جرم وسزا کےبعض قوانین میں اصلاح کی ضرورت

کراچی کے ایک رہائشی ملک محمد عثمان نے حدود آرڈیننس کی پانچ دفعات کو بدلنے کے لیے پانچ رِٹیں ( درخواستیں) وفاقی شرعی عدالت میں دائر کی تھیں۔ شرعی عدالت نے اپنے طریق کار کے مطابق بعض علماے کرام سے مذکورہ درخواستوں پر ان کی رائے طلب کی۔ راقم (حافظ صلاح الدین یوسف) کو بھی شرعی عدالت کا مشیر ہونے کے ناطے ان سوالات پر اپنا موقف پیش کرنے کو کہا گیا۔ چنانچہ عدالتِ مذکور میں بذات خود پیش ہو کر اپنی معروضات پیش کیں جو بالاختصار حسبِ ذیل ہیں:

1) سزائے قید کا مسئلہ

ملک محمد عثمان صاحب کی پانچ درخواستیں فاضل عدالت میں زیر سماعت ہیں، ان درخواستوں میں قدرِ مشترک کےطور پر ایک بات کو بطور خاص دہرا گیا ہے کہ قید کی سزا، قرآنِ کریم کی رُو سے، صرف جنگی مجرموں یا پھر فاحشہ عورتوں کو گھروں میں بند رکھ کر دی جاسکتی ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور ملزم و مجرم کے لیے قید کی سزا ثابت نہیں ہے۔

درخواست گزار کا یہ موقف شرعاً صحیح نہیں ہے۔جنگی قیدیوں کا ذکر قرآنِ مجید میں ایک امر واقعہ کے طور پر کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی او رکو یہ سزا نہیں دی جاسکتی، یا کسی اور جرم میں سزاے قید قرآنِ کریم کے خلاف ہے۔ نبیﷺنے بعض جرائم پر بھی حَبس(قید) کی سزا دی ہے۔ جیسے ایک شخص نےجھوٹی گواہی دی تو آپﷺ نے اسے قید کردیا: «أن النبي ﷺ حَبس رجلاً في تهمة»

ایک اور حدیث سنن ابو داؤد ہی میں ہے، اس پر باب کا عنوان ہی یہ ہے:

«باب في الدَّین هل یُحبس؟»

اس بات کا بیان کہ کیا قرض (کی عدم ادائیگی) پر قید کیا جاسکتا ہے؟

امام ابوداؤد اس باب میں مذکورہ حدیث کے علاوہ ذیل کی حدیث بھی لائے ہیں:

«لَيُّ الْوَاجد یحلّ عرضه وعقوبته. قال ابن المبارك: یحل عرضه: یغلظ له. وعقوبته: یحبس له»

''رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مالدار کا (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا حلال کردیتا ہے اس کی عزت اور اس کی سزا کو۔ امام ابن مبارک نے فرمایا: ''عزت کوحلال کردیتا ہے، کا مطلب ہے ، اس کو سخت باتیں کہی جاسکتی ہیں جس سے اس کی بے عزتی ہو اور سزا کو حلال کردیتا ہے ، کا مطلب ہے، اسکو سزاے قید دی جاسکتی ہے۔''
اسی باب میں ایک اور حدیث بھی ہے، اس سے بھی شارحین نے سزاے قید ہی کا مفہوم لیا ہے۔

اسی طرح درخواست گزار کا یہ کہنا کہ سورۂ نساء کی آیت سے صرف فاحشہ عورتوں کو گھروں میں قید رکھنے کا ثبوت ملتا ہے، ان کے علاوہ دوسروں کو سزائے قید نہیں دی جاسکتی، صحیح نہیں ہے۔ یہ اسلام میں فاحشہ عورتوں کے لیے ابتدائی سزا تھی جو زنا کی سزا مقرر ہونے کے بعد منسوخ ہوگئی۔ اب زنا کی سزا، مرد ہو یا عورت،شادی شدہ کے لئے رجم او رکنواروں کے لیے سو کوڑے ہیں۔اس لیے اس آیت سے بھی استدلال غیر صحیح ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ کے زمانے میں اگرچہ باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا لیکن آپؐ نے سزائے حَبس (قید) دی ہے۔ باقاعدہ جیل خانے حضرت عمرؓ کے دور میں بنے ہیں۔ علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:

''اس صیغے میں حضرت عمرؓ کی ایجاد یہ ہے کہ جیل خانے بنوائے، ان سے پہلے عرب میں جیل خانے کا نام و نشان نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سزائیں سخت دی جاتی تھیں۔ حضرت عمرؓ نے اوّل مکہ معظّمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار درہم میں خریدا اور اس کو جیل خانہ بنا دیا، پھر اور اضلاع میں بھی جیل خانے بنوائے... اس وقت تک صرف مجرم قید خانے میں رکھے جاتے تھے او رجیل خانے میں بھجوائے جاتے تھے۔ جیل خانہ تعمیر ہونے کے بعد بعض سزاؤں میں تبدیلی ہوئی، مثلاً محجن ثقفی بار بار شراب پینے کے جر م میں ماخوذ ہوا توبالآخر حضرت عمرؓ نے اُسے حد کی بجائے قید کی سزا دی۔''

اگر قید کی سزا قرآن کے خلاف ہوتی جیسا کہ درخواست گزار کا موقف معلوم ہوتا ہے تو یہ سزا نہ نبی مکرّم ﷺ دیتے اور نہ سیدنا عمرؓ فاروق جیل خانے بنواتے اور نہ لوگوں کو سزائے قید دیتے۔

2) قصاص کی سزا

البتہ درخواست گزار کا یہ موقف صحیح معلوم ہوتا ہے کہ کریمنل لاء ترمیمی آرڈیننس مجریہ 1991ء کی شق 302 کی ذیلی شقوق B اور C کی بجائے یہ ترمیم ہو کہ قتل عمد کی معافی کی صورت میں دیت کی ادائیگی معروف طریقے سے ہو یا اگر دیت بھی معاف کردی جائے تو ہر دو صورت میں قاتل کے لیے سزائے قید کا جواز باقی نہیں رہتا۔باقی رہی آخرت کی سزا تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔

3) قتل خطا کی سزا

اسی آرڈیننس میں قتل خطا(بصورتِ خطرناک ڈرائیونگ) کی سزا دیت کے علاوہ دس سال تک قید کی سزا بھی دی جاسکتی ہے، یہ بھی صحیح نہیں ہے۔ قرآن کریم کی رُو سے قتل خطا کی سزا دیت کے علاوہ ایک گردن (غلام، لونڈی) آزاد کرنا ہے۔ اگریہ ممکن نہ ہو تو دو مہینے کے متواتر (بلا ناغہ) روزے رکھنا ہے۔ اس کے بجائے دس سال تک کی قید قابل اصلاح بلکہ قابل حذف ہے۔ اس سلسلے میں درخواست گزار کا موقف صحیح ہے۔

4) فتنہ و فساد کی سزا

پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم شدہ شق 426 کے مطابق فتنہ و فساد کی سزا تین ماہ تک قید یا جرمانہ یا دونوں مقرر کی گئی ہیں۔ فتنہ و فساد کی تعریف میں: کسی فرد ، پبلک، یا جائداد کو نقصان پہنچانا یا اس کی قیمت کو کم کرنا یا مالک جائداد کو زخمی کرنا بمطابق دفعہ 425 شامل ہیں۔

اس کے متعلق درخواست گزار کا موقف یہ ہے کہ یہ سزا سورۃ المائدۃ کی آیت 34 کے خلاف ہے، اس لیے اس سزا کو بھی آیت مذکورہ کے مطابق کیا جائے۔ لیکن درخواست گزار کا یہ موقف درست نہیں۔ اس لیے کہ مذکورہ آیت میں محاربہ کی سزا بیان کی گئی ہے نہ کہ عام فتنہ و فساد کی، جس کی متعین تعریف بھی آرڈیننس میں کردی گئی ہے۔

محاربہ کیا ہے جس کی سزا مذکورہ آیت میں بیان کی گئی ہے ؟

محاربہ کا مطلب ہے: کسی منظّم او رمسلح جتھے کا (چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر) اسلامی حکومت کے علاقے میں یا اس کے قریب صحرا وغیرہ میں راہ چلتے قافلوں اور افراد اور گروہوں پر حملہ کرنا، قتل و غارت گری کرنا، سلب و نہب، اغوا و آبرو ریزی کرنا وغیرہ۔ اس کی جو چار سزائیں بیان کی گئی ہیں کہ وہ قتل کردیئے جائیں، یاسولی چڑھا دیئے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں یا اُنہیں جلا وطن کردیا جائے۔امام (خلیفہ وقت، قاضی یا حاکم مجاز) کو اختیار ہے کہ ان میں سے جو سزا مناسب سمجھے، دے دے۔

ظاہر بات ہے کہ یہ محاربہ اس فتنہ و فساد سے یکسر مختلف ہے جس کا ذکر اور اس کی سزا آرڈیننس میں ہے۔ اس محاربہ کی سزا کو محولہ فتنہ و فساد کا مصداق قرار دے کر محاربہ والی سزا کا اس پر اطلاق کرنا غیر صحیح ہے۔

اس لیے مذکورہ شق او راس میں بیان کردہ سزا کی تبدیلی کا مطالبہ درست نہیں ہے۔

5) جھوٹی گواہی کی سزا

درخواست گزار کا یہ موقف بھی درست نہیں کہ جھوٹی گواہی کی جو سزا مذکورہ آرڈیننس میں ہے، اس کو تبدیل کرکے قذف والی سزا (80 کوڑے) مقرر کی جائے، اس لیے کہ قذف (کسی پر زنا کاری کی تہمت لگانا) ایک ایسی حد ہے جو قرآن کی سورۂ نور میں مذکور ہے جب کہ جھوٹی گواہی کی کوئی متعین سزا، باوجود نہایت شناعت و قباحت کے، قرآن و حدیث میں نہیں بتلائی گئی ۔بنا بریں جھوٹی گواہی کی تعزیری سزا کو منصوص حد پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ منصوص حد کا مطلب: اللہ کی بتلائی اور مقرر کی ہوئی سزا ہے جبکہ تعزیری سزا کا مطلب ہے: حالات و واقعات کے مطابق قاضی یا حاکم مجاز کی تجویز کردہ سزا۔ یہ دونوں سزائیں ایک کس طرح ہوسکتی ہیں؟ یا ایک کو دوسرے کے ساتھ کس طرح ملایا جاسکتا ہے؟

6) چوری کی سزا

مذکورہ آرڈیننس میں چور کی سزا یہ قرار دی گئی ہے کہ اسے تین سال تک قید کی سزا، یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں جبکہ چور کی چوری ثابت ہوجائے اور وہ ملزم سے مجرم بن جائے۔

اس کی بابت درخواست گزار کا یہ موقف کہ یہ سزا قرآن کریم کی آیت: ﴿وَالسّارِ‌قُ وَالسّارِ‌قَةُ فَاقطَعوا أَيدِيَهُما...٣٨ ﴾... سورة المائدة" (چور کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں ، چور چاہے مرد ہو یا عورت) کے خلاف ہے، بالکل صحیح ہے۔مذکورہ آرڈیننس میں چور کی سزا کو بدل کر ہاتھ کاٹنا کیا جائے، تاکہ یہ سزا قرآنِ کریم کے مطابق ہوجائے۔


حوالہ جات
[1]     سنن ابو داؤد :رقم الحدیث3630

[1]     سنن ابو داود:3628

[1]     عون المعبود:3؍350 ... طبع قدیم

[1]     ’الفاروق‘ از علامہ شبلی نعمانی : ص346، 347