قائد اعظم، اتاترک اور جنرل مشرف!

۱۲؍ اکتوبر کو غیر معمولی حالات میں عنانِ اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل مشرف کو پہلی مرتبہ جس بات پر مخالفانہ بیانات کا سامنا کرنا پڑا، وہ میاں نوازشریف کی حکومت کی معزولی کا معاملہ نہیں تھا، میاں صاحب کی حکومت کے خاتمہ پر سکوت تو خود جنرل پرویز مشرف کے لئے بھی ایک تعجب انگیز امر تھا۔ جنرل صاحب کو اپنے جس بیان پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، ان کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے جدید ترکی کے معمار کمال اتاترک کو اپنا ہیرو قرار دیا، جماعت ِاسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس بیان کے خلاف اپنا ردّ ِعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ''پاکستان میں کمال ازم کے نفاذ کے خلاف سخت مزاحمت کی جائے گی'' ۔دیگر مذہبی راہنمائوں اور سیاستدانوں نے بھی اسکے متعلق اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا۔

جنرل صاحب کے بعد کے وضاحتی بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مقصود وہ نہ تھا جو بالعموم سمجھا گیا۔ ۱۴ ؍نومبر کو اخبارات میںشائع ہونے والے بیان میں انہوں نے اپنے پہلے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا

''کمال اتاترک یقینا ترکوں کے ہیرو ہیں جو جدید ترکی کے معمار ہیں اور جنہوں نے بیمار یورپ میں سے ترکی کو ایک ترقی یافتہ ملک بنا کر نکالا، تاہم ہمارے راہنما او ربابائے قوم، قائداعظمؒ ہیں جن کے اصولوں پر کاربند رہنے کے ہم پابند ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے کہا کہ میں اتاترک کا بے حد احترام کرتا ہوں لیکن ہمارے ملک کا اصول ترکی سے مختلف بھی ہوسکتا ہے۔بہرحال ہم قائد اعظم ؒ کے بتائے ہوئے اصولوں کے پابند ہیں۔ انہوں نے یہ بات ترکی کے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سوال کے جواب میں کہی کہ آپ نے اپنی پہلی تقریر میں کمال اتاترک کا خاص طور پر تذکرہ کیسے کیا؟'' (نوائے وقت، ۱۴؍ نومبر)

ایک اور اخباری بیان میں جنرل پرویز مشرف نے بے حد صاف لفظوں میں کہا کہ

''میں پکا مسلمان ہوں او رپاکستان ایک اسلامی مملکت ہے''

قطر کے سرکاری دورے کے دوران صحافیوں کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اپنے بیان کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کمال اتاترک کو ہیرو کہنے کی بات ترکی کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی، اس سے ظاہر ہے مہمانوں کی عزت افزائی اور ان سے مروّت کا اظہار مقصود تھا۔

پاکستان میں بعض دینی راہنمائوں کی تنقید کے برعکس مغربی ذرائع ابلاغ، بعض ہندوستانی اخبارات اور پاکستان کے 'لبرل' دانشوروں اور این جی اوز مافیا نے جنرل مشرف صاحب کے مذکورہ بالا بیان پر اپنی مسرت اور پسندیدگی کا اظہار کیا۔ چونکہ مصطفی کمال اتاترک کی حیثیت ایک عسکری ہیرو کے ساتھ ساتھ ایک سیکولر راہنما کی بھی ہے، جس نے ترکی میں اسلامی ثقافت کے مقابلے میں مغربی تہذیب کو رائج کیا، اسی لئے مذہب بیزار 'لبرل' طبقہ کی طرف سے جنرل مشرف کے بیان پر بغلیں بجانا ایک فطری امر تھا، یہ طبقہ ایک اسلامی مملکت میں سیکولر نظریات کے کسی بھی موہوم امکان پر بھی مریضانہ مسرت اندوزی کا اظہار کرتا ہے۔ جنرل مشرف کی طرف سے اپنے آپ کو 'پکا مسلمان' اور پاکستان کو 'اسلامی مملکت' اور قائداعظم کو اپنا راہنما قرار دینے پر پاکستان میں سیکولر ازم کے عملی نفاذ کا خواب دیکھنے والے طبقہ کو جس مایوسی کا اندازہ کرنا پڑا ہوگا، ا س کا اندازہ لگانا مشکل امر نہیںہے۔

بھارت کا متعصّب ہندو پریس جو پاکستان کو اس کی نظریاتی اساس سے محروم دیکھنا چاہتا ہے، ا س کی توقعات پر بھی، معلوم ہوتا ہے، پانی پھر گیا ہے۔ ہندوستان کا ایک معروف انگریزی اخبار ''دی ٹائمز آف انڈیا'' اپنے اداریے میں لکھتا ہے۔

''یہ توقع کہ جنرل پرویز مشرف اپنے آپ کوترکی کے کمال اتاترک کے نمونہ کے مطابق ڈھالیں گے، بالآخر زمین بوس ہوگئی ہے'' ...جنرل مشرف راہنمائی کے لئے ترکی کے عظیم ریفارمر، جنہوں نے خلافت کا خاتمہ کردیاتھا، کی طرف دیکھنے کی بجائے جنرل ضیاء الحق کی طرف دیکھ رہے ہیں''۔ (روزنامہ نوائے وقت، لاہور:۷ ؍نومبر۹۹ئ)

بعض مذہبی جماعتوں نے جنرل صاحب کی مذکورہ بالا وضاحت پر اطمینان کااظہا رکیا ہے۔ جماعت اسلامی سے الگ ہو کر تحریک ِاسلامی کے نام سے کام کرنے والی جماعت کے ترجمان پندرہ روزہ 'منشور' نے اپنے اداریے میں یوں اظہار ِخیال کیا ہے:

''ہمارے چیف ایگزیکٹو خاصا عرصہ ترکی میں قیام پذیر رہے ہیں، اس لئے انہوں نے اتاترک کا تذکرہ اپنی گفتگو میں کردیا، ورنہ وہ تحریک ِپاکستان اور قائداعظمؒ کے نظریات اور پھر پاکستان کی ملت ِاسلامیہ کے جذبات سے بے خبر نہیں ہیں، جنرل پرویز نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ وہ پاکستان میں قائداعظم کے نظریات ہی کے قیام پرمشتمل قانون اور نظام زندگی قائم رکھنا اور پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان ہی دیکھنا چاہتے ہیں، مصطفی کمال کا ترکی نہیں بنانا چاہتے'' (منشور:۱۶ تا ۳۰ ؍نومبر ۱۹۹۹ئ)

اسلامی دنیا اور بالخصوص پاکستان میں مصطفی کمال پاشا کا عمومی تعارف یہ ہے کہ انہوں نے جنگ عظیم اوّل کے بعد یورپی اور یونانی افواج کو شکست دے کر مقبوضہ علاقوں کو واگزار کرایا اور موجودہ ترکی ریاست کا قیام عمل میں لائے۔ جہاں تک ان کی عسکری خدمات اور دلیرانہ قیادت کا تعلق ہے، ا س کے وہ لوگ بھی معترف ہیں جو ان کے سیکولر اقدامات کو پسند نہیں کرتے۔ تحریک ِاسلامی کے مذکورہ بالا مجلہ کے اداریہ جس میں اتاترک پر خلافت اور اسلامی تہذیب و تمدن کو ختم کرنے پر سخت تنقید کی گئی ہے، کے یہ الفاظ غور طلب ہیں:

''کمال اتاترک مرحوم کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ انہوں نے مغربی قوتوں کی یلغار کے مقابلے میں بے مثال جرأت و شجاعت کامظاہرہ کرکے ترکی کو، جسے مردِ بیمار کہا جاتا تھا اور جس کی حکومت جانکنی کے عالم میں تھی، آزادی سے ہم کنار رکھا۔ مصطفی کمال کی انہی خدمات کے عوض انہیں 'اتاترک' کا خطاب دیا گیا۔ ''

سید ابوالحسن علی ندوی کے بقول

''۱۹۱۸ء میں جرمنی اور ترکی کی شکست کے ساتھ یہ جنگ ختم ہوئی، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے استنبول پر قبضہ کرلیا، اناطولیہ میں بڑی بدامنی پھیل گئی، اس وقت امن قائم کرنے کے لئے مصطفی کمال کا انتخاب ہوا، انہوں نے یونانیوں کے خلاف جنہوں نے از میر پر قبضہ کرلیا تھا، اعلانِ جنگ کردیا اور ۱۹۱۹ء میں شکاریہ کے معرکہ میں ان کو شکست ِفاش دی اور غازی کا لقب حاصل کیا۔ اس نے ترکی کو بہت نازک وقت میں ایک ایسے خطرہ سے بچایا جو اس کے لئے موت و زیست کا سوال بن گیاتھا اور ایک مضبوط حکومت قائم کی اور مغربی حکومتوں اور اس کے سیاسی لیڈروں کو اپنی عزیمت او رعظمت کے سامنے سرنگوں کردیا''

اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ ِعظیم اوّل میں سلطنت ِعثمانیہ کو عبرت ناک شکست کے بعد مصطفی کمال پاشا کی عسکری فتوحات اسے اس وقت کے عالم اسلام کا ہیرو بنا دینے کے لئے کافی تھیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی زبان پربھی مصطفی کمال کی تحسین میںیہ جملہ ''وے غازی کمال تینوں دین بلایاں'' عام طور پر رہتا تھا۔ مگر مصطفی کمال پاشا کا یہ محض ایک پہلو تھا۔ خلافت کے خاتمے کے بعد اسلامی شریعت اور تہذیب و تمدن کے ساتھ جو وسیع پیمانے پر اس نے غارت گری کی اور لادینیت(سیکولر ازم) کے نفاذ کے لئے جارحانہ اقدامات اور سفاکانہ حکمت ِعملی اختیار کی، ایک عام مسلمان اس کے ادنیٰ سے تصور سے بھی کانپ اٹھتا ہے۔ مصطفی کمال پاشا کے یہی اقدامات ہیں جنہیں 'کمال ازم' یا 'اتاترک ازم' کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

مصطفی کمال پاشا کے فکری سرچشموں، خیالات و افکار او رحکومتی اِقدامات کو پیش نظر رکھاجائے تو پاکستان میں 'کمال ازم' کے خلاف مزعومہ مزاحمت اور ردّعمل کا مظاہرہ کرنے والوں کی بات کو محض رجعت پسندی اور دقیانوسی کہہ کر مسترد کرنا مناسب نہ ہوگا۔ اسلامی نظریہ کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آنے والی مملکت ِخداداد پاکستان میں اسلام کے علاوہ کسی دوسرے 'ازم' کی گنجائش نہیں ہے۔ اتاترک ازم فی نفسہٖ سیکولر ازم کی بدترین صورت ہے۔ لہٰذا نظریہ پاکستان اور فکر ِقائد پر یقین کرنے والا کوئی فرد اگر اس سوچ کے خلاف ذہنی تحفظات رکھتا ہے، تو اس کے خدشات بے بنیاد نہیں ہیں۔ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مصطفی کمال پاشا کی سوچ، کردار اور مزاج کو سمجھنے کے لئے اس کے معروف ترک سوانح نگار عرفان اورگا کی کتاب 'اتاترک' سے چند اقتباسات پیش کئے جائیں:

''جوانی میں اس نے اپنے انقلابی افکار کے ساتھ ضیاگوک الپ کی تعلیمات کو بھی اچھی طرح جذب کر لیاتھا۔ وہ مغربی روشن خیالی کا بہت بڑا نقیب تھا۔ اس نے ۱۹۰۰ء ہی میں اس خیال کا اظہار کردیا تھا کہ سلطنت ِعثمانیہ کے لئے زوال و انتشار مقدر ہوچکا ہے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ دینی حکومت شخصی حکومت کی وفادار حلیف ہوتی ہے۔ وہ علماء کے اختیارات کو محدود کرنے کے حق میں تھا۔اس نے شریعت کے خاتمہ اور ان قاضیوں کی دینی عدالتوں کی منسوخی کی پرزور وکالت کی تھی جو اسلامی قانون کے شارح و ترجمان ہیں۔ جنس اس کے لئے مقناطیس کی کشش رکھتی تھی۔ وہ شراب نوشی سے تسکین حاصل کرتا تھا، اس لئے کہ روحانی تسکین کے لئے اس کے اندر نہ خدا کا اعتقاد تھا، نہ زندگی کے بعد موت کا یقین'' (صفحہ ۲۴۶)

مصطفی کمال پاشا کو مغربی تہذیب سے شیفتگی لیکن مذہب اور مذہبی تعلیمات سے شدید نفرت تھی۔ مذہب اور بالخصوص اسلام کے متعلق مصطفی کمال کے نقطہ ٔ نظر اور خیالات کا ذکر کرتے ہوئے عرفان اورگا لکھتا ہے:

''اس نے اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اس کی اصل جنگ مذہب کے خلاف ہے، بچپن سے اس کے نزدیک خدا کی کوئی ضرورت نہیں تھی، وہ صرف اس چیز پر یقین رکھتا تھا جو دیکھنے میں آسکتی تھی، کبھی کبھی وہ آسمان کی طرف مکا اُٹھا کر اشارہ کرتا تھا، اس کا خیال تھا کہ زمانہ ٔ ماضی میں اسلام محض ایک تخریبی طاقت رہا ، اور اس نے ترکی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ اس نے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا تھا کہ اسلام کی ہی کی عطا کی ہوئی وحدت نے وسیع عثمانی سلطنت کی تعمیر کی تھی۔ اس کو اس آدمی سے سخت نفرت تھی جو تقدیر کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔اس کا عقیدہ تھا کہ خدا کا کہیں وجود نہیں اور انسان ہی اپنی تقدیر بناتا ہے۔ اس کا مصمم ارادہ تھا کہ مذہب کو ممنوع قرار دے خواہ اس کے لئے طاقت استعمال کرنی پڑے، خواہ دھوکہ اور فریب سے کام لینا پڑے'' (صفحات ۲۳۷۔۲۳۸)

اتاترک کا یہی سوانح نگار ایک اور جگہ لکھتا ہے:

''اس کے نزدیک نفسیاتی اصول و نظریات اور فلسفیانہ اصطلاحات کے کوئی معنی نہیں تھے، اسی لئے قدرتی طور پر ترکی قوم کے لئے مذہب کو غیر ضروری اور بے کار قرار دینے میں اس کو کوئی تامل نہیں تھا۔ لیکن مذہب کی جگہ پر اس نے اگر ترکی قوم کو کوئی چیز دی تو وہ ''نیا دیوتا'' تھا یعنی مغربی تہذیب۔ اسلام اور راسخ العقیدہ مذہبیت سے اس کو شدید نفرت تھی۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں تھی کہ مصطفی کمال ایک غیر مذہبی آدمی تھا۔ ایک دفعہ اس بات سے سنسنی پھیل گئی کہ مصطفی کمال نے شیخ الاسلام کے سر پر، جو اسلام کے بڑے عالم اور ایک قابل احترام بزرگ تھے، قرآنِ مجید پھینک کر مارا'' (صفحہ ۲۳۹)

[اقتباسات ماخوذ : ''اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش''از سید ابوالحسن علی ندوی ]

مندرجہ بالا سطو رمیں کمال اتاترک کے ملحدانہ خیالات اور شخصی کردار کے بعض پہلوئوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ۱۹۲۴ء میں خلافت اور عثمانی سلطنت کے خاتمہ کے بعد اس نے جو اصلاحات متعارف کرائیں اور جو انقلابی اقدامات اٹھائے، اس کا مختصر تذکرہ حسب ِذیل ہے۔

کمال اتاترک کا انگریز سوانح نگار آرم سٹرانگ (Arm Strong) اس کے انقلابی اقدامات کاتذکرہ ان الفاظ میں کرتا ہے:

''اتاترک نے عظیم پیمانے پر شکست و ریخت کی۔اس نے زبردست اور عمومی کارروائی کی تکمیل کرنی شروع کی جس کا آغاز وہ کرچکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا تھا کہ ترکی کو اپنے بوسیدہ اور متعفن ماضی سے علیحدہ کرنا ہے۔ اس نے اس قدیم سیاسی ڈھانچے کو واقعی توڑ پھینکا، سلطنت کو جمہوریت سے آشنا کیا، اور اس ترکی کو جو ایک ایمپائر تھی ایک معمولی ملک میں تبدیل کردیا اور ایک عظیم مذہبی ریاست کو حقیر درجہ کی جمہوریہ بنا دیا۔ اس نے سلطان کو معزول کرکے قدیم عثمانی سلطنت سے سارے تعلقات ختم کر لئے تھے۔ اب اس نے قوم کی عقلیت، اس کے قدیم تصورات، اَخلاق و عادات، لباس، طرز ِگفتگو، آداب، معاشرت، اور گھریلو زندگی کی جزئیات تک تبدیل کرنے کی مہم شروع کی(Grey wolf: p287)

کمال اتاترک نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ ''میں نے دشمن پر فتح پائی اور ملک کو فتح کیا، لیکن کیا میں قوم پر بھی فتح پاسکوں گا؟'' اتاترک کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:

''کمال اتاترک نے واقعتا قوم پر فتح پائی، ملک کو سیکولر سٹیٹ میں تبدیل کردیا، جس میں اسلام کو سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل نہیں رہی، دین و سیاست میں تفریق ہوگئی اور یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے، ہر شخص اپنے لئے کسی مذہب کا انتخاب کرسکتا ہے، خلافت کے ادارہ کو ختم کردیا گیا، شرعی اداروں اور محکموں اور اسلامی قانونِ شریعت کو ملک سے بے دخل کرکے سوئٹرز لینڈ کا قانونِ دیوانی، اٹلی کا قانونِ فوجداری اور جرمنی کا قانونِ بین ُالاقوامی تجارت نافذ کردیا گیا۔ پرسنل لاء کو یورپ کے قانونِ دیوانی کے مطابق و ماتحت کردیا گیا، دینی تعلیم ممنوع قرار پائی، پردہ کو خلاف ِقانون قرار دے دیا، مخلوط تعلیم کا نفاذ کیا گیا، عربی حروف کی جگہ لاطینی حروف جاری ہوئے، عربی میں اذان ممنوع قرار پائی، قوم کا لباس تبدیل ہوگیا۔ ہیٹ کا استعمال لازمی قرار پایا، غرض کہ کمال اتاترک نے ترکی قوم اور حکومت کی دینی اساس کو توڑ پھوڑ کے ختم کردیا اور قوم کا نقطہ ٔ نظر ہی بدل دیا'' (اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش: صفحہ ۸۲)

'کمالی انقلاب' نے ترکی معاشرہ میںجو دور رس نتائج مرتب کئے، اتاترک کا انگریز سوانح نگار آرم سٹرانگ اس کی نشاندہی ان الفاظ میں کرتا ہے: (صفحہ ۲۴۲)

''پارلیمنٹ نے جو فیصلے کئے، حقیقت میں وہ اسلام کے حق میں کاری ضرب اور پیامِ موت کی حیثیت رکھتے تھے۔ تعلیم کی وحدت کا قانون نظامِ تعلیم میں دور رَس تبدیلیوں کا باعث بنا۔ اس تبدیلی نے مدرسوں کی سرگرمیوں اور ان علماء و اساتذہ کی آزادی کو ختم کردیا جو ان میں تعلیم دیتے تھے''

ترکی میں سیکولرازم کے نفاذ کاذکر کرتے ہوئے عالم عرب کے معروف اسلامی سکالر ڈاکٹر یوسف قرضاوی اپنی حالیہ تصنیف ''اسلام اور سیکولرازم'' میں فرماتے ہیں:

''اسلامی ممالک میں سیکولرازم کی حکمرانی کی واضح اور نمایاں ترین مثال ترکی کی ہے، جہاں خلافت ِاسلامیہ کو ختم کرکے اور خون کا دریا عبور کرکے پورے زور اور قوت کے ساتھ لادینیت کومسلط کیا گیا۔ اتاترک نے جبر و تسلط کے ساتھ سیاست، اقتصاد، اجتماع، تعلیم اور ثقافت، غرض زندگی کے ہر پہلو میں مغربی طرزِ حیات جاری وساری کردیا اور ترک قوم سے اس کی ثقافت ، اس کی اَقدار اور اس کی روایات اس طرح سلب کرلیں جس طرح ذبح شدہ بکری کی کھال کھینچی جاتی ہے۔ اتاترک نے دین کو دنیا سے بالکل علیحدہ کرکے ایک لادینی دستور نافذ کردیا اور اس اساس پر خاندانی اور شخصی معاملات سمیت تمام پہلوئوں میں خلاف ِاسلام قوانین نافذ کردیئے۔ اسلام جو پہلے دین و سیاست دونوں پر مشتمل تھا، اب بیک جنبش قلم صرف ذاتی مسئلہ بن گیا۔ کسی اسلامی ملک میں مکمل طور پر سیاست کی اسلام سے علیحدگی اور مغربی طرز کی لادینی ریاست کے قیام کا یہ عمل بالکل منفرد تجربہ تھا۔ اسلام کوسیاست و اقتدار سے علیحدہ کر دینے کے نتیجہ میں اسلام عوامی حلقوں بالخصوص کسانوں میںمحدود ہو کر رہ گیا، اسلام کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے اس کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا'' (صفحہ ۶۴)

اسلامی ریاست میں دین و سیاست کی وحدت کا قیام بے حد ضروری ہے۔ اسلام میں کلیسا اور ریاست کی علیحدگی کا تصور نہیں پایا جاتا۔ اگر دین کو حکومت سے جدا کردیا جائے تو دین کی اصل قوت اور فوقیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ جب کمال اتاترک نے لادینی نظام نافذ کردیا تو ترکی میں بھی یہی صورتحال سامنے آئی۔مراکشی مصنف پروفیسر ادریس کتانی اپنی تصنیف ''مسلم مغرب بالمقابل لادینیت'' میں اس تبدیلی پرروشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:

''ترکی کے گذشتہ ساٹھ سال کے تجربہ نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اسلامی مملکت میں لادینی نظام کے قیام کامطلب اسلام کو زندہ عقیدہ اور انسانیت کے لئے دائمی پیغام کے طور پر ختم کردینا ہے کیونکہ حکومت کو دینی اقدار اور دینی رنگ سے جدا کردینے کا مطلب دین اسلام کو قطعا ً ختم کردینا ہے۔ ترکی میں بالکل یہی ہوا ہے کہ جب کمال اتاترک کے حامیوں نے حکومت کو دین سے جدا کرلیاتو انہیںدرحقیقت دینی اقدار سے کوئی دلچسپی نہ رہی۔ اس لئے انہوں نے مساجد کی دیکھ بھال اور دیگر دینی معاملات کے لئے ایک چھوٹا سا ادارہ بنا دیا تھا اور یہی ترکی میں اسلام کی باقی ماندہ نشانی ہے'' (صفحہ ۵۷)

مصطفی کمال اتاترک''تہذیب ِمغرب کا پرجوش پجاری اور اس کا ایک وفادار حواری'' تھا۔ ترکی میں اس تہذیب کو مسلط کرنے کے لئے ا س نے جو اقدامات کئے ان میں ہمہ گیر اور مہلک ترین اس کا وہ فیصلہ تھا جس کی رو سے اس نے عربی رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط کو متعارف کرایا، جس کے نتیجے میں ترکی نسل اپنے اَسلاف کے عظیم ثقافتی اور علمی وِرثے سے کٹ کر رہ گئی۔ اسلامی علوم کے عظیم ذخائر اور کتب خانے محض الماریوں میں بند ہو کر رہ گئے۔ بقول سید ابوالحسن علی ندوی

''تنہا عربی رسم الخط کی بجائے لاطینی رسم الخط کے اجراء نے ترکی قوم کی زندگی میں انقلابِ عظیم برپا کردیا اور ایک نئی نسل کو جنم دیا جس کا رشتہ اپنی قدیم تہذیب و ثقافت سے کٹ چکا ہے''

قائد اعظم اور کمال اتاترک میں قدرِ مشترک ؟

قائد اعظم محمد علی جناح اور مصطفی کمال پاشا کی شخصیات اور ان کے اَفکار کا موازنہ کیا جائے، ان میں سوائے اس کے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر ''بابائے قوم'' ہیں، کوئی اور قدرِ مشترک نہیں ہے۔ مصطفی کمال پاشا ایک فوجی جرنیل تھے جنہوں نے عسکری فتوحات کے ذریعہ سے جدید ترکی کی بنیاد رکھی۔ قائداعظمؒ بنیادی طور پر ایک مدبر قانون دان اور (Statesman) تھے جنہوں نے انگریز سامراج اور ہندو بنئے کے خلاف آئینی جنگ جیت کر دنیا کے نقشہ پر عظیم ترین اسلامی ریاست کو قائم کیا۔ دونوں راہنمائوں کا تصورِ ریاست یکسر جدا تھا۔کمال اتاترک نے تہذیب ِمغرب اور سیکولرازم کی اساس پر جس ترکی کی تعمیر نو کی تھی اس میں اسلام یا مذہبی تصورات کی قطعاً گنجائش نہیں تھی۔ لیکن قائداعظمؒ کے نزدیک قیامِ پاکستان کا مقصد ِوحید ہی یہ تھا کہ ایک ایسا جغرافیائی خطہ حاصل کیا جائے جہاں اسلام کے عدل و انصاف اور مساوات کے شاندار اصولوں کو نافذ کیا جاسکے۔ مصطفی کمال پاشا اپنی فکر کے اعتبار سے 'الحادی مادیت' کے پیروکار اور مبلغ تھے، قائد اعظمؒ ایک خدا پرست مسلمان تھے جنہیں قرآن و سنت کی صداقت اور اَبدیت پر کامل یقین تھا۔

مصطفی کمال پاشا کی الہامی تعلیمات سے شدید نفرت کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ اس نے غصہ میں آکر قرآنِ مجید کو شیخ الاسلام کے سر پر دے مارا تھا۔ ایک عظیم ترین مقدس الہامی کتاب کے ساتھ اس توہین آمیز برتائو کی توقع کسی غیر مسلم سے بھی کم ہی کی جاسکتی ہے۔ لیکن قائداعظمؒ کو اس مقدس اور عظیم کتاب سے جو عقیدت و محبت تھی اس کا اندازہ آپ کے اس خطاب سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے کراچی میں ۱۹۴۳ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں کیا۔ آپ نے فرمایا تھا:

''وہ کون سی چٹان ہے، جس پر ملت کی عمارت قائم ہے اور وہ کون سا لنگر ہے جو سفینہ ٔ ملی کو تھامے ہوئے ہے؟ مسلم انڈیا کے سفینہ ٔ ملی کا مستحکم لنگر عظیم المرتبت قرآنِ مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جائیں گے، ویسے ویسے ہماری یہ وحدت بھی بڑھتی جائے گی۔ ایک خدا، ایک کتاب، ایک رسولؐ، ایک قبلہ اور ایک قوم''

۱۹۴۵ء میں عید کے پیغام میں قائد اعظم نے فرمایا:

''بجز ان لوگوں کے جو بے خبر ہیں، ہر شخص آگاہ ہے کہ قرآنِ مجید مسلمانوں کا ہمہ گیر و بالاتر اور مکمل ضابطہ حیات ہے، مذہبی بھی، معاشی و معاشرتی بھی، دیوانی بھی، فوجداری بھی، تجارتی بھی، عدالتی بھی اور تعزیری بھی۔ یہ ضابطہ زندگی کی ایک ایک چیز کو باقاعدگی اور ترتیب عطاکرتا ہے''

مصطفی کمال پاشا، اسلام کو اپنے تصور پر مبنی ریاست کے لئے ایک خطرہ سمجھتے تھے ۔ وہ اسلام کی آفاقیت کے منکر تھے۔ وہ اسلام کو محض عربوں کا مذہب کہہ کر اس کی تحقیر کرتے تھے۔ ریاست کو سیکولر بنانے کا بل پیش کرتے ہوئے ۳ ؍مارچ ۱۹۲۴ء کو مصطفی کمال نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ

''عثمانی سلطنت اسلام کے اصول پر قائم ہوئی تھی، اسلام اپنی ساخت او راپنے تصورات کے لحاظ سے عرب ہے، وہ پیدائش سے لے کر موت تک اپنے پیروئوں کی زندگی کی تشکیل کرتا ہے اور ان کو اپنے مخصوص سانچے میں ڈھالتا ہے، وہ ان کی اُمنگوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے او ران کی جرات و اِقدام پسندی میں روڑے اٹکاتا ہے، ریاست کو اسلام کے مسلسل باقی رہنے سے خطرہ لاحق رہے گا'' ( کتاب عرفان اورگا؍ ترجمہ سید ابوالحسن علی ندوی)

مگر قائد اعظمؒ اسلام کو مسلمانوں کے لئے سرمایہ ٔ افتخار اور ذریعہ ٔ نجات سمجھتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد سبی دربار کے موقع پر ۱۲ ؍فروری ۱۹۴۸ء کو قائد نے اسلام سے اپنی وابستگی اور اپنے عہد کو ایک دفعہ پھر دہرایا۔ آپ نے فرمایا:

''میرا ایمان ہے کہ ہم سب کی نجات ان سنہری قواعد اور زرّیں احکام کی پیروی میں مضمر ہے جو ہمارے رہن سہن اور معاملاتِ زندگی کو درست رکھنے کے لئے پیغمبر اسلامﷺ نے عطا کئے ہیں۔ آئیے ہم اپنی جمہوریت کی بنیادی سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر استوار کریں۔ خدائے قادر و مطلق نے ہمیں سکھایا ہے کہ مملکت کے تمام امور میں ہمارے فیصلے بحث و تمحیص اور مشاورت کی راہنمائی میں ہوں''

مصطفی کمال پاشا ترک قوم کو مکمل طور پر یورپی تہذیب کے سانچے میں ڈھال دینا چاہتا تھا۔ وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے ایک ایک نقش کو مٹا دینے پر مصر تھا۔ اس نے ترکی ٹوپی اور سر کے ہر لباس کو خلاف ِقانون قرار دیا اور انگریزی ہیٹ کا استعمال لازمی کردیا۔

اس نے اس معاملے میں اس قدر شدت اور سختی کا برتائو کیا کہ اس کے سوانح نگار عرفان اورگا نے اسے 'ہیٹ کی جنگ' سے تعبیر کیا۔ عرفان اورگا کے مطابق عوام نے سخت ردّ ِعمل کا اظہار کیا۔ فسادات اور بلوے ہوئے ۔مصطفی کمال نے منصوبے کی تکمیل کا فیصلہ کیا، کہیں رحم و رعایت سے کام نہیں لیا گیا۔ مذہبی حلقہ کے افراد جنہوں نے لوگوں میں جوش پیداکیا تھا، پھانسی پر چڑھا دیئے گئے۔ لوگ گرفتار کئے جاتے اور محض اس الزام پر کہ انہوں نے ہیٹ کا مذاق اڑایا ہے، پھانسی پر چڑھا دیئے جاتے ۔ ہیٹ کی جنگ بالآخر جیت لی گئی اور عوام نے شکست تسلیم کر لی۔اس زمانے میں وہ کہاکرتا تھا:

''میں ہی ترکی ہوں، مجھے شکست دینا ترکوں کو شکست دینا ہے''

ذرا مصطفی کمال پاشا کے اس جنونی طرزِ عمل کا موازنہ قائد اعظمؒ کے طرزِ عمل سے کیجئے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے وہ عام طور پر انگریزی لباس پہنتے تھے، مگر قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے مستقل طور پر قومی لباس پہننے کی روِش اختیار کی۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے انہیں کبھی انگریزی لباس میں نہ دیکھا گیا۔ قائد اعظمؒ کو مسلمانوں کے ایک الگ تشخص پر فخر تھا۔ ۱۹۴۰ء کے مشہور خطبہ میں انہوں نے مسلمانوں کی الگ اور منفرد تہذیب و ثقافت، شاندار تاریخ اور سماجی قدروں کو مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے فلسفیانہ جواز کے طور پر پیش کیا۔

مصطفی کمال پاشا نے دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات دینے والے مراکز پر پابندی لگادی۔ علمائے دین کو معمولی سی مخالفت پر پھانسی پر چڑھایا۔ مذہبی طبقے کی سخت توہین و تذلیل کی۔ قائداعظمؒ روشن خیال اور جدید تعلیم یافتہ انسان تھے مگر انہوں نے کبھی تحریر و تقریر میں دینی طبقہ سے اپنی بیزاری یا نفرت کا اظہار نہ کیا۔ ان کے بعض علماء سے دوستانہ تعلقات بھی تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد انصاری اور تحریک ِپاکستان کے حامی علماء سے آپ کے قریبی مراسم تھے۔ وہ ان سے مذہبی معاملات میںہمیشہ راہنمائی طلب کرتے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں علامہ شبیر احمد عثمانی کو اہم ذمہ داری سونپی۔ جس طرح آج کل نام نہاد 'لبرل' طبقہ علمائِ کرام کی تحقیر کا شغل اختیار کئے ہوئے ہے، اس طرح کی بات قائد ِاعظمؒ کے طرزِ عمل سے متصادم ہے۔

آخر میں ہم جنرل پرویز مشرف صاحب سے گزارش کریں گے کہ جب انہوں نے قائد اعظمؒ کے بتائے ہوئے اصولوں کا پابند رہنے کا برملا اظہار کیا ہے، تو بے حد مناسب ہوگا کہ وہ علماء اور دینی طبقہ کو بھی کابینہ اور حکومتی معاملات میںمناسب نمائندگی دیں، دینی طبقہ کی عدم نمائندگی کو ایک شر انگیز گروہ حکومت کے خلاف شکوک و شبہات کو ہوا دینے کے لئے استعمال کرسکتا ہے۔ لہٰذا مناسب یہی ہے کہ ایسی شرانگیزی کا جتنا جلد ہوسکے، دروازہ بند کردیا جائے۔

مصطفیٰ کمال پاشا کے بچپن کے حالات، طالب علمی کازمانہ اور نوجوان فوجی افسر کی حیثیت سے ان کی سرگرمیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کی شخصیت کا جو مجموعی تاثر ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایک ذہن اور سیماب صفت شخص تھے مگر بغاوت اور سرکشی ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کی شخصیت میںاشتعال پذیری کا عنصر غالب تھا۔ بہت کم عمری میں وہ سلطان کے خلاف کام کرنے والے گروہوں کی خفیہ سرگرمیوں میں بے دھڑک شریک ہونے لگے۔ ۱۹۰۰ء اور ۱۹۲۴ء کے ہنگامہ پرور عرصے کے دوران مصطفیٰ کمال کی سرگرمیوں کو سامنے رکھا جائے تو ان کی طرف سے خلافت کے خاتمے کا اقدام ان کی باغیانہ سرگرمیوں کامنطقی نتیجہ نظر آتا ہے۔

۱۸۸۱ء میں مصطفیٰ کمال کی ولادت جس مقام پرہوئی، اس کے محل وقوع نے اس کی باغیانہ فکر کی تشکیل اور ذہن سازی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ بحیرۂ ایجٹینکے ساحل پر واقع یہ مقام سالونیکا بعد میں خلافت ِعثمانیہ کے خلاف باغیانہ تحریکوں کا گڑھ بن گیا تھا۔ اس شہر میں ترکی النسل لوگوں کی اقلیت تھی۔ یہ علاقہ بنیادی طور پر صوبہ مقدونیہ کا حصہ تھا جسے ترکوں نے اپنے عروج کے زمانے میں خلافت ِعثمانیہ میں شامل کرلیا تھا۔ اٹلی سے نقل مکانی کرکے آنے والے یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد اس شہر میں رہتی تھی جنہیں سلطان عبدالحمید نے خاصی مراعات دے رکھی تھیں مگر انہوں نے ہمیشہ احسان فراموشی کا مظاہرہ کیا۔ سلطان کے خلاف باغیانہ تحریکوں کے اصل منصوبہ ساز یہی یہودی تھے۔

مصطفیٰ کمال کے والد علی رضا آفندی ترکی فوج میں بحیثیت ِلیفٹیننٹ ملازم رہ چکے تھے۔ ملازمت چھوڑنے کے بعد وہ چوب فروشی کا کاروبار کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے ان کا بیٹا مصطفیٰ سوداگر بنے جبکہ والدہ زبیدہ چاہتی تھیں کہ ان کا بیٹا مولوی بنے اور نماز کے بعد قریبی مکتب میں پڑھنے جایا کرے۔ اس معاملے میں میاں بیوی میں سخت اختلاف ہوا، بالآخر حکمت ِعملی سے والدہ ہی کی بات پر عمل کیا گیا۔ شروع میں مصطفیٰ کو ایک مسجد سکول داخل کرایا گیا۔ عربی قائدہ اور قرآن پاک کی آیتیں یاد کرنا ان کے مزاج پر بھاری تھا لہٰذاکچھ عرصہ بعد وہ شمس آفندی کے سکول میں داخل ہوگئے۔ایک روز سبق پڑھتے وقت ایک لڑکے سے مصطفیٰ کا سخت جھگڑا ہوگیا، استاد نے غصہ میں آکر انہیں اتنا مارا کہ تمام جسم لہولہان کردیا۔ اس واقعہ کے بعد مصطفیٰ کو سکول سے اٹھا لیا گیا۔ نوجوان مصطفیٰ سڑکوں پر فوجی افسروں کو آتے جاتے دیکھتے تو ان کے دل میں بھی ویسی ہی وردی پہننے کی آرزو چٹکیاں لینے لگتی۔ ایک دن وہ والدہ کو اطلاع دیئے بغیر ایک فوجی مدرسے کے داخلے کے امتحان میں شریک ہوگئے۔ ان کی والدہ کو اس وقت خبر لگی جب ان کا بیٹا فوجی مدرسے میں داخل ہوچکا تھا۔ ۱۸۹۵ء میں سترہ سال کی عمر میں سالونیکا کے کیڈٹ سکول کی تعلیم سے فارغ ہو کر مصطفیٰ کمال فوجی ہائی سکول، مناسترہ میں داخل ہوگئے۔ مناسترہ کے فوجی ہائی سکول میں مصطفیٰ کمال نے فن سپاہ گری کے ساتھ شعرو ادب، انشاء پردازی، مرصع نگاری اور بلاغت و خطابت میں بھی خوب مشق حاصلکی۔ خطابت کا یہ رنگ ان کی بعد کی سیاسی زندگی میں ان کے لئے بہت مفید ثابت ہوا۔ وہ فرانسیسی زبان میں کمزور تھے۔ انہوں نے تعطیلات کے دوران ایک پرائیویٹ سکول میں فرانسیسی زبان کی کلاس میں داخلہ لے لیا جو فرانسیسی مشن کے زیر اہتمام تھا۔ ملٹری اکیڈیمی کی تعلیم سے فارغ ہوکر مصطفیٰ کمال ۱۹۰۲ء میں قسطنطنیہ میں واقع جنرل سٹاف کالج حاربیا میں سب لیفٹیننٹ کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ جنوری ۱۹۰۵ء کو وہ ملٹری اکیڈیمی کے گریجویٹ کی حیثیت سے کپتان کا عہدہ لے کر نکلے۔ جنرل سٹاف کالج میں تین سال کے مجموعی نمبروں کی بنا پر مصطفیٰ کمال کا نمبر پانچواں تھا۔ ('کمال اتاترک 'ازآغا اشرف)

جس زمانے میں مصطفیٰ کمال مناسترہ کے فوجی ہائی سکول میں زیر تربیت تھے، اس وقت ترکی کی اندرونی کیفیت اور سرحدوں کے حالات کانقشہ Gray Wolf کے مصنف آرمز سٹرانگ نے یوں کھینچا ہے:

''مناسترا کا ماحول مارچ پاسٹ کرتے فوجی دستوں اور توپوں کی گھن گرج سے پرشکوہ تھا۔ یونان نے جزیدہ کریٹ کا محاصرہ کرلیا تھا۔ ترکی نے اعلانِ جنگ کردیاتھا اور فوجی دستے محاذ جنگ کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ یہ جنگ وجدل کا زمانہ تھا۔ دولت ِعثمانیہ اپنی تاریخ کے سخت اذیت ناک دور سے گزر رہی تھی۔ عیسائی طاقتیں اپنے خونخوار پنجوں سے اس سانس لیتی لاش کو نوچنے کے لئے ایک دوسرے کو گھورتے اور غراتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں کہ موقع ملے تو اس تر نوالہ کو ہڑپ کرجائیں۔ جبکہ ترکی کے لوگوں کی حالت اس وقت بڑی ناگفتہ بہ ہو رہی تھی۔ غربت وناداری اپنے پورے عروج پر تھی۔ لوگ نئی اصلاحات کا شور مچا رہے تھے''

ان ناگفتہ بہ حالات میں سلطنت ِعثمانیہ کی غلطی تعلیمی پالیسیوں اور مغربی تہذیب میں رندھی ہوئی اصلاحات نے نوجوانوں میںفکری انتشار، مایوسی اور بغاوت کے جذبات کو ہوا دی۔ اس دور کے فوجی تربیت دینے والے عثمانی اداروں کے نصاب اور ماحول کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ یورپی ملکوں کا محض چربہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سے فارغ التحصیل نوجوان اسلامی تہذیب و ثقافت کی بجائے مغربی تہذیب کے دلدادہ تھے۔ ان اداروں میں پڑھنے والے طلباء ......انی کی بجائے یورپی طرز کے نیشلزم (قوم پرستی) پریقین رکھتے تھے۔ یہ عجیب تناقض فکر ہے کہ یہی فوجی سکول جن کے ذمہ سلطنت عثمانیہ کے محافظوں کی کھیپ ریات کرنی تھی، وہ باغی نوجوانوں میں سلطنت و خلافت کے خلاف نفرت اگانے کے کھیت (نرسری) بن گئے۔ ''گرے وولف'' کا مصنف لکھتا ہے:

''انہی دنوں مصطفیٰ کمال ملکی سیاست کی طرف متوجہ ہوئے۔ اتفاق یہ کہ وہ زمانہ سلطان عبدالحمید ثانی کے دورِ حکومت کا سخت ترین زمانہ تھا۔ اگرچہ منتظموں نے سخت تدابیر اختیار کر رکھی تھیں لیکن ملٹری اکیڈمی کے طلبہ رات کے وقت اپنے کمروں میں ایک وطن پرست باغی شاعر نامق کمال کی باغیانہ نظمیں پڑھاکرتے''

اتاترک کا یہی سوانح نگار ایک جگہ لکھتا ہے: ''حالانکہ وہ جبلی طور پر ایک عظیم سپاہی تھے، پھر بھی ان کا دل سیاست ہی میں ہر وقت اٹکا رہتا تھا'' لیکن راقم الحروف کا خیال ہے کہ مصطفی کمال کی جبلت میں سیاست میں حصہ لینا بھی شامل تھا۔ انہوں نے دورانِ تعلیم ہی باغیانہ سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ تعلیمی اداروں کے ماحول نے ان کے باغیانہ جذبات کی آبیاری کی۔ جنرل سٹاف کالج حاربیا کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے خود مصطفیٰ کمال کہاکرتے تھے:

''میں اپنی تعلیم کے سلسلے میں سخت محنت کرتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میرے چند اور دوستوں کے ذہنوں میں نئے خیالات پیدا ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ہمیں اپنے ملک کے نظم و نسق اور خارجہ پالیسی میں برائیاں نظر آنے لگیں۔ ساتھ ہی یہ شوق بھی دامن گیر ہوا کہ ہم اپنے خیالات سے ملٹری والے طلبا کو بھی آشنا کریں جن کی تعداد کئی ہزار تھی۔ ہم نے ایک قلمی اخبار کااجرا کیا جو طلبہ میں گشتی اخبار کی حیثیت سے دست بدست پہنچتا''

مصطفیٰ کمال کی جماعت محبانِ وطن کی ایک چھوٹی سی تنظیم تھی۔ وہ اس کی انتظامیہ کے رکن تھے بلکہ گشتی اخبار کے اکثر مضامین وہ خود لکھاکرتے تھے۔ ان دنوں اسماعیل پاشا اکیڈمی کے انسپکٹر تھے۔ انہیں باغی کیڈٹوں کی باغیانہ سرگرمیوں کا علم ہوگیا۔ سلطان عبدالحمید کے علم میں یہ بات لائی گئی کہ اکیڈمی باغی طلبا کا اکھاڑہ بنی ہوئی ہے۔ ایک روز مصطفیٰ کمال اور ان کے دوست جماعت کے کمرے میں بند ہو کر گشتی اخبار کے مضامین لکھ رہے تھے۔ کسی نے ان کی کارروائیوں کے متعلق اکیڈمی کے انسپکٹر کواطلاع کردی، سب کو موقع پر گرفتار کر لیا گیا مگر معمولی سزا دے کر چھوڑ دیا گیا۔ ڈسپلن کے معاملے میں اس نرمی کی بعد میںبھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔حب ُالوطنی کے جذبات میں سرشار ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے مگر مصطفی کمال کی عمر کے ناپختہ ذہن رکھنے والے طالب علموں کی سیاسی معاملات میں غیر معمولی دلچسپی بلاشبہ افسوسناک اور تعجب انگیز امر ہے۔ اس طرح کے جذبات رکھنے والے نوجوانوں کو اگر بروقت مناسب راہنمائی میسر نہ آئے تو بغاوت اور ردّعمل ان کے مزاج کامستقل حصہ بن جایا کرتا ہے۔ مصطفی کے سوانح نگار بھی ان کی سیاسی سرگرمیوں پر حیرت کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ لکھتے ہیں:

'' جن دنوں مصطفی کمال جنرل سٹاف کالج کی جماعتوں میں سیاسی سرگرمیوں میں منہمک تھے، وہ فوجی مشکلات کا حل سوچنے میں بھی کافی وقت صرف کیا کرتے تھے اگرچہ اس چیز کا ان کی بنیادی تعلیم سے قطعاً کوئی تعلق نہ تھا۔ لیکن انہیں یہ محسوس ہوتا کہ فوجی افسروں کو ان باتوں کا علم ہونا چاہئے۔ان خیالات میں ان کی راتوں کی نیند اڑ گئی۔ انہیں ایسے خیالات نے ناتواں و نزار کردیا جن کی ماہیت و مقصد سمجھنے سے وہ خود بھی قاصر تھے'' (گرے وولف)

زمانہ ٔ طالب علمی کے دوران جن افراد نے مصطفی کمال کی ذہن سازی میں حصہ لیا، ان میں ایک عیسائی راہب فیضی کا نام خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ یہ مقدونیہ کے قصبہ آرکیڈا کا باشندہ تھا، عمر میں مصطفی کمال سے چھوٹا تھا۔ عام عیسائیوں کی طرح وہ سلطنت ِعثمانیہ سے سخت بغض اور باغیانہ خیالات رکھتا تھا۔ سالونیکا میں قیام کے دوران مصطفی کمال نے فیضی کے ساتھ بہت سا باغیانہ لٹریچر پڑھا۔ والٹیر، روسو اور فرانسیسی ادیبوں کا مطالعہ کیا۔ تھامس ہابز، روک اور جان اسٹور ٹ مل کی وہ کتابیں فیضی سے لے کر پڑھیں جو ترکی میں اس وقت ممنوعہ کتابیں تھیں۔ اس باغیانہ لٹریچر کے مطالعہ کے بعد مصطفی کمال نے اکیڈمی میں اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے کیڈٹوں میںبڑی فصیح و بلیغ تقریریں شروع کردیں کہ انہیں اپنے ملک ترکی، پیارے ترکی کو غیر ملکیوں اور سلطان عبدالحمید کی بدعنوانیوں سے بچانا چاہئے۔ مصطفی کمال نے اپنی آتش بیانی سے کام لیتے ہوئے آزادی پر کئی مضامین اور خون کو گرما دینے والی کئی نظمیں بھی لکھیں ۔ (ایضا ً)

مصطفی کمال کی فوجی ملازمت کا پورا دورانیہ باغیانہ سرگرمیوں میں شرکت اور عثمانی سلطنت کا تختہ الٹ دینے کی تخریبی منصوبہ بندی کا ایک افسوسناک باب ہے۔ اس دوران میں وہ بارہا گرفتار بھی ہوئے مگر سلطان کی نرم پالیسی، اپنے ہم خیال فوجی افسروں کی ملی بھگت اور خوبی ٔ قسمت کی وجہ سے وہ ہمیشہ سزا سے بچ جانے میں کامیاب ہوتے رہے۔

ملٹری اکیڈمی سے گریجویٹ ہونے کے بعد مصطفی کمال اور اس کے دوستوں نے استنبول میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا تاکہ خفیہ سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔ انقلابیوں کی یہ پارٹی ''وطن حریت'' کہلاتی تھی۔ مصطفی کمال اس کے روح رواں تھے۔ یہ لوگ وقتاً فوقتاً وہاں جمع ہو کر ملکی مسائل پر بحث کیا کرتے۔ ان کی سازشی سرگرمیوں کا انکشاف ہونے پر ڈائریکٹر جنرل ملٹری ٹریننگ اسماعیل حقی پاشا نے سلطان کے حکم کی تعمیل میں ان سب نوجوان باغیوں کو گرفتار کرلیا لیکن چند ماہ کی نظر بندی کے بعد یہ لوگ رہا ہوگئے۔ ٹریننگ کے بعد پہلی مرتبہ مصطفی کمال کو آرمی نمبر ۵ کے ساتھ دمشق میں تعینات کیا گیا۔ اس دوران پورے شام کے طول و عرض میں مصطفی کمال کو گھومنے کا موقع ملا۔ وہ جہاں بھی گئے اپنی انقلابی جماعت ''وطن حریت'' کی خفیہ سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ بیروت، یافا، یروشلم اور شام کے دیگر علاقوں میں یہ تحریک مصطفی کمال کی توقعات کے مطابق نہ پھیل سکی تو انہوں نے مقدونیہ اور سالونیکا کا خفیہ دورہ بھیس بدل کر کیا۔ وہاں انہوں نے ''وطن حریت'' کی شاخیں قائم کیں اور پس پردہ سلطان عبدالحمید کے خلاف باغیانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔ایک دفعہ اس باغی تنظیم کاخفیہ اجلاس ہو رہا تھا کہ پولیس نے عین وقت پر چھاپہ مار کرمصطفی کمال اور دیگر باغیوں کو گرفتار کرلیا۔ ان سب کو بعد میں استنبول کی سرخ جیل میں منتقل کردیا گیا۔ قید کے دوران ایک دن اسماعیل حقی پاشا نے مصطفی کمال پر رحم کھاتے ہوئے اسے سمجھایا:

''تم بڑے ذہین، دلیر اور معاملہ فہم ہو۔ تمہارا مستقبل تمہارے ہاتھ میںہے۔ تم خود کو ہزمیجسٹی کا وفادار فوجی افسر ثابت کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت سے بہت فائدہ اٹھاسکتے ہو۔ملکی سیاست میں حصہ لیتے ہوئے ان کے خلاف بغاوت پھیلانے کی سازشوں میں حصہ نہ لو۔ باغیوں اور غداروں کا ساتھ نہ دو۔ یہ جانتے ہوئے کہ تم موجودہ حکومت کا تختہ الٹانے کی سازشوں کے جرم میں ملوث ہو،ہز میجسٹیرحم دل اور نرمی سے کام لیتے ہوئے تمہیں معاف کرتے ہیں۔ ہزمیجسٹی کا ہمیشہ وفادار رہنے کی قسم کھائو۔ یاد رکھو تم نے اعلیٰ حضرت کی حکومت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں ائندہ کبھی حصہ لیا تو تمہیں کوئی موقع نہ دیا جائے گا'' (کمال اتاترک ازآغا اشرف )

اذیت ناک قید و بند سے چھٹکارا پانے کے لئے مصطفی کمال نے مصلحت کی بنا پر حکومت سے وقتی طور پر سمجھوتہ کرلیا۔ لیکن ان کا دل ابھی تک بغاوت سے معمور تھا مگر زبان سے حکومت کا وفادار رہنے کا اقرار کرتے ہوئے وہ قیدو بند سے آزاد ہوگئے۔مصطفی کمال کو دوبارہ دمشق بھیج دیا گیا۔ قید خانے میں جھیلی ہوئی مصیبتوں اور اسماعیل پاشا کی دھمکیوں کا مصطفی کمال پر کچھ اثر نہ ہوا تھا۔ بغاوت کی آگ ابھی تک ان کے سینے میں موجزن تھی۔ دمشق میں ایک مرتبہ پھر انہوں نے انقلابی تنظیم ''وطن و حریت'' کی شاخ قائم کرنے کے لئے پوشیدہ طور پر کام شروع کردیا۔ شام میں تعینات بہت سے فوجی افسر اور سپاہی بھی اس تنظیم میں شامل ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد ''وطن و حریت'' کے خفیہ ارکان کی حمایت سے مصطفی کمال اپنا تبادلہ باغیوں کے گڑھ یعنی سالونیکا میں کرانے میں کامیاب ہوگئے۔

بغاوت میں یہودی تنظیموں کا کردار

مقدونیہ، سالونیکا اور سلطنت ِعثمانیہ کے دیگر سرحدی علاقوں میں بغاوت کے پس پشت مکار یہودی ذہن کارفرماتھا۔ یہودیوں نے سلطنت ِعثمانیہ کو عدمِ استحکام کا شکار کرنے کی طویل منصوبہ بندی کر رکھی تھی۔ ترکی میں موجود زیادہ تر یہودی وہ تھے جو مغربی یورپ کی حکومتوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر ترکی میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ یہاں سلطان نے ان سے حسن سلوک کامظاہرے کئے تھے، مگر جس قوم کی سرشت میں دھوکہ، فریب، دغا بازی اور عیاری کی خصوصیات تھیں ، وہ اپنی ریشہ دوانیوں سے کیسے باز رہ سکتی تھی۔ لیکن یہ پڑھ کرافسوس ہوتا ہے کہ سلطنت ِعثمانیہ کے جدید تعلیم یافتہ نوجوان اور فوجی افسر ان یہودیوں کے فریب انگیز چنگل میںپھنس گئے اور سلطنت کے خلاف باغیانہ سرگرمیوں میں ان کے آلہ کار بن گئے۔ ان یہودیوں نے ان نوجوان کو سلطان کی مطلق العنانی کے خلاف بغاوت پر جلد ہی آمادہ کرلیا۔جدید ترکی کے معمار اور ''ترکوں کے باپ'' مصطفی کمال اتاترک کی زندگی کا یہ پہلو بے حد پریشان کن ہے کہ وہ اپنی باغیانہ جدوجہد میں ان یہودی تنظیموں کے نہ صرف باقاعدہ رکن رہے بلکہ انہوں نے اپنی خفیہ تنظیم ''وطن حریت'' کو بھی ایک یہودی تنظیم ''اتحاد و ترقی'' میں ضم کردیا تھا۔ جس زمانے میں مصطفی کمال پاشا اپنا تبادلہ سالونیکا کراکے آئے تھے اور وہاںنئے سرے سے اپنی جماعت کو منظم کر رہے تھے، اس کا ذکر کرتے ہوئے آرمسٹرانگ لکھتا ہے:

''اس زمانے میں سالونیکا میںبہت سے یہودی آباد تھے۔ ان میں اکثریت ان یہودیوں کی تھی جو اطالوی رعایا تھے اور یہ اطالوی مسانک لاجز (Masonic Lodges) کے رکن بھی تھے۔ اطالوی رعایا ہونے کی حیثیت سے کچھ عہد ناموں اور مشروط اطاعت ناموں کی رو سے وہ سلطان کی پناہ میں تھے۔ سلطان کے وفادار اور طرف دار رہنے کا عہد کرتے ہوئے انہوں نے سلطان کی اطاعت ان شرائط پر قبول کی تھی کہ پولیس ان کے گھروں کی تلاشی نہ لے سکے گی۔ ان کی گرفتاری عمل میںنہ لائی جاسکے گی اور ان کی اپنی کونسلر عدالتیں ہی ان پر مقدمہ چلانے کی مجاز ہوں گی''

وہ مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے:

''افسروں کا ایک گروہ جن میں سے بہت سوں کو مصطفی کمال اچھی طرح جانتے تھے اور جن میں عیسائی راہب فیضی مقدونی بھی شامل تھا، سب کے سب فری میسن بن گئے تھے، صہیونی بن گئے تھے۔ سلطان کی پناہ کی آڑ میں اور اپنے مسانک لاجز یعنی صہیونیت گھروں کے روزمرہ کے ضروری کاموں میں ملنے جلنے کا جھانسہ دے کر انہوں نے ''اتحاد و ترقی'' پارٹی بنا لی تھی۔ وہ بغیر کسی خوف و خطر کے یہودیوں کے گھروں میں ایک دوسرے سے ملتے اور حکومت کا تختہ الٹنے کے منصوبے بناتے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کافی فنڈ جمع کر لیا تھا اور ان کے ساتھ بھی ساز باز رکھتے تھے جو سیاسی مہاجرین تھے، جنہیں سلطان نے غداری کے شک و شبہ میں جلا وطن کردیا تھا اور وہ اب غیر ممالک میں رہتے تھے۔ ترقی و اتحاد پارٹی مدت سے مصطفی کمال پر اپنی نظریں جمائے ہوئے تھی اور پوری توجہ سے ان کی انقلابی سرگرمیوں کا جائزہ لیتی آرہی تھی۔ اب انہوں نے مصطفی کمال کو دعوت دی۔ مصطفی کمال کو اس فرقے کی تمام ابتدائی رسوم کے ساتھ ایک ''برادر'' کی حیثیت سے ویداتا لاج (Vedata Lodge) میں داخل کیا گیا۔ یہ لاج بین الاقوامی عدمیت پسند تنظیم و تحریک (Internatinal Nihilist Organization) کا حصہ تھی''

ان لاجز کا ماحول کیسا تھا اور اس کے کرتا دھرتا کون لوگ تھے؟ اس کا ذکر مذکورہ مصنف یوں کرتا ہے:

''وہ ماحول ان لوگوں سے مکدر ہو رہا تھا جن کی کوئی قومیت نہیں تھی (یعنی یہودی تھے) جو عدمیت او رلاشیٔت کے قائل تھے۔ وہ سب چور چکار، نکمّے اور غیر صحت مندلوگ تھے۔خفیہ اور پراسرار باتیں کرنے والے لوگ۔ یہ بین الاقوامی زر پرست، مخربِ اخلاق اور زیر زمین خوف ناک تنظیموں کا نیٹ ورک تھا۔ مصطفی کمال اس سے غافل نہ تھے کہ وہ ان کے تار و پود میںپھنس گئے ہیں۔ وہ اس تنظیم میں بہت تاخیر سے شامل ہوئے تھے جو لوگ اس تنظیم میںپہلے سے تھے، وہ ترقی و اتحاد پارٹی کو چلانے والے تھے۔ اس تنظیم کے لوگ ایک دوسرے کو برادر کہتے تھے۔مصطفی کمال کی حیثیت ان میں جونیئر برادر کی تھی''

اتحاد و ترقی پارٹی کے کرتا دھرتا اور لیڈر کون لوگ تھے؟ مصطفی کمال کا سوانح نگار ان کا تذکرہ تضحیک آمیز پیرائے میں یوں کرتا ہے:

''اس وقت کے لیڈروں کی ان کی نظر میں کوئی عزت نہ تھی، وہ ان کے ساتھ جھگڑتے تھے، انور... جو اٹکل پچو سا انسان تھا،جمالی...گول شانوںوالا سیاہ فام ایک مشرقی، جاوید... سالونیکا کا ایک یہودی جو مسلمان ہوچکا تھا، نیازی... ایک البانوی، طلعت... پوسٹ آفس کا ایک کلرک، بھد بھد کر کے چلنے والا، ایک بھاری بھر کم ریچھ۔ یہ تھے ترقی و اتحاد پارٹی کے لیڈر جو ترکی میں انقلاب لانے کے لئے کوشاں تھے'' ( گرے وولف، ترجمہ آغا اشرف)

انجمن اتحاد و ترقی کی منفی سرگرمیوں کا سرطان سلطنت ِعثمانیہ کے جسد ِسیاسی میںاس قدر سرایت کر گیا کہ اس نے سلطان اور ان کی انتظامی مشینری کوبعد میں عضو ِمعطل بنا کے رکھ دیا۔ عثمانی افواج میں بھی ''ترقی و اتحاد'' کے حامی باغیوں کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ بالآخر انہی ''خفیہ اور پراسرار باتیں کرنے والوں'' نے ۱۹۱۰ء میںبغاوت کا اعلان کردیا اور انقلاب کا ہنگامہ کھڑا کردیا۔اس باغیانہ انقلاب کی قیادت انور (جوبعد میں انور پاشا کہلائے) کے ہاتھ میں تھی۔ جمالی پاشا، نیازی، طلعت پاشا وغیرہ دیگر لیڈر تھے۔ سلطان عبدالحمید باغیوں کی سرکوبیوں کے لئے مسلح فوجی دستے بھیجتے رہے، مگر وہ باغیوں سے ملتے جارہے تھے۔ ایک کے بعد ایک کئی رجمنٹیں بغاوت کو دبانے کے لئے روانہ کی گئیں لیکن انہوں نے ہنگامہ پسندوں کی سرکوبی کے لئے کوئی تادیبی کارروائی نہ کی۔ سلطان اس بغاوت کے ہاتھوں اس قدر زِچ ہوئے کہ بالآخر انہیں شرپسند انقلابیوں اور باغیوں کو آئینی حکومت میں شرکت کی دعوت دینے پرمجبور ہونا پڑا۔انور، نیازی اور ان کے دیگر ساتھی

فاتحانہ شان سے سالونیکا میں داخل ہوئے۔ مصطفی کمال نے اگرچہ اس بغاوت میں متحرک کردار ادا نہ کیا تھا کیونکہ ان کے نزدیک یہ بغاوت غیر منظم تھی، مگر جب سالونیکا کے بڑے چوک میں کھڑے ہو کر انور پاشا نے نئے دستور کا اعلان کیا، تومصطفی کمال ان کے پیچھے کھڑے تھے۔

وقتی مصلحت کے تحت سلطان نے باغیوں سے جو سمجھوتہ کیا تھا، عوام الناس نے اس کو پذیرائی نہ بخشی، سلطان کے حامی پریس نے انقلابیوں کوبے نقاب کرناشروع کیا کہ نئے حکمران لا مذہب ، یہودی اور صیہونی ہیں، انہیں مسلمان اور ترک نہیں کہا جاسکتا۔ وہ اسلام اور خلافت کو تباہ کرنے کے ناپاک عزائم لیئے ہوئے ہیں۔ علماء اور اسلام پسند راہنمائوں نے بھی عوام کو ان کے خلاف بیدار کیا۔ فوجی سپاہی اس تبلیغ سے متاثر ہوئے، انہوں نے ان کے خلاف بغاوت کردی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ مذہب ِاسلام کے وفادار ہیں، سلطان اور خلافت کے حامی ہیں۔ انہوں نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرلیا اوراتحاد و ترقی کمیٹی کو شہر بدر کردیا۔ کمیٹی نے مقدونیہ میں تعینات حامی افواج سے مدد کی اپیل کی۔ سلطان کی حامی افواج اور باغیوں کے حامی دستوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا۔ انور پاشا نے کیولری کی کمان سنبھال لی جبکہ مصطفی کمال ان کے چیف آف سٹاف تھے۔ سلطان کی حامی افواج کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ باغیوں نے خود سلطان عبدالحمید کو سالونیکا میں واقع ویلا ایلاٹنی میںقید کردیا اور مقدونیہ کے کمانڈنگ آفیسر شوکت پاشا کے چچا زادہ بھائی کو وقتی طور پر تخت پر بٹھا دیا گیا۔ اس طرح اتحاد و ترقی پارٹی دوبارہ برسر اقتدار آگئی۔ اگلے پندرہ برسوں کے دوران یہی گروہ سلطنت عثمانیہ کے سفید و سیاہ کا مالک بنا رہا۔ انور پاشا، جمال پاشا، شوکت پاشا او ران کے تائید یافتہ افراد وزیراعظم یا وزیر جنگ جیسے مناصب پر فائز ہوتے رہے۔ جنگ ِعظیم اول کے دوران انہی لوگوں نے قیادت سنبھالے رکھی، سلطان تو بس برائے نام حکمران تھا۔ مصطفی کمال کے ان لوگوں کے ساتھ اختلافات بھی رہے، مگر وہ انور پاشا کی قیادت میں مختلف محاذوں پر فرائض انجام دیتے رہے۔ اتحاد ترقی پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد عملی طور پر سلطنت ِعثمانی کا خاتمہ ہوگیاتھا۔ 1918ء میںجرمنی اور ترکی کی شکست کے بعد سابق وزراء اور ترقی کے راہنما ملک چھوڑنے پرمجبور ہوئے اور مصطفی کمال کے لئے میدان صاف ہوگیا۔ اس طرح صیہونی سازش کے نتیجہ میں سلطنت و خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا۔

اتاترک ازم کے عالم اسلام پراثرات

اتاترک نے سیکولر ازم کے جبری نفاذ کے کامیاب تجربے کے بعد جدید ترکی کو پورے عالم اسلام کے جدید اور آزاد خیال طبقے کے لئے ایک عملی نمونہ کے طور پر پیش کردیا۔ عالم اسلام میں تجدد اور مغربیت کی لہر کو ترکی کے تجربے سے بھرپور تحریک اور قوت ملی۔ اتاترک نے ترکی سے اسلام اور عرب ثقافت کے عناصر کو ختم کر نے میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی۔ مغربی نو آبادیاتی استعمار سے آزادی حاصل کرنے والے مسلمان ممالک میں برسراقتدار آنے والے مغرب زدہ راہنمائوں کے لئے اتاترک کا مقام ایک ہیرو اور قابل تقلید ''ترقی پسند'' راہنما کا تھا۔ انہوں نے اپنے اپنے ملکوں میں اسلام اور مذہبی طبقہ کے اثرات کو محدود کرنے کے ئے کمالی ہتھکنڈوں سے خوب استفادہ کیا۔ عالم اسلام پر جدید ترکی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:

''یہ حالات تھے جنہوں نے ترکی کو تحریک جدید کا امام اور اسلامی ملکوں اور حکومتوں کے ''ترقی پسند'' زعماء کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ اور مثال، اور کمال اتاترک کو عالم اسلام کے ترقی پسند معاشرہ اورنئی نئی آزادی حاصل کرنے والے ممالک میں ترقی و انقلاب کا رمزا (Symbol)اور اہل سیاست اور اہل فکر دونوں کے لئے ایک ہیرو اور آئیڈیل بنا دیا۔ آزاد اسلامی ممالک کے برسراقتدار طبقہ اور سیاسی زعما میں ہمیں کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جس نے اتنی مدحود وسطحی ذہنی و علمی صلاحیت اور اخلاقی پستی کے باوجود لوگوں کے دل و دماغ کو اس درجہ مسحور اور اپنی شخصیت اور کارناموں سے اس قدر متاثر کیا ہو اور اپنی تقلید و پیروی کی رکنی زبردست خواہش لوگوں کے دلوں میں پیدا کردی ہو جتنی کہ کمال اتاترک نے اس عہد آخر میں کی'' (اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش، صفحہ ۸۵)

خلافت ِعثمانیہ کو عالم اسلام میںمرکزی حیثیت حاصل تھی اور خلیفہ کو بے حد عقیدت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ خلیفہ کے خلاف بغاوت کا تصور تک گناہ سمجھا جاتا تھا۔ کمال اتاترک کے ہاتھوں خلافت کی بے حرمتی اور خاتمے نے دیگر اسلامی ممالک میں بھی بادشاہت اور سلطنت کے تصورات کو شدید نقصان پہنچایا۔ مصطفی کمال چونکہ بنیادی طور پر ایک فوجی جرنیل تھا، خلیفہ کے خلاف بغاوت میں اس کی بے نظیر کامیابی نے عالم اسلام کے پرجوش فوجی افسروں کو حکومتوں کا تختہ الٹنے کی راہ دکھائی۔ یہ رجحان اتنا قوی اور خطرناک حد تک بڑھا کہ اسلامی دنیا میں حکومتیں ہمیشہ فوج کی طرف سے اقتدار پر قبضے کے خطرات سے دوچار رہیں۔

مصر غیر ملکی ثقافت، مغرب پرستی اور مادی تحریکوں کی زد میں ہونے کی وجہ سے اتاترک ازم سے بے حد متاثر ہوا۔ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبہ، نئی نسل کے افراد اور فوج کے افسران کے لئے سیکولر ازم میں کشش پائی جاتی تھی۔ 1952ء میں جمال عبدالناصر اور اس کے ساتھیوں نے شاہ فاروق کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ جن فوجی افسروں نے انقلاب برپا کیا وہ عرصہ دراز سے ''آزاد آفیسران'' "Free Officers" نامی تنظیم بنا کر بالکل اسی طرح خفیہ سرگرمیوں میں مصروف تھے جس طرح کہ کمال اتاترک ''وطن و حریت'' یا اتحاد و ترقی جیسی تنظیموں میں کام کرتے رہے تھے۔

انور سادات نے اپنی خود نوشت سوانح عمری ''شناخت کا سفر'' (In Search of Identity) میں ''آزاد افسران'' کی خفیہ سرگرمیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔اتاترک نے اپنی تحریک کی بنیاد ترکی قوم پرستی پر رکھی تھی، مصر کے انقلابیوں نے عرب قوم پرستی کے ساتھ سوشلزم کا پیوند لگا کر اپنے عزائم کو عملی صورت دی۔ جمال عبدالناصر کے پیش نظر ایک ایسی سوسائٹی کے قیام کا نصب العین تھا جو حریت، سوشلزم اور اتحاد کو زندگی کی اساس اور جدوجہد کے اعلیٰ مقاصد تعین کرتی ہو۔ ان کا نقطہ ٔ نظر ایک ایسے اشتراکی مادّہ پرست انسان کا تھا جس کے نزدیک ایمان، عقیدہ اور دینی اَساس کی کوئی خاص قدر و قیمت نہ تھی۔ مصر کو مغربی تہذیب کی روشنی میں بدلنا ان کی حکومت کی ترجیحات میں شامل تھا۔ اتاترک کی طرح جمال عبدالناصر نے مذہبی جماعتوں بالخصوص اِخوان المسلمون پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ ہزاروں مذہبی راہنمائوں کو قید و بند کی مصیبتوں سے گزرنا پڑا۔ سینکڑوں کو حکومت کے خلاف جذبات بھڑکانے کے جرم میںپھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

ایران میں بھی سابق شاہ ایران رضا شاہ پہلوی اوّل (۱۹۴۱ئ؟ ۔۱۹۲۵ئ) نے اتاترک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وسیع تر 'اصلاحات' کا آغاز کر دیا۔ رضا شاہ کی اصلاحات کا دائرہ صنعتی ترقی سے لے کر تعلیمی اور معاشرتی میدانوں میںپھیلا ہوا تھا۔ انہوں نے عدالتی نظام کو سیکولر بنیادوں پر استوار کیا۔ ۱۹۲۷ء میں انہوں نے فرانس کا عدالتی نظام اور قانون جاری کیا۔ نئی نسل میں قوم پرستی کی روح بیدار کرنے کے لئے بوائے اسکائوٹ اور گرل گائیڈ تنظیموں میں نوجوانوں کی شرکت لازمی قرار دی۔ ۱۹۳۰ء سے سکولوں میں دینیات کی تعلیم لازمی نہ رہی۔ رضا شاہ نے ۱۹۲۸ء میں مشرقی لباس کی ممانعت کرکے مذہبی اثر و نفوذ پر کاری ضر ب لگائی، ترکی ٹوپی اور پگڑی کی جگہ یورپین ہیٹ کو لازمی قرار دیا۔ شاہ نے عورتوں میں آزادی اور بیداری پیدا کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیا رکئے۔ انہوں نے تنسیخ زمینداری، مالکانِ اراضی کے حقوقِ ملکیت ختم کرنے، عورتوں کو حق رائے دہندگی اور منتخب ہوسکنے کے حق کو دستوری و قانونی شکل دی۔ شاہ نے فارسی زبان کا رسم الخط تو برقرار رکھا البتہ فارسی کو عربی زبان کے اثرات سے پاک کرنے کے لئے ادبی مجلس قائم کی۔ قدیم عربی تاریخوں میں موجود نام فارس کو تبدیل کرکے ایران رکھا۔ شاہ نے اسلامی تہذیب کی بجائے آرین تہذیب کے اجرا کے لئے اقدامات کئے۔ایران کی ان ''اصلاحات'' پر واضح طور پر اتاترک ازم کی چھاپ تھی۔

(Source: The Middle East in world Affairs by, Prof. George Lenczowski)

تیونس نے ۱۹۵۷ء میں آزادی حاصل کی۔ اس کے پہلے صدر الحبیب بورقیبہ نے ملک کو کمال اصلاحات اور سیکولر ازم کی راہ پر گامزن کر دیا۔ اس نے فرانسیسی ثقافت کے مطابق جدید تیونس کی تشکیل کااعلان کیا ۔نئے عائلی قوانین کا اجراء کرتے ہوئے تعددِ ازدواج کی آزادی اور شوہر کے بیوی کو طلاق دینے کے حق پر پابندی عائد کردیں۔ عورتوں پر ملازمتوں کے دروازے کھول دیئے۔ انہیں رائے دہی اور مجالس قانون ساز کا رکن بننے کے حقوق دیئے۔ مخلوط مجالس کو فروغ دیا۔ اسلامی اوقافِ عامہ ختم کردیئے گئے۔ تیونس کے لئے نیا قانون ''کوڈ آف پرسنل لائ'' منظور کر کے نافذ کردیا گیا۔ یہ کوڈ روایتی اسلامی قانون سے اتنا ہی مختلف تھا جتنا ترکی کا سیکولر دیوانی قانون۔ تیونسی صدر کے اسلام، قرآن اور پیغمبر اسلام کے خلاف بعض توہین آمیز بیانات نے عالم اسلام میںایک ہنگامہ پیدا کردیا۔

الجزائر نے لاکھوں مجاہدین کی قربانی دے کر ۱۹۶۲ء میں فرانسیسی استعمار سے آزادی حاصل کی ۔ جنگ آزادی کے راہنما احمد بن بیلاالجزائر کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ آزادی ملنے کے بعد اقتدار پر ایسے لوگ قابض ہوگئے جن کی تربیت فرانسیسی فوج کی تربیت گاہوں اور فرانس کے تعلیمی اداروں میں ہوئی تھی۔ احمد بن بیلا، جمال عبدالناصر کے دوستوں میں سے تھے، انہوں نے اشتراکی نظام کے نفاذ کے لئے کوششیں شروع کردیں۔ اسلامی روح کو بیدار اور مستحکم کرنے کی بجائے قوم پرستی اور لادینیت کو تقویت دی گئی۔ قوم پرست راہنمائوں نے مذہب کو حکومت کے معاملات سے الگ کرد ینے کے اقدامات کئے جس کے خلاف دینی راہنمائوں نے احتجاج کیا مگر حکومت نے ان کی بات پر توجہ نہ دی۔ کچھ عرصہ بعد فوجی جرنیل حواری بویدن نے احمد بن بیلا کو برطرف کرکے خود اقتدار سنبھال لیا۔ انہوں نے بھی اشتراکی نظام جاری رکھا۔

۱۹۶۹؁ء میں لیبیا میں کرنل معمر قذافی نے شاہ ادریس کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ کرنل قذافی نے اپنی انقلابی حکومت کی بنیاد عرب قومیت اور مغرب کی غلامی سے مکمل آزادی پر رکھی۔ شروع شروع میں کرنل قذافی نے مذہبی رجحانات کا اظہار کیا مگر بعد میں جمال عبدالناصر کے اثر کی وجہ سے ان میں سیکولر ازم کے خیالات پیدا ہونا شروع ہوئے۔ انہوں نے کئی ایسے اقدامات کئے اور بیانات دیئے جو اسلام کے مسلمہ نظریات سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ معمر قذافی نے اسلامی زندگی پر حملہ کرنے کے لئے حدیث کا انتخاب کیا ۔ ان کی رائے میں حدیث کو عبادات تک محدود رکھنا چاہئے۔ باقی زندگی کے معاملات میں احادیث کا اطلاق اس زمانے میں نہیں ہوسکتا۔

شام اور عراق میں بھی سیکولر بعث پارٹی کے ارکان نے حکومتوں کے تختے الٹ دیئے۔ شام میں صدر حافظ الاسد اور عراق میں صدر صدام حسین کی پالیسیاں اسلام دشمنی پر مبنی رہی ہیں۔ انڈونیشیا میں آزادی کے حصول کے بعد صدر احمد سوئیکارنو نے سیکولر ازم اور اشتراکیت پر مبنی تصورات متعارف کرائے۔ انڈونیشیا کا نیا دستور سیکولر رکھا گیا۔ تجدد اور مغربیت کے راستے پر انڈونیشیا نے تیزی سے سفر شروع کردیا۔

یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ نئے آزاد ہونے والے مسلمان ممالک مغربیت کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ ان ممالک کے عوام نے آزادی کی جدوجہد کے دوران اسلامی نظام کے نفاذ کو نصب ُالعین بنایا تھا مگر آزادی کے بعد جو لوگ برسراقتدار آئے، انہوں نے اسلامی قانون کو منسوخ کرکے اپنے ملک کو مغرب کے سانچے کے مطابق ڈھالنے کا کام شروع کردیا۔ ان ممالک کی سیکولر حکومتیں درحقیقت اتاترک ازم کا تسلسل ہیں۔

٭٭٭٭٭