دستورِ سعودی عرب کی اسلامی دفعات

بموجب فرمانِ شاہی ۱؍۹۰ مجریہ ۲۷؍شعبان ۱۴۱۲ھ بمطابق یکم مارچ ۱۹۹۲ء

"المادة الأولی: المملکة العربیة السعودیة دولة عربیة إسلامیة، ذات سیادة تامة،دینھا الإسلام، ودستورھا کتاب اﷲ تعالیٰ وسنة رسولﷺ،ولغتھا ھي اللغة العربیة، وعاصمتھا مدینة الریاض"

دفعہ 1: مملکت ِ سعودی عرب مکمل طور پر خود مختار عرب اسلامی ملک ہے، اس کا دین'اسلام' دستور 'کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ'، زبان 'عربی' اور دارالحکومت'الریاض' ہے۔

"المادة السادسة: یبایع المواطنون الملِک علی کتاب اﷲ تعالیٰ وسنة رسولهﷺ،وعلی السمع والطاعة في العُسر والیسر والمنشط والمکره"

دفعہ6: ملک کے تمام شہری بادشاہ کی، کتاب اللہ اور سنت ِرسولﷺ پر، نیز تنگی و خوشحالی اور پسندوناپسند، ہرصورت میں سمع و طاعت پربیعت کریں گے۔

المادة السابعة: یستمد الحکم في المملکة العربیة السعودیة سلطته من کتاب اﷲ تعالیٰ وسنة رسوله ﷺ، وھما الحاکمان علی ھٰذا النظام وجمیع أنظمة الدولة"

دفعہ 7: حکومت کے ملک میں جملہ اختیارات کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ سے ماخوذہوں گے،اور ان دونوں (کتاب و سنت) کو اس نظامِ حکومت اور ملک کے تمام قوانین پر بالادستی اور برتری حاصل ہوگی۔

المادة الثامنة: یقوم الحکم في المملکة العربیة السعودیة علیٰ أساس العدل والشورٰی والمساواة وفق الشریعة الإسلامیة"

دفعہ8: حکومت، شریعت ِاسلامی کے مطابق عدل و انصاف، شورائیت اور مساوات جیسے بنیادی اُصولوں پر قائم رہے گی۔

المادة التاسعة: الأسرة ھي نواة المجتمع السعودي... ویُربی أفرادھا علی أساس العقیدة الإسلامیة وما تقتضیه من الولاء والطاعة ﷲ ولرسوله ﷺ ولأولي الأمر... واحترام النظام وتنفیذہ وحب الوطن والاعتزاز به وبتاریخه المجید"

دفعہ9: سعودی معاشرے کی بنیاد 'خاندان' ہے جس کے افراد کی تربیت اسلامی عقیدے اور اس کے تمام تقاضوں ... مثلاً: اللہ اور اُس کے رسولﷺ اور اولوا الامر کی اطاعت وفرمانبرداری، نظامِ حکومت کا احترام اور اس کا نفاذ، وطن سے محبت پر اور اس کی شاندار تاریخ پر افتخار... کی اساس پرکی جائے گی۔

المادة العاشرة: تحرص الدولة علی توثیق أواصر الأسرة، والحفاظ علی قیمھا العربیة والإسلامیة، ورعایة جمیع أفرادھا، وتوفیر الظروف المناسبة لتنمیة ملکاتهم وقدراتهم"

دفعہ 10: حکومت، خاندان کے مابین تعلق کو مضبوط بنانے، اس کی عربی اور اسلامی اقدار کی حفاظت کرنے، اس کے تمام افراد کی دیکھ بھال اور ان کی اہلیتوں اور صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور ان سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے مناسب ماحول مہیا کرنے میں انتہائی طور پر کوشاں رہے گی۔

المادة الحادیة عشرة: یقوم المجتمع السعودي علی أساس من اعتصام أفراده بحبل اﷲ،وتعاونهم علی البر والتقویٰ،والتکافل فیما بینهم، وعدم تفرقھم"

دفعہ11 :سعودی معاشرے کا قیام اس اساس پرہوگا کہ اس کے تمام افراد اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں، نیکی اور پرہیزگاری کے اُصولوں پر ایک دوسرے سے تعاون کریں، باہم ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور تفرقہ سے اجتناب کریں۔

المادة الثانیة عشرة: تعزیز الوحدة الوطنیة واجب، وتمنع الدولة کل مایؤدي للفرقة والفتنة والانقسام"

دفعہ12: ملکی وحدت اور سا لمیت کی حفاظت ہر سعودی شہری کا فرض ہے اور حکومت ہر ایسی کوشش سے روکے گی جو فرقہ بندی، فتنہ فساد اور انقسام پر منتج ہو۔

المادة الثالثة عشرة: یهدف التعلیم إلی غرس العقیدة الإسلامیة في نفوس النشئ، وإکسابهم المعارف والمھارات، وتہیئتھم لیکونوا أعضاء نافعین في بناء مجتمعھم محبین لوطنھم معتزین بتاریخه"

دفعہ13:نئی نسل کے دلوں میں اسلامی عقیدے کی ترکیزو آبیاری، اسے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے لیے امداد مہیا کرنااور اس طرح تیار کرنا کہ وہ اپنے معاشرے کی تعمیر میں نفع بخش ثابت ہو، اپنے وطن سے محبت اور اپنی تاریخ پر فخر کرے، تعلیم کے اہداف ہوں گے۔

المادة السابعة عشرة: الملکیة ورأس المال والعمل مقومات أساسیة في الکیان الاقتصادي والاجتماعي،وھی حقوق خاصة تؤدي وظیفة اجتماعیة وفق الشریعة الإسلامیة"

دفعہ17: ملکیت، سرمایہ اورمحنت... ملک کے اقتصادی اور اجتماعی ڈھانچے کی بنیادیں ہیں۔ یہ خاص (انفرادی) حقوق ہیں جوشریعت ِاسلامیہ کے مطابق اجتماعی خدمت سرانجام دیتے ہیں۔

المادة العشرون: لا تفرض الضرائب والرسوم إلا عند الحاجة، وعلی أساس من العدل، ولا یجوز فرضھا أو تعدیلھا أو إلغاؤھا أو الإعفاء منھا إلا بموجب النظام"

دفعہ 20: ٹیکس اور محصولات صرف ضرورت کے تحت اور منصفانہ بنیاد پر عائد کئے جائیں گے۔ ان کا عائد کرنا یا ان میں کوئی ترمیم، یا ان کو معاف کرنا وغیرہ صرف قانون کے مطابق عمل میں آئیں گے۔

المادة الحادیة والعشرون: تُجبی الزکاة وتنفق في مصارفھا الشرعیة"

دفعہ21: زکوٰۃ وصول کی جائے اور اسے اس کے شرعی مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔

المادة الثالثة والعشرون: تحمي الدولة عقیدة الإسلام۔۔۔وتطبق شریعته،وتأمر بالمعروف وتنھی عن المنکر،وتقوم بواجب الدعوة إلی اﷲ"

دفعہ 23: حکومت، عقیدۂ اسلام کی حفاظت اور شریعت ِ اسلامیہ کو نافذ کرے گی، اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دے گی اور دعوت الی اللہ کا اہتمام کرے گی۔

المادة الرابعة والعشرون: تقوم الدولة بـإعمار الحرمین الشریفین وخدمتھما... وتوفر الأمن والرعایة لقاصدیهما، بما یُمکن من أداء الحج والعمرة والزیارة بـیُسرٍ وطمأنینة"

دفعہ24: حکومت، حرمین شریفین کی تعمیر اور ان کی خدمت کافرض پوراکرے گی، ان کی طرف قصد کرنے والوں کے لیے امن و سلامتی اور ان کی دیکھ بھال کو یقینی بنائے گی تاکہ حج و عمرہ اورزیارتِ (مسجد ِنبویؐ) اطمینان و سکون سے انجام پاسکیں۔

المادة الخامسة والعشرون: تحرص الدولة علی تحقیق آمال الأمة العربیة والإسلامیة في التضامن وتوحید الکلمة ... وعلی تقویة علاقاتها بالدول الصدیقة"

دفعہ25: حکومت، عرب اور مسلم اُمت کے باہمی تعاون اور اتحاد کی آرزؤں کی تکمیل کے لیے انتہائی کوشاں رہے گی اور دوست ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مستحکم کرے گی۔

المادة السادسة والعشرون: تحمي الدولة حقوق الإنسان وفق الشریعة الإسلامیة"

دفع26: مملکت شریعت ِاسلامیہ کے مطابق حقوقِ انسانی کی حفاظت کرے گی۔

المادة السابعة والعشرون: تکفل الدولة حق المواطن وأسرته في حالة الطواري والمرض والعجز والشیخوخة، وتدعم نظام الضمان الاجتماعي،وتشجع المؤسسات والأفراد علی الإسھام في الأعمال الخیریة"

دفعہ 27: ہنگامی حالت، بیماری، معذوری اوربڑھاپے میں حکومت سعودی شہری اور اس کے خاندان کے حقوق کی کفالت، 'سوشل سیکیورٹی' (تحفظ ِعامہ) کے نظام کی مالی امداد اور فلاحی کاموں میں حصہ لینے والے اداروں اور افراد کی حوصلہ افزائی کرے گی۔

المادة الثالثة والثلاثون: تنشيء الدولة القوات المسلحة وتجھزھا، من أجل الدفاع عن العقیدة والحرمین الشریفین والمجتمع والوطن"

دفعہ33: حکومت مسلح افواج بنائے گی اور اُنہیں عقیدۂ اسلامیہ، حرمین شریفین، معاشرے اور وطنِ عزیز کے دفاع کے لیے تیارکرے گی۔

المادة الرابعة والثلاثون: الدفاع عن العقیدة الإسلامیة والمجتمع والوطن واجب علی کل مواطن،ویبـین النظام أحکام الخدمة العسکریة"

دفعہ34: عقیدہ اسلامیہ، معاشرے اور وطن کادفاع کرنا ملک کے ہر شہری پر لازم ہوگا۔ ایک الگ قانون فوجی خدمات کے دیگراَحکام کو واضح کرے گا۔

المادة الثامنة والثلاثون: العقوبة شخصیة ولا جریمة ولا عقوبة إلا بناء علی نص شرعي،أو نص نظامي،ولا عقاب إلا علی الأعمال اللاحقة للعمل بالنص النظامي"

دفعہ 38: سزا فرد کا شخصی معاملہ ہے۔کسی شرعی یا قانونی اساس کے بغیر کوئی فعل جرم قرار پائے گا نہ اس پر سزا دی جاسکے گی اور سزا اسی فعل پر دی جاسکے گی جو اس کے متعلق جاری ہونے والے قانون کے بعد مستوجب ِسزا قرار پائے گا۔

المادة الثالثة والأربعون: مجلس الملک ومجلس ولي العھد، مفتوحان لکل مواطن ولکل مَن له شکوٰی أو مظلمة، ومن حق کل فرد مخاطبة السلطات العامة فیما یعرض له من الشؤون"

دفعہ43: بادشاہ اور ولی عہد کے ایوان ہر شہری اور ہر اس شخص کے لیے کھلے ہیں جسے کوئی شکایت ہو یا جس کا حق سلب کیا گیا ہو۔ نیز ہر شہری کو اپنے معاملات کے سلسلے میں متعلقہ حکام سے رجوع کرنے کا حق ہوگا۔

المادة الخامسة والأربعون: مصدر الإفتاء في المملکة العربیة السعودیة کتاب اﷲ تعالیٰ وسنة رسول ﷺ،ویبین النظام ترتیب ھیئة کبار العلماء وإدارة البحوث العلمیة والإفتاء واختصاصاتها"

دفعہ45:مملکت میں فتویٰ دینے کا سرچشمہ کتاب اللہ اور سنت رسول1 ہے۔قانون کے ذریعے 'تنظیم کبارعلماء' اور'ادارۂ بحوثِ علمیہ' کی ترتیب اور ان دونوں کے فرائض کو بیان کردیا جائے گا۔

المادة السادسة والأربعون: القضاء سلطة مستقلة۔۔۔ولا سلطان علی القضاة في قضائھم لغیر سلطان الشریعة الإسلامیة"

دفعہ46:'عدلیہ' ایک آزاد اور بااختیار ادارہ ہوگا جس ۔۔۔پرشریعت ِاسلامیہ کی بالادستی و برتری کے علاوہ اور کوئی بالادستی نہیں ہوگی۔

المادة الثامنة والأربعون: تطبق المحاکم علی القضایا المعروضة أمامھا أحکام الشریعة الإسلامیة وفقًا لما دلّ علیه الکتاب والسنة، وما یصدره ولي الأمر من أنظمة لاتتعارض مع الکتاب والسنة"

دفعہ48:تمام عدالتیں پیش ہونے والے جملہ مقدمات میں شریعت ِاسلامیہ کے احکامات کے مطابق فیصلہ کریں گی جس طرح کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسولﷺسے ثابت ہیں۔ اور ولی الامر (امیر) کی طرف سے نافذ کردہ ان قوانین کے مطابق فیصلہ کریں گی جو کتاب اللہ اور سنت ِرسولﷺکے مخالف نہ ہوں۔

المادة السابعة والستون: تختص السلطة التنظیمیة بوضع الأنظمة واللوائح فیما یحقق المصلحة، أو یرفع المفسدة في شؤون الدولة، وفقًا لقواعد الشریعة الإسلامیة، وتمارس اختصاصاتها وفقًا لھذا النظام و نظامي مجلس الوزراء و مجلس الشورٰی"

دفعہ67: انتظامیہ کو شریعت ِاسلامیہ کے دائرے میں رہتے ہوئے ایسے قواعد و ضوابط بنانے کا اختیار حاصل ہوگا جو مصالح عامہ اور رفعِ مفاسد کے لیے معاون ثابت ہوں گے اور وہ اپنے اختیارات، اس دستور،مجلس الوزراء اور مجلس شوریٰ کے دساتیر کے مطابق استعمال کرے گی۔

نوٹ: سعودی عرب کے مکمل دستور کے اُردو ترجمہ کے لئے جو ۸۳ دفعات اور ۱۱ صفحات پر مشتمل ہے، محدث کا شمارہ بابت جنوری ۱۹۹۳ء (ص۲۱۰تا۲۲۰) مطالعہ کریں۔ یہ سعودی دستور۱۹۹۲ء میں نافذ کیا گیا اور تاحال بلاترمیم مملکت ِسعودی عرب میں نافذ عمل ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور۱۹۷۳ء ،۲۸۰ دفعات اور ۲۲۴ صفحات پر مشتمل ہے جس کی ذیلی دفعات بھی کافی طویل ہیں۔ جبکہ اس میں انہی دنوں ۱۸ ویں ترمیم منظور کی جاچکی ہے۔ علاوہ ازیں ایک ہی موضوع پر پاکستانی، سعودی اور ایرانی دساتیر کی دفعات کا تقابلی مطالعہ بھی دلچسپ ومفید ہوگا۔ (ادارہ