تفسیر تیسیر الرحمٰن لبَیان القرآن
ہند کے معروف صاحب ِعلم ، صوبہ بہار کے جامعہ ابن تیمیہ کے سرپرست اعلیٰ محترم جناب ڈاکٹر محمدلقمان سلفی تیسیر الرحمن لبیان القرآن کے نام سے ایک تفسیر لکھ رہے ہیں جو تکمیل کے مراحل میں ہے۔بنیادی طور پر یہ تفسیر سلفی اسلوب ومنہج کی حامل ہے جس میں قرآن کریم کوقرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ ائمہ سلف کی تشریحات کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ممتاز مفسر کی مخصوص صلاحیت، مہارت او رذوق ومیلان کے مطابق اس تفسیر کے بعض امتیازات ہیں جن کا جائزہ اگرچہ ایک مستقل موضوع ہے تاہم اس کے بارے میں چند اہم تبصرے محدث کی آئندہ اشاعت میں ہدیۂ قارئین ہوں گے۔ان شاء اللہ...فی الحال اہل علم کے مطالعہ کے لئے محدث کے ان اوراق میں ڈاکٹر لقمان سلفی کی مرتب کردہ اس تفسیر سے سورئہ فاتحہ کی مکمل تفسیر تعارف کے طو رپر پیش کی جارہی ہے ۔
ڈاکٹر محمد لقمان سلفی سعودی عرب کی معروف یونیورسٹی جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ کی المعہد العالي للقضاء (جوڈیشل انسٹیٹیوٹ ) سے پی ایچ ڈی ہیں ۔ عربی ، اردوکے علاوہ انگریزی میں بھی کافی دسترس رکھتے ہیں۔ ایک عرصہ مفتی ٔاعظم سعودی عرب شیخ ابن باز کی ترجمانی کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ اس اعتبار سے شیخ ابن باز کی تربیت اور علمی رہنمائی سے بھی انہیں حظ ِوافر نصیب ہوا ہے۔ آپ کی زیر نظر تفسیر حسن ترتیب او رواضح اسلوبِ بیان سے مزین ہے جس میں متعلقہ مسائل کو اختصار کے ساتھ نکات وار جمع کرنے کی اچھی کوشش کی گئی ہے ۔ بعض اختلافی مسائل کی شافی وضاحتیں بھی اپنے مقام پر موجود ہیں۔ (محدث)
سورۂ فاتحہ
(1) یہ سورت مکی ہے یا مدنی ؟ مکی ان سورتوں کو کہتے ہیں جو ہجرت سے قبل نازل ہوئیں ، اور مدنی ان کو جو ہجرت کے بعد نازل ہوئیں ۔ اکثر مفسرین کے نزدیک سورۂ فاتحہ ہجرت سے پہلے نازل ہوئی ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سورۂ فاتحہ دوبار نازل ہوئی ۔ پہلی بار مکہ مکرمہ میں اور دوسری بار ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ۔ لیکن راجح یہی ہے کہ یہ صرف ایک بار، ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ۔
(2) اس کے کئی نام ہیں : قرآ ن کریم اور احادیث نبویہ میں اس سورت کے کئی نام آئے ہیں امام قرطبی ؒنے اس کے بارہ نام بتائے ہیں ۔ جو مندرجہ ذیل ہیں :
1) الصَّلاة :جیسا کہ حدیث ِقدسی میں آیا ہے :"قسمتُ الصَّلاة بيني وبين عبدي نصفين" یعنی میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے ۔ اس حدیث میں صلاۃ سے مراد سورۂ فاتحہ ہے ۔ اس سورت کا ابتدائی نصف حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنااور اس کی ربوبیت ، الوہیت اور ملوکیت کا اعتراف ہے ، اور دوسرا نصف حصہ اللہ سے دعا ومناجات ہے ۔
2) الحمد : اس لئے کہ اس سورت میں حمد کا ذکر ہے ۔
3) فاتحة الكتاب: اس لئے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت ، مصحف کی کتابت اور نماز کی ابتدااِسی سورت سے ہوتی ہے ۔
4) اُمُّ الكتاب: امام بخاری ؒنے کتاب التفسیر کے شروع میں لکھا ہے کہ اس کا نام اُمُّ الكتاب اس لئے ہے کہ مصحف کی کتابت اور نماز میں قراء ت کی ابتدا اِسی سے ہوتی ہے ۔ ایک توجیہ اس کی یہ بھی کی گئی ہے کہ اس سورت میں قرآنِ کریم کے تمام معانی ومضامین کا ذکر اجمالی طور پر آگیا ہے ۔
5) اُمّ القرآن : امام ترمذی نے ابوہریرہ ؓسے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :سورۂ الحمدللہ اُمُّ القرآن ہے ،اُمُّ الكتاب ہے اور سبع مثاني ہے ۔
6) السّبع المثاني : اس لئے کہ یہ سورت سات آیتوں پر مشتمل ہے، اور نماز کی ہر رکعت میں ان آیتوں کا اِعادہ ہوتا ہے ۔
7) القرآن العظيم :اس لئے کہ اس میں تمام قرآنی علوم کا ذکر کیا گیا ہے ۔
8) الشّفاء: امام دارمی نے ابو سعید خدری ؓسے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : في فاتحة الكتاب شفاء من كل داء یعنی سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر بیماری کے لئے شفا رکھی ہے ۔
9) الرُّقية : یعنی ' دَم ' اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ نے اُس صحابی سے جس نے ایک سردارِ قبیلہ پر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اوراُس کے جسم سے سانپ کا زہر اُتر گیا تھا ، کہا کہ تجھے کس نے بتایا کہ یہ 'دم' ہے ؟ تو صحابی نے کہا :یارسول اللہ! میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی تھی ۔
10 ) الأساس : امام شعبیؒ نے حضرت ابن عباس ؓسے روایت کی ہے کہ قرآن کی اساس سورۂ فاتحہ ہے ، جب کبھی بیمار پڑو تو اس سورت کے ذریعہ شفا حاصل کرو ۔
11) الوافية: سفیان بن عیینہؒ کہتے ہیں کہ نماز میں سورۂ فاتحہ کی تقسیم نہیں ہوسکتی ۔ یعنی دیگر سورتوں کی طرح اسے نصف نصف دو رکعتو ں میں پڑھنا جائز نہیں، اس لئے اس کا نام الوافيةہے ۔
12) الكافية: یحییٰ بن ابی کثیرؒ کہتے ہیں کہ یہ سورت دوسری سورتوں کے بدلے میں کافی ہو جاتی ہے ۔ لیکن دوسری سورتیں اس کے بدلہ میں کافی نہیں ہوتی ہیں ، اس لئے اس کا نا م "الكافية"ہے ۔
(2) سورۃ الفاتحہ کی فضیلت : یہ سورت قرآنِ کریم کی عظیم ترین سورت ہے۔ اس کی فضیلت میں نبی کریم ﷺکی کئی صحیح حدیثیں آئی ہیں ۔ یہاں کچھ حدیثوں کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے:
1) ترمذی اور نسائی نے اُبی بن کعب ؓسے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
''اللہ تعالیٰ نے تورات وانجیل میں اُمّ القرآن یعنی سورۂ فاتحہ جیسی سورت نہیں اُتاری ۔ اِسی کو سبع مثاني بھی کہتے ہیں ''
2) مسند احمد میں ہے کہ ابوسعید بن المعلی ؓکو رسول اللہ ﷺ نے کہا کہ میں تجھے مسجدسے نکلنے سے پہلے قرآنِ کریم کی عظیم ترین سورت سکھاؤں گا ۔پھر آپ نے اُنہیں سورۂ فاتحہ کی تعلیم دی ۔ اِس حدیث کو امام بخاری ، ابوداود ، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے ۔
3) امام مالک نے موطا ٔمیں روایت کیا ہے کہ ابو سعید مولیٰ عامر بن کریز نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺنے اُبی بن کعب ؓسے کہا : میں تجھے مسجد سے نکلنے سے قبل ایک ایسی سورت بتاؤں گا جیسی تورات وانجیل میں نہیں اُتاری گئی ، اور نہ ہی قرآن میں ویسی کوئی دوسری سورت ہے ۔ پھر آپ ﷺ نے پوچھا کہ جب نماز کی ابتدا کرتے ہو تو کیا پڑھتے ہو ؟ انہوں نے الحمد للہ ربّ العالمین پڑھی ، آپ نے فرمایا: یہی وہ سورت ہے ۔
4) امام احمد نے عبد اللہ بن جابر ؓسے ایک حدیث روایت کی ہے ، جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کی سب سے بہترین سورت سورۂ فاتحہ ہے ۔
5) اس سورۂ کریمہ کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ اِسے پڑھ کر پھونکنے سے سانپ کے کاٹے کا زہر اللہ کے حکم سے اُتر جاتا ہے ۔
''امام بخاری نے ابو سعید خدری ؓسے روایت کی ہے کہ ہم ایک بار سفر میں تھے ۔ ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو ایک لڑکی آئی اور بتایا کہ قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈَس لیا ہے اور ہمارے لوگ باہر گئے ہوئے ہیں ، کیا آپ لوگوں میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ تو ہم میں سے ایک آدمی اُٹھ کر گیا ، جس کے بارے میں ہم لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ دَم کرنا جانتا ہے ۔ اُس نے دم کیا تو سانپ کا زہر اُتر گیا ۔ اس نے اسے تیس بکریاں دیں اور ہم سب کو دودھ بھی پلایا ۔ جب وہ واپس آیا تو ہم نے اُس سے پوچھا کہ کیا تم 'دَم ' کرنا جانتے تھے ۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں نے تو صرف سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ہے ۔ ہم نے کہا کہ بکریوں کے معاملہ کو ایسے ہی رہنے دو یہاں تک کہ ہم رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لیں ۔ جب ہم مدینہ آئے اورآپ (ﷺ) سے پوچھا ،تو آپ ؐنے فرمایا کہ اسے کیسے معلوم ہوا کہ سورۂ فاتحہ 'دَم' ہے ۔ تم لوگ ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کرتے وقت میرا بھی ایک حصہ رکھنا ۔ اس حدیث کو امام مسلم اور امام ابوداود نے بھی روایت کیا ہے۔ ... صحیح مسلم کی بعض روایتوں میں ہے کہ دم کرنے والے ابو سعید خدری ؓ ہی تھے ۔''
6) امام مسلم اور نسائی نے ابن عباس ؓسے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان تشریف فرما تھے اور جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس موجود تھے کہ اوپر سے ایک آواز سنائی دی ، جبرئیل علیہ السلام نے آسمان کی طرف نظر اُٹھائی اورکہا کہ آسمان کایہ دروازہ آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا اس سے ایک فرشتہ اُترا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو دو نور دیئے جانے کی خوشخبری دیتا ہوں ۔ جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے : سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں ۔ ان کا ایک حرف بھی آپ پڑھیں گے تو اس کا بدل آپ کو دیا جائے گا۔
7) سورۂ فاتحہ کی فضیلت اس سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہوگی ۔ نبی کریم ﷺنے اس بات کو تین بار دہرا یا۔اس حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ' نماز ' ( یعنی سورۂ فاتحہ ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے، اور میں اپنے بندے کو وہ دیتا ہوں جو وہ مانگتا ہے ( مسلم ، نسائی ، موطا ٔ، مسند احمد )
(4) نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا امام اور مقتدی سب پر واجب ہے :نبی کریم ﷺ کی صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر کوئی نماز قبول نہیں ہوتی ۔
جن حضرات نے نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنا واجب نہیں سمجھا ہے، اُن کی مشہور دلیلیں یہ ہیں :
الف) اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے :﴿وَإِذا قُرِئَ القُرءانُ فَاستَمِعوا لَهُ وَأَنصِتوا لَعَلَّكُم تُرحَمونَ ٢٠٤﴾... سورة الاعراف" یعنی جب قرآن پڑھا جائے توخاموشی اختیار کرو اور دھیان سے سنو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ حکم عام ہے اور نماز میں قرا ء ت ِفاتحہ کے وجوب سے متعلق حدیثیں خاص اور بہت ہی واضح اور صریح ہیں اور اس آیت کی تخصیص کرتی ہیں ۔
ب ) ان کی دوسری دلیل رسول ا للہ ﷺ کا یہ قول ہے : مالي أنازع القرآن یعنی کیا بات ہے کہ نماز میں لوگ میرے ساتھ قرآن پڑھتے ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا :« لاتفعلوا إلاّ بأُمّ القرآن فإنّه لاصلاة لمن لم يقرأ بها» یعنی سورۂ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھو ، کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ ( ابو داود ، ترمذی ، نسائی )
ج ) ان کی تیسری مشہور دلیل یہ حدیث ہے : «من كان له إمام فقرائة الإمام له قرأة» یعنی اگر کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراء ت اُس کی قراء ت ہوگی ۔اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں محدثین کا کلام ہے، وجوب ِقراء تِ فاتحہ والی صحیح احادیث کے ہوتے ہوئے یہ قابل قبول نہیں ۔ لیکن اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ وجوبِ قراء ت والی حدیثیں اس کی تخصیص کرتی ہیں ۔ یعنی جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ کی قراء ت کے بعد امام کی قراء ت مقتدی کی قراء ت ہی ہوگی ۔
اب آئیے ، ان احادیث صحیحہ پر ایک نظر ڈالی جائے جن کی بنیاد پر محدثین کرام کی کثیر تعداد نے فاتحہ کی قراء ت کو امام اور مقتدی سب کے لئے واجب قرار دیا ہے :
1) ابوہریر ہؓ کی حدیث جو اُوپر گذر چکی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : ''جس نے کوئی نماز پڑھی اور اُس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہوگی ''۔ حضور نے یہ بات تین بار دہرائی ۔ ابوہریرہؓ سے کہا گیا کہ ہم لوگ تو امام کے پیچھے ہوتے ہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ آہستہ پڑھ لیا کرو ۔ کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو کہتے سنا ہے : اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ میں نے نماز(سورہ ٔ فاتحہ ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے ۔ ( مسلم ، نسائی ، موطا ٔ، مسند احمد )
2) ابو ہریرہ ؓہی کی دوسری حدیث کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : '' وہ نماز کفایت نہیں کرتی جس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے'' ( صحیح ابن خزیمہ )
3) عبادہ بن صامت ؓکی حدیث کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
'' اُس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا '' ( متفق علیہ )
4) ابوہریرہ ؓکی روایت ہے کہ مجھے اللہ کے رسول ﷺ نے یہ اعلان کردینے کا حکم دیا :
«لاصلاة إلاّ بقرائة فاتحة الكتاب فما زاد» ( ابوداود )
یعنی'' نماز صحیح نہیں ہوتی جب تک سورۂ فاتحہ اور قرآن کا کچھ اور حصہ نہ پڑھا جائے ''
یہی قول صحابہ کرام میں عمر بن خطاب ، عبد اللہ بن عباس ، ابوہریرہ، اُبی بن کعب ، ابو ایوب انصاری ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص ، عبادہ بن صامت ، ابو سعید خدری ، عثمان بن ابی العاص ، خوات بن جبیر اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم وغیرہم کا ہے ۔ اور ائمہ کرام میں شافعی ، احمد ، مالک ، اوزاعی وغیرہم کی یہی رائے ہے ۔ یہ سبھی حضرات نماز کی ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کی قراء ت کو واجب قرار دیتے ہیں ۔
أعوذ بالله من الشيطن الرّجيم
'' میں اللہ تعالیٰ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگتا ہوں ''
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بندوں کو مردود شیطان کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے ۔ فرمایا : ﴿خُذِ العَفوَ وَأمُر بِالعُرفِ وَأَعرِض عَنِ الجـٰهِلينَ ١٩٩ وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطـٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ ۚ إِنَّهُ سَميعٌ عَليمٌ ٢٠٠﴾... سورة الاعراف ... اورفرمایا:﴿وَقُل رَبِّ أَعوذُ بِكَ مِن هَمَزٰتِ الشَّيـٰطينِ ٩٧ وَأَعوذُ بِكَ رَبِّ أَن يَحضُرونِ ٩٨﴾... سورة المؤمن اور فرمایا :
﴿ادفَع بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ فَإِذَا الَّذى بَينَكَ وَبَينَهُ عَدٰوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَميمٌ ٣٤ وَما يُلَقّىٰها إِلَّا الَّذينَ صَبَروا وَما يُلَقّىٰها إِلّا ذو حَظٍّ عَظيمٍ ٣٥ وَإِمّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيطـٰنِ نَزغٌ فَاستَعِذ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ العَليمُ ٣٦﴾... سورة فصلت
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو شیطان سے پناہ مانگنے کی نصیحت کی ہے ، کیونکہ جنوں کا شیطان ، انسان کا ایسا دشمن ہے جو کسی بھی بھلائی اور احسان کو نہیں مانتا ، اور ہر وقت اُس کے خلاف سازش میں لگا رہتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی صحیح احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے کہ مسلمان کی زندگی میں اللہ کے ذریعہ شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگنے کی بڑی اہمیت ہے ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رات کو نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، پھر کہتے : «سبحانك اللّهم ربّنا وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدُّك ولا إله غيرك» پھر تین بارلاإله غيرك کہتے ، پھرکہتے:«أعوذ بالله السميع العليم من الشيطان الرجيم من همزه ونفخه ونفثه» (ابوداود ، نسائی ، ترمذی ، ابن ماجہ )
عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کہا کرتے تھے :
«اللّهم إنّي أعوذبك من الشيطان الرجيم من نفخه ونفثه» ( ابن ماجہ )
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ''دو آدمی نے رسول اللہ ﷺکے پاس آپس میں گالی گلوچ کیا ۔ اُن میں سے ایک آدمی اتنا زیادہ غصہ ہوا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کی ناک غصہ سے پھٹ جائے گی ، آپ نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں جسے اگر وہ کہے تو اُس کا غصہ ختم ہوجائے ۔معاذ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! وہ کون سا کلمہ ہے ؟ تو آپ ( ﷺ) نے فرمایا ،یوں کہے : اللّهم إنّي أعوذ بك من الشيطان الرجيم ( احمد ، ابوداود ، ترمذی ، نسائی ) اسی حدیث کو حافظ ابو یعلی موصلی نے اُبی بن کعب سے روایت کیا ہے ۔
قرآنِ کریم کی تلاوت سے پہلے شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم
عام حالات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بات کا خاص طور پر حکم دیا ہے کہ جب وہ قرآن کریم کی تلاوت کرنا چاہیں تو پہلے اللہ کے ذریعہ شیطان مردود کے شر سے پناہ مانگ لیں ۔ سورۃ النحل میں ہے : ﴿فَإِذا قَرَأتَ القُرءانَ فَاستَعِذ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيطـٰنِ الرَّجيمِ ٩٨ ﴾... سورة النحل
کہ '' جب تم قرآن پڑھو تو اللہ کے ذریعہ مردود شیطان سے پناہ مانگ لو ''
اسی آیت کے پیش نظر جمہور علماء کا قول ہے کہ نماز کے علاوہ دیگر حالات میں قراء تِ قرآن کی ابتدا سے پہلے اَعوذ باللہ پڑھنا مستحب ہے ۔ حالت ِ نماز کے بارے میں راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ بسم اللہ اور سورۂ فاتحہ سے قبل اَعُوْذُ بِاللّٰہِ سری یا جہری طور پر پڑھ لیا جائے ۔ کیونکہ یہ آیت قرا ء ت ِ قرآن کی تمام حالتوں کو شامل ہے ۔
بِسْـمِ اللَّهِ الرَّحْمـنِ الرَّحِيـمِ کس سورت کی آیت ہے؟
صحابہ کرام نے حضرت عثمان ؓکے زمانے میں جو مصحف تیار کیا اور جس کی تمام صحابہ کرام نے تائید وتوثیق کی ، اُس مصحف میں سورۂ برا ء ت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں بسم اللہ لکھی گئی ۔ اُس مصحف میں کوئی بھی ایسی چیز نہ لکھی گئی جو قرآنِ کریم کا حصہ نہ تھی ۔ نہ سورتوں کے نام لکھے گئے ، نہ ہی آیتوں کی تعداد اور نہ کلمہ ٔ آمین ۔ تاکہ کوئی شخص غیرقرآن کو قرآن نہ سمجھ لے ، اِس تمام تر احتیاط کے باوجود 'بسم اللہ' صرف ایک سورت کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں لکھی گئی ، جن کی تعداد ایک سو تیرہ ہے ۔ یہ اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ'بسم اللہ' سورۂ نمل کی ایک آیت کا بعض حصہ ہونے کے علاوہ ایک مستقل آیت بھی ہے جو رسول اللہ ﷺ پر ہر سورت کی ابتدا سے پہلے اُترا کرتی تھی ۔ اور اسی کے ذریعہ آپ ﷺ جان پاتے تھے کہ ایک سورت ختم ہوگئی ، اب دوسری سورت کی ابتدا ہونے والی ہے ۔ اس کی تائیدحضرت ابن عباس ؓکی روایت سے ہوتی ہے کہ '' رسول اللہ ﷺ ایک سورت کی انتہا اور دوسری سورت کی ابتدا اُس وقت تک نہیں جانتے تھے جب تک '' بسم اللہ الرحمن الرحیم'' نئے سرے سے نازل نہیں ہوتی تھی ''۔ اس حدیث کو ابوداود ؒاور حاکم ؒنے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے ۔
یہاں تک یہ بات ثابت ہوگئی کہ ' بسم اللہ' قرآنِ کریم کی ایک آیت ہے ۔ اِس کے بعد علمائِ کرام کا اختلاف رہا ہے ۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ سورۂ برا ء ت کے علاوہ یہ ہر سورت کی ایک آیت ہے، تو گویا سورۂ فاتحہ کی بھی ایک آیت ہے ۔ امام مالک ، ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ یہ نہ تو سورۂ فاتحہ کی آیت ہے نہ ہی کسی دوسری سورت کی ۔ داود ؒظاہری کا خیال ہے کہ ہرسورت کی ابتدا میں یہ ایک مستقل آیت ہے، لیکن کسی سورت کا حصہ نہیں ہے۔
بسم اللہ بآوازِ بلند پڑھی جائے یا آہستہ ؟
اس اختلاف کی وجہ سے جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ کوبآوازِ بلندپڑھنے کے بارے میں ائمہ کرام کا اختلاف ہوگیا ہے ۔ جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سورۂ فاتحہ کی ایک آیت نہیں ، یہ ایک مستقل آیت ہے ، کسی سورت کی آیت نہیں ، وہ کہتے ہیں کہ جہری نمازوں میں بسم اللہ آہستہ پڑھی جائے گی ۔ اور جو حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ سورۂ برا ء ت کے علاوہ ہر سورت کی آیت ہے ۔ اُن میں امام شافعی اسے جہری نمازوں میں سورۂ فاتحہ اور ہر سورت کے پہلے بآوازِ بلند پڑھنے کے قائل ہیں ۔ ان لوگوں نے ابوہریرہ ، ابن عباس ،اور اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہم وغیرہم سے مروی احادیث سے استدلال کیا ہے، جن میں اس بات کی صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورۂ فاتحہ سے پہلے' بسم اللہ' بآوازِ بلند پڑھی ( دیکھئے تفسیرابن کثیروفتح القدیر)
لیکن خلفائِ اربعہ ، احمد بن حنبل اور سفیان ثوری وغیرہم کی رائے ہے کہ نماز میں بسم اللہ بآوازِ بلند نہیں پڑھی جائے گی ۔ان لوگوں نے امام مسلم کی حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت کردہ حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنماز میں قراء ت ، الحمد للہ ربّ العالمین سے شروع کرتے تھے ۔ اسی طرح صحیحین کی حضرت انس بن مالک ؓسے روایت کردہ حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ ، ابو بکر ؓ، عمرؓ، اور عثمان ؓکے پیچھے نماز پڑھی ، یہ حضرات ابتدا اَلحمد للہ ربّ العالمین سے کرتے تھے ۔
چونکہ دونوں ہی قسم کی حدیثیں صحیح ہیں ۔ اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بسم اللہ کبھی آہستہ پڑھی اور کبھی بآوازِ بلند ، اور جس صحابی نے جیسا دیکھا ،ویسا بیان کیا ۔بہتر یہی ہے کہ کبھی آہستہ پڑھی جائے اور کبھی بآوازِ بلند، تاکہ دونوں قسم کی حدیثوں پر عمل ہوجائے۔ اور ائمہ کرام کا اس پر اتفاق بھی ہے کہ چاہے بسم اللہ بآواز بلند پڑھی جائے یا آہستہ ، نماز کی صحت میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ۔
بسم اللہ کی فضیلت
قرآنِ کریم کی کئی آیتوں اور کئی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کی زندگی میں بسم اللہ کی بڑی اہمیت ہے ۔ اور کوئی بھی کام کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا باعث ِخیر وبرکت اور اللہ کی نصرت وحمایت اور تائید وحفاظت کا سبب ہے ۔
مسند احمد کی روایت ہے کہ بسم اللہ کہنے سے شیطان ذلیل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ مکھی کی مانند حقیر بن جاتا ہے ۔ اسی لئے کھانے پینے ، جانور ذبح کرنے ، بیوی سے مباشرت کرنے ، وضو کرنے ، اور بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے اور تمام دوسرے کاموں کے کرنے سے پہلے بسم اللہ کہنا مستحب ہے ۔
بسم اللہ کا معنی
یعنی'' میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان ، بے حد رحم کرنے والا ہے ''
حافظ ابن کثیر ؒنے لکھا ہے کہ آدمی جب کوئی کام شروع کرنا چاہے تو اس کی ابتدا کرتے وقت نیت کرے کہ میں اس کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرتا ہوں ۔
' اللہ' ربّ العالمین کا مخصوص نام ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اسم اعظم ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دیگر تمام صفات اسی مخصوص نام کے وصف کے طور پر بیان ہوئی ہیں ۔ ربّ العالمین کے علاوہ دوسروں کے لئے اس نام کا استعمال جائز نہیں ۔ ' الرحمن ' اور'الرحیم ' دونوں اللہ کی صفتیں ہیں اور رحمت سے ماخوذ ہیں ، دونوں میں مبالغہ پایا جاتا ہے ۔ ' الرحمن ' میں 'الرحیم' سے زیادہ مبالغہ ہے۔اسی لئے مفسرین نے لکھا ہے کہ ' الرحمن ' رحمت کے تمام اقسام کو عام ہے اور دنیا وآخرت میں تمام مخلوق کو شامل ہے جبکہ ' الرحیم ' مؤمنین کے لئے خاص ہے۔اللہ نے فرمایا : ﴿وَكانَ بِالمُؤمِنينَ رَحيمًا ٤٣ ﴾... سورة الاحزاب
بعض علمائِ تفسیر ' الرحمن ' کو تو ' احسانِ عام ' کے لئے مانتے ہیں ۔ یعنی اللہ کی رحمت اس کی تمام مخلوقات کے لئے عام ہے ، لیکن ' الرحیم ' کو مؤمنین کے لئے خاص نہیں مانتے ۔ انہوں نے ان دونوں صفات کی ایک بڑی اچھی توجیہ بیان کی ہے جو عربی زبان کے مدلول کے بالکل موافق ہے ۔ وہ کہتے ہیںکہ لفظ ' الرحمن' سے مراد وہ ذات ہے جس کی نعمتوں کا فیض عام ہے ،لیکن یہ فعل عارضی بھی ہوسکتاہے ۔ کیونکہ عربی میں اِس وزن کے اوصاف فعل کے عارضی ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔ اور لفظ ' الرحیم ' دائمی اور مستقل صفت ِ رحمت پر دلالت کرتا ہے ۔ اِس لئے جب عربی زبان کا سلیقہ رکھنے والا آدمی اللہ تعالیٰ کی صفت ( ا لرحمن ) سنتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ ذات جس کی نعمتوں کا فیض عام ہے لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ رحمت اُس کی دائمی صفت ہے ۔ اس کے بعد جب وہ الرحیم سنتا ہے تو اسے یقین کامل ہوجاتا ہے کہ رَحمت اس کی دائمی اور ایسی صفت ہے جو اس سے کبھی جدا ہونے والی نہیں ( محاسن التنزیل : ۲؍۶)
یہاں ایک اور بات ذکر کردینے کے قابل ہے کہ الرحمن، نام اللہ کے ساتھ خاص ہے ۔ غیراللہ کے لئے اس نام کا استعمال جائز نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلِ ادعُوا اللَّهَ أَوِ ادعُوا الرَّحمـٰنَ ۖ أَيًّا ما تَدعوا فَلَهُ الأَسماءُ الحُسنىٰ...١١٠﴾... سورة الاسراء" جبکہ الرحیم غیر اللہ کی صفت (اس کی حیثیت وکیفیت کے مطابق ) بن سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے: ﴿بِالمُؤمِنينَ رَءوفٌ رَحيمٌ﴾ یعنی وہ مؤمنوں کے ساتھ شفقت ورحمت کا سلوک کرنے والے ہیں ۔ ( التوبہ : ۱۲۸)
اللہ کے اسماء وصفات پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ائمہ سلف کے نزدیک یہ متفق علیہ قاعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات پر اور اُس کی صفات پر مرتب شدہ اَحکام پر ایمان لانا واجب ہے ۔ قرآنِ کریم میں اور نبی کریم ﷺ کی صحیح احادیث میں اللہ کے جو اسماء وصفات ثابت ہیں، اُن پر اسی طرح ایمان لانا ضروری ہے جس طرح ثابت ہیں ، نہ اُن کی کیفیت بیان کی جائے گی اور نہ ہی اُن کی تاویل کی جائے گی اور نہ اُنہیں معطل قرار دیا جائے گا ۔ امام مالک ؒ سے جب اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا :'' استوامعلوم ہے، اُس کی کیفیت مجہول ہے ، اُس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے ، اور اُس پر ایمان رکھنا واجب ہے ۔''
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات پر جو اَحکام مرتب ہوتے ہیں اُن پر بھی ایمان لانا ضروری ہے ۔ مثلاً 'الرحمن' اور' الرحیم' اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ، تو یہ ایمان رکھنا ہوگا کہ اللہ بڑا ہی رحمت والا اور بہت ہی مہربان ہے ، اسے ہرچیز کا علم ہے ۔ یہی قاعدہ تمام صفاتِ الٰہیہ کے بارے میں جاری ہوگا ۔ سلف صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے اور اسی طریقہ کو اختیار کرنے میں ہر بھلائی ہے ۔
... سورۂ فاتحہ مکی ہے ، اس میں سات آیتیں ہیں ...
ترجمہ سورۃ فاتحہ: ''میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان ، بے حد رحم کرنے والا ہے [۱] سب تعریفیں (۱) اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہاں کا پالنے (۲)والا ہے [۲]نہایت مہربان(۳)بے حد رحم کرنے والا ہے [ ۳] قیامت کے دن کا مالک (۴)ہے [۴] ہم تیری ہی عبادت (۵) کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں [۵]ہمیں سیدھی راہ(۶) پر چلا [۶] ان لوگوں کی راہ پر جن پر(۷) تونے انعام کئے ۔ ا ن کی راہ نہیں جن پر تیرا غضب (۸) نازل ہوا ، اور نہ ان کی جو گمراہ (۹) ہوگئے''[۷]
(1) لفظ ' حمد' کا ترجمہ تعریف کرنا ہے ۔ حمد اور شکر میں فرق یہ ہے کہ حمدصرف زبان سے ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ کسی نعمت کے مقابلہ میں ہو ۔ جبکہ شکر زبان ، دل اور دیگراعضا کے ذریعہ کسی نعمت اور داد ودہش پر ہوتا ہے ۔ اور اس پر اَلْ استغراق وشمولیت کا مفہوم پیدا کرنے کے لئے داخل کیا گیا ہے ۔ یعنی حمد وثنااور تعریف وتوصیف کی وہ تمام قسمیں جوآسمان وزمین کے درمیان ہو سکتی ہیں، وہ سب اللہ کے لئے ہیں ۔ ابن جریر لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تعریف خود بیان کرکے اپنے بندوں کو تعلیم دی ہے کہ وہ اس کی تعریف بیان کریں ۔
امام ابن قیمؒ نے اپنی کتاب طريق الهجرتين میں لکھا ہے کہ ہر اعلیٰ صفت ، ہر اچھے نام ، ہر عمدہ تعریف ، ہر حمد ومدح ، ہر تسبیح وتقدیس اور ہر جلال وعزت کی جو کامل ترین اور دائمی اور ابدی شکل ہوسکتی ہے، وہ سب اللہ کے لئے ہے ۔ اللہ کی جتنی بھی صفتیں بیان کی جاتی ہیں ، جتنے ناموں سے اس کو یاد کیا جاتا ہے ، اور جو کچھ بھی اللہ کی بڑائی میں کہا جاتا ہے ، وہ سب اللہ کی تعریفیں ہیں اور اُس کی حمد وثنا اور تسبیح وتقدیس ہے ۔ اللہ ہر عیب سے پاک ہے ، ساری تعریفیں اس کے لئے ہیں ، مخلوق کا کوئی فرد اس کی تعریفوں کو شمار نہیں کرسکتا ۔
(2) الرَّب کا معنی ہے ، وہ آقا جس کی اطاعت کی جائے ، وہ مالک جو تصرفِ کلی کا حق رکھتا ہے ، وہ ذاتِ برتر وبالا جو مخلوق کی اصلاحِ احوال کے لئے ہر تصرف کا حق رکھتی ہے ۔ اَل ْکے اضافہ کے ساتھ الرَّب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔مخلوق کے لئے اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے مثلاً ربُّ الداربمعنی گھر والا ، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں کہا ہے : { ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ } اپنے آقا کے پاس لوٹ کر جاؤ ( سورئہ یوسف : ۵۰ )
العالمین عالم کی جمع ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر چیز پر اُس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عالَم کا اِطلاق اِنس وجن اور ملائکہ وشیاطین پر ہوتا ہے ۔ بہائم 'عالم' میں داخل نہیں ۔ اللہ تعالیٰ سارے جہان والوں کا آقا ومالک اور اُن میں تصرف کرنے والا ہے ۔ ربّ کا ایک معنی ' مربی' بھی کیا گیا ہے ، بایں طور کہ وہ تربیت سے مشتق ہو، یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کا بطورِ عام اور بطورِخاص مدبر ومربی ہے
بطورِعام مربی اس طرح ہے کہ اس نے تمام خلائق کو پیدا کیا ، ان کو روزی دی ،اور ان امور کی طرف رہنمائی کی جو دنیاوی زندگی کے لئے نافع ہیں ۔ اور بطورِ خاص اپنے اولیا ء کا مربی ہے ، یعنی ایمان کے ذریعہ اُن کی تربیت کرتا ہے ، انہیں ایمان کی توفیق دیتا ہے اور صاحب کمال بناتا ہے ۔ اور اُن رکاوٹوں کو دور کرتا ہے ، جو اُس کے اور اُن اولیاء کے درمیان حائل ہوسکتے ہیں ۔ یعنی اُنہیں ہر خیر کی توفیق دیتا ہے اور ہر شر سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اور غالباً یہی راز ہے کہ انبیاء کرام کی تمام دعائیں کلمہ الرَّب سے شروع ہوتی ہیں ۔ اس لئے کہ اُن کے تمام مطالب اللہ کی ربوبیت ِخاص کے ضمن میں آتے ہیں ۔
اس تمام تر تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ صفت ِ خلق وتدبیرِعالم اور صفت ِ کمالِ بے نیازی وتمامِ نعمت میں اللہ تعالیٰ منفرد ہے اور آسمان وزمین کی تمام مخلوق ہراعتبار سے اُس کی محتاج ہے ۔
(3) ان دونوں صفاتِ الٰہیہ پر کلام بسم اللہ کی تفسیر کے ضمن میں گذر چکا ، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ دونوں صفتیں چونکہ اللہ کی رحمت پر دلالت کرتی ہیں ،اس لئے بندے کے لئے ان میں ایک طرح کی ترغیب ہے ۔ جبکہ صفت'ربوبیت' میں ترہیب وتخویف ہے ۔ اس سورت میں اللہ نے ترہیب وتر غیب دونوں کو جمع کردیا ہے، تاکہ بندہ اپنے معبود کی اطاعت وبندگی کی طرف زیادہ راغب ہو ، اور اس کا اپنی زندگی میں زیادہ اہتمام کرے۔
(4) اللہ تعالیٰ جس طرح قیامت کے دن کا مالک ہے ، اُسی طرح وہ دوسرے تمام دنوں کا مالک ہے ۔ یہاں قیامت کے دن کا ذکر بالخصوص اس لئے آیا کہ اُس دن تمام مخلوقات کی بادشاہت ختم ہوجائے گی ۔ تمام شاہانِ دنیا اور ان کی رعایا ، تمام آزاد وغلام اور چھوٹے بڑے سب برابر ہوجائیں گے اور صرف ایک اللہ کی ملوکیت وبادشاہت باقی رہے گی ، سبھی اُس کے جلال وجبروت کے سامنے سرنگوں ہوں گے، اس کی جنت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہوں گے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿لِمَنِ المُلكُ اليَومَ ۖ لِلَّهِ الوٰحِدِ القَهّارِ ١٦﴾... سورة غافر''قیامت کے دن اللہ پوچھے گا : آج کس کی بادشاہت ہے ۔ پھر خود ہی جواب دے گا : صرف اللہ کی ، جو ایک ہے اور قہار ہے''
قیامت کے دن کويوم الدين اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اعمال کے جزا کا دن ہوگا ، جس نے اِس دنیا میں جیسا کیا ہوگا ، اُسے اُس کا بدلہ مل کر رہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :﴿يَومَئِذٍ تُعرَضونَ لا تَخفىٰ مِنكُم خافِيَةٌ ﴿١٨﴾... سورة الحاقة" جس دن تم لوگ اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤگے ، اُس دن تم سے کوئی چیز مخفی نہ رہے گی
'عبادت' کا لغوی معنی ہے : ذلت اور خشوع وخضوع ۔ شریعت ِ اسلامیہ میں عبادت ہر اُس عمل کو کہتے ہیں ، جس میں اللہ کے لئے کمالِ محبت کے ساتھ انتہائی درجہ کا خشوع وخضوع اور خوف شامل ہو ۔
'استعانت' کا مفہوم یہ ہے کہ حصولِ نفع اور دفع ضرر کے لئے اللہ تعالیٰ پر پورا پورا بھروسہ کیا جائے ،اس یقین کے ساتھ کہ وہ اسے ضرور پورا کرے گا ۔
(5) اس آیت ِکریمہ میں عبادت واستعانت دونوں کو اللہ کے لئے خاص کیا گیا ہے اور اللہ کے علاوہ تمام مخلوقات سے اُن کی نفی کی گئی ہے ۔ عربی زبان میں اگر مفعول کو فعل پر مقدم کردیا جائے تو حصر کا معنی دیتا ہے ، یعنی اُس فعل کو اسی مفعول کے ساتھ خاص کردیا جاتا ہے ، اور دوسروں سے اُس کی نفی ہوجاتی ہے ، تو گویا آیت کا معنی یہ ہوا کہ ''ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتے ، ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے علاوہ کسی سے مدد نہیں مانگتے''
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ انسان اپنے آپ کو ہر ایک کی غلامی سے آزاد کرکے ایک اللہ کا بندہ بنادے ، اُس کے ساتھ کسی چیز کو عبادت میں شریک نہ کرے ، نہ اُس جیسی کسی سے محبت کرے ، اور نہ اُس جیسا کسی سے ڈرے ، نہ اُس جیسی کسی سے اُمید رکھے ، صرف اُسی پر توکل کرے ، نذرونیاز، خشوع وخضوع ، تذلل وتعظیم اور سجدہ وتقرب سب کامستحق صرف وہ ہے ، جس نے آسمان وزمین کو پیدا کیا ہے ۔
لیکن انسان نے ہمیشہ ہی اس تعلیم کو پس پشت ڈالا، اور اللہ کے ساتھ غیروں کو شریک بنایا ، غیروں سے مدد مانگی ، شرک کے ارتکاب کے لئے بہانے تلاش کئے ، اور اللہ کے بجائے انبیاء ، اولیاء ، صالحین اور قبروں میں مدفون لوگوں سے مدد مانگی ۔
نبی کریم ﷺ کی نبوت پر ایمان قوی ہوجاتا ہے ، جب ہم آپ ﷺ کے فرمان کو یاد کرتے ہیں کہ :'' اے لوگو ! اس شرک سے بچو ، یہ چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ چیز ہے ۔'' ( مسند احمد )
حافظ ابن قیم ؒفرماتے ہیں کہ
'' بندہ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہر نماز میں﴿إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ ٥﴾... سورة الفاتحة" کہے ، اس لئے کہ شیطان اُسے شرک کرنے کا حکم دیتا ہے اور نفس انسانی اس کی بات مان کر ہمیشہ غیر اللہ کی طرف ملتفت ہوجاتا ہے ، اس لئے بندہ ہر دم محتاج ہے کہ وہ اپنے عقیدۂ توحید کو شرک کی آلائشوں سے پاک کرتا رہے ۔''
حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ
''ہم تیری تو حید بیان کرتے ہیں، اے ہمارے ربّ!اور تجھ ہی سے ڈرتے ہیں، اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں، تیری بندگی کرنے کے لئے اور اپنے تمام اُمور میں'' ۔
'عبادت' اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُسی وقت قابل قبول ہوگی ، جب وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہو ، اور اُس سے مقصود اللہ کی رضا ہو ۔
توحید کی تین قسمیں
اس سورت میں توحید کی تینوں قسموں کو اختصار کے ساتھ بیان کردیا گیاہے :
1) توحید ِربوبیت: ﴿رَبِّ العـٰلَمينَ﴾ سے ماخوذ ہے ، توحید ِ ربوبیت یہ ہے کہ آسمان وزمین اور اس میں پائی جانے والی تمام مخلوقات کا خالق ورازق اور مالک ومدبر صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔
2) توحید ِ اُلوہیت: لفظالله اور ﴿إِيّاكَ نَعبُدُ وَإِيّاكَ نَستَعينُ﴾ سے ماخوذ ہے ، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ عبادت کی جتنی قسمیں ہوسکتی ہیں ، ان سب کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے ۔
3) توحید اسماء وصفات : کلمہ ٔ ﴿الْحَمْدُ﴾سے ماخوذ ہے ، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں اور رسول اللہ ﷺ نے صحیح احادیث میں اللہ کے جتنے اسماء وصفات ثابت کئے ہیں ، اُن کو اسی طرح مانا جائے ، نہ ان کا انکار کیا جائے ، نہ اُن کی مثال بیان کی جائے ، اور نہ ہی کسی غیر اللہ کے ناموں اور صفات کے ساتھ تشبیہ دی جائے ۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے عرش پر مستوی ہونے کے بارے میں پوچھا گیاتو انہوں نے کہا :"الإستواء معلوم ، والكيف مجهول والسؤال عنه بدعة والإيمان به واجب" یعنی استوا معلوم ہے ، اس کی کیفیت مجہول ہے، یعنی یہ نہیں معلوم کہ اللہ کے عرش پر مستوی ہونے کی کیا کیفیت ہے ، اور اس کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے ، یعنی اسلاف کرام کبھی اس کی کُرید میں نہ پڑے ، اور اس پر ایمان لانا واجب ہے ۔
(6) اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے ، اور اس کے لئے کمالِ خشوع وخضوع اور اپنی انتہائی محتاجی ومسکنت کے اظہار کے بعد ، بندے کے لئے اب یہ بات مناسب معلوم ہوئی کہ اپنا سوال اس کے حضور پیش کرے اور کہے کہ اے اللہ صراطِ مستقیم کی طرف میری رہنمائی کر !!
'ہد ایت' کا معنی : رہنمائی اور توفیق ہے اور صراط مستقيم سے مراد وہ روشن راستہ ہے جس میں کجی نہ ہو ، جو اللہ اور اس کی جنت تک پہنچانے والا ہو اور یہ قرآن وسنت کی راہ ہے ۔مجاہد ؒکہتے ہیں کہ اس سے مراد راہِ حق ہے۔ ابو العالیہ سے روایت ہے کہ اس سے مراد نبی کریم ﷺ اور ان کے بعد ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔
اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سبھی اَقوال صحیح ہیں ، اس لئے کہ جس نے نبی اکرم ﷺ کی اتباع کی ، اور ان کے بعد ان کے صاحبیَن کی اقتدا کی ، اس نے حق کی اتباع کی، اور جس نے حق کی اتباع کی ، اس نے اسلام کی اتباع کی ، اور جس نے اسلام کی اتباع کی اس نے قرآن کی اتباع کی ۔ اور یہی قرآن کریم اللہ کی کتاب ہے ، اُس کی مضبوط رسی اور اس کی سیدھی راہ ہے ۔
نواس بن سمعانؓ نے رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا ہے کہ
''اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم ( سیدھی راہ ) کی ایک مثال بیان کی ہے ، اس راہ کے دونوں جانب دو دیواریں ہیں ، ان میں کچھ دروازے کھول دیئے گئے ہیں ۔ ان دروازوں پر پردے لٹکا دیئے گئے ہیں ، اور سیدھی راہ پر ایک پکارنے والا کہہ رہا ہے : اے لوگو ! سیدھی راہ پر گامزن ہوجاؤ اور اس سے انحراف نہ کرو ۔ایک اور پکارنے والا سیدھی راہ کے اُوپر سے پکار رہا ہے ، جب کوئی آدمی ان دروازوں میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہتا ہے تو وہ کہتا ہے ، دیکھو اسے نہ کھولو، اگر تم نے اِسے کھول دیا ، تو اس میں داخل ہوجاؤگے ۔ وہ سیدھی راہ'اسلام' ہے ۔دونوں دیواریں اللہ کے مقرر کردہ حدود ہیں ۔ کھولے گئے دروازے اللہ کی حرام کردہ امور ہیں اور سیدھی راہ کے سرے پر موجود پکارنے والا اللہ کی کتاب ہے ، اور '' سیدھی راہ کے اُوپر سے پکارنے والا '' اللہ کی طرف سے ہر مسلمان کے دل میں موجود خیر کی دعوت دینے والا جذبہ ہے '' ( مسند احمد، ترمذی ، نسائی )
مفسرین نے لکھا ہے کہ بندۂ مؤمن ہدایت پر ہونے کے باوجود، اس کا محتاج ہے کہ وہ ہر نماز میں اللہ سے رُشد وہدایت کا سوال کرتا رہے ، تاکہ اللہ تعالیٰ اسے صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رکھے اور دوام واِستمرار بخشے ۔ اس لئے آیت کا معنی یہ ہوگا کہ '' اے اللہ ہمیں صراط ِمستقیم پر قائم رکھ، اور اس کے علاوہ کسی اور راہ کی طرف نہ پھیر دے !!''
امام راغب اصفہانی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ 'ہدایت' کا معنی قول وعمل میں اچھائیوں اور بھلائیوں کی طرف رہنمائی کرنا ہے ۔ اور اللہ کی طرف سے اس کا ظہور کئی منازل میں ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے بعد بالترتیب حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی پہلی منزل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو وہ قوتیں عطا کرتا ہے جن کی بدولت وہ اپنے منافع ومصالح تک پہنچ پاتا ہے ، جسے انسان کے حواسِ خمسہ اور اس کی فکری قوت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَعطىٰ كُلَّ شَىءٍ خَلقَهُ ثُمَّ هَدىٰ ٥٠ ﴾... سورة طه" یعنی اللہ نے ہرچیز کو پیدا کیا پھراس کی رہنمائی کی ۔اس کی دوسری منزل : انبیاء کی بعثت اور دعوت الی اللہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَجَعَلنا مِنهُم أَئِمَّةً يَهدونَ بِأَمرِنا...٢٤﴾... سورة السجدة" اور ہم نے ان میں اماموں کو پیدا کیا جو ان کی رہنما ئی کرتے ہیں ۔ تیسری منزل : وہ روشنی ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو کثرتِ عبادت وعمل خیر کے سبب عطا فرماتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَالَّذينَ جـٰهَدوا فينا لَنَهدِيَنَّهُم سُبُلَنا...٦٩﴾... سورة العنكبوت" اور جو لوگ ہماری راہ میں جد وجہد کرتے ہیں ہم اپنی راہ کی طرف اُن کی رہنمائی کرتے ہیں ( الانعام : ۱۹۰) ۔ چوتھی منزل : دخولِ جنت کو ممکن بنانا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَنَزَعنا ما فى صُدورِهِم مِن غِلٍّ تَجرى مِن تَحتِهِمُ الأَنهـٰرُ ۖ وَقالُوا الحَمدُ لِلَّهِ الَّذى هَدىٰنا لِهـٰذا وَما كُنّا لِنَهتَدِىَ لَولا أَن هَدىٰنَا اللَّهُ...٤٣﴾... سورة الاعراف" یعنی ہم نے ان کے دلوں سے کینہ کو نکال دیا ، جنت میں اُن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ، اور وہ کہیں گے کہ ساری تعریفیں اُس اللہ کے لئے ہیں جس نے اس جنت کی طرف ہماری رہنمائی کی
قرآنِ کریم کی آیات کے تتبع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت بمعنی 'دعوت ورہنمائی ' سب کے لئے عام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَإِنَّكَ لَتَهدى إِلىٰ صِرٰطٍ مُستَقيمٍ ٥٢﴾... سورة الشورى"اور آپ ﷺ صراطِ مستقیم کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ۔لیکن'' ہدایت'' بمعنی توفیق اور جنت میں داخل کرنا ، سب کو نصیب نہیں ہوتا،اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿إِنَّكَ لا تَهدى مَن أَحبَبتَ وَلـٰكِنَّ اللَّهَ يَهدى مَن يَشاءُ...٥٦﴾... سورة القصص" یعنی آپ جس کو چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے ، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے ۔
'ہدایت'کے مذکورہ بالا معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے مفسرین نے ﴿اهدِنَا الصِّرٰطَ المُستَقيمَ ٦﴾... سورة الفاتحة" کی تفسیر کئی طرح سے کی ہے ۔ کسی نے کہا کہ :'ہدایت' سے مراد عام ہدایت ہے ، اور ہمیں دُعا کا حکم اس لئے دیا گیا ہے ، تاکہ ہمارے ثواب میں اضافہ ہو۔ کسی نے اس کی تفسیر کی : ہمیں راہِ شریعت پر چلنے کی توفیق دے ۔ تیسر ا قول یہ ہے : گمراہ کرنے والوں ، شہوتوںاور شبہات سے بچا ۔چوتھا قول ہے : ہمیں مزید ہدایت دے ۔ پانچواں قول ہے : ہمیں علم حقیقی ( نور ) عطا فرما ۔ چھٹا قول ہے : ہمیں جنت دے ۔اور صحیح بات تو یہ ہے کہ یہاں ہدایت کی یہ تمام قسمیں مراد لی جاسکتی ہیں ، کیونکہ ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ۔ وباللہ التوفیق !
(7) اس میں' صراطِ مستقیم ' کی تفسیر بیان کی گئی ہے ، کہ'صراطِ مستقیم ' سے مراد اُن لوگوں کی راہ ہے جن پراللہ کا انعام ہوا، یہی وہ لوگ ہیں جن کا ذکر سورۂ نساء میں آیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسولَ فَأُولـٰئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنعَمَ اللَّهُ عَلَيهِم مِنَ النَّبِيّـۧنَ وَالصِّدّيقينَ وَالشُّهَداءِ وَالصّـٰلِحينَ ۚ وَحَسُنَ أُولـٰئِكَ رَفيقًا ٦٩﴾... سورة النساء" یعنی جولوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کریں گے ، وہ اُن کے ساتھ ہوں گے، جن پر اللہ نے انعام کیا یعنی انبیاء وصدیقین اور شہداء وصالحین کے ساتھ ہوں گے ، اور یہ لوگ بڑے ہی اچھے ساتھی ہوں گے ۔ یہ لوگ اہل ہدایت واستقامت ہوتے ہیں ، اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرتے ہیں ، اوامر کو بجا لاتے ہیں اور منکرات ومنہیات سے باز رہتے ہیں ۔
(8) اِس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جن کی نیتیں فاسد ہوگئیں ، جنہوں نے حق کو پہچان کر اس سے اِعراض کیا ، ایسے لوگوں میں پیش پیش ہمیشہ یہود رہے ۔ جنہوں نے تورات میں موجود دلائل کی روشنی میں اسلام اور رسول اللہﷺ کی صداقت کا یقین کرلیا ، لیکن عداوت وعناد کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کیا اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہیں لائے ۔
(9) اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے اسلام اور رسول اللہ ﷺ کی صداقت کا علم حاصل نہیں کیا ، اور گمراہی میں بھٹکتے رہے ۔ایسے لوگوں میں پیش پیش نصاریٰ رہے ۔ عدی بن حاتم ؓسے ایک طویل حدیث مروی ہے ، جس میں انہوں نے اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کیا ہے ، اس میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ﴿المَغضوبِ عَلَيهِم﴾ سے مراد یہود اور﴿الضّالّينَ﴾سے مراد نصاریٰ ہیں
ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ مفسرین کے درمیان ا س میں کوئی اختلاف نہیں کہ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم سے مراد یہود اورالضَّالِّينَ سے مراد نصاریٰ ہیں ۔
مفسرین نے لکھا ہے کہ ﴿وَلَا الضّالّينَ﴾میں لاتاکیدکے لئے ہے ، سامع کے دل میں یہ بات بٹھانے کے لئے کہ یہاں پر دو الگ الگ پُرفساد راستوں کا ذکر ہے ۔ایک یہود کا راستہ اور دوسرا نصاریٰ کا ۔ تاکہ اہل ایمان دونوں راستوں سے بچیں۔یہود نے حق پہچاننے کے بعد اس کی اتباع نہیں کی ، اس لئے اللہ کے غضب کے مستحق بنے ۔ اور نصاریٰ نے حق کو پہچانا ہی نہیں ، کیونکہ انہوں نے اُس راہ کو اختیار ہی نہیں کیا ، جس پر چل کر آدمی حق پاتا ہے ، اس لئے وہ گمراہ ہوگئے ۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ سبھی گمراہ ہیں اور اُن سب پر اللہ کا غضب ہے ۔ لیکن یہود اللہ کے غضب کے ساتھ، اور نصاریٰ ضلالت وگمراہی کے ساتھ مشہور ہوگئے ۔
آمین!
نماز میں سورۂ فاتحہ کے بعد آمین کہنا مستحب ہے، جہری نمازوں میں بآوازِ بلنداور سرّی نمازوں میں آہستگی کے ساتھ۔ آمین کا معنی ہے : اے اللہ قبول فرما ۔ وائل بن حجر ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے﴿غَيرِ المَغضوبِ عَلَيهِم وَلَا الضّالّينَ ٧ ﴾... سورة الفاتحة"پڑھا اور اپنی آواز کھینچ کر آمین کہا ۔ ابوداود کی ایک روایت ہے کہ آپ ﷺنے بلند آواز سے آمین کہی۔ امام ترمذی کے نزدیک یہ حدیث 'حسن'ہے۔ اور اسی قسم کی روایات علی ، ابوہریرہ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہم سے بھی مروی ہیں ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب﴿غَيرِ المَغضوبِ عَلَيهِم وَلَا الضّالّينَ ٧ ﴾... سورة الفاتحة" پڑھتے تو 'آمین' کہتے ، یہاں تک کہ صف ِ اوّل میں اُن کے آس پاس کے لوگ سنتے ۔ ( ابوداود )
ابوہریرہ ؓہی کی ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ :
جب امام 'آمین' کہے تو تم بھی کہو ، اس لئے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے گی ، اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے '' ( بخاری ومسلم )