۳۱ علماے کرام کے بائیس نکات

اسلامی حکومت کے بنیادی اُصولوں کے حوالے سے ۱۹۵۱ء میں
جملہ مکاتب ِفکر کی طرف سے متفقہ طور پرمنظور کردہ
مدت ِ دراز سے اسلامی دستور ِ مملکت کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں لوگوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اسلام کاکوئی دستورِ مملکت ہے بھی یا نہیں؟ اگر ہے تو اس کے اُصول کیا ہیں اور اس کی عملی شکل کیا ہوسکتی ہے؟ اور کیااُصول اور عملی تفصیلات میں کوئی چیز بھی ایسی ہے جس پر مختلف اسلامی فرقوں کے علما متفق ہوسکیں؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کے متعلق عام طور پر ایک ذہنی پریشانی پائی جاتی ہے اور اس ذہنی پریشانی میں ان مختلف دستوری تجویزوں نے اور بھی اضافہ کردیاہے جو مختلف حلقوں کی طرف سے اسلام کے نام پر وقتاً فوقتاً پیش کی گئیں۔
اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ تمام اسلامی فرقوں کے چیدہ اور معتمد علما کی ایک مجلس منعقد کی جائے اور وہ بالاتفاق صرف اسلامی دستور کے بنیادی اُصول ہی بیان کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان اُصولوں کے مطابق ایک ایسا دستوری خاکہ بھی مرتب کردے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے قابل قبول بھی ہو۔
چنانچہ  کراچی میں بتاریخ ۱۲،۱۳،۱۴ اور ۱۵ربیع الثانی ۱۳۷۰ھ بمطابق ۲۱،۲۲، ۲۳ اور ۲۴ جنوری ۱۹۵۱ء بصدارت مولاناسید سلیمان ندوی حاجی مولی بخش سومرو کے ہاں اجتماع ہوتا رہا۔ اس اجتماع میں اسلامی دستور کے جو بنیادی اُصول بالاتفاق طے ہوئے، اُنہیں فائدہ عام کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔
اسلامی مملکت کے بنیادی اُصول
اسلامی مملکت کے دستور میں حسب ِذیل اُصول کی تصریح لازمی ہے:
1. اصل حاکم تشریعی و تکوینی حیثیت سے اللہ رب العالمین ہے۔
2. ملک کا قانون کتاب و سنت پر مبنی ہوگا اور کوئی ایسا قانون نہ بنایا جاسکے گا، نہ کوئی ایسا انتظامی حکم دیا جاسکے گا، جو کتاب و سنت کے خلاف ہو۔
(تشریحی نوٹ) اگر ملک میں پہلے سے کچھ ایسے قوانین جاری ہوں جو کتاب و سنت کے خلاف ہو تو اس کی تصریح بھی ضروری ہے کہ وہ بتدریج ایک معینہ مدت کے اندر منسوخ یا شریعت کے مطابق تبدیل کردیئے جائیں گے۔
3. مملکت کسی جغرافیائی، نسلی، لسانی یا کسی اور تصور پر نہیں بلکہ ان اُصول و مقاصد پر مبنی ہوگی جن کی اساس اسلام کا پیش کیا ہوا ضابطۂ حیات ہے۔
4. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگا کہ قرآن و سنت کے بتائے ہوئے معروفات کو قائم کرکے منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیاء و اعلاء اور مسلّمہ اسلامی فرقوں کے لیے ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری اسلامی تعلیم کاانتظام کرے۔
5. اسلامی مملکت کا یہ فرض ہوگاکہ وہ مسلمانان عالم کے رشتہ اتحاد و اخوّت کو قوی سے قوی تر کرنے اور ریاست کے مسلم باشندوں کے درمیان عصبیت جاہلیہ کی بنیادوں پرنسلی و لسانی علاقائی یا دیگر مادی امتیازات کے ابھرنے کی راہیں مسدود کرکے ملت اسلامیہ کی وحدت کے تحفظ و استحکام کا انتظام کرے۔
6. مملکت بلاامتیاز مذہب و نسل وغیرہ تمام ایسے لوگوں کی لابدی انسانی ضروریات یعنی غذا، لباس، مسکن، معالجہ اور تعلیم کی کفیل ہوگی جو اکتساب رزق کے قابل نہ ہوں، یا نہ رہے ہوں یاعارضی طور پر بے روزگاری، بیماری یادوسرے وجوہ سے فی الحال سعئ اکتساب پر قادر نہ ہوں۔
7. باشندگانِ ملک کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو شریعت اسلامیہ نے ان کو عطا کئے ہیں۔ یعنی حدود ِقانون کے اندر تحفط جان و مال و آبرو، آزادئ مذہب و مسلک، آزادئ عبادت ، آزادئ ذات، آزادئ اظہاررائے، آزادئ نقل و حرکت، آزادئ اجتماع، آزادئ اکتساب رزق، ترقی کے مواقع میں یکسانی اور رفاہی ادارات سے استفادہ کا حق۔
8. مذکورہ بالا حقوق میں سے کسی شہری کا کوئی حق اسلامی قانون کی سند ِجواز کے بغیر کسی وقت سلب نہ کیا جائے گا اور کسی جرم کے الزام میں کسی کو بغیر فراہمئ موقعۂ صفائی وفیصلہ عدالت کوئی سزا نہ دی جائے گی۔
9. مسلّمہ اسلامی فرقوں کو حدود ِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ انہیں اپنے پیروؤں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا حق حاصل ہوگا۔ وہ اپنے خیالات کی آزادی کے ساتھ اشاعت کرسکیںگے۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کے اپنے فقہی مذہب کے مطابق ہوں گے اور ایسا انتظام کرنا مناسب ہوگا کہ انہیں کے قاضی یہ فیصلہ کریں۔
10. غیر مسلم باشندگان مملکت کو حدود ِ قانون کے اندر مذہب و عبادت، تہذیب وثقافت اورمذہبی تعلیم کی پوری آزادی حاصل ہوگی اور انہیں اپنے شخصی معاملات کافیصلہ اپنے مذہبی قانون یارسم و رواج کے مطابق کرانے کا حق حاصل ہوگا۔
11. غیر مسلم باشندگان مملکت سے حدودِ شریعہ کے اندر جو معاہدات کئے گئے ہوں ان کی پابندی لازمی ہوگی اور جن حقوق شہری کاذکر دفعہ نمبر ۷ میں کیا گیا ہے ان میں غیر مسلم باشندگانِ ملک اور مسلم باشندگانِ ملک سب برابر کے شریک ہوں گے۔
12. رئیس مملکت کا مسلمان مرد ہونا ضروری ہے جس کے تدین، صلاحیت اور اصابت ِرائے پر ان کے جمہوری منتخب نمائندوں کو اعتماد ہو۔
13. رئیس مملکت ہی نظم ِ مملکت کا اصل ذمہ دار ہوگا۔ البتہ وہ اپنے خیالات کا کوئی جزو کسی فرد یا جماعت کو تفویض کرسکتا ہے۔
14. رئیس مملکت کی حکومت مستبدانہ نہیں بلکہ شورائی ہوگی یعنی وہ ارکان ِ حکومت اور منتخب نمائندگان ِ جمہور سے مشورہ لے کر اپنے فرائض انجام دے گا۔
15. رئیس مملکت کو یہ حق حاصل نہ ہوگا کہ وہ دستور کو کُلاً یا جزواً معطل کرکے شوریٰ کے بغیر حکومت کرنے لگے۔
16. جو جماعت رئیس مملکت کے انتخاب کی مجاز ہوگی وہی کثرت آراء سے اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
17. رئیس مملکت شہری حقوق میں عامۃ المسلمین کے برابر ہوگا اور قانونی مواخذہ سے بالاتر نہ ہوگا۔
18. ارکان و عمال حکومت اور عام شہریوں کے لیے ایک ہی قانون و ضابطہ ہوگا اور دونوں پر عام عدالتیں ہی اس کو نافذ کریں گی۔
19. محکمہ عدلیہ، محکمہ انتظامیہ سے علیحدہ اور آزاد ہوگا تاکہ عدلیہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہیئت ِانتظامیہ سے اثر پذیر نہ ہو۔
20. ایسے افکار و نظریات کی تبلیغ و اشاعت ممنوع ہوگی جو مملکت اسلامی کے اساسی اصول و مبادی کے انہدام کا باعث ہوں۔
21. ملک کے مختلف ولایات و اقطاع مملکت واحدہ کے اجزاء انتظامی متصور ہوں گے۔ان کی حیثیت نسل، لسانی یاقبائلی واحدہ جات کی نہیں محض انتظامی علاقوں کی ہوگی جنہیں انتظامی سہولتوں کے پیش نظر مرکز کی سیادت کے تابع انتظامی اختیارات سپرد کرنا جائز ہوگا۔مگر انہیںمرکز سے علیحدگی کا حق حاصل نہ ہوگا۔
22. دستور کی کوئی ایسی تعبیر معتبر نہ ہوگی جو کتاب وسنت کے خلاف ہو۔
اسماے گرامی حضرات شرکاے مجلس
1. (علامہ) سلیمان ندوی (صدر مجلس ہذا)
2. (مولانا) سیدابوالاعلیٰ مودودی (امیر جماعت اسلامی پاکستان)
3. (مولانا) شمس الحق افغانی (وزیر معارف، ریاست قلات)
4. (مولانا) محمد بدر عالم (اُستاذ الحدیث، دارالعلوم الاسلامیہ اشرف آباد، ٹنڈوالہ یار، سندھ)
5. (مولانا)احتشام الحق تھانوی (مہتمم دارالعلوم الاسلامیہ اشرف آباد، سندھ)
6. (مولانا) محمد عبدالحامد قادری بدایونی (صدر جمعیۃ العلمائے پاکستان، سندھ)
7. (مفتی) محمد شفیع (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام مجلس دستور ساز پاکستان)
8. (مولانا) محمد ادریس (شیخ الجامعہ، جامعہ عباسیہ، بہاولپور)
9. (مولانا) خیر محمد (مہتمم، مدرسہ المدارس، ملتان شہر)
10. (مولانامفتی) محمد حسن (مہتمم مدرسہ اشرفیہ، نیلاگنبد، لاہور)
11.(پیر صاحب) محمدامین الحسنات (مانکی شریف، سرحد)
12.(مولانا)محمد یوسف بنوری (شیخ التفسیر، دارالعلوم الاسلامیہ ، اشرف آباد ، سندھ)
13. (حاجی) خادم الاسلام محمد امین (خلیفہ حاجی ترنگ زئی، المجاہد آباد، پشاور صوبہ سرحد)
14. (قاضی) عبدالصمد سربازی (قاضی قلات، بلوچستان)
15. (مولانا) اطہر علی (صدر عامل جمعیۃ علماے اسلام ،مشرقی پاکستان)
16. (مولانا) ابوجعفر محمد صالح (امیرجمعیت حزب اللہ، مشرقی پاکستان)
17. (مولانا) راغب احسن (نائب صدر جمعیۃ العلماء اسلام، مشرقی پاکستان)
18. (مولانا)محمد حبیب الرحمن (نائب صدر جمعیۃ المدرسین، سرسینہ شریف،مشرقی پاکستان)
19. (مولانا) محمد علی جالندھری (مجلس احرارِ اسلام پاکستان)
20. (مولانا) داؤد غزنوی (صدر جمعیۃ اہلحدیث، مغربی پاکستان)
21. (مفتی) جعفر حسین مجتہد (رکن بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
22. (مفتی حافظ) کفایت حسین مجتہد (ادارہ عالیہ تحفظ ِحقوقِ شیعہ پاکستان لاہور)
23. (مولانا) محمد اسماعیل سلفی (ناظم جمعیت اہلحدیث پاکستان گوجرانوالہ)
24. (مولانا) حبیب اللہ (جامعہ دینیہ دارالہدیٰ، ٹیڑھی، خیرپور میر)
25. (مولانا) احمد علی (امیر انجمن خدام الدین، شیرانوالہ دروازہ، لاہور)
26. (مولانا) محمد صادق (مہتمم مدرسہ مظہر العلوم، کھڈہ، کراچی)
27. (پروفیسر) عبدالخالق (رکن بورڈ آف تعلیماتِ اسلام، مجلس دستور ساز پاکستان)
28. (مولانا) شمس الحق فریدپوری (صدر مہتمم مدرسہ اشرف العلوم، ڈھاکہ)
29. (مفتی) محمد صاحبداد عفی عنہ (سندھ مدرسۃ الاسلام، کراچی)
30. (مولانا) محمد ظفر احمدانصاری (سیکرٹری بورڈ آف تعلیمات اسلام، مجلس دستورساز پاکستان)
31.(پیرصاحب) محمد ہاشم مجددی (ٹنڈو سائیں داد، سندھ