طاہر القادری کی مغرب نوازیاں؛اسلام کی نظر میں

طاہر القادری کس مقصد کے حصول کے لئے واپس آئے ہیں...؟ وہ معاشرے میں کیا تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں...؟ کینیڈا سے وہ کس کا ایجنڈا پورا کرنے آرہے ہیں...؟ طاہر القادری کونسا انقلاب لانا چاہتے ہیں...؟ ان تمام اُمور کو مروّجہ سیاسی معیارات پر پرکھنے کے بجائے ہم طاہر القادری کے عقائد ونظریات کی ایک جھلک ذیل میں پیش کررہے ہیں جس سے یہ تمام اُمور خود بخود واضح ہوجائیں گے:

یہودی اور عیسائی کفار میں شامل نہیں!

مسلمانوں کے متفقہ عقائد میں یہ بات شامل ہے کہ جو شخص بھی رسالت ِمحمدی ﷺ پر ایمان نہیں رکھتا اور آپ کی نبوت کا کسی بھی صورت انکاری ہو تو وہ شخص کافر ہے، چاہے وہ کسی بھی آسمانی کتب کا ماننے والا ہو جیسا کہ تورات وانجیل کے ماننے والے یہودی و نصرانی۔ مگر طاہر القادری صاحب ایک نئے دین کی داغ بیل ڈالنے کے خواہاں ہیں جس کے تانے بانے دراصل 'وحدتِ ادیان' کے باطل عقیدے سے جاکر ملتے ہیں اور یہود ونصاریٰ کی تو آخری کوشش ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کو کسی طرح اس باطل عقیدے پر راضی کرلیا جائے اور اُن کو اسے قبول کرنے پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ طاہر القادری صاحب ایک محفل میں یوں گویا ہوئے:

"پوری دنیا میں جو تقسیم کی جاتی ہے تو Believers اور Non Believers کی تقسیم کی جاتی ہے۔ Non Believers کو کفار کہتے ہیں علمی اصطلاح میں، اور Believers ان کو کہتے ہیں جو اللہ کی بھیجی ہوئی وحی پر، آسمانی کتابوں پر، پیغمبروں پر ایمان لاتے ہیں؛ مذہب اُن کا کوئی بھی ہو۔ جب Believers اور Non Believers کی تقسیم ہوتی ہے تو یہودی عقیدے کے ماننے والے لوگ ، مسیحی برادری اور مسلمان یہ تین مذاہب Believer میں شمار ہوتے ہیں، یہ کفار میں شمار نہیں ہوتے۔"

طاہر القادری صاحب گاہے بگاہےتمام کفریہ مذاہب کے پیشواؤں کوبلاکر مختلف عنوانات کے تحت تقریبات کا انعقاد کرتے رہتے ہیں۔اسی طرح کی ایک محفل، جس میں تمام کفریہ مذاہب کے پیشواؤں کو بلایا گیا تھا ،اس میں طاہر القادری یوں گویا ہوے:

"اللہ نام میں صرف مسلمانوں کے خدا کی خصوصیت نہیں۔ اللہ صرف God کا عربی ترجمہ ہے اور اپنے خدا کو جس نام سے جس طرح چاہے پکارو، ویسے پکارو جیسے تمہارے مذہب میں ہے"

چنانچہ اس موقع پر تمام کفار نے اپنے اپنے مذہب کے مطابق اپنے معبودوں کے نام لینا شروع کردیے اور طاہر القادری مائک لے کر فرداً فرداً ہر ایک کے پاس جاتے رہے۔

اسی طرح عیسائیوں کے سب سے بڑے تہوار 'کرسمس ڈے' کے موقع پر اپنے ادارے کی جانب سے منعقدہ تقریب کے موقع پر جو خطاب کیا ،وہ اس طرح اخبارات کی زینت بنا: "یہودی، مسلمان اور کرسچین ایمان والوں میں شامل ہوتے ہیں۔ جو کسی آسمانی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے، وہ کفار ہیں۔ "

"دنیا میں تین بڑے مذاہب ہیں: یہودی، عیسائی اور مسلمان جو اہل ایمان کی صف میں شامل ہیں۔"

حالانکہ مذکورہ عقیدہ سراسر باطل ہے ۔ صحیح مسلم میں نبی مکرمﷺ کا یہ فرمان موجود ہے:

عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: «وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهِ لَا یَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ یَهُودِیٌّ وَلَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ یَمُوتُ وَلَمْ یُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا کَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ» "حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمدﷺ کی جان ہے! کہ اس اُمّت کا جو شخص بھی، خواہ یہودی ہو یا نصرانی، میری بعثت کی خبر سن کر میری نبوت اور اس دین پر جو میں لے کر آیا ہوں، ایمان لائے بغیر مرجاگیا تو وہ جہنمی ہے۔"

اسی طرح امام حاکم ،سیدنا ابن عباسؓ سے یہ فرمانِ نبوی ﷺروایت کرتے ہیں:

«ما من أحد یسمع بي من هذه الأمة، ولا یهودي ولا نصراني، ولا یؤمن بي إلا دخل النار» فجعلت أقول: أین تصدیقها في کتاب الله؟ حتی وجدتُ هذه الآیة ﴿مَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ١ۚ﴾ قال:الأحزاب الملل کلها

"اس اُمّت کا جو بھی آدمی خواہ یہودی ہو یا نصرانی، میری بعثت کی خبر سن کر مجھ پر ایمان نہ لائے گا، وہ جہنم میں جائے گا۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد سن کر دل میں کہنے لگا کہ قرآنِ کریم کی کون سی آیت سے اس کی تصدیق ہوتی ہے؟ تو آخر سورۃ ہود کی یہ آیت میرے ذہن میں آئی: ﴿وَ مَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ١ۚ ﴾"اور تمام احزاب میں سے جو بھی آپﷺ کا منکر ہو تو اُس کے آخری وعدے کی جگہ جہنّم ہے۔'' پھر فرمایا:'الاحزاب' میں تمام مذاہب کے لوگ شامل ہیں۔"

درج بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اہل ایمان صرف وہ ہے جوکہ تمام آسمانی کتب اور انبیاے كرام پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کے نبوت کا اقرار ی بھی ہو ورنہ بصورتِ دیگر اس کا شمار کفار میں ہوگا اور وہ دائمی طور پر جہنم میں رہے گا۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ باطل عقیدے کے کوئی پیر نہیں ہوتے اور نہ اس کی کوئی بنیاد ہوتی ہے۔ یہی معاملہ طاہر القادری کے اس باطل عقیدے کا ہے کہ وہ ایک طرف یہودیوں اور نصرانیوں کو اہل ایمان میں شمار کرتے ہیں اور اِس کے لئے اُن کا معیار صرف ان یہودیوں اور نصرانیوں کا اپنی اپنی آسمانی کتب پر ایمان رکھنا ہے۔ جبکہ وہ مسلمانوں کے لئے اہل ایمان کی صف میں شامل رہنے کے لئے جو شرط عائد کرتے ہیں، اس میں حضرت مسیح کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا لازم سمجھتے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے کو کافر سمجھتے ہیں۔ جیساکہ طاہر القادری نے مسیحی برادری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

"اُنہوں نے کہا اگر کوئی مسلمان تمام فرائض پر عمل پیرا ہوکر اگر یسوع مسیح کی نبوت پر اور رسالت کا انکار کردے تو وہ کافر تصور ہوگا۔"

ذرا غور فرمائیے! کہ کوئی مسلمان اگر یسوع مسیح کی نبوت کا انکار کردے تو وہ اہل ایمان کی صف میں سے نکل کر کافروں کی صف میں شامل ہوجائے گا (جوکہ اپنی جگہ درست بات ہے) مگر یہودی اور نصرانی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی نبوت ورسالت کا انکار کرنے کے باوجود اہل ایمان اور مسلمان ومؤمن کی صف میں شامل رہیں گے؟ بھلا خود ہی عقل وانصاف سے سوچئے کہ یہ کیسا انصاف ہے جو جناب کی زبان سے صادر ہورہا ہے، اس عقیدہ کی خرابی اور گمراہی میں کیا شک ہوسکتا ہے؟؟

طاہر القادری کی جانب سے کرسمس کی تقاریب کا اہتمام

طاہر القادری صاحب نے ایک طرف یہود ونصاریٰ کو اہل ایمان کی صف میں شامل کیا بلکہ اُن کی خوشنودی و رضا کے حصول کے لئے اتنا آگے بڑھ گئے کہ اپنے ادارے منہاج القرآن کے تحت "مَیری کرسمس ڈے" منایا جانے لگا جس میں نہ صرف باقاعدہ عیسائی پادریوں کو مدعو کیا جاتا ہے بلکہ عیسائیو ں کی طرح کرسمس کیک کاٹا جاتا ہے اور شمعیں روشن کی جاتی ہیں۔

3؍جنوری 2006ء کو پاکستان کے تمام اخبارات میں یہ خبر تصاویر کے ساتھ نمایاں چھپی کہ طاہر القادری عیسائی پادریوں کے ہمراہ کرسمس کیک کی شمعیں روشن کررہے ہیں، کرسمس کیک کاٹ رہے ہیں اور عیسائی برادری میں تحفے بھی تقسیم کررہے ہیں۔ یہا ں تک کہ عیسائی اپنے ڈھول باجے بھی ساتھ لائے تھے جس کو اُنہوں نے مذہبی عقیدت کے ساتھ بجایا، جس میں طاہر القادری کے الفاظ یہ تھے:

"اُنہوں نے وہاں موجود مسیحی ڈھول باجے کی دھنیں بجانے والوں کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کی اُنگلیاں ماہرانہ انداز میں چلتی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ آپ سنیوں کے محفل سماع میں بھی آئیں اور قوالی میں شریک ہوں۔"

اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے یہ حکم بھی صادر فرمادیا کہ

"منہاج القرآن کی مسجد عیسائیوں کے لئے کھلی رہے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں امن کے قیام کے لئے نفرتیں ختم کرنا ہوں گی۔"

"ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ ادارہ کی مسجد مسلمانوں کے ساتھ عیسائی بھائیوں اور بہنوں کیلئے بھی ہر وقت کھلی ہے۔ وہ جب چاہے اپنے مذہب کے مطابق اسمیں عبادت کرسکتے ہیں۔"

یعنی اب مسلمانوں کی مساجد میں عیسائی ڈھول باجوں کے ساتھ عبادت کریں گے اور اپنا ناقوس بھی مساجد میں بجائیں گے۔ العیاذ باللہ

چنانچہ جب طاہر القادری صاحب کی اس حرکت پر اعتراض کیا گیا اور سخت تنقید کی گئی تو اُن کے ایک مرید ابو الاوّاب ہاشمی نے "کرسمس کی تقاریب کا اہتمام اور اُن میں شرکت" کے تحت منہاج القرآن کی ویب سائٹ پر اس اعتراض کا جواب یوں دیا:

"اس ضمن میں سب سے پہلے یہ امر ذہن نشین رکھنا ضروری ہے اور اس میں کوئی دو آرا نہیں ہیں کہ کرسمس مسیحیوں کا مذہبی تہوار ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسے مذہبی طور پر اپنانا جائز نہیں ہے۔ تحریک کے مرکز یا بیرونِ ملک مراکز پر منعقد ہونے والی کرسمس کی تقاریب کا انعقاد قطعی طور پر مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ مسیحی مذہب کے پیروکاروں کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس میں شرکا کی کثیر تعداد مسیحی افراد کی ہی ہوتی ہے اور تحریک منہاج القرآن کے سربراہ و قائد جذبۂ خیر سگالی کے اظہار کے لیے ایسی تقاریب میں شریک ہوتے ہیں۔ کرسمس کو اسلامی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، نہ کہ اس کا اہتمام مسلمانوں کے لئے کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ الزام کلیتاً بے بنیاد ہے کہ کرسمس کی تقریب کے منہاج القرآن کے کسی مرکز پر انعقاد کا مقصد مسلمانوں میں اس تہوار کو عام کرنا یا نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔"

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب کرسمس ڈے مسلمانوں کا تہوار نہیں اور مسلمانوں کی اس میں شرکت بھی جائز نہیں تو پھر اس تہوار کا اپنے ادارے کے تحت انعقاد کرنا کیسے جائز ہوگیا؟ اور جب عام مسلمانوں کی اس میں شرکت جائز نہیں تو طاہر القادری صاحب کو وہ استثنیٰ کس وحی کے تحت مل گیا کہ اُن کے لئے اس میں شرکت جائز ہوگئی۔ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ طاہر القادری نے اپنے حلقہ انتخاب میں الیکشن جیتنے کے لئے عیسائی برادری کے ساتھ اس قدر خیر سگالی کا مظاہرہ کیا کیونکہ اس حلقہ میں عیسائی لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

جہاں تک سوال ہے 'جذبۂ خیر سگالی' کا تو کیا ایسا کوئی ثبوت ہمیں رسو ل اللہ ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین ﷭کے دور میں ملتا ہے کہ اُنہوں نے 'جذبۂ خیر سگالی' کے تحت کفار کے تہواروں میں شرکت کی ہو بلکہ اس کا اپنی طرف سے انعقاد بھی کیا ہو۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو کفار کے اس قسم کے تہواروں سے دور رہنے کا صریح حکم دیا گیا ہے اور ان میں کسی بھی طرح کی شرکت کو کفر و شرک سے تعبیر کیا گیا ہے۔

سلف و خلف کے فقہا اورعلماے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی قوم کے مذہبی تہواروں کی تعظیم اور تقریبات کا انعقاد شعوری طور پر کیا جائے تو یہ کفر ہے اور اس فعل سے انسان اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ جیساکہ ثابت بن ضحاکؓ سے مروی یہ حدیث اس بارے واضح رہنمائی کرتی ہے:

قَالَ نَذَرَ رَجُلٌ عَلىٰ عَهْدِ رَسُولِ اللهِ ﷺ أَنْ یَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانَةَ فَأَتَى النَّبِيَّ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَنْحَرَ إِبِلًا بِبُوَانةَ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «هَلْ کَانَ فِیهَا وَثَنٌ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِیَّةِ یُعْبَدُ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ: «هَلْ کَانَ فِیهَا عِیدٌ مِنْ أَعْیَادِهِمْ؟» قَالُوا: لَا، قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «أَوْفِ بِنَذْرِكَ فَإِنَّهُ لَا وَفَاء َ لِنَذْرٍ فِي مَعْصِیَةِ اللهِ وَلَا فِیمَا لَا یَمْلِكُ ابْنُ آدَمَ»

''رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ایک شخص نے یہ نذر مانی کہ وہ مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرے گا۔ وہ شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے۔ آپ نے صحابہ کرام سے پوچھا کہ کیا بوانہ میں زمانۂ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی وہاں پوجا کی جاتی تھی؟ صحابہ نے عرض کیا: نہیں پھر آپﷺ نے پوچھا: کیا وہاں کفار کا کوئی میلہ لگتا تھا؟ عرض کیا: نہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے اس شخص کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تو اپنی نذر پوری کر کیونکہ گناہ میں نذر کا پورا کرنا جائز نہیں ہے اور اس چیز میں نذر لازم نہیں آتی جس میں انسان کا کوئی اختیار نہ ہو۔" اس حدیث کی روشنی میں امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ

"جب جاہلی میلوں اور عبادت گاہوں پر کسی عقیدت مندانہ حاضری کو منع کردیا گیا تو خود جاہلی عیدوں میں شرکت بدرجۂ اولیٰ ممنوع ہوگئی۔"

مزید برآں سورۃ الفرقان کی آیت 72: ﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ﴾ "رحمٰن کے بندے جھوٹ پر گواہ نہیں ہوتے۔"کی تفسیرمیں "الزّور"سے تابعین نے غیر مسلموں کی مذہبی تقریبات کو مراد لیا ہے۔ جیسا کہ امام محمد بن سیرین  فرماتے ہیں: "الزُّور سے مراد عیسائیوں کی عید شعانین ہے۔"

مجاہد اور ربیع بن انس  فرماتے ہیں: هو أعیاد المشرکین "یہ مشرکوں کی عید کو کہتے ہیں۔"

قاضی ابو یعلیٰ اور امام ضحاک ﷭ سے بھی یہی رائے منقول ہے۔فقہاے مالکیہ سے منقول ہے:

"جوشخص مشرکین کے کسی تہوار میں خربوز ے کو خاص طرح سے کاٹتا ہے (جیسے آج کل کرسمس کا کیک وغیرہ) تو گویا وہ خنزیر ذبح کرتا ہے۔"

حضرت عمر سے منقول ہے کہ «اجتنبوا أعداء الله في عیدهم»

"اللہ کے دشمنوں کی عید سے بچو۔"

سیدنا عبد اللہ بن عمرو فرماتے ہیں:

«من بني بأرض المشرکین وصنع نيروزهم ومهرجانهم وتشبَّه بهم حتی یموت، حُشر معهم یوم القیامة»

"جو مشرکین کے درمیان رہتا ہے اور ان کی عید نوروز اور تہوار مناتا ہے اور انکی صورت اختیار کرتا ہے اور اسی حال میں مرجاتا ہے تو قیامت کے دن اُن ہی کے ساتھ اٹھایا جائیگا۔"

طاہر القادری کیلئے مقام فکر ہے کہ کیا وہ قیامت کے دن یہود ونصاریٰ کے ساتھ اُٹھنا چاہتے ہیں؟

مساجد کو گرجا گھروں میں تبدیل کرنے کا پروگرام

طاہر القادری صاحب کرسمس ڈے پر عیسائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"منہاج القرآن کی مسجد عیسائیوں کے لئے کھلی رہے گی۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں امن کے قیام کے لئے نفرتیں ختم کرنا ہوں گی۔"

"ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ ادارہ کی مسجد مسلمانوں کے ساتھ عیسائی بھائیوں اور بہنوں کیلئے بھی ہر وقت کھلی ہے۔ وہ جب چاہے اپنے مذہب کے مطابق اسمیں عبادت کرسکتے ہیں۔"

اس سلسلے میں انہوں نے ۹ھ میں نجران کے عیسائی وفد کی آمد کے موقع پر اُن کو مسجدِ نبوی میں ٹہرانے اور اس دوران پیش آمدہ واقعہ سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی مساجد میں اہل کتاب یعنی یہودیوں اور نصارانیوں کو اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرنے کی ہر وقت کھلی اجازت ہے۔ لہٰذا اس مقصد کے لئے طاہر القادری صاحب نے عیسائیوں کو باقاعدہ دعوت دی کہ وہ ہماری مساجد میں آکر اپنے طریقے کے مطابق عبادت کیا کریں۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا قیام چونکہ مسجدِ نبوی میں ہی زیادہ ہوا کرتا تھا لہٰذا جو بھی وفود آتے، وہ آپ سے مسجد ِنبوی میں آپ سے ملاقات کرتے۔ چنانچہ جب اہل نجران کا وفد آیا تو آپ سے تفصیلاً بات کرنے کے لئے مسجدِ نبوی میں ٹھہرا۔ اس دوران ایک دفعہ آپ نماز سے فارغ ہوکر واپس آئے تو وہ اپنے مذہبی طریقے کے مطابق نماز پڑھنے لگے جس پر صحابہ نے ان کو منع کیا لیکن آپ ﷺ نے عارضی طور پر اُس وقت ان سے درگزر کرنے کا حکم دیا۔لیکن اس سے کہیں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپﷺ نے مسجدِ نبوی میں ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی خصوصاً تلقین کی ہو یا ان کو اس بات کی باقاعدہ طور پردعوت دی ہو اور نہ ہی ہمارے اسلاف نے اس واقعہ سے مسلمانوں کی مساجدمیں اہل کتاب کو باقاعدہ طور پر عبادت کی دعوت دینے کا حکم اخذ کیا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعد میں جب۹ھ میں قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی :

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِنَّمَا المُشرِ‌كونَ نَجَسٌ فَلا يَقرَ‌بُوا المَسجِدَ الحَر‌امَ بَعدَ عامِهِم هـٰذا...٢٨ ﴾... سورة التوبة "اے ایمان والو! بے شک مشرک بالکل ناپاک ہیں۔ وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس بھی نہ پھٹکنے پائیں۔" تو آپ ﷺ نے یہ حکم جاری فرمایا:

عَنْ جَابِرٍعَنْ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ: «لَا یَدْخُلُ مَسْجِدَنَا هٰذَا مُشْرِكٌ بَعْدَ عَامِنَا هَذَا غَیْرَ أَ هْلِ الْکِتَابِ وَخَدَمِهِمْ»

"حضرت جابر سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک ہماری مسجدوں میں داخل نہ ہو سوائے اہل کتاب اور ان کے خادموں کے۔"

محدثین کے نزدیک اس حدیث میں اہل کتاب سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جوکہ ذمّی ہوں جیسا اس بات کی وضاحت مسند احمد میں سیدنا جابر سے مروی اس فرمان نبوی ﷺ سے یوں ملتی ہے:

«لَا یَدْخُلُ مَسْجِدَنَا هٰذَا بَعْدَ عَامِنَا هَذَا مُشْرِكٌ إِلَّا أَهْلُ الْعَهْدِ وَخَدَمُهُمْ»

"اس سال کے بعد کوئی مشرک ہماری مسجدوں میں داخل نہ ہو سوائے ذمیوں اور ان کے غلاموں کے۔''

چناچہ امام ابن کثیر ﷫ اپنی تفسیر میں سورۃ توبہ کی درج بالا آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں:

کتب عمر بن عبد العزیز، رضي الله عنه: أن امنعوا الیهود والنصارى من دخول مساجد المسلمین، وأتبَعَ نهیه قول الله:﴿ اِنَّمَا الْمُشْرِكُوْنَ نَجَسٌ ﴾

" عمر بن عبدالعزیز  نے اپنے دورِ خلافت میں یہود ونصاریٰ کو بھی مسلمانوں کی مسجدوں میں داخلے سے ممانعت کا حکم جاری فرمایا تھا، اللہ کے اس فرمان کے بسبب "مشرکین نجس ہیں۔"

یہ تو ہے حکم مشرکین اور یہود ونصاری کے مسجد میں صرف داخل ہونے کا معاملے میں۔ جہاں تک تعلق ہے ان کا مسلمانوں کی مساجد کو باقاعدہ اپنی عبادت کے لئے استعمال کرنا یا اُن کو اس کے لئے دعوت دینا تو تمام فقہاے سلف صالحین کے نزدیک یہ کسی صورت جائز نہیں۔

طاہرا لقادری کی نظر میں شیعہ سنّی بھائی بھائی

طاہرا لقادری صاحب ایک مقام پر "شیعہ سنی بھائی بھائی" کے نعروں کی گونج میں پرجوش تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"سنیے! اگر جو بات میں نے کہی، وہ سنّیّت ہے تو ایمان سے کہو کہ یہی شیعیت ہے یا نہیں؟ یہی شیعیت ہے! تو جھگڑا کس بات کا؟ تو پتا چلا جھگڑا سنّی شیعہ میں نہیں ہے، جھگڑا خارجیت کا ہے۔ جھگڑا سنیّت اور شیعیت میں نہیں، یہ تو دونوں کربلا میں ہیں اور خارجیت دمشق کے تخت پر ہے...لہٰذا میری تلقین ہے کہ آج کے بعد آپ کو اس طرح سے (ہاتھ ہاتھ ملاکر) رہنا ہے۔"

سوال یہ ہے کہ طاہرالقادری صاحب "شیعہ سنی بھائی بھائی" کا جو نعرہ لگوارہے ہیں، اس کی شرعاً کوئی حیثیت بھی ہے یا نہیں! یا طاہرالقادری صاحب ایک عالمی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے یہ نعرہ لگوارہے ہیں۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ "شیعہ سنی بھائی بھائی"کبھی بھی نہیں ہوسکتے بلکہ یہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جیسے ایک نیام میں دوتلواریں اکٹھی نہیں ہوسکتی، ایسے ہی ان رافضی شیعوں کا اہل السنۃ کا بھائی ہونا بعید القیاس ہے۔ کیونکہ یہ رافضی شیعہ جو عقائد رکھتے ہیں وہ انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کرنے کے لئے کافی ہیں۔ جیساکہ حضرت عائشہ ؓپر بہتان باندھنا، ان کی اور دیگر صحابہ کرام بشمول حضرت ابوبکر و عمر کو کافر قرار دیتے ہوئے اہل جہنّم میں شمار کرنا۔ پس اگر ان رافضی شیعوں کی حقیقت کو شرعی طور پر جان لیا جائے تو اس حقیقت کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ طاہر القادری صاحب کس ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ چناچہ العقیدة الواسطية میں درج ہے:

«المعروف أن الرافضة قبّهحهم الله يسبّون الصحابة ویلعنوهم وربّما کفّروهم أو کفروا بعضهم والغالبیة منهم مع سبّهم لکثیر من الصحابة والخلفاء یغلون في علي وأولاده ویعتقدون فیهم الإلهٰیة»

"یہ بات معروف ہے کہ روافض ... اللہ اُنہیں ہلاک کرے کیونکہ وہ ...صحابہ کرام کو گالیاں دیتے اور ان پر لعنت کرتے ہیں اور تمام صحابہ کرام کی تکفیر کرتے ہیں یا اُن میں سے بعض کو کافرکہتے ہیں اور ان کی غالب اکثریت صحابہ کرام اور خلفاے راشدین کو گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ حضرت علی اور اُن کی اولاد کے بارے میں غلو کرتی ہے اور ان کے بارے میں خدا ہونے کا اعتقاد رکھتی ہے۔"

چنانچہ امام شافعی﷫ ان رافضی شیعوں کی یوں تعریف کرتے ہیں:

جس نے یہ کہا کہ ابو بکر و عمر امام(خلیفہ برحق) نہیں ہیں، تو وہ 'رافضی' ہے۔

امام الخر شی﷫ کہتے ہیں: "یہ لقب ہر اس شخص کے لیے استعمال کیا گیا ہے جس نے دین میں غلو کیا اور صحابہ کی شان میں طعن کو جائز قرار دیا۔"

امام احمد بن حنبل﷫ سے ان کے بیٹے عبد اللہ یوں روایت کرتے ہیں:

«قلت لأبي من الرافضة قال الذي یشتم ویسبّ أبابکر وعمر»

" میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ 'رافضی' کون ہیں، فرمایا وہ شخص جو سیدنا ابوبکر اور عمر کو برا کہے اور ان کو گالیاں دے۔"

چناچہ یہی وہ گروہ ہے جس کے بارے میں رسول ﷺ کا یہ فرمان سیدنا ابن عباس سے مروی ہے:

کنت ثم النبی ﷺ وعنده علي فقال النبی ﷺ: «یا علي! سیکون في أمتي قوم ینتحلون حبّ أهل البیت لهم نبز یسمون الرافضة قاتلوهم فإنهم مشرکون»

میں نبی کریمﷺ کے پاس تھا اور آپﷺ کے ساتھ حضرت علی بھی تھے۔ پس نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اے علی! میری اُمّت میں عنقریب ایسی قوم ہوگی جو اہل بیت سے محبت کا (جھوٹا) دعویٰ کرے گی، اُن کے لئے ہلاکت ہے ان کو رافضہ کہا جائے گا تم ان سے قتال کرنا کیونکہ وہ مشرک ہوں گے۔"

وعن فاطمة بنت محمدﷺ قالت: نظر النبی ﷺ إلى علي فقال: «هٰذا في الجنة، وإن من شیعته یعلمون (وفي روایة یلفظون) الإسلام ثم یرفضونه، لهم نبزیسمون (وفي روایة یشهدون) الرافضة، مَن لَقِیهم فلیقتلهم فإنهم مشرکون»

"حضرت فاطمہ بنتِ محمدﷺ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت علی کی طرف دیکھا پھر فرمایا کہ یہ جنّت میں ہوگا اور اس کے گروہ میں سے ایسے لوگ ہوں گے جو اسلام کو جاننے کے بعد اِس کو جھٹلادیں گے۔ ان کے لئے ہلاکت ہے، ان کو رافضہ کے نام سے جانا جائے گا، جب تمہارا ان سے سامنا ہو تو ان سے قتال کرنا کیونکہ وہ مشرک ہیں۔"

عن علي بن أبي طالب قال قال رسول اللهﷺ: «یاعلي!إنك من أهل الجنة وانه یخرج في أمتي قوم ینتحلون شیعتنا لیسوا من شیعتنا لهم نبز یقال لهم الرافضة وآیتهم إنهم یشتمون أبا بکر وعمر أینما لقیتهم فاقتلهم فإنهم مشرکون»

"حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بے شک تم اہل جنت میں سے ہو اور میری اُمت میں سے ایسی قوم نکلے گی جو اپنے آپ کو ہماری اولاد سے منسوب کریں گے اور وہ ہماری اولاد میں سے نہیں ہوں گے۔ اُن کے لئے برائی ہے، ان کو رافضہ کہا جائے گا اور اُن کی علامت یہ ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو گالی دیں گے۔ وہ جہاں کہیں بھی تم کو ملیں تو تم ان کو قتل کرو کیونکہ وہ مشرک ہیں۔"

حضرت علی کے شاگرد امام عامر شعبی  اس گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

"میں تمہیں گمراہ اور خواہش پرستوں سے ڈراتا ہوں اور ان میں شریر ترین 'رافضہ' ہیں..."

جو کوئی ان واضح دلائل کے بعد بھی اس بات کا قائل ہو کہ "شیعہ سنی بھائی بھائی" ہیں تو اس کے عزائم اور خدمتِ اسلام کا خود بخود اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

طاہر القادری کی خود فریبی... اُن کو سجدہ کرنا

طاہرا لقادری صاحب کی ذات سے ہر روز ایک نیا فتنہ اور فساد کھڑا ہوتا ہے۔ طاہرا لقادری صاحب کو اور اُن کے مریدوں کو اللہ ہی جانے اُن کی شخصیت کے بارے میں کیا غلط فہمی ہوگئی ہے کہ وہ ان کے آگے معاذ اللہ سجدہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں اور اس فعل پر طاہرا لقادری صاحب کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوتا۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک قوالی کی محفل میں پیش آیا جس کی وجہ سے طاہرا لقادری صاحب پر کڑی تنقید کی گئی۔ گوکہ اس واقعہ یوں کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی گئی کہ اُن کے مرید اُن کو سجدہ نہیں کررہے تھے بلکہ اُن کے پیر چوم رہے تھے۔

لیکن جس قوالی پر اُن کے مرید سجدہ کررہے تھے یا اُن کے بقول پیر چوم رہے تھے، اس کے الفاظ غور کیا جائے تو خود بخود یہ بات واضح ہوجائے گی کہ آیا وہ پیر چومے جارہے تھے یا سجدے کئے جارہے تھے۔ اس دوران قوال ایک جملہ بارہا دہرائے جارہا تھا کہ

"اے جلوہ جاناں!...جس جا نظر آتے ہو...سجدے وہیں کرتا ہوں۔"

باقی دلوں کے حال سے تو اللہ بخوبی واقف ہے!!

احکام شریعت کی پابندی سے آزادشخصیت

طاہر القادری صاحب نہ صرف ایک طرف خودفریبی کا شکار ہیں بلکہ شیطان نے اُن کو ایسے دھوکے میں ڈال دیاہے کہ وہ خود کو احکامِ شریعت کے پابندی سے بھی آزاد سمجھنے لگے ہیں۔ جیساکہ ہم اس کا تذکرہ کرسمس تقریبات میں شرکت کو اپنے لئے جائز سمجھنے کے ضمن میں کرآئے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ایسے شرعی اُمور ہیں جن سے طاہر القادی اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں، مثلاًعورتوں کے ساتھ بے پردہ اختلاط کرنا، اُن سے مصافحہ کرنا اور ان کی مشابہت اختیار کرنا وغیرہ۔

اسی طرح 'نعت خوانی' کے نام پر ایسی تقریبات کا منعقد کرنا جس میں کھلے عام مختلف انداز میں لوگوں کو'وجد'کے نام پر رقص پر اُبھارنا بھی شامل ہے۔

طاہر القادری کی نظرمیں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک 'دار الامن' ہیں

طاہر القادری صاحب کس کے ایجنڈے پر کاربند ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ عالم کفر کی سب سے بڑی اور قائد حکومت امریکہ اور دیگر یورپی ممالک کو شرعی طور پر'دار الامن' قرار دیتے ہیں اور اس کے لئے صرف دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہاں مسلمانوں کوبعض عبادات اور ذاتی زندگی میں چند احکامات پر عمل کی اجازت ہے۔ اس کے لئے وہ سلف و صالحین کے فتاویٰ و اقوال کو بڑی خوبصورتی سے توڑ مروڑ کر اور اُن کے سیاق وسباق سے ہٹاکر پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ امریکہ ویورپی ممالک کو 'دار الحرب' قرار دینے والوں کی مذمت کرتے ہوئے 'دار الحرب' کو صرف اس بات سے مشروط کرتے ہیں کہ ''وہاں مسلمان اور ذمّی مامون نہ رہیں۔'' باقی اُن کی نگاہ میں'دار الکفر'محض کسی ایک حکم شرعی کی پر عمل کی اجازت دے دینے کے بعد'دار الکفر' نہیں رہ جاتا، چاہے باقی قانونِ شرعیہ کی دھجیاں بکھیردی جائیں اور شرعی قوانین کے بجائے کفریہ قوانین ہی کیوں نہ نافذ ہوں، اِس سے اُن کی نظر میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

ہم اس کی مزید تفصیل میں جانے کے بجائے شرعی و اصطلاح معنوں میں 'دار الاسلام، دار الحرب، دار الامن' کی تعریف سمجھ لیتے ہیں تاکہ اصل حقیقت سامنے آجائے۔

دارالاسلام کی تعریف: فقہاے کرام﷭ نے باتفاق کسی بھی علاقے کو دار الاسلام قرار دینے کے لئے دو شرطیں ہی بیان کی ہیں: 1۔حاکم کا مسلمان ہونا 2۔احکام اسلامی کا اجرا

امام سرخسی﷫ نے لکھا ہے:

«وبمجرد الفتح قبل إجراء أحکام الاسلام لاتصیر دار الإسلام»

"صرف فتح کے بعد احکامِ اسلام کے اجرا کے بغیر دارالحرب، دارالاسلام میں تبدیل نہیں ہوتا۔''

«وکذٰلك لو فتح المسلمون أرضًا من أرض العدو حتى صارت في أیدیهم وهرب أهلها عنها. لأنها صارت دار الإسلام بظهور أحکام الإسلام فیها»

"اسی طرح اگر مسلمان دشمنوں کی کوئی زمین فتح کرلیں یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے ماتحت ہوجائے اور اس کے رہنے والے بھاگ جائیں (یعنی مغلوب ہوجائیں) تو یہ علاقہ احکام اسلام کے ظاہر ہونے سے دار الاسلام قرار پائے گا۔''

علامہ ابن عابدین شامی﷫ فرماتے ہیں:

«دار الحرب تصیر دار الإسلام بإجراء أحکام أهل الإسلام فیها»

"دارالحر ب میں اہلِ اسلام کے احکامات جاری ہونے سے وہ دارالاسلام میں تبدیل ہو جاتا ہے"

امام علاء الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی اپنی شہرہ آفاق تصنیف 'بدائع الصنائع' میں فرماتے ہیں:

«لاخلاف بین أصحابنا في أن دار الکفر تصیر دار الإسلام لظهور أحکام الإسلام فیها»

"ہمارے علما میں اس بات کا کسی میں اختلاف نہیں ہے کہ دارالکفر، دارلاسلام میں تبدیل ہوتا ہے، اس میں اسلامی احکام ظاہر ہونے سے۔''

صارت الدار دار الإسلام بظهور أحکام الإسلام فیها من غیر شریطة أخرٰی ''دارالکفر، دارالاسلام میں تبدیل ہوتا ہے، اس میں اسلامی احکام جاری ہونے سے دوسری کسی شرط کے بغیر۔''

دارُ الحرب کی تعریف: جس طرح دار الحرب کا کوئی بھی علاقہ اس وقت تک دار الاسلام قرار نہیں پاسکتا جب تک اس میں مکمل اسلامی احکام کا اِجرا اور ظہور نہ ہوجائے۔ اسی طرح کوئی بھی علاقہ جوکہ دار الاسلام کا حصہ ہو وہ اس وقت تک دار الحرب میں تبدیل نہیں ہوتا جب تک کہ اس میں کچھ نقائص پیدا نہ ہوجائیں۔ چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی اپنی شہرہ آفاق کتاب 'ردّ المختار' میں لکھتے ہیں:

لا تصیر دار الإسلام دار الحرب إلا بأمور ثلا ثة بإجراء أحکام أهل الشرك وباتصالها بدار الحرب، وبأن لایبقي فیها مسلم أو ذمي أمنًا بالأمان الأوّل علىٰ نفسه

"دارالاسلام دارالحرب میں تبدیل نہیں ہوتا مگر تین چیزوں کے پائے جانے سے:

1. اہل شرک کے احکام جاری ہونے سے اور

2. اس شہر کے دارالحرب سے متصل ہونے سے اور یہ کہ

3. وہاں کوئی مسلمان یا ذمی اپنی ذات اور دین کے اعتبار سے امن اوّل سے مامون رہے۔''

یہاں اہل شرک سے اہل کفر مراد ہیں یعنی اہل کفر کے احکام علیٰ الاعلان بلا روک ٹوک جاری ہوں، احکام اسلام وہاں جاری نہ ہوں اور دارالحرب سے متصل ہونے سے مراد یہ ہے کہ دونوں 'دار'کے درمیان دار الاسلام کا کوئی اورعلاقہ موجود نہ ہو اور امن اول سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں کو اسلام کے سبب اور ذمّی کو عہدِ ذمہ کی سبب کفار کے غلبے سے پہلے جو امن تھا، وہ امن کفار و مرتدین کے غلبہ کے بعد مسلمان اور ذمی دونوں کے لئے باقی نہ رہے۔ یہ رائے امام ابوحنیفہ﷫ کی ہے۔ لیکن امام ابو یوسف﷫ اور امام محمد﷫ کے نزدیک مذکورہ اُمور میں سے صرف ایک ہی امر سے دارالحرب بن جاتا ہے یعنی دارالاسلام میں صرف احکامِ کفر جاری ہونے سے وہ دارالحرب بن جاتا ہے اور یہی قول فقہ حنفی میں قرین قیاس ہے۔ جیساکہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

وقال أبو یوسف رحمة الله علیه ومحمّد رحمة الله علیه بشرط واحد لاغیر وهو إظهار أحکام الکفر وهو القیاس

''اور امام ابو یوسف اور امام محمد﷭ فرماتے ہیں کہ صرف ایک شرط محقق ہونے سے دار الحرب کا حکم کردیا جائے گا اور وہ شرط یہ ہے کہ احکام کفر کو علیٰ الاعلان جاری کردیں اور قیاس (بھی فقہ حنفی کے نزدیک) اسی کا متقاضی ہے۔''

علامہ سرخسی﷫ نے اس کی وضاحت اس طرح فرمائی:

وعن أبي یوسف و محمّد رحمهما الله تعالىٰ إذا أظهروا أحکام الشرك فیها فقد صارت دارهم دار حرب، لأن البقعة إنما تنسب إلینا أو إلیهم باعتبار القوة والغلبة، فکل مقضع ظهر فیها حکم الشرك فالقوة في ذلك الموضع للمشرکین فکانت دار حرب وکل موضع کان الظاهر فیه حکم الإسلام فالقوة فیه للمسلمین

''امام ابو یوسف اور امام محمد﷭ سے منقول ہے کہ اگر دارالاسلام کے کسی علاقہ میں (حکام) احکامِ شرک کا اظہار کردیں (یعنی علیٰ الاعلان نافذ کردیں) تو ان کا دار، دارالحرب ہو گا۔ اس لیے کہ کوئی بھی علاقہ ہماری یا ان (کفار) کی جانب قوت اور غلبہ ہی کی بنیاد پر منسوب ہوتا ہے۔ جس جگہ احکامِ شرک نافذ ہوجائیں تو اس کے معنی ٰیہ ہیں کہ اس جگہ مشرکین کو اقتدار اور قوت حاصل ہے، اس لحاظ سے وہ 'دار الحرب' ہے۔ اس کے برعکس جس جگہ 'حکم'، اسلام کا ظاہر اور غالب ہو تو وہاں گویا مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہے (اور وہ دار الاسلام ہے)۔''

ان تمام حوالہ جات سے کہیں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ فقہاے کرام نے کسی جگہ کو 'دارالحرب' قرار دینے کے لئے صرف یہ ایک شرط بیان کی ہو کہ "وہاں مسلمان اور ذمّی مامون نہ رہیں" بلکہ اصل حقیقت تو فقہاے کرام کے فتاویٰ سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ اصل شے احکامِ اسلامی کا جاری و ساری رہنا اور اگر یہ شرط مفقود ہوگئی تو دار الاسلام کی کوئی حیثیت نہیں۔

اسی طرح فقہاےکرام کے فتاویٰ اس بات پر بھی شاہد ہیں کہ کسی بھی جگہ کو دار الحرب یا دار الکفر سے استثنا صرف اسی صورت میں مل سکتا ہے جب کہ وہاں احکام اسلامی کا مکمل اجرا ہو اور قانونِ شریعت پوری طرح نافذ ہو۔

دارالامان کی تعریف: جو لوگ صرف مسلمانوں کو 'امن' اور دیگر شعائر اسلام (جمعہ و عیدین) کی ادائیگی کی اجازت دینے کی صورت میں کسی علاقہ کو (جیساکہ آج کل ہندوستان، امریکہ اور دیگر یورپی ریاستوں کو) دار الامن یا دارالعہد قرار دینے کی ناروا کوشش کرتے ہیں تو باتفاقِ سلف وصالحین یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دار الحرب میں 'امن' تو مشروط ہی اس بات سے ہے کہ وہ دار الاسلام کی طرف سے دیا گیا ہو نہ کہ دار الحرب کی طرف سے از خود چند مسلمانوں کو امن دینے سے وہ 'دارالامان' یا 'دارالعہد' قرار پاجائے گا۔بالفرض اگر مان لیاجائے کہ امریکہ و دیگر یورپی ممالک بشمول انڈیا، یہ سب 'دار الامان' ہیں جیساکہ طاہر القادری صاحب ہجرتِ حبشہ کی بے محل مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں کفر کی حکومت کے باوجود مسلمانوں کو شعائرِ اسلام کی ادائیگی کی اجازت تھی،تو اسی برخود غلط اُصول پر قیاس کرتے ہوئے امریکہ و دیگر یورپی ممالک بھی 'دار الامان' ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ایک وہ علاقہ جہاں ایک طرف کفار کی طرف سے مسلمانوں کو شعائر ِاسلام مثلاً جمعہ وعیدین اور دیگر انفرادی احکام کی پابندی کی اجازت ہو، لیکن دوسری طرف اسی دارالامان پر حکمرانی کرنے والے کفار بلادِ اسلامیہ کے دوسرے علاقوں (کشمیر، افغانستان، عراق، بوسنیا، چیچنیا وغیرہ) میں بسنے والے مسلمانوں پر حملہ آور ہوجائیں، اُن کی بستیوں کو تاراج کریں، ان کی کھیت کھلیانوں کو برباد کریں، ان پر آتش و آہن کی برسات کردیں، لاکھوں مسلمانوں کو خاک وخون نہلادیں،یا پھر اس دار الامان کے کفار اس کام میں دوسرے علاقے کے کفار کی مدد کررہے ہوں تو کیا کفار کے ان علاقوں کو محض اس بنیاد پر کہ اُنہوں نے چند مسلمانوں کو چند شعائر اسلام کی ادائیگی کی اجازت اور امن دے رکھا ہے، دارالامان قرار دیا جاتا رہے گا...؟؟

اور دار الامان کے سلسلے میں ہجرتِ حبشہ کی جو مثال دی جاتی ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا حبشہ کے کفار نے مسلمانوں کے مقابلے میں قریش مکہ کا ساتھ دیا تھا اور اُن کو پکڑ پکڑ کر کفارِ مکہ کے حوالے کردیا تھا...یا اُنہوں نے دامے درمے سخنے مسلمانوں کی ہر ممکن مدد ونصرت کی تھی اور سب سے بڑھ کر بات یہ کہ شاہِ حبشہ خود مسلمان ہوگئے تھے اور ان کے انتقال پر رسول اللہﷺ نے ان کا جنازہ ادا کیا۔

حقیقتِ حال یہ ہے کہ چاہے برطانیہ یا ہندو ستان ہو، یورپی ریاستیں ہوں یا کفار کے دوسرے ممالک، شاذ ونادرہی کوئی ملک ایسا ہو، جس نے مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کے نام پر اقوام متحدہ کے زیر سایہ پوری دنیا میں برپا کی جانے والی 'صلیبی جنگ' میں اہم کردار ادانہ کیا ہو یا اس میں کسی بھی طریقے کی فوجی، مالی، طبّی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم نہ کی ہو۔ خاص کر جس طریقے سے عالم کفر اور ان کے حاشیہ بردارمسلمانوں کے کلمہ گوحکمرانوں نے 'امارتِ اسلامی افغانستان' کے خلاف بالاتفاق 'مشترکہ صلیبی جنگ' مسلط کی، اس کی مثال توتاریخ اسلامی میں کم ہی ملتی ہے۔ لہٰذا یہ دلیل ہی کلیۃً باطل ہوگئی۔

مزید برآں امریکہ و یورپی ممالک کو 'دار الامن' قرار دینے کے لئے یہ دلیل دینا کہ "وہاں مسلمان اور ذمّی مامون نہ رہیں" دراصل ان کے ذہنی خلل کی نشاندہی کرتا ہے کیونکہ مسلمان کے ساتھ ذمّی کے بھی مامون ومحفوظ رہنے کی جو شرط فقہاے کرام نے رکھی ہے، تو یہ بات تو کسی ادنیٰ سے طالبعلم سے بھی مخفی نہیں کہ 'ذمّی' دار الاسلام کے ماتحت ہوتا ہے نہ کہ دار الحرب کے... ﴿اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ!﴾ کیا یہ اب بھی عقل سے کام نہیں لیں گے...؟؟

گستاخِ رسول ﷺ کی سزا پر اجماعِ اُمت سے انحراف

طاہر القادری صاحب نے جہاں ایک طرف احکامِ شریعت سے متعلق تواتر کے ساتھ چلے آنے والے اجماع سے انحراف کیا بلکہ وہ اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے اس قدر آگے بڑھ گئے کہ دورِ نبوی ﷺ سے رائج شدہ گستاخِ رسول ﷺ کی "گردن زدنی" کی سزا میں یہ کہہ کر تخفیف و ترمیم کردی کہ یہ سزا صرف مسلمانوں کے لئے ہے، کافروں کے لئے نہیں۔ چناچہ رمشا مسیح کیس کے معاملے میں اپنے بیرونی آقاؤں کی موجودگی میں ایک کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

"ناموسِ رسالت کے قانون کا اطلاق غیر مسلموں پر نہیں ہوتا، چاہے وہ یہودی ہوں یا عیسائی یا دیگر اقلیتوں میں سے کوئی بھی ہو۔ اس کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہے۔"

یہ ہے وہ انحراف جواُنہوں نے ناموسِ رسالت پر کیا جوکہ اجماعِ اُمت کے صریح خلاف ہے۔ چناچہ گستاخ رسول ﷺ کی سزا کیا ہے، چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، آئیے پہلے اس کو جان لیتے ہیں۔خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز  فرماتے ہیں:

«یُقتل، وذلك أنه من شتم النبي ﷺ فهو مُرْتَدٌّ عن الإسلام، ولایشتم مسلمٌ النبيَّ» "جو شخص رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے، اُسے قتل کیا جائے کیونکہ وہ اس فعل سے 'مرتد' ہوجاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی مسلمان نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کی جسارت نہیں کرسکتا۔''

حضرت عباس فرماتے ہیں:

أیّما مسلم سبّ الله أو سبّ أحدًا من الأنبیاء فقد کَذَّبَ برسول الله ﷺ، وهي رِدَّةٌ، یُسْتتاب فإنْ رَجَع وإلا قُتِلَ، وأیما معاهدٍ عَاند فسبّ الله أو سبّ أحدًا من الأنبیاء أو جهر به فقد نَقَضَ العهد فاقتلوه

"جو مسلمان اللہ تعالیٰ کو گالی دے یا کسی نبی کی شان میں بکواس کرے وہ نبی کریم ﷺ کی تکذیب کرنے والا ہوا اور یہ'ارتداد' ہے۔ لہٰذا اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے اگر رجوع کرے تو ٹھیک ورنہ قتل کردیا جائے اور جو (کافر) معاہد عناد سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی شان میں گالی گلوچ کرے یا کسی پیغمبر کو سبّ و شتم کرے یا ایسے کلماتِ علانیہ کہے تو وہ نقض عہد مرتکب ہو ا، اس لئے اُس کو قتل کردو۔''

امام احمد بن حنبل ﷫فرماتے ہیں:

"جو شخص نبی ﷺ کو گالی دے یا آپ کی تنقیص کرے، خواہ مسلمان ہو یا کافر، تو واجب القتل ہے۔ میری رائے میں اس گستاخ کو قتل کیا جائے گا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے گا۔ (اسی طرح اگر) جو معاہد (ذمّی) عہد شکنی کرے اور اسلام میں گستاخی جیسا فتنہ پیدا کرے وہ واجب القتل ہے۔ کیونکہ مسلمانوں نے اس فتنہ انگیزی کی رخصت پر عہدِ ذمّہ نہیں دیا۔''

مہاجر بن ابی اُمیّہ یمامہ اور اس گردونواح کے علاقے پر حکمران تھے۔ اس علاقے میں دو عورتیں تھیں، ان میں ایک حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والی تھی اور ایک مسلمانوں کی ہجو کرتی تھی۔ حضرت مہاجر نے دونوں کا ایک ایک ہاتھ کٹوادیا اور سامنے کے دانت تڑوادیئے۔ جب اس فیصلے کی خبر حضرت ابوبکر کو پہنچی تو آپ نے اُن کو یہ خط لکھا:

بَلَغني الذي (سرت) به في المرأة التي تغنَّت وزمرت بشتم النبی ﷺ، فلولا ما قد سبقتَني فیها لأمرتك بِقَتْلِهَا؛ لأن حدَّ الأنبیاء لیس یشبه الحدود؛ فمن تعاطي ذلك من مسلم فهو مرتدٌّ أو معاهدٍ فهو محارب غادر... فإنه بلغني أنك قطعت یَدَ امرأة في أن تَغَنَّت به جاء المسلمین ونزعتَ ثَنِیِّتَهَا، فإن کانت ممن تدعي الإسلام فأدب وتقدمة دون المُثْلَة، وإن کانت ذِمِيّةٍ فلعمري لَمَا صفحت عنه من الشرك أعظم، ولو کنت تقدمت إلیك في مثل هذا لبلغت مکروهك، فاقبل الدَّعَةَ

"مجھے تمہارے فیصلے کا علم ہوا جو تم نے شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والی عورت کے بارے میں کیا (کہ اس کا ہاتھ کٹوادیا اور دانت تڑوا دیئے)، اگر تم مجھ سے پہلے ہی اس کو سزا نہ دے چکے ہوتے تو میں تم کو اس کے 'قتل' کا حکم دیتا، کیونکہ انبیاے کرام کی شان میں گستاخی کی سزا عام جرائم جیسی نہیں۔ اس لئے یاد رکھو، مسلمانوں میں سے جو کوئی بھی اس جرم کا مرتکب ہو تو وہ 'مرتد' ہے، اگر معاہد (کافر) ایسی حرکت کرے تو حربی عہد شکن ہے۔ اسی طرح تم نے اس عورت کا بھی ہاتھ کاٹ دیا اور سامنے کے دانت نکلوادیے ہیں جس نے گاکر مسلمانوں کی ہجو کی، اس سلسلہ میں قابل لحاظ یہ بات ہے کہ اگر وہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی تھی تو اس کے لئے تادیب و تعذیر ہی کافی تھی (قید وبند یا کوڑے وغیرہ کی سزا) مثلہ جائز نہ تھا اور اگر وہ ذمّیہ تھی تو تم نے اس سے درگزر کیوں نہ کیا، اس کا مشرک ہونا تو اس سے بڑا جرم تھا اور اگر میں پہلے سے تم کو ہدایت نہ کرچکا ہوتا تو تمہارے ناگوار فیصلے کی نوبت تک نہ آتی۔''

یہودی سردار کعب بن اشرف کی ایذا رسانیوں اور کھلی گستاخیوں پر آپ ﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا:

«مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ؟ فَإِنَّهُ قَدْ آذَی الله وَرَسُولَهُ. قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: نَعَمْ »"کعب بن اشرف کو کون ٹھکانے لگائے گا؟ کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو اَذیّت دی ہے۔"محمد بن مسلمہ نے کہا کہ یارسول اللہ! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اسے قتل کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا "ہاں ۔''

بالآخر محمد بن مسلمہ اور اُن کے ساتھیوں نے ایک خفیہ تدبیر کے ذریعے اس کو جہنم واصل کردیا۔ اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کعب بن اشرف مسلمان نہیں بلکہ ایک یہودی سردار تھا۔اس ضمن یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ کعب کے قتل کئے جانے کے بعد آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:

«إنّه نَالَ مِنَّا الأَذَی، وَهَجَانَا بِالشِّعْرِ، وَ لاَ یَفْعَل هَذَا أَحَدٌ مِنْکُم إِلاَّ کَانَ السَّیْف» "کعب نے ہمیں اذیت دی، اشعار کے ذریعے ہماری ہجو کی لہٰذا جو کوئی اس جرم کا ارتکاب کرے گا، تہ تیغ کیا جائے گا۔"

یہ ہے گستاخِ رسول کی سزا کا اجماعی حکم جوکہ بیان کیا گیا، اور حیرت کی با ت یہ ہے کہ طاہر القادری صاحب کا بھی یہی سابقہ موقف تھا۔ جس کو اُنہوں نے اپنے موجودہ موقف سے پہلے اپنی ایک تقریر میں یوں بیان کیا تھا:

"جو بھی گستاخی رسول کا مرتکب ہو، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم، مرد ہو یا عورت، مسلمان ہو، یہودی ہو، عیسائی ہو، ہندو ہو یا کوئی بھی ہو، جو گستاخِ رسول کا مرتکب ہو اس کی سزا موت ہے۔ اس کو کتےّ کی طرح سزائے موت دے دی جائے۔"

طاہر القادری صاحب کی شخصیت کس قدر منافقانہ اور دوغلے پن کی حامل ہے، ان تمام دلائل کے بعد اس پر کلام کی گنجائش نہیں۔ یہ منافقانہ اور دوغلی روش اس قدر واضح ہے کہ وہ میڈیا جوکہ احکامِ شرعیہ کے نفاذکو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیتا ہے، وہ بھی اس اس پر چپ نہ رہ سکا۔ دیکھئے...

"میں سو فیصد سچا آدمی ہوں"...طاہر القادری کا دعویٰ

حقیقت کیا ہے، اس کے لئے درج ذیل ویب پیج ملاحظہ فرمائیے... پاکستان کے سب سے کثیر الاشاعت اخبارنے انکشاف کیا ہے کہ علامہ طاہر القادری کو جان ایسپوزیٹو نامی امریکی کنٹرول کرتا ہے۔ایم عظیم میاں، واشنگٹن سے پاکستانی اخبار کے لیے اپنی تحریر میں لکھتے ہیں:

''علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی کینیڈا سے پاکستان واپسی اور لاہور میں جلسہ عام کا تخیل دینے والے اور اس کےلئے مالی و انتظامی تعاون کرنے والے سبھی علامہ صاحب کی پرفارمنس سے اور آخری لمحات تک تقریر کے متن اور مافی الضمیر میں مجوزہ تبدیلیوں سے بھی مطمئن ہیں۔

میری معلومات کے مطابق سب سے زیادہ خوش اور مطمئن جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن کے پروفیسر جان ایسپوزیٹو (Esposito) ہیں جنہوں نے علامہ طاہر القادری کے دہشت گردی اور خود کش حملوں کے بارے میں 413 صفحات پر مشتمل انگریزی میں شائع کردہ فتویٰ کا پیش لفظ ہی نہیں لکھا بلکہ علامہ طاہر القادری کو امریکی حکومتی نظام سمیت متعدد اہم امریکیوں سے بھی متعارف کرایا اور اس سے آگے کے مراحل میں حتیٰ المقدور تعاون کیا۔''

1980ء کے عشرے میں اسلام کے بارے میں تدریس و تحقیق کے لئے مشہور امریکی یونیورسٹی ٹیمپل یونیورسٹی کے فلسطینی نژاد اعلیٰ پائے کے محقق پروفیسر اسمٰعیل فاروقی کی سرپرستی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم جان ایسپوزیٹو اس وقت امریکہ کے سرکاری اور علمی نظام میں اسلام کے حوالے سے نہ صرف انتہائی محترم اور معتبر مانے جاتے ہیں بلکہ انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی اور علمی اُمور میں ان کی رائے اور سفارش کو کلیدی اہمیت دی جاتی ہے۔ وہ جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں سعودی پرنس ولید کے نام کی چیئر پر بھی فائز ہیں، اُن کے اُستاد پروفیسر اسمٰعیل فاروقی اور ان کی اہلیہ یونیورسٹی کیمپس کی حدود میں ہی اپنی رہائش گاہ پر انتہائی پراسرار طور پر اچانک قتل کردیئے گئے اور اس قتل کا معمہ میری معلومات کے مطابق آج تک حل نہیں ہوا۔ مرحوم سے مختلف اجتماعات میں مجھے ملاقاتوں اور مختلف موضوعات پر ان کی رائے جاننے کے مواقع ملے۔ ان کی موت امریکہ میں مسلمان کمیونٹی کے لئے نہ صرف ایک عالم اور گائیڈ کی موت تھی بلکہ ان کے بعد ایک عرصہ تک مسلم کمیونٹی خود کو بے سہارا تصور کرتی رہی۔

بہرحال کینیڈین شہریت کے حصول کے بعد علامہ طاہر القادری اب جس اہتمام اور انتظام کے ساتھ پاکستان کے سیاسی اور عوامی منظر پر لوٹے ہیں یہ ان کی صلاحیتوں کا ایک منفرد اور اعلیٰ نمونہ ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ثمرات سے مستفید ہونے والے (Beneficiaries of war on terror) سیاستدانوں، حکمرانوں اور ثمرات حاصل کرنے والوں میں سے کوئی بھی پاکستانی علامہ صاحب جیسی اعلیٰ صلاحیتوں کا اظہار یا کردار ادا نہیں کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی آمد اور تقریر سے حکمرانوں اور اپوزیشن میں کسی کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہورہا بلکہ عمران خان بھی ان کی تقریر کے حوالے پیش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ علامہ طاہر القادری نے نہ تو حکومت کو چیلنج کیا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کی حمایت کی بلکہ آئین اور نظام کے حوالے سے پہلے سے طے شدہ انداز میں بات کی۔ پاکستان میں انتخابات کو رکوانے یا ملتوی کرنے کی بات بھی نہیں کی اور پھر 10جنوری کے مارچ کا اعلان بھی کر دیا۔

بعض حلقے تجسس میں ہیں کہ علامہ طاہر القادری کا مشن کیا ہے؟ میری ناقص معلومات کے مطابق علامہ صاحب نہ تو سربراہ مملکت یا وزیراعظم بننے کے لئے آئے ہیں اور نہ ہی دہری شہریت کے حامل علامہ صاحب کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اس کی اجازت ہے لہٰذا احباب خاطر جمع رکھیں علامہ صاحب اقتدار اور انتخابی عہدے حاصل کرنے کی دوڑ میں نہیں ہیں بلکہ ان کا نعرہ ہی یہ ہے کہ سیاست نہیں ریاست بچاؤ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں انتخابات سے قبل نظام میں تبدیلی اور ریاست کو لاحق خطرات کا خاتمہ کرنے کا مشن مکمل ہو ہی نہیں سکتا لہٰذا پاکستان کے اہل اقتدار بلکہ اپوزیشن بھی کوئی خطرہ محسوس نہ کرے۔ علامہ صاحب کی پاکستان آمد نے دہشت گردی کی مخالف قوتوں میں بھی گروہی و سیاسی دوریاں کم کی ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائدین کی لاہور کے جلسہ میں موجودگی کا فیصلہ اور عمل اس کی ایک مثال ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے شہر لاہور میں پُرامن اور منظم وکامیاب جلسے کا انعقاد بھی پیش نظر رہے ورنہ مخالفین کے جلسوں کو درہم برہم کرنے کے واقعات بھی تاریخ لاہور کا حصہ ہیں لہٰذا علامہ طاہر القادری نے دہشت گردی کے خلاف اپنے اس ضخیم فتویٰ کے اجرا، اشاعت او وسیع پیمانے پر اس کی مفت تقسیم کے ساتھ ساتھ کینیڈا میں بیٹھ کر گزشتہ ڈیڑھ سال یا اس سے زائد عرصہ میں اس انداز سے پاکستان آنے اور عوامی سطح پر اپنے مشن کی کامیابی کے لئے جو منظّم تیاری کی تھی اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

اس کی ایک مثال نیویارک میں علامہ صاحب کے پہلے اجتماع کی تھی جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت تھی اور تمام مناظر دیکھنے کا موقع ملا۔ تقریباً 450 پاکستانی مرد و خواتین پر مشتمل اس اجتماع میں علامہ صاحب نے اُردو کی بجائے انگریزی میں تقریر کی، اردو سمجھنے والوں کے مجمع سے انگریزی میں خطاب کی وجہ جاننے کے لئے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو ہال میں تقریباً 20 گوری نسل کے خوش لباس افراد اِدھر اُدھر کھڑے، بیٹھتے نظر آئے۔ معلوم ہوا کہ علامہ صاحب کی بحفاظت آمد و رفت کے لئے یہ حضرات ڈیوٹی پر سرکاری اہلکار ہیں۔

علامہ صاحب نے بڑے مدلل انداز میں اپنے فتویٰ کے بارے میں دلیل، حوالے اور تاویل پیش کی۔مغرب کی نماز کا وقفہ ہوا تو نیویارک ریاست کے' کاؤنٹر ٹیررازم' کے سربراہ امریکی اہل کار سے سامنا ہوگیا جو ایک پاکستانی سے محوِ گفتگو تھے لہٰذا مجھ سمیت بعض پاکستانیوں کے لئے یہ بات معمہ تھی کہ آخر پاکستانیوں کے مجمع میں صرف ڈیوٹی پر متعین چند امریکی اہلکاروں کی خاطر علامہ صاحب نے اُردو کی دل نشینی کے بجائے انگریزی میں وعظ فرمانے کی ضرورت کیوں سمجھی؟

تقریب کے بعد علامہ صاحب نے مجھ سمیت چند پاکستانیوں سے ہال کے بالائی حصے میں ملاقات کرکے کرم فرمائی کی تو اُن تمام گورے اہل کاروں کو اپنے آٹو گراف کے ساتھ فتویٰ کی ایک ایک کتاب بھی مفت دی اور پھر اس کے بعد نیویارک اور نیوجرسی میں کئی کئی ہزار پاکستانیوں کے اجتماع منعقد کرنے کے کامیاب تجربات بھی کئے گئے۔ بہرحال جان ایسپوزیٹو خوش اور مطمئن ہیں۔''

ایم عظیم میاں نے اپنے مضمون میں طاہر القادری کے بارے میں جوانکشافات کئے،اس سے زیادہ تہلکہ خیز بات یہ ہے کہ طاہرالقادری کے جہاں آقاامریکی اہلکار ہیں، وہاں اس کے محافظ بھی امریکی سی آئی اے کے ایجنٹ بلیک واٹر کے اہلکار ہیں۔

اب پاکستان آنے کے بعدطاہر القادری جس انداز میں سیاسی کھیل کا ڈرامہ رچارہے ہیں اورریاست بچانے کا جونعرہ بلند کررہے ہیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ طاہر القادری بھی اس کفری جمہوری نظام کو بچانے کے لیے کوشاں ہے، جس نے پاکستان کوامریکہ کا غلام بنارکھاہے اورپاکستانی عوام کومختلف معاشی واقتصادی اورسیاسی وعسکری بحرانوں کے دلدل میں پھنساکررکھا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہرسیاستدان اورجمہوری مذہبی رہنما پاکستان کو حقیقی آزادی دلوانے کے لیے کوشاں رہنے کی بجائے اسے مزید امریکہ کی غلامی میں دھکیلنے اورعوام کو فرضی انقلاب کا جھانسہ دیکر جمہوری نظام کے شکنجے میں دوبارہ جکڑنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

طاہرالقادری کی تمام ترجدوجہدپاکستانیوں میں بیدارہونے والی اسلامی روح کو مارکران میں ذلّت ورسوائی کی ایسی روح پھونکنا ہے کہ عوام کے سامنے حق وباطل مسخ ہوکر رہ جائے اور عوام کو یہ سمجھ ہی نہ آئے کہ کون حقیقی انقلاب لانے والے ہیں اور کون انقلاب کے نام پرانگریزوں کی غلامی کی زنجیروں کو مزید مضبوط اور مستحکم کرنے میں لگا ہوا ہے۔

ہم نے اس مضمون میں طاہرا لقادری صاحب کے چند بنیادی عقائد و افکار کی ذرا سی جھلک پیش کی ہے جوکہ اہل ایمان کو اس کی سنگینی سے آگاہ کرنے لئے کافی ہے۔ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ اس فتنے سے ہوشیار اور خبردار رہیں بلکہ اس فتنے کی سرکوبی کا کوئی سامان مہیا کریں۔یادرکھیں! جو لوگ امریکہ اور انگریزی کا دم بھرتے ہیں، وہ خود غلام ہیں اور غلام خود آزاد نہیں ہوتا تو دوسروں کو وہ کس طرح آزادی اورترقی وخوشحالی دے سکتا ہے...!!


حوالہ جات

http://www.tahirulpadri.com/audio/Tahirul_Padri_ka_bayan_Yahoodi _aur _Isaai_Beleivers_hai_MaazAllah.mp3

http://www.tahirulpadri.com/audio/TAHIRUL_PADRI_promoting_

Shirk_Shaykhul_Shaitan_Exposed.mp3

روزنامہ خبریں،3جنوری2006ء

روزنامہ انصاف،3جنوری2006ء

صحیح مسلم:۲۱۸

مستدرک الحاکم:۳۲۶۷ ... هٰذا حدیث صحیح علىٰ شرط الشیخین ولم یخرجاه

روزنامہ خبریں،3جنوری2006ء

روزنامہ انصاف،3جنوری2006ء

روزنامہ ایکسپریس،3جنوری2006ء

روزنامہ جناح،3جنوری2006ء

http://www.minhaj.com.pk/ur/261

سنن ابو داود:۲۸۸۱

دیکھئے امام ابن تیمیہ  کی کتاب 'اقتضاء الصراط المستقیم': ص1؍83،132،199

روزنامہ ایکسپریس،3جنوری2006ء

روزنامہ جناح،3جنوری2006ء

سورۃ التوبۃ:۲۸

مسند احمد:۱۴۱۲۲

مسند احمد :۱۴۶۸۶

تفسیر ابن کثیر: ۴؍۱۳۱

http://www.tahirulpadri.com/audio/Padri_Taqreer_Sunni_Shia_ Bhai_Bhai_MaazAllah.mp3

شرح العقیدۃ الواسطیہ:۱؍۲۵۳

السیر للذہبی فی ترجمتہ

شرح مختصر الخلیل

السنۃ للخلال:۳؍۴۹۲واسنادہ؛صحیح... السنۃ لعبد اللہ بن احمد:۲؍۵۴۸

رواہ الطبرانی واسنادہ حسن بحوالہ مجمع الزوائد:۱۰؍۲۲؛ السنۃ لابن ابی عاصم:۲؍۴۷۶

مسند ابی یعلیٰ ۱۳،۴۹۱،رقم:۶۶۰۵،رواہ الطبرانی ورجالہ ثقات بحوالہ مجمع الزوائد:۱۰؍۲۲

السنن الواردة فی الفتن:۳؍۶۱۶،رقم الحدیث:۲۷۹؛ الفردوس بماثور الخطاب:۵؍۳۱۶

السنۃ از خلال:۳؍۴۹۸

http://youtu.be/T30kO8PVsKM

http://youtu.be/hMiM6OEoni0

http://youtu.be/ZVRMTSVA1tM

المبسوط از سرخسی : 10؍۳۲

شرح السیر الکبیر:۲؍۱۸۵

فتاویٰ ابن عابدین شامی: 4؍۱۷۵

بدائع الصنائع : 7؍۱۳۰

بدائع الصنائع: 7؍۱۳۱

فتاویٰ شامی :4؍۱۷۴

فتاوی عالمگیری بحوالہ تالیفاتِ رشیدیہ بعنوان 'فیصلۃ الاعلام فی دار الحرب و دارالاسلام':ص۶۶۷

المبسوط از سرخسی:۱۲؍۲۵۸؛ بدائع الصنائع: 7؍۱۹۴

الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول: ۱؍۱۲

الصارم المسلول علی شاتم الرسول: ۱؍۱۳۵

ایضاً

ایضاً

صحیح بخاری :ج۱۰؍ص۲۳۱،رقم :۲۸۰۶

الصارم المسلول علی شاتم الرسول : ۱؍۶۴

http://www.youtube.com/watch?v=0uyyKGi5su8, https://www.facebook.com/ahwaal/posts/494282193948078

http://www.youtube.com/watch?v=0uyyKGi5su8