جنوری 2000ء

2000 ؁ء پر جشن منانے اور خصوصی اہتمام کرنے کا حکم

سعودی مرکز اور ادارۂ تحقیق و افتاء ، ریاض کی طرف سے فتویٰ

اسلامی ریسرچ و افتاء کونسل (ادارات بحوث علمیہ والافتاء والدعوۃ الارشاد) میں مفتئ اعظم سعودی عرب کے پاس اس موضوع پر متعدد سوالات موصول ہوئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔

ایک استفتاء میں سائل کہتا ہے کہ ''ان دنوں ہم ابلاغ عامہ کے تمام ذرائع کی نشریات میں بکثرت عیسی سال ۲۰۰۰؁ء کی تکمیل اور تیسرے ہزار سالہ عہد کی ابتداء کی تقریب کی مناسبت سے بہت سی باتیں اور کارروائیاں ملاحظہ کرتے ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں وغیرہ میں سے کفار اس تقریب کی بہت خوشیاں منا رہے ہیں اور اس موقع کو امید کی کرن تصور کرتے ہیں۔ اس بارے میں سماحۃ الشیخ (سعودی عرب کے مفتی ٔ اعظم ) حفظہ اللہ ، سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ بعض لوگ جو اسلام کی طرف نسبت رکھتے ہیں وہ بھی اس تقریب کا اہتمام کرنے لگے ہیں اور اس کو ایک پرسعادت تقریب قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنی شادی بیاہ اور دوسرے اہم معاملات اس تقریب کے ساتھ مربوط کر رکھے ہیں یا پھر وہ اپنے تجارتی اداروں اور کمپینیوں وغیرہ میں اس تقریب میںشرکت کی دعوت دیتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے اندر برائیاں پھیلا سکیں۔ پس اس تقریب کے تعظیم و احتفاء نیز اس موقع پر تہنیات و مبارکباد کا باہم تبادلہ، خواہ زبانی ہو یا چھپے ہوئے کارڈ وغیرہ کے ذریعے، شریعت کی رو سے کیا ہے؟ ''و جزاکم اللہ عن الإسلام و المسلمین خیرالجزاء''

دوسرے سوال میں مذکور ہے کہ ''یہودی اور عیسائی اپنی تاریخ کے مطابق ۲۰۰۰؁ء غیر معمولی طور پرمنانی کے لئے تیار بیٹھے ہیں تاکہ اپنے پلان و پالیسی نیز اپنے عقائد کو تمام دنیا، بالخصوص اسلامی ممالک میں رائج کرسکیں۔ بعض مسلمان بھی ان کی اس دعوت سے متاثر ہوگئے ہیں۔ چنانچہ وہ اس موقع پر طرح طرح کے اعلانات اور وعدوں کی تیاری میں لگ گئے ہیں۔ ان میں بعض ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس موقع کی مناسبت سے اپنے تجارتی مال پر قیمتوں میں کمی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خدشہ اس با ت کا ہے کہ کہیں یہ معاملہ آگے بڑھ کر غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدہ ٔ موالات پر اثر انداز نہ ہو۔ پس ہم آپ سے التماس کرتے ہیں کہ کافروں کی تقریبات اور اس کی دعوتوں میں مسلمانوں کے جانے سے یا ان کی تقریبات کو خود بھی منانے کا حکم بیان فرمائیں اور یہ بھی بیان کریں کہ بعض مو ٔسسات اور شرکات (کمپنیوں) میں اس موقع کی مناسبت سے کام کی چھٹی کا کیا حکم ہے؟ کیا ان امور میں سے کوئی کام یا ان سے مشابہ کوئی اور امر یا ان امور پر رضا مندی مسلمان کے عقیدہ پر اثر انداز ہوتی ہے؟''

مذکورہ سوالوں کے تمام پہلوؤں پر غوروفکر کرنے کے بعد اسلامی ریسرچ و افتاء کونسل مندرجہ ذیل جواب دیتی ہے:

بے شک سب سے بڑی نعمت جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو عطا فرمائی ہے وہ اسلام اور اس کی صراط مستقیم (سیدھی راہ) کی طرف ہدایت کی نعمت ہے۔ اور یہ اس سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت ہی ہے کہ اس نے اپنے مومن بندوں پر اپنی نمازوں میں اس سے اس کی ہدایت طلب کرنا فرض قرار دیا ہے، چنانچہ وہ اس سے صراط مستقیم کی طرف ہدایت کے حصول نیز اس پر ثابت قدمی طلب کرتے ہیں۔ خود اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس راستہ کا وصف یہ بیان کیا ہے کہ سیدھا راستہ ان نبیوں، صدیقوں ، شہداء اور صالحین کا ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا۔ یہ راستہ ہرگز صراط مستقیم سے منحرف ہونے والے یہودیوں، عیسائیوں نیز تمام کافروں اور مشرکوں کا نہیں ہے۔

جب یہ چیز معلوم ہوگئی تو ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی بے پناہ نعمتوں کی قدردانی کرے اور قولا ً، عملا ً اور اعتقاداً اس سبحانہ و تعالیٰ کا شکر گزار بن جائے۔ اس پر یہ بھی لازم ہے کہ اس نعمت کی حفاظت اور نگرانی کرے اور ایسے اسباب پر عمل درآمد کرے کہ جن سے یہ نعمتیں اس پر سے زوال پذیر ہونے سے محفوظ رہ سکیں۔

اہل بصیرت کا مشاہدہ ہے کہ آج دنیا میں بیشتر لوگوں پر اللہ کا دین حق و باطل کے ساتھ گڈمڈ نظر آتا ہے اور یہ چیز دشمنان اسلام کی اس کے حقائق کو مٹانے، اس کے نور کو بجھانے ، مسلمانوں میںاس سے بعد پیدا کرنے اور ہمیشہ کے لئے اس سے ان کا رشتہ کاٹ دینے کی انتھک کوششوں کو واضح کرتی ہے۔ وہ تمام بشر کو اللہ اور جو شریعت اللہ کے رسول محمد بن عبداللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہے اس سے روکنے کے لئے ہر ممکن ذریعہ استعمال کرتے ہیں، کبھی اسلام کی صورت جھلسانے کی کوشش کرتے ہیں توکبھی تہمت اور کذب بیانی کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کایہ فعل اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مصداق ہے:

﴿وَدَّ كَثيرٌ‌ مِن أَهلِ الكِتـٰبِ لَو يَرُ‌دّونَكُم مِن بَعدِ إيمـٰنِكُم كُفّارً‌ا حَسَدًا مِن عِندِ أَنفُسِهِم مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُمُ الحَقُّ...١٠٩ ﴾... سورة البقرة

''اہل کتاب میں سے بہت سے لوگ دل میں حسد رکھ کر یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے کے بعد پھر تم کو کافر بنا دیں حالانکہ حق بات ان پر واضح ہوچکی ہے''

اور سبحانہ و تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق ہے:

﴿وَدَّت طائِفَةٌ مِن أَهلِ الكِتـٰبِ لَو يُضِلّونَكُم وَما يُضِلّونَ إِلّا أَنفُسَهُم وَما يَشعُر‌ونَ ٦٩﴾... سورة آل عمران

''اہل کتاب کا ایک گروہ یہ چاہتا ہے کہ تم کو گمراہ کردیں حالانکہ وہ اپنے آپ کو ہی گمراہ کرتے ہیں، مگر سمجھتے نہیں ہیں''

اور جل و علا کے اس ارشاد کے مطابق بھی :

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِن تُطيعُوا الَّذينَ كَفَر‌وا يَرُ‌دّوكُم عَلىٰ أَعقـٰبِكُم فَتَنقَلِبوا خـٰسِر‌ينَ ١٤٩﴾... سورة آل عمران

''اے ایمان والو! اگر تم کافروں کا کہنا مانو گے تو وہ تم کو الٹے پائوں (کفر کی طرف) پھیر دیں گے، پھر تم گھاٹے میں جا پڑو گے''

اورعزوجل کا یہ قول بھی شاہد ہے:

﴿قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لِمَ تَصُدّونَ عَن سَبيلِ اللَّهِ مَن ءامَنَ تَبغونَها عِوَجًا وَأَنتُم شُهَداءُ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغـٰفِلٍ عَمّا تَعمَلونَ ٩٩﴾... سورة آل عمران

''(اے نبیﷺ) کہہ دیجئے کہ اہل کتاب! جو کوئی ایمان لایا (یا لانے کا مقصد رکھتا ہے) تم جان بوجھ کر اللہ کی راہ سے کیوں روکتے ہو، اس میں عیب نکالتے ہو اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں ہے''

ان کے علاوہ بعض دوسری آیات میں بھی یہی مضمون بیان ہو ا ہے۔ لیکن باوجود ان تمام کے... اللہ و عزوجل نے اپنے دین اور اپنی کتاب کی حفاظت کا و عدہ فرمایا ہے، پس جل و علا کا ارشاد ہے:

﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ‌ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ٩﴾... سورة الحجر

''بے شک قرآن کو ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں''

پس اللہ کے لئے ہی بے شمار تعریفیں ہیں:

اسی طرح نبیﷺ نے یہ خبر دی ہے کہ آپ کی امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا و ظاہر ہوں گے اور جنہیں خوفزدہ اور مخالفت کرنے والے ہرگز نقصان نہ پہنچا سکیں گے، یہاں تک کہ قیامت واقع ہوجائے۔ پس اللہ تعالیٰ کے لئے ہی بے شمار تعریفیں ہیں۔ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ، کہ جو قریب اور مجیب الدعوات ہے، سے دعاء کرتے ہیں کہ ہمیں اس گروہ اور اس مسلمان بھائیوں میں سے بنائے، کہ بے شک وہ بے حد سختی اور مکرم فرمانے والا ہے۔

جہاں تک زیر بحث مسئلہ کا تعلق ہے تو اسلامی ریسرچ و افتاء کونسل یہودیوں، عیسائیوں اور اسلام کے ساتھ نسبت رکھنے والے، مگر انہی کی زیر اثر، لوگوں کی ان کے حساب کے مطابق دو ہزار سال کے اختتام اور تیسرے ہزار سالہ عہد کے استقبال کی تقریب کی زبردست تیاری اور ان کے اہتمام کو دیکھ اور سن رہی ہے۔ لیکن یہ کونسل مسلم عوام کے سامنے اس جشن کی حقیقت بیان کرنے اور شریعت مطہرہ میں اس کا حکم واضح کرنے کی قدرت رکھتی ہے تاکہ مسلمانوں کو اپنے دین کی بصرت حاصل ہو اور وہ ان لوگوں کی گمراہیوں کی طرف منحرف ہونے سے ڈریں جن پر کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا غضب فرمایا (یعنی یہودی) اور جو گمراہ ہوئے (یعنی عیسائی)

ہم کہتے ہیں کہ:

اول:... یہودی اور عیسائی سمجھتے ہیں کہ یہ تیسرا عہد ہزار سالہ حادثات، تکالیف اور امیدوں کا زمانہ ہے۔ وہ اس خبر کی صحت (تحقق) کا جزم کرتے ہیں یا پھر ہٹ دھرمی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ان کی ریسرچ اور وسیع مطالعہ کا نتیجہ ہے جیسا کہ ان لوگوں نے دعویٰ کیا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے عقیدہ کے بعض احکام کو اس عہد ہزار سالہ کے ساتھ مربوط کر رکھا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس عہد ہزار سالہ کا ذکر ان کی تحریف شدہ کتابوں میں آیا ہے... لہذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ نہ اس کی طرف التفات کریں اور نہ ہی اس کا رکن بنیں، بلکہ اپنے رب سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب اور اس کے نبیﷺ کی سنت سے چمٹ کر ان کے سواء ہر چیز سے بے نیاز ہوجائیں۔ جہاں تک ان نظریات اور آراء کا تعلق ہے کہ جو کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کے خلاف ہوں تو ان کی طرف توجہ نہ دیں بلکہ ان چیزوں کو ان کا وہم تصور کریں۔

دوم:... یہ یا اس جیسی دوسری تقریبات جن برائیوں سے خالی نہیں ہوتیں ان میں سے بعض یہ ہیں: حق کا باطل کے ساتھ التباس، کفر اور گمراہی کی طرف دعوت دینا (بلانا)، حرام باتوں کی اباحت (مباح کرنا) اور الحاد ، شرعا ً منکر باتوں کا ظہور مثلا ً تمام مذاہب کے مابین وحدت و یگانگت، اسلام کا دوسری باطل ملتوں اور مذاہب کے مساوی ہونا، صلیب سے تبرک حاصل کرنا، یہودیوں اور عیسائیوں کے کافرانہ شعائر کا اظہار اور اسی طرح ایسے اقوال و افعال کا صدور جو کافرانہ شعائر پر مشتمل ہوں مثلا ً عیسائیت اور یہودیت جو کہ تبدیل او رمنسوخ شدہ شریعتیں ہیں وہ بھی اللہ تک پہنچنے کا ہی ذریعہ ہیں یا اسی طرح ان شریعتوں میں دین اسلام کے خلاف پائی جانے والی بعض چیزوں کو مستحسن سمجھنا یا بتانا اجماع امت کے مطابق اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اسلام کا انکار (کفر) ہے۔ علاوہ ازیں یہ چیز مسلمانوں کو ان کے اپنے دین سے دور کرنے او راجنبی بنا دینے کا ایک وسیلہ ہے۔

سوم: ... کتاب اللہ، سنت رسول اور آثا صحیحہ کے دلائل سے متفاد ہوتا ہے کہ کفا رکے خصائص میں ان کی مشابہت اختیار کرنا شرعا ً منع ہے اور اس ممانعت میں ان کی عیدوں (تہواروں)، ان کی محفلوں اور تقریبات میں ان کی مشابہت بھی شامل ہے۔ عید بمعنی تہوار اور اسم حنس ہے اور اس میں ہر دہ دن شامل ہے جو بار بار لوٹ کر آئے اور جس کی کفار تعظیم کرتے ہوں۔ کافروں کی وہ مخصوص جگہ بھی عید کہلاتی ہے جہاں وہ اپنی دینی تقریبات کے لئے جمع ہوتے ہوں۔ لہذا ہر وہ عمل جو ان لوگوں نے مختلف ممالک میںاس زمانہ میں ایجاد کئے ہیں وہ سب ان کی عیدوں میں داخل ہیں۔ کیونکہ دین میں صرف ان کے مخصوص تہواروں ہی کی ممانعت نہیں ہے بلکہ اوقات یا مقامات میںسے ہر وہ چیز جس کی وہ تعظیم کرتے ہوں، حالانکہ دین اسلام میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہ ہو، اسی طرح وہ تمام اعمال جو انہوں نے اس مقصد کے لئے ایجاد کئے ہوں، وہ سب ان کی عیدوں میں داخل ہیں۔ اسی طرح اگلے اور پچھلے دنوں میں سے جو دن بھی ان کے نزدیک حرمت کا ہو، جس طرح کہ اس تقریب کے دن کے بارے میں بتایا جارہاہے، وہ ان کی عید میں داخل ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے بطور تنبیہ بیان کیا ہے۔

تہواروں میں ان کی مخصوص مشابہت کی ممانعت کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَالَّذينَ لا يَشهَدونَ الزّورَ‌...٧٢﴾... سورة الفرقان

''اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے (یا جھوٹ فریب نہیں کرتے)''

سلف و صالحین کی ایک جماعت کہ جن میں امام ابن سیرین، مجاہد اور ربیع بن انس شامل ہیں، نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کی ہے کہ یہاں ''الزور'' سے مراد کافروں کے تہوار ہیں اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے متعلق ثابت ہے کہ انہوں نے بیان کیا: ''جب نبیﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تووہاں کے لوگوں کے لئے دو دن مخصوص تھے، جن میں وہ کھیلتے کودتے تھے۔ آپ نے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیا ہیں؟ انہوں نے عرض کی: ہم دور جاہلیت میں ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے ان دنوں کو ان سے بہتر دنوں میں بدل دیا ہے۔ وہ یوم الاضحیٰ (بقر عید) اور یوم الفطر (عید رمضان) ہیں'' امام احمد، امام ابودائود اور امام نسائی نے نسبد صحیح اس حدیث کی تخریج کی ہے۔

حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے کہا: ''رسول اللہﷺ کے عہد مبارک میں ایک شخص نے بوانہ کے مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی تھی، چنانچہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: میں نے بوانہ کے مقام پر اونٹ کی قربانی کی نذر مانی ہے۔ نبیﷺ نے اس سے دریافت کیا: کیا وہاں دور جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا کہ جسے پوجا جاتا ہو؟ لوگوں نے عرض کی: نہیں، آپ ؐ نے پوچھا کہ کیا وہاں ان کے تہواروں میں سے کوئی تہوار منایا جاتا تھا؟ لوگوں نے عرض کی: نہیں، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: پھر اپنی نذر پوری کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی کوئی نذر پوری نہ کی جائے گی اور نہ اس چیز کی نذر جو بنی آدم کی ملک نہ ہو'' امام ابودائود نے اس حدیث کی تخریج بسند صحیح کی ہے۔

اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ''مشرکوں کے تہواروں کے دن ان کی عبادت گاہوں (گرجا گھروں) میں داخل نہ ہو کیونکہ ان پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے'' آپؓ نے یہ بھی فرمایا کہ :''اللہ کے دشمنوں کے تہواروں میں ان سے کنارہ کشی (اجتناب) کرو''

اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ''جو شخص عجمیوں کے شہروں میں گھر تعمیر کرے اور ان کے نیروز اور مہرجان (جشن و تقریبات) منائے اور تاحیات ان کی مشابہت اختیار کرے تو وہ انہیں جیسا ہے، قیامت کے دن اس کا حشر بھی انہیں کے ساتھ ہوگا''

چہارم:... اور بہت سے اعتبارات سے بھی کافروں کے تہواروں سے روکا گیا ہے جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں:

...ان کے بعض تہواروں میں دوسروں کا ان کی مشابہت اختیار کرنا ان کے دلوں کے سرور (شادمانی) اور انشراح صدر کا موجب ہوتا ہے کہ وہ بھی انہیں جیسے باطل پرست ہیں۔

...ظاہری امور میں مشابہت اور مشاکت، مسارقت اور تدرج خفی (ہلکے ہلکے، چپکے چپکے اور چور دروازوں کے ذریعہ) کے باعث فاسد عقائد جیسے باطنی امور میں بھی مشابہت و مشاکلت کی موجب بنتی ہے۔

... اس کا ماحصل بھی عظیم ترین مفاسد میں سے ہے یعنی کافروں کی ظاہری مشابہت باطن میں ان کے لئے مختلف النوع مودت (دوستی)، محبت اور موالات (میل جول او رہم راز بنانا) وراثت میں چھوڑتی ہے۔ حالانکہ ان کے لئے محبت او رموالات ایمان کے منافی ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا اليَهودَ وَالنَّصـٰر‌ىٰ أَولِياءَ ۘ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَإِنَّهُ مِنهُم ۗ إِنَّ اللَّهَ لا يَهدِى القَومَ الظّـٰلِمينَ ٥١﴾... سورة المائدة

''اے مومنو! یہود و نصاریٰ کو دوست مت بنائو۔ وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی ان سے دوستی رکھے وہ انہیں میں کا ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے ظالم لوگوں کو کبھی راہ راست پر نہ لائے گا''

اور سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿لا تَجِدُ قَومًا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ يُوادّونَ مَن حادَّ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ...٢٢﴾... سورة المجادلة

''(اے پیغمبر!) جو لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر یقین رکھتے ہیں ان کو تو (ایسا) نہ دیکھے گا کہ وہ ان لوگوں سے دوستی رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں''

پنجم:... جو کچھ اس سے قبل اوپر بیان کیا جاچکا ہے اس کی بناء پر کسی مسلم پر جو اللہ کے رب، اسلام کے دین حق اور محمدﷺ کے نبی و رسول ہونے پر ایمان رکھتا ہو، ہرگز جائز نہیں ہے کہ ایسے تہواروں کی محفلیں اور تقریبات کے جشن منعقد کرے جن کی دین اسلام میں کوئی اصل موجود نہیں ہے، اور انہی تہواروں میں سے ایک یہ فرضی ہزار سالہ جشن بھی ہے۔ اسی طرح نہ اس تقریب کی محفلوں میں حاضر ہونا جائز ہے، نہ ان میں مشارکت اور نہ ہی کسی طرح کی اعانت کرنا جائز ہے، کیونکہ یہ تمام چیزیں گناہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:

﴿وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ ٢﴾... سورة المائدة

''اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ اللہ تعالیٰ کا عذاب بہت سخت ہے''

ششم:... مسلمان کے لئے کافروں کے ساتھ تعاون کی قسموں میں سے کسی بھی طرح تعاون کرنا جائز نہیں ہے۔ اس تعاون میں ان کے تہواروں، کہ جس میں مذکورہ ہزار سالہ جشن کی تقریب بھی شامل ہے، کا اعلان و اشتہار کرنا، کسی بھی ذریعہ سے لوگوں کو ان کی طرف مدعو کرنا، خواہ اس کے لئے ذرائع ابلاغ عامہ کو ہی کیوں نہ استعمال کیا جائے، لکھے ہوئے بورڈ اور بینر آویزاں کرنا، ایسے لباس بنانا جن کا مقصد ان تہواروں کی یادگار یا یاددہانی ہو، کارڈ، پمفلٹ اور اسٹشنری کے دوسرے سامان چھپوانا، تجارتی سامان پر اس موقع کی مناسبت سے قیمت گرانا یا مالی انعامات کی تقسیم کرنا یا کھیل کود کی سرگرمیوں کا اہتمام کرنا یا کوئی خاص علامت (یعنی بلہ) وغیرہ کو پھیلانا، سبھی چیزیں شامل ہیں۔

ہفتم:... کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ کافروں کے تہواروں، کہ جن میں سے ایک مذکورہ ہزار سالہ تقریب بھی ہے، یا اس جیسی دوسری خوشی کی تقریبات اور متبرک اوقات کا اعتبار کرے اور خاص اس دن اپنے معمول کے کام کاج کو معطل کرکے چھٹی منائے یا شادی بیاہ منعقد کرے یا تجارت کے کاموں کی ابتداء کرے یا کسی پروجیکٹ وغیرہ کے افتتاح کا اہتمام کرے۔اسی طرح ان دنوں کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا بھی ناجائز ہے کہ ان دنوں کو دوسرے دنوں پر کوئی فضیلت یا خصوصیت حاصل ہے کیونکہ یہ دن بھی سال کے دوسرے تمام دنوں کی طرح ہی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ یہ فاسد اعتقاد ذرہ برابر بھی کسی چیز کی حقیقت کی نہیں بدل سکتا بلکہ ایسا اعتقاد رکھنا تو گناہ در گناہ کے مترادف ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی اور عافیت کے طلبگار ہیں۔

ہشتم:... مسلمانوں کے لئے کافروں کے تہواروں پر انہیں مبارکباد پیش کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ چیز ان کے باطل پر قائم رہنے پر ایک طرح کی رضا مندی اور ان کے لئے مسرت کا باعث ہے، چنانچہ امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

''جہاں تک کافروں کے مکصوص شعائر پر ان کو مبارکباد پیش کرنے کا تعلق ہے تو یہ بالاتفاق حرام ہے۔ مثلا ً ان کے تہواروں یا روزوں کے مواقع پر ان کو مبارکباد کے طور پر کوئی یوں کہے: تمہیں تہوار مبارک ہو یا اس تہوار کی مبارکباد وغیرہ۔ اگر ان کلمات کا کہنے والا کفر سے بری ہو تو بھی اس کے لئے یہ کہنا حرام ہے۔ کیونکہ یہ دراصل کافر کو صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارکباد دینے کے مترادف ہے، بلکہ یہ عمل اللہ کے نزدیک کسی کو شراب پینے، قتل کرنے اور زنا کاری وغیرہ پر مبارکباد دینے سے بھی زیادہ سخت گناہ ہے۔ لیکن اکثر جن لوگوں کو دین کی کوئی قدر نہیںہوتی وہ اس غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس فعل کی قباحت نہیں جانتے۔ پس جس نے کسی بندہ کو گناہ پر یا بدعت پر یا کفر پر مبارکباد دی اس نے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب مول لیا ہے''

نہم:... مسلمانوں کے لئے ان کے نبی محمد مصطفیﷺ کی ہجرت کی تاریخ کا التزام باعث شرف ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔ وہ بلا کوئی تقریب منائے ہوئے اسی ہجرت کے دن سے اپنی تاریخوں کا شمار کرتے تھے۔ صحابہؓ کے بعد یہ چیز مسلمانوں میں گزشتہ چودہ صدیوں سے آج تک مسلسل وراثت میں چلی آرہی ہے۔ چنانچہ مسلمان کے لئے ہجری تاریخ سے روگردانی کرکے دنیا کی دیگر امتوں کی تاریخوں میں سے کسی تاریخ کو اپنانا، مثلا عیسوی تاریخ، جائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا بہتر چیز کو ادنیٰ چیز سے بدلنا ہے۔ لہذا ہم اپنے تمام مسلمان بھائیوں کو اللہ تعالیٰ کا کماحقہ، تقویٰ اختیار کرنے، اس کی اطاعت گزاری پر عمل پیرا ہونے اور اس کی نافرمانی سے دوری اختیار کرنے، دوسروں کو اس کی نصیحت کرنے اور اس کی راہ میں جو بھی دشواری پیش آئے اس پر صبر کرنے کی وصیت کرتے ہیں۔

ہر ناصح مومن جو اپنے نفس کو دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت اور اس کے غضب سے نجات دلانے کا حریص ہو اسے چاہئے کہ اپنے علم اور ایمان کو محقق کرنے کی جدوجہد کرے اور صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہدایت دینے والا، مددگار، حاکم اور ولی (مہربان دوست) بنائے کیونکہ اللہ عزوجل ہی بہترین مولی اور سب سے اچھا مددگار ہے اور کفایت ہے تیرا پروردگار ہدایت دینے والا اور مدد کرنے والا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مندرجہ ذیل دعاء پڑھ کر بارگاہ الٰہی میں التجا کرے:

«اللھم رب جبرائیل و میکائیل و إسرافیل، فاطر السموات والأرض، عالم الغیب و الشھادة، أنت تحکم بین عبادك فیما کانوا فیه یختلفون، اھدني لما اختلف فیه من الحق بإذنك إنك تھدي من تشاء إلی صراط مستقیم»

''اے اللہ! جبرائیل و میکائیل و اسرافیل کے پروردگار، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے، تو ہی اپنے بندوں میں ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ مجھے بھی اپنی اجازت اور حکم سے اس بارے میں ہدایت عطا فرما کہ جس میں راہ حق سے مختلف ہوں کیونکہ بے شک تو ہی جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت فرماتا ہے''

اور سب تعریفیں تمام جہانوں کے پروردگار اللہ کے لئے ہی سزاوار ہیں اور صلاۃ و سلام ہو ہمارے نبی محمدﷺ، ان کی آل ؑاور ان کے صحابہ پرؓ۔

''اللجنةالدائمة للبحوث العلمیة والإفتاء

دستخط عضو... (عبداللہ بن عبدالرحمن الفدیان)

دستخط عضو...( بکر بن عبداللہ ابو زید)

مہر الرئیس... (شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن محمد آل الشیخ)

دستخط عضو... (صالح فوز ان الفوزان)