جشن میلاد النبیﷺکی شرعی حیثیت
ربیع الاوّل میں درپیش مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ بارہ ربیع الاوّل کو میلاد النبیﷺ منانے کا ہے ۔ چنانچہ بہت سارے مسلمان نبی کریمﷺ کی ولادت با سعادت کے حوالے سے ہر سال ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو 'عید میلاد النبیﷺ اورجشن مناتے ہیں ۔ عمارتوں پر چراغاں کیا جاتا اور جھنڈیاں لگائی جاتی ہیں ، نعت خوانی کےلئے محفلیں منعقد کی جاتیں اور بعض ملکوں میں سرکاری طور چھٹی بھی کی جاتی ہے ۔
مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا قرآن وحدیث میں 'جشن میلاد' کا کوئی ثبوت ہے؟ کیا نبی کریمﷺ نے اپنا میلاد منایا یا اس کی ترغیب دلائی ؟ کیا آپﷺ کے خلفائے راشدین میں سے کسی نے اپنے دورِ خلافت میں میلاد کے حوالے سے جشن منایا یا یومِ ولادت کو عید کا دن قرار دیا ؟کیا قرونِ اولیٰ میں اِس 'عید' کا کوئی تصور تھا ؟
اگر قرآن وحدیث اور قرونِ اولیٰ کی تاریخ کا پوری دیانتداری کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ان تمام سوالات کے جوابات کچھ یوں ملتے ہیں :
1. قرآن وحدیث میں جشن یا عید میلاد کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
2. نہ نبی کریمﷺ نے اپنا میلاد منایا اور نہ اس کی ترغیب دلائی ۔
3. پھر خلفاے راشدین میں سے کسی نے اپنے دورِ خلافت میں نبی کریمﷺ کی ولادت با سعادت کے حوالے سے کوئی جشن سرکاری طور پر یا غیر سرکاری طور پر نہیں منایا اور نہ ہی یومِ ولادت کو عید کا دن قرار دیا ۔ حالانکہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں نبی کریمﷺ سے سب سے زیادہ محبت تھی اور اگر وہ چاہتے تو ایسا کرسکتے تھے کیونکہ حکومت اُن کے ہاتھوں میں تھی ۔
4. قرونِ اولیٰ یعنی صحابہ کرام ، تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ جنھیں نبی کریمﷺ نے بہترین لوگ قرار دیا ،اُس زمانے میں لوگوں کے ہاں اِس عید کا کوئی تصور نہ تھا اور نہ ہی وہ یہ جشن مناتے تھے ۔
5. اِس پر مستزاد یہ کہ اِس اُمت کے معتبر ائمہ دین کے ہاں بھی نہ اس عید کا کوئی تصور تھا اور نہ وہ اُسے مناتے تھے اور نہ ہی وہ اپنے شاگردوں کو اِس کی تلقین کرتے تھے ۔
جشن عید میلادالنبیﷺ کا موجد
جشن عیدمیلادالنبی کی ابتدا ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن محمد الملقّب الملک المعظم مظفر الدین اربل (موصل،متوفی ۱۸؍رمضان ۶۳۰ء) نے کی۔ یہ بادشاہ ان محفلوں میں بے دریغ پیسہ خرچ کرتااور آلاتِ لہو و لعب کے ساتھ راگ و رنگ کی محفلیں منعقد کرتا تھا۔
مولانا رشید احمد گنگوہی لکھتے ہیں:
اہلِ تاریخ نے صراحت کی ہے کہ بادشاہ بھانڈوں اور گانے والوں کو جمع کرتا اور گانے کے آلات سے گانا سنتا اور خود ناچتا ۔ ایسے شخص کے فسق اور گمراہی میں کوئی شک نہیں ہے ۔ اس جیسے کے فعل کو کیسے جائز اور اس کے قول پرکیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے !
نیز کہتے ہیں :
اس فسق کی مختصر کیفیت اور اس بدعت کی ایجادیہ ہے کہ مجلس مولود کے اہتمام میں بیس قبے لکڑی کے بڑے عالی شان بنواتا اور ہر قبہ میں پانچ پانچ طبقے ہوتے ۔ ابتداے ماہِ صفر سے ان کو مزین کرکے ہر طبقہ میں ایک ایک جماعت راگ گانے والوں ، ٹپہ خیال گانے والوں ، باجے ،کھیل تماشے اورناچ کود کرنے والوں کی بٹھائی جاتی اور بادشاہ مظفر الدین خود مع اراکین وہزار ہا مخلوق قرب و جوار کے ہر روز بعد از عصر ان قبوں میں جاکر ناچ رنگ وغیرہ سن کر خوش ہوتا اور خود ناچتا ۔ پھر اپنے قبہ میں تمام رات رنگِ لہو ولعب میں مشغول ہورہتا اور دو روز قبل ایامِ مولود کے اونٹ ،گائیں ،بکریاں بے شمار طبلوں اور آلاتِ گانے ولہو کے ساتھ جتنے اس کے یہاں تھے، نکال کر میدان میں ان کو ذبح کراکر ، ہر قسم کے کھانوں کی تیاری کراکر مجالسِ لہو کو کھلاتا اور شبِ مولود کی کثرت سے راگ قلعہ میں گواتا تھا ۔
یہ تو تھا اِس کا موجد ۔ اور جہاں تک اِس کے جواز کا فتوی دینے والے شخص کانام ہے، تو وہ ہے: ابوالخطاب عمر بن الحسن المعروف بابن دحیہ کلبی متوفی ۶۳۳ھ۔
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
بن نجار کہتے ہیں کہ میں نے تمام لوگوں کو اسکے جھوٹ اور ضعیف ہونے پر متفق پایا ۔
وہ ائمہ دین اور سلف صالحین کی شان میں گستاخی کرنے والا اور خبیث زبان والا تھا ۔ بڑا احمق اورمتکبر تھا اور دین کے کاموں میں بڑا بے پرواہ تھا۔
یہ وہ شخص تھا جس نے ملک ِ اربل کو جب محفل ِ میلاد منعقد کرتے دیکھا تو نہ صرف اس کے جواز کا فتوٰی دیا بلکہ اس کے لئے مواد جمع کر کے ایک کتاب بنام التنویر في مولد السراج المنیر بھی لکھ ڈالی ۔ اسے اُس نے بادشاہِ اربل کی خدمت میں پیش کیا تواس نے اس کے صلہ میں اس کو ایک ہزار اشرفیوں کا انعام دیا ۔
اِن تمام حقائق سے ثابت ہوا کہ نبی کریمﷺ کی ولادتِ باسعادت کی مناسبت سے جشن منعقد کرنے کا آغاز آنحضورﷺ کی وفات کے تقریباً چھ سو سال بعد کیا گیا ۔ لہٰذا آپ ذرا غور کریں کہ جب اِس جشن کا نہ قرآن وحدیث میں ثبوت ملتا ہے ، نہ صحابہ کرام کے طرزِ عمل میں اِس کا وجود نظر آتا ہے ، نہ قرونِ اولیٰ کی پوری تاریخ میں اِ س کا تصور پایا جاتا ہے اور نہ ائمہ دین اِس کے قائل تھے تو پھر آج کے مسلمان اِس کے منانے پر کیوں بضد ہیں ؟ کیا اُن سب حضرات کو نبی کریمﷺ سے محبت وعقیدت نہ تھی جس کا دعوٰی اِس دور کے لوگ کر رہے ہیں؟ اگر تھی اور یقینا اِن لوگوں سے کہیں زیادہ تھی تو انھوں نے آپﷺ کا یومِ ولادت کیوں نہ منایا؟
یہاں ایک اور بات نہایت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے جو کام بطورِ عبادت نہیں کیا وہ قطعًا دین کا حصہ نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی مسلمان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اسے دین سمجھ کر یا کارِ خیر تصور کرتے ہوئے سر انجام دے ۔ مثلاً آپ ﷺ نے نمازِ عیدین اور نمازِ جنازہ کےلئے اذان نہیں کہلوائی اور نہ ہی صحابہ کرام کے ہاں اِس کا کوئی وجود تھا ۔ جب آپﷺ نے نہیں کہلوائی اور صحابہ کرام کے ہاں اِس کا کوئی وجود نہ تھا تو قیامت تک کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اِسے دین کا حصہ یا عبادت تصور کرے ۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟ کیا اذان میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور ذکر اللہ نہیں ہے ؟ یقیناً اذان اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی بڑائی پر مشتمل ہے لیکن نمازِ عیدین اور نمازِ جنازہ سے پہلے مشروع نہیں ہے ۔ اسی طرح 'جشن میلاد' کا مسئلہ ہے کہ جب نبی کریمﷺ نے یہ جشن نہیں منایا اور نہ ہی آپ ﷺ کے خلفاے راشدین نے منایا تو قیامت تک اسے دین کا حصہ یا کارِ ثواب تصور کرنا درست نہیں ہے ۔
اسی لئے حضرت حذیفہ کہتے تھے :
«کُلُّ عِبَادَةٍ لَمْ یَتَعَبَّدْهَا أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَلاَ تَعْبُدُوْهَا»
ہر وہ عبادت جو صحابہ کرامؓ نہیں کرتے تھے اُسے تم بھی عبادت سمجھ کر نہ کیا کرو۔
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کہتے تھے :
«اِتَّبِعُوْا وَلاَ تَبْتَدِعُوْا فَقَدْ کُفِیْتُمْ، عَلَیْکُمْ بِالْأَمْرِ الْعَتِیْقِ»
" تم اتباع ہی کیا کرو اور (دین میں ) نئے نئے کام ایجاد نہ کیا کرو، کیونکہ تمھیں اِس سے بچا لیا گیا ہے ۔ اور تم اُسی امر کو لازم پکڑو جو پہلے سے ( صحابہ کرام کے زمانے سے ) موجود تھا ۔
ہم نے اب تک جو لکھا ہے اگرچہ یہ ایک سنجیدہ اور دیانتدار آدمی کو سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ شریعت میں مروّجہ عید میلا النبیﷺ کی کوئی حیثیت نہیں ۔ تاہم اِس کی مزید وضاحت کے لئے اب ہم کچھ ایسے اصول بیان کرنا چاہتے ہیں جن پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اور ان کی بنا پر اِس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہ ہو گا کہ مروّجہ عید میلاد النبی دین میں ایک نیا کام (بدعت) ہے:
1. اسلام ایک مکمل دین ہے :
اسلام کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیّت یہ ہے کہ یہ ایک مکمل دین ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں میں پیش آنے والے مسائل کے متعلق واضح تعلیمات موجود ہیں ۔ اس لئے شارع نے اس میں کمی بیشی کرنے کی کسی کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑی...لیکن افسوس ہے کہ آج مسلمان نہ صرف اسلام کی ثابت شدہ تعلیمات سے انحراف کرتے جا رہے ہیں بلکہ غیر ثابت شدہ چیزوں کو اس میں داخل کرکے انہی کو اصل اسلام تصور کر بیٹھے ہیں ۔ حالانکہ جب دین مکمّل ہے اور اس کی ہدایات واضح ، عالمگیر اور ہمیشہ رہنے والی ہیں تو نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے اُنھیں اس کا حصہ بنا دینا کیسے درست ہو سکتا ہے ۔ ارشادِ باری ہے :
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة
آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیااور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیتِ دین تمھارے لئے پسند کرلیا ۔
سو اللہ ربّ العزت کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمارا دین ہمارے لئے مکمل کردیا ، ورنہ اگر اسے نامکمل چھوڑ دیا جاتا تو ہر شخص جیسے چاہتا اس میں کمی بیشی کرلیتا اور یوں دین لوگوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر رہ جاتا۔ اللہ ربّ العزت کے اس عظیم احسان کی قدروقیمت کا اندازہ آپ صحیحین کی ایک روایت سے کرسکتے ہیں کہ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں ایک یہودی عالم حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے امیر الموٴمنین ! کتاب اللہ (قرآن مجید ) میں ایک ایسی آیت ہے جو اگر ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو بطورِعید مناتے۔ حضرت عمر نے پوچھا : وہ آیت کونسی ہے ؟ تو اس نے کہا :
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة
تو حضرت عمر نے کہا : یہ آیت عید کے دن ہی نازل ہوئی تھی جب رسول اللہﷺ عرفات میں تھے اور وہ دن جمعۃ المبارک کا دن تھا۔
تو یہودی عالم نے یہ بات کیوں کہی تھی کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو یومِ عید تصور کرکے اس میں خوشیاں مناتے ؟ اس لئے کہ وہ دین کے مکمل ہونے کی قدروقیمت کو جانتا تھا جبکہ بہت سارے مسلمان اس سے غافل ہیں اور ایسے ایسے اُمور میں منہمک اور مشغول ہو کر رہ گئے ہیں کہ جنھیں وہ دین کا حصہ تصور کرتے ہیں حالانکہ دین ان سے قطعی طور پر بری ہے ۔
2. نبی کریمﷺ نے ہر خیر کا حکم دے دیا تھا
یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ اللہ کا یہ مکمل دین رسول اکرم ﷺ پر نازل ہوا اور بلا ریب آپﷺ نے اسے اپنی اُمّت تک مکمل طور پر پہنچا دیا تھا۔ارشادِ نبوی ﷺہے :
«مَا تَرَکْتُ شَیْأً یُقَرِّبُکُمْ إِلَى اللهِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ النَّارِ إِلاَّ أَمَرْتُکُمْ بِه، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئاً یُقَرِّبُکُمْ إِلَى النَّارِ وَیُبْعِدُکُمْ عَنِ اللهِ إِلَّا وَنَهَیْتُکُمْ عَنْهُ»
" میں نے تمھیں ہر اس بات کا حکم دے دیا ہے جو تمھیں اللہ کے قریب اور جہنم سے دور کردے ، اور تمھیں ہر اس بات سے روک دیا ہے جو تمھیں جہنم کے قریب اور اللہ سے دور کردے۔ "
اسی طرح آپ ﷺ کا ارشاد ہے :
«مَا بَقِيَ شَیْئٌ یُقَرِّبُ مِنَ الْجَنَّةِ وَیُبَاعِدُ مِنَ النَّارِ إِلاَّ وَقَدْ بُیِّنَ لَکُمْ»
" ہر وہ چیز جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرنے والی ہے اسے تمھارے لئے بیان کردیا گیا ہے ۔ "
نیز فرمایا :
«مَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا أَمَرَکُمُ اللهُ بِه إِلاَّ قَدْ أَمَرْتُکُمْ بِه، وَمَا تَرَکْتُ شَیْئًا مِمَّا نَهَاکُمْ عَنْهُ إِلاَّ قَدْ نَهَیْتُکُمْ عَنْهُ»
" اللہ تعالیٰ نے تمھیں جن کاموں کا حکم دیا ہے میں نے بھی ان سب کا تمھیں حکم دے دیا ہے ۔ اور اللہ تعالی نے تمھیں جن کاموں سے منع کیا ہے میں نے بھی ان سب سے تمھیں منع کردیا ہے ۔ "
ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے خیر وبھلائی کا کوئی ایساکام نہیں چھوڑا جس کا آپ نے اُمّت کو حکم نہ دیا ہو۔ اور شر اور برائی کا کوئی عمل ایسا نہیں چھوڑا جس سے آپ نے اُمّت کو روک نہ دیا ہو ۔ لہٰذا یہ جاننے کے بعد اب اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ ہر وہ عمل جو لوگوں کے نزدیک خیر وبھلائی کاعمل تصور کیا جاتا ہو وہ اس وقت تک خیر وبھلائی کا عمل نہیں ہو سکتا جب تک رسول اللہﷺ سے اس کے متعلق کوئی حکم یا ترغیب ثابت نہ ہو ۔ اسی طرح برا عمل ہے کہ جب تک رسول اللہﷺ سے اس کے متعلق کوئی فرمان ثابت نہ ہو وہ برا تصور نہیں ہوگا ۔ گویا خیر وشر کے پہچاننے کا معیار رسول اللہﷺ ہیں ،کسی کا ذوق و رغبت نہیں کہ جس کا جی چاہے دین میں اپنے زُعم کے مطابق خیر کے کام داخل کرتا رہے یا اپنی منشا کے مطابق کسی عمل کو برا قرار دے دے۔
پھر یہ بات بھی سوچنی چاہئے کہ کیا نئے نئے کاموں کو ایجاد کرکے دین میں شامل کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ رسول اللہﷺ نے ( معاذ اللہ ) پورا دین لوگوں تک نہیں پہنچایا تھا اور بعض خیر کے کام ان سے اور ان کے اوّلین ماننے والوں سے چھوٹ گئے تھے جس کی بنا پر اب بھی دین میں کمی بیشی کی گنجائش موجود ہے ؟ یقیناً یہ بات لازم آتی ہے ۔ اسی لئے امام مالک فرماتے تھے :
«مَنِ ابْتَدَعَ فِي الإِسْلاَمِ بِدْعَةً یَرَاهَا حَسَنَةً فَقَدْ زَعَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ خَانَ الرِّسَالَةَ، اِقْرَؤُا قَوْلَ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالىٰ ﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة" لَنْ یَصْلُحَ آخِرُ هَذِهِ الأُمَّةِ إِلاَّ بِمَا صَلُحَ بِه أَوَّلُهَا، فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا لاَ یَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْنًا»
'' جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی ، پھر یہ خیال کیا کہ یہ اچھائی کا کام ہے تو اس نے گویا یہ دعوٰی کیا کہ محمد ﷺ نے رسالت ( اللہ کا دین پہنچانے) میں خیانت کی تھی (یعنی پورا دین نہیں پہنچایا تھا) تم اللہ کا یہ فرمان پڑھ لو: ( ترجمہ )" آج میں نے تمھارے لئے تمھارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی ۔ اور اسلام کو بحیثیتِ دین تمھارے لئے پسند کرلیا۔"...پھر امام مالک نے کہا : اس اُمّت کے آخری لوگ بھی اسی چیز کے ساتھ درست ہو سکتے ہیں جس کے ساتھ اس اُمّت کے پہلے لوگ درست ہوئے تھے ۔ اورجو عمل اس وقت دین نہیں تھا وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا ۔''
امام مالک کا یہ فرمان : " جو عمل اس وقت دین نہیں تھا، وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا " قیامت تک کے لوگوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور ہر دینی مسئلہ کا ثبوت قرونِ اُولیٰ سے ڈھونڈنا چاہئے۔ اگر اس کا ثبوت اس وقت سے مل جائے تو اس پر عمل کرلیا جائے ورنہ اسے قطعًا دین کا تصور نہ کیا جائے ۔
3. نبی کریمﷺ سب سے زیادہ متقی اور سب سے بڑے عبادت گذار تھے !
اس حقیقت سے کسی شخص کو انکار نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہﷺ سب سے زیادہ متقی اور سب سے بڑے عبادت گذار تھے۔اس لئے آپ ﷺ سے ثابت شدہ عبادات پر ہی عمل کرنا چاہئے اور کسی نئی عبادت کو دین میں شامل کرکے ان سے آگے بڑھنے کی جرأت نہیں کرنی چاہئے ۔
صحیحین میں حضرت انس سے مروی ہے کہ کچھ لوگ نبی اکرم ﷺ کے ہاں حاضر ہوئے اور آپﷺ کی ازواجِ مطہرات سے آپﷺ کی عبادت کے متعلق سوال کیا۔ چنانچہ اُنھوں نے اس کے بارے میں انھیں مطلع کیا تو وہ آپﷺ کی عبادت کو ( اپنے نظریے سے ) کم تصور کرنے لگے اور کہنے لگے : ہم کہاں نبی اکرم ﷺ کے برابر ہو سکتے ہیں ، ان کی تو اللہ ربّ العزت نے اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف فرما دی ہیں ! پھر ان میں سے ایک نے کہا : میں تو ہمیشہ ساری رات کا قیام کرتا رہوں گا۔ دوسرے نے کہا : میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ نہیں چھوڑوں گا ۔ اور تیسرے نے کہا : میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی شادی نہیں کروں گا۔ان کی یہ باتیں آنحضور ﷺ تک پہنچیں تو آپ اُن کے پاس آئے اور فرمایا :
«أَنْتُمُ الَّذِیْنَ قُلْتُمْ کَذَا وَکَذَا؟ أَمَا وَاللهِ إِنِّي لَأَخْشَاکُمْ لِلهِ وَأَتْقَاکُمْ لَهُ، لٰکِنِّي أَصُوْمُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّيْ وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَیْسَ مِنِّي»
" کیا وہ تم ہو جنھوں نے یہ یہ باتیں کی ہیں ؟ تمھیں جاننا چاہئے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور سب سے زیادہ متقی ہوں ۔ میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑ بھی دیتا ہوں ، میں رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں ۔ لہٰذا جو شخص میرے طریقے سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہوگا۔"
اس حدیث میں رسول اکرمﷺ نے پہلے اپنی اس حیثیت کو ذکر فرمایا کہ میں تمام لوگوں سے زیادہ متّقی اور سب سے بڑا عبادت گذار ہوں ۔ پھر آپ نے اپنے طریقہٴ کار کی وضاحت فرمائی اور اس کے بعد یہ اعلان فرمایا کہ میرے اِس طرزِ عمل سے منہ پھیر کر کوئی اور طرزِ عمل اختیار کرنے والے شخص کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔اِس سے ثابت ہوا کہ صرف اُن عبادات پر عمل کرنا چاہئے جو رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہوں اور کسی ایسے عمل کو عبادت تصور نہیں کرنا چاہئے جس کا آپﷺ سے ثبوت نہ ملتا ہو ۔
یہ تینوں اُصول ہمیں یہ بات سمجھانے کیلئے کافی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے دین میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی ۔ اور یہ کہ دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنا اور ان پر عمل کرنا حرام ہے ۔
اور انہی تین اصولوں کی بنا پر ہم یہ کہتے ہیں کہ مروّجہ عید میلاد النبیﷺ کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ ہی یہ دین کا حصہ ہے ۔ کیونکہ اگر یہ دین کا حصّہ ہوتا تو قرآن وحدیث اور صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے اس کا کوئی ثبوت ضرور ملتا اور اس کے بارے میں رسولِ اکرم ﷺ اپنی اُمّت کو واضح تعلیمات دیتے جیسا کہ عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے بارے میں آپ ﷺ نے واضح تعلیمات ارشاد فرمائیں ۔
نبی کریمﷺ کی تعریف میں غلو ّ
اگر دوسرے پہلو سے محفلِ میلاد کا جائزہ لیا جائے تو یہ بدعت ہونے کے ساتھ منکرات کو بھی اپنے پہلو میں سمائے ہوئے ہے مثلاً مرد و زن کااختلاط ،آلاتِ موسیقی کا اِستعمال ،طبلے اور ڈھولک کی تال پر نوجوانوں کا رقص اور اِس جیسی بیسیوں قباحتیں موجود ہیں جو محفلِ میلاد کے نام پر ثواب سمجھ کر اختیار کی جاتی ہیں ۔اور پھر ان محفلوں میں سب سے بڑے گناہ ( شرک ) کا ارتکاب کرنے کے کئی مناظر بھی دکھائی دیتے ہیں ۔
مدحِ رسولﷺ میں غلو سے کام لیا جاتا ہے ۔غیر الله سے فریاد رسی اور مدد طلب کی جاتی ہے ۔اور اِس اعتقاد کو ببانگِ دُہل بیان کیاجاتا ہے کہ آپ ﷺغیب بھی جانتے تھے ۔حالانکہ یہ الله کا وصف اور اسی کا خاصہ ہے ۔رسول اللهﷺ نے اِرشاد فرمایا :
«إِیَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّیْنِ فَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّیْنِ»
دین میں غلوکرنے سے بچو ،تم سے پہلے لوگوں کودین میں غلو ہی نے تباہ کیا ۔
آپﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا:
«لاَ تُطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَاری ابْنَ مَرْیَمَ إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُوْلُوْا عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ»
میری تعریف میں حد سے تجاوز نہ کرنا جیسا کہ نصاریٰ نے ابن مریم ( عیسٰی ) کی تعریف میں حد سے تجاوز کیا ۔ بے شک میں ایک بندہ ہوں ، لہٰذا تم بھی "الله کا بندہ اور اس کا رسول " ہی کہو ۔
رسولِ اکرم ﷺکی تشریف آوری
میلاد منانے والے حضرات کا خیال ہے کہ رسولِ اکرمﷺمحفلِ میلاد میں بذاتِ خود تشریف لاتے ہیں اور اس بناپر وہ آپ ﷺ کو سلام اور خوش آمدیدکہنے لے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔جبکہ یہ بہت بڑا جھوٹ اور بد ترین جہالت ہے ۔کیونکہ رسول الله ﷺ وفات پا چکے ہیں اور آپ کی مُبارک رُوح اعلیٰ علیین دارالکرا مۃ میں اپنے ربِّ عظیم کے پاس ہے ۔ اور آپ قیامت سے پہلے اپنی قبر مُبارک سے باہر نہیں آئیں گے ۔
جیسا کہ الله تعالیٰ نے سورۂ مومنون میں اِرشاد فرمایا :
﴿ثُمَّ إِنَّكُم بَعدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتونَ ١٥ ثُمَّ إِنَّكُم يَومَ القِيـٰمَةِ تُبعَثونَ ١٦ ﴾... سورة المؤمن
پھر اس کے بعد تم مرجاتے ہو پھر تمھیں قیامت کے روز اُٹھا یا جائے گا۔
اورحضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
«أَنَا سَیِّدُ وَلَدِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ یَّنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُُشَفَّعٍ»
میں قیامت کے دن اولادِ آدم ( عليه السلام) کا سردار ہو ں گا اور سب سے پہلے میری قبر کا منہ کھولا جائے گا۔ سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔
کیا دین میں بدعت ِ حسنہ کا وجود ہے ؟
دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنا جن کا قرآن وحدیث اور صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے کوئی ثبوت نہ ملتا ہو نہایت خطرناک امر ہے۔ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے او رہر بدعت گمراہی ہے، ایسے کام کرنے والے لوگ قیامت کے روز نبی کریمﷺ کے ہاتھوں حوضِ کوثر کے پانی سے محروم کردئیے جائیں گے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک بار نصیحت کرنے کیلئے کھڑے ہوئے تو آپ ﷺنے من جملہ باتوں کے یہ بھی ارشاد فرمایا:
«أَلاَ وَ إِنَّهُ سَیُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي فَیُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ، أَصْحَابِي؟ فَیُقَالُ: إِنَّكَ لاَ تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَكَ»
خبردار ! میری اُمّت کے کچھ لوگوں کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور انھیں بائیں طرف (جہنم کی جانب) دھکیل دیا جائے گا ۔ میں کہوں گا : اے پروردگار ! یہ تومیرے ساتھی ہیں ؟ تو کہا جائے گا : آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئے کام دین میں ایجاد کرلئے تھے!
اور حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«لَیَرِدَنَّ عَلَىَّ نَاسٌ مِّنْ أَصْحَابِيْ الْحَوْضَ، حَتّٰی إِذَا عَرفْتُهُمْ اِخْتَلَجُوْا دُوْنِيْ فَأَقُوْلُ: أَصْحَابِيْ، فَیُقَالُ لِيْ: لَا تَدْرِيْ مَا أَحْدَثُوْا بَعْدَكَ»
میرے ساتھیوں میں سے کچھ لوگ ضرور بالضرور حوض پرمیرے پاس آئیں گے ، یہاں تک کہ میں جب انھیں پہچان لونگا تو اُنھیں مجھ سے دور دھکیل دیا جائے گا۔ میں کہوں گا : یہ تو میرے ساتھی ہیں ! تو مجھے کہا جائے گا : آپ نہیں جانتے کہ انھوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئے کام ایجاد کئے تھے ۔
معلوم ہوا کہ دین میں نئے نئے کام ایجاد کرنے والے لوگ قیامت کے روز نبی کریمﷺ کے ہاتھوں حوضِ کوثر کے پانی سے محروم کردئیے جائیں گے ۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ ایجادِ بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے سنتِ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرے ۔ اور چاہے خوشی ہو یا غمی کسی بھی صورت میں آپ ﷺ کے طریقے سے انحراف نہ کرے ، اسی میں اس کی خیر وبھلائی ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی توفیق دے ۔ آمین!
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عید میلاد النبیﷺ اگر بدعت ہے تو یہ بدعتِ سیئہ نہیں بلکہ بدعتِ حسنہ ہے ! جبکہ صحیح عقیدہ یہ ہے کہ دین میں ہر نیا کام بدعتِ سیئہ اور گمراہی ہے خواہ وہ بظاہر کارِ خیر کیوں نہ ہو ۔رسو ل اللہﷺ اپنے ہر خطبہٴ حاجت میں ارشاد فرماتے تھے :
«أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَیْرَ الْحَدِیْثِ کِتَابُ اللهِ، وَخَیْرَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ ﷺ وَشَرَّ الْأُمُوْرِ مُحْدَثَاتُهَا، وَکُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ»
حمد وثنا کے بعد ! یقیناً بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔ اور سب سے برے اُمور وہ ہیں جنھیں دین میں نیا ایجاد کیا جائے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
اِس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس کام کا کتاب اللہ اور سنتِ رسول ﷺ میں ثبوت نہ ہو اور اسے دین میں ایجاد کیا گیا ہو وہ سب سے برا کام ہے چاہے وہ لوگوں کی نظر میں کتنا اچھا کیوں نہ ہو۔ اور دین میں ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
ذرا سوچیں کہ اگر کارِ خیر کے نام پر دین میں کوئی نیا کام ایجاد کرنا جائز ہوتا تو رسول اکرمﷺ اُن تین اشخاص کو تنبیہ کیوں کرتے جن میں سے ایک نے پوری رات قیام کرنے ، دوسرے نے ہمیشہ روزے رکھنے اور تیسرے نے عورتوں سے شادی نہ کرنے کا عزم کیا تھا ؟ کیا ان کے عزائم خیر کے کاموں کے متعلق نہ تھے ؟ کیا ان تینوں اشخاص نے کسی برے عمل کا ارادہ کیا تھا کہ اس پر آپﷺ نے اُنھیں سخت تنبیہ کی ؟ یقینا انہوں نے خیر کے کاموں کا ہی ارادہ کیا تھا لیکن رسول اللہﷺ نے اُن کے ان عزائم کی تردید کردی کیونکہ وہ اگرچہ خیر کے کاموں کے متعلق ہی تھے مگر آپ ﷺ کے طریقے سے ہٹ کر تھے اور گویا آپﷺ سے آگے بڑھنے کی کوشش ہو رہی تھی ۔ اس سے ثابت ہوا کہ بدعتِ حسنہ نام کی کوئی چیز اسلام میں موجود نہیں ہے ۔ اور جب تک خیر کا کوئی عمل رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے ثابت نہ ہو اس وقت تک وہ نہ خیر کہلا سکتا ہے اورنہ ہی وہ دین کا حصہ ہوتا ہے۔
اور حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ أَحْدَثَ فِيْ أَمْرِنَا هَذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ»
'' جس شخص نے ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو اس سے نہیں تھا ، وہ مردود ہے۔''
مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں : «مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَیْسَ عَلَیْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ»
'' جس شخص نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا امر نہیں ، وہ مردود ہے۔ ''
اِس حدیث سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ دین میں ہر نیا کام اور ہر نیا طریقہ مردود اور ناقابل قبول ہے ۔ایک مرتبہ حضرت ابو موسی اشعری حضرت عبد اللہ بن مسعود کے گھر آئے اور ان سے کہا : میں نے ابھی مسجد میں ایک چیز دیکھی ہے جسے میں درست نہیں سمجھتا حالانکہ میں نے الحمد للہ خیر ہی کو دیکھا ہے ! اُنھوں نے کہا : وہ کیا ہے ؟
ابو موسی نے کہا : آپ خود جب مسجد میں جائیں گے تو آپ بھی دیکھ لیں گے ۔ میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ مختلف حلقوں میں بیٹھے نماز کا انتظار کر رہے ہیں ، ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں او رہر حلقہ میں ایک آدمی باقی لوگوں سے کہتا ہے کہ تم سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھو ، تو وہ سو مرتبہ اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ تم سو مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھو ، تو وہ سو مرتبہ لا الہ الا اللہ پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ اب تم سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھو تو وہ سو مرتبہ سبحان اللہ پڑھتے ہیں!
عبد اللہ بن مسعود نے کہا : آپ نے یہ سب کچھ دیکھ کر اُن سے کیا کہا ؟
اُنھوں نے جواب دیا : میں نے آپ کی رائے کے انتظار میں انھیں کچھ بھی نہیں کہا ۔
عبد اللہ بن مسعود نے کہا : آپ نے انھیں یہ حکم نہیں دیا کہ وہ اپنے گناہوں کو شمار کریں ( نہ کہ نیکیوں کو) اور آپ انھیں ضمانت دیتے کہ تمھاری نیکیوں میں سے کوئی نیکی ضائع نہیں ہو گی!
پھر عبد اللہ بن مسعود مسجد میں آئے اور اُن حلقوں میں سے ایک حلقہ کے پاس جا کر فرمایا : یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ لوگوں نے کہا : ابو عبد الرحمٰن ! یہ کنکریاں ہیں جن کے ذریعے ہم اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کی تسبیحات شمار کر رہے ہیں !
عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا : تم اپنی برائیاں شمار کرو اور میں تمھیں ضمانت دیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہیں ہوگی ۔ پھر فرمایا :
«وَیْحَکُمْ یَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَکَتُکُمْ، هٰؤلاَءِ صَحَابَةُ نَبِیِّکُمْ مُتَوَافِرُوْنَ وَهٰذِه ثِیَابُهُ لَمْ تَبْلُ وَآنِیَتُهُ لَمْ تُکْسَرْ، وَالَّذِيْ نَفْسِي بِیَدِه إِنَّکُمْ لَعَلى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدٰی مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ ﷺ أَوْ مُفْتَتِحُو بَابَ ضَلاَلَةٍ؟»
'' افسوس ہے تم پر اے امتِ محمدﷺ ، تم کتنی جلدی ہلاکت کی طرف چل دئیے! یہ تمھارے نبیﷺ کے صحابہ ابھی بکثرت موجود ہیں ، اور آپ ﷺ کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور نہ ہی آپ کے برتن ابھی ٹوٹے ہیں ، اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم محمد ﷺ کے طرز ِعمل سے بہتر طرزِ عمل پر ہو یا تم گمراہی کا ایک دروزاہ کھول رہے ہو! ''
لوگوں نے کہا : وَاللهِ یَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَیْرَ
ابو عبد الرحمٰن ! اللہ کی قسم ہم نے تو خیر کا ہی ارادہ کیا تھا ۔
اُنھوں نے فرمایا : وَکَمْ مِنْ مُرِیْدٍ لِلْخَیْرِ لَن یُّصِیْبَهُ "کتنے لوگ ہیں جو خیر کا ارادہ کرتے ہیں لیکن وہ خیر کو ہرگز نہیں پا سکیں گے ۔"
ذرا غور کیجئے ، کیا تسبیحات کا پڑھنا برا عمل تھا ؟ یقیناً یہ برا عمل نہ تھا اور نہ ہی حضرت عبد اللہ مسعود نے تسبیحات پڑھنے پر اُنھیں برا بھلا کہا ، بلکہ ان کے لب و لہجہ میں جو سختی تھی وہ اس لئے تھی کہ انھوں نے لوگوں کو نبی کریمﷺ کی سنتِ طیبہ اور صحابہ کرام کے طرزِ عمل سے ہٹ کر تسبیحات پڑھتے ہوئے دیکھا ، کیونکہ آنحضور ﷺ اور صحابہ کرام کنکریوں کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیحات کوشمار کرتے تھے ۔ اس کے علاوہ وہ حلقوں میں بیٹھ کر اجتماعی شکل میں نہیں بلکہ انفرادی طور پر الگ الگ تسبیحات پڑھتے تھے ۔ تو ان کا یہ عمل اگرچہ لوگوں کی نظر میں کارِ خیر تھا، لیکن چونکہ رسول اکرمﷺ کی سنّت سے ہٹ کر تھا اس لئے حضرت عبد اللہ بن مسعود نے اُنھیں نہایت سخت الفاظ میں تنبیہ کی ۔انھوں نے یہ نہیں کہا کہ چلیں ٹھیک ہے ،کوئی بات نہیں، کیونکہ یہ عملِ خیر ہی ہے ، بلکہ انھو ں نے اسے گمراہی کا ایک دروازہ کھولنے کے مترادف قرار دیا ۔ لہٰذا ثابت یہ ہوا کہ دین میں کوئی بدعتِ حسنہ نہیں ہے ، ہر بدعت بری ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
عید میلاد النبیﷺ منانے والوں کے کچھ دلائل اور ان کا جواب
میلاد منعقد کرنے والے عموماً پانچ دلیلیں دیتے ہیں:
1. میلاد سالانہ یادگار ہے اور اُس کے منانے سے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت میں اضافہ ہوتا ہے ۔
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ اگر مسلمان رسول اللہﷺ کو دن میں دسیوں مرتبہ یاد نہ کرتا ہو تو اس کے لئے سالانہ یا ماہانہ یادگاری محفلیں منعقد کی جائیں جن میں وہ اپنے نبی کو یاد کر سکے اور آپﷺ کے ساتھ اپنی محبّت کا اظہار کر سکے ۔ لیکن اگر مسلمان رات اور دن میں دسیوں مرتبہ آپ ﷺکو یاد کرتا اور ان پر درود وسلام پڑھتا رہتا ہو تو اس مقصد کے لئے سالانہ محفلیں منعقد کرنا چہ معنی دارد ؟
2. میلاد میں شمائلِ محمدیہ اور آپ ﷺ کے نسب شریف کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔
جواب: اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ آپ ﷺ کے خصائل وفضائل کو سال میں ایک مرتبہ سن لینا کافی نہیں ہے ، ایک مرتبہ سن لینا کیسے کافی ہو سکتا ہے جبکہ آپﷺ کی سیرت ایسی ہے جس کو سال بھر سنتے اور سیکھتے رہنا ضروری اور ناگزیر ہے ۔
3. رسول اللہ ﷺ کی پیدائش پر اظہارِ خوشی ایمان کی دلیل ہے ۔
جواب :یہ دلیل بھی بالکل بے معنیٰ ہے کیونکہ سوال یہ ہے کہ خوشی رسول اللہ ﷺ کی ہے یا اس دن کی ہے جس میں آپ کی پیدائش ہوئی ؟ اگر خوشی آپ ﷺ کی ہے تو یہ ہمیشہ ہونی چاہئے اور کسی ایک دن کی ساتھ خاص نہیں ہونی چاہئے ۔ اور اگر خوشی اس دن کی ہے جس دن آپ پیدا ہوئے تو یہی وہ دن ہے جس میں آپﷺ کی وفات بھی ہوئی ، تو محبوب کی موت کے دن خوشی منانا کونسی عقل مندی ہے ؟
4. میلاد میں لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے جس میں بڑا اجروثواب ہے ۔
جواب: یہ دلیل توسب سے زیادہ کمزور ہے کیونکہ کھانا کھلانے کی ترغیب سال میں کسی ایک دن کے لئے نہیں بلکہ پورے سال کےلئے ہے۔
5. میلاد میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے اور آپﷺ پر درود وسلام پڑھا جاتا ہے ۔
جواب: یہ دلیل بھی پہلی چاروں دلیلوں کی طرح باطل ہے، کیونکہ قرآن کی تلاوت کے لئے اور آپﷺ پر درود وسلام پڑھنے کیلئے اکٹھا ہونا از خود ایک بدعت ہے ۔ اسکے علاوہ طرب انگیز آواز میں مدحیہ اشعار وقصائد پڑھنا اور آنحضور ﷺ کی تعریف میں غلو کرنا بھی غلط ہے ۔
یہ پانچوں دلیلیں اس لئے بھی ناکافی ہیں کہ اگر اُنھیں درست مان لیا جائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ رسول اللہ ﷺ سے(نعوذ باللہ ) چوک ہو گئی تھی اور آپ ﷺ نے اپنی پیدائش کے دن ان چیزوں کی طرف رغبت نہ دلائی جس کی تلافی یہ میلاد منانے والے کرتے ہیں!!
میلاد کو جائز قرار دینے والوں کے چند کمزور شبہات
1. شبہ: ایک واقعہ منقول ہے کہ بد نصیب ابو لہب کو خواب میں دیکھا گیا ۔ خیریت پوچھی گئی تو کہا کہ آگ کے عذاب میں مبتلا ہوں، البتہ ہر دو شنبہ کی رات کو عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے اور اپنی دو اُنگلیوں کے درمیان سے انگلی کے سرے کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ اتنی مقدار میں پانی چوس لیتا ہے ۔اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس کو اس کی باندی ثویبہ نے جب آپ ﷺکی پیدائش کی خبر دی تھی تو اس نے خوشی میں آکر اپنی اس باندی کو آزاد کر دیا تھا ۔
ازالہ: اس کا جواب یہ ہے کہ 1۔ کسی کے خواب سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا۔ 2۔دوسرا یہ کہ یہ روایت مرسل ہے جو ناقابلِ حجت ہوتی ہے ۔ 3۔تیسرا یہ کہ سلف اور خلف کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کافر اگر کفر کی حالت میں مر جائے تو اس کو اس کے نیک اعمال کا ثواب نہیں ملے گا۔4۔ چوتھا یہ کہ ابو لہب کی خوشی ایک طبعی خوشی تھی ،تعبدی خوشی نہ تھی اور اگر خوشی اللہ کے لئے نہ ہو تو اس پر ثواب نہیں ملتا ہے ۔ 5۔پانچواں یہ کہ مؤمن کو آپ ﷺ کی پیدائش پر ہمیشہ خوش ہونا چاہئے ، اس کے لئے آپ ﷺ کے یومِ پیدائش کو خاص کرنا درست نہیں ہے ۔
2. شبہ: روایت ہے کہ آپ ﷺنے اپنا عقیقہ خود کیا تھا اور چونکہ آپ کے دادا نے بھی آپ کا عقیقہ کر دیا تھااور عقیقہ دو بار نہیں کیا جاتا تواصل میں آپﷺنے اپنی ولادت کا شکرانہ ادا کرنے کیلئے عقیقہ کیا ۔ لہٰذا اُمّت کو بھی آپ کی ولادت کے دن کھانے پینے کا انتظام بطورِ خاص کرنا چاہئے۔
ازالہ: اس کا جواب یہ ہے :
1.۔یہ روایت کمزور ہے اور امام نووی نے اسے باطل حدیث قرار دیا ہے ۔
2۔اور اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے تو اس میں یہ کہاں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ عقیقہ اپنی ولادت پر شکریہ ادا کرنے کے لئے کیا تھا ؟ یہ تو محض اپنے گمان پر مبنی ہے اور گمان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی: ﴿إِنَّ الظَّنَّ لا يُغنى مِنَ الحَقِّ شَيـًٔا ٢٨ ﴾... سورة النجم
3۔اور اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے تو ایک ہی بار عقیقہ کیا تھا ، ہر سال تو نہیں کیا تھا ! جبکہ میلاد منانے والے تو ہر سال میلاد مناتے ہیں!
3. شبہ: صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عاشورا کے دن روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا اور آپ سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا کہ یہ ایک اچھا دن ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس دن موسی اور بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی...الخ۔
لہٰذا جب حضرتِ موسی اور بنی اسرئیل کی نجات کے شکریہ میں آپﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو ہم بھی آپﷺ کے یومِ ولادت کو روزہ کا دن نہیں بلکہ کھانے پینے اور جشن منانے کا دن بنائیں!!
ازالہ: کس قدر عجیب ہے یہ بات ؟ اگر اس حدیث کو دلیل بنانا تھا تو اس کے مطابق روزہ رکھنے کی بات کرتے ، لیکن اُس کو تو چھوڑ دیا کیونکہ روزہ میں بھوک وپیاس کو برداشت کرنا پڑتا ہے جو یار لوگوں کے لئے بڑا مشکل امر ہے ۔ اور بات کی تو کھانے پینے اور جشن منانے کی کی... کیا اللہ تعالیٰ کا شکر عیش ومستی اور دعوتیں اُڑا کر کیا جاتا ہے ؟
4. شبہ: صحیح حدیث میں ہے کہ آپﷺ سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سوموار کا دن وہ دن ہے جس میں مَیں پیدا ہوا اور اسی دن مبعوث ہوا ...الخ
ازالہ: اس کا جواب یہ ہے :
1۔رسول اللہ ﷺ کی نعمت ِ ولادت پر شکر اسی نوع کا ہونا چاہئے جس نوع کا شکر خود رسول اللہ ﷺ نے کیا۔
2۔دوسرا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیدائش کے دن جو بارہ ربیع الاول ہے، روزہ نہیں رکھا بلکہ آپ نے سوموار کے دن کاروزہ رکھا جو ہر مہینے میں چار پانچ مرتبہ آتا ہے ۔ اس بنا پر بارہ ربیع الاول کو کسی عمل کے لئے خاص کرنا اور ہر ہفتہ آنے والے سوموار کو چھوڑ دینا در اصل آپﷺ کی تصحیح ہے جس کا کوئی مسلمان تصور ہی نہیں کر سکتا ہے ۔
3۔تیسرا یہ کہ جب آپﷺ نے اپنی ولادت کے شکریہ میں سوموار کا روزہ رکھا تو کیا آپ نے روزے کے ساتھ کوئی محفل اور تقریب بھی منعقد کی جیسا کہ یہ میلادی لوگ کرتے ہیں کہ لوگوں کا ازدحام ہوتاہے ، مدحیہ اشعار اور نغمے پڑھے جاتے ہیں اور خصوصی کھانا پینا ہوتا ہے ؟
اسلامی عیدیں
میلاد منانے والے حضرات آنحضور ﷺ کی ولادت با سعادت کے دن کو 'عید' کا دن قرار دیتے ہیں جبکہ اِس اُمّت کے اوّلیں دور سے ہی اہلِ اسلام کے ہاں 'سالانہ ' دو ہی عیدیں چلی آ رہی ہیں ۔ جیسا کہ حضرت انس بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللهﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو ان لوگوں کے سال میں دودن مقرر تھے جن میں وہ کھیلتے (خوشیاں مناتے) تھے۔رسول اللهﷺ نے ان سے پوچھا : یہ دو دن کیسے ہیں؟اُنہوں نے کہا : زمانۂ جاہلیت سے ہم ان دنوں میں کھیلتے اور خوشی مناتے چلے آرہے ہیں ۔ آپ ﷺنے فرمایا :
«قَدْ أَبْدَلَکُمُ اللهُ بِهِمَا خَیْرًا مِنْهُمَا: یَوْمَ الْفِطْرِ وَیَوْمَ الأضْحٰی»
الله تعالیٰ نے تم کو ان کے بدلہ میں دو بہتر دن عطا فرمادئیے ہیں اور وہ ہیں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے دن ۔
اس حدیثِ مبارک سے معلوم ہوا کہ اسلامی تہوار کے طور پر منانے کے لئے شرعی عیدیں سال میں صرف دو ہی ہیں اور ان کو الله تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے مقرر کیا ہے ۔اس کے علاوہ یومِ جمعہ کو مسلمانوں کی ہفتہ وار عید قرا ردیا گیا ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
«إِنَّ هَذَا یَوْمُ عِیْدٍ جَعَلَهُ اللهُ لِلْمُسْلِمِیْنَ، فَمَنْ جَاءَ إِلَىٰ الْجُمُعَةِ فَلْیَغْتَسِلْ، وَإِنْ کَانَ طِیْبٌ فَلْیَمَسَّ مِنْهُ، وَعَلَیْکُمْ بِالسِّوَاكِ»
بے شک یہ عید کا دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے صرف مسلمانوں کےلئے (عید کا دن ) بنایا ہے۔ لہٰذا جو شخص نمازِ جمعہ کے لئے آئے تو وہ غسل کرے اور اگر خوشبو موجود ہو تو ضرور لگا لے ۔ اور تم پر مسواک کرنا لازم ہے ۔
حوالہ جات
ناظم اعلیٰ مرکز دعوۃ الجالیات ،الکویت
فتاویٰ رشیدیہ : ص ۱۳۲
فتاویٰ رشیدیہ :ص ۱۳۲
لسان المیزان:۲؍ ۲۹۵
ايضاً:۴؍ ۲۹۶
وفیات الأعیان لابن خلکان : ۳؍ ۴۴۹
حجۃ النبی ﷺ از امام البانی: ص ۱۰۰؛ سلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ:372
سورۃ المائدة : ۳
صحیح بخاری : ۴۵ ؛ صحیح مسلم : ۳۰۱۷
حجۃ النبیﷺ از البانی: ص ۱۰۳
سلسلۃ الاحاديث الصحیحۃ از البانی : ۱۸۰۳
سلسلۃ الاحاديث الصحیحۃ از البانی : ۱۸۰۳
الاعتصام از شاطبی:2؍49 ؛ الوجيز فی عقيدة السلف (اہل السنۃ والجماعۃ)از عبد الله بن عبد الحمید اثری:1؍161
صحیح بخاری: ۵۰۶۳ ؛ صحیح مسلم : ۱۴۰۱
سنن نسائی : ۳۰۵۷ ، ابن ما جہ : ۳۰۲۹ وصححہ الألبانی
صحیح بخاری: ۳۴۴۵
سورۃ الموٴمنون : ۱۱۶
صحیح مسلم : ۲۲۷۸
صحيح بخاری : ۶۵۲۶ ؛ صحيح مسلم : ۲۸۶۰
صحيح بخاری :۶۵۸۲
صحیح مسلم : ۸۶۷
صحیح بخاری : ۲۶۹۷ ، صحیح مسلم : ۱۷۱۸
صحيح بخارى :2697؛صحيح مسلم:4493
سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ۲۰۰۵
صحیح بخاری:5101
المجموع از امام نووی : ۸؍ ۴۳۱
صحیح بخاری: 204
صحیح مسلم :2750
سنن نسائی : ۱۵۵۶... وصححہ الألبانی
سنن ابن ماجہ : ۱۰۹۸ ... وصححہ الألبانی