سورۃ فاتحہ اور نماز کے مسائل٭ گھوڑا حلال ہے٭ خواتین کے مسائل
٭سورۂ فاتحہ اورنماز کے مسائل
٭ گھوڑا حلال ہے؟...اولاد کی باپ کے علاوہ کی طرف نسبت؟
٭عورتوں کا بال کٹوانا؟...خواتین کے مسائل
٭قریب تر کی موجودگی میں دور کے رشتہ دا رکی وراثت
سوال: تکبیر تحریمہ کے بعد نبیﷺ سے کئی دعائیں ثابت ہیں۔ کیا بیک وقت دو یا تین دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں یا صرف ایک وقت میں ایک دعا پڑھنی چاہئے؟
جواب: افتتاحِ صلوٰۃ میں صرف کسی ایک دعا کو اختیار کیا جائے، متعدد اَدعیہ کو جمع کرنا ثابت نہیں
سوال: بیت اللہ ، مسجد ِنبویؐ اور مسجد ِاقصیٰ میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ اور پچاس پچاس ہزار بالترتیب بیان کیا جاتا ہے کیا یہی صحیح ہے یا کم وبیش بھی ثابت ہے؟
جواب: یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی سند میں راوی رُزیق ابوعبداللہ الہانی مختلف فیہ ہے۔ علاوہ ازیں اس سے بیان کرنے والا ابوالخطا ء دمشقی مجہول ہے۔ امام ذہبی ؒمیزان میں فرماتے ہیں ''إنه حدیث منکر جدا'' بحوالہ مشکوٰۃ حاشیہ البانی (۱؍۲۳۴) و مرعاۃ المفاتیح (۱؍۴۹۵)
سوال: حدیث لاصلوٰة لمن لا وضوء له کس کتاب میں ہے،اس کا مکمل متن اور اس کی فنی حیثیت کیا ہے؟
جواب:سنن ابو داود ، کتاب الطهارۃ، باب في التسمیة علی الوضوء اور سنن ابن ماجہ فنی حیثیت؟
سوال: امام منتخب کرنے کے لئے حدیث میں چار صفات بیان ہوئی ہیں۔ مولانا صادق سیالکوٹی ؒ نے سبیل الرسول میں صحیح مسلم کا حوالہ دیا ہے لیکن مجھے وہ حدیث وہاں نہیں ملی۔
امام بخاریؒ نے بخاری شریف میں ایک باب اس طرح قائم کیاہے :باب أھل العلم والفضل أحق بالإمامة'' اوراس باب کے تحت حدیث نمبر ۶۴۲ میں ابوبکرصدیق ؓ کی امامت کا واقعہ بیان فرمایا ہے حالانکہ قرات کے لحاظ سے حضرت اُبی بن کعبؓ سب سے زیادہ قاری تھے ان دونوں احادیث میں مطابقت کس طرح دی جائے گی۔
جواب:مطلوبہ حدیث صحیح مسلم میں ''باب من أحق بالإمامة''کے تحت موجود ہے (ج ۱؍ ص۴۶۵ طبعہ دارعالم الکتاب)۔قصہ ابی بکر ایک مخصوص واقعہ ہے بخلاف ابو مسعود کی حدیث کے ، اس میں ایک قاعدہ کلیہ بیان ہوا ہے جو عموم کا فائدہ دیتا ہے ۔ اَقْرَأ (زیادہ خوبصورت تلاوت کرنے والے)پر علم والے کو مقدم کرنے کا استدلال درست نہیں ۔تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو مرعاۃ المفاتیح؟
سوال:اَحناف سورئہ اعراف کی آیت ﴿وَإِذا قُرِئَ القُرءانُ﴾ سے فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنے کی دلیل لیتے تھے، اسی طرح سورۃ الاحقاف کی آیت ﴿وَإِذ صَرَفنا إِلَيكَ نَفَرًا مِنَ الجِنِّ يَستَمِعونَ القُرءانَ فَلَمّا حَضَروهُ قالوا أَنصِتوا...٢٩﴾... سورة الاحقاف" اور سورۃ القیامہ کی آیت ﴿لا تُحَرِّك بِهِ لِسانَكَ لِتَعجَلَ بِهِ ١٦ ﴾... سورة القيامة" سے بھی کچھ حنفی مولوی یہی دلیل لینے لگے ہیں۔ کیا نبی کریمﷺ، صحابہ ؓ، تابعینؒ یا کسی مفسر نے ان آیات کی اس طرح تفسیر کی ہے؟
جواب:مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی کا تعلق سورئہ فاتحہ کے علاوہ سے ہے کیونکہ نبی کرمﷺ کی ذاتِ گرامی قرآن کی مُبیّن (وضاحت کرنے والی) ہے ۔صحیح احادیث میں آپﷺ کا فرمان ہے کہ ''سورۃ فاتحہ کے بغیر کوئی نمازنہیں'' اور قرآن میں ہے﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّسولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ فَانتَهوا...٧ ﴾... سورة الحشر ''تمہارے لئے رسول اللہﷺ بہترین نمونہ ہیں'' کا تقاضا بھی یہی ہے کہ آپﷺ کے فرمان کے سامنے سر جھکا دیا جائے اور اپنی عقل و فکر کو نبوت کی روشنی کے تابع کردیا جائے، سلامتی اسی میں ہے۔ تفسیر بالرائے کے بارے میں عذاب کی سخت تہدید اور وعید وارد ہے۔
سوال:حدیث مُسیٔ الصلوٰۃ علماء میں معروف ہے جس میں ہے کہ ایک شخص نے آپﷺ کے سامنے نماز پڑھی پھر آکر سلام کیا۔ آپﷺ نے جواب دیا : نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔ تین یا چار مرتبہ نماز پڑھنے کے بعد اس نے سوال کیا کہ مجھے نماز سکھائیں۔ آپؐ نے نماز سکھاتے ہوئے فرمایا پھر پڑھو ''مَا تَیَسَّر من القرآن'' ... بعض لوگ اس کے بجائے ''فَاقْرَء وْا اُمَّ الْقُرْآنِ''کے الفاظ بتاتے ہیں۔ براہِ مہربانی ان الفاظ کی فنی حیثیت ذکر کریں اور اس حدیث کا مکمل متن مع حوالہ تحریر فرمائیں؟
جواب:سنن ابوداود میں رفاعہ کی حدیث میں ہے «ثُمّ اقرأ بأمّ القرآن وبما شاء اللہ أن تقرأ» اسی طرح مسند احمد او رصحیح ابن حبان میں ہے: «إقرأ بأمّ القرآن ثم اقرأ بما شئت» (بحوالہ مرعاۃ المفاتیح ۱؍۵۲۳) اور علامہ البانی ؒفرماتے ہیں: جزء القرآۃ میں امام بخاری میں سند صحیح کے ساتھ وارد ہے کہ آپ نے صاحب ِمُسیٔ الصلوٰۃ کوحکم دیا تھا کہ نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھے (صفۃ الصلاۃ: ص۶۹) ۔ یہ حدیث سنن ابو داود میں مکمل تفصیل سے ہے : «قال إذا قُمتَ فتَوَجَّهتَ إلی القبلةِ فکبِّرْ ثمّ اقْرَأ بِأمِّ القرآن» (کتاب الصلاة : باب من لایقیم صلبه في الرکوع)
سوال:سنن نسائی کی کتاب الافتتاح کے باب النهي عن مبادرة الإمام بالانصراف من الصلوٰة میں اس حدیث کا مفہوم کیا ہے کہ جب امام سلام کے بعد فارغ ہو کر مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھ جائے ،کیا اس کے بعدمقتدیوں کو پھرنا چاہئے ؟
جواب:اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ امام کے مکمل سلام پھیرنے سے قبل مقتدی کو نماز سے فراغت حاصل نہیں کرنی چاہئے بلکہ اس کی پیروی میں ہی نماز سے فارغ ہو نا ضروری ہے ، امام یس سبقت کرنا منع ہے۔ یہاں انصراف کا تعلق نماز سے بعد والی حالت کے ساتھ نہیں بلکہ سلام پھیرنے کی حالت مقصود ہے۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ نفس حدیث میں رکوع، سجود اور قیام کے ساتھ ہی اِنصراف کا ذکر ہے۔ مسئلہ چونکہ آپ نے مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر بتایا تو بظاہر یہ شبہ پڑھتا ہے کہ شاید مقتدیوں کو امام کی بالا کیفیت میں اٹھ کر جانا چاہئے لیکن مراد یہ نہیں کیونکہ سلام پھیرنے کے بعد مقتدی اقتدا سے مکمل طور پر آزاد ہوجاتا ہے ۔ اقتداء کاادنیٰ شبہ بھی باقی نہیں رہتا کہ مقتدی کو نماز سے فراغت کے بعد امام کے ان کی طرف منہ پھیرنے تک بیٹھنے کا پابند بنایا جاسکے۔
سوال: فرض نماز کی آخری رکعتوں میں عموماً صرف سورہ ٔفاتحہ ہی پڑھی جاتی ہے۔ کیا ان رکعتوں میں فاتحہ کے علاوہ کوئی سورت بھی ملائی جاسکتی ہے یا نہیں؟
ج:فرضوں کی آخری رکعتوں میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا جواز ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابوسعید خدری کی روایت اس امر کی واضح دلیل ہے۔ ملاحظہ ہو مشکوٰۃ مع مرعاۃ المفاتیح (۱؍۶۰۲) حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
سوال: داڑھی رنگنے یا نہ رنگنے کے بارے میں کیا حکم ہے۔ عموماً بتایا جاتا ہے کہ مجاہدین کو داڑھی رنگنا چاہئے بلکہ وہ تو کالا خضاب بھی لگا سکتے ہیں ،دوسروں کے لئے جائز نہیں۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ آپﷺ کے خالفوا الیهود والنصاری میں جہاں داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹانے کا حکم ہے وہاں داڑھی رنگنے کا حکم بھی شامل ہے کیونکہ یہودی داڑھیاں بڑھاتے تھے لیکن رنگتے نہ تھے۔ ان کی مخالفت تب ہوتی ہے کہ داڑھی رنگی جائے۔ آپﷺنے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے والد محترم کے متعلق فرمایا تھاکہ ان کی داڑھی کا رنگ تبدیل کردو جس سے عموماً یہی مراد لی جاتی ہے کہ ان کی داڑھی کو رنگ دو لیکن ایک مولوی صاحب فرما رہے تھے کہ وہ بہت بوڑھے ہوچکے تھے آپ کی مراد یہ تھی کہ ان کی داڑھی مت رنگو... یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ سفید داڑھی والے سے شرماتا ہے لہٰذا داڑھی رنگنی نہیں چاہئے۔
داڑھی کو سیاہ خضاب نہ لگانے پر تو علماء کا تقریباً اتفاق ہے لیکن بعض صرف لال مہندی لگانے سے بھی منع کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس میں کوئی اور رنگ بھی ملا لینا چاہئے۔ براہ مہربانی بتائیں کہ کن حالات میں داڑھی رنگنی چاہئے اور کن میں نہیں۔ داڑھی رنگنا ضروری ہے یا اَفضل یا اس کے برعکس؟
جواب:داڑھی رنگنا مستحب ہے لیکن خالص سیاہ کرنے سے بچنا چاہئے اور اگر نہ بھی رنگا جائے تو جواز ہے اس بارے میں وارد دلائل کا خلاصہ یہی ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوفتح الباری (۱۰؍۳۵۱تا۳۵۶، باب مایذکر في الشیب اور باب الخضاب)
سوال:اسلام میں گھوڑے کے گوشت کے بارے میں کیا حکم ہے ۔ دریافت طلب با ت یہ ہے کہ کیا پہلے کھایا جاتا تھا جو بعد میں منع ہوگیا یا صرف جنگ کی حالت میں جائز ہے یا عام حالات میں بھی جائز ہے۔ فقہ کی معتبر کتاب کون سی ہے؟ کیا فقہ کی کتب میں بھی گھوڑا کھانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:فتح الباری (۹؍۶۵۱) پر حافظ ابن حجر ؒ نے الفاظِ حدیث رَخَّص اور اَذِن پر بحث کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ظاہربات یہ ہے کہ گھوڑا ،گدھا اور خچر 'برا ء تِ اصلیہ ' پر تھے یعنی حلال ، جب زمانہ خیبر میں شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گدھے اور خچر کے کھانے سے منع کردیا تو یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ لوگ کہیں یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ گھوڑا بھی ان کی طرح حرام ہوگیا کیونکہ ان کے مشابہ ہے تو آپ نے گدھے اور خچر کی حرمت کے علاوہ گھوڑے کے کھانے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
اس بنا پر بعض علماء کا یہ کہنا کہ گھوڑا پہلے حرام تھا پھر حلال ہوگیا ،اس نظریہ کی مذکورہ وجہ کی بنا پر موافقت کرنا مشکل امر ہے۔ یہ بات بھی درست نہیں کہ بعد میں منع ہوگیا، ممانعت کی کوئی روایت ثابت نہیں۔ جہا ں تک حالت ِجنگ میں جواز کا تعلق ہے تو ایسا درست نہیں بلکہ امام مالک ؒنے جہاد کی وجہ سے اس کا کھانا مکروہ سمجھا ہے تاکہ گھوڑوں میں کمی واقع نہ ہوجائے۔ اس صورت میں کراہت کا تعلق خارجی اَمر سے ہوگا۔ جبکہ یہاں زیر بحث مسئلہ ذاتُ الشیٔ ہے خارجی اَمر نہیں ۔ صحیح بات یہی ہے کہ عام حالات میں اس کے کھانے کا جواز ہے۔فقہ کی مشہور کتاب المغنی (۱۳؍۳۲۴) میں بھی مطلقاً اباحت نقل کی گئی ہے چنانچہ فقیہ ابن قدامہ فرماتے ہیں وتباح لحوم الخیل کلھا یعنی تمام گھوڑوں کے گوشت مباح ہیں۔
سوال:ایک آدمی نے بیوی کے وفات پانے پر دوسری شادی کر لی، فوت شدہ بیوی سے دو بچیاں اور دو بچے ہیں جبکہ دوسری بیوی سے بھی ایک بچہ اور ایک بچی ہے ۔کچھ دنوں بعد وہ آدمی فوت ہوگیا۔ وفات کے بعد جائیداد منقسم ہوگئی۔ تقسیم جائیداد کے بعد پہلی بیوی سے ایک غیر شادی شدہ بچہ فوت ہوگیا ۔اس کی جائیداد کے حقدار دوسری بیوی کے بچے ہوں گے یا پھر اس کا ایک حقیقی بھائی ہی حقدار ہے؟
جواب : پہلی بیوی کے بچوں میں سے ایک غیر شادی شدہ بچے کی وفات کی صورت میں اس کا ایک حقیقی بھائی اور دو حقیقی بہنیں وارث ہیں اور دوسری بیوی کی اولاد کا اس وراثت میں کوئی حصہ نہیں کیونکہ ان کا تعلق میت سے یکطرفہ ہے جبکہ پہلے فریق کا آپس میں تعلق دو طرفہ ہے۔ یعنی ماں اور باپ دونوں کی طرف سے دو قرابتوں والا اُس سے مقدم ہے جس کی صرف ایک قرابت ہے ۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے «ألحقوا الفرائض بأھلھا فما بقي فلأولی رجل ذَکر» یعنی ''حقدار کو اس کا مقررہ حصہ دے کر باقی میت کے قریب ترین مرد کے لئے ہے''
سوال:ہماری الجھن یہ ہے کہ ہمارے ایک بزرگ کا اکلوتا جوان بیٹا فوت ہونے کے بعد کوئی اولاد نہ ہوئی اوران کی بیوی نے اپنے ہی بھائی کے دو بچے لڑکی اور لڑکا گود لے لیا۔ پڑھایا لکھایا، بچی کی شادی کی گئی، لا علمی یا خوشی سے کاغذات، اَسناد وغیرہ میں ان کی ولدیت اپنے (بزرگ کی) ہی لکھی جاتی رہی۔ اب محسوس ہوا کہ یہ غلط ہوا ہے بچوں کی ولدیت اصل باپ کی طرف ہونی چاہئے تھی۔
جواب : سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵ کے مطابق بچوں کا انتساب حقیقی باپ کی طرف ہونا چاہئے۔ لیکن مفسر قتادہ ؒنے کہا: اگر اصلی باپ معروف ومعلوم ہو تو دوسرے کی طرف نسبت کا کوئی حرج نہیں۔ قرآنی حکم نازل ہونے کے بعد بھی حضرت مقداد کی نسبت حقیقی باپ عمرو کے بجائے نسبت ِتبنی (لے پالک) الاسود ہی جاری و ساری رہی۔ کتب ِاحادیث میں بلا نکیر محدثین نے اس کا استعمال کیا ہے۔ بطورِ مثال ملاحظہ ہو (صحیح بخاری کتاب النکاح ،الأکفاء في الدین)
حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں: واشتھرت شھرتہ بإبن الأسود، الإصابۃ (۳؍۴۳۴) اس کی شہرت ابن اسود کے ساتھ ہی رہی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شہرت کی بنا پر موجودہ انتساب کو باقی رکھا جاسکتا ہے لیکن اصل یہی ہے کہ حقیقی باپ کی طرف نسبت کی جائے جس طرح نص قرآنی میں ہے
سوال: کیا عورت بغیر شرعی عذر کے حسن و جمال کے لئے بال کٹوا سکتی ہے؟
بعض لوگ عورت کے بال کٹوانے کے حق میں ایک حدیث ِصحیح مسلم اور ایک حدیث ِابوداود پیش کرتے ہیں۔ کیا ان کا یہ استدلال درست ہے؟
جواب: بلا کسی معقول عذر کے عورت کو سر کے بال نہیں کٹوانے چاہئیں۔ عورت کا اصل حسن و جمال اسی میں ہے جیسا کہ عربوں کے اَشعار سے یہ بات عیاں ہے( تفسیر اضواء البیان :۵؍۵۹۸) صحیح مسلم وغیرہ کی روایت اس باب میں واضح نہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ازواجِ مطہرات کا خاصہ ہو جس طرح کہ نووی نے شرح مسلم میں تصریح کی ہے یا مقصود اس سے صرف جوڑا کرنا ہو جس طرح کہ صاحب المرعاۃ نے تو جیہ کی ہے ۔اس موضوع پر میرا ایک تفصیلی فتویٰ الاعتصام میں شائع شدہ ہے اس طرف مراجعت نہایت مفید ہے۔