ایک خادمِ قرآن کی کچھ یادیں،کچھ باتیں
راقم الحروف کا محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد سے پہلا شعوری تعارف گریجویشن کے دوران ۱۹۹۸ء میں ہوا۔ اور اس کا ذریعہ، شرک پر ان کی چھ عدد آڈیو کیسٹس بنیں۔ توحید و شرک کے موضوع پر ان کا یہ خطاب اس قدر جامع مانع تھا کہ اس نے ڈاکٹر صاحب ؒ سے ایک تعلق قائم کردیا۔ اس کے بعداپنے گاؤں پنڈی گھیپ، ضلع اٹک میں ہی ڈاکٹر صاحب کی قائم کردہ تنظیم اسلامی کی چھوٹی سی لائبریری سے رابطہ قائم ہوا اور ان کی اکثر و بیشتر کتابیں اور خطبات نہ صرف اَزبر کر لیے بلکہ چھوٹے موٹے دروسِ قرآن کا سلسلہ بھی شروع کردیا۔
گریجویشن کے بعد میرا پروگرام علم ریاضی میں M.Scکرنے کا تھا، لیکن ڈاکٹر صاحب کے خطبات نے ذہن تبدیل کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم قرآن کی تعلیم و تعلّم پر بہت زور دیتے تھے بلکہ مغربی تعلیم یافتہ افراد کے لیے تو قرآن کی تعلیم کو فرض قرار دیتے تھے۔ سو راقم نے بھی ڈاکٹر صاحب مرحوم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے گریجویشن کے بعد ۱۹۹۹ء میں قرآن اکیڈمی، لاہور میں ایک سالہ کورس کے لیے داخلہ لے لیا۔
ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں رعب اور دبدبے کا عنصرغالب تھا۔ اس لیے ان سے براہِ راست ملاقات یا بات کرتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی تھی۔ بہر حال ایک سالہ کورس کے دوران ڈاکٹر صاحب سے کسی انتظامی مسئلے کے حوالے سے ایک ہی دفعہ ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے راقم کو تعلیم پر توجہ دینے کی نصیحت کی۔مئی ۲۰۰۰ء میں ایک سالہ کورس کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب نے کلاس کے ساتھ الوداعی ملاقات کی جس میں سوال و جواب کا سیشن بھی ہوا۔ راقم نے ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال کیا کہ ایک سال پڑھنے کے بعد بعض طلبا میں قرآن وسنت اور دین کا مزید علم حاصل کرنے کی خواہش بڑھ گئی ہے، اب آپ کے پاس اس بارے میں کیا پروگرام ہے ؟ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا: فی الحال تو ہمارے پاس ایک ہی سال کا پروگرام ہے۔ آپ مزید پڑھنا چاہتے ہیں تو اسلامی یونیورسٹی چلیں جائیں۔جب راقم نے ڈاکٹر صاحب سے یہ سوال کیا کہ آپ کا درسِ نظامی کے بارے کیا خیال ہے تو اُنہوں نے جواباً کہا: درسِ نظامی سے گزرنے کے بعد تمہارے اندر تحریکیت٭ ختم ہو جائے گی اور جمود کا شکار ہو جاؤ گے کیونکہ مدارس میں مذہبی تعصب بہت ہے۔ تقریباًہر مدرسہ اپنے مکتب ِفکر کی تعداد بڑھانے کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہے۔ درسِ نظامی کے نصاب میں یہ کمزوری ہے کہ اس کے نصاب کی تیاری میں تحریکی پہلو کی طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی ہے، الا ماشاء اللہ!
اس کے بعد راقم الحروف نے جامعہ اشرفیہ، لاہور میں درسِ نظامی کے سہ سالہ کورس میں داخلہ لے لیا، لیکن وہاں تشفی نہ ہوئی،لہٰذا کچھ عرصہ بعد جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) میں داخلہ لے لیا جہاں سے میں نے درسِ نظامی کی تکمیل کی اور کچھ عرصہ وہاںتدریس بھی کرتا رہا۔ اس دوران قرآن اکیڈمی سے تعلق تقریباً منقطع ہی رہا۔پھر دسمبر ۲۰۰۵ء میں راقم'قرآن اکیڈمی' کے شعبۂ 'تحقیق و تدریس' سے وابستہ ہو گیا تو ایک دفعہ پھر اکیڈمی سے رابطہ ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم سے گاہے بگاہے ملاقات رہتی تھی اور اکثر و بیشتر ملاقات ان کے بلانے پر ہی ہوتی تھی۔ وہ خطبہ جمعہ کی تیاری کے لیے اکثر و بیشتر احادیث کی تخریج و تحقیق کا کام بندئہ ناچیز سے لیتے تھے،کیونکہ وہ خود کمپیوٹر کے استعمال سے بالکل نا واقف تھے۔
فقہی مسائل میں اپنی رائے کے اظہار کے لحاظ سے ڈاکٹر صاحب مرحوم وسعت ِقلبی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ ایک دفعہ راقم الحروف کو ایک ملاقات میں کہنے لگے: مجھے عبادات میں اہل حدیث کا طریقہ پسند ہے اور معاملات میں حنفی فقہ کو مبنی بر اعتدال سمجھتا ہوں۔بعض اوقات وہ یہ بھی کہتے تھے :میں عبادات میں اہل حدیث ہوں اور معاملات میں حنفی ہوں۔ لیکن میرے خیال میں یہ تقسیم بھی ایک موٹی سی تقسیم ہے، حقیقت میں وہ حنفی تھے اور نہ اہل حدیث بلکہ اپنی ذاتی تحقیق، مطالعہ اور رائے پر اعتماد کرتے تھے۔چاہے وہ ان دونوں مسالک کے متفقہ فتویٰ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو جیسا کہ مزارعت کے مسئلے میں ان کی رائے حنفی اور اہل حدیث دونوں کے مفتی بہ قول کے خلاف تھی اور اس مسئلے میں وہ مولانا طاسین صاحب کی رائے پر اعتماد کرتے ہوئے مزارعت کو مطلقاً ناجائز قرار دیتے تھے۔ معاملات میں اپنے آپ کو حنفی کہنے کے باوجود اُنہوں نے اس مسئلے میں حنفیہ کے مفتی بہ قول کو قبول نہ کیا۔ اسی طرح آخر عمر میں وہ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق شمار کرتے تھے اور امام ابن تیمیہ ؒکے مسلک پر اعتماد کا اظہار کیا کرتے۔ اب یہ بھی معاملات سے متعلق مسئلہ ہے، لیکن اس میں وہ فقہ حنفی سے باہر نکل گئے۔
عبادات میں وہ جہراً اور سراً دونوں طرح سے نمازِ جنازہ پڑھا لیتے تھے ۔ سری نمازوں میں فاتحہ خلف الامام کے قائل تھے جو کہ امام مالک، امام احمد اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ کا مسلک ہے۔ یہاں بھی اُنہوں نے عبادات کے مسئلے میں اہل حدیث کے معروف قول کی پیروی نہ کی جو کہ سری اور جہری دونوں نمازوں میں امام کے پیچھے فاتحہ کی قراء ت کے قائل ہیں۔ نماز میں رفع الیدین کے قائل تھے اور انفرادی نمازوں میں رفع الیدین کیا بھی کرتے تھے۔ جماعت میں اگر امام صاحب رفع الیدین کرتے تو وہ بھی کر لیتے تھے، لیکن اگر امام صاحب نہ کرتے تو وہ بھی نہ کرتے تھے اور اس کی توجیہ یہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں امام کی اقتدا کاحکم ہے۔ اب یہ نہ تو حنفی مسلک ہے اور نہ ہی اہل حدیث کا موقف۔ حقیقت یہ ہے کہ فقہی مسائل میں یا تو وہ اپنی تحقیق پر عمل کرتے تھے یا پھر پانچ ائمہ یعنی امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد اور امام ابن تیمیہ رحمہم اللہ کی آرا میں کسی کی رائے اور تحقیق پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے اختیار کر لیتے تھے اور قدیم مسائل میں ان پانچ ائمہ کی آرا سے باہر نہ نکلتے تھے۔
ڈاکٹر صاحبؒ میں ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ اگر ان پر اپنے موقف کی غلطی واضح ہو جاتی تھی تو اس سے رجوع فرما لیتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب ؒنے علامہ اقبال مرحوم کے نظریۂ اجتہاد پر کچھ لکھا۔ اس پر راقم نے یہ تنقید کی کہ ڈاکٹر صاحبؒ نے علامہ اقبال کا جو نقطہ نظر بیان کیا ہے، وہ قطعاً صحیح نہیں ہے اور اس کے دلائل بیان کر کے تحریری صورت میں پیش کیا۔ بعد میں راقم کو احساس ہوا کہ ڈاکٹر صاحبؒ پرتنقید کرتے ہوئے کچھ الفاظ میں شاید سختی آ گئی ہے تو عبارت کو نرم بنانا چاہیے ۔ راقم نے اسی عبارت کو کچھ نرم بنایا اور ڈاکٹر صاحبؒ مرحوم کو پیش کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس تنقید کو دیکھا اور راقم کی حوصلہ افزائی کی اور اپنے موقف سے رجوع بھی فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا: عبارت کو نرم بنانے کی ضرورت نہیں تھی جیسے پہلے لکھا تھا ویسے ہی لکھو کہ'' ڈاکٹر اسرار صاحبؒ نے اقبال مرحوم کا نقطہ نظر قطعاً نہیں سمجھا ہے'' اور پھر خود ہی راقم کی سابقہ عبارت کو دوبارہ لکھ کر کہا کہ اب اسے شائع کروا دو۔
کچھ سال پہلے جبکہ ڈاکٹر صاحب حیات تھے اور میں جامعہ لاہور الاسلامیہ میں تعلیم حاصل کررہاتھا کہ اہل الحدیث کی جماعت،جماعۃ الدعوۃ کے مفتی جناب مولانا مبشر احمد ربانی صاحب سے جامعہ میں جب ایک بار یہ سوال ہوا کہ ڈاکٹر اسرار صاحب کی تنظیم اوراس میں کام کے بارے آپ کی کیا رائے ہے؟ تو اُنہوں نے یہ جواب دیا : کہ اگر ڈاکٹر صاحب وحدت الوجود کا نقطہ نظر اختیار نہ فرماتے تو اس تحریک کی معاونت کرنے والے سب سے زیادہ سلفی ہوتے۔ سلفی اور اہل حدیث طبقے میں ڈاکٹر صاحب کو ان کی خدمات کے پیش نظر بحیثیت ِمجموعی پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتاہے،لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کے بعض نظریات اورعقائد سے اختلاف کی وجہ سے اہل حدیث اور سلفی نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کے تحریکی اور تنظیمی کام سے دور رہی۔ وحدت الوجود، نظریۂ ارتقا، ایمان کے بعض مباحث اور عقیدے سے متعلققرآن کے بعض مقامات کی سائنسی تفسیر وغیرہ جیسے ان کے نظریات سلفی علما کے ہاں زیر تنقید رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبؒ اپنے ان عقائد کے بارے یہی توجیہ پیش کرتے تھے کہ یہ میرے ذاتی عقائد ہیں اور ان کا میری تنظیم یا اس میں شمولیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے بقول تنظیم اسلامی کی بنیادی فکر چار بنیادی مباحث پر مشتمل ہے:
1. اسلام مذہب(religion) نہیں بلکہ ایک دین ہے جس میں انفرادی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی سے متعلق بھی ہدایات اور رہنمائی موجود ہے۔
2. ایک مسلمان کے بنیادی فرائض تین ہیں:
عبادتِ ربّ(زندگی کے ہر گوشے میں)
دعوتِ دین(پورے دین اور خصوصاً قرآن کی) اور
اقامت ِدین کی جدوجہد(یعنی نظامِ عدل و قسط کے قیام کے لیے کوشش کرنا)
3. منہج انقلابِ نبوی، یعنی تنظیم اسلامی کا دین کو قائم کرنے کا طریقہ کار نہ تو صرف تبلیغی اور دعوتی سرگرمیوں تک محدود ہے اور نہ ہی عسکری نوعیت کا ہے بلکہ احتجاجی اور انقلابی طریقہ کار ہے ۔
4. جماعت کی بنیاد 'بیعت ِجہاد' ہو گی۔اور جہاد سے مراد صرف قتال نہیں ہے بلکہ وسیع معنوں میں جہاد یعنی غلبہ دین کی علمی وعملی جدوجہد مراد ہے۔
ڈاکٹر صاحب ؒ کا کہنا یہ تھا کہ جسے ان چار بنیادوں سے اتفاق ہو، چاہے وہ سلفی ہو یا حنفی ' تنظیم میں شامل ہو سکتا ہے۔ اورتنظیم میں شامل ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہر مسئلے میں ڈاکٹر صاحب کی تحقیق پر اعتماد کرے یا فقہی مسائل میں ان کا مقلد بن جائے یا ان کے عقائد ونظریات کی پابندی کرے۔
بہر حال آخر عمر میں ڈاکٹر صاحب نے تنظیم کی شوریٰ میں یہ بات رکھی تھی کہ جن اصحاب کو میری بعض آرا یا نظریات سے اتفاق نہیں ہے تو میں ان کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگو کرنا چاہتا ہوں تا کہ اگر میں غلطی پر ہوں تو رجو ع کر لوں۔ اس سلسلے میں بہت سارے لوگوں نے اپنے نام تنظیم کے مرکز میں لکھوا دیے۔ راقم نے بھی عقائد کے ان موضوعات کے تعین کے ساتھ اپنا نام جمع کروایا، لیکن اس ملاقات کی نوبت نہ آنے پائی تھی کہ قضاے الٰہی نے ڈاکٹر صاحب کو آلیا۔ راقم کو یہ قوی اُمید تھی کہ اگرڈاکٹر صاحبؒ سے یہ ملاقات ہوتی تو وہ ضروروحدت الوجود وغیرہ اَفکاراور نظریات سے رجوع فرما لیتے۔ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے اخلاص کی بنا پر ان کی لغزشیں معاف کرے اور انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دے۔آمین
ڈاکٹر صاحب ؒ جس بات کو حق سمجھتے تھے، اس کو بیان کرنے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے تھے، ان میں جراتِ ایمانی بہت زیادہ تھی۔ ایک دوسری بات جو راقم نے محسوس کی کہ وہ وقت کے بہت زیادہ پابند تھے اور پابندیٔ وقت کو ہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے اور وقت کو بالکل بھی ضائع نہ کرتے تھے۔ عین نماز کے وقت مسجد میں تشریف لانا اور اگر تین یا چار منٹ بھی نماز میں رہتے ہوں تو فوراً نفل نماز کی نیت باندھ لینا، ان کا روزہ مرہ کا معمول تھا۔
قرآن اور دین اسلام کی خدمت میں محترم جناب ڈاکٹر صاحبؒ کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ اُنہوں نے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں نوجوانوں کی زندگیوں کا رخ تبدیل کر دیا۔اُ ن کے کام کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے ان سے کام لیا ہے۔ پہلے اللہ سبحانہ و تعالیٰ انبیاء و رسل کو دنیا کی اصلاح کے لیے بھیجتے تھے تو آپؐ کی اُمت میں یہی کام اللہ تعالیٰ علماء اور اپنے نیک بندوں سے لیتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کسی مدرسے سے فارغ (مستند عالم دین) تو نہ تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے دین کا وہی کام لیا ہے جو اللہ تعالیٰ ہر دور میں اپنے دین کی تجدید کے حوالے سے اپنے نیک بندوں سے لیتے رہے ہیں۔ بلاشہ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ قرآنِ کریم کی طرف رجوع کی تحریک کے ایک عظیم رہنما تھے۔اس مشن میں انہوں نے نہ اپنی صحت کی پروا کی اور نہ ہی مال واولاد کی۔اللہ تعالیٰ ان کا اخلاص اور جہاد قبول فرمائے۔
﴿بَلىٰ مَن أَسلَمَ وَجهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحسِنٌ فَلَهُ أَجرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ ١١٢﴾... سورة البقرة