اِک 'اور' شاہ بلوط ٹوٹ گرا !!

۱۴؍ اپریل کی صبح تقریباً تین بجے دین و ملت کا ایک شاہ بلوط اس دارِ فانی سے ٹوٹ کر اس عالم فنا میں غائب ہو گیا جہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔صبح کو جب اہل لاہور کی آنکھ کھلی تو وہ عالم اسلام کی نامور شخصیت ڈاکٹر اسرار احمد کے انتقال کی خبر سن کر دلی صدمہ سے دو چار ہو ئے۔ شہر لاہور جو اپنے دامن میں علما و فضلا کی موجودگی پر ہمیشہ نازاں رہا ہے، ایک بطلِ جلیل کے سانحۂ ارتحال سے سوگو ار ہو گیا۔ قحط الرجال کے سلگتے صحرا میں ڈاکٹر صاحب ایک شاہ بلوط کے درخت کی مانند تھے۔ افسوس کہ ملت ِاسلامیہ بالعموم اور اہل پاکستان بالخصوص ایک ایسی ہستی سے محر وم ہو گئے۔جو اس دور میں تحریک اورخدمت قرآن میں اپنی مثال آپ تھی۔

ڈاکٹر اسرار احمد نادرئہ روزگار تھے، ان جیسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اقبال نے اس طرح کی عظیم شخصیات کے بارے میں ہی کہا تھا :

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


ڈاکٹر صاحب کی رحلت کی خبر سن کر دل بیٹھ گیا۔ ایک صدمہ تھا جو اَعصاب شکن تھا۔ ساری مصروفیات ترک کر کے قرآن اکیڈمی جا پہنچا۔ عجب دل فگار منظر تھا۔ اُداس کردینے والی ہستی کے آخری دیدار کے لئے خواتین و حضرات گروہ درگروہ آر ہے تھے۔ ان کا جسد ِخاکی ایک چھوٹے سے کمرے میں رکھا گیا تھا۔ خواتین کو پہلے موقع دیا گیا۔ باری آنے پر جب میں اس کمرے میں پہنچا تو جذبات پر قابو نہ رہا۔ وہ سفید اُ جلے کفن میں ملبوس بے حد سکون سے لیٹے تھے۔ صرف چہرہ کھلا تھا۔ میری نظر جب ان کے چہر ے پر پڑی تو یقین نہیں آتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب معمول کی نیند میں ہیں یا اَبدی نیند سو رہے ہیں۔ اقبال کا یہ شعر ڈاکٹر صاحب اکثر پڑھا کرتے تھے :

نشانِ مردِ مؤمن باتومی گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب او ست


ان کا چہرئہ مبارک اس شعر کی تصویر تھا۔ اس کمرے میں ان کے عقیدت مند صدمے اور صبر کے درمیان ایک کشمکش میں مبتلا نظر آئے۔ آنکھیں نم ناک تھیں، دل افسردہ تھے مگر لبوں پر آہ و بکا نہ تھی کہ یہ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔ بعض اَفر اد کو دیکھا کہ دیواروں سے لگ لگ کر سسکیاں لے رہے تھے۔ تنظیم اسلامی کے سینکڑوںکارکن اپنے عظیم رہنما اورداعیٔ انقلاب کے انتقال پر ایک دوسرے کو پر سہ دے رہے تھے۔

ان کی نمازِ جنازہ سنٹرل پارک، ماڈل ٹاؤن میں ادا کی گئی۔ ان کے صاحبزادے حافظ عاکف سعید صاحب نے امامت کے فرائض انجام دیئے۔ یہ نمازِ جنازہ بذاتِ خود بچھڑنے والی عظیم روح کو زبر دست خراجِ تحسین تھا۔ یوں لگتا تھا کہ پور ا شہر پلٹ پڑا ہے۔ ماڈل ٹاؤن پارک کے باہر سرکلر روڈ پر کہیں بھی گاڑی پارک کرنے کو جگہ نہ تھی۔ مجھے خود بہت دور ایک مارکیٹ کے کونے میں بڑی مشکل سے گاڑی پارک کرنے کو جگہ ملی۔ لوگ ہر طرف سے دیوانہ وار دوڑ رہے تھے۔ ٹی وی چینلز کی ٹیمیں براہِ راست کوریج کے لئے جذبہ مسابقت کا اظہار کر رہی تھیں۔

نمازِ جنازہ ختم ہوئی تو لوگ ڈاکٹر صاحب کے آخری دیدار کے لئے ٹوٹ پڑے۔قرآنِ مجید کے عظیم خادم اور داعی کے آخری دیدار کی ایک جھلک کے لئے لوگ بے تاب نظر آتے تھے۔ حاضرین اُداس اور افسردہ تھے۔ ہزاروں آنکھیں نم ناک تھیں۔ اسلامی انقلاب کی حسرت رکھنے والے شیدائیوں کے لئے ڈاکٹر اسرار احمد روشنی کا مینار تھے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ان کی آدرش اب حسرتِ نا تمام بن کے رہ جائے گی۔

ایک روشن چہرہ بزرگ کو کہتے سنا گیا کہ اتنا بڑا جنازہ لاہور کی تاریخ میں نہیں دیکھا گیا۔ ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے جنازے میں مَیں شریک تھا مگر ڈاکٹر صاحب کے جنازے کے شرکا زیادہ ہیں۔ شہر لاہور اس سے پہلے مولانا احمد علی لاہوریؒ، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ، مولانا امین احسن اصلاحیؒ، مفتی محمد ادریس کاندھلویؒ، مفتی محمد حسین نعیمیؒ، حافظ عبد القادر روپڑیؒ اور تقریباً ۷۰ برس پہلے علامہ اقبال کے سفر آخرت کے مناظر دیکھ چکا تھا، آج پھر ایک عظیم انسان اور نابغۂ عصر کی رحلت کا سانحۂ جانکاہ اسے دیکھنا پڑا تھا۔

یہ چند سطور مختصر ذاتی تاثر پر مبنی ہیں۔ آنے والے دنوں میں ڈاکٹر اسرار احمد کی زندگی، فکر اورخدمات کے حوالے سے مضامین اور پروگراموں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ راقم الحر وف کا ذاتی تاثر یہ ہے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے بعد پاکستان میں ڈاکٹر اسرار احمد اسلامی انقلاب کے سب سے بڑے علمبردار تھے۔ ۱۹۷۸ء میں جب ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب آیا تو اس کے اثرات پورے عالم اسلام پر پڑے۔ ایرانی انقلاب کے بعد ڈاکٹر اسرار احمد نے بے حد جوش و خروش سے 'اسلامی انقلاب ، کیوں اور کیسے؟' جیسے موضوع پر خطبات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ بہت جلد وہ قائد ِانقلاب بن کر اُبھرے۔ اُنہوں نے دروسِ قرآن کو اسلامی انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لئے بطورِ حکمت عملی استعمال کیا۔ ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ 'رجوع الیٰ القرآن' تھا۔ ان کی تقاریر اور تحر یروں میں اسی فکر کی وضاحت پر زور دکھائی دیتی ہے۔

اُنہوں نے اپنی فکر کو بڑے وقار اور دانش مندی سے آگے بڑھایا۔ وہ جلد بازی او رعجلت میں کوئی اِقدام اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کسی دینی راہنما کے حلقے میں سو دو سو نوجوان شامل ہو جائیں تو وہ جہاد بالسیف اور حکومت کے خلاف عسکری جد وجہد کے نعرے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ آفرین ہے ڈاکٹر اسرار احمد کی حکمت و دانائی پر کہ ہزاروں نوجوان ان کے اشارئہ ابرو کے منتظر تھے مگر اُنہوں نے عسکری جدو جہد اورٹکراؤ کی پالیسی کبھی نہیں اپنائی۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ابھی وقت نہیں آیا۔ وہ حضورِ اکرم 1کی مکی زندگی سے اپنی حکمت ِعملی کے لئے دلائل پیش کیا کرتے تھے۔

حافظ عاکف سعیدصاحب نے بتایا کہ اُنہیں ۱۹۶۷ء میں پہلی دفعہ تنظیم اسلامی اور ایک انقلابی جماعت بنانے کا خیال آیا۔ مشاورت ہوتی رہی، بالآخر یہ جماعت ۱۹۷۵ء میں قائم ہو گئی۔ وہ جنرل ضیاء الحق صاحب سے ان کی مذہب پسندی کی وجہ سے اچھی اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے۔ اس لیے وہ اس دور میں کچھ دیر کے لئے مجلس شو ریٰ کے رکن بھی رہے، مگر بہت جلد اُنہیں احساس ہو گیا کہ جنر ل ضیاء الحق اسلامی نظام سے زیادہ اپنے عرصۂ حکومت کو طول دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس لیے اُنہوں نے مجلس شوریٰ کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ اسی طرح ۱۹۹۷ء میں جب میاں نواز شریف کو انتخابات میں عدیم النظیر کامیابی ملی تو وہ اپنے والد میاں محمد شریف مرحوم اور میاں شہباز شریف کی ہمراہی میں ڈاکٹر صاحب سے ملنے آئے اور اُن سے مشاورت کی۔ ڈاکٹر صاحب اس ملاقات کی تفصیلات بتایا کرتے تھے۔ اُنہوں نے میاں نواز شریف کو سب سے پہلے سودی نظام کے خاتمہ کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھانے کا مشورہ دیا۔

مجھے ان کی انقلابی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کی سادگی، دینداری اور ذاتی زندگی میں عاجزی نے بے حد متاثر کیا۔ ڈاکٹر صاحب اگر چاہتے تو بے پناہ دولت کما سکتے تھے۔ ان کے بھائیوں نے کاروبار میں کروڑوں روپے کمائے مگر اُنہوں نے دولت جمع کرنے کی کاوش کبھی نہ کی۔ ان کی ساری جدوجہد قرآن وسنت کی دعوت کے لئے مخصوص تھی۔ اُنہوں نے شروع سے سادہ رہن سہن اختیار کیا۔ ۱۹۷۸ء میں جب ماڈل ٹاؤن میں منتقل ہوئے تو وہاں قرآن اکیڈمی کے دو کمروں پر مشتمل آٹھ فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ میں رہائش اختیار کی، باقی سات فلیٹ تنظیم اسلامی کے ارکان کے لئے مخصوص کر دیئے گئے۔

چند سال پہلے اُنہوں اپنے ذرائع آمدنی اور اخراجات کی تفصیلات پر مبنی ایک کتابچہ تحریر کیا۔ یہ کتابچہ پڑھ کر بے حد حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس قدر مالی بد حالی میں قناعت کی زندگی گزار رہے تھے۔ پانچ چھ برس پہلے مجھے ان سے اُسی فلیٹ میں ملنے کا موقع ملا جس میں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ ہر طرف سادگی نظر آتی تھی۔ان کے ایک رفیق نے بتایا کہ اس فلیٹ کا فرنیچر تیس سال سے زیادہ پرانا ہے۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب کو خرچ کرنے کے لئے صرف آٹھ ہزار روپے ماہوار ملتے تھے جس کا بڑا حصہ ان کے بیٹے ڈاکٹر عارف رشید دیتے تھے۔ان کے پاس پہننے کے لئے محض دو چار سوٹ تھے، دو تین واسکٹ تھیں جسے وہ بدل بدل کر پہنتے تھے۔ کھانا بے حد سادہ تھا، ان کی ذات عملی تقویٰ اور تدین کا اعلیٰ نمونہ تھی۔وہ معاشرے سے غلط رسومات کے خاتمے کی بات کرتے تھے۔سب سے پہلے اُنہوں نے اپنے خاندان سے ابتدا کی۔ ان کے بیٹے اور بیٹیوں کی شادیاں اسلامی طریقے پر ہوئیں۔ مسجد میں بے حد سادہ تقاریب میں نکاح خوانی کی گئی۔ کسی تکلف اور بے جا اِسراف سے گریز کیا گیا۔

راقم الحروف کو لاہور کے دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث مسالک کے علماء و مشاہیر سے ملنے او ران کے خاندانوں کے متعلق براہِ راست جاننے کے متعدد مواقع ملے ہیں۔ میں بے حد یقین اور دیانتداری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر اسرار احمد اس اعتبار سے بے حد خوش قسمت تھے کہ ان کی اولاد ان کی جدوجہد میں ان کا دست و باز و بنی رہی۔ ان کے بیٹے اور بیٹیاں اپنے عظیم والد کی فکر اور طرزِ زندگی دونوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے ان میں سے کوئی بھی اپنے عظیم والد جیسی اعلیٰ صفات سے متصف نہ ہو مگر ان کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے والد کے راستے سے جدا راستہ اپنائے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر اسرار احمد کی بہت بڑی روایت ان کے دروسِ قرآن اور رمضان شریف میں نمازِ تراویح کے دوران ترجمہ وتفسیر کا عمل تھا۔ ان کی زندگی میں چالیس سے زیادہ مساجد میں یہ اہتمام ہوتا تھا۔ راقم الحروف کو بارہا اس میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ ایک عجیب روحانی ثقافت کا احساس ہوتا تھا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد ایسے اجتماع میں بڑی دلچسپی سے شریک ہوتے رہے ہیں۔

ایک اور بات جو ڈاکٹر صاحب کے بارے میں نہایت اہم ہے۔ وہ ان کا غیر متزلزل عزم اور بلا کی استقامت اور استقلال ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں بہت سے لوگ اسلامی انقلاب کی منزل کو دور دیکھ کر قدرے مایوسی کا شکار ہوئے مگر ڈاکٹر صاحب مایوس نہیں تھے۔ وہ نتائج سے زیادہ اپنے نظریہ کی صداقت اور جدو جہد کے صحیح ہونے پر انمٹ یقین رکھتے تھے۔ اُنہوں نے جس عظیم ہدف کے حصول کے لئے اپنی جوانی، اُدھیڑ عمری اور پھر شباب آور پیرانہ سالی لگا دی تھی، اس پر اُنہیں بالکل تاسف نہیں تھا۔ اُنہیں اپنے مشن کے متعلق انشراحِ صدر تھا اور اُن کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی اور خوش بختی ہی یہ ہے کہ انسان اللہ کی دی ہوئی زندگی کو اس کے راستے پر لگا ئے۔ منزل سے زیادہ منزل کے حصول کی جدوجہد ان کے لئے اہم تھی۔ یہ بات اُنہوں نے فکر ِ اقبال سے حاصل کی تھی۔

ڈاکٹر صاحب کے خطبات سننے کا جن لوگوں کو موقع ملا ہے، وہ گواہی دیں گے کہ وہ فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا تر تھے۔ وہ وسیع المشرب دینی سکالر تھے۔ وہ اگرچہ حنفی مسالک سے دلی قربت رکھتے تھے مگر ماہِ رمضان میں بارہا ان کے ہاں سلفی مسلک کے طریق پر نمازِ وتر اَدا کی جاتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب خود کہا کرتے تھے کہ ان کی فکر پر شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ اقبال اور سید ابو الاعلی مودودی رحمہم اللہ کے اَفکار کے اثرات ہیں۔ ابوالکلام آزاد کے متعلق البتہ اُنہیں کہتے ہوئے سنا گیا کہ ۱۹۱۹ء میں ان کی فکری موت واقع ہو چکی تھی جب وہ گاندھی کے ساتھ متحدہ قومیت کے علمبردار بن کر اُبھرے۔

ڈاکٹر اسرار احمد اسلامی نظام کے نفاذ کو پاکستان کے معاشی، سماجی اور اخلاقی مسائل کے حل کے لئے ناگزیر سمجھتے تھے۔ وہ ضروری تبدیلیوں کے ساتھ نظامِ خلافت کے قیام کے داعی تھے۔ خدا نے اُنہیں خطابت او رتحریر دونوں کے اعلیٰ اوصاف عطا کیے تھے۔ ان کی تقاریر اور مضامین مردہ دلوں کو گرما دیتی تھیں۔ ان کی تحریروںمیں بھی خطیبانہ اور داعیانہ اُسلوب غالب ہے۔ موضوع کی مناسبت سے الفاظ کے زیر وبم کے استعمال پر اُنہیں قابل رشک دسترس حاصل تھی۔ ان کے لہجے میں وقار ، عظمت اور متانت جھلکتی تھی۔

جب ان کا جسد ِخاکی لحد میں اُتارا جا رہا تھا تو نجانے بار بار بلھے شاہ کا یہ شعر زبان پر کیوں آتا تھا: ع بلھے شاہ اساں مرناں ناہیں، گور پیا کوئی ہور!

علامہ اقبال کے وہ والہ وشیدا تھے۔ وہ بے حد تواتر سے اُن کے اشعار تحریر و تقریر میں استعمال کرتے تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک عظیم اقبال شناس بھی تھے۔ علامہ اقبال کی یہ رباعی اُنہیں بہت پسند تھی:

نسیمے از حجاز آید کہ نہ آید
سرودِ رفتہ باز آید کہ نہ آید
سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ نہ آید


ڈاکٹر صاحب کے عقیدت مند اُن کی شخصیت میں اُسی داناے راز کی جھلک دیکھتے تھے۔ اب جبکہ یہ نادرۂ روزگار ہستی بھی اس جہاںمیں نہیں رہی تو واقعی بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اب ایسے لوگ کہاں ہیں جنہیں دانائے راز کہہ سکیں۔

ڈھونڈو گے گلیوں گلیوں


سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ کے انتقال پر نعیم صدیقیؒصاحب نے ''اک شاہِ بلوط ٹوٹ گرا!'' کے عنوان سے منظوم نوحہ رقم کیا تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ان سے درخواست کی جا سکتی تھی کہ اس نظم کے عنوان میں 'اور' کا اضافہ کر دیں۔