شعیب ملک کی شادی اور میڈیا

آغا شورش کاشمیریؒنے دورِ حاضر کی سیاست کو ایک ایسی طوائف سے تشبیہ دی تھی جو تماش بینوں میں گھری ہوئی ہے۔ کچھ اس طرح کا معاملہ ہمارے حال ہی میں آزاد ہونے والے میڈیا کا بھی ہے۔ بعض اوقات معمولی واقعات کواس قدر غیر معمولی کوریج دی جاتی ہے کہ دیکھنے والے حیران و پریشان ہوجاتے ہیں کہ آیا یہی سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے؟

مختلف ٹی وی چینلز پر گذشتہ کئی ہفتوں سے شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی کے معاملے کو جس انداز میں دکھایا جارہا ہے، یہ میڈیا کے کارپردازان کے لیے بھی ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ آخر اس کا کوئی جواز بھی ہے؟ تعلیم اور تفریح تو ایک طرف، اس معاملے میں گلیمر (Gleamour) کا عنصر بھی اس قدر نہیںہے جس قدر کہ اسےGleamourکیا جارہا ہے۔ آج کل کی اسپورٹس میں جس درجہ کے کھلاڑی کو واقعی 'سٹارز' کی حیثیت دی جاتی ہے، شعیب ملک اور ثانیہ مرزا میں وہ بات بھی نظر نہیں آتی۔ شعیب ملک مخصوص حالات میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا کپتان تو بنا مگر اس کی کپتانی ہمیشہ سوالیہ نشان رہی۔ اپنے ہم عصر کرکٹ کے کھلاڑیوں میں اُسے کبھی بھی غیر معمولی مقام حاصل نہیں ہوسکا۔ کھیل کے علاوہ اس کی شخصیت میں بھی کوئی خاص بات نہیں ہے جودوسروں کو متاثر کرسکے۔ ایک مصنوعی اسٹار کا تاثر ہے جو اس کے بارے میں اُبھارا جارا ہے۔ یہی حال ثانیہ مرزا کا ہے۔ ٹینس کی خواتین کھلاڑیوں میںاس کی رینکنگ اب سو سے بھی اوپر چلی گئی ہے۔ وہ دنیا کی ٹینس اسٹار لڑکیوں کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑی ہونے کے قابل نہیں ہے۔ نجانے وہ اتنی بڑی 'ٹینس سٹار' کیوں سمجھ لی گئی ہے؟

شعیب ملک نے اگر کرکٹ کی وجہ سے کچھ عزت کمائی تھی، وہ گذشتہ ہفتوں میں عائشہ صدیقی کے ساتھ اس کے نکاح کے خبروں کی تصدیق ہوگئی تو اس کے کریکٹرکا فریب انگیز پہلو بھی سامنے آگیا۔ میڈیا نے اس کا سابقہ بیان دکھا دیا جس میں اس نے خود اعلان کیا تھا کہ عائشہ سے اس کا نکاح ہوگیا ہے۔ حیدر آباد،دکن میں عائشہ کے والدین سے ملاقات اور اس کے گھر قیام کے بارے میں بھی کسی کو شک نہیں رہا۔ عائشہ صدیقی نے پنے انٹرویو میں بتایا ہے کہ اُسے اسقاطِ حمل بھی کروانا پڑا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ شعیب ملک کے اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات رہے ہیں۔ اگر عائشہ صدیقی اسقاطِ حمل نہ کراتی اور ڈی این اے ٹیسٹ سے ثابت ہوجاتا کہ شعیب ملک ملوث ہے تو اس کانتیجہ کیا ہوتا؟ شعیب یا تو انسان بن کر اقرار کرلیتا یا پھر قانون کے تحت فوجداری مقدمہ کا سامنا کرتا۔ شعیب ملک میڈیا پر مسلسل انکار کرتا رہا کہ عائشہ سے اس کا نکاح ہوا ہے مگر بالآخر اُس نے 'طلاق' دے کر اس معاملے کو نمٹانے میں عافیت سمجھی۔ جب اُس نے مان لیا کہ اس کا نکاح تھا تو پھر اس نے یہ اعتراف بھی کرلیا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میں ایک لڑکا، ایک پاکستانی لڑکی کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ کرتا ہے، تو کیا میڈیا اس کو ہیرو اور اسٹار بنا کر پیش کرے گا اور قوم کو اس کے بارے میں پاگل کردینے والی کوریج دکھائے گا؟ کیا ایسا کرکٹر ایک مسلمان اور نظریاتی ملک کی نوجوان نسل کے لیے 'ہیرو' کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے؟ یہ ذرا سنجیدگی سے غور کرنے والی بات ہے۔ کیا یہ کسی قومی کھلاڑی کی غیر ملکی لڑکی سے پہلی شادی ہے جو اس قدر دیوانگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے! اس سے پہلے عمران خان نے جمائمہ سے شادی کی۔ کرکٹ کے مشہور کھلاڑی وسیم راجہ آسٹریلیا سے ایک سفید فام خاتون کو بیاہ لائے جس کا نام عائشہ رکھا گیا۔ مدثر نذر نے بھی ایک غیر ملکی گوری خاتون سے شادی کی۔ محسن خان نے رینا رائے سے ازدواجی بندھن قائم کیا۔ رینا رائے بھارت کی مشہور اداکارہ تھی۔ سرفراز نواز نے اداکارہ رانی سے معاشقہ کے بعد شادی کی تھی۔ ان شادیوں کو میڈیا نے اس قدر کوریج نہیں دی تھی تو آج کیا خاص حالات پیدا ہوگئے ہیں جن سے مجبور ہوکر شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی کو اس قدر ہوا دی جارہی ہے؟

اگر ہماری قوم اور میڈیا کے وابستگان کا حافظہ کمزور نہیں ہے تو ہم یاد دلاتے ہیں کہ ثانیہ مرزا مغربی میڈیا کی توجہ کاباعث کیونکر بنی؟ آج سے چار پانچ سال پہلے جب ثانیہ مرزا ٹینس کی کھلاڑی کے طور پر سامنے آئی تو بھارت کے مسلمانوں نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا۔ انہیں اعتراض تھا کہ ایک مسلمان لڑکی کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ 'شارٹ'کپڑے پہن کر ٹینس کھیلے۔ وہ اسے عورت کے لباس کے متعلق اسلام کی تعلیمات کے منافی سمجھتے تھے۔ مغربی لبرل ازم کے علمبرداروں نے اسے لبرل روایات پر حملہ سمجھا اور ثانیہ مرزا کی حمایت میںنکل کھڑے ہوئے۔ امریکہ اور یورپ کے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ثانیہ مرزا کے حق میں زبردست مہم شروع کی گئی۔ امریکہ کے صدر جارج بش نے ثانیہ مرزا کو ساؤتھ ایشیا کے ترقی پذیر معاشرے کی نوجوان لڑکیوں کے لیے رول ماڈل قرار دیا اور اس کی بھرپور تعریف کی۔ ثانیہ مرزا پر تنقید کرنے والوں کو رجعت پسند اور جدید ترقی کا دشمن قرار دیا گیا۔ ثانیہ مرزا جہاں بھی کھیلی، اس کی بھرپور تشہیر کی گئی۔ ومبلڈن ٹینس چمپئن شپ میں جب وہ کھیلنے گئی تو عالمی میڈیا کی آنکھ کا تارا بنی رہی۔ اُسے مشہور اور اہم ترین کھلاڑیوں سے زیادہ کوریج ملی۔ البتہ وہ کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکی۔ پہلے ہی راؤنڈ میں شکست کھا کر باہر ہوگئی۔

برطانوی اخبار' گارڈین' نے اُس کی شکست پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بلاشبہ وہ ومبلڈن کی گراؤنڈ میں شکست کھا گئی ہے مگر ساؤتھ ایشیا کے تہذیبی میدان میں اُس نے اپنی فتوحات کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں۔ اُس نے اپنے سماج کی پرانی فرسودہ روایات کو توڑ کر نئی نسل کے لیے آگے بڑھنے کی نئی راہیں ہموار کردی ہیں۔ مختصراً یہ کہ مغرب جو ترقی پذیر معاشروں بالخصوص اسلامی معاشروں کی عورتوں کو گھروں سے نکال کر ہر میدان میں مردوں کے برابر لاکھڑا کرنا چاہتا ہے، ثانیہ مرزا کی صورت میں اُسے ایک دلچسپ تشہیری گڑیا ہاتھ لگی۔

۲۲؍اپریل کو جب شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی جوڑی کراچی ایئرپورٹ پراُتری تو چاہنے والوں کا ایک ہجوم پہلے سے ان کے انتظار میں تھا۔ ایک دن پہلے سے ٹی وی چینلز پر Tickers چل رہے تھے جن میں ان کی آمد کے بارے میں اطلاع دی گئی تھی۔ عوام کا ایک طبقہ ایسا ضرور ہوتا ہے جو میڈیا کی تشہیر کا غیرمعمولی اثر قبول کرتا ہے۔ یہ معاملات پر کوئی زیادہ غوروخوض کا قائل نہیں ہوتا۔ یہ تماش بینی کے مواقع کو حتی الامکان کوشش کے ذریعے انجوائے کرنا پسند کرتا ہے۔ پوری دنیا میں میڈیا کے غیرسنجیدہ عناصر ان کے جذبات کا استحصال کرکے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں۔ کراچی ایئرپورٹ پر جو مناظر دکھائے گئے، اس سے صاف ظاہرہورہا تھا کہ میڈیا زبردستی hype پیدا کررہا ہے۔ ثانیہ مرزا گھبرائی ہوئی بلی کی طرح پریشان نظر آتی تھی اور شعیب ملک کے چہرے سے بھی پریشانی صاف دکھائی دے رہی تھی۔ اُنہیں خود معلوم نہیں ہورہا تھا کہ آخر ان کی شادی کو اتنی زیادہ تشہیر کیوں دی جارہی ہے؟ دونوں ایک صوفے پر بیٹھے اداس و پریشان نظر آتے تھے۔ ابھی وہ کراچی ایئرپورٹ پر اسلام آباد جانے والی رابطہ کی پرواز کے منتظر تھے کہ میڈیا پر خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ اسٹارز کی اس جوڑی کو سربراہِ ریاست کا پروٹوکول دیا جائے گا۔ اسلام آباد میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے ان کے اعزاز میں عشائیہ دینے کے انتظامات مکمل ہوچکے ہیں۔ خبر دی گئی کہ ایوانِ صدر میں بھی ان کو استقبالیہ دیا جائے گا۔ کمال یہ ہے کہ اس دوران ایک معروف ٹی وی چینل (جیو) لاہور میں آواری ہوٹل کے مناظر پیش کررہا تھا جہاں پر ایک دن کے بعد ان 'شاہی مہمانوں' نے قیام کرنا تھا۔ اس ہوٹل کا وہ سیلون دکھایا جارہا تھا جس کی ان کے لیے صفائی اور آرائش ہورہی تھی، بتایا جارہا تھا کہ یہ وہ سیلون ہے جس میںسربراہانِ ریاست قیام کرتے ہیں اور اس کاایک دن کا کرایہ ایک لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ اس سیلون کے واش روم کو بھی ناظرین کو دکھانا ضروری سمجھا گیا۔ خوبصورت اور مہنگے فرنیچر اور کلاسیکل اشیا کی نمائش کی جارہی تھی۔ سیکورٹی کے انتظامات کو بیحد مبالغہ آمیز انداز میں رپورٹ کیاجارہا تھا۔ ناظرین حیران ضرور ہوئے ہوں گے کہ آخر یہ سب کچھ کیوں کیا جارہا ہے۔ اس کی ضرورت کیا ہے؟ دیکھتے ہی دیکھتے دیگر ٹی وی چینلز بھی میدان میں کود پڑے اور باقی ساری دنیا جہاں کی خبریں چھوڑ کر ستاروں کی اس جوڑی کی خبریں دینے میںمصروف ہوگئے۔ راقم الحروف بھی اہل پاکستان کی طرح حیرت میں ڈوبا یہ منظر دیکھتا رہا۔ بقول غالب

ع خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھیے


۲۴؍ اپریل کو خبر چلی کہ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا پاکستان میں بھارت کے ہائی کمشنر سے بھی ملے ہیں۔ موصوف نے کمال مہربانی سے شعیب ملک کو بھارت یاترا کا ایک سال کا ویزا عطا کیا۔ باخبر لوگ بھارت کے ویزا کے حصول میں حائل مشکلات سے واقف ہیں۔ اُنہیں بھی بھارتی سفیر کی اس 'دریا دلی' پر حیرانگی ضرور ہوئی ہوگی۔ ابھی تو چند روز پہلے بھارت میں شعیب ملک کے خلاف مقدمات اور اس کی ممکنہ گرفتاری کی خبریں چل رہی تھیں اور یکایک فلک نے یہ کیا انقلاب دیکھا کہ پورے سال کا ویزا عطا کیا جارہا ہے۔ کیا یہ سب رواروی میں ہوگیا؟ ایسا ہوتا نہیں ہے...!!

جس دن شعیب اور ثانیہ کی جوڑی کا کراچی میں ورودِ مسعود ہوا، اُسی دن لاہور ایئرپورٹ پر 'امن کی آشا' کا قافلہ بھی پورے طمطراق کے ساتھ اُترا،یا زیادہ درست یوں ہوگا کہ اُتارا گیا۔ کیا یہ محض حسن اتفاق تھا کہ ان دو قافلوں کے لیے ایک ہی دن چنا گیا۔ آپ بھلے سے اسے حسن اتفاق کہئے، مگر واقعاتی شہادتیں اسے منصوبہ بندی کا نام دیں گی۔ ہمارے خیال میں اس 'حسن اتفاق' کو پیدا کرنے کے لیے بہت ساری منصوبہ بندی کی ضرورت پیش آئی ہوگی۔

آج سے چند سال پہلے جب امریکہ کے صدر بل کلنٹن کا جہاز جس دن اسلام آباد ایئرپورٹ پر لینڈ کرنا تھا، عین اُسی دن واہگہ بارڈر پر نرمیلا دیش پانڈے کی سربراہی میں بھارتی این جی اوز کی خواتین کا سفارتی قافلہ بھی نمودار ہوا تھا جس کے استقبال کے لیے پاکستان کی این جی اوز کی خواتین نے والہانہ انداز میں کیکلی کا رقص پیش کیا تھا۔ اس دفعہ جو بھارتی وفد آیا ہے اس کی قیادت ایک ریٹائرڈ ایڈمرل فرما رہے ہیں، ان کے ساتھ بھارتی افواج کے ریٹائرڈ افسر اور دانشور آئے ہیں۔

'امن کی آشا' کے اس وفد کی آمد کو ذرا ان بیانات سے ملا کر پڑھیے جس میں کہا جارہا ہے کہ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے قیام کے لیے معاون ثابت ہوگی۔ یہ سارے واقعات ایک ہی ڈرامے کے مختلف ایکٹ نظر آتے ہیں۔ اس ڈرامے کا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کون ہے؟ اگر یہ راز طشت ازبام ہوجائے تو پھر اس ڈرامے کی ساری سنسنی خیزی ختم ہوجائے گی۔

۲۵؍ اپریل کونئے شادی شدہ جوڑے کو سیالکوٹ میں استقبالیہ دیا گیا۔ اس استقبالیے کے اسٹیج کو تیار کرنے کے لیے ۲۰ لاکھ روپے خرچ کئے گئے، مکمل خرچہ یقینا کروڑوں میں ہوگا۔اس کے کارڈز دس دس ہزار میں بلیک میں فروخت ہوئے۔ کھانوں کی اقسام اور لذتوں کاجو بیان میڈیا میں آتا رہا، اچھے خاصوں کی رال ٹپکانے کے لیے کافی تھا۔ کیا ایسی تقریبات میں ون ڈش کی پابندی ضروری نہیں ہے؟ اس کی وضاحت کے متعلق عوام کو کچھ نہیں بتایا گیا۔ یہ استقبالیہ اس قدر بدانتظامی اور ہڑبونگ کا شکار ہوگیا کہ ثانیہ مرزا روپڑی اور اپنے دلہن ہونے کا احساس کئے بغیر شعیب ملک سے اُلجھ پڑی کہ وہ اسے کس مصیبت میں لے آیا ہے؟ اخبارات اور ٹی وی چینلز نے رپورٹ کیا کہ ثانیہ مرزا کے والدین نے احتجاجاً سیالکوٹ میں شعیب ملک کے گھر جانے سے معذرت کرلی اور لاہور کے لیے روانہ ہوگئے۔ شعیب ملک بھی پھٹ پڑا۔ اس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا : ''آخر ہمارے ہاں لیڈیزکے ساتھ اس طرح چمٹ کرنہیں چلا جاتا، لیڈیز کا خیال کرنا چاہئے۔'' ہم یہی کہیں گے:

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا !؟


بعض لوگوں کا خیال تھا کہ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا میڈیا میں اس فقید المثال کوریج کے بعد خوشی سے پاگل ہوگئے ہوں گے، ان کے قدم زمین پر نہیں ٹکتے ہوں گے، وہ اپنے آپ کو کسی کوہ قاف جیسے پرستان کے باسی سمجھنا شروع ہوگئے ہوں گے۔ شاید ایسا نہیں ہوا۔ ایک حد تک تو اُنہیں خوشی ضرور ہوتی، مگر پاپا رازیوں (صحافی، کیمرہ مین) نے جب اُنہیں اپنے نرغے میں لے لیا تو ان کے اعصاب نے جواب دے دیا۔ ان کی باڈی لینگویج سے یوں لگتا تھا جیسے وہ شدید نفسیاتی خوف اور بے چینی کا شکار تھے۔ ثانیہ مرزا کہہ چکی تھی کہ وہ پاکستان کی بہو نہیں، صرف شعیب کی بیوی ہے، مگر اس کا یہ بیان بھی پاپا رازیوں کو دور ہٹانے میں مؤثر ثابت نہ ہوا۔ آج سے چند سال پہلے شہزادی ڈیانا بھی انہی پاپا رازیوں کے مجنونانہ تعاقب کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوئی تھی اور جان دے بیٹھی تھی۔

یہ بات ایک حقیقت ہے کہ جب کسی کو میڈیا میں اتنا زیادہ فوکس کردیا جائے، تو وہ دہشت گردوں کے لیے ہائی ویلیو ٹارگٹ بن جاتاہے۔ شاید یہ بات بھی ثانیہ مرزا اور اس کے خاندان کو پریشان کررہی تھی۔ یہی شعیب ملک جوچند مہینے پہلے لاہور جیسے شہرمیں آزادانہ پھرا کرتا تھا، جب ثانیہ مرزا کے ساتھ آیا تو فائیو سٹار ہوٹل میں محصور ہوکر رہ گیا اور پولیس کی اجازت کے بغیر اپنی بیوی کو لاہور دکھانے کے لیے باہر تک نہیں نکل سکتا تھا۔

پاکستانی عوام کے ذہنوں میں بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں مگر ان کے جوابات کوئی نہیں دے رہا۔ وہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ ہمارے میڈیا نے ایک شادی جیسے ذاتی مسئلہ کو اس قدر تشہیر کیوں دی؟ کیا اس میں ان کا کوئی مالی مفاد وابستہ ہے؟ اُنہیں اپنی ہردل عزیزی بڑھانے کے لیے اس واقعہ کو اچھالنے کی ضرورت پیش آئی؟کیا کسی بین الاقوامی طاقت یاایجنسی نے اُنہیں یہ ایجنڈا دیا ہے؟ آخر یہ ایجنڈا کیوں دیاگیا، کیا یہ کوئی سازش ہے؟ کیا میڈیا کے ذمہ داران پاکستانی عوام کو خوشی کے مواقع دکھا کر ان کی ذہنی پریشانی کو کم کرنے کے مشن کو پورا کررہے تھے؟ کیا واقعی اس طرح کی میڈیا کی دیوانگی سے پاکستانی عوام کی پریشانیاں کم ہوسکتی ہیں؟ کیا پاکستانی عوام جو اس وقت شدید مہنگائی اور مالی پریشانیوں کا شکار ہیں، ان کے لیے اس 'گلیمر' اور بے جا اسراف میںکوئی دلچسپی اور جمالی کا عنصر پایا جاتا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں 'گلیمر' ہی سب کچھ ہے، دیگر تہذیبی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے؟ کیا ہمارا میڈیا یورپی میڈیا کے اتباع میں اس طرح کے پروگرامات پیش کرنے کا کوئی جواز رکھتا ہے؟ کیا کسی کی ذاتی زندگی میں اس طرح کی مداخلت جائز ہے؟

ایک نان ایشو کو آخر اتنا بڑا ایشو بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ آواری ہوٹل کا فلور نمبر ۸ پورے کا پورا کئی دنوں کے لیے بک کرایا گیاہے، یہ اخراجات کون برداشت کررہاہے؟ شعیب ملک اگر اتنادولت مند ہوتا، تو میڈیا والوں کو اپنے ولیمے کی کوریج کے لیے حقوق خریدنے کے لیے ساڑھے تین کروڑ کی بات کیوں کرتا؟ اگر شعیب ملک کے پاس اس قدر زیادہ دولت ہے، تو کیا وہ انکم ٹیکس بھی ادا کرتا رہا ہے؟ اگر یہ سارے اخراجات کسی اور نے اٹھائے ہیں، تو ان کے تقدس مآب چہرے سے نقاب اُلٹنا چاہئے؟ پھراُنہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ اتنی بڑی رقم کس توقع پر خرچ کر ڈالی ہے؟

اخباری اطلاعات کے مطابق انڈیا کے کسی بھی چینل یا کسی بھی آرٹسٹ نے اس شادی کو اہمیت نہیں دی۔ کشور ناہید جو انڈیا سے واپس آئی ہیں، لکھتی ہیں: ''معلوم نہیں جان بوجھ کر بائیکاٹ کیا گیا تھا، ہندوستانی چینل اس خبر کو اہمیت ہی نہیں دے رہے تھے۔'' (جنگ۲۴؍اپریل۲۰۱۰)

ہمارے ایک لبرل دانشور ایازامیر صاحب نے میڈیا کی غیر معمولی دلچسپی کی توجیہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ''حالیہ دہائی میں برصغیر میںکوئی اسپورٹس سیکس سمبل ہوئی ہے تووہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن ثانیہ مرزا کے علاوہ کوئی اور شخصیت نہیں۔'' میر صاحب نے تو اپنی طرف سے تعریف کی ہے، مگر ہمارا خیال ہے کہ ثانیہ مرزا کے والدین اپنی بیٹی کو اور شعیب ملک اپنی بیوی کو 'سیکس سمبل' کے طور پر پیش کرنا پسند نہیںکریں گے۔ شاید میر صاحب سیکس کو Gendre کے معنوں میںلے رہے ہیں۔ ثانیہ مرزا بھی اتنی لبرل نہیں ہے جو ان ریمارکس کو قبول کرے۔ وہ اپنے انٹرویوز میںکہہ چکی ہے کہ 'شارٹ' کپڑے پہن کر کھیلنا گناہ ہے اور وہ اپنے خدا سے اس کی معافی مانگ چکی ہیں، وہ اللہ سے معافی کی اُمید رکھتی ہیں۔'' جو لڑکی گناہ اور ثواب کا یہ تصور رکھتی ہو وہ 'سیکس سمبل' کہلانا شاید پسند نہ کرے۔ مگر ہمارے لبرل دانشور مغربی میڈیا کے اتباع میں اپنے ذہنوں میںاس کے'سیکس سمبل' ہونے کا غلط تصور قائم کئے ہوئے ہیں۔

شعیب ملک کا بہنوئی عمران ظفر جو اس کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتا رہا ہے، سیالکوٹ میں استقبالیہ تقریب کے دوران آخر کار چیخ اُٹھا کہ خدا کے لیے میڈیا سرکس بند کرو۔(جنگ) انصار عباسی واحد صحافی ہیں جنہوں نے صحافیوں کی زیادتی پر توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

''شعیب ملک اور ثانیہ مرزا بھی میڈیا کی اس دیوانگی سے پریشان اور ہراساں نظر آرہے تھے، جب ٹی وی چینل دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد میڈیاکی اس دیوانگی سے تنگ آچکی ہے تو نجانے جن پر گزر رہی ہے، ان کا اصل میں کیا حال ہوگا۔جب سے شعیب ثانیہ کی شادی کی خبر آئی ہے، اس وقت سے الیکٹرانک میڈیا نے پوری قوم کو ایک ہیجان میں مبتلا کررکھا ہے۔'' (جنگ۲۶؍اپریل۲۰۱۰)

ہم سمجھتے ہیں کہ اس سارے ہیجان میں پاکستانی قوم،شعیب اور ثانیہ، ان کے عزیزوں اور حتیٰ کہ ان پاپا رازی صحافیوں کا بھی استحصال ہوا ہے جنہیں دن رات ان کے تعاقب پرلگایا گیا ہے۔ بہت جلد ہی شعیب اور ثانیہ مرزا کو احساس ہوجائے گا کہ ان کی ذاتی شادی کی تقریب کو کن قوتوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ اُنہیںخود سمجھ آجائے گی کہ وہ اتنے بڑے ہیرو اور اسٹار نہیں ہیں جتنا اُنہیںبنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ پاپا رازی صحافی بے حد پیشہ وارانہ مسابقت سے اس شادی کوکوریج دے رہے ہیں۔ وہ شاید اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ شاید اُنہیں علم ہوجائے کہ ان سے یہ ٹاسک کیوں لیا جارہا ہے؟ اُنہیں ہندوستان جاکر ثانیہ مرزا کے گھر کے سامنے ڈیرے ڈال کر پڑا رہنے کو کیوں کہا گیا؟ اور پھر ان سے فائیوسٹار ہوٹل کے باتھ روم تک کی فوٹو گرافی کیوں کرائی گئی، وہ تو بے چارے کیمرے کے مزدور ہیں، اصل قصور وار وہ ہیں جنہوں نے اُن سے یہ سب مشن پوراکرایا ہے۔

بالکل اسی طرح کا ایک مشن افغانستان میں بھی پورا کرایا جارہا ہے۔ جو مشن ڈیزی کٹر بموں کے حملوں سے پورا نہیں ہوا، اُسے اب کیمرے کی آنکھ سے پورا کیا جارہا ہے۔ گذشتہ ایک ماہ سے نیشنل جغرافک ٹی وی نے افغانستان کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بار بار دکھائی ہے۔اس کاعنوان ہے 'فن اسٹار' (Fun star)۔ اس فلم میں افغانستان کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو تربیت دے کر ان سے موسیقی کے مقابلے کرائے گئے۔ فلم کا مقصد طالبان کی وحشیانہ تہذیب کو بدل کر مغرب کی روشن خیال تہذیب کو نوجوان نسل میںمتعارف کرانا ہے۔ یہاںتفصیلات کی گنجائش نہیں ہے۔

۱۱؍۹ کی شام کو امریکی صدر جارج ڈبلیوبش نے دہشت گردی کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میںکہا: ''امریکہ کو ان حملوں کاہدف اس لیے بنایا گیا ہے،کیونکہ ہم آزادی کی روشن ترین کرن ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ امریکی عوام پوچھتے ہیں: آخر وہ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟دہشت گرد ہم سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ہم جمہوری اقدار پریقین رکھتے ہیں۔ اُنہوںنے مذکورہ حملوں کو انسانی تہذیب ، اعلیٰ امریکی اقدار اور آزادی پرحملہ قرار دیا۔''

امریکہ اقدار میںسے اہم ترین قدر' سرمایہ دارانہ صارفیت' ہے۔ وسیع پیمانے پر پروڈکشن کا فائدہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب وسیع پیمانہ پرکھپت بھی ہو۔اس کے لیے انڈیا اور پاکستان جیسے بڑی آبادیوں کے ممالک کی مارکیٹ پر قبضہ ضروری ہے۔ چونکہ صارفیت کا زیادہ انحصار عورتو ں پر ہے، اس لیے اُنہیںمارکیٹ میں لانا ضروری ہے۔ عورتوں کے رویے بدلنے کے لیے 'رول ماڈل' کی تلاش رہتی ہے۔ اگر ثانیہ مرزا جیسی لڑکیوں کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا جائے تو روایتی معاشروں میں تہذیبی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ شعیب ثانیہ کی شادی اور میڈیا کے کردار کو اس مرکزی خیال کے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔

ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں!