرو یہ مقدمہ لڑا گیا اور خاص کر سود مخالف فریقین نے کسی مالی طمع کے بغیر جانفشانی اور دینی جذبے کے تحت کراچی سے اسلام آباد تک، جس پرجوش انداز میں اسلامی موقف کی پیروی کی، اس کی روشنی میں، سود کے خلاف اس عدالتی جنگ کو مزید مطالعہ

<p>قتل غيرت كے نام پر،قرآن و سنت سے متصادم قانون سازى</p>

پاكستان كى تاريخ ميں سال ٢٠٠٤ء كو 'اسلامى تشدد پسندى' كے خلاف حكومتى سرگرمى اور مسلح مہم جوئى كے علاوہ حدود قوانين اور توہين ِرسالت سے متعلق ضوابط كے خلا ف وفاقى حكومت اور بعض مغرب زدہ اين جى اوز كى تحريك كے حوالے سے ايك خاص اہميت كا حامل قرار ديا جاسكتا ہے- اس سال كے دوران پاكستان كے قبائلى علاقوں، پاك افغان سرحد كے ساتھ ساتھ اور وطن عزيز كے اندر فوجى كارروائى ميں سينكڑوں 'اسلامى جنگجووٴں' كو 'ہلاك' كياگيا اور يہ كارروائى دمِ تحرير بهى پورے زور و شور سے جارى ہے-دوسرا محاذ جو سارا سال گرم رہا، و مزید مطالعہ

<p>مولانا اعظم طارق کا قتل ... فرقہ وارانہ انتقام یا عالمی سازش!</p>

۶؍اکتوبر ۲۰۰۳ء کو پاکستان کے پُرفضا دارالحکومت اسلام آباد پر اُترنے والی خنک سہ پہر، وطن عزیز میں دہشت گردوں کے حوالے سے ایک اہم باب کے طور پر یاد رکھی جائے گی، یہ پیر کا دن تھا۔ سیاسی اور دینی جماعت ملت ِ اسلامیہ کے سربراہ اور قومی اسمبلی کے رکن مولانا اعظم طارق اپنے چار ساتھیوں کے ساتھ جھنگ سے روانہ ہوئے اور اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے جب اسلام آباد میں داخل ہوئے تو گولڑہ موڑ کے قریب ٹول پلازا پر ایک پجارو جیپ سے ان کی سرکاری کار پر دہشت گردوں نے گولیاں برسائیں۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق مولا مزید مطالعہ

<p>اصلی آئین سے ریفرنڈم تک !!</p>

جب سے نئی اسمبلیاں تشکیل پائی ہیں ، ایل ایف او کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے، متحدہ مجلس عمل اور دیگرسیاسی جماعتوں کے آئے دن حکومت سے مذاکرات کی خبریں اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں لیکن مذاکرات کا یہ اونٹ ابھی تک کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آتا۔ ایل ایف او کیا ہے؟ اور دینی وسیاسی جماعتوں کو اسے تسلیم کرنے میں کن مشکلات کا سامنا ہے؟ اس کو مان لینے سے ملکی استحکام کو کون سے خطرات لاحق ہوتے ہیں؟ ذیل کے صفحات میں اسی ایل ایف او کے ارتقا اور اس میں موجود قوانین کو بالاختصار پیش کیا گیا ہے۔ محدث مزید مطالعہ

<p>ذاتی معاملہ اور قانون</p>

گزشتہ دنوں "اسلامک ہیومن رائٹس فورم" کے ایک اجلاس میں پچاس سے زائد علماء ووکلاء اور اہل دانش حضرات نے متفقہ طور پر ایک فتویٰ جاری کیا۔ جس کا لب لباب یہ ہے کہ کوئی مسلمان عورت کسی اقراری اور مصدقہ قادیانی کی قانونی بیوی نہیں بن سکتی اور اگر کوئی مسلمان عورت کسی قادیانی کے ساتھ اسلامی نکاح پر اصرار کرتی ہے تو ایسے نکاح کی کوئی مذہبی یا قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ایسا عمل نہ صرف یہ کہ حدود آرڈیننس کے زمرے میں آتا ہے بلکہ"امتناع قادیانیت آرڈیننس" کے تحت بھی جرم تصور ہوگا۔ "اسلامک ہیومن رائٹس فورم" کے ا مزید مطالعہ

<p>عدالتوں میں حاضری سے استثناء</p>

ملزم خواتین کے حقوق اور جنسی امتیاز مغرب نام نہاد جنسی مساوات کے نعروں کے ذریعے مردوزن کی طبقاتی کشمکش کو تو فروغ دے رہا ہے لیکن صنفی امتیازات کی فطرت کو نظرانداز نہیں کر سکتا جو اسلام نے مردوزن کے مثالی مساوی حقوق و فرائض کے باوصف الگ الگ دائرہ کار کی صورت قائم رکھی ہے۔ البتہ اسلام نے طبقاتی تقسیم سےقطع نظر مرد و زن کی شخصیت کا پہلو ضرور ملحوظ رکھا ہے۔ یعنی تقویٰ و کردار کی بنیاد پر ملت میں "شخصیت" کو بھی اہمیت دینی چاہئے۔ حسن اتفاق سے زیرِ بحث موضوع پر "وضعی قوانین" کے اندر شخصیت و کردار کی اد مزید مطالعہ

<p>سود کی عدالتی ممانعت کے بعد.....!</p>

"محدث"کی ہمیشہ یہ کو شش رہی ہے کہ عصری مسائل پر دینی نقطہ نگاہ کو اجاگر کیا جائے اور اس سلسلے میں اٹھنے والے مختلف النوع سوالات کا شافی جواب دنیا کے سامنے پیش کیا جا ئے ۔یہی وہ بنیادی محرک ہے جس کے تحت عصر حاضر پیچیدہ مسائل کا خالص علمی اور فکری سطح پر تجزیہ اور اس مسائل پر مختلف نقطہ ہائے نظر کا تقابلی جائزہ پیش کرنا محدث نے اپنے علمی اور صحافتی فرائض میں شامل کر رکھا ہے ہم اللہ بزرگ و برتر کےتہ دل سے شکرگزار ہیں کہ اہل علم و دانش کے ساتھ ساتھ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے محدث کے قارئین ہم مزید مطالعہ

اپریل 2004ء

<p>اسکارف/حجاب کا مسئلہ</p>

نائن الیون ((11/9 کے بہانے امریکہ کو مسلمان ملکوں پر چڑھ دوڑنے کا جو موقع ملا، اس سے مسلم حکمران تو سپر انداز ہو ہی رہے ہیں لیکن مسلمان ملکوں کے عوام میں مغرب (نام نہاد عالمی اتحاد) کے خلاف ردِ عمل روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ سیکولر قوتوں نے اس کا توڑ یہ سوچا ہے کہ ثقافتی اثر و نفوذ کے لئے مسلم معاشروں میں کچھ بزعم خویش ترقی پسندوں کی خدمات حاصل کر لی جائیں، دوسری طرف مغرب میں آباد اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر سرکاری دباؤ بڑھا دیا جائے۔ اسکارف و حجاب کی ممانعت، تصویر و موسیقی کی اباحت کے علاوہ لفنگ مزید مطالعہ

<p>حدود و قوانین، انسانی حقوق اور مغرب کا واویلا</p>

1979ء میں پاکستان کی سرزمین پر پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر حدود قوانین کا نفاذ کیا گیا۔ ان قوانین کی وجہ نفاذ کی وضاحت کرتے ہوئے مسودہ قانون کے آغاز ہی میں بیان کیا گیا ہے کہ ان کے نفاذ کا واحد مقصد رائج الوقت قوانین کو ان سانچوں میں ڈھالنا ہے جو قرآن و سنت نے مقرر کئے ہیں۔ ان قوانین کے تحت قرآن و سنت کی روشنی میں قذف (بہتان)، چوری، ڈاکہ، شراب نوشی، زنا اور زنا بالجبر جیسے جرائم کی تعریف کا تعین کیا گیا اور اسلامی سزائیں لاگو کی گئیں۔ ان قوانین کی تفصیل حسب ذیل ہے:1) Prohibition/Enforcement of Had مزید مطالعہ