پروفیسر محمد طاہر القادری کے متنازعہ افکار وکردار
انہی دنوں پروفیسر صاحب موصوف پانچ سال بعد کینیڈا سے پاکستانی سیاست میں وارد ہوکر متحرک ہوچکے ہیں۔ عام انتخابات سے عین قبل ان کی سیاسی سرگرمیوں، عوامی استقبال اورلانگ مارچ کے حوالے سے ہر ذہن میں نت نئے شبہات پائے جاتے ہیں۔ میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر بھی ان کے بارے میں مضامین اور مباحثے سامنے آرہے ہیں۔ ان کا ماضی اور حال کیا رہا ہے؟ جس کی روشنی میں ان کے مستقبل کی تصویر ہرکوئی دیکھ سکتا ہے۔ ان کی شخصیت اور کارناموں کا ایک مختصر اور چشم کشا جائزہ ہدیۂقارئین ہے۔ح م
پیدائش اور تعلیم
'محمد طاہر القادری' 19 فروری 1951ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ان کا کسی مکتبہ فکر سے تعلق نہیں ہے، لیکن اپنی تقریر وتحریر میں بریلوی مسلک کی صریح حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کے والد محترم کا نام پروفیسر فرید الدین قادری ہے اور وہ 'سیال' خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ 1975ء میں 24 سال کی عمر میں پروفیسر صاحب کی پہلی شادی ہوئی۔ اس کے بعد ان کی مزید دو شادیاں بتلائی جاتی ہیں۔ ان کی پہلی شادی جھنگ، دوسری ناروے اور تیسری کراچی سے بتلائی جاتی ہے۔ ان کے بڑے صاحبزادے کا نام حسن محی الدین قادری ہے جو تحریکِ منہاج القرآن کی مجلس شورٰی کے صدر ہیں اور اُنہوں نے منہاج یونیورسٹی سے ہی علومِ اسلامیہ وعربیہ میں ایم اے کیاہے اور مصر سے میثاقِ مدینہ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کر رہے تھے۔ علاوہ ازیں اُنہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی بھی کیا ہے۔ چھوٹے صاحبزادے حسین محی الدین قادری نے فرانس میں سائنس ٹو یونیورسٹی ،پیرس سے ایم بی اے کیا ہے اور آج کل آسٹریلیا یونیورسٹی سے گلوبل اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے 1966ء میں میڑک کا امتحان اور 1969ء میں ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔1970ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پرائیویٹ سٹوڈنٹ کے طور پر پاس کیا۔1973ء میں پنجاب یونیورسٹی ہی سے علومِ اسلامیہ میں ایم اے کیا۔علاوہ ازیں ان کے بقول اُنہوں نے جامعہ قطبیہ رضویہ، جھنگ سے 1963ء تا 1970ء کے دوران درسِ نظامی کی بھی تکمیل کی۔ 1975ء میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ 1986ء میں اُنہیں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے اسلامی سزاوٴں کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔موضوع کا عنوان ''Punishment in Islam, Their Classification and Philosophy'' تھا۔
پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے تعلیمی کیریئر میں ہمیں ایل ایل ایم کی کسی ڈگری کا تذکرہ نہیں ملا۔ ایل ایل بی کے بعد براہ راست پی ایچ ڈی کی ڈگری کا تذکرہ ملتا ہے۔غالباً ڈاکٹریٹ کی یہ ڈگری شعبۂ اسلامیات کے تحت جاری ہوئی ہے لہٰذا یہ علومِ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ہے، لیکن موضوع کی مناسبت سے اسے اسلامک لاء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری قرار دیا گیا۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں فیکلٹی آف لاء کے تحت 1986ء میں پی ایچ ڈی کی کی پہلی دفعہ رجسٹریشن ہوئی اور پروفیسر طاہرالقادری صاحب 1986ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے تھے۔ پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے لاء کالج میں اسلامک لاء یعنی فقہ اسلامی پڑھانے کے سبب سے ان کی علومِ اسلامیہ کی پی ایچ ڈی کے بارے یہ گمان عام ہو گیا کہ شاید وہ فیکلٹی آف لا ء کے پی ایچ ڈی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ علومِ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں۔
مذہبی اور سیاسی کیریئر
پروفیسر محمد طاہر القادری نے 1974ء میں گورنمنٹ کالج، عیسیٰ خیل، میانوالی میں علومِ اسلامیہ کے لیکچرر کے طور پر اپنی سروس کا آغاز کیا۔ 1975ء میں اس عہدہ سے استعفیٰ دے دیا۔ 1976ء میں بطور ایڈووکیٹ کے جھنگ ڈسٹرکٹ کورٹ میں پریکٹس شروع کی۔ 1976ء میں 'جھنگ محاذِ حریت' کے نام سے نوجوانوں کی ایک تنظیم بنائی۔ 1978ء میں جھنگ سے لاہور منتقل ہوئے اور اسی سال پنجاب یونیورسٹی میں لاء کالج میں اسلامک لاء یعنی فقہ اسلامی کے لیکچرار مقرر ہوئے اور 1983ء تک بطورِ لیکچرار ملازمت کی۔اسی سال اُنہیں حکومتِ پاکستان نے وفاقی شرعی عدالت کا مشیر فقہ نامزد کیا۔
1981ء میں 'قرآن کانفرنس' کے ذریعے 'منہاج القرآن' کے قیام کی دعوت شروع کی۔1982ء میں حکومتِ پاکستان نے اُنہیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے 'شریعت ایپلٹ بنچ' کا مشیر مقرر کیا۔ 1982ء میں ایران کا دورہ کیا اور آیت اللہ خمینی وغیرہ سے ملاقاتیں کیں۔1982ء میں میاں نواز شریف صاحب کی جامع مسجد اتفاق کالونی، ماڈل ٹاوٴن، لاہور میں خطابت شروع کی اور میاں فیملی سے ان کے یہ تعلقات اوائل 88ء تک جاری رہے اور اس کے بعد اُن میں شدید کشیدگی پیدا ہوگئی۔
1983ء میں پی ٹی وی پر فہم القرآن کے خطبات کا آغاز کیا۔ اسی سال ایم بلاک، ماڈل ٹاوٴن میں 20 کنال کی زمین ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ اور مسجد کے لیے خریدی گئی۔ 1984ء میں ادارہ منہاج القرآن کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔اسی سال ان کے بقول اُنہیں ادارہ منہاج القرآن کے قیام کے حوالہ سے خواب میں نبیﷺ کی طرف سے کچھ بشارتیں بھی حاصل ہوئیں۔ 1986ء میں منہاج القرآن یونیورسٹی کے قیام کے لیے ٹاوٴن شپ میں 200 کنال زمین حاصل کی گئی اور 1987ء میں اس کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔1986ء میں ادارہ منہاج القرآن کا دستور منظور ہوا، مرکزی مجلس شورٰی اور مجلس عاملہ کا انتخاب ہوا۔
1989ء میں 'پاکستان عوامی تحریک' کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنائی اور اس کے تحت 1990ء کے عوامی انتخابات میں حصہ لیا۔ 1990ء میں ان کی رہائش گاہ پر مبیّنہ قاتلانہ حملہ ہو اور اسی سال ہائی کورٹ نے اس واقعہ کو غیر حقیقی اور ڈرامہ قرار دیا اور پروفیسر طاہر القادری صاحب کو غیر صحت مند ذہن کا حامل بتلایا۔
1995ء میں اُنہوں نے عوامی تعلیمی منصوبے کا آغاز کیا۔ منہاج انسائیکلوپیڈیا ویب سائیٹ کے مطابق اس تعلیمی منصوبے کے تحت 12 کالجز اور 872 سکولز کام کر رہے ہیں۔ 1998ء میں 'پاکستان عوامی اتحاد' کے صدر بنے جس میں پیپلز پارٹی سمیت 19 سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔2003ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کے ادارہ منہاج القرآن کا وزٹ کیا اور اس کی تاحیات رکنیت حاصل کی۔اس رکنیت کی ویڈیو میں ایسے مناظر دکھائے گئے ہیں جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں مثلاً پروفیسر صاحب محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ایک مجلس میں ساتھ تشریف فرما اور محوِ گفتگو ہیں جبکہ محترمہ کے سر پر نہ تو دوپٹا ہے اور نہ ہی کھلے گریبان پر کوئی کپڑا۔
کتب و رسائل
پروفیسر طاہر القادری صاحب کی طرف تقریباً 406 کتب اور کتابچوں کی نسبت کی جاتی ہے جن میں سے 19 عربی ، 39 انگریزی اور بقیہ اُردو زبان میں ہیں۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کی معروف کتابوں میں میلاد النبیﷺ،ترجمہ عرفان القرآن، المنهاج السوی من الحدیث النبوي، اسلام اور جدید سائنس، دہشت گردی اور فتنہ خوارج، شانِ اولیا، تخلیقاتِ کائنات، الفیوضات المحمدیة، فلسفہ معراج النبی ﷺ، القول المعتبر في الإمام المنتظر، العرفان في فضائل وآداب القرآن، أحسن الصناعة في إثبات الشفاعة، زیارتِ قبور، السیف الجلي على منکر ولایة على، برکاتِ مصطفی ﷺ، اسلام میں خواتین کے حقوق، شہر مدینہ اور زیارتِ رسول ﷺ، ذبح عظیم، ارکانِ اسلام، گستاخانِ رسول کی علامات، شہادتِ امام حسین حقائق وواقعات، شمائل مصطفی ﷺ، مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت، عقائد میں احتیاط کے تقاضے، درود شریف کے فضائل وبرکات، مناجاتِ امام زین العابدین، تبرک کی شرعی حیثیت، اسیرانِ جمالِ مصطفی ﷺ، اسلامی نظام معیشت کے بنیادی اصول، مرج البحرین في مناقب الحسنین علیهما السلام، اہل بیت اطہار سلام اللہ علیہم کے فضائل ومناقب، حیاة النبی ﷺ، کتاب التوسل،میثاقِ مدینہ کا آئینی تجزیہ، بدعت ائمہ و محدثین کی نظر میں، معارف آیۃ الکرسی، عقیدہ توحید اور غیر اللہ کا تصور،القول الوثیق فی مناقب الصدیق،القول الصواب فی مناقبِ عمر بن الخطاب، روض الجنان فی مناقب عثمان بن عفان، کنز المطالب فی مناقب علی بن ابی طالب، تذکرہ فریدِ ملّت، بدعت کا صحیح تصور،خوابوں اور بشارات پر اعتراضات کا علمی محاکمہ، حقوق والدین، ربّ العالمین کی علمی اور سائنسی تحقیق، امام ابو حنیفہ امام الائمہ فی الحدیث، خصائص مصطفی ﷺ، اسماے مصطفی، اسلام کا تصورِ علم، وسائط شرعیہ،عقیدہ ختم نبوت، عقیدہ توحید کے سات ارکان، النجابة في مناقب الصحابة والقرابة، العقد الثمین في مناقب أمهات المؤمنین، اسلام میں بچوں کے حقوق، فلسفہ صوم، سیرة الرسول ﷺ، ایصالِ ثواب اور اس کی شرعی حیثیت، اسلام میں اقلیتوں کے حقوق، فسادِ قلب اور اس کا علاج، حیات ونزولِ مسیح اور ولادتِ امام مہدی وغیرہ۔علاوہ ازیں ماہنامہ 'منہاج القرآن' اور 'دخترانِ اسلام' کے نام سے مردو زن کے لیے دو دعوتی و تحریکی رسائل بھی شائع کیے جاتے ہیں۔
ان کی اکثر وبیشتر کتب اس http://www.minhajbooks.com ویب سائیٹ پر ڈاوٴن لوڈ کرنے اور آن لائن مطالعہ کی سہولت کے ساتھ پی ڈی ایف اور یونی کوڈ فارمیٹ میں موجود ہیں۔
کتب ورسائل پر تبصرہ
بعض لوگوں کو اس پر حیرت ہوتی ہے کہ پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اس قدر تنظیمی، انتظامی، تحریکی اور دعوتی مصروفیات کے باوجود اتنی کتابیں کیسے لکھ ڈالیں؟ہمارے خیال میں جس نے بھی پروفیسر صاحب کی کتب کا بغور مطالعہ کیا ہو، اس کے لیے اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ اکثر وبیشتر یہ کتب کی بجائے کتابچے ہیں، مثلاً: 'قرآن اور فلسفہ تبلیغ' 20 صفحات اور 'مذہبی اور غیر مذہبی علوم کے اصلاحِ طلب پہلو' 24 صفحات اور ' تحریکِ منہاج القرآن کا تصور دین' 28 صفحات اور ' خدمتِ دین کی توفیق' 32 صفحات اور 'سیرتِ نبوی کی عصری وبین الاقوامی اہمیت' 32 صفحات اور 'اقبال اور پیغامِ عشق رسول' 39 صفحات اور 'ہمارا اصل وطن' 48 صفحات اور 'اقبال کا مرد مؤمن' 48 صفحات اور 'فلسفہ تسمیہ ' 44 صفحات اور 'معارف اسم اللہ ' 42 صفحات اور 'عمر رسید ہ اور معذور افراد کے حقوق' 48 صفحات پر مشتمل ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ کتابچے بھی دراصل پروفیسر صاحب کی تقاریر کو صفحاتِ قرطاس پر منتقل کیا گیا ہے۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کے ہاں1987ء میں ہی 'منہاج القرآن رائٹرز پینل' کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا تھا جو اَب 'فریدِ ملّت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ' کے نام سے معروف ہے جس کے ریسرچ اسکالرز پروفیسر صاحب کی تقاریر کی صفحۂ قرطاس پر منتقلی، ان کی کمپوزنگ، تقدیم وترتیب،تخریج وتحقیق اور نشرواشاعت کی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔
تیسری اہم بات یہ بھی ہے کہ پروفیسر صاحب کی شائع شدہ کتب میں تکرار بہت ہے یعنی بعض اوقات یوں بھی دیکھنے میں آیا ہے، کہ ایک کتاب کے پورے پورے ابواب دوسری کتاب میں بھی موجود ہیں اور دو کتابوں کے ایک ہی جیسے مضامین اور مواد دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ایک کتاب مستقل ہے اور دوسری کتاب اس پہلی کتاب سے ہی تیار کی گئی ہے، مثلاًپروفیسر صاحب نے سیرتِ رسول ﷺ پر ایک کتاب لکھی اور ایک جلد میں 'مقدمہ سیرة الرسول' کے نام سے اس کتاب کا مقدمہ لکھا۔بعد ازاں اس کتاب کے متفرق ابواب کو مختلف کتابچوں، مثلاً: 'سیرت رسول کی دینی اہمیت' اور 'سیرتِ رسول کی علمی وسائنسی اہمیت' اور 'سیرتِ رسول کی انتظامی اہمیت' اور 'سیرتِ رسول کی ریاستی اہمیت' وغیرہ کے عناوین سے شائع کر دیا گیا۔ اسی طرح پروفیسر صاحب نے 'کتاب البدعۃ' کے نام سے ایک کتاب لکھی اور بعد ازاں اس کتاب کے دسویں باب کو ایک مستقل کتابچہ 'البدعۃ عند الأئمۃ والمحدثین' کے نا م سے شائع کر دیا گیا۔ اسی طرح اگر ہم 'اسلام اور جدید سائنس' اور 'تخلیق کائنات' اور 'ربّ العالمین کی علمی وسائنسی تحقیق'کا تقابلی مطالعہ کریں تو ان تینوں کتب کے مواد کا ایک بڑا حصہ ایک ہی جیسا ہے۔ اسی طرح معاشیات پر اگر پروفیسر صاحب کی کتاب'اسلام کا معاشی نظام' اور 'اقتصادیاتِ اسلام' کا مطالعہ کریں تو ان کے مواد کا ایک بڑا حصہ بھی ایک ہی جیسا ہے۔علاوہ ازیں 'فلسفہ تسمیہ' اور 'تسمیۃ القرآن' کے مواد کا ایک بڑا حصہ ایک جیسا ہی ہے۔
مثلاًپروفیسر صاحب 'تفسیر منہاج القرآن' کے نام سے اب ایک تفسیر مرتب کر رہے ہیں اور اس کی پہلی جلد سورہ فاتحہ کی پہلی چار آیات پر مشتمل ہے اور تقریباً800 صفحات میں ہے۔ شاید اس تفسیر میں پروفیسر صاحب اپنی تمام کتابوں کو جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ اس تفسیر کی پہلی جلد میں ہی اُنہوں نے اپنے کئی ایک کتابچوں مثلاً'فلسفہ تسمیہ'اور 'ربّ العالمین کی علمی وسائنسی تحقیق' اور 'معارف اسم اللہ' اور 'تخلیق کائنات' اور 'تسمیۃ القرآن' وغیرہ کو جمع کر دیا ہے۔
چوتھی بات یہ بھی ہے کہ پروفیسر صاحب کی کتب میں موضوع سے غیر متعلق اور غیر معیاری مواد کا ایک بڑا حصہ موجود ہوتا ہے، مثلاً: 'سیرة الرسول کی علمی وسائنسی اہمیت' نامی کتابچے میں دو ابواب میں سے ایک باب کا عنوان 'قرآن حکیم اور علمی وسائنسی ترقی' ہے۔ پاکستان میں خود کش حملوں کے بارے ان کی کتاب 'دہشت گردی اور فتنہ خوارج ' کے 9 ابواب میں سے 3 ابواب غیر مسلم اور کفار کے حقوق اور جان ومال کے تحفظ کے بیان میں ہیں جبکہ پاکستان میں غیر مسلم نہ ہونے کے برابر ہیں اور اصل مسئلہ مسلمان شہریوں کے حقوق اور جان ومال کے تحفظ کا ہے۔
جہاں تک پروفیسر صاحب کی ضخیم کتب کی تیاری کا معاملہ ہے تو اس بارے ایک واقعہ نقل کیے دیتے ہیں ۔ کئی سال پہلے مولانا ڈاکٹرلقمان سلفی ﷾ ، انڈیا سے پاکستان میں' مجلس التحقیق الاسلامی' لاہور میں تشریف لائے۔ وہ انڈیا میں غالباًمکتبہ ابن تیمیہ کے نام سے لائبریری بنانا چاہتے تھے لہٰذااُنہوں نے ادارہ کے بعض نوجوان ساتھیوں سے منہاج القرآن لائبریری کا وزٹ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہاں اُنہوں نے لائبریری کے ساتھ ان کے ریسرچ سنٹر کا بھی وزٹ کیا جس میں اس وقت تقریباً 40 ریسرچ اسکالرز اور متعلقہ معاونین موجود تھے۔ مولانا لقمان سلفی صاحب نے جب ان حضرات سے ان کے کام کے بارے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ پروفیسر طاہر القادری صاحب ہمیں خطۃ البحث (synopsis) دیتے ہیں اور اس کے مطابق ہم ایک مکمل کتاب تیار کر دیتے ہیں۔
جہاں تک پروفیسر طاہر القادری صاحب کی کتب کے علمی معیار کی بات ہے تو ان پر دو اشکالات وارد ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جن کتب کا موضوع مذہبی اور دینی افکار ہیں تو ان میں ضعیف وموضوع روایات کی بھرمار ہے۔ پروفیسر صاحب ایک موضوع پر کلام کرتے وقت صحیح، حسن، ضعیف اور موضوع سب روایات جمع کر دیتے ہیں جس اس کی جو مکمل تصویر سامنے آتی ہے، اس میں رطب ویابس سب جمع ہوتا ہے، مثلاً پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب'الدرة البیضاء فی مناقب فاطمۃ الزہرا' میں یہ روایت بیان کی ہے: إنما سمیت بنتي فاطمة لأن الله فطمها وفطم محبـیها عن النار" میری بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ سے الگ تھلگ کردیا ہے۔"امام ابن جوزی ،امام ذہبی، ابن عراق الکنانی اور امام شوکانی نے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔علاوہ ازیں مناقب و فضائل سے متعلق ایسی مبالغہ آمیز موضوع روایات اسلامی معاشروں میں بے عملی کو فروغ دینے کا بہت بڑا سبب ہیں کہ جن کے مطابق بعض شخصیات سے صرف محبت کرنا ہی اُخروی نجات کے لیے کافی ہے اور دین کے کسی تقاضے یا فریضے پر عمل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'وسائط شرعیہ' میں یہ روایت نقل کی ہے: لولاك لما خلقت الأفلاك " اگر آپ ﷺ نے ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا۔"امام صنعانی، ملاعلی القاری، علامہ عجلونی اور علامہ البانینے اس روایت کو موضوع قراردیا ہے۔
اسی طرح پروفیسر صاحب نے بریلوی مکتب فکر کے عقائد ونظریات کے حق ہونے پر اس روایت سے استدلال کیا ہے۔ علیکم بالسواد الأعظم "تم پر لازم ہے کہ تم سواد اعظم کو پکڑو۔"امام ابن حزم، امام عراقی، ابن عبد الہادی اور علامہ البانینے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
اسی طرح پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'زیارتِ رسول' میں یہ روایت نقل کی ہے: من زار قبري وجبت له شفاعتي " جس نے میری قبر کی زیارت کی تو اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔" امام نووی، ابن القطان، دمیاطی،امام ابن تیمیہ،ابن عبد الہادی،امام ذہبی، ابن حجر عسقلانی، امام سیوطی،محمد بن محمد الغزی اور الوداعینے اسے ضعیف یا منکر قرار دیا ہے جبکہ علامہ البانی اور شیخ بن بازنے اسے موضوع قرار دیا ہے۔
اسی طرح پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'الفوز الجلی فی التوسل بالنبی ﷺ' میں یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت آدم نے محمد ﷺ کے وسیلہ سے مغفرت کی دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے سوال کیا کہ آپ کو محمد ﷺ کے بارے علم کہاں سے حاصل ہوا تو حضرت آدم نے کہا کہ میں نے آپ کے عرش پر کلمہ 'لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ' لکھا ہوا دیکھا تھا۔ اس روایت کو امام بیہقی، امام ابن کثیر، امام شوکانی، امام صنعانی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے جبکہ ابن حجر عسقلانینے کہا ہے کہ اس روایت کے ضعف پر اتفاق ہے۔شیخ ابن باز اور علامہ البانینے اس روایت کو موضوع قرار دیا ہے۔اس طرح اور بھی بیسیوں مثالیں ہیں، لیکن ہم انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان روایات کے ضعف ووضع کا اجمالی حکم www.dorar.netنامی ویب سائٹ پر ملاحظہ کریں۔
جہاں تک غیر مذہبی عناوین پر کلام کی بات ہے تو ان کتب کا معیار بھی معاصر علمی معیار کے بالمقابل انتہائی سطحی ہے، مثلاً پروفیسر صاحب کی کتاب 'اسلام اورجدید سائنس' یا 'تخلیق کائنات' کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آپ اُردو ڈائجسٹ میں سائنسی معلومات سے متعلق کسی مضمون کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
پروفیسر صاحب میں تقریر وخطابت کی صلاحیت ہے اور اُنہیں ہزاروں کے مجمع کو متاثر کرنے کا فن آتا ہے لیکن ان کی تحریر کی صلاحیت بالکل بھی متاثر کن نہیں ہے اور ان کی تحریر تکرار، سطحی معلومات، غیر مستند و غیر معیاری مواد پر مشتمل، غیر مرتب اور معاصر تحقیقی اسالیب کے مطابق نہیں ہوتی ہے۔ جہاں خطابت کی بات ہے تو پروفیسر صاحب میں جوشِ خطابت بہت زیادہ ہے اور بعض اوقات اس جوش میں غیرمعقول باتیں بھی کر جاتے ہیں، مثلاً ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی گلی کے کتوں کا گستاخ بھی کافر ہے۔
متجددانہ افکار و آرا
ذیل میں ہم پروفیسر صاحب کے بعض متجددانہ افکار و نظریات بیان کر رہے ہیں:
خواتین کے بار ے لبرل خیالات کا اظہار
پروفیسر طاہر القادری صاحب خواتین کے حقوق کے بارے کافی لبرل سوچ کے حامل ہیں، مثلاً اُنہوں نے اپنی کتاب اسلام میں خواتین کے حقوق میں کہا ہے کہ عورت پارلیمنٹ کی ممبر بن سکتی ہے اور دلیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت عمر کے دور میں بھی خواتین مجلس شورٰی کی ممبر تھی، یہی وجہ ہے کہ حق مہر کے متعین کرنے کے مسئلہ میں ایک خاتون نے حضرت عمر پر اعتراض کیا تھا اور اس اعتراض پر حضرت عمر نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں:
" اس واقعہ کی رو سے یہ بات ملحوظ رہے کہ سیدنا عمر کسی عوامی جگہ یعنی مارکیٹ ، بازار وغیرہ میں ریاستی معاملہ discussنہیں کر رہے تھے بلکہ یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں زیر غور تھا جس کا مطلب ہے کہ عامۃ الناس کی بجائے منتخب افراد ہی اس عمل مشاورت میں شریک تھے۔ لہٰذا ایک خاتون کا کھڑے ہو کر بل پر اعتراض کرنے سے یہ مفہوم نمایاں طورپر اخذ ہوتا ہے کہ اس دور میں خواتین کو ریاستی معاملات میں شرکت کرنے، حکومت میں شامل ہونے اور اپنی رائے پیش کرنے کا اختیار حاصل تھا۔مزید برآں حضرت عمر کا بل واپس لے لینا اور اپنی غلطی کا اعتراف کر لینا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اسلام میں جنسی امتیاز کے لئے کوئی جگہ نہیں اور مردو زن کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔"
پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے بقول عورت ایک سیاسی مشیر کے طور پر بھی کام کر سکتی ہے اور اس کی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت خدیجہ اور دیگر اُمہات المومنین ؓ، اللہ کے رسولﷺ کی سیاسی مشیر تھیں۔ان کے بقول عورت کو انتظامی عہدوں پر بھی فائز کیا جا سکتا ہے اور حضرت عمر نے شفا بنت عبد اللہ عدویہ کو بازار کا نگران مقرر کیا تھا۔ان کے بقول عورت کو سفیرمقرر کیا جا سکتا ہے اور حضرت عثمان ؓ نے اُمّ کلثوم بنت علیؓ کو ملکہ روم کے دربار میں سفیر بنا کر بھیجا تھا۔
لہٰذا ان کے نزیک وراثت میں حصوں کی تعین کی بنیاد جنس نہیں ہے یعنی عورت کو عورت ہونے کی وجہ سے آدھا حصہ نہیں دیا گیا بلکہ مرد کو معاشی ذمہ داریوں کے سبب سے زیادہ حصہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر عورت کسی گھر میں اپنی ملازمت کے ذریعے گھر کی معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے ہو تو کیا اس صورت میں اسے خاوند کے برابر حصہ ملے گا؟ اگر نہیں تو پھر عورت کے وراثت میں نصف حصہ ہونے کی یہ علت نکالنا بھی درست نہیں ہے۔
1978ء تک وہ عورت کی حکمرانی کے قائل نہ تھے، لیکن1998ء میں ان کا یہ موقف تبدیل ہو گیا اور اُنہوں نے علما سے بے نظیر کی حکمرانی قبول کرنے کی اپیل کی۔ اور 2،3نومبر1993ء کے روزنامہ جنگ کے مطابق طاہر القادری نے کہا کہ عورت کسی بھی اسلامی ملک کی سربراہ ہو سکتی ہے اور نام نہاد علما اپنی دوکان چمکانے کے لیے عورت کی حکمرانی کے بارے فتوٰی جاری کرتے ہیں۔
اسلامی اقتصادیات میں سوشلزم کا تاثر
پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اپنی کتاب 'اقتصادیاتِ اسلام' میں ایک مکمل باب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی ریاست یا مملکت کی طرف سے عام شہریوں پر تحدید ملکیت جائز امر ہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے یہ بھی ثابت ہے کہ معاشی بحالی کی جدوجہد روحِ نمازہے۔بعض اہل علم نے اُن کے ان نظریات کو اشتراکیت کی طرف رجحان قرار دیا ہے۔
اسلامی معاشرت میں مغرب کا تاثر
ننگے سر اور کھلے گریبان والی مغرب زدہ خواتین کے جھرمٹ میں تصاویر کھنچوانا یا ان کے ساتھ مل بیٹھ کر گفتگو کرنے پروفیسر صاحب کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں اور اس بارے ان کی تصاویر اور ویڈیوز عام ہیں۔ اسی طرح پروفیسر صاحب 4 ،5 دسمبر1999ء کے اخبارات میں رومانیہ کی فرسٹ سیکرٹری سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ پروفیسر صاحب اپنے لیے' مولانا' کے لقب کو پسند نہیں کرتے ہیں۔
پروفیسر صاحب نے فلم، سٹیج اور ڈرامہ کے اداکاروں پر مشتمل کلچرل ونگ تشکیل دیا ہے جس کے سیکرٹری جنرل معروف اداکار فردوس جمال، صدر فلمی اداکار ندیم، نائب صدر افضال احمد اور چیف آرگنائزر سید نور کو بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک منہاج القرآن کی ویب سائیٹ پر مشاہیر کے تبصرے کے عنوان کے تحت فلم وڈرامہ کے اداکاروں: ندیم، محمد علی، محمدافضل ریمبو، فردوس جمال،عثمان پیرزادہ،مسرت شاہین، شجاعت ہاشمی، افتخار ٹھاکر اور نسیم وکی وغیرہ کے بھی تبصرہ جات فخریہ انداز میں بیان کیے ہیں مثلاً اداکارہ مسرت شاہین کا یہ تبصرہ نقل کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاف وشفاف کردار کے مالک، امن کے سفیر، علمی کی روشنی، تنگ نظر نہیں اور ماڈریٹ ہیں۔ اس کلچرل ونگ کے بارے معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی کا نوائے وقت، 23مئی 2000ء کے ایڈیشن میں ایک مزاحیہ کالم بھی موجود ہے۔
عورتوں کے چہرے کے پردے یا نقاب کے بارے ان کا موقف یہ ہے کہ ماحول، عورت کی ضرورت، اس کی عمر اور اس کے ایمان کی مضبوطی کے مطابق عورت کے لیے چہرے کا پردہ کیس ٹو کیس مختلف ہے لہٰذا کسی خاتون کے لیے یہ واجب، کسی کے لیے مستحب اور کسی کے لیے مباح ہے۔
عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنے کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کے زمانہ میں محرم کی پابندی اس لیے لگائی گئی تھی کہ سیکورٹی کے مسائل بہت زیادہ تھے جبکہ آج سٹیٹ، پولیس، سسٹم اور سوسائٹی کی طرف سے جو سیکورٹی حاصل ہے، وہ محرم کے حکم میں ہے لہٰذا آج عورت کے سفر کے لیے محرم کی ضرورت نہیں ہے۔
مسلمانوں کے لباس کے بارے ان کا کہنا یہ ہے کہ مسلمانوں کا لباس باحیا ہونا چاہیے ۔ باقی اس میں کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر مسلمان انگریزی ہیٹ پہن لیں یا ٹائی باندھ لیں یا دھوتی پہن لیں یاشلوار قمیص پہن لیں یا افریقن یا انڈین یا یورپین لباس پہن لیں تو اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔
ننگے سر، کھلے گریبان، ہاف سلیوز کپڑوں میں ملبوس خواتین کے ساتھ بیٹھنااور گفتگو کرنا اُن کے ہاں معمول کی بات ہے۔ ایک جگہ اے آر وائے ٹیلی ویژن چینل پر ایک ایسی ہی خاتون کو 'خواتین کے حقوق' کے عنوان سے انٹرویو دے رہے ہیں۔
پروفیسر صاحب اور فنونِ لطیفہ
پروفیسر طاہر القادری صاحب فنون لطیفہ کے بارے بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے مداحین نے ان کی ایسی تصاویر بھی بنا کر شائع کی ہیں جو ہاتھ سے بنائی گئی ہیں جیسا کہ 'ڈاکٹر محمد طاہر القادری ؛ میدانِ کارزار میں' نامی کتاب میں سرورق کی تصویر ہے۔
پروفیسر طاہر القادری صاحب میوزک کے ساتھ قوالی اور صوفیانہ کلام سننے کے قائل اور عادی ہیں اور اسی طرح صوفیانہ رقص وسرود کو بھی جائز اور روحانی ترفع کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب کی کئی ایک ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ قوالی اور صوفیانہ کلام کو فل میوزک اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ محظوظ ہو رہے ہیں اور ان کے سامنے رقص وسرود پیش کیا جا رہا ہے۔ بعض ویڈیوز میں قوالی کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ اُنہیں سجدہ کرتے بھی نظر آ رہے ہیں جس کی تاویل ان کے معتقدین یہ کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ پروفیسر صاحب کو سجدہ نہیں بلکہ ان کی قدم بوسی تھی۔تحریک منہاج القرآن کی طرف سے اس ویڈیو کی یہ توجیہ بیان کی گئی ہے کہ دراصل پروفیسر صاحب کی قدم بوسی تھی اور قدم بوسی شریعتِ اسلامیہ میں جائز ہے۔
میوزک کے بارے اپنے ایک فتوٰی میں پروفیسر طاہر القادری نے اسے صحیح بخاری کی ایک روایت سے ثابت کیا ہے کہ عید و خوشی کے موقع پر میوزک اور رقص جائز ہے اور سلسلہ چشتیہ کا طریق ہے۔
میوزک کے بارے اپنے ایک فتوی میں پروفیسر طاہر القادری نے اسے صحیح بخاری کی ایک روایت سے ثابت کیا ہے کہ عید و خوشی کے موقع پر میوزک اور رقص جائز ہے اور سلسلہ چشتیہ کا طریق ہے۔
اسی طرح اپنے ایک اور فتوٰی میں اُنہوں نے کہا ہے کہ عشق نبی میں رقص ووجد جائز ہے۔
اسی طرح ایک اور ویڈیو میں جناب پروفیسر صاحب کے سامنے قوالی' پکارو شاہ جیلانی' فل میوزک اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے اور پروفیسر صاحب اسے سنتے ہوئے تشریف لاتے ہیں اور بھانڈ میراثیوں کیلیے روپوں کی ویلیں لیتے اور دیتے ہیں اور شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے ہیں۔
وحدتِ ادیان اور اتحاد بین المذاہب کا نقطہ نظر
پروفیسر طاہر القادری صاحب غیر مسلموں اور اُن سے اتحاد کے بارے بھی بہت نرم جذبات رکھتے ہیں ۔ غیر مسلموں کے حقوق پراُن کی ایک کتاب بھی ہے۔ اُنہوں نے مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم بھی بنایا ہوا ہے جس کے وہ چیئرمین ہیں۔ اس فورم کے تحت کرسمس تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں قرآن کے ساتھ بائبل کی بھی تلاوت ہوئی۔ عیسائی پادری اور پروفیسر طاہر القادری نے کرسمس کا کیک کاٹا۔ دونوں کی طرف سے امن کی شمع روشن کی گئی۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب نے عیسائیوں کو یہ دعوت دی کہ ان کے ادارہ منہاج القرآن کی مسجد عیسائیوں کی عبادت کے لیے کھلی رہے گی۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنے والوں کو مؤمنین (Believers) میں شمار کیا جاتا ہے اور بقیہ کو نہ ماننے والوں(Non Believers) میں، اور مسیحی بھائی ماننے والوں میں شامل ہیں۔یہ خبر 3 جنوری 2006ء کے روزنامہ اخبارات ایکسپریس، نوائے وقت، دن،انصاف، پاکستان اورجناح وغیرہ میں شائع ہوئی ہے۔
پروفیسر صاحب کی بین المذاہب 'رواداری' اور یگانگت کی اس تحریک کے نتائج پاکستان عوامی تحریک کی ویب سائیٹ پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں جس کے مطابق 'منہاج القرآن انٹرفیتھ ریلیشنز'کے تحت چرچ میں عید میلاد النبی کی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں اور ہندوں کے مقدس تہوار'ہولی' میں شرکت کی جا رہی ہے۔ صلیب کے سائے میں عیسائیوں کے مقدس شہرویٹی کن سٹی میں پروفیسر صاحب کی 60 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ وغیرہ
ڈاڑھی کے بارے موقف
ڈاڑھی کے بارے بھی پروفیسر صاحب کا موقف انتہائی گنجلک ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ڈاڑھی چھوڑنا سنت مؤکدہ ہے، لیکن کتنی چھوڑنی چاہیے، ایک مشت یا اس سے کم یا اس سے زیادہ، اس کی شریعت میں کوئی تعیین نہیں ہے لہٰذا اگر ایک مشت سے کم ڈاڑھی بھی ہو تو بھی جائزہے اور یہ شرعی حکم کی تعمیل میں داخل ہے۔ ایک مشت یا اس سے زائد ڈاڑھی رکھنا سنت غیر مؤکدہ یا سنن عادیہ میں سے ہے۔ پس جس کی ڈاڑھی ایک مشت سے کم ہو یا ایک مشت ہو یا ایک مشت سے زائد ہو ، سب اجر وثواب میں برابر ہیں۔
شرک وبدعت کے بارے نت نئے تصورات
بدعت کے بارے پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'کتاب البدعۃ'میں یہ موقف پیش کیا ہے کہ دین اسلام میں کسی بھی فعل وعمل کا اضافہ اس وقت تک بدعت نہیں کہلائے گا جب تک کہ اس فعل وعمل کی حرمت کتاب وسنت یا آثارِ صحابہ سے ثابت نہ ہو جائے۔ پس پروفیسر صاحب کے نقطہ نظر کے مطابق دین میں کسی اضافہ شدہ فعل و عمل کی حرمت کے بارے اگر کتاب اللہ یا سنت رسول ﷺ میں کوئی نص یا اقوالِ صحابہ میں کوئی اثر موجود نہ ہو تو وہ فعل وعمل جائز اور مباح یا بدعتِ حسنہ کہلائیگا۔
ایک ویڈیو میں جناب پروفیسر صاحب ایک قبر میں اتر کر مردے کو کلمہ پڑھوا رہے ہیں۔ ایک اور قبر پر دفنانے کے بعد مردے کو کلمہ پڑھوایا جا رہا ہے۔
پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب 'عقیدہ توسل' میں اپنا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ آپ کی اُمّت سے شرک صادر نہیں ہوسکتا ہے لہٰذا آپ کا اُمّتی کبھی بھی مشرک نہیں ہو سکتا ہے۔ اپنے 'تبرک' نامی کتابچہ میں پروفیسر صاحب نے اپنا یہ عقیدہ بیان فرمایا ہے کہ انبیا، اولیا اور صالحین کے آثار ومقامات سے تبرک حاصل کرنے کے لیے ان کے مزارات اور قبروں کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قبروں ، مزارات اور چوکھٹوں کو بطورِ تبرک بوسہ بھی دیا جا سکتا ہے۔
روزِقیامت غیر اللہ کی سفارش یا شفاعت یا کام آنے کے بارے پروفیسر صاحب کا خیال ہے کہ قرآنی الفاظ 'من دون اللہ'سے مراد وہ غیر اللہ ہیں جو اللہ کے دشمن اور معاندین ہیں، مثلاً: مشرکین کے بت وغیرہ جبکہ اللہ کے دوستوں اور اولیا کو 'من دون اللہ' میں شامل کرنا درست نہیں ہے۔پس معبودانِ باطلہ تو اللہ کے مقابلہ میں ولی اور شفیع نہیں ہوسکتے ہیں جبکہ اولیا وصالحین، جو اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں، روزِ قیامت ولی بھی ہوں گے اور سفارشی بھی۔
غیر اللہ سے دعا کرنے کے بارے پروفیسر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ دعا تین معنوں: دعوت، التجا یعنی درخواست اور عبادت کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ پس اگر دعا بہ معنیٰ عبادت ہو تو غیر اللہ سے دعا کرنا جائز نہیں ہے اور اگر بہ معنی دعوت یا التجا ودرخواست ہو تو غیر اللہ سے دعا کرنا جائز ہے۔پس غیر اللہ سے استغاثہ جائز ہے اور اُنہیں مجازاً مشکل کشا بھی کہا جا سکتا ہے۔
جناب پروفیسر صاحب نذر ونیاز کی تین قسمیں بیان کرتے ہیں: نذر بہ معنیٰ عبادت اللہ کے لیے خاص ہے ۔ نذر بہ معنیٰ ایصالِ ثواب اللہ کے بندوں کے لیے خاص ہے اور نذر بہ معنیٰ کھانا کھلانے کی نسبت بھی اللہ کے بندوں کی طرف ہو سکتی ہے۔پس ان کے اس نقطہ نظر کے مطابق مجازًا 'نذر حسین' اور 'نیاز شاہ عبدالقادر جیلانی' کہنا درست ہے۔مذکورہ بالا خیالات کا اظہار اُنہوں نے اپنی کتاب'عقیدہ توحید اور غیراللہ کا تصور' میں کیا ہے۔
اپنے کتابچے'مسئلہ استغاثہ اور اس کی شرعی حیثیت' میں پروفیسر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرنے کے بعد بھی انبیا اور اولیا سے ایسے ہی استغاثہ جائز ہے جیسا کہ ان کی حیا تِ دنیوی میں جائز تھا۔ان کا کہنا یہ ہے کہ غیر اللہ سے استغاثہ ، حقیقی استغاثہ نہیں ہے بلکہ درحقیقت اسے اللہ کی جناب میں وسیلہ بنانے کے مترادف ہے۔استغاثہ کے علاوہ انبیا اور صالحین کی زندگی اور موت کے بعد بھی ان کے توسّل کو پروفیسر صاحب جائز قرار دیتے ہیں۔
قرآنِ مجید میں شرک کی تردید میں جس قدر آیات نقل ہوئی ہیں، پروفیسر صاحب اُنہیں معبودانِ باطلہ یعنی مشرکین کے بتوں اور طواغیت کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں اور ان آیات کے عمومی مفہوم کے قائل نہیں ہیں۔ اپنے ترجمہ 'عرفان القرآن' میں جا بجا اُنہوں نے ایسی آیات کے ترجمہ میں 'بتوں' کا لفظ محذوف نکالا ہے۔ پس پروفیسر صاحب کے بقول قرآن نے جس شرک کی تردید کی ہے، وہ شرک مسلمان معاشروں میں نہیں پایا جاتاہے لہٰذا معاصر مشرکانہ اعمال وفعال پر قرآنی آیات کی تطبیق درست طرزِعمل نہیں ہے۔
قرآن مجید کی سائنسی اور باطنی تفسیر
پروفیسر صاحب کئی ایک مقامات پر قرآن مجید کا ایسا ترجمہ یا تفسیر بیان کی ہے جو قرآنِ مجید کے ظاہر یا اہل السنّۃ والجماعۃ کے اُصولِ تفسیر کے مطابق نہیں ہے، مثلاً پروفیسر صاحب سورة 'النازعات ' کی ابتدائی پانچ آیات ﴿وَالنّـٰزِعـٰتِ غَرقًا ١ وَالنّـٰشِطـٰتِ نَشطًا ٢ وَالسّـٰبِحـٰتِ سَبحًا ٣ فَالسّـٰبِقـٰتِ سَبقًا ٤ فَالمُدَبِّرٰتِ أَمرًا ٥﴾... سورة النازعات" کی آیات کے دو تراجم میں ایک ترجمہ یہ بیان کیا ہے:
توانائی کی ان لہروں کی قسم جو مادہ کے اندر گھس کر کیمیائی جوڑوں کو سختی سے توڑپھوڑ دیتی ہیں، توانائی کی ان لہروں کی قسم جو مادہ کے اندر سے کیمیائی جوڑوں کو نہایت نرمی اور آرام سے توڑ دیتی ہیں،توانائی کی ان لہروں کی قسم جو آسمانی خلاوفضا میں بلا روک ٹوک چلتی پھرتی ہیں، پھر توانائی کی ان لہروں کی قسم جو رفتار، طاقت اور جاذبیّت کے لحاظ سے دوسری لہروں پر سبقت لے جاتی ہیں، پھر توانائی کی ان لہروں کی قسم جو باہمی تعامل سے کائناتی نظام کے بقا کے لیے توازن وتدبیر قائم رکھتی ہیں۔
اسی طرح اُنہوں نے سورة نجم کی آیت ﴿وَالنَّجمِ إِذا هَوىٰ ١ ﴾... سورة النجم" کا ترجمہ کیا ہے:
قسم ہے روشن ستارے (محمد ﷺ) کی جب وہ (چشم زدن میں شب معراج اوپر جا کر ) نیچے اُترے۔
سورة زمر کی آیت ﴿إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَيِّتونَ ٣٠ ﴾... سورة الزمر" کاترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
(اے حبیب مکرم!) بے شک آپ کو (تو) موت (صرف ذائقہ چکھنے کے لئے) آنی ہے اور وہ یقینًا (دائمی ہلاکت کے لیے) مرد ہ ہو جائیں گے۔ (پھر دونوں موتوں کا فرق دیکھنے والا ہوگا)
سورہ قصص کی آیت مبارکہ ﴿إِنَّكَ لا تَهدى مَن أَحبَبتَ وَلـٰكِنَّ اللَّهَ يَهدى مَن يَشاءُ ۚ وَهُوَ أَعلَمُ بِالمُهتَدينَ ٥٦ ﴾... سورة القصص" کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ (ہدایت پر لانا) چاہتے ہیں، اسے صاحبِ ہدایت آپ خود نہیں بناتے، بلکہ (یوں ہوتا ہے کہ)جسے(آپ چاہتے ہیں اسی کو) اللہ چاہتا ہے (اور آپ کے ذریعے) صاحب ہدایت بنا دیتا ہے اور وہ راہِ ہدایت کی پہچان رکھنے والوں سے خوب واقف ہے۔ (یعنی جو لوگ آپ کی چاہت کی قدر پہچانتے ہیں، وہی ہدایت سے نوازے جاتے ہیں)
سورہ مریم کی آیت ﴿إِذ قالَ لِأَبيهِ يـٰأَبَتِ لِمَ تَعبُدُ ما لا يَسمَعُ وَلا يُبصِرُ وَلا يُغنى عَنكَ شَيـًٔا ٤٢ ﴾... سورة مريم" کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جب اُنہوں نے اپنے باپ(یعنی چچا آزر سے جس نے آپ کے والد تارخ کے انتقال کے بعد آپ کو پالا تھا) سے کہا: اے میرے باپ! تم ان(بتوں) کی پرستش کیوں کرتے ہو جو نہ سن سکتے ہیں نہ دیکھ سکتے ہیں اور تم سے کوئی(تکلیف دہ) چیز دور کر سکتے ہیں۔
سورہ کہف کی آیت مبارکہ ﴿قُل إِنَّما أَنا۠ بَشَرٌ مِثلُكُم يوحىٰ إِلَىَّ أَنَّما إِلـٰهُكُم إِلـٰهٌ وٰحِدٌ...١١٠ ﴾... سورة الكهف" کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فرما دیجئے: میں تو صرف (بہ خلقت ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں(اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے ، ذرا غور کرو) میری طرف وحی کی جاتی ہے۔(بھلا تم میں یہ نوری استعداد کہاں ہے کہ تم پر کلام الہی اتر سکے)
اسی طرح پروفیسر صاحب نے سورةرحمن کی آیت ﴿مَرَجَ البَحرَينِ يَلتَقِيانِ ١٩﴾... سورة الرحمان" میں دو دریاوٴں کی تفسیر حضرت حسن اور حسین سے کی ہے۔ اپنی کتاب 'ذبح عظیم' میں سورة صافات کی آیت ﴿وَفَدَينـٰهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ ١٠٧﴾... سورة الصافات" میں 'ذبح عظیم' سے مراد حضرت حسین کو لیا ہے۔
شیعہ ہونے کا الزام
بریلوی مکتب فکر کے بعض اہل علم نے پروفیسر طاہر القادری پرتفضیلی شیعہ ہونے کا بھی الزام عائد کیا ہے جیسا کہ مفتی غلام سرور قادری نے اپنی کتاب 'پروفیسرطاہر القادری: علمی وتحقیقی جائزہ' میں کہا ہے۔ پروفیسر طاہر القادری صاحب نے 'قصر بتول' میں 'مولودِ کعبہ' کے نام سے ایک تقریر میں یہ کہا :
"تمام صحابہ بھی اکٹھے ہو جائیں تو علم میں حضرت علی کا کوئی ثانی نہیں ۔"
اسی طرح پروفیسر طاہر القادری صاحب جامعہ المنتظر، لاہور میں مجلس عزا پڑھتے ہوئے کہا کہ سنّیت اور شیعیت میں کوئی جھگڑا نہیں ہے اور اصل مسئلہ خوارجیت کا ہے یا دوسرے الفاظ میں سنّی اور شیعہ ایک ہی ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔
پروفیسر طاہر القادری اپنی کتاب 'السیف الجلي على منکر ولایة على' میں کہتے ہیں کہ
اللہ کے رسول ﷺ کی خلافت تین قسم کی تھی: ایک خلافتِ ظاہری اور دوسری خلافتِ باطنی، پہلی حضرت ابو بکر صدیق کو ملی اور دوسری حضرت علی کو ۔ پہلی قسم کی خلافت سیاسی منصب تھا اور دوسری قسم کی خلافت روحانی منصب۔پہلی قسم کی خلافت انتخابی وشورائی تھی اور دوسری قسم کی وہبی واجتبائی۔ پہلی قسم کی خلافت کا تقرر عوام الناس نے کیا اور دوسری کا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے۔ پہلی قسم کی خلافت کا دائرۂ کار فرش تھا اور دوسری کا عرش تک تھا۔پہلی قسم کی خلافت حضرت ابو بکر صدیق کے بعد خلفاے راشدین میں جاری ہوئی اور دوسری قسم کی خلافت حضرت علی کے بعد اہل بیت کے بارہ اماموں میں جاری ہوئی۔ پہلی قسم میں آپ کی سیاسی وراثت جاری ہوئی اور دوسری قسم میں روحانی وراثت۔ دوسری قسم کی خلافت کو ولایت وامامت بھی کہتے ہیں۔
پروفیسر طاہر القادری صاحب نے اپنی کتاب 'مسئلہ ولادتِ امام مہدی' میں یہ بھی وضاحت کی ہے کہ دوسری قسم کی خلافت یعنی ولایت وامامت کے آخری خلیفہ امام مہدی ہوں گے اور یہ بارہویں خلیفہ یا امام ہوں گے جیسا کہ اہل تشیع کے ہاں بھی امام مہدی ان کے بارہویں ہی امام ہیں۔ اُنہوں نے اپنی کتاب 'السیف الجلی علی منکر ولایۃ علی' میں کہا ہے کہ حضرت مولا علی المرتضی اور حضرت مہدی الارض والسماء ، باپ بیٹا دونوں، اللہ کے' ولی' اور رسول ﷺ کے 'وصی' ہیں۔
پروفیسر طاہر القادری کے بقول امام مہدی کا ظہور تقریباً کم ازکم 8سو سال بعد سن 2204ھ میں یا اس کے بھی ایک ہزار سال بعدہو گا۔
ہمارے خیال میں اگر تو پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے شیعہ ہونے سے ناقدین کی یہ مراد ہو کہ وہ اہل تشیع کو خوش کرنے کے لیے حضرت علی کو حضرت ابو بکر صدیق اور خلفاے راشدین پر ترجیح دیتے ہیں اور اہل تشیع کے تصورِ ولایت وامامت کے قائل ہیں اور امام مہدی کو اثنا عشریہ اہل تشیع کی طرح اپنا بارہواں امام تسلیم کرتے ہیں تو یہ بات تاحال ان کی تقاریر اور کتب سے بالکل ثابت ہوتی ہے، اِلاّیہ کہ وہ مستقبل میں کسی وقت اپنے اس موقف سے رجوع کر لیں۔ یہ درست ہے کہ وہ حضرت علی کی فضیلت خلفاے راشدین اور بقیہ جمیع صحابہ پر ثابت کرنے میں اور ان کی ولایت وامامت کے ثبوت میں تکلف وتصنع اور خطابت وبلاغت کا اظہار کرتے ہیں، لیکن وہ فقہ جعفری یا زیدیہ فقہ کے پیروکار نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو سنّی اور فقہ حنفی کا متبع بتلاتے ہیں۔پس یہ کہا جا سکتا ہے کہ پروفیسر طاہر القادری عقائد کے اعتبار سے تفضیلی شیعہ ہیں، لیکن فقہ میں حنفی بریلوی ہیں۔
پروفیسر صاحب نے اپنی کتاب'کتاب البدعۃ' میں ان اہل تشیع کے کفر کو یقینی اور قطعی قرار دیا ہے جو حضرت علی کی اُلوہیت کے قائل ہوں یا حضرت جبریل کے بارے یہ عقیدہ رکھیں کہ غلطی سے وحی حضرت علی کی بجائے اللہ کے رسول ﷺ پر لے آئے یاقرآن میں تحریف میں یا ترمیم کا عقیدہ رکھیں یا حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائیں یا یہ عقیدہ رکھیں کہ وصالِ رسول ﷺ کے بعد صحابہ مرتد ہو گئے تھے یاحضرت ابو بکر صدیق کی صحابیت کا انکار کرے۔
پروفیسر طاہر القادری کے خواب
پروفیسر صاحب پر اُن کے خوابوں کی وجہ سے بھی مختلف مذہبی اور غیر مذہبی حلقوں کی طرف سے نقد ہوتی ہے۔یہ خواب تفصیلی ہیں اور اس کی آڈیوز اور ویڈیوز موجود ہیں اور ان میں سے بعض خواب انٹرنیٹ پر' یوٹیوب' نامی ویب سائیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔
ایک خواب:ایک خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی آمد سندھ کے کسی شہر میں ہوتی ہے۔ لوگ زیارت کے لیے جاتے ہیں، لیکن اللہ کے رسول ﷺ کسی کو زیارت نہیں کرواتے۔ بالآخر پروفیسر صاحب اکیلے رہ جاتے ہیں اور اُنہیں اللہ کے رسول ﷺ کی زیارت نصیب ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ پروفیسر صاحب سے شکوہ کرتے ہیں کہ میں اہل پاکستان، دینی جماعتوں، اداروں اور علما سے نالاں ہو کر واپس جا رہا ہوں، کیونکہ اُنہوں نے میری قدر نہیں کی اور اسی لیے میں نے اُن سے ملاقات بھی نہ کی۔ پروفیسر صاحب اس پر اللہ کے رسول ﷺ کی منتیں سماجتیں کرتے ہیں ، پاوٴں پڑتے ہیں، روتے ہیں تو اللہ کے رسول ﷺ کا دل نرم پڑ جاتا ہے اور اللہ کے رسول ﷺ ایک شرط پر پاکستان رکنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ پروفیسر طاہر القادری صاحب اللہ کے رسول ﷺ کی میزبانی کریں گے۔ پاکستان میں اللہ کے رسول ﷺ کے ٹھہرنے کا انتظام، کھانے پینے کا انتظام، پاکستان میں اندرونِ ملک سفر کے ٹکٹ اور قیام کا انتظام اور واپس مدینے تک کا ٹکٹ کا انتظام پروفیسر صاحب کریں گے۔اللہ کے رسول ﷺ نے کہا کہ تم 'ادارہ منہاج القرآن' قائم کرو، میں وہاں تشریف لاوٴں گا۔
دوسرا خواب:ایک دوسرے خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کا دن ہے اور اذان کا وقت ہے۔ مسجدِ نبوی کا مقام ہے اور اجتماعِ عام ہے۔ مؤذّن اذان دینے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے کہ اس مؤذن کو ہٹا دو، آج جمعہ کی اذان طاہر دے گا۔
تیسرا خواب: ایک اور خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ صحرائی علاقہ میں ایک ر یتلے ٹیلے پر اللہ کے رسول ﷺ تشریف فرما ہیں۔ آپ کی داہنی جانب حضرت ابو بکر صدیق اور بائیں جانب حضرت عثمان ہیں۔ میں چھوٹا سا بچہ تھا اور اللہ کے رسول ﷺ نے دائیں طرف اپنے پہلو میں لے لیااور چاروں خلفائے راشدین سے میرا اور مجھ سے اُن کا تعارف کروایا۔
چوتھا خواب: ایک خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری عمر 63 برس مقرر کی جو اللہ کے رسولﷺ نے بڑھا کر 22 برس کر دی لیکن پروفیسر صاحب نے قبول نہ کی کیونکہ اس طرح عمر کے سلسلہ میں سنتِ نبوی کی خلاف ورزی کا ارتکاب تھا تو اللہ کے رسول ﷺ نے پروفیسر صاحب کی بات مان کر دوبارہ 63 سال کردی۔ اب اگلے تین چار سالوں میں فیصلہ ہوجائے گا کہ قادری صاحب اپنے خواب کے مطابق دنیا سے کوچ کرتے ہیں یا اس میں بھی کوئی حیلہ وتاویل پیدا کرلیں گے۔
پانچواں خواب: ایک اور خواب کا خلاصہ یہ ہے کہ پروفیسر صاحب اللہ کے رسول ﷺ کے مزارِ اقدس میں قبر انور کے پاس موجود ہیں۔ قبر انور کا سر کی طرف والا حصہ(یعنی تاریخ اسلام کا اوّلین دور) صحیح ہے جبکہ پاوٴں والا حصہ(یعنی معاصر دور) منہدم ہو چکا ہے اور میں اس پاوٴں والے حصے کی تعمیر شروع کرتا ہوں اور ایک شخص کے ساتھ مل کر اس حصّے کی تعمیر مکمل کر دیتا ہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ قبر سے باہر تشریف لاتے ہیں اور میں تعمیر کی تکمیل کی خوشخبری دیتاہوں۔ اللہ کے رسول ﷺ پروفیسر صاحب کو سینے سے لگا لیتے ہیں اور بڑی دیر تک معانقہ فرماتے ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ ایک کاغذ منگواتے ہیں اور مجھے ایک سند لکھ کر عطا کرتے ہیں۔پروفیسر صاحب کے یہ خواب نصر اللہ غلزئی نے 'نقل کفر کفر نباشد' کے عنوان سے ہفت روزہ تکبیر کے 19 جولائی 1990ء اور روزنامہ خبریں کے 4 جولائی 1993ء کے ایڈیشن میں کیسٹ سے صفحہ قرطاس پر لفظ بلفظ منتقل کر کے شائع کیے ہیں۔
طاہر القادری صاحب اور صحافت
روزنامہ خبریں ، 17 جنوری 2000ء کے ایڈیشن میں 'اسد کھرل' صاحب کا ایک کالم شائع ہوا جس کے مطابق 12 اکتوبر کی تاریخ میں رات 8 بجے طاہر القادری صاحب پریس کانفرنس سے خطاب فرما رہے تھے کہ ان کا میڈیا سیکرٹری موبائل فون ہاتھوں میں تھامے حاضر ہوا کہ کہنے لگا کہ قبلہ صاحب جی ایچ کیو سے آپ کے لیے فون ہے حالانکہ اس وقت ملکی وغیر ملکی تمام صحافیوں کے موبائل فون بند تھے کیونکہ موبائل فون سروس چالو نہیں تھی۔ اس پر ایک صحافی نے جب قبلہ حضور سے استفسار کیا ہے: موبائل سروس تو بند ہے تو آپ کو فون کیسے آ گیا تو قبلہ کچھ لمحے پریشان رہنے کے بعد فرمانے لگے کہ یہ 'سپیشل کیس' ہے۔اس پر وہاں موجود صحافی کہنے لگے کہ 'قبلہ' کا ڈرامہ فلاپ ہو گیا ہے۔
روزنامہ پاکستان، 4 دسمبر 2000ء کے شمارہ میں چوہدری خادم حسین کا ایک کالم شائع ہوا جس میں یہ بیان ہوا کہ 2رمضان کو منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں 'پاکستان عوامی تحریک' کے چیئرمین جناب طاہر القادری صاحب نے دوپہر 2 بجے پریس کانفرنس بلوائی اور اس کے اختتام پر اخبار نویسوں کو دعوت دی کہ آپ کے لیے ہم نے اوپر چائے اور خاطر تواضع کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اس پر اخبار نویسوں نے بتلایا کہ وہ سب تو روزے سے ہیں تو طاہر القادری صاحب نے عذر پیش کیا کہ اُنہیں بھول گیا تھا کہ آج روزہ ہے۔اس پر معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے 'دوپہر کو دی جانے والی افطار پارٹی' کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم بھی نوائے وقت میں لکھاہے۔
پروفیسر صاحب کا جب نواز فیملی کے ساتھ غارِ حرا جانے کا اتفاق ہوا تو اُنہیں میاں نواز شریف اپنے کندھے پر اٹھا کر غارِ حرا لے گئے۔ وہاں سے واپسی پر پروفیسرصاحب نے یہ دعوی کیا کہ غار حرا میں ان کی ملاقات ایک فرشتے سے ہوئی ہے جو کشمیری تھا۔ اس واقعہ پر معروف کالم نگار عطاء الحق قاسمی صاحب نے 'کشمیری فرشتہ' کے عنوان سے ایک مزاحیہ کالم بھی لکھا ہے۔
ناقدین
جناب پروفیسر طاہر القادری صاحب کے ناقدین میں دو قسم کے لوگ ہیں:
ایک مذہبی اور دوسرے غیر مذہبی
مذہبی ناقدین
مذہبی افراد میں سے تقریباً چاروں مسالک بریلوی، دیوبندی ، اہل الحدیث اور اہل تشیع کے بعض اہل علم نے ان پر نقد کی ہے۔ پروفیسر طاہر القادری پر نقد کا آغاز بریلوی مکتبِ فکر طرف سے ہوا۔مشیر وفاقی شرعی عدالت مفتی غلام سرور قادری صاحب نے 'پروفسیر طاہر القادری: علمی وتحقیقی جائزہ' کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جو 1988ء میں شائع ہوئی ۔ اس کتاب میں مفتی صاحب نے پروفیسر طاہر القادری کے بارے یہ کہا ہے کہ اُنہیں دیکھ کر قرآن پڑھنا بھی نہیں آتا ہے اور نہ ہی وہ صحیح ترجمہ کر سکتے ہیں۔مفتی صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب کی آڈیو کیسٹس سے بھی ان کی عربی عبارات کی کچھ اغلاط نقل کی ہیں۔ مفتی صاحب نے پروفیسر صاحب پر یہ بھی طعن کیا ہے کہ پروفیسر صاحب دو اُنگل ڈاڑھی رکھنے کو بھی سنّت قرار دیتے ہیں۔مفتی صاحب یہ بھی نقل کی ہے کہ پروفیسر صاحب نے عورت کے آدھی کے بجائے مکمل دیّت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کا یہ موقف اجماعِ اُمّت کے خلاف ہے۔مفتی صاحب نے پروفیسر صاحب کو جھوٹا، جاہل اور تفضیلی شیعہ قرار دیا ہے۔ مفتی صاحب نے شیعیت کے علاوہ بھی بہت سنگین الزامات کی نسبت پروفیسر صاحب کی طرف کی ہے۔
اسی طرح مولانا ابو داوٴد محمد صادق نے 'پروفیسر طاہر القادری: علماے اہل سنّت کی نظر میں' کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جس کا دوسرا نام 'خطرے کی گھنٹی' بھی معروف ہوا۔اسی طرح محمد نواز کھرل نے اُن کے بارے 'متنازعہ ترین شخصیت' نامی کتاب لکھی ہے۔
مرکزی دار العلوم اہل سنّت جامعہ رضویہ مظہر اسلام ، فیصل آباد کے بریلوی علما مولانا غلام رسول رضوی، مفتی محمد اسلم رضوی، محمدحبیب الرحمن، ابو صالح محمد بخش، محمد نظام الدین ، محمد سعید نقشبندی وغیرہ نے پروفیسر طاہر القادری کے خلاف ایک متفقہ فتویٰ جاری کیا جس میں پروفیسر صاحب کو اہل سنّت کا دشمن قرار دیا گیا۔ اُن کی اقتدا میں نماز پڑھنے کو ناجائز اور ان کے ادارہ منہاج القرآن میں بچوں کو تعلیم دینے سے روکا گیا۔
مفتی اشرف قادری صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب کے بارے کہا ہے کہ یہ شخص پہلے صحیح العقیدہ سنّی اور حنفی تھا، لیکن بعد میں مجتہد بن گیا ۔ اس نے عورت کی دیّت کے مسئلہ میں اجماعِ اُمّت کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ کم ازکم اہل سنت والجماعت میں سے نہیں ہے۔ اُنہوں نے پروفیسر صاحب پر یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ پروفیسر صاحب نے امام خمینی کی وفات پر ایک امام باڑے میں کالا جبہ پہن کر تقریر کی ہے اور کہا ہے پاکستان کا بچہ بچہ خمینی ہو گا اور خمینی کا جینا علی کی طرح تھا اور مرنا حسین کی طرح۔ مفتی اشرف قادری صاحب نے طاہر القادری صاحب کو بدترین گمراہ اور فاسق بھی قرار دیا ہے۔
گدی نشین سید عرفان شاہ صاحب نے پروفیسر طاہر القادری صاحب کو 'شیخ الاسلام' کی بجائے 'شیخ فی الاسلام ' یعنی بوڑھا مسلمان کا لقب دیا ہے۔سید عرفان شاہ نے پروفیسر طاہر القادری صاحب پر اس عتبار سے نقد کی ہے کہ پروفیسر صاحب نے گستاخ عیسائیوں کے ساتھ اخلاق کا حکم دیا ہے۔
مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی صاحب نے پروفسیر طاہر القادری صاحب پر یہ نقد کی ہے کہ عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کی دعوت دینے کے بعد ہم اسے سنّی ماننے کو تیار نہیں ہیں اور یہ شخص 'طاہر القادری' سے 'طاہر الپادری' بن گیا ہے۔
اہل الحدیث میں سے حکیم محمد عمران ثاقب صاحب نے 'ڈاکٹر طاہر القادری کی علمی خیانتیں' اور 'طاہر القادری: خادم دین متین یا افّاک اثیم' کے نام سے دو کتابیں لکھی ہیں جس میں اُنہوں پروفیسر طاہرالقادری صاحب کے تصورِ بدعت، شرک، وسیلہ ، استغاثہ، شیعیت اور میلاد النبیﷺ کے حوالہ سے نظریات پر شدید نقد کی ہے۔دیوبندی مکتبِ فکر سے متعلق بعض اہل علم اُنہیں 'کینیڈین شیخ الاسلام' اور بعض سلفی اہل علم انہیں 'شوخ الاسلام' کالقب دیتے ہیں۔ماہنامہ 'الاحرار' ملتان اور سہ ماہی'ایقاظ' میں اس بارے پروفیسر صاحب پر بعض تنقیدی مضامین شائع ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں سیارہ اور قومی ڈائجسٹ میں ان پر ناقدانہ مضامین شائع ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں مذہبی رہنماوٴں میں مولانا محمد اجمل قادری، مولانا سیف الدین سیف، علامہ محمود احمد رضوی، ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مولانا خلیل الرحمٰن حقانی، مولانا عبد الرحمٰن اشرفی، مولانامحمد میاں جمیل، صاحبزادہ فضل کریم، مفتی غلام سرور قادری، مولانا نعیم اللہ فاروقی، مولانا عبد القادر آزاد، مولانا عبد القادر روپڑی، مولانا محمود الرشید حدوٹی، مولانا شمس الزماں قادری، مولانا سیف اللہ قصوری، قاضی کاشف نیاز، امیر حمزہ، علامہ عطاء اللہ بندیالوی ، علامہ بشیر القادری اور علامہ خالد ازہری وغیرہ نے بھی پروفیسر صاحب کے بعض افکار پر نقد کی ہے۔
غیر مذہبی ناقدین
غیر مذہبی لوگوں میں سے پروفیسر صاحب پر جن کی نقد معروف ہوئی، ان میں ایک عدالتی فیصلہ بھی ہے۔ اس عدالتی فیصلے کا پس منظر یہ ہے کہ پروفیسر صاحب کی رہائش گاہ ماڈل ٹاوٴن، لاہور پر 21 اپریل 1990ء کی صبح کو پراسرار فائرنگ کا سانحہ پیش آیا اور پنجاب حکومت کی درخواست پر اس کیس کی تحقیق و تفتیش کے بعد عدالت نے فیصلہ جاری کیا۔ اس فیصلے کا ایک اقتباس ہم پروفیسر صاحب کے حق میں لکھی گئی ایک کتاب سے یہاں نقل کر رہے ہیں:
"بیان کردہ فائرنگ حقیقی واقعہ نہیں تھا۔ مسٹر قادری کا نقصان اُن کی اپنی کوششو ں کا نتیجہ ہے․․․ ان کے اس لایعنی طرزِ عمل سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ مسٹر قادری ذہنی طور پر بیمار آدمی ہیں، اس لئے وہ اپنے دشمنوں سے جو کوئی بھی ہو سکتے ہیں، حد درجہ خوفزدہ ہوئے بلکہ 'دشمن فوبیا' میں مبتلا ہو گئے۔ لیکن ان دلائل کو آسانی سے زیر بحث لایا جا سکتا تھا۔ یہ واقعہ کہ مسٹر قادری،اپنے مخصوص خوابوں کو بیان کرنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں یا اُن کے غیر صحت مندانہ ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کو خواب آتے بھی ہوں لیکن اُن کے تعصّبات کو بھی بالکل نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جبکہ وہ اپنے خوابو ں کو ایک خاص انداز میں بیان کرتے ہیں اور اپنی شخصیت کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں، اس ذہنی ساخت کی شخصیت سے ہر چیز ممکن ہے۔ نصف رات کے سمے ان پر مسلّح آدمیوں کے حملے کے ڈرامے کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔"
عدالت کے اس فیصلہ کے مطابق پروفیسر صاحب نے شہرت کے حصول کے لیے اپنی رہائش گاہ پر خود ہی فائرنگ کروائی تھی اور اس کی ذمّہ داری اپنے سیاسی مخالفین پر عائد کر دی۔ اس واقعہ کے بارے رفیق ڈوگر صاحب کی 'علامہ کلاشنکوف' اور محمد اشرف ملک کی 'نامور شخصیات کی ناقابل یقین جعل سازیاں' کے نام سے ایک تحریر بھی شائع ہوئی ہے۔
پروفیسر صاحب کے غیر مذہبی ناقدین کی ایک بڑی تعداد میدانِ صحافت سے تعلق رکھتی ہے۔ معروف صحافیوں اور کالم نگاروں میں سے مجیب الرحمٰن شامی، ضیاء شاہد، عطاء الحق قاسمی، حسن نثار، الطاف حسن قریشی، تنویر قیصر شاہد، محمد یونس بٹ اور عباس اطہر نے بھی ان پر نقد کی ہے۔علاوہ ازیں محمد اسلم اعوان، منیر القادری، صابر شاکر، خورشید احمد ندیم، رفیق ڈوگر، ڈاکٹر اختر نواز خاں، اسد کھرل، قیوم قریشی، مریم گیلانی، رانا پرویز حمید، راحت ملک، سعادت خیالی، ممتاز شفیع، ظفر اقبال، پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب، پروفیسر افضل علوی، چوہدی خادم حسین، میاں غفار، ملک نجیب الرحمٰن ارشد، سلطان محمود، جاذب بخاری، سلمی عنبر، مظفر وارثی، نذیر حق، آفتاب اقبال، محمد انور گرے وال، تنویر عباس نقوی، بیگ راج، لالہ عاجز، سرفراز اقبال اور عرفان احمد وغیرہ نے بھی پروفسیر طاہر القادری پر مختلف اخبارات میں تنقیدی کالم لکھے ہیں جنہیں محمد نواز کھرل نے اپنی کتاب 'متنازعہ ترین شخصیت' میں جمع کر دیا ہے۔
خلاصۂ کلام
پروفیسر صاحب کے بارے اس وقت دو انتہائیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔ ایک تو ان کے مداحین ہیں جو اُنہیں شیخ الاسلام، مجتہدِ مطلق اور قبلہ حضور سے کم درجہ دینے کو تیار نہیں ہیں اور دوسرے ان کے شدید ناقدین ہیں جو انہیں طاہر الپادری، مرتد اور صلیبیوں کا مفتی جیسے القابات سے نوازتے ہیں۔ ایسے میں اس بات کی بہت ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ پروفیسر صاحب کے علمی، اخلاقی اور روحانی بگاڑ و فساد پر معتدل نقد کی جائے کہ جس میں تکفیر پر مبنی فتوٰی کی زبان استعمال نہ ہوئی ہو۔پروفیسر صاحب کی زندگی کا ایک تاریخی جائزہ لینے والے کسی صاحبِ عقل کو اس میں اختلاف نہیں ہو سکتا ہے کہ پروفیسر صاحب جاہ وجلال، مقام ومرتبہ اور معاشرتی و سیاسی جاہ و جلال کے پجاری ہیں اور اس کے لیے اُنہوں نے اپنے اور لوگوں کے دین کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ اس بارے پروفیسر صاحب کے متجددانہ افکار پر مشتمل ایک کتاب'متنازعہ ترین شخصیت' پر محمد خالد مصطفوی کا ایک عادلانہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
"متنازعہ ترین شخصیت ، دراصل پروفیسر طاہر القادری کے 'سائیکل سے لینڈ کروزر تک' کے ارتقائی سفر کا جائزہ ہے جس پر نہایت مثبت انداز میں تنقید کی گئی ہے۔ جناب طاہر القادری کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ قول وفعل کے تضاد کا شکار رہے ہیں۔ اس داخلی وخارجی دوہرے پن نے اُن کی شخصیت کو بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایک طرف وہ بے نظیر بھٹو کو اپنی بہن قرار دہتے ہیں تو دوسری طرف محترمہ کو کرپٹ بھی کہتے ہیں۔ ایک طرف وہ میاں نواز شریف کو سیکورٹی رسک قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف انہیں ایٹمی دھماکہ کرنے پر مبارک باد بھی پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ احتجاج اور ریلیوں سے ملک میں بدامنی پھیلے گی ، دوسری طرف وہ خود بڑے اہتمام سے احتجاجی جلسے، جلوس اور ریلیاں منعقد کرواتے ہیں۔ ادھر کلچرل میلہ کا انعقاد کرواتے ہیں تو ادھر میلاد کانفرنس کا اہتمام بھی دھوم دھام سے کرتے ہیں۔
علامہ طاہر القادری نے گزشتہ کئی برسوں سے ماڈریٹ، پروگریسو اور سیکولر شخصیت کا گاوٴن پہن رکھا ہے۔ وہ خواب، کہانیاں، بے وقت کی راگنیاں اور اوٹ پٹانگ باتوں سے قوم کو محظوظ کرتے رہتے ہیں۔ ان کی پریس کانفرنسیں رطب ویابس، لاحاصل اور مناقضات سے بھرپور ہوتی ہیں۔ بہترین درسگاہ 'ادارہ منہاج القرآن' جن عظیم الشان مقاصد کے حصول کے لیے قائم کیاگیا تھا، بدقسمتی سے وہ پروفیسر طاہر القادری کی منفی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ مہاتما بننے کی اندھی خواہش اور خود کو 'عقل کل' سمجھنے کے نفسیاتی عارضے کا شکار ہو کر ان کی شخصیت 'ایبسٹریکٹ آرٹ' کا شہکار بن چکی ہے۔ یہا ں سے فارغ ہونے والے نوجوان جنہوں نے کارِ زمانہ کی باگ دوڑ سنبھالنا تھی، اپنی اوچھی حرکات کی بدولت معاشرے میں ہدفِ تضحیک بن کر رہ گئے ہیں۔ 'مصطفوی انقلاب' کے نعرہ سے دستبرداری کے بعد 'وزیر اعظم طاہر القادری' ان کا نصب العین ٹھہرا۔ نجانے اُنہیں کس کی نظر کھا گئی کہ ان کا معیار ایک مسخرے کی سطح سے بھی نیچے گر گیا۔ احسن تقویم کی بلندیوں کی طرف گامزن اسفل السافلین کی اتھاہ گہرائیوں میں گر گئے۔ قال اللہ و قال الرسول کی ایمان افروز آوازوں سے مہکنے والی کلاس روموں میں اب 'بن کے مست ملنگ رہیں گے، طاہر تیرے سنگ رہیں گے' کے ترانے، بھنگڑے ڈالتے ہوئے، فلمی طرز پر گانے گائے جاتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! شاید اُنہیں بتایا گیا ہو کہ اس 'مجاہدہ' سے عرفان حاصل ہوتا ہے جبکہ وہ اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گنوا بیٹھے ہیں۔ اہل بصیرت اس صورتحال کو زوال اور عذاب سے تعبیر کرتے ہیں۔ واقعی جہاں لنگڑے بھنگڑے ڈالیں، اندھے بیچیں، سر کٹے دستاریں فروخت کریں، گنجے 'مقابلہ آرائش گیسو' کا انعقاد کروائیں اور ٹنڈے شمشیر زن ہونے کا دعوی کریں، وہاں سے کس خیر کی توقع کی جا سکتی ہے؟ ایسی پستی ہے اہل نظر، آشوبِ چشم اور اہل فکر ،ضیق النفس میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ اُنہیں اس ناقابل تلافی نقصان کا احساس بھی باقی نہیں رہتا۔ ؏ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
جناب طاہر القادری کا یہ جرم نہایت سنگین ہے کہ اُنہوں نے محض سستی شہرت ، دولت اور سیاسی اقتدار کی خاطر ایسے خوابوں کا سہارا لیا جن میں حضورِ نبی ﷺ کی صریحاً توہین پائی جاتی ہے۔ ایسا سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ کوئی 'نابغہ روزگار' اس حد تک ذہنی قلاش ہو سکتا ہے۔"
مصادر ومراجع
a پروفیسر طاہر القادری؛ علمی وتحقیقی جائزہ، مفتی غلام سرور قادری،مصباح القرآن، لاہور،1988ء
b متنازعہ ترین شخصیت، محمد نواز کھرل، فاتح پبلشرز، لاہور، 2002ء
c ' طاہر القادری کی علمی خیانتیں'حکیم محمد عمران ثاقب،منہاج القرآن والسنۃ، گوجرانوالہ، 2008ء
d 'ڈاکٹر طاہر القادری؛ خادم دین متین یا افاک اثیم' حکیم محمد عمران ثاقب، منہاج القرآن والسنۃ، گوجرانوالہ، 2011ء
e ڈاکٹر محمد طاہر القادری؛ میدان کارزار میں، انکشاف پبلشرز، لاہور
f www.minhaj.org
g www.minhaj.info
h www.minhajbooks.com
i www.minhaj.org.pk
j www.minhajsisters.com
k www.pat.com.pk
l http://www.minhaj.org/english/tid/1801