غیراِسلامی دنیا کی یلغار کا مقابلہ دو قومی نظریہ کے فروغ سے ہی ممکن ہے!

اِسلام اَمن وآشتی،صلح جوئی اوراِتفاق واِتحاد کا مذہب ہے ۔ اسلام کا کلمہ پڑھ لینے والے تمام مسلمان اُخوت ومودّت کے مضبوط رشتے میں پروئے جاتے ہیں اوران کے مابین کسی قسم کے افتراق وانتشار کو ہوا دینا اسلام کی نگاہ میں مذموم ترین فعل ہے ۔ مذہبی گروہ بندیوں اور فرقہ پرستیوں کی اسلام سے تائید تلاش کرنا اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کو اِسلام سے ثابت کرنے کی کوشش کرنا کبھی اسلام کی حقیقی تعبیر نہیں کہلا سکتی ۔ اِسلا م کے نا م لیوا رُحَمَاءُ بَينَهُمْ کے مصداق اور المُؤمن کالجسد الواحد کی تصویر ہونے چاہئیں۔ لیکن اسی اِسلام کو جب دوسری غیر مسلم قوموں سے سابقہ پیش آتا ہے تو وہاں یہ مجموعی اسلامی مزاج یکسر تبدیل ہو جاتا ہے ۔ قرآن کی تعلیمات یہ ہیں کہ غیر مسلم کو کبھی اپنا دوست نہ سمجھو ،وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور اسلام کے خلاف متحد بھی ۔ اللہ کی حکمت ِبالغہ مسلمانوں کو متعدد بار یہ باور کراتی ہے کہ غیر مسلموں سے امن ودوستی کی توقع رکھناایک کارِ عبث ہے۔ کفار اسلام کے مقابلے میں صرف طاقت کی زبان سمجھتے ہیں۔ قرآن میں تُرْهِبُوْنَ بِه عَدُوَّ اللّٰهِ وَعَدُوَّكُمْ سے معلوم ہوتا ہے کہ غیروں پراپنا خوف اور رعب مسلط کیے رکھنا ہی ان کے ساتھ چلنے کا واحد راستہ ہے ۔ اسی طرح غیروں کی عادات واَطوار کو اپنانا بھی اسلامی احکامات کے مطابق ایک سنگین جرم ہے ۔غیر مسلموں سے تشبیہ اسی کے ذیل میں آتی ہے ۔اس اعتبا ر سے کہا جا سکتا ہے کہ اسلام مسلمانوں میں باہم کسی تعصب کا شدید مخالف لیکن غیر مسلموں سے مکمل قومی عصبیت کا داعی ہے ۔

زیر نظر مضمون اسی دو قومی نظریہ کی تعبیر ہے کہ دنیا میں دو ہی قومیں بستی ہیں ،ایک مسلمان اور دوسری کفر کی ملت ِواحدۃ ۔ جب تک یہ حقیقت مسلمانوں کو اَزبر نہ ہوگی، دین ودنیا کی کامیابی ان کے قدم نہیں چومے گی۔ قیامِ پاکستان بھی اس دو قومی نظریہ کی بازگشت تھی ـ۔ گذشتہ چند سالوں کے عالمی تعصب کے آئینہ دار مسلسل عالمی واقعات نے اب بھی امت ِمسلمہ کو قرآن کی ان تعلیمات کی حقانیت از بر نہیں کرائی تو پھر ہمیں اپنی عقل نارسا پر ماتم کرنا چاہیے ۔دو قومی نظریہ کی یہی تعبیر درست اور اسلامی تعلیمات کی آئینہ دار ہے ۔اس پر چل کر آئندہ صدی میں مسلمان کامیابی وکامرانی کی منزل پاسکتے ہیں ۔ اسلامی ممالک کا مضبوط بلاک اور کفر کے مقابلہ میںان کی سیسہ پلائی دیوار ہی ان کی عظمت ِرفتہ دوبارہ لوٹاسکتی ہے۔ گذشتہ نصف صدی میں،جس میں متعدد اسلامی ممالک دنیا کے نقشے پر ابھرے ، ان اسلامی ممالک کے کافر اتحادیوں نے انہیں ذلت وبیکسی ،بے چارگی اوربے وقاری کے سوا کچھ نہیں دیا، جبکہ کفر باوجود مختلف مذاہب ،مختلف زبانیں اور جداگانہ تاریخ کے مختلف اعتبارسے متحد نظر آتا ہے ۔ اورامت ِمسلمہ انہی کے دامن میں جائے عافیت کی تلاش میں در بدر ماری پھر رہی ہے ۔یہ صورتحال ہمارے اور ہمارے رہنمایانِ قوم کے لئے مقامِ تفکر ہے ، من حیث القو م ہمیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ، مسلمان بھائیوں کے ساتھ بھی اور غیرمسلموں کے ساتھ بھی۔ہمارا داخلی تعصب اور اس کے بدترین نتائج آج ہم سب کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں۔ اتحادِ امت ہی وقت کی صدا ہے۔ (حسن مدنی)

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مسلمان تاریخ عالم میں ایک تابناک مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ اسلام کی اپنی ایک منفرد تہذیب ہے، زندگی کے ہر شعبہ میں مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک دنیا کی راہنمائی کی۔ علوم و معارف، فن و ہنر میں تہذیب و تمدن میں، قلم اور تلوار دونوں میدانوں میں مسلمان تمام اَقوامِ عالم سے آگے تھے۔ مگر بدقسمتی سے گزشتہ تین صدیوں سے ماضی کا وقار و جلال کھو چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر چند خامیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ جنہوں نے بحیثیت ِقوم مسلمانوں کو کمزور کر دیا ہے ان میں سے سب سے بڑی خامی تو ایمان کی کمزوری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے

﴿أَنتُمُ الأَعلَونَ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ١٣٩﴾... سورة آل عمران

'' یعنی اگر تم صحیح مومن رہے تو تمہی غالب رہو گے''

دوسری کمزوری جس کی نشاندہی قرآنِ پاک فرماتا ہے، وہ تفرقہ و اِنتشار اور ذاتی و گروہی تعصب ہے: ﴿وَلا تَنـٰزَعوا فَتَفشَلوا وَتَذهَبَ ر‌يحُكُم...٤٦ ﴾... سورة الانفال

''یعنی آپس میں جھگڑا نہ کرو وگرنہ تم کمزور ہوجائو گے اور تمہارا رعب داب جاتا رہے گا''

تیسری کمزوری نبی پاکﷺ نے بیان فرمائی ہے:

'' ایک وقت ہوگا جب مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی مگر دیگر اقوامِ عالم ان پر بھوکے بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑیں گی۔ صحابہؓ نے عرض کیا ''یارسول اللہؐ!کیا اس وقت مسلمانوں کی تعداد تھوڑی رہ جائے گی جو اُن کے ساتھ یہ حادثہ پیش آئے گا تو آپﷺ نے فرمایا: نہیں ،اُن کی تعداد تو بہت ہوگی مگر ان میں ایک بیماری وَھن پیدا ہوجائے گی۔ صحابہ نے سوال کیا یہ وَھن کیا چیز ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:حبّ الدنیا وکراھیة الموت یعنی دنیا سے محبت اور موت سے نفرت''

چنانچہ پورے عالم اسلام پر نظر دوڑا کر دیکھا جائے تو یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ مندرجہ بالا تینوں خامیاں مسلمانوں میں پیدا ہوچکی ہیں۔ یعنی ایمان کی کمزوری، تفرقہ بازی، دنیا سے پیار اور موت سے خوف۔

بیسویں صدی میں، اس عالم انتشار میں مسلمانوں کو اُمید کی ایک بہت بڑی کرن دکھائی دی۔ یہ ۱۹۴۷ء میں قیامِ پاکستان کا معجزہ تھا۔ اس کے پس منظر پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے نعرہ لگایا تھا ''پاکستان کا مطلب کیا : لا إله إلا اللہ''...

اس سے مراد کلمہ طیبہ کا زبانی وِرد نہ تھا بلکہ یہ ایک مکمل نظامِ زندگی کا خلاصہ ہے۔ پاکستان بنانے کا مطلب ہی یہ تھا کہ یہ کلمہ ہماری معاشرت، معیشت اور سیاست کی بنیاد بنے گا۔ لیکن عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ نصف صدی سے زائد گزر جانے کے باوجود ہم اس منزل تک نہیں پہنچ سکے جس کی تلاش میں قوم نکلی تھی۔ اس طرح اُمید کی یہ کرن بھی اس وقت دھندلا چکی ہے۔

عملاً اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے۔ دنیا میں سوا ارب کے قریب مسلمان بستے ہیں۔ دنیا کے بہترین معدنی اور زرعی وسائل مسلمانوں کے پاس ہیں۔ بہترین جغرافیائی پوزیشن مسلمانوں کی ہے کہ مشرق سے مغرب تک تمام مسلم ممالک آپس میں مربوط اور جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا مرکز و محور خانہ کعبہ اِسلامی ممالک کے وسط میں موجود ہے۔ اللہ نے مسلمانوں کو ذہنی و علمی استعداد بھی کافی دے رکھی ہے مگر اس سب کے باوجود مسلمان پریشان حال ہیں۔ وہ پچپن، چھپن(۵۶؍۵۵) ممالک میں بٹے ہوئے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ملکوں کے مسلمان سربراہ اپنے اپنے مفادات کے اَسیر، عیش و عشرت کے دلدادہ اور صرف اپنے اقتدار سے مخلص ہیں۔ یمن جیسا چھوٹا سا ملک بھی شمالی یمن اور جنوبی یمن میں تقسیم ہے اور یہ دونوں مدت سے باہم برسر پیکار ہیں۔ بھارت میں قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک دس ہزار سے زائد مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں۔ پچھلے سالوںبابری مسجد کی شہادت کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا، وہاں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے۔ کشمیر میں ہندوستان کا ظلم و ستم چنگیز و ہلاکو کو بھی مات کر رہا ہے۔ مگر عرب ممالک کے اس کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں۔ وہ ان کے دشمن اسرائیل سے اپنی دوستی کی پینگیں بڑھاتا جارہا ہے۔ مگر پاکستان کے خلاف اس کی دشمنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، مگر عرب ممالک اور ایران، اس کو بڑا بھائی کہتے ہیں۔ اس کی تمام فلم انڈسٹری ان مسلم ممالک کو جاتی ہے۔ اسرائیل جس نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کے تمام ریکارڈ مات کردیئے ہیں۔ اب امریکہ کی چھت تلے خود اسی کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات مستحکم ہو رہے ہیںـ۔

عالم اسلام میں اس وقت کشمیر، فلسطین، بوسنیا، فلپائن، برما، صومالیہ، اریٹیریا اور کوسوواکے مسلمان شدید مظالم کا شکار ہیں۔ UNOجس کا مقصد دنیا میں امن و امان کا قیام تھا، اب روس کے زوال کے بعد امریکہ کی حاشیہ بردار کنیز کا کردار اد کر رہی ہے۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کے لئے اسرائیل کو اور جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لئے بھارت کو تھانیدار کا کردار سونپ دیا ہے۔ اور یورپ میں سربیا کو یہ ذمہ داری سونپ دی ہے کہ وہ بہرصورت بوسنیا کے مسلمانوں کو کیفر کردار تک پہنچائے۔ افغانستان جہاں کے مجاہدین نے کامیاب جہاد کے بعد روس کو ملک سے نکال دینے کا محیر العقول کارنامہ انجام دیا وہاں مسلسل سازشوں کے ذریعے اس کو خانہ جنگی اور باہمی قتل و غارت میں مشغول کر دیا گیا اب خدا خدا کرکے وہاں طالبان کی مسلم حکومت قائم ہوئی ہے تو یہ مغربی ممالک اس کی مخالفت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ روس کی جو چھ مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں اور اسلامی بلاک میں ملنا چاہتی ہیں ان کو عالم اسلام سے دور رکھنے کے لئے امریکہ نے گہری سازشوں کا جال بچھا دیا ہے۔ جو امیر مسلمان ممالک ہیں ان کے وسائل بھی حیلے بہانوں سے مغرب لوٹ کر لے جاتا ہے اور جو غریب مسلم ممالک ہیں ان کو ایڈ کے نام پر سود در سود کے ذریعے اپنا حاشیہ بردار بنا لیتا ہے۔ عالمی مالی اداروں نے تمام مسلمان ممالک کو اپنا غلام بنا رکھا ہے۔ عالمی نیوز ایجنسیاں یہودیوں کے پاس ہیں۔ وہ ذرائع اَبلاغ کے ذریعہ ہمیشہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر ان کی تمام قوت اور وسائل ضائع کرواتے رہتے ہیں ۔

اوپر سے ڈش انٹینا کی وبا اور مغربی ثقافتی یلغار نے تمام مسلم دنیا کو بے حس، بے ضمیر، عیش پرست اور جہاد سے نفرت کرنے والے بنا دیا ہے۔ عالم اسلام میں فحاشی و عریانی اور عیش پرستی کی بڑھتی ہوئی وبا کا یہ المیہ ہے کہ دنیا بھر میں جہاں مسلمان غیروں کے مظالم سے تنگ آکر علم جہاد بلند کرتے ہیں، ان کو دہشت گرد کا خطاب دیا جاتا ہے۔ امریکہ کے حاشیہ بردار مسلمان سربراہ بھی اس کی وفاداری کے جوش میں ان مسلم مجاہدین کا صفایا کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ صدر حافظ الاسد، صدر یاسرعرفات اور حسنی مبارک وغیرہ ، یہ سب لوگ اپنے ہاں مخلص مؤمنوں کو بنیاد پرست اور دہشت گرد کہہ کر ان کا صفایا کرنے میں مشغول ہیں۔ پاکستان نے بھی پچھلے سالوں اپنے نام نہاد آقا کی خوشنودی کے لئے عالم اسلام کے مایہ ناز اور سرمایہ افتخار مجاہدین کو جنہوں نے جہاد ِافغانستان میں مالی اور جانی ہر قسم کا جہاد کیا جو دین کی خاطر اپنی کشتیاں جلا کر یہاں آئے تھے، ان کو اپنے ہاں سے نکال دیا۔ وہ اپنے اپنے ملکوں میں جاتے ہی تہ تیغ کردیئے گئے۔

ہر اسلامی ملک کا سربراہ امریکہ کی ناراضگی کے خوف سے اپنے ملی و ملکی مفادات کا سودا کر رہا ہے۔ پاکستان اسی وجہ سے کشمیر کے رستے ہوئے ناسور کے معاملے میں اپنی اُصولی موقف سے پسپائی اختیار کررہا ہے ۔ اپنی ۵۰ سالہ تاریخ میں ملنے والی عظیم کامیابی کو، جو کارگل اور دراس وغیرہ محاذوں پر پاک فوج او رمجاہدین کو حاصل ہوئی ، ہم نے اپنے بیوقوفی سے ضائع کردیا۔إنا للہ وإنا إلیه راجعون!

تمام اسلامی ممالک میں سیاسی طور پر عدمِ استحکام سے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں کبھی مارشل لاء لگتے ہیں، کبھی منتخب حکومتوں کے تختے الٹے جاتے ہیں،کہیں جمہوریت کے نام پر یہ سب فساد ہوتے ہیں اور کہیں اسلامی بنیاد پرستی سے بچنے کے لئے حکومت کا تختہ الٹا جاتا ہے تاکہ نہ حکومتیں مستحکم ہوں اور نہ ترقی اور رفاہ ِعامہ کا کوئی کام ہوسکے۔ غرضیکہ تمام عالم اسلام کو ہر لحاظ سے پسماندہ رکھنا تمام غیر مسلم قوتوں کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے۔ عیسائی، یہودی، ہندو، دہریے اس مسئلے پر سب متفق ہیں کہ مسلمانوں کو مسلسل پسماندہ رکھا جائے۔ دنیا بھر میں کسی ایک یہودی کو کانٹا چبھ جائے تو اسرائیل فوراً اس کے خلاف ایکشن لیتا ہے، کسی عیسائی کو کچھ ہوجائے تو پورا مغربی پریس چیخ اٹھتا ہے۔ گذشتہ دورِ حکومت میں ایک عیسائی منظور مسیح کو توہین رسالت کے سلسلے میں لوگوں نے اشتعال میں آکر ہلاک کردیا حالانکہ عدالت میں اس کا مقدمہ چل رہا تھا۔ تو یہ مسئلہ مغرب میں اتنا بڑھا کہ صدر پاکستان جناب لغاری امریکہ کے ذاتی دورے پر گئے تو منظور مسیح کے سلسلے میں پوری فائل ساتھ لے کر گئے۔ اس وقت کی وزیراعظم نے باقاعدہ ان کو بریف کیا اور منظور مسیح کے قتل کے تمام اہم نکات بتائے۔اور اب طرہ یہ کہ حالیہ حکومت اپنی تمام اسلام پسندی کے باوجود توہین رسالت کے قانون کو بدلنے کے اِقدامات کررہی ہے۔

میں نہایت دل گرفتگی سے یہ بات کہوں گی کہ امریکہ سیکولر ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ''عیسائی'' ہے۔ ہندوستان سیکولر اور جمہوری ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود ''ہندو'' ہے۔ مگر ہمارے مسلمان ممالک اپنے آپ کو نظریاتی ممالک کہنے کے باوجود اسلامی مملکتیں نہیں ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے۔ ہم ایک عیسائی کے معاملے میں امریکہ کو مطمئن کرنا ضروری سمجھتے ہیں کیا ان کا اتنا خوف ہم پر طاری ہے۔ مگر کیا ان نام نہاد سربراہوں کو یہ پوچھنے کی جرات ہوئی کہ ہمارے یہ مسلمان بھائی کیوں لاکھوں کی تعداد میں ہر جگہ تہ تیغ کئے جارہے ہیں؟ آخر ہماری یہ خوئے غلامی کیا رنگ لانے والی ہے؟

اے عقل چہ می گوئی اے عشق چہ می فرمائی؟


آخر مغرب، یو این او، یورپ، امریکہ، بھارت وغیرہ کا مسلمانوں سے یہ منافقانہ انداز کیوں؟ ... صرف مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے!!!

ایک سرب کرنل نے۱۹۹۳ء میں بوسنیا پر بے پناہ تشدد کرتے ہوئے کہا تھا اور نیویارک ٹائمز نے اسے باقاعدہ شائع کیا تھا ...یہ اقتباس ہر درد ِدل رکھنے والے مسلمان کے لئے غور طلب ہے

''آج اگر اہل مغرب نے بوسنیا کے خاتمہ کے سلسلہ میں ہماری مدد نہ کی تو اگلے ایک یا دو عشروں میں پورا یورپ مسلمانوں کے سائے میں ہوگا۔ ہم وہ پل ہیں جو اس سیلاب کو روکے ہوئے ہے اگر یہ ٹوٹ گیا تو یورپ کو مسلمانوں سے کوئی نہ بچا سکے گا''

دو قومی نظریہ کا فروغ ہی اس صورتحال کا حل ہے

اسلام عالمگیر دین ہے اور خالق کائنات کا یہ تقاضا و منشا ہے کہ ﴿لِيُظهِرَ‌هُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ﴾ کہ ''اس نظامِ زندگی کو پوری کائنات میں نافذ کیا جائے''... اس کے لئے ہمیں ہمارا دین یہ تعلیم دیتا ہے کہ پوری دنیا میں دراصل دو ہی قومیں بستی ہیں۔ ایک مسلمان جو کلمہ طیبہ پڑھنے والے اللہ و رسول کے فرمانبردار ہیں، دوسرے غیر مسلم جو اس کلمہ کو قبول نہیں کرتے۔ وہ خواہ عیسائی یا یہودی، ہندو ہوں یا دہریے، سکھ ہوں یا بدھ، بہرصورت وہ دوسری قوم یعنی غیر مسلم ہیں۔ باقی تمام حد بندیاں جو زبان، رنگ، قوم، ملک قبیلہ، جغرافیہ اور کسی بھی امتیازکی بنا پر دنیا میں قائم ہیں، اسلام کے نزدیک وہ باطل ہیں۔ یہاں صرف ایک حد بندی ہے: مسلمان اور غیر مسلمان کی!

قرآن پاک میں سب مسلمانوں کو حِزب اللّٰہ ''اللہ کی پارٹی'' کہا گیا ہے اور تمام غیر مسلموں کو حِزب الشیطان کہا گیا ہے۔ یعنی اللہ کو نہ ماننے والی شیطانی پارٹی، صحیح ہے:الکفر ملّة واحدة ''سب کافر ایک ہی امت ہیں''

اسلام چونکہ عالمگیر دین ہے لہٰذا ساری دنیا کے مسلمان زبان، رنگ ،نسل ،جغرافیہ کے فرق کے باوجود مسلم اُمت کے افراد ہیں۔ ان سب کے حقوق یکساں ہیں۔ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں اور مساوی حیثیت کے حامل ہیں، امیر و غریب اور شاہ و گدا کا فرق یا عربی و عجمی یا کالے گورے کا فرق ان کے ہاں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا۔ مسلمانوں میں امتیازی شان صرف اس شخص کو شامل ہے جو اللہ سے ڈرنے والا ہے ۔جو جتنا زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا اور کتاب و سنت کا پیروکار ہے اتنا ہی وہ مسلمانوں میں بلند مقام و مرتبہ کا حامل ہے...مسلمانوں کو آپس میں پیار، محبت، اتفاق، ہمدردی اور تعاون سے رہنا ضروری ہے۔ نبی پاک نے فرمایا: ''سب مسلمان آپس میں جسد ِواحد کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک حصہ کو تکلیف ہو تو بیداری اور بخار میں پورا جسم اس کا ساتھ دیتا ہے۔'' قرآنِ پاک کا ارشاد ہے: ''اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ کا شکار نہ ہونا'' (آل عمران: ۱۰۳) ایک اور مقام پر ہے:

''اے ایمان والو! اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا راز دار نہ بنائو وہ تمہیں نقصان پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کرتے۔ تمہیں جس چیز سے نقصان پہنچے وہی ان کو محبوب ہے ان کے دل کا بغض ان کے منہ سے نکلا پڑتا ہے اور جو دشمنی وہ اپنے سینوں میں چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے شدید تر ہے۔ ہم نے تمہیں صاف صاف ہدایات دے دی ہیں اگر تم عقل رکھتے ہو (تو ان سے تعلق رکھنے میں احتیاط برتو گے) (سورۃ آل عمران: ۱۱۸ )

''یہود اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے، جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ تم صاف کہہ دو کہ راہ ِہدایت وہی ہے جو اللہ نے بتائی ہے ورنہ اگر اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو پھر اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مدد گار تمہارے لئے نہیں ہے۔'' (سورۃ البقرۃ : ۱۲۰)

اللہ تعالیٰ کی یہ ہدایات کتنی صاف اور واضح ہیں کہ وہ تمہارے ازلی و ابدی دشمن ہیں لہٰذا ان کا کام تو تمہیں نقصان پہنچانا ہے۔ تم خالص مؤمن بن کر، متحد رہ کر اُن کا مقابلہ کرو۔ ان کو حکمت سے اسلام کی دعوت دو۔ مان لیں تو تمہارے بھائی وگرنہ تمہارے دشمن ، جن کے لئے تمہیں ہر وقت اسلحہ کی قوت فراہم رکھنی چاہئے تاکہ وہ تم سے مرعوب رہیں اور تمہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا سکیں۔٭

حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا کو ایک نظام کی ضرورت ہے، ایک برادری بننے کی ضرورت ہے۔ اس کا واحد حل اسلام کے پاس ہے۔ اسلام ہی عالمگیر دین بھی ہے اور الہامی ہونے کی بنا پر دنیا کے تمام موجودہ مسائل کا بہترین حل بھی اس کے پاس ہے۔ جبکہ دوسرے لوگوں کے پاس انسانی نظام ہیں جو افراط تفریط کا شکار ہونے کی بنا پر دنیا میں فساد انتشار اور بے حیائی پھیلاتے ہیں۔ مغربی تہذیب نے انسانیت کو سوائے فساد کے کچھ نہیں دیا۔ اصلاح اور تعمیر و ترقی کا پروگرام صرف اسلام کے پاس ہے۔ غیر مسلم اس نکتے کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ خود مسلمان اس نکتے سے غافل ہیں۔ آج برطانیہ، امریکہ، روس، جرمنی ہر جگہ اسلام اپنی انہی جاندار الٰہی تعلیمات کی بنا پر تیزی سے پھیل رہا ہے خصوصاً خواتین میں اور پسے ہوئے طبقوں میں ...کاش مسلمان تھوڑی سی غیرت اور حمیت کا ثبوت دیں اور اس دو قومی نظریہ کے پابند ہوجائیں تو بہت جلد عالم اسلام پر مغربی یلغار کا خاتمہ ہوجائے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس دو قومی نظرئیے کے فروغ کے لئے طریق کار کیا ہو تو یہ ذیل میں ترتیب وار پیش کیاجاتا ہے۔

... ہم امریکہ کے نیوورلڈ آرڈر جو دراصل ''جیو(صہیونی) ورلڈآرڈر'' ہے کے جواب میں اسلامک ورلڈ آرڈر قائم کرنے کے لئے مخلص ہوجائیں... یعنی اپنا مسلم بلاک بنائیں۔

(1) ہماری وحدت کی بنیاد پہلے بھی کلمہ طیبہ تھا، آج بھی یہی کلمہ ہم کو متحد کرسکتا ہے۔ توحید خالص پر ایمان و یقین میں اضافہ ہی اصل بنیاد ہے۔ اللہ پر ہمیں توکل ہو، اسی سے ہمیں خوف ہو، وہی ہماری اُمیدوں کا مرکز ہو، اسی کو ہم سب اختیارات کا مالک سمجھیں اور دل و جان سے اس کی پیروی کریں۔آج چونکہ ہمارے ایمان کمزور ہوگئے ہیں، جذبہ توحید سرد پڑ گیا ہے۔ بندگی کا شعور نہیں رہا۔جذب ِجنوں باقی نہیں رہا۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ تو سب باقی ہیں۔ مگر یہ سب ظاہری مظاہر ہیں ہم دن میں کتنی بار ''اللہ سب سے بڑا ہے'' کہتے ہیں مگر عملی زندگی میں ہمارے افسر ہم سے بڑے ہیں، ان سے ہم ڈرتے ہیں۔ حکومت سے ڈرتے ہیں، حکومتیں امریکہ، بھارت اور اسرائیل سے ڈرتی ہیں۔ قرآن پاک میں سورئہ توبہ میں اللہ کا ارشاد ہے

''کیا تم ان سے ڈرتے ہو حالانکہ اللہ بہت حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو''

حقیقت یہ ہے کہ نظریہ کی قوت دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے۔ جتنا ایمان مضبوط ہو اتنا ہی مسلمان جری بہادر، موت سے نہ ڈرنے والے اور کسی غیر سے نہ گھبرانے والے ہوتے ہیں۔

ع گمان آباد ہستی میں یقین مردِ مسلمان کا
بیابان کی شب تاریک میں قندیل رہبانی (اقبالؒ)


(2) اپنے تمام ذاتی اِختلافات بھول کر کلمہ کی بنیاد پر ہمیں متحد ہونا ضروری ہے۔ ہمارا دین ہمیں اتحاد کی بہت زیادہ تلقین کرتا ہے۔ گروہی یانسلی تعصبات تو قرآن پاک کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ کا عذاب ہیں۔ ہم ان فرقہ وارانہ یا ذاتی مفادات کی بنا پر کئی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں جبکہ غیرمسلم دنیا ہمیں سنی، شیعہ، بریلوی، اہلحدیث کی نگاہ سے نہیں دیکھتی ۔نہ وہ ترکی، پاکستانی، عربی، عجمی کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ وہ تمام دنیا کے مسلمانوں کو ایک سمجھتی ہے۔ لہٰذا ہمیں منتشر کرنے کی پوری کوشش کرتی رہتی ہے اور فائدہ خود اٹھاتی ہے۔

نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، صدقات، قربانی غرضیکہ ہر دینی فریضہ ہمیں مل کر دین کی رسی کو تھامنے کا حکم دیتا ہے۔ نماز باجماعت، رمضان میں سب مسلمانوں کے روزے، یہ سب تو مسلمانوں کو متحد کرنے والی چیزیں ہیں۔ غیر مسلم دنیا تو متحد ہونے کے لئے بڑی کوششیں اور زر ِکثیر صرف کرتی ہے پورا یورپ یورپی منڈی بنانے میں مشغول ہے۔ کہیں نیٹو کا معاہدہ کہیں سینٹو کا معاہدہ کہیں روسی بلاک، امریکی بلاک پھر یواین او کے ذریعے مختلف قوموں کا اتحاد ،یہ سب اتحاد بڑی محنت طلب ہے۔ جبکہ مسلمانوں کو حج کے ذریعے اللہ نے ایسا بے مثال پلیٹ فارم عطا کردیا ہے جہاں مسلمان ہر سال اکٹھے ہوکر ایک دوسرے کو اپنا حالِ دل سنا سکتے ہیں، مشورے اور تجاویز پاس ہوسکتی ہیں۔ پورے عالم اسلام کی بہبودی کے لئے مسلمان حکمران سوچ سکتے ہیں۔ حضرت عمرؓ اپنے تمام حکام کو حج کے موقع پر طلب کیا کرتے تھے اور سارے اہم فیصلے حج کے موقع پر کیا کرتے تھے۔

(3) تمام عالم اسلام کا نصاب ِتعلیم یکساں ہونا ضروری ہے جس میں ان کو اسلامی شعائر سے محبت اور وفاداری سکھائی جائے۔ غیر مسلموں کے اعتراضات کا جواب دیا جائے۔ دعوت اور جہاد کے لئے نئی نسل کو تیار کیا جائے۔ان کے ذہنوں میں ملی تشخص اُجاگر کیا جائے، اسی طرح ان کی غلامانہ ذہنیت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اپنی زبان، لباس اور روایات پر فخر کرنا سکھایا جائے۔

... عالم اسلام میں تعلیمی و ثقافتی وفود کا تبادلہ ہوتا رہے۔ تجارتی و اقتصادی رابطے بڑھائے جائیں

... اس اسلامی بلاک کا اپنا اسلامی بینک ہو تاکہ امیر ممالک غیر ممالک کو بلاسود قرضے دیں اور غریب ممالک ان سے بلاسود قومی نوعیت کے پروگرام ترتیب دیں۔

... عالم اسلام کی اپنی نیوز ایجنسی ہو تاکہ غیروں کے ذرائع اَبلاغ سے جو دلوں میں رخنے پڑتے ہیں ، ان کا سد ِباب ہوسکے۔ اس طرح مسلمان حکمران باہم دِگر قریب آسکیں۔

... مسلمان اپنی ثقافت کا پرچار کریں۔ ذرائع اَبلاغ سے اسلامی پروگرام پیش کئے جائیں مسلمانوں کا کلچر اسلام ہے جبکہ مغرب کا کلچر نفس پرستی اور فحاشی۔ انڈین فلموں، گانوں، کیسٹوں اور مغرب کی بلیو پرنٹس کا بائیکاٹ کیا جائے۔

... مسلم ممالک میں آپس میں ویزے اور پاسپورٹ کا طریقہآسان سے آسان کیا جائے۔

... مسلمان مل کر یواین او میں اپنے لئے مستقل دو سیٹوں کا مطالبہ کریں تاکہ عالمی مسائل پر ان کی رائے اور وزن بھی محسوس ہو۔

... دفاع اور اسلحہ میں پیش رفت حاصل کئے بغیر یہ کام مکمل نہیں ہوسکتا۔ جب تک مغرب اسلحہ میں فائق ہے وہ مسلمانوں کو بلیک میل کرتا اور ان کو دونوں ہاتھوں سے نقصان پہنچاتا ہی رہے گا۔ لہٰذا سائنس، ٹیکنالوجی اور اسلحہ میں ترقی مسلمانوں کے لئے بہت ضروری ہے۔مولانا شوکت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے:'' اگر کافروں کے پاس سو میزائل ہیں اور تمہارے پاس ننانوے تو تمہیں روز ِقیامت جواب دینا ہوگا کہ تمہارا ایک میزائل ان سے کم کیوں تھا۔''

... اسلامی حکومتوں کو تبلیغ اسلام کے لئے بے شمار رقوم وقف کرنی چاہئیں۔ امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور دعوت الی الخیر مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے۔

... مسلمانوں پر ظلم کے تدارک کے لئے عالم اسلام کی مشترکہ فوج ہونی چاہئے تاکہ ہر متنازعہ مقام پر فوراً اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے پہنچا جاسکے۔

... وقتاً فوقتاً مسلم سربراہ کانفرنسیں؍ وزراء کانفرنسیں ہوتی رہنی چاہئیں۔ رابطے بڑھنے چاہئیں۔ اسلامی تنظیم کانفرنس کوبہت زیادہ مضبوط اور جاندار بنایا جائے تاکہ عالم کفر من مانی نہ کرسکے۔

غرض مسلمانوںکا مستقبل مخدوش ہے ۔ اس وقت ہماری حالت اس کبوتر کی سے ہے ، جو بلی کوسامنے دیکھ کر اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے ۔

ع مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الا اللہ کے مصداق ، ہم یہ پیغام دیتے ہی رہیں گے ۔ جو عذابِ صلیب ہنودو یہود کے ذریعے ہم پر مسلط کیا جانے والا ہے اس کی جھلکیاں پیش کرنا ضروری ہیں۔ شاید اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں قومِ یونس کی سی تو بہ کرنے کی تو فیق عطا فرمائے !