میلاد النبی پر کی جانے والی بدعات اور مٹھائیوں وغیرہ کی شرعی حیثیت

اجتماعى قرآن خوانى اور فوت شدگان كو ایصالِ ثواب

سوال: ہم ہر ماہ كے آخرى اتوار تیس کے لگ بھگ عورتیں اكٹھى ہو كر قرآن خوانى كرتى ہیں اور ہر ایك تقریباً ایك پارہ پڑھ كر ایك یا ڈیڑھ گھنٹہ میں مكمّل قرآن ختم ہو جاتا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے كہ اس طرح ہر ایك کو پورے قرآن کریم کی تلاوت کا ثواب ملتا ہے، یہ بات کہاں تک درست ہے؟...قرآن خوانی كے بعد ہم دعا كرتى ہیں كہ اللہ تعالىٰ اس كا ثواب زندہ اور فوت شدگان مؤمنوں كو پہنچائے تو كیا یہ ثواب اُن كو پہنچتا ہے ۔اس عمل کی دلیل کے طورپر نبی کریم ﷺکا درج ذیل فرمان پیش کیا جاتا ہے:

«إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ»

''جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس كے عمل منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین قسم كے اعمال کے: صدقہ جاریہ اور ایسا فائدہ مند علم جس سے لوگ فائدہ اُٹھائیں اورنیك و صالح اولاد جو اس كے لئے دعا كرے ۔''

الجواب بعون الوہاب: اوّل:قرآن مجید كى تلاوت كرنے كے كتاب و سنت میں بہت زیادہ فضائل بیان ہوئے ہیں، لیکن قرآنِ كریم كى تلاوت اور اکٹھے ہوکرپڑھنے كا ثواب اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس میں طریقہ بھى شرعى اختیار كیا جائے، كہ جمع ہونے والے لوگ اكٹھے ہوں اور قرآن مجید كى تفسیر اور اس كے مسائل سمجھیں اور ایك دوسرے كو بیان كریں، اور تلاوتِ قرآن كى تعلیم حاصل كریں۔اور شرعى اجتماع میں یہ بھى شامل ہے كہ جمع ہونے والوں میں سے ایك شخص قرآن كى تلاوت كرے اور باقى افراد اسے سمجھنے اور غور و فكر كى خاطر سنیں، دونوں طرح ہى سنّتِ نبویہ سے ثابت ہے۔

اور ہر ایك شخص نے ایك پارہ پڑھا ہو تو اسے ہر شخص كے لیے مکمل قرآنِ مجید کی تلاوت کا ثواب شمار كرنا صحیح نہیں، كیونكہ جمع ہونے والے ہر شخص نے پورا قرآن تو ختم نہیں كیا بلكہ سنا بھى نہیں، بلكہ سب نے تھوڑا تھوڑا تلاوت كیا ہے تو اُسے اتنا ہى ثواب ملے گا جتنا اس نے تلاوت كیا ہے۔سعودی عرب کی 'دائمی فتویٰ کونسل' کے علما كہتے ہیں:

''قرآن خوانى كے لیے جمع ہونے والوں میں سے ہر ایك كو ایك ایك پارہ دینا تا كہ وہ اس كى تلاوت كرے، اسے مكمل قرآن یعنی ہر ایك كے لیے پورا قرآن شمار نہیں كیا جائے گا ۔''

دوم:قرآن مجید كى تلاوت كے بعد اجتماعى دعا مشروع نہیں اور نہ ہى قرآن خوانى كا ایصالِ ثواب فوت شدگان كے لیے جائز ہے، اور نہ ہى زندوں كے لیے،کیونکہ ہمارے نبى كریمﷺ نے اور نہ ہى صحابہ كرام نے ایسا کوئی عمل كیا۔

شیخ عبد العزیز بن باز ﷫ سے یہ سوال كیا گیا کہ كیا میں اپنے والدین كے لیے قرآن مجید ختم كر سكتا ہوں كیونكہ وہ پڑھے لكھے نہیں ؟ اور كیا میرے لیے كسى پڑھے ہوئے شخص كى جانب سے قرآن مجید ختم كرنا جائز ہے كیونكہ میں اسے قرآن كا ثواب ہدیہ كرنا چاہتا ہوں، اور كیا ایك سے زائد اشخاص كے لیے قرآن ختم كر سكتا ہوں ؟ شیخ﷫ كا جواب تھا:

'' نہ تو كتاب اللہ میں اور نہ ہى سنتِ مطہرہ میں نبى كریم ﷺ اور صحابہ كرام سے كوئى ایسى دلیل ملتى ہے جو والدین یا كسى اور كو قرآنِ مجید كى تلاوت كا ثواب ہدیہ كرنے كى مشروعیت پر دلالت كرتى ہو۔بلكہ قرآنِ مجید كى تلاوت سے خود فائدہ اُٹھانا اور استفادہ كرنا مشروع ہے، اور اس كے معانى پر غور و فكر اور تدبر كرنا اور اس پر عمل كرنا مشروع كیا گیا ہے جیساکہ اللہ سبحانہ و تعالىٰ كا فرمان ہے:

''یہ بابركت كتاب ہے جسے ہم نے آپ كى طرف اس لیے نازل فرمایا ہے كہ لوگ اس كى آیتوں پر غور فكر كریں اور عقل مند اس سے نصیحت حاصل كریں ۔''

قرآن کریم میں مختلف مقامات پر ارشادِ بارى تعالىٰ اس طرح ہے:

''یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دكھاتا ہے جو بہت ہى سیدھا ہے ۔''

''كہہ دیجئے یہ تو مؤمنوں كے لیے ہدایت و شفا كا باعث ہے ۔''

اور نبى كریم ﷺ كا فرمان ہے:

«يُؤْتَى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَآلُ عِمْرَانَ .. كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ أَوْ كَأَنَّهُمَا حِزْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا»

''روزِ قیامت قرآنِ مجید پر عمل كرنے والوں كو لایا جائے گا، سورۃ البقرۃ اور آلِ عمران آگے ہوں گى گویا كہ وہ دو بادل ہیں یا پرندوں كے دو جھنڈ ہوں وہ ان كا دفاع كر رہى ہوں گى۔''

مقصد یہ ہے كہ قرآنِ مجید اس لیے نازل ہوا ہے كہ اس پر عمل كیا جائے اور اس كى تلاوت كثرت سے ہو، نہ كہ اس لیے کہ فوت شدگان كے لیے ہدیہ اور ایصالِ ثواب كے لیے پڑھا جائے۔میرے علم كے مطابق والدین وغیرہ كو ایصالِ ثواب كے لیے قرآن خوانى كرنے كى كوئى ایسى دلیل نہیں ملتى جس پر اعتماد كیا جا سكے، اور رسول كریم ﷺ كا فرمان یہ ہے:

«مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»

'' جس كسى نے بھى كوئى ایسا عمل كیا جس پر ہمارا حكم نہیں تو وہ عمل مردود ہے ۔''

بعض اہل علم اسے جائز قرار دیتے ہیں، ان كا كہنا ہے كہ قرآنِ مجید یا دوسرے اعمال صالحہ كا ثواب ہدیہ كرنے میں كوئى مانع نہیں، اُنہوں نے اسے صدقہ اور فوت شدگان كے لیے دعا پر قیاس كیا ہے، لیكن یہ صحیح نہیں بلكہ مذكورہ بالا اور اس موضوع كى دوسرى احادیث كى بنا پر پہلا قول ہى صحیح ہے۔

اور اگر تلاوت كا اجروثواب ہدیہ كرنا مشروع اور جائز ہوتا تو سلف صالحین ﷭ بھى ایسا ضرور كرتے، اور پھر عبادت میں تو قیاس كرنا جائز ہى نہیں، كیونكہ عبادات توقیفى ہیں، ان میں كمى و زیادتى نہیں كى جا سكتى اور عبادت كا ثبوت یا تو كلام اللہ سے یا پھر سنّت رسول اللہ سے ہو گا، اس كے علاوہ نہیں، اس كى دلیل وہی سابقہ حدیث ہے ۔''

اور ان كااس حدیث سے استدلال كرنا صحیح نہیں کہ'' جب ابن آدم مر جاتا ہے تو اس كے عمل منقطع ہو جاتے ہیں لیكن تین قسم كے عمل ایسے ہیں جو جارى رہتے ہیں ...''

بلكہ جب اس حدیث پر غور كیا جائے تو یہ فوت شدگان كے لیے قرآن خوانى وغیرہ كے ایصال ثواب كى عدم مشروعیت پر دلالت كرتى ہے، كیونكہ نبى كریم ﷺنے فرمایا ہے: «وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ» ''نیك و صالح اولاد جو اس كے لیے دعا كرتى ہے ۔''

آپﷺنے یہ نہیں فرمایا : ''وہ اُس كے لیے قرآن خوانى كرتى ہے ۔''

میلاد کی اجتماعی مجلس اور اس میں دعاے رابطہ

سوال : ہمارے ہاں اس طرح عید میلاد النبى منائی جاتی ہے جو صبح دس بجے شروع ہو كر شام تین بجے تك جاری رہتى ہے۔ اس مجلس کی ابتدا استغفار ، حمد و تسبیح ، تكبیرات اور نبى ﷺ پر درود و سلام سے ہوتى ہے اور پھر ہم قرآن پڑھتے ہیں، اور بعض عورتیں اس دن روزہ بھى ركھتى ہیں تو كیا اس دن كو یہ مذکورہ عبادات كے لیے مخصوص كرنا بدعت شمار ہوگا؟

اسى طرح ہمارے ہاں ایك بہت لمبى دعا ہے جو سحرى كے وقت كى جاتى ہے جو اس كى استطاعت ركھتا ہو۔ اس دعا كا نام 'دعاے رابطہ'ہے۔ اس دعا میں نبى كریم ﷺ پر دورد و سلام، آپ كے صحابہ پر رحمت، جملہ انبیا،اُمّہات المؤمنین اور صحابیات پر سلام،خلفاے راشدین اور تابعین عظام اور اولیا و صالحین پر رحمت كى دعا كے ساتھ ہر ایك اپنا نام ذكر كرتا ہے۔اور كیا یہ صحیح ہے كہ ان سب ناموں كا ذكر كرنے سے وہ ہمارا تعارف كر لیتے ہیں اور جنّت میں ہمیں پكاریں گے، كیا یہ دعا بدعت نہیں؟

میں تو یہى سمجھتى ہوں كہ یہ بدعت ہے، لیكن اكثر عورتیں میرى مخالفت كرتى ہیں، اگر میں غلطى پر ہوں تو كیا اللہ مجھے سزا دے گا، اور میں حق پر ہوں تو مجھے بتائیں كہ میں اُنہیں كیسے مطمئن كر سكتى ہوں؟ میں اس مسئلہ سے بہت پریشان ہوں جب بھى نبى كریم ﷺ كى درج ذیل حدیث ذہن میں آتى ہے تو میرى پریشانى اور غم اور بھى زیادہ ہو جاتا ہے کہ نبى كریم ﷺكا فرمان ہے:

«كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ وَكُلَّ ضَلاَلَةٍ فِى النَّار»ِ

'' ہر نیا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے، اور ہر گمراہى آگ میں ہے ۔''

جواب: عید میلاد ا لنبى ﷺ منانا بدعت ہے، اور اس میں معین عبادات مثلا سبحان اللہ والحمد للہ اور اعتكاف اور قرآن مجید كى تلاوت اور روزے وغیرہ كى تخصیص كرنا بدعت ہے ایسا كرنے والے كو كوئى اجروثواب حاصل نہیں ہو گا كیونكہ یہ مردود ہے۔

سیدہ عائشہ ؓ بیان كرتى ہیں كہ رسول كریم ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا هَذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ»»

''جس كسى نے بھى ہمارے اس دین میں كوئى نیا كام ایجاد كیا تو وہ مردود ہے۔''

اور مسلم شریف كى ایك روایت میں یہ الفاظ ہیں:

«مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»

'' جس كسى نے بھى كوئى ایسا عمل كیا جس پر ہمارا حكم نہیں تو وہ مردود ہے ۔''

امام فاكہانى  كہتے ہیں:

''میرے علم كے مطابق كتاب و سنت میں اس میلاد كى كوئى دلیل نہیں، اور نہ ہى علماے اُمّت میں سے كسى معتبر اور قدوۂ دین عالم دین سے اس پر عمل كرنا ثابت ہے جو سلف صالحین كے آثار پر عمل كرنے والے ہوں، بلكہ یہ بدعت ہے جسے باطل اور شہوانى قسم كے افراد... جو كھانے پینے كو مشغلہ بنائے ہوئے تھے... كى ایجاد ہے ۔''

اور شیخ عبد العزیز بن باز﷫ سے بھى اس كے متعلق كئى بار سوال كیا گیا جو ہم ذیل میں بمع جواب پیش كر رہے ہیں:

یہ سوال بار بار آتا رہا ہے کہ نبیﷺ كى پیدائش کے دن محفل میلاد منعقد کرنا، آپ ﷺ كى ان محفلوں میں حاضری کا اعتقاد رکھ کر از روئے تعظیم وتکریم آپ کے خیرمقدم میں کھڑے ہوجانا، آپﷺ پر درود وسلام بھیجنا اورمیلادوں میں کئے جانے والے اس طرح کے دیگر اعمال كى شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب:رسول اللہ ﷺ یا كسى اور كى پیدائش پر محفل میلاد منعقد کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ اسلام میں ایک نو ایجاد بدعت ہے، کیونکہ پہلى تین افضل صدیوں میں رسول اللہ ﷺ، آپ کے خلفاے راشدین، دیگر صحابہ کرام اور اخلاص کے ساتھ ان كى پیروی کرنے والے تابعین نے آپﷺ كى یوم پیدائش کا جشن نہیں منایا جبکہ وہ بعد میں آنے والے لوگوں کے مقابلہ میں سنّت کا زیادہ علم ، رسول اللہ ﷺ سے کامل محبت رکھنے والے اورطریقۂ نبوی كى مکمل پیروی کرنے والےتھے۔

نبی ﷺ سے ایک حدیث میں ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

«مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا هَذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ»»

''جس نےہمارے اس دین میں کوئی نیا کام نکالا جو( دراصل ) اس میں سے نہیں تو وہ ناقابل قبول ہے۔''

اور آپ ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

«فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الـْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ »

''تم میری سنّت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاے راشدین كى سنّت کو لازم پکڑو اُسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لو اور دین میں نئی نئی باتوں سے بچو کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے۔''

ان دونوں حدیثوں میں بدعات ایجاد کرنے اور ان پر عمل کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔اللہ تعالىٰ نے اپنی کتابِ مبین قرآنِ کریم میں فرمایا:

﴿وَما ءاتىٰكُمُ الرَّ‌سولُ فَخُذوهُ وَما نَهىٰكُم عَنهُ...٧ ﴾... سورة الحشر

''اور تمہیں جوکچھ رسول دیں لے لو اور جس سے روک دیں، رک جاؤ۔''

نیز اللہ عزوجل نے فرمایا:

﴿فَليَحذَرِ‌ الَّذينَ يُخالِفونَ عَن أَمرِ‌هِ أَن تُصيبَهُم فِتنَةٌ أَو يُصيبَهُم عَذابٌ أَليمٌ ٦٣﴾... سورة النور

سنو! جولوگ حکم رسول كى مخالفت کرتے ہیں، اُنہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا اُنہیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔''

نیز اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

﴿لَقَد كانَ لَكُم فى رَ‌سولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَر‌جُوا اللَّهَ وَاليَومَ الءاخِرَ‌ وَذَكَرَ‌ اللَّهَ كَثيرً‌ا ٢١﴾... سورة الاحزاب

یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ میں عمدہ نمونہ ( موجود ) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالىٰ كى اور قیامت کے دن كى توقع رکھتا ہو، اور بکثرت اللہ تعالىٰ کو یاد کرتا ہو۔

نیز اللہ تعالىٰ نے فرمایا:

﴿وَالسّـٰبِقونَ الأَوَّلونَ مِنَ المُهـٰجِر‌ينَ وَالأَنصارِ‌ وَالَّذينَ اتَّبَعوهُم بِإِحسـٰنٍ رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَ‌ضوا عَنهُ وَأَعَدَّ لَهُم جَنّـٰتٍ تَجر‌ى تَحتَهَا الأَنهـٰرُ‌ خـٰلِدينَ فيها أَبَدًا ۚ ذ‌ٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ ١٠٠ ﴾... سورة التوبة

''اور جومہاجرین وانصار سابق اورمقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے، اور اللہ نے اُن کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور یہ بڑی کامیابی ہے۔''

نیزاللہ تعالىٰ نے فرمایا:

﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة

''آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام پورا کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا۔''

اس مضمون كى آیات قرآن کریم میں بہت زیادہ ہیں۔

اس طرح كى میلادی مجالس کو ایجاد کرنے کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالىٰ نے اس اُمت کے لئے دین مکمل نہیں کیا، اور جن باتوں پر عمل کرنا اُمّت کے لئے ضروری تھا، رسول اللہﷺ نے اسے اُن تک نہیں پہنچایا، یہاں تک کہ جب بعد میں یہ بدعتی لوگ آئے تو اُنہوں نے اللہ تعالىٰ كى شریعت میں ایسی چیزوں کو ایجاد کیا جن كى اللہ تعالى نے اجازت نہیں دی تھی اور اُن لوگوں نے یہ خیال کیا کہ یہ اعمال اُنہیں اللہ کے قریب کردیں گے۔

بلاشبہ دین میں اس طرح كى نئی چیزوں کا ایجاد کرنا انتہائی خطرناک اور اللہ و رسول پر اعتراض ہے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالىٰ نے دین کو مکمل فرما کر اپنی نعمت کا اِتمام کردیا، رسول اللہﷺ نےواضح طور پردین کو پہنچا دیا اور اُنہیں جنّت تک پہنچانے اور جہنّم سے نجات دلانے والے ہر راستہ كى راہنمائی فرمادی۔جیسا کہ صحیح حدیث میں حضرت عبداللہؓ بن عمروبن عاص سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِىٌّ قَبْلِى إِلاَّ كَانَ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ يَدُلَّ أُمَّتَهُ عَلَى خَيْرِ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ وَيُنْذِرَهُمْ شَرَّ مَا يَعْلَمُهُ لَهُمْ»

مجھ سے پہلے اللہ نے جس نبی کوبھی بھیجا اس پر واجب تھا کہ وہ اپنی اُمّت کے لئے جن چیزوں میں خیر سمجھے، ان كى راہنمائی کرے اورجن چیزوں میں شر سمجھے ان سے روکے۔

یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے نبی محمد ﷺ انبیا میں سب سے افضل اور سلسلۂ نبوت كى آخری کڑی تھے اوراُمت تک دین پہنچانے اور ان كى خیرخواہی میں سب سے کامل تھے، اگر یوم پیدائش کا جشن منانا اللہ تعالىٰ کے ہاں پسندیدہ دین سے ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ اسے اُمّت کے لئے ضرور بیان فرماتے، یا اپنی حیاتِ مبارکہ میں اس طرح کے جشن منا کر دکھلاتے، یا کم از کم آپ کے صحابہ کرام آپ كى یوم پیدائش پر جشن میلاد ضرور مناتے، لیکن جب عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ میں یہ سب کچھ نہیں ہوا تو یہ بات واضح ہوگئى کہ محفل میلاد کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے، بلکہ وہ ان نئے ایجاد کردہ کاموں میں سے ہے جن سے اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی اُمّت کو بچنے كى تاکید فرمائی ہے جیسا کہ سابقہ دونوں حدیثوں میں بدعات سے اجتناب كى تاکید گزر چكى ہے، اور اس مفہوم میں دوسری حدیثیں بھی وارد ہیں ،مثلاً خطبہ جمعہ میں نبی ﷺ کا یہ فرمان:

« أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ كِتَابُ الله وَخَيْرُ الْهُدَى هُدَى مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ »

''اما بعد بہترین کلام اللہ كى کتاب ہے اور سب سے اچھا طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے، اور بدترین کام وہ ہیں جو دین میں ایجاد کئے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔''

مذکورہ بالا اور دیگر دلائل كى بنیاد پر علما ے کرام نے میلادی محفلوں کو صراحتاً خلافِ شرع قرار دیا اوران سے بچنے كى تاکید كى ہے۔ بعض متاخرین نے فریق اوّل كى رائے سے اختلاف کرتے ہوئے ان میلادی محفلوں کے انعقاد کو اس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے کہ وہ خلافِ شرع ناجائزکاموں پر مشتمل نہ ہوں ،مثلاً رسول اللہ ﷺ کے بارے میں غلو کرنا، مرد وزن کا اختلاط، گانے بجانے کے آلات کا استعمال اور ان کے علاوہ وہ تمام چیزیں جن کو شریعتِ مطہرہ غلط قرار دیتی ہے۔اورجواز کے قائلین ان میلادوں کوبدعتِ حسنہ سمجھتے۔

ایک شرعی قاعدہ: شریعت اسلامیہ کے جس مسئلہ میں لوگ تنازع کا شکار ہوجائیں اسے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ كى جانب لوٹایا جائے۔جیسا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم ۖ فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ ۚ ذ‌ٰلِكَ خَيرٌ‌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ٥٩ ﴾... سورة النساء

''اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ كى اور فرمانبرداری کرو رسول اللہ ﷺ كى اور تم میں سے اختیار والوں کی، پھر اگر كسی چیز میں اختلاف کرو تواسے لوٹا دو اللہ تعالىٰ كى طرف اور رسول كى طرف اگر تمہیں اللہ تعالىٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اورباعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔''

نیز اللہ تعالىٰ نے فرمایا:

﴿وَمَا اختَلَفتُم فيهِ مِن شَىءٍ فَحُكمُهُ إِلَى اللَّهِ...١٠ ﴾... سورة الشورى

''اورجس چیز میں تمہارا اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالىٰ كى طرف ہے۔''

چنانچہ جب ہم نے مسئلۂ میلاد کو اللہ تعالىٰ كى کتاب قرآنِ مجید كى جانب لوٹایا تو ہم نے رسول اللہﷺ كى لائی ہوئی شریعت كى پیروی كى اورمنع کردہ چیزوں سے اجتناب کا حکم دیتے ہوئے پایا، اور یہ کہ اللہ سبحانہ وتعالىٰ نے اس اُمّت کے لئے دین کو مکمل فرمادیا ہے اور یہ میلادیں رسول اللہ ﷺ كى لائی ہوئی شریعت میں سے نہیں ہیں، لہٰذا یہ بات واضح ہوگئى کہ محفل میلاد کا تعلق اس کامل اکمل دین سے نہیں ہے، جس کے بارہ میں رسول اللہ ﷺ كى اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔

اسی طرح ہم نے اس مسئلہ کو سنّتِ رسول كى جانب بھی لوٹایا تواس بارے میں نہ تو نبیﷺ کا کوئی عمل اور نہ ہی کوئی حکم اورنہ ہی صحابہ کا کوئی عمل ملا تواس سے یہ بات واضح ہوگئى کہ محفل میلاد کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ بدعت اوردین میں نئی پیدا کردہ چیز ہے، نیز اس میں یہود ونصارىٰ كى عیدوں سے مشابہت پائی جاتی ہے۔

چنانچہ معمولی درجہ كى بصیرت، معرفتِ حق کا شوق اور اس كى طلب میں انصاف پسندی رکھنے والے ہرشخص پر یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ محفل میلاد کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ان نوایجاد بدعات میں سے ہے جن سے اللہ اور اس کے رسولﷺنے بچنے كى تاکید كى ہے۔

ایک صاحبِ عقل وخرد کو اس بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے کہ جابجا لوگ کثرت سے محفل میلاد منعقد کرتے ہیں کیونکہ حق زیادہ لوگوں کے کرنے سے نہیں بلکہ شریعت كى دلیلوں سے پہچانا جاتا ہے۔جیسا کہ اللہ نے یہود ونصارى كى بابت فرمایا:

﴿وَقالوا لَن يَدخُلَ الجَنَّةَ إِلّا مَن كانَ هودًا أَو نَصـٰر‌ىٰ ۗ تِلكَ أَمانِيُّهُم ۗ قُل هاتوا بُر‌هـٰنَكُم إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ١١١﴾... سورة البقرة

''یہ کہتے ہیں کہ جنّت میں یہودونصارىٰ کے سوا کوئی نہیں جائے گا، یہ صرف ان كى آرزوئیں ہیں۔ ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل پیش کرو۔''

نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِن تُطِع أَكثَرَ‌ مَن فِى الأَر‌ضِ يُضِلّوكَ عَن سَبيلِ اللَّهِ...١١٦ ﴾... سورة الانعام

''اور دنیا میں زیادہ لوگ ایسے ہیں کہ اگر آپ ان کا کہنا ماننے لگیں توآپ کواللہ كى راہ سے بے راہ کردیں گے۔''

ان میلادی محفلوں کے بدعت ہونے کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ اکثر وبیشتر میلاد كى ان محفلوں میں دیگر حرام کاریاں بھی ہوتی ہیں مثلا مرد وزن کا اختلاط، گانے بجانے ڈھول تاشے کے آلات، اور نشہ آور اشیا کا استعمال اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی برائیاں اور بسا اوقات ان محفلوں میں مذکورہ برائیوں سے بڑھ کر شرکِ اکبر تک کا ارتکاب کیا جاتا ہے،مثلاً رسول اللہ ﷺ كى ذات یا دیگر اولیاے کرام کے بارے میں غلوکرنا، اُنہیں پکارنا، اُن سے فریاد رسی اورمدد کا سوال کرنا، وغیرہ اور ان كى بابت یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ غیب جانتے ہیں اور اس طرح کے بہت سےکفریہ اعتقادات جن کا ارتکاب میلادِ نبوی اور اولیا کے میلادوں کے موقع پر کرتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کا صحیح فرمان کتب احادیث میں آیا ہے:

« وَإِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِى الدِّينِ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِى الدِّينِ»

''دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں كى ہلاکت کا سبب دین میں غلو تھا۔''

نیز نبی ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

« لاَ تُطْرُونِى كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُ الله، فَقُولُوا عَبْدُ الله وَرَسُولُهُ »

''تم ( حدسے زیادہ تعریفیں کرکے ) مجھے میرے مقام سے آگے نہ بڑھاؤ جیسا کہ نصارىٰ نے عیسىٰ بن مریم کو حد سے آگے بڑھا دیا تھا، میں اللہ کا بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔''

قابل تعجب بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس طرح کے غیرشرعی اجتماعات میں شرکت کے لئے انتہائی سرگرم اور کوشاں نظرآتے ہیں اور بوقتِ ضرورت اس كى جانب سے دفاع بھی کرتے ہیں، جبکہ دوسری طرف وہی لوگ جمعہ اور اللہ کے دیگر فرائض سےبالکل پیچھے نظر آتے ہیں، نہ ہی وہ فرائض كى کچھ پروا کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے چھوڑنے کو کوئی بڑا گناہ سمجھتے ہیں۔ بلا شبہ یہ سب کچھ کمزور ایمان، کم علمی، اور گوناگوں گناہوں کے ارتکاب کے سبب دلوں کے انتہائی زنگ آلود ہوجانے كى وجہ سے ہے، ہم اللہ تعالى سے اپنے اور تمام مسلمان بھائیوں کے لئے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔

میلاد كى ان محفلوں میں ایک قبیح اور بدترین عمل یہ بھی انجام پاتا ہے کہ آپ ﷺ كى ولادت کا ذکر آنے پر بعض لوگ ازروئے تعظیم وتکریم آپ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کھڑے ہوجاتے ہیں، کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ رسول ﷺ میلاد میں حاضر ہوتے ہیں، یہ عظیم ترین جھوٹ اور بد ترین جہالت ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ قیامت سے قبل اپنی قبر مبارک سے نہ تو نکل سکتے ہیں اور نہ لوگوں میں سے كسى سے ملاقات کرسکتے ہیں، اور نہ ہی ان مجلسوں میں حاضر ہوسکتے ہیں، بلکہ آپ ﷺ اپنی قبر میں قیامت تک رہیں گے، اور آپﷺ كى روح ِ مقدس بابرکت کرامت ( جنّت ) میں اپنے رب کے پاس اعلىٰ علیین میں ہے۔جیسا کہ اللہ تعالىٰ نے سورۃ المومنون میں فرمایا :

﴿ثُمَّ إِنَّكُم بَعدَ ذ‌ٰلِكَ لَمَيِّتونَ ١٥ ثُمَّ إِنَّكُم يَومَ القِيـٰمَةِ تُبعَثونَ ١٦ ﴾... سورة المؤمن

''اس کے بعد پھر تم سب یقیناً مرجانے والے ہو، پھر قیامت کے دن بلاشبہ تم سب اُٹھائے جاؤگے۔'' اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

«أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ»

''روزِ قیامت سب سے پہلے میری قبر پھٹے گی اور میں قبرسے باہر نکلوں گا، اورمیں سب سے پہلا سفارشی ہوں گا، اورسب سے پہلے میری سفارش قبول ہوگی۔''

آپ ﷺ پر ربِّ كريم كى جانب سے بے پایاں درود وسلام نازل ہو !!

مذکورہ بالا آیتِ کریمہ اور حدیثِ نبوی اور اس معنیٰ كى دیگر آیات واحادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نبیﷺ اور آپ کے علاوہ دیگر مردے قیامت کے روز ہی اپنی قبروں سے نکلیں گے، یہ علماے اسلام کا متفق علیہ مسئلہ ہے، اس میں كسى کا کوئی اختلاف نہیں۔

لہٰذا ہر بندۂ مسلم کو اس طرح کے مسائل سے واقف ہونا چاہئے اور جاہلوں كى نوایجاد بدعات وخرافات سے گریز کرنا چاہئے جس پر اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی ہے۔

دوم: رہا مسئلہ نبیﷺپر درود وسلام بھیجنے کا تویہ تقربِ الٰہی کا افضل ترین ذریعہ اور بلند اعمالِ صالحہ میں ایک ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلـٰئِكَتَهُ يُصَلّونَ عَلَى النَّبِىِّ ۚ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا صَلّوا عَلَيهِ وَسَلِّموا تَسليمًا ٥٦ ﴾... سورة الاحزاب

''اللہ اور اس کے فرشتے نبیﷺ پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجتے رہا کرو۔''

اور نبی ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا:

« مَنْ صَلَّى عَلَىَّ صَلاَةً صَلَّى الله عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا وَكَتَبَ لَهُ بِهَا عَشْرَ حَسَنَاتٍ»

''جو میرے اوپر ایک بار درود بھیجے تواللہ اس پردس بار رحمتیں نازل فرماتا ہے۔''

نبیﷺ پر درود بھیجنے کا کوئی مخصوص وقت نہیں ہے، بلکہ كسى بھی وقت آپ پردرود بھیجا جاسکتا ہے۔ نماز کے آخر یعنی تشہد میں اس کے پڑھنے كى تاکید ہے، بلکہ بعض اہل علم کے نزدیک ہر نماز کے آخری تشہد میں اس کا پڑھنا واجب ہے، اوربہت سے مقامات پرسنّت مؤکدہ ہے، مثلا اذان کے بعد، آپ ﷺ کے تذکرہ کے وقت، جمعہ کے دن، اوراس كى رات میں جیسا کہ بہت سی احادیث سے ان کا ثبوت ملتا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو دین كى سمجھ اور اس پر ثابت قدم رہنے كى توفیق عطا فرمائے، اور ہر ایک کو سنّت پر کاربند اوربدعت سےاجتناب كى نعمت سے نوازے۔ وہ اللہ سخی اورمہربان ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبی محمد ﷺ آپ کے اہل وعیال اورساتھیوں پر رحمت نازل فرمائے۔شیخ﷫ كا ایك دوسرى جگہ یہ فرمان ہے:

'' اگر میلاد النبى ﷺ مشروع ہوتى تو رسولِ كریم ﷺ اپنى اُمّت كے لیے اسے ضرور بیان فرماتے؛ كیونكہ رسول كریم ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ خیرخواہ تھے، اور آپ ﷺ كے بعد كوئى نبى نہیں جو كوئى ایسى بات بیان كرے جس سے نبى كریم ﷺ خاموش رہے ہوں؛ كیونكہ نبى كریم ﷺ خاتم النّبیین ہیں۔''

كتاب و سنّت میں یہ پورى وضاحت كے ساتھ بیان ہوا ہے كہ نبى كریم ﷺ كا لوگوں پر كیا حق ہے۔ آپ كے حقوق میں آپ سے محبت كرنا، اور آپ كى شریعت اور سنّتِ مطہرہ كى پیروى و اتباع كرنا شامل ہے اور اس كے علاوہ باقى حقوق كى ادائیگى كرنا بھى جن كى وضاحت قرآن و سنت میں ہوئى ہے۔

نبى كریم ﷺ نے اپنى اُمّت كے لیے یہ ذكر نہیں كیا كہ ان كى ولادت باسعادت كا جشن میلاد النبىؐ منانا مشروع ہے تا كہ اس پر عمل كیا جائے اور نبى كریم ﷺنے خود بھى سارى زندگى اس پر عمل نہیں كیا اور نہ آپ كے بعد صحابہ كرام نے جو سب لوگوں سے زیادہ نبى كریم ﷺ سے محبت كرنے والے تھے، اور آپ ﷺ كے حقوق كو جاننے والے اور علم ركھنے والے تھے۔

نہ تو اُنہوں نے اور نہ ہى خلفاے راشدین نے اور نہ ہى كسى اور نے میلاد النبى كا جشن منایا، پھر خیر القرون یعنى پہلے تین بہترین دور كے لوگوں نے بھى اس جشن كو نہیں منایا، كیا آپ كے خیال میں یہ سب لوگ نبى كریم ﷺكے حقوق كى ادائیگى میں كمى و كوتاہى كرنے والے تھے، حتىٰ كہ یہ بعد میں آنے والے افراد نے اس نقص اور كمى كو واضح كیا اور اس حق كو پورا كیا؟!

نہیں اللہ كى قسم ایسا نہیں ہو سكتا كہ یہ سب صحابہ كرام اور ائمہ كرام آپ ﷺ كے حقوق سے جاہل و غافل تھے، یا اس میں كمى و كوتاہى كى، كوئى عقل مند ایسى بات اپنى زبان سے نكال ہى نہیں سكتا جو ان صحابہ اور تابعین عظام كے حالات سے واقف ہو۔

عزیز قارئین! جب واضح ہو گیا كہ میلاد النبى كا جشن نبى كریم ﷺ كے دور میں موجود نہ تھا اور نہ ہى صحابہ كرام ، تابعین عظام اور ائمہ كرام كے ادوار میں اس پر عمل كیا گیا، اور نہ ہى یہ چیز ان كے ہاں معروف تھى تو اس سے آپ كو یہ علم بھى ہو گیا كہ یہ دین میں نیا ایجاد كردہ كام ہے اور یہ بدعت كہلاتا ہے ،اس پر عمل كرنا جائز نہیں، اور نہ ہى اس كى دعوت دینى اور اس میں شریك ہونا جائز ہے، بلكہ اس سے روكنا اور منع كرنا اور لوگوں كو اس سے بچانا واجب ہے ۔''

سوم:كسى بھى شخص كے لیے كسى دعااور ذكر كى اختراع كرنا اور اسے نشر كرنا اور پھیلانا جائز نہیں، اور دعاء الرابطة نامى دعا بدعت ہے اور اس میں یہ سوچ اور فكر پیش كى گئى ہے كہ جن سے مانگا جا رہا ہے، انہیں ذہن میں اپنے سامنے ركھا جائے اور یہ اعتقاد ہونا چاہیے كہ وہ دعا كرنے والے كو پہچانتے ہیں اور اُنہیں جنت میں بلائیں گے؛ یہ سب وہمى خیالات اور صوفیوں كى اختراعات ہیں جن كى دین اسلام میں كوئى اصل نہیں ملتى۔

وہ شرعى ضوابط اور اُصول و قواعد جن سے مسلمان شخص سنّت و بدعت اور غلط و صحیح كى پہچان كر سكتا ہے، وہ بالكل واضح ہیں وہ اس طرح كہ ''عبادات میں اصل ممانعت ہے، لیكن جب كسى عبادت كى دلیل مل جائے تو وہ جائز ہے، اسلئے اللہ كى عبادت اور اللہ كا قرب اس صورت میں ہى كیا جائے گا جس كى كتاب و سنت میں اس كى مشروعیت پر كوئى دلیل ملتى ہو۔''

اور مسلمان كے لیے دوسرا اصول یہ ہے كہ وہ اتباع و پیروى كرے، نہ كہ ابتداع یعنى بدعات كى ایجاد اور بدعات پر عمل نہ کرے، كیونكہ بدعت كا عمل كرنے والے كا وہ عمل مردود ہے اس كے منہ پر دے مارا جائے گا۔

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالىٰ نے تو ہمارے لیے شریعت كى تكمیل كر دى ہے، اور اپنى نعمت ہم پر مكمّل كر دى ہے، پھر اس طرح كى بدعت كیا ضروری ہے كہ وہ ہمارى زندگى میں ضرور ہونى چاہیے حالانكہ جو صحیح اور ثابت ہے، اس پر تو ہم عمل پیرا نہیں ہوتے ؟

اُمید ہے كہ جو كچھ بیان كر دیا گیا ہے، ان بہنوں كے لیے اس قسم كى بدعات سے اجتناب كرنے كے لیے وہى كافى ہوگا، اور ہم ان بہنوں كو تلقین كرتے ہیں كہ وہ اللہ كا تقوىٰ وپرہیزگارى اختیار كرتے ہوئے اچھى طرح سنّت كى پیروى كریں۔ اور اُنہیں یہ علم ہونا چاہیے كہ اللہ تعالىٰ بدعتى كى عبادت قبول نہیں فرماتا، چاہے وہ جتنى بھى كوشش و جدوجہد كرے اور كتنا بھى مال اس میں صرف كر ڈالے كیونكہ ''سنّت پر عمل كرنا چاہیے خواه سنت تھوڑى ہى ہو بدعت میں اجتہاد(مشقت وجستجو) كرنے سے بہتر ہے۔'' جس طرح جلیل القدر صحابى رسول عبد اللہ بن مسعود كا قول ہے:

«اِتَّبِعُوْا وَلاَ تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ کُفِیْتُمْ، عَلَیْکُمْ بِالْأَمْرِ الْعَتِیْقِ»

" تم اتباع ہی کیا کرو اور (دین میں ) نئے نئے کام ایجاد نہ کیا کرو، کیونکہ تمھیں اِس سے بچا لیا گیا ہے ۔ اور تم اُسی امر کو لازم پکڑو جو پہلے سے ( صحابہ کرام کے زمانے سے ) موجود تھا ۔''

اللہ تعالىٰ سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارى ان بہنوں كو ان اعمال اور طریقہ كى راہنمائى فرمائے جس میں اللہ كى رضا و خوشنودى پنہاں ہے، اور ہم آپ كو حسن تبلیغ كى وصیت كرتے ہیں كہ آپ اچھے اور بہتر اُسلوب میں اُنہیں سنّت پر عمل كرنے كى دعوت دیں اور آپ اس میلاد میں اُن كے ساتھ شریك مت ہوں اور اس میں جو تكلیف آپ كو پہنچے اس پر صبر و تحمل سے كام لیں۔

میلاد النبى كے روز تقسیم كردہ اشیا كھانے كا حكم

سوال: كیا حضرت محمد ﷺ كى میلاد كے سلسلہ میں تقسیم كردہ اشیا اور كھانے وغیرہ كھانا جائز ہیں؟ كچھ لوگ اس كى دلیل یہ دیتے ہیں كہ ابو لہب نے جب نبى كریم ﷺ كى میلاد میں لونڈى آزاد كى تو اللہ تعالىٰ نے اُس روز اس كے عذاب میں كمى كردى ۔

جواب: اوّل:شریعتِ اسلامیہ میں كوئى ایسى عید نہیں جسے عید میلاد النبى كے نام سے موسوم كیا جاتا ہو، اور پھر صحابہ كرام اور نہ ہى تابعین عظام حتى كہ ائمہ اربعہ اور دوسرے علما بھى اپنےدین میں اس دن كو جانتے تك نہ تھے، بلكہ اس عید كو تو باطنیہ میں سے بعض جاہل اور بدعتى لوگوں نے ایجاد كیا، اور پھر لوگ اس بدعت پر عمل كرنے لگے۔ہر دور اور ہرجگہ علماے كرام اس كو برا جانتے اور اس سے روكتے رہے۔

دوم:اس بنا پر اس دن جو کام بھى لوگ اس سے خاص كرتے ہیں وہ حرام اور بدعی کاموں میں شمار ہوتے ہیں، كیونكہ وہ ہمارى اس شریعت میں اس بدعى عید كو جارى كرنا چاہتے ہیں، مثلاً جشن منانا یا كھانے وغیرہ تقسیم كرنا جیسےامور۔

شیخ صالح فوزان اپنى كتاب'البیان لاخطاء بعض الكتاب 'میں بیان كرتے ہیں:

'' كتاب و سنّت میں اللہ تعالىٰ اور اس كے رسول ﷺ كے مشروع كردہ اعمال پر چلنے اور دین میں بدعت ایجاد كرنے كى ممانعت كسى پر مخفى نہیں۔''

اللہ سبحانہ و تعالىٰ كا فرمان ہے:

﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ وَيَغفِر‌ لَكُم ذُنوبَكُم...٣١ ﴾... سورة آل عمران

''كہہ دیجئے اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو میرى ( محمد ﷺ كى ) پیروى اور اتباع كرو، اللہ تعالىٰ تمہیں اپنا محبوب بنا لےگا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔''

اور ایك مقام پر اس طرح فرمایا:

﴿اتَّبِعوا ما أُنزِلَ إِلَيكُم مِن رَ‌بِّكُم وَلا تَتَّبِعوا مِن دونِهِ أَولِياءَ ۗ قَليلًا ما تَذَكَّر‌ونَ ٣﴾... سورة الاعراف

''تم اس كى پیروى كرو جو تمہارے ربّ كى طرف سے تم پرنازل كیا گیا ہے، اور اللہ كو چھوڑ كر كسى اور كى اتباع مت كرو، تم لوگ بہت ہى كم نصیحت پكڑتے ہو۔''

اور ایك مقام پر ارشادِ ربانى ہے:

﴿وَأَنَّ هـٰذا صِر‌ٰ‌طى مُستَقيمًا فَاتَّبِعوهُ ۖ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّ‌قَ بِكُم عَن سَبيلِهِ...١٥٣ ﴾... سورة الانعام

''اور یہ كہ یہ دین میرا راستہ ہے جو سیدھا ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسرى راہوں پر مت چلو كہ وہ راہیں تم كو اللہ كى راہ سے جدا كر دیں گى ۔''

اور نبى كریم ﷺكا فرمان ہے:

«إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ الله وَأَحْسَنَ الْهَدْىِ هَدْىُ مُحَمَّدٍ وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا»

''یقیناً سب سے سچى بات كتاب اللہ ہے، اور سب سے بہتر اور اچھا طریقہ محمد ﷺ كا ہے، اور سب سے برے اُمور دین میں بدعات كى ایجاد ہے ۔''

اور ایك دوسرى حدیث میں رسولِ كریم ﷺ كا فرمان ہے:

''جس كسى نے بھى ہمارے اس دین میں كوئى نئى چیز ایجاد كى جو اُس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔''

اورصحیح مسلم شریف كى روایت میں ہے:

'' جس كسى نے بھى كوئى ایسا عمل كیا جس پر ہمارا حكم نہیں تو وہ عمل مردود ہے۔''

اور لوگوں نے جو بدعات ایجاد كى ہیں، اُن میں ربیع الاوّل كے مہینہ میں میلاد النبى كا جشن منانا بھى شامل ہے اور لوگوں میں اس جشن وعید کے حوالے سے کئی طرح کے رجحانات پائے جاتے ہیں:

1. كچھ لوگ تو صرف اس جشن میں اکٹھے ہوتے ہیں اور اس میں اكٹھے ہو كر نبى كریم ﷺ كى ولادت كا قصہ پڑھتے ، یا پھر اس مناسبت سے تقاریر اور قصیدے پڑھتے ہیں۔

2. كچھ لوگ اس مناسبت سے كھانا وغیرہ اور مٹھائى تیار كر كے حاضرین كو پیش كرتے ہیں۔

3. كچھ لوگ مساجد میں قیام ، اور كچھ لوگ اپنے گھروں میں قیام اور عبادت كرتے ہیں۔

4. اور كچھ ایسے بھى ہیں جو مندرجہ بالا اُمور پر ہى اکتفا نہیں كرتے بلكہ ان كا یہ اجتماع دیگر حرام اور برائیوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں مرد و عورت كا اختلاط اور رقص وسرور كى محفل اور گانا بجانا بھى شامل ہے، یا پھر وہ شركیہ اعمال مثلاً نبى كریم ﷺ سے استغاثہ اور آپ كو دشمن كے خلاف اپنی مدد كےلیے پكارتےہیں۔

اور یہ سب اشكال و انواع اور اس كے كرنے والوں كے اغراض و مقاصد مختلف ہونے كے باوجود بلاشك و شبہ یہ عید وجشن حرام اور بدعت ہے جو دین میں قرونِ مفضلہ كے كئى سالوں كے بعد ایجاد كى گئى ہے۔اس بدعت كو ایجاد كرنے والا سب سے پہلا شخص ملك المظفر ابو سعید كوكبورى ہے جو چھٹى صدى كے آخر یا ساتویں صدى كےشروع میں 'اربل' كا بادشاہ تھا، جیسا كہ مؤرخین مثلاً ابن كثیر اور ابن خلكان وغیرہ نے ذكر كیا ہے۔اور ابو شامہ كہتے ہیں:

''موصل میں اس كو منانے والا سب سے پہلا شخص عمر بن محمد ملا تھا جو صالحین میں سے ایك صالح مشہور ہے، شاہ ِاربل نے اس كى پیروى میں یہ جشن منایا تھا۔''

حافظ ابن كثیر ﷫ابو سعید كوكبورى كے ترجمہ میں كہتے ہیں:

''یہ شخص ربیع الاول میں میلاد النبى كا بہت بڑا جشن منایا كرتا تھا۔''

پھر كہتے ہیں: سبط كا كہنا ہے کہ ''مظفر كے جشنِ میلاد النبى میں حاضر ہونے والوں میں سے ایك كا بیان ہے كہ: اس جشن اور كھانے میں ملك مظفر پانچ ہزار بكرے اور دس ہزار مرغیاں بھون كر اور ایك لاكھ زبدہ اور تیس ہزار حلوے كى پلیٹیں پیش كرتا۔''

مزید لکھتے ہیں کہ ''اور وہ صوفیوں كے لیے ظہر سے فجر تك محفل سماع قائم كرتا اور ان كے ساتھ خود بھى رقص كرتا تھا ۔''

اور وفیات الاعیان میں ابن خلكان كہتے ہیں:

''اور جب صفر كے ابتدائى ایام شروع ہوتے تو وہ ان قبوں كو مختلف قسموں كے قمقموں اور فخریہ زیبائش سے مزین كرتے، اور ہر قبے میں ایك گروپ گانے والا اور ایك گروپ اربابِ خیال اور ایك گروپ كھیل تماشہ كرنے والا بیٹھتا، اور ان طبقات میں ( قبوں كے طبقہ میں سے ) سے كوئى طبقہ خالى نہ چھوڑتے بلكہ اس میں گروپ مرتب كرتے ۔''

تو پھر اس دن بدعتى لوگ جو سب سے بڑا كام كرتے اور اس كا احیا كرتے ہیں وہ مختلف قسم كےكھانے پكا كر تقسیم كرنا اور لوگوں كو كھانے كى دعوت دینا ہے، اس لیے اگر مسلمان اس عمل میں شریك ہو كر ان كا كھانا كھائے اور ان كے دستر خوان پر بیٹھے تو بلا شك و شبہ وہ اس بدعت كو زندہ كرنے میں معاون اور شریك ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالىٰ كا فرمان ہے:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ...٢ ﴾... سورة المائدة

''اور تم نیكى و بھلائى كے كاموں میں ایك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور برائى و گناہ اور ظلم و زیادتى میں ایك دوسرے كا تعاون مت كرو۔''

اسى لیے اہل علم كے فتاوىٰ جات میں اس روز اور بدعتیوں كے دوسرے تہواروں میں تقسیم كیا جانے والا كھانا اور اشیا تناول كرنے كو حرام قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ شیخ ابن باز سے پوچھا گیا کہ میلاد النبى كے موقع پر ذبح كردہ گوشت كھانےكا حكم كیا ہے ؟ تو آپ كا جواب تھا:

'' اگر تو وہ میلاد والے ( یعنى جس كا میلاد منایا جا رہا ہے ) كے لیے ذبح كیا گیا ہے تو یہ شركِ اكبر ہے، لیكن اگر اس نے كھانے كے لیے ذبح كیا ہے تو اس میں كوئى حرج نہیں۔ لیكن اسے كھانا نہیں چاہیے، اور نہ ہى مسلمان اس مجلس اور میلاد میں حاضر ہو تا كہ وہ برائى كا عملى اور قولى طور پر انكار كر سكے؛ اِلا یہ اگر وہ اُنہیں نصیحت كرنے اور اس بدعت كو واضح كرنےكےلیے وہاں جائے لیكن اس میں سے كچھ نہ لے۔''

میلاد النبى كى مٹھائى خریدنا

سوال: كیا عید میلاد النبى ﷺ سے ایك روز قبل یا ایك روز بعد ...یا میلاد النبى كے دن میلاد كى مٹھائى كھانا حرام ہے، اور میلاد كى مٹھائى خریدنے كا حكم كیا ہے كیونكہ یہ مٹھائى اِنہی ایام میں ماركیٹ میں آتى ہے، برائے مہربانى شریعت مطہرہ سے راہنمائی فرمائیں۔

جواب: اوّل: میلاد منانا بدعت ہے، نہ تو نبى كریم ﷺ سے اس كا ثبوت ملتا ہے، اور نہ ہى كسى صحابى یا تابعی یا كسى امام سے، بلكہ یہ تو بدعتیوں اور تہواروں كے رسیا لوگوں نے ایجاد كیا ہے، جس طرح اُنہوں نے دوسرى بدعات و گمراہیاں ایجاد كیں، اسى طرح یہ بھى۔

دوم:اصل میں ضرر اور نقصان سے خالى مٹھائى وغیرہ خریدنا اور كھانا جائز ہے، جب تك اس میں كسى برائى میں معاونت نہ ہوتى ہو، یا پھر اس كى ترویج اور اس بدعت كو مسلسل كرنے كا باعث نہ بنتى ہو۔

ظاہر یہى ہوتا ہے كہ جشن میلاد كے ایام میں میلاد النبى كى مٹھائى خریدنا اس كى ترویج اور ایك قسم كى معاونت كا باعث ہے، بلكہ یہ ایك طرح كا جشن میلاد اور اسے عید منانا ہے، كیونكہ عید وہ ہے جس كے لوگ عادى ہوں، اس لیے اگر تو لوگوں كا جشن میلاد میں یہ معین چیز كھانا عادت ہو، یا پھر وہ اسے میلاد كے لیے ہی تیار كرتے ہوں اور باقى ایام میں نہ ملتى ہو تو اس كى خرید و فروخت اور كھانے اور اس دن اس کا ہدیہ دینا جشن میلاد منانے كى ہی ایك قسم ہوئی، اس لیے ایسا نہیں كرنا چاہیے۔

دائمی فتوی کونسل، سعودی عرب كے فتاوىٰ جات میں محبت كے تہوار ویلنٹائن ڈے كے تہوار اور اس كےمتعلقہ سرخ رنگ كى مٹھائى جس پر دل كى تصویر بنى ہوتى ہے كے متعلق درج ہے:

''كتاب و سنت كے صریح دلائل سے ثابت ہوتا ہےاور امت كے سلف صالحین اس پر جمع ہیں کہ اسلام میں صرف دو عیدیں اور تہوار ہیں یعنى عید الفطر اور عید الاضحىٰ اس كے علاوہ كوئى عید اور تہوار نہیں، چاہے وہ تہوار كسى شخص كے متعلق ہو یا جماعت كے یا كسى واقعہ و حادثہ كے، یا كسى بھى موضوع اور معنىٰ كے متعلق، یہ سب تہوار بدعت ہیں، اہل اسلام كے لیے ان تہواروں كا منانا جائز نہیں، اور نہ ہى ان كے لیے اس میں خوشى وسرور كا اظہار كرنا جائز ہے، اور ان كے لیے كسى بھى طرح اس میں معاونت كرنى بھى جائز نہیں۔''

كیونكہ یہ اللہ كى حدود سے تجاوز كرنا ہے؛ اور جو كوئى بھى اللہ كى حدود سے تجاوز كرتا ہے تو وہ اپنى جان پر ظلم كر رہا ہے۔اسى طرح مسلمان كے لیے اس میں كسى بھى طرح سے معاونت كرنا حرام ہے، چاہے وہ كھانا ہو یا پینا، یا خرید و فروخت كے ذریعہ یا پھر اس تہوار كے اشیا اور كھانے تیار كرنا، یا اس كے لیے خط و كتابت كرنا، یا پھر اعلان كرنا۔كیونكہ یہ سب كچھ گناہ اور ظلم و زیادتى میں تعاون اور اللہ اور رسولﷺ كى معصیت و نافرمانى ہے۔اللہ سبحانہ و تعالىٰ كا فرمان ہے:

﴿وَتَعاوَنوا عَلَى البِرِّ‌ وَالتَّقوىٰ ۖ وَلا تَعاوَنوا عَلَى الإِثمِ وَالعُدو‌ٰنِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَديدُ العِقابِ ٢﴾... سورة المائدة

''اور تم نیكى و بھلائى كے كاموں میں ایك دوسرے كا تعاون كرتے رہو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زیادتى میں ایك دوسرے كا تعاون مت كرو، یقیناً اللہ تعالى سخت سزا دینے والا ہے۔''

کیانبیﷺ نےمعراج کی رات اپنےربّ کودیکھا ؟

سوال: کیانبیﷺ نےجس دن جنّت اورجہنّم کودیکھااپنے ربّ کوبغیرکسی پردہ کےدیکھا ؟

اگر جواب ہاں میں ہوتو کتاب وسنّت سےاس کی دلیل سے بھی مطلع فرمائیں۔

جواب: اکثرصحابہ کرام کایہ مسلک ہےکہ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات اللہ تعالیٰ کوبعینہٖ نہیں دیکھا ۔

1. جیساکہ سیدہ عائشہ ؓسےیہ ثابت ہے، فرماتی ہیں :

آپ کواگرکوئی یہ حدیث بیان کرےکہ محمدﷺ نےاپنےربّ کودیکھاہےتووہ جھوٹا ہے اور اللہ تعالیٰ کاتویہ فرمان ہے: ﴿لا تُدرِ‌كُهُ الأَبصـٰرُ‌﴾ ''اسےآنکھیں نہیں پاسکتیں ...''

2. اورسیدنا ابوذر بیان کرتےہیں کہ میں نےنبیﷺ سے پوچھاکیاآپ نےاپنےربّ کو دیکھا ہے تواُنہوں نےفرمایا : نورانی پردے تھے،مَیں کیسےدیکھ سکتاہوں ۔

3. اور سیدنا ابن عباسؓ بیان کرتےہیں:

دل نےجھوٹ نہیں کہاجسے(پیغمبرنے) دیکھا،اسے تو ایک مرتبہ اوربھی دیکھا ۔

ابن عباسؓ فرماتےہیں کہ اسےآپ نے دومرتبہ دل کےساتھ دیکھا ۔

4. علامہ ابن قیم  کہتےہیں کہ

عثمان بن سعیددارمی نےاپنی 'کتاب الرؤیۃ' میں صحابہ کرام کااجماع بیان کیاہےکہ نبیﷺ نےمعراج کی رات اپنےربّ کونہیں دیکھا ، اوربعض نےعبد اللہ بن عباس ؓ کواس سےمستثنیٰ کیا ہے ۔ہمارےشیخ کاکہناہےکہ اس میں حقیقتاًکوئی اختلاف نہیں کیونکہ ابن عباس ؓنےیہ نہیں کہاکہ نبی ﷺ نےاپنی آنکھوں سےدیکھاہے ۔ امام احمد نےایک روایت میں اسی پراعتمادکرتےہوئےکہاہےکہ نبی ﷺ نےاللہ عزوجل کودیکھاہےلیکن یہ نہیں کہاکہ آنکھوں سےدیکھاہے اورامام احمد کےالفاظ ابن عباس ؓکےہی الفاظ ہیں ۔

ہمارےشیخ کاقول صحیح ہونےکی دلیل ابوذرّ کی دوسری حدیث ہےجس میں یہ ہےکہ ''اس کاحجاب نورہے۔''اوریہ نوراللہ ہی جانتاہےکہ وہی نورہےجوکہ ابوذر ؓ کی حدیث میں مذکورہےکہ میں نےنوردیکھا ۔

5. اورشیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ  کاقول ہے :

فصل : اور رؤیت کےمسئلہ میں صحیح بخاری میں جوابن عباس ؓسے ثابت ہےکہ اُنہوں نےکہا: حضرت محمد ﷺ نےاپنےربّ کودومرتبہ دل سےدیکھاہے اورسیدہ عائشہؓ نےرؤیت کا انکارکیا ہے توکچھ لوگوں نےاِن دونوں کےدرمیان جمع کرتے ہوئے کہاہےکہ عائشہ ؓ آنکھوں کی رؤیت کاانکارکرتی ہیں اورابن عباس ؓ نے رؤیتِ قلبی کوثابت کیاہے ۔

توابن عباس ؓسےثابت شدہ الفاظ مطلق ہیں ،یاپھرمقیدہیں۔ کبھی تووہ یہ کہتےہیں کہ محمدﷺنےاپنےربّ کودیکھااورکبھی کہتےہیں کہ محمد ﷺ نےدیکھا ۔

توابن عباس سےصریح الفاظ ثابت نہیں جن میں یہ ملتا ہوکہ نبی ﷺ نےاپنے ربّ کواپنی آنکھوں سےدیکھاہے، اورایسےہی امام احمد بھی کبھی مطلق رؤیت ذکرکرتےہیں اورکبھی یہ کہتےہیں کہ اپنےدل کےساتھ دیکھااورکوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ اُس نےامام احمد سےیہ سناہوکہ اُنہوں نے یہ کہاہو کہ نبی ﷺ نےاپنی آنکھوں سےدیکھاہے۔لیکن کچھ لوگوں نےاُن سےیہ مطلق کلام سنی اوراس سےآنکھوں کی رؤیت سمجھ لی جس طرح کہ بعض لوگوں نےابن عباس ؓکی مطلق کلام سن کرآنکھوں کی رؤ یت سمجھ لی ۔

تودلائل میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو رؤیتِ عینی کاتقاضا کرتی ہواورنہ ہی یہ ثابت ہےجیساکہ صحیح مسلم میں ابوذر ؓ سےحدیث مروی ہے۔وہ بیان کرتےہیں کہ میں نےنبیﷺ سے پوچھا:کیاآپ نےاپنےرب کودیکھاہےتوانہوں نےفرمایا: نور کو میں کیسےدیکھ سکتاہوں ؟ اوراللہ تبارک وتعالیٰ نےتویہ فرمایاہے :

﴿سُبحـٰنَ الَّذى أَسر‌ىٰ بِعَبدِهِ لَيلًا مِنَ المَسجِدِ الحَر‌امِ إِلَى المَسجِدِ الأَقصَا الَّذى بـٰرَ‌كنا حَولَهُ لِنُرِ‌يَهُ مِن ءايـٰتِنا...١ ﴾... سورة الإسراء

''پاک ہےوہ اللہ تعالیٰ جواپنےبندےکورات ہی رات میں مسجدِحرام سےمسجدِاقصی تک لےگیاجس کےآس پاس ہم برکت دے رکھی ہے،اس لئےکہ ہم اسےاپنی قدرت کےبعض نمونےدکھائیں ۔''

تواگراللہ تعالیٰ نےبعینہٖ اپنےآپ کودکھایاہوتاتواس کاذ کربطریق اولیٰ ہوتااوراسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کایہ فرمان بھی ہے :

﴿أَفَتُمـٰر‌ونَهُ عَلىٰ ما يَر‌ىٰ ١٢ وَلَقَد رَ‌ءاهُ نَزلَةً أُخر‌ىٰ ١٣ عِندَ سِدرَ‌ةِ المُنتَهىٰ ١٤ عِندَها جَنَّةُ المَأوىٰ ١٥ إِذ يَغشَى السِّدرَ‌ةَ ما يَغشىٰ ١٦ ما زاغَ البَصَرُ‌ وَما طَغىٰ ١٧ لَقَد رَ‌أىٰ مِن ءايـٰتِ رَ‌بِّهِ الكُبر‌ىٰ ١٨ ﴾... سورة النجم

''کیاتم جھگڑاکرتےہواس پرجو (پیغمبر) دیکھتےہیں۔اسےتوایک مرتبہ اوربھی دیکھا تھا سدرۃ المنتہی کےپاس، اسی کےپاس جنّت الماوٰی ہےجب کہ سدرۃ کو چھپائے لیتی تھی وہ چیزجواس پرچھارہی تھی۔ نہ تونگاہ بہکی اورنہ حدسےبڑھی یقیناًاس نےاپنےربّ کی بڑی بڑی نشانیوں میں سےبعض نشانیاں دیکھ لیں ۔''

تواگرنبیﷺنےبعینہٖ دیکھاہوتااس کاذ کربطریق اولیٰ ہوتا ۔

شیخ الاسلام کہتےہیں :

اورصحیح نصوص اورسلف کےاتفاق سےیہ امر ثابت شدہ ہے کہ دنیامیں اللہ تعالیٰ کواپنی آنکھوں سےکو‏ئی بھی نہیں دیکھ سکتامگریہ کہ آیانبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھاہےیا نہیں تو اس خاص مسئلہ میں اختلاف ہے۔اوراس پراتفاق ہےکہ قیامت کےدن مؤمن اللہ تعالی کوواضح طورپردیکھیں گےجس طرح کہ وہ سورج اورچاندکودیکھتےہیں ۔


حوالہ جات

صحيح مسلم :3084

دیكھیے: فتاوٰى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والافتاء: 2؍ 480

سورۃ ص :29

سورۃ الااسراء :9

سورۃ فصلت :44

صحيح مسلم:1912

صحيح مسلم:4493

دیكھیے: مجموع فتاوٰى شيخ ابن باز :8 ؍360 ،361

سنن نسائی:1589

صحيح بخارى :2697؛صحيح مسلم:4493

دیكھیے: المورد فی عمل المولد ( بحوالہ كتاب: رسائل فى حكم الاحتفال بالمولد النبوی)

سنن ابو داؤد:4609

سورۃ الحشر :7

سورة النور :63

سورة الاحزاب :21

سورۃ التوبۃ: 9

سورة المائدۃ:3

صحيح مسلم :4882

صحيح مسلم:867

سورة النساء:59

سورة الشورٰى :10

سورة البقرة:111

سورة الانعام:116

سنن نسائی:3057،سنن ابن ماجہ:3029....صححہ الالبانی

صحيح بخاری: 3445

سورة المؤمنون:16

صحيح مسلم:6079

سورة الاحزاب: 56

جامع ترمذی:486

دیكھیں: مجموع فتاوىٰ شيخ ابن باز : 6؍ 318 ،319

حجۃ النبی ﷺ از البانی: ص ۱۰۰

سورة آل عمران: 31

سورۃ الانعام : 153

سورۃ الاعراف :3

سورۃ الانعام : 153

سنن النسائی:1589

صحيح بخاری:2627

صحيح مسلم:4493

دیكھیے: البيان لأخطاء بعض الكتاب :268،270

دیكھیے البدايۃ: 13 ؍137

دیكھیے وفيات الاعيان : 3 ؍274

سورۃ المائدۃ :2

مجموع الفتاوٰى : 9 ؍74

سورۃ المائدۃ :2

صحیح بخاری: 6832

صحیح مسلم:261

صحیح مسلم :258

اجتماع الجیوش الإسلامية : 1؍12

سورۃ الاسراء:1

سورۃ النجم: 12تا18

مجموع الفتاوٰی : 6؍51،50