قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنے کی شرعی حیثیت اور حدود
تغنّی بالقرآن کا مطلب ؟ ترجیع کا مفہوم ، خوش الحانی کی حکمت
صحابہ کا عمل، تلاوت میں سوز ورقت، طرزوں سے تلاوتِ قرآن
موجودہ دور میڈیا اور تہذیب وثقافت کا دور ہے جس میں خوبصورت آواز کا جادو جگانے والے اس خدائی دَین کو لہو ولعب میں استعمال کرنے پر ہی تلے ہوئے ہیں۔ لچر گانوں اورموسیقی کو روح کی غذا اور بے حیائی کو فن کی معراج سمجھ لیا گیا ہے ۔ طرفہ تماشا ہے کہ یہ موسیقی گانوں سے نکل کر نعتوں اور حمد باری تعالیٰ تک بھی آپہنچی ہے !
ا للہ کی آخری کتاب 'قرآنِ کریم 'میں لفظی ومعنوی حسن بھی بلا درجے کا ہے ۔جب ایک قاریٴ قرآن دل کی گہرائی سے سوز واندازسے تلاوتِ قرآن کرتا ہے تو پاکباز روح اس سے مسرور ہوجاتی ہے۔خوبصورت آواز میں کی گئی تلاوت دل میں اُترتی جاتی ہے، قرآن کی زبانی ﴿وَإِذا سَمِعوا ما أُنزِلَ إِلَى الرَّسولِ تَرىٰ أَعيُنَهُم تَفيضُ مِنَ الدَّمعِ مِمّا عَرَفوا مِنَ الحَقِّ...٨٣ ﴾... سورة المائدة" خلوصِ دل سے اس تلاوت کو سننے والوں کی آنکھیں نم ناک ہو جاتی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ آواز سے متاثر ہونے کے فطری تقاضے کو 'مارنے' کی بجائے تلاوتِ قرآنِ مجید میں مسلمانوں کا دل لگایا جائے۔ اگر وہ اس تلاوت کے ساتھ ان الفاظ کا مفہوم بھی بلا واسطہ سمجھ سکیں تو پھر یہ اثر آفرینی دو چند ہو جائے۔ بعض محتاط علما لہو و لعب سے ممتاز رکھنے کے لیے تلاوت میں ترنم کو ناپسند کرتے ہیں۔ جب کہ دوسرے علما خوش الحانی اور ترنم کو جائز حد تک استعمال کرنے کی نہ صرف اجازت بلکہ اسے شرعی ضرورت قرار دیتے ہیں۔یہ بحث دونوں طرف کے علما کی کتب میں بالتفصیل بکھری ہوئی ہے۔
جامعہ لاہور الاسلامیہ کے کلیة القرآن والعلوم الاسلامیةکے پرنسپل قاری محمد ابراہیم میرمحمدی نے اس موضوع کے علمی مطالعے کے لیے حال ہی میں شائع ہونے والی ایک عربی کتاب کے چند مباحث ترجمے کے لیے ہمیں دیے، جس میں اس ساری بحث کو خوبصورتی سے سمیٹا گیا ہے۔ محترم قاری صاحب کے زیر نگرانی مجلس التحقیق الاسلامی میں اسے ترجمہ کروا کر شا ئع کیا جا رہا ہے ۔ادارئہ محدث نے اس میں تسہیل کی غرض سے عنوان بندی، احادیث کی ترقیم اور بحث کو نکات وار بھی کر دیا ہے۔ اُمید ہے کہ قارئین اس کاوش کو پسند فرمائیں گے۔ (حسن مدنی)
قرآنِ کریم کو خوش الحانی سے پڑھنا نبی کریم ﷺکی سنت ہے
قرآنِ کریم کو خوش الحانی اور خوبصورت آواز سے پڑھنا سید القراء حضرت محمدمصطفی ﷺ کی سنت ہے۔ درج ذیل احادیث اس پر واضح دلیل ہیں :
(1) صحیحین میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«ما أَذِنَ الله لشيء ما أَذِنَ لنبي حسن الصوت يتغنی بالقرآن يجهر به»
" اللہ تعالیٰ اتنا متوجہ ہو کر کسی چیز کو نہیں سنتا، جتنا قرآن کو متوجہ ہوکر سنتا ہے، جب پیغمبر ﷺ اس کو اونچی آواز سے خوش آوازی اور خوش الحانی سے پڑھتے ہیں۔" (بخاری ۷۵۴۴، مسلم۱۸۴۴)
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پیغمبر ﷺ جب قرآنِ کریم کو ترنم اور خوش الحانی سے پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قدر توجہ سے سنتے ہیں کہ کسی اور کی آواز کو اس قدر توجہ سے نہیں سنتے۔ اللہ تعالیٰ پیغمبر وں کی تلاوت کو اس لئے بھی زیادہ توجہ سے سنتا ہے کیونکہ پیغمبروں کی شخصیت ہر لحاظ سے مکمل ہوتی ہے اور ان کی قراء ت خشیت ِالٰہی، سوز اور خوبصورت آواز کا ایک حسین مرقع ہوتی ہے اور تلاوتِ قرآن کا مقصد ِحقیقی بھی یہی ہے اور اسی میں انسان کی سعادت ہے کہ اللہ اس کی آواز کو توجہ سے سن لے۔یوں تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نیک وبد اپنے سب بندوں کی آواز کو سنتا ہے جیسا کہ امّ المومنین عائشہ صدیقہ نے فرمایا :
«تبارك الذي أوعٰی سمعه کل شيء» " برکت والی ہے وہ ذات کہ کوئی چیز بھی اس کے دائرئہ سماعت سے باہر نہیں ہے۔" (تفسیر ابن کثیر: ۸/۶۰)
لیکن اپنے موٴمن بندوں کی آواز کو وہ زیادہ توجہ سے سنتا ہے۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَما تَكونُ فى شَأنٍ وَما تَتلوا مِنهُ مِن قُرءانٍ وَلا تَعمَلونَ مِن عَمَلٍ إِلّا كُنّا عَلَيكُم شُهودًا إِذ تُفيضونَ فيهِ...٦١ ﴾... سورة يونس
"(اے نبی!) تم جس حال میں بھی ہوتے ہو اور قرآن میں سے جو کچھ بھی سناتے ہو اور (اے لوگو!) جو کام بھی تم کر رہے ہوتے ہو، ہم ہر وقت تمہارے سامنے موجود ہوتے ہیں، جبکہ تم اس میں مشغول ہوتے ہو۔"
اَذَنُ کا مطلب کیا ہے؟ یہاں حدیث میں جو لفظ 'اَذَن' استعمال ہوا ہے، اس سے مراد کسی بات کو کان لگا کر نہایت توجہ اور غور سے سننا ہے۔ اسی سے اللہ کا یہ فرمان ہے :
﴿إِذَا السَّماءُ انشَقَّت ١ وَأَذِنَت لِرَبِّها وَحُقَّت ٢ ﴾... سورة الانشقاق
"جب آسمان پھٹ جائے گا اور وہ اپنے ربّ کے حکم پر کاربند ہونے کے لئے کان لگائے ہوئے ہو گا اور یہی اس کو لائق ہے۔" یعنی وہ اپنے ربّ کا حکم کان لگا کر سنے گا اور اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے ربّ کا حکم توجہ سے سنے اور اسے مان لے۔
اَذَنکی تفسیر 'استماع'( نہایت توجہ سے سننا) ہے جیسا کہ فضالہ بن عبید کی روایت بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
«اللّه أشد أذَنا إلی الرجل الحسن الصوت بالقرآن يجهر به من صاحب القينة إلی قينته»(ابن ماجہ،حدیث :۱۳۴۰)
"بے شک اللہ جل جلالہ خوش آواز شخص کا قرآن اس قدر توجہ اور انہماک سے سنتا ہے کہ ایک گانا سننے والا شخص، گانے والی گلوکارہ کا گانا بھی اتنی توجہ سے نہیں سنتا ہوگا۔"
(2) نبی ﷺ قرآنِ مجید نہایت خوش الحانی، خوش آوازی اور ترنم سے پڑھتے تھے۔ قرآن پڑھنے میں کوئی شخص بھی آپ ﷺ سے زیادہ خوش آواز نہیں تھا۔ چنانچہ صحیحین میں جبیر بن مطعم سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ
"میں نے رسول اللہ ﷺ کو نمازِمغرب میں سورة الطور کی تلاوت کرتے سنا۔ میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت آواز اور قراء ت کسی کی نہیں سنی۔"
ایک روایت میں ہے کہ" پڑھتے پڑھتے جب آپ اس آیت پرپہنچے : ﴿أَم خُلِقوا مِن غَيرِ شَىءٍ أَم هُمُ الخـٰلِقونَ ٣٥ ﴾... سورة الطور" (وہ کسی اور چیز سے پیدا کئے گئے ہیں یا وہ خود پیدا کرنے والے ہیں) تو مجھے یوں لگا جیسے میرا دل شدتِ تاثیر سے پھٹ جائے گا۔"(بخاری ۴۸۵۴، مسلم ۱۰۳۳)
جبیر اسوقت ابھی مشرک تھا، پھر وہ کیوں آپ کی قراء ت سے اس قدرمتاثر ہوا؟ صرف آپ کی خوش آوازی اور خوش الحانی سے اور ان عظیم معانی سے جو جبیر نے عربی زبان میں اپنی مہارت سے سمجھے تھے ۔
(3) براء بن عازب سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ
"میں نے رسول اللہ ﷺ کو عشاء کی نماز میں سورة التین کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ یقین سے کہتا ہوں کہ میں نے آپ سے زیادہ خوش آواز کبھی نہیں سنا"۔ (بخاری:۷۶۹)
(4) صحیحین میں ابوہریرة سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«ليس منا من لم يتغن بالقرآن» (بخاری :کتاب التوحید۷۵۲۷)
"وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کو خوش آوازی سے نہ پڑھے۔"
حدیث 'تغنی بالقرآن' کی تفسیر میں علما کا اختلاف
تَغَنَّ سے کیا مرادہے : اس بارے میں علما کے دو اقوال ہیں :
پہلا قول(بے نیازی):سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ" اس سے مراد یہ ہے کہ اسی کو لازوال دولت سمجھے۔"امام وکیع فرماتے ہیں کہ "اس سے مراد یہ ہے کہ وہ قرآن کو دیکھ کر ماضی کے واقعات سے بے نیاز ہوجائے" (رواہ البخاری تعلیقاً: ۶/۱۰۸)۔ابن راہویہ نے بھی ابن عیینہ سے یہی مفہوم نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے مراد وہ استغناء نہیں جو فقر کی ضد ہے۔" (فتح الباری: ۹/۶۸)... امام بخاری نے بھی صحیح بخاری میں یہی موقف اختیار کیا ہے، انہوں نے من لم یتغن بالقرآن کے نام سے باب قائم کیا ہے، اور اس کے نیچے قرآن کی یہ آیت ذکر کی ہے
﴿أَوَلَم يَكفِهِم أَنّا أَنزَلنا عَلَيكَ الكِتـٰبَ يُتلىٰ عَلَيهِم...٥١ ﴾... سورة العنكبوت
"کیا انہیں کافی نہیں کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے جوانہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔"
یحییٰ بن جعدہ نے اس آیت کا جوسبب ِنزول ذکر کیا ہے، اس سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ
"چندمسلمان کچھ تحریریں لے کر نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، جن میں انہوں نے بعض ایسی باتیں نقل کی تھیں جو انہوں نے یہود سے سنی تھیں۔ نبی ﷺ نے وہ تحریریں دیکھ کر فرمایا کہ کسی قوم کی حماقت اور گمراہی کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنے رسول کی تعلیمات سے اِعراض کرکے دوسروں کی باتوں کی طرف متوجہ ہو جائے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔"
اس مرسل روایت کے کئی اور شواہد بھی ہیں۔دیکھئے طبری (۲۱/۷)، الدر المنثور (۵/۱۴۸) ، مراسیل ابی داود (ص ۳۲۰) ، فتح القدیر (۴/۲۰۹)
اور اس تفسیر کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو عبد اللہ بن ابی ملیکہ تیمی نے عبد اللہ بن ابی نہیک سے نقل کی ہے ، و ہ فرماتے ہیں کہ میں بازار جارہا تھا کہ میری ملاقات سعد بن ابی وقاص سے ہوئی تو انہوں نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا:آپ دنیا کمانے والے تاجرہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا «ليس منا من لم يتغن بالقرآن» (وہ شخص ہم میں سے نہیں جو قرآن کو دیکھ کر دنیا کے مال ودولت سے بے نیاز نہیں ہوجاتا)
ابو عبید قاسم بن سلاّم ہروی نے بھی اسی تفسیر کو پسند کیا ہے اور بطورِ دلیل کلامِ عرب سے استشہاد کرتے ہوئے حاتم اعشی کا یہ شعر پیش کیا ہے
وکنت امرءً ا زمنا بالعراق خفيف المناخ طويل التغني
"میں ایسا آدمی تھا جس نے عراق میں ایک عرصہ انتہائی مختصر سامان مگر کامل غنا (بے نیازی) کے ساتھ بسر کیا۔ (دیوا ن الاعشیٰ :ص ۷۵)
اسی طرح مغیرہ بن حبناء کا شعر ہے
کلانا غني عن أخيه حياته ونحن إذا متنا أشد تغانيا
"ہم دونوں بھائی زندگی میں بھی ایک دوسرے سے بے نیاز ہیں اور جب ہم دارِآخرت کو سدھار جائیں تو یہ بے نیازی اور بڑھ جائے گی۔" (الشعر والشعراء: ۱/۴۰۶)
ابوعبید قاسم بن سلام فرماتے ہیں کہ کلامِ عرب کی رو سے اس حدیث کا معنی یوں ہوگا کہ جو شخص قرآن کو دیکھ کردنیا کی جاہ وحشمت سے بے نیاز نہیں ہوجاتا، وہ ہم میں سے نہیں ہے، یعنی ہمارے طریقہ پر نہیں ہے۔ وہ ابن مسعود کے اس قول سے بھی دلیل لیتے ہیں: «من قرأ سورة آل عمران فهو غني»
"جس نے سورئہ آلِ عمران کی تلاوت کی، گویا وہ ہرچیز سے بے نیاز ہوگیا۔"
('فضائل القرآن' از ابو عبید: ق ۴۹، جرمنی نسخہ)
میرے خیال میں ابن مسعود کا یہ قول نبی ﷺ کے اس فرمان سے ماخوذ ہے جو آپ نے اہل صفہ کے لئے ارشاد فرمایا تھا۔ عقبہ بن عامر اس فرمان کے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" (اے اہل صفہ!) تم میں سے کون یہ چاہتا ہے کہ روزانہ صبح کے وقت مدینہ کے بازار بطحان یا عقیق جائے اور کسی گناہ اور قطع رحمی کا ارتکاب کئے بغیر وہاں سے بڑے بڑے کوہان والی دو اونٹنیاں لائے۔ ہم نے کہا یارسول اللہ ﷺ! ہم تو سب یہ چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا :پھر تم کیوں مسجد کی طرف نہیں جاتے۔ وہاں جاکر کسی کو قرآن کی دو آیات کی تعلیم دینا یا تلاوت کرنا، دو اونٹنیوں سے بہتر ہے اور تین یا چار آیات کی تعلیم یا تلاوت تین یا چار اونٹنیوں سے بہتر ہے۔ علیٰ ہذا القیاس جتنی آیات ہوں گی، وہ اتنی ہی اونٹنیوں سے بہتر ہوں گی۔ " (مسلم: ۱۸۷۰)
دوسرا قول:ان علما کا ہے جن کے نزدیک یتغنی کا معنی قرآن کو خوش الحانی او رخوبصورت آواز سے پڑھنا ہے۔
ان کے دلائل اور پہلے قول کا ردّ: یہاں
کلام عرب میں لفظ ِتغنی بے نیازی کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اس سے حدیث «من لم یتغنی بالقرآن...» میں بھی یہی مفہوم میں استعمال ہونا تو لازم نہیں آتا۔ چنانچہ حرملہ بن یحییٰ اس بارے میں وضاحت فرماتے ہیں
"میں نے ابن عیینہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ یتغنی کا معنی قرآن کو لازوال دولت سمجھتے ہوئے دنیا داروں سے بے نیاز اور بے پرواہ ہونا ہے۔" جس پر امام شافعی نے فرمایا: "یہ مفہوم صحیح نہیں ہے۔ اگر ایسے ہوتا تو آپ ﷺ یتغنی کی بجائے یتغانی کا لفظ استعمال کرتے۔" لہٰذا اس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ قرآن کو اس طرح خوش الحانی ، ترنم، سوز اور درد کے ساتھ پڑھے کہ پڑھنے اور سننے والے پر خشیت ِالٰہی کی کیفیت طاری ہوجائے۔" (فضائل القرآن از ابن کثیر :ص۳۳)
حرملہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن وہب سے سنا ،انہوں نے فرمایا کہ یتغنی سے مراد قرآن کو خوش آوازی اور ترنم سے پڑھنا ہے ۔ یہی مفہوم امام مزنی اور ربیع نے امام شافعی سے نقل کیا ہے۔
ابن ابی حاتم نے اپنی سند کے ساتھ ربیع بن سلیمان سے روایت کیا ہے کہ امام شافعی نے «لیس منا من لم یتغن بالقرآن» کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اس کا مطلب قرآن کو (قواعد ِتجوید کا لحاظ رکھتے ہوئے) نہایت سوز اور دردِ دل کے ساتھ ترنم سے پڑھنا ہے۔ (مناقب الشافعی:ص۱۵۷)
امام طبری بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی کو جب معلوم ہوا کہ ابن عیینہ لفظ تغنی کی تفسیر 'استغناء ' کے ساتھ کرتے ہیں تو انہوں نے ان کا ردّ کرتے ہوئے فرمایا :
"اگر اس سے آپ کی مراد استغناء ہوتی تو آپ لم یتغن کی بجائے لم یستغن ارشاد فرماتے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سے آپ کی مراد قرآن کو خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنا ہی ہے"۔ (فتح الباری: ۹/۷۱)
ابومجاہد (صاحب ِمضمون) فرماتے ہیں کہ "حدیث کا سیاق و سباق ابن عیینہ کی تفسیر کو قبول نہیں کرتا،کیونکہ یہ حدیث قراء ت کے ذیل میں واقع ہوئی ہے اور اس میں نبی ﷺ کو حسن آواز کی خوبی سے متصف کیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت آواز کی و جہ سے آپ کی قراء ت کو نہایت توجہ اور انہماک سے سنتے ہیں۔ یہ الفاظ اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ یتغنی یہاں خوش آوازی کے معنی میں ہی ہے اور ابن عیینہ کی تفسیر(بمعنی استغناء) خلافِ واقعہ ہے۔ پھریہ حدیث آواز کو خوبصورت بنانے کی کوشش پر اُبھارتی ہے،گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو شخص تلاوتِ کلام پاک کا پابندی سے التزام کرکے اپنی آواز میں خوش الحانی پیدا نہیں کرتا، ایسا شخص ہمارے طریقہ سے انحراف کی راہ اختیار کر رہا ہے۔ پھرحدیث سے استغناء مراد لینا، دراصل لوگوں کو 'تکلیف مالا یطاق' سے دوچار کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ ہر شخص محض تلاوتِ کلام پاک کے التزام سے دنیاداروں سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ (وضاحت کے لئے دیکھیں فتح الباری: ۹/۷۰)
دونوں اقوال میں موافقت: یہ اعتراض اس صورت میں وارد ہوگا جب ابن عیینہ کا یتغنی سے مقصود وہ استغناء ہو جو فقر کا متضاد ہے جیسا کہ ابوعبید نے نقل کیا ہے، لیکن اگر یتغنی سے ابن عیینہ کی مراد استغناءِ معنوی ہو، یعنی سابقہ روایات اور کتب سے استغناء جیسا کہ ابن راہویہ نے کہاہے تو دونوں اقوال میں مطابقت پیدا کرنے کے لئے یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ استغناءِ معنوی کی صورت میں بھی 'تغنی' سے مراد ترنم ہی ہوگا۔ کیونکہ قرآن کو خوش الحانی اور ترنم کے ساتھ پڑھنے سے ہی انسان شیطانی غنا (گانوں)سے بے نیاز ہو کر قرآنی غنا میں مشغول ہوسکتا ہے۔
مزید وہ چند وجوہات ملاحظہ فرمائیے جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ امام شافعی کا نقطہ نظر ہی راجح ہے یعنی تغنی سے مراد قرآن کو سوز اور خوش الحانی سے ہی پڑھنا ہے :
(ا) یہی معنی سیاق حدیث کے مناسب اور ہم آہنگ ہے، جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا۔
(ب) کئی دیگر احادیث اسی مفہوم کو متعین کرتی ہیں۔مثال کے طور پر عبدالاعلیٰ کی روایت معمر سے اور وہ ابن شہاب سے بیان کرتے ہیں کہ
«ما أذن الله لشيء ما أذن لنبي في الترنم بالقرآن» (طبری بحوالہ فتح الباری: ۹/۷۱)
"اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اتنا متوجہ ہوکر نہیں سنتا جتنا کہ قرآن کوسنتا ہے جب پیغمبر ﷺ اسے خوش الحانی اور ترنم سے پڑھتے ہیں۔"
اسی طرح مصنف عبدالرزاق میں معمر سے روایت ہے: «ما أذن لنبي حسن الصوت في الترنم بالقرآن» (۲/۴۸۲)
نیز صحیح مسلم میں محمد بن ابراہیم التمیمی ابو سلمہ سے روایت کرتے ہیں کہ
«ماأذن لنبي حسن الصوت يتغنی بالقرآن يجهربه» (مسلم: ۱۸۴۴)
ابن ابی داود اور طحاوی کی روایت میں الفاظ یوں ہیں:
«ما أذن لنبي حسن الترنم بالقرآن» (فتح الباری: ۹/۷۱)
(ج) تیسری وجہ امام شافعی کے قول کے راجح ہونے کی یہ ہے کہ فضالہ بن عبید کی حدیث میں یہ صراحت ہے کہ جو شخص خوبصورت آواز اور خوش الحانی سے قرآن کی تلاوت کرتاہے، اللہ اس کی آواز کو نہایت توجہ سے سنتا ہے اور اس حدیث کے الفاظ میں نہ کسی دوسرے معنی کا احتمال ہے اور نہ ہی تاویل کی گنجائش ہے۔ تو معلوم ہوا کہ صحیح بخاری کی سابقہ حدیث تو بالاولیٰ اسی مفہوم کی مقتضی ہوگی کیونکہ جب اللہ تعالیٰ ایک عام آدمی کی آواز کو توجہ سے سنتا ہے تو رسول اللہ ﷺ کی آواز کو کیوں نہ توجہ سے سنے گا !!
(د) نبی ﷺ سے منقول احادیث واضح الفاظ میں اس بات کی ترغیب دیتی ہیں کہ قرآن کوخوبصورت آواز اور خوش الحانی سے پڑھا جائے۔چنانچہ براء بن عازب کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: «زينوا القرآن بأصواتکم» "قرآن کریم کو اپنی آوازوں سے زینت بخشو۔"
(ابوداود :۲/۷۴، نسائی ۲/۱۷۹، ابن ماجہ ۱/۴۲۶، مستدرک حاکم : ۱/۵۷۵)
ایک دوسری روایت میں ہے:« فإن الصوت الحسن يزيد القرآن حسنًا»1
"خوبصورت آواز یقینا قرآن کے حسن کودوبالا کردیتی ہے۔" ('تذکار ' از قرطبی : ص ۱۱۴)
اسی طرح عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"قرآن کو سیکھو، خوش الحانی سے اس کی قراء ت کرو اور اس کو لکھو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، جس طرح اونٹ کا بچہ رسی سے چھوٹ جائے تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے، اسی طرح اگر قرآن کو چھوڑ دیا جائے تو یہ اس سے بھی زیادہ تیزی سے انسان سے جدا ہوجاتا ہے۔" (مصنف ابن ابی شیبہ، 'تذکار' ازقرطبی: ص۱۱۹)
حضرت سائب کہتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص نے مجھ سے کہا : اے بھتیجے!کیا تو نے قرآن پڑھا ہے؟ میں نے جواب دیا: ہاں! میں نے قرآن پڑھا ہے تو فرمایا:
" قرآن کو خوش الحانی سے پڑھا کرو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :
قرآن کو خوش الحانی اور غنا سے پڑھو،جو شخص قرآن کو ترنم اور خوش آوازی سے نہیں پڑھتا وہ ہمارے رستے پر نہیں ہے اور قرآن کو پڑھتے ہوئے رویا کرو، اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔" (ابوداود۲/۷۴، ابن ماجہ ۱/۴۲۴، شعب الایمان للبیہقی ۵/۱۵،مستدرک حاکم۱/۵۶۹)
اسی طرح ابن ابی ملیکہ ،عبیداللہ بن ابی یزید سے روایت کرتے ہیں کہ ایک روز ابولبابہ کا ہمارے پاس سے گزر ہوا ،ہم بھی ان کے ساتھ چل پڑے ۔ آخر ان کا گھر آگیا اور ہم ان کے ساتھ گھر میں داخل ہوگئے۔ دیکھا کہ ایک شکستہ حال آدمی بیٹھا کہہ رہا ہے کہ "میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سناکہ جو شخص قرآن کو خوش الحانی اور ترنم سے نہیں پڑھتا ،وہ ہمارے راستہ پر نہیں ہے۔" راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے پوچھا :اے ابو محمد! اگر کوئی آدمی خوش آواز نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ فرمایا: "جہاں تک ہوسکے، خوش آواز ی سے پڑھنے کی کوشش کرے۔" یہاں خود راوی نے لفظ یتغنی کی وضاحت کردی کہ اس سے مراد قرآن کو خوبصورت آواز سے پڑھنا ہے۔ (ابوداود:۲/۷۴)
کتب احادیث میں ایسی متعدد روایات ہیں جن میں نبیﷺ نے ان صحابہ کی تعریف کی اور انہیں ان کی حالت پر برقرار رکھا جنہیں اللہ نے خوبصورت آواز سے نوازا تھا اور وہ قرآن کو ترنم او رخوش الحانی سے پڑھتے تھے۔ان عام روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پیش نظر حدیث میں یتغنی سے مراد قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنا ہی ہے۔
قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنا صحابہ کا بھی عمل تھا
(5) ان صحابہ میں سے ایک عبداللہ بن مسعو د بھی تھے جوقرآن کو بڑی خوش آوازی سے پڑھتے تھے۔ نبی نے ان سے کہا :عبداللہ! مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ تو انہوں نے کہا :اے اللہ کے رسول !بھلامیں آپ کو قرآن سناؤں ،آپ پر تو قرآن نازل ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں یہ چاہتا ہوں کہ کسی دوسرے سے قرآن سنوں، تو ابن مسعود نے سورة النساء پڑھنا شروع کی۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے ﴿ فَكَيفَ إِذا جِئنا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهيدٍ وَجِئنا بِكَ عَلىٰ هـٰؤُلاءِ شَهيدًا ٤١ ﴾... سورة النساء "کیا حال ہوگا جب ہم ہر اُمت سے ایک گواہ لائیں گے، پھر ان پر (اے نبی) آپ کو گواہ بنائیں گے۔"تو آپ نے فرمایا: بس کرو ابن مسعود! ... ابن مسعود کہتے ہیں :میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے۔ (بخاری ۵۰۴۹،مسلم :۱۸۶۴)
اورایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : جو شخص یہ پسند کرے کہ وہ قرآن کو اس شکل میں پڑھے جس شکل میں نازل ہوا تھا تو اسے چاہئے کہ اُم عبد کے بیٹے (عبد اللہ بن مسعود) کی قراء ت کے مطابق پڑھے۔ (ابن ماجہ فی المقدمہ:۱/۴۹، مسنداحمدتحقیق احمد شاکر:۱/۲۶۵)
'ابن اُمّ عبد' عبداللہ بن مسعود کا لقب تھا۔ وہ ایک خوش الحان اور ماہر قاریٴ قرآن تھے ۔ان کی تلاوت میں وہ سوز اور اثر تھا کہ رسول اللہ ﷺ اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔
(6) رسول اللہ ﷺ نے ابو موسیٰ اشعری(عبداللہ بن قیس)کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: اے ابوموسیٰ، اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے لحن داودی سے نوازا ہے۔ (فتح الباری: ۹/۹۲)
(7) صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے ابوموسیٰ اشعری سے فرمایا:
«لو رأيتني وأنا أستمع لقراء تك البارحة لقد أوتيت مزمارا من مزامير آل داود»
"کاش تم دیکھتے جب میں کل رات تمہاری قراء ت سن رہا تھا۔بے شک تمہیں لحن آلِ داود سے نوازا گیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ ابوموسیٰ نے نبی ﷺ سے کہا: «أما والله لو علمت أنك تسمع قراء تي لحبرتها لك تحبيرا» "اللہ کی قسم! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ میری قرا ت سن رہے ہیں تو میں اپنی قرا ت کو آپ کیلئے مزید خوبصورت بناتا۔" (فضائل القرآن از ابن کثیر: ص ۳۵)
٭ ابویعلی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی بیوی عائشہ کے ساتھ ابوموسیٰ اشعریکے گھر کے پاس سے گزر رہے تھے تو انہیں ابوموسیٰ کی آواز سنائی دی جو اپنے گھر میں قرآن کی تلاوت کررہے تھے۔ رسول اللہﷺ اور حضرت عائشہ ،ابوموسیٰ کی قراء ت سننے کے لئے کھڑے ہوگئے۔ صبح جب ابوموسیٰ نبی کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا:
«يا أبا موسیٰ مررت بك البارحة لو رأيتني وأنا استمع لقراء تك، لقد أوتيت مزمارا من مزامير آل داود ، فقال أبو موسٰی: أما إني لو علمت بمکانك لحبرته لك تحبيرا» (مسندابویعلی:۱۳/۲۶۶، شرح السنہ للبغوی : ۴/۴۹۲)
"اے ابوموسیٰ کل میں تیرے گھر کے پاس سے گزرا تھا۔ کاش تم دیکھتے جب میں تمہاری قرأت سن رہا تھا۔ بلاشبہ تجھے آلِ داود کی آوازوں میں سے ایک آواز دی گئی ہے۔ ابوموسیٰ نے کہا:
اگر مجھے آپ کی موجودگی کا علم ہوتا تو میں آپ کے لئے اور زیادہ خوش الحانی سے قران پڑھتا۔"
٭ حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک رات ابوموسیٰ کھڑے نما زپڑھ رہے تھے۔ آواز نہایت شیریں تھی۔ ازواجِ مطہرات نے ان کی آواز کو سنا تو اُٹھ کر بیٹھ گئیں اور ان کی قراء ت سننے لگیں۔ صبح کے وقت جب ابوموسیٰ کو یہ خبر ملی تو فرمایا: اگر مجھے یہ پتہ ہوتا تو میں اور زیادہ خوش آوازی سے پڑھتا۔ (طبقات ابن سعد :۴/۱۰۸)ابن حجر نے کہا : کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر پوری اترتی ہے ۔(فتح الباری : ۹/۹۳)
٭ ایک روایت میں ہے کہ ابو موسیٰ نے کہا : اگر مجھے علم ہوتا تو میں قرآن کو اور زیادہ مزین اور آراستہ کرکے پڑھتا۔ اسے ابو عبید نے فضائل قرآن میں روایت کیا ہے۔ (ق۱۶/طبع جرمنی) (دیکھئے: التذکار از امام قرطبی :۱۱۷)
حدیث میں جو مزامیر کا لفظ استعمال ہوا ہے، یہ مزمار کی جمع ہے جس کا معنی 'بانسری' ہے ۔یہاں ابوموسیٰ کی خوبصورت ، شیریں اور سریلی آواز کو بانسری سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (النہایہ ازابن اثیر:۲/۳۱۲) اور آلِ داود سے مراد خود حضرت داود علیہ السلام مراد ہیں اور لفظ 'آل' زائد ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری کو شیریں آواز اور ادائیگی الفاظ میں حسن اور ترنم میں جمال کا وافر حصہ عطا فرمایاتھا،اس لئینبی نے ان کی اس حالت کو داؤد کی حالت سے تشبیہ دی کیونکہ داؤد علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے غضب کی آواز عطا فرمائی تھی۔
٭جہاں تک ابو موسی ٰ اشعری کی آواز کی خوبصورتی کی بات ہے ، تو اس کا اندازہ ابن ابی داؤد کی اس روایت سے کیا جاسکتا ہے کہ ابی عثمان نہدی نے فرمایا کہ میں ایک روز ابوموسیٰ کے گھر آیا (وہ تلاوت کر رہے تھے) ان کی آواز میں ایسا حسن اورسوز تھا کہ میں نے ان کی آواز سے زیادہ خوبصورت آواز کبھی طبلہ، سارنگی اور بانسری کی بھی نہیں سنی۔(فضائل القرآن از ابن کثیر: ص۳۵ و طبقات ابن سعد: ۴/۱۰۸)
ابوعبید نے اس روایت کو یوں بیان کیا ہے کہ ابوموسیٰ ہمیں نماز پڑھا رہے تھے ۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان کی آواز کے سامنے طبلہ، سارنگی اور بانسری کی آواز بھی ہیچ تھی تو اس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ ابوعبید نے اس روایت کو فضائل القرآن کے ضمن میں بیان کیا ہے۔ (ق۱۷/نسخہ جرمنی)
حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔(فتح الباری ۹ / ۹۳ و الحلیة از ابو نعیم:۱/۲۰۸)
ابو موسیٰ کی خوش الحانی کا یہ عالم تھا کہ حضرت عمر جب انہیں دیکھتے تو کہتے :
"اے ابو موسیٰ !ہمیں اپنے ربّ کی یاد دلایئے تو ابو موسیٰ ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کرتے۔" (فضائل القرآن از ابن کثیر : ص۳۵)
(8) نبی ﷺنے ابو حذیفہ کے غلام سالم کی تعریف فرمائی جو قرآن کے بہترین قاری تھے ۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ
" ایک بار نمازِ عشا کے بعد مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ جب میں آئی تو آپ نے فرمایا:عائشہ ! کہاں تھی؟ میں نے کہا: یارسول اللہﷺ میں آپ کے ایک صحابی کی قراء ت سن رہی تھی۔ میں نے آج تک ایسی پرکیف قراء ت اور پرسوز آواز کسی کی نہیں سنی۔ یہ سن کر آپ بھی اُٹھے اور نہایت توجہ سے سننے لگے۔میں بھی ساتھ کھڑی ہو گئی۔چند لمحے بعد آپ ﷺ نے فرمایا:یہ ابوحذیفہ کے غلام سالم ہیں۔ اس اللہ کاشکر ہے جس نے اس جیسے لوگ میری امت میں پیدا فرمائے۔ "(ابن ماجہ:۱/۴۲۵، فضائل القرآن از ابن کثیر: ص ۳۵)
( ھ ) پانچویں دلیل جس سے امام شافعی کے قول کی ترجیح ثابت ہوتی ہے، یہ ہے کہ خود نبی کا عمل قرآن کوخوش الحانی اور ترنم سے پڑھنے کی مشروعیت پر دلالت کرتا ہے۔اس کی دلیل ایک تو جبیر بن مطعم اور براء بن عازب کی حدیث ہے ،جس کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔
تلاوتِ قرآن میں 'ترجیع '
(9) اور دوسری دلیل حضرت عبداللہ بن مغفلکی حدیث ہے ، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کو (فتح مکہ کے روز) دیکھاکہ آپ اپنی اونٹنی (یا اونٹ) پر سوار تھے ، اونٹنی محو ِسفرتھی اور آپ اوپر بیٹھے نہایت نرمی سے سورئہ فتح (یا اس میں سے بعض آیات کی )تلاوت فرما رہے تھے اور آوازکو بار بار دہراتے تھے(خوبصورتی پیدا کرنے کے لئیآواز میں اتار چڑھاوٴ پیدا کرتے)۔ (بخاری : فضائل القرآن، باب الترجیع ... فتح الباری: ۹/۹۲ )
شعبہ نے کہا کہ یہ حدیث بیان کرنے کے بعد معاویہ نے قراء ت کی اور اس میں عبد اللہ بن مغفل کی نقل کی اور پھر کہا: اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ تم پر جمع ہوکر ہجوم کردیں گے تومیں اس طرح آواز کو دہرا دہرا کر قراء ت کرتا،جیسے عبداللہ بن مغفل نے آنحضرت ﷺ کی پیروی میں آواز دہرا دہرا کر تلاوت کی تھی۔ شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ سے پوچھا: ابن مغفل کیسے آواز کو دہراتے تھے؟ تو انہوں نے کہا :آ، آ،آ، تین بار مد کے ساتھ۔(صحیح بخاری۷۵۴۰)
امام قرطبی اپنی کتاب 'تذکار' کے صفحہ ۱۲۰ پر فرماتے ہیں کہ
" اس میں یہ احتمال موجود ہے کہ شائد راوی نے سواری کے ہچکولے کھانے کی وجہ سے آپ ﷺ کی جو آواز پیدا ہوئی ،اس کو نقل کیا ہو جس طرح کہ ایک آدمی جب سواری پر بیٹھ کر اونچی آواز نکالتا ہے تو اس کی آواز میں کبھی دباؤ اور کبھی انقطاع پیداہوتاہے ،یعنی آواز کبھی اونچی ہوتی ہے اور کبھی پست۔ چنانچہ اس احتمال کی موجودگی میں اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔"
میں کہتا ہوں تعجب ہے ان لوگوں پر جو اس قسم کے احتمالات کا تکلف کرتے ہیں۔ قرآن کو خوش الحانی اور ترنم سے پڑھنے کے بارے میں جب دیگربے شمار نصوص ہیں اور خودنبی کے عمل کے ہوتے ہوئے بھلا اس قسم کے احتمالات اور تو جیہات کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔
ترجیع کا مفہوم : ترجیع کے دو معانی ہیں۔ ایک تو کسی چیز کو خوش الحانی اور ترنم سے پڑھنا۔ اور دوسرا معنی ہے، کسی چیز کو گویوں کی طرح گاکر اور سریں لگا کر پڑھنا۔ ترجیع کی اوّل الذکر صورت جائز اور مشروع ہے اور ثانی الذکر ناجائز ہے ۔ اس کی دلیل حضرت حذیفہ کی یہ روایت ہے کہ نبی نے فرمایا:
"میرے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن کواس طرح گاکر اور سریں لگا کر پڑھیں گے جس طرح ایک گویا گانا گاتا ہے، یا ایک نوحہ خواں نوحہ کرتا ہے۔" (العلل المتناہیة: ۱/۱۱۸)
ترجیع کی یہ صورت بلا شبہ حرام ہے اور اول الذکر ترجیع جائز اور مشروع ہے۔
چنانچہ ثابت یہ ہوا کہ سواری کے ہچکولوں کی وجہ سے جو آواز پیدا ہوتی ہے، اسے ترجیع قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ حدیث میں ترجیع سے مرادقرآن کو ترنم اور خوش الحانی سے پڑھنا ہے،کیونکہ خود راوی کا یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ ہجوم کی صورت میں جمع ہوجائیں گے تو میں بھی قرآن کو اسی طرز میں پڑھتا جس طرز میں اللہ کے رسول ﷺ نے پڑھا تھا۔
اس کے علاوہ حضرت اُمّ ہانی سے ایک روایت بھی اسی پر دلالت کرتی ہے کہ نبی قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے اور میں اپنے بستر پر لیٹی آپ کی آواز کو سن رہی تھی اور آپ قرآن میں ترجیع کر رہے تھے یعنی اسے خوش الحانی اور خوش آوازی سے پڑھ رہے تھے۔ (معانی الآثار از طحاوی :۱/۳۴۴)
امام قرطبی کے بقول اگر یہ ترجیع اونٹی کے ہچکولوں کی وجہ سے تھی تو بتائیے کہ اُمّ ہانی کی اس حدیث میں ترجیع کی وہ کیا توجیہ کریں گے؟
قرآن کو خوش الحانی سے تلاوت کرنے کی حکمت
جو لوگ قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنے کی 'سنت' سے بھاگتے ہیں اور اس سلسلے میں وارد نصوص کے بارے میں عجیب وغریب تاویلات کرتے ہیں، وہ دراصل اس اہم حکمت و علت سے واقف نہیں ہیں جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے اس سنت کو مشروع قرار دیا ہے ۔ وہ حکمت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے مزمار الشیطانکو حرام قرار دیا تو اس کے بدلے میں مزامیر قرآن یعنی قرآن کو خوش الحانی اور ترنم سے پڑھنے کو مشرو ع اور جائز قرار دینا ضروری تھا تاکہ انسان مزمارِ شیطان سے کنارہ کش ہوکر مزامیر قرآن کی طرف توجہ کرے،کیونکہ انسانی نفس فطری اور طبعی طور پر غنا اور خوبصورت آوازوں کو سننے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ ابن اعرابی (ابو عبد اللہ محمد بن زیاد لغوی، م ۲۳۱ھ) فرماتے ہیں کہ
"اہل عرب اپنے اونٹوں پر سوار ہوتے یا اپنے گھروں کے لان میں بیٹھتے تو گانے کی محفلیں جماتے۔ جب قرآن نازل ہواتو آپ نے چاہا کہ ان کی گانے بجانے کی عادت کو قراء تِ قرآن سے بدل دیا جائے۔" (لطائف الاشارات ازقسطلانی: ۱/۲۱۳، فتح الباری :۲/۷۰)
کسی کو اگر اللہ نے فطری طور پر خوبصورت آواز سے نوازا ہے تو اس کے لئے قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنا بہت آسان ہوگا اور جو شخص طبعاًخوش آواز نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ جہاں تک ممکن ہو،مسلسل مشق اور ٹریننگ سے اپنی آواز کوخوبصورت بنانے کی کوشش کرے۔چنانچہ ابن ابی ملیکہ سے سوال کیا گیا کہ اگر ایک شخص طبعی طور پر خوش آواز نہیں تو وہ کیا کرے؟ تو انہوں نے فرمایا:
"جہاں تک ہوسکے، آواز میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ "
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے لئے اپنی آواز کو خوبصورت بنانے کے لئے ایک حد تک تکلف جائز ہے خواہ وہ شخص فطری طور پر خوش آواز ہو یا نہ ہو، وہ اپنی آواز کو خوبصورت بنانے اور اس میں ترنم پیدا کرنے کے لئے ایک حد تک تکلف کرسکتا ہے۔ اس کی دلیل حضرت ابوموسیٰ اشعری کا نبی ﷺ سے یہ کہنا ہے :« لو علمت أنك تسمع قراء تي لحبرتها تحبيرا»
" اگر مجھے علم ہوتا کہ آپ میری قراء ت سن رہے ہیں تو میں مزید خوش الحانی سے پڑھتا۔"
تحبیر سے مراد کسی چیز کو مزین کرنا، اس میں حسن و جمال پیدا کرناہے ۔لہٰذا ابوموسیٰ کی بات کا مطلب یہاں یہ ہوگا کہ میں اپنی آواز کو اور زیادہ خوبصورت بناتا اور اپنی قراء ت میں ترنم پیداکرتا۔ اورظاہر ہے کہ کوشش اور تکلف کے بغیرایسا کرنا ممکن نہ تھا، کیونکہ یہ حسن اس سے زائد ہے جو اللہ نے ان کو طبعی طور پر عطا فرمایا تھا۔
قرآن کو مختلف لہجوں اور طرزوں سے پڑھنا
'لحن' کا لغوی معنی گانا اور غنا ہے۔ اس کی جمع 'الحان' ہے۔ اصطلاحی لحاظ سے اس سے مراد مختلف انواع واقسام کی وہ آوازیں ہیں جو غنا کے وقت نکلتی ہیں۔گویا غنا کے وقت نکلنے والی آوازوں کی مختلف انواع واقسام کو نغمات اور الحان کہا جاتا ہے۔ہرلحن کا ایک اصطلاحی نام ہے، ان تمام الحان کے مجموعہ کو قانون النغم (قواعد ِموسیقی) کا نام دیا گیا ہے۔ ابن حجر عسقلانی اورامام قسطلانی نے اسے یہی نام دیا ہے ۔ (فتح الباری : ۹/۷۲، لطائف الاشارات ۱/۲۱۷)
اس قانون کے تحت آوازوں کی مختلف اقسام ، الحان اور نغمات کی مختلف طرزوں کو مرتب کیا گیا ہے۔ جیسا کہ علم عروض کے ذریعے شعر کے مختلف اوزان مرتب کئے جاتے ہیں۔ جس طرح شعر فاسق اور بے حیا شاعروں کے لئے ہی مخصوص نہیں،ا سی طرح قانونِ نغمگی (قواعد ِموسیقی) پر بھی صرف موسیقاروں اور فحش قسم کے گانے گانے والوں( گلوکاروں) کی اجارہ داری نہیں ہے ۔حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ :
"حضرت داود علیہ السلام ستر (۷۰) لہجوں (طرزوں) کے ساتھ زبور پڑھتے تھے اور ان کی قراء ت میں ایسا سوز تھا کہ شدید بخار میں مبتلا شخص بھی جھوم جھوم جاتاتھا اور جب وہ زبور پڑھتے ہوئے روتے تو خشکی اور تری پربسنے والاکوئی بھی ذی نفس ایسا نہ تھا جو خاموشی اور نہایت توجہ سے آپ کی قراء ت کو سنتا اور روتا نہ ہو۔" (فتح الباری: ۹/۷۲)
ستر طرزوں میں زبور پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی ہر طرز دوسری سے مختلف اورجدا ہوتی تھی۔ لحن (طرز) نغمات اورلہجات ِاصوات کی مختلف انواع و اقسام میں سے ایک قسم ہے ۔ یہی ہماری بحث کا موضوع ہے کہ جب ایک قاری، قرآنِ کریم کو ترنم سے پڑھتا ہے تو کیا اس کے لئے قانونِ نغمہ سے مدد لینا اوران لہجوں کو استعمال کرنا جائز ہے ؟... اس ساری بحث کا دارومدار حذیفہ بن یمان کی اس روایت پر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«"إقرء وا القرآن بلحون العرب وأصواتها، وإياکم ولحون أهل الفسق ... الخ»
"قرآن کو عربوں کے لہجوں اور انہی کی آواز میں پڑھو اور اہل فسق اور اہل کتاب کے لہجوں سے بچو۔"میرے بعد کچھ ایسے لوگ آئیں گے جو گویوں اور ماتم کرنے والوں کی طرح قرآن کو گا گا کر پڑھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ ان گویوں اور ان کی گائیکی سے متاثر ہونے والوں کے دل فتنوں سے لبریز ہوں گے۔"( مختصرقیام اللیل از محمد بن نصر المروزی ص : ۵۸، طبرانی فی الاوسط، مجمع الزوائد : ۷/۱۶۹،بیہقی فی شعب الایمان :۵/۵۸۰)2
اس حدیث میں قرآنِ کریم کو عرب کے لہجوں اور ان کی آواز میں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور شیطانی اور فحش قسم کے گانے گانے والے فاسق و فاجر گلوکاروں اور عیسائی چرچوں کے راہبوں اور نوحہ گروں کے لہجوں میں قرآن کو پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس ممنوعیت میں تلاوتِ قرآن کے وہ لہجے بھی داخل ہیں جو روافض یومِ عاشورا کے موقع پر دورانِ ماتم اختیار کرتے ہیں کیونکہ ان میں حرمت کی دو وجوہات پائی جاتی ہیں: ایک ان کاعجمی ہونا اور دوسرا یہ کہ یہ ماتم کرنے والوں کے لہجے ہیں۔اور حدیث میں ان دونوں قسم کے لہجوں میں قرآن پڑھنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کو مختلف الحان اورطرزوں میں پڑھنا مطلق حرام نہیں ہے بلکہ بعض طرزوں میں پڑھنے سے روکا گیاہے اور بعض طرزوں میں پڑھنے کا حکم دیا گیاہے۔ چنانچہ اہل عرب کی آواز اور لہجوں میں پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔لیکن عجمیوں ، اہل کلیسا اور فاجر گلوکاروں کے لہجوں اور ان کی آواز میں پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
آواز کو خوبصورت بنانے کے لئے قانونِ نغمہ (قواعد ِموسیقی) سے استفادہ
اگرہم مذکورہ بالا حدیث اور دیگر نصوص سے ماخوذ اس کلی قاعدہ کو سمجھ لیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمومی طور پر قرآن کو خوش آوازی سے پڑھنے کے بارے میں علما کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (فتح الباری: ۹/۷۲، التبیان از نووی: ص ۵۱) ... البتہ اس صورت میں علما کے درمیان اختلاف ضرورپایا جاتا ہے کہ آیا قرآن کو ترنم سے پڑھنے اور آواز کوخوبصورت بنانے کے لئے مختلف لہجوں اور'قانونِ نغمہ' سے مدد لی جاسکتی ہے یا نہیں؟... اس بارے میں تین اقوال ہیں :
اوّل: امام ابوحنیفہ اوران کے اصحاب (فتح الباری : ۹/۷۲)،امام شافعی اور ان کے اصحاب اس کے جواز کے قائل ہیں (السنة از بغوی : ۴/۴۸۷، فتح الباری : ۹/۷۲) بلکہ امام ابو القاسم فورانی شافعی (عبد الرحمن بن محمد بن احمد بن فوران) تو کہتے ہیں کہ یہ مستحب ہے۔(طبقات الشافعیہ الکبریٰ از سبکی: ۵/۱۰۹) ان کے علاوہ ابن مبارک، نضر بن شمیل اور عطا بھی اس کے جواز کے قائل ہیں۔چنانچہ محمد بن نصر بیان کرتے ہیں کہ
" ابن جریج نے عطا سے پوچھا کہ ترنم کے ساتھ قراء ت کرناکیساہے؟ تو انہوں نے فرمایا: اس میں حرج کیا ہے ؟" ( مختصر قیام اللیل باب الترجیع فی القراء ة: ص ۵۸ )
دوم :امام مالک اور (ایک روایت میں) امام احمد ،سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، قاسم بن محمد، حسن بصری، ابن سیرین اور امام نخعی فرماتے ہیں کہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ انس بن مالک سے بھی یہی مروی ہے۔ ابن بطال،ماوردی، بندنیجی (ابو علی حسن بن عبد اللہ بن یحییٰ م ۴۲۵ھ)اور امام غزالی جن کا تعلق مذہب شافعی سے ہے۔ اسی طرح قاضی عیاض اور قرطبی ،ا ن کا تعلق بھی مذہب ِمالکی سے ہے اور صاحب الذخیرہ جن کا تعلق مذہب ِحنفی سے ہے، ان سب نے بھی یہی قول نقل کیا ہے۔حنابلہ میں سے ابویعلی اور ابن عقیل نے بھی اسی قول کو اختیار کیاہے۔
سوم: عبدالوہاب مالکی نے امام مالک سے تحریم کا قول نقل کیا ہے اور یہی قول ابوطیب طبری ، علی بن محمد بن حبیب ماوردی اور ابن حمدان حنبلی نے اہل علم کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے۔
خلاصہٴ کلام
سلف صالحین کے اقوال اور نصوص کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم جس نتیجے پر پہنچے ہیں، وہ یہ ہے کہ آواز کوخوبصورت بنانے کے لئے مختلف لہجوں اور قانونِ نغمہ(قواعد ِموسیقی) سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن اس کے لئے چار شرائط کوملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے :
(1)پہلی شرط: یہ ہے کہ اس سے تلفظ کی ادائیگی اور تجوید کے قواعد متاثر نہ ہوں۔ اگر آواز میں ترنم پیدا کرنے کی وجہ سے تلفظ کے احکام اور تجوید و قراء ت کے قواعد خلل اندازہوتے ہیں تواس صورت میں قانونِ نغمہ (قواعد ِموسیقی) سے مدد لینا حرام3 ہے۔
(2) دوسری شرط : یہ ہے کہ قرآن کو ترنم اور تنغیم (قواعد ِموسیقی) کے تحت پڑھتے ہوئے ایسا لب ولہجہ اختیار نہ کیا جائے جو قرآن کی عظمت و وقار اور خشوع و خضوع کے منافی ہو، کیونکہ بعض لہجے ایسے ہوتے ہیں جو قرآن کریم کے شایانِ شان نہیں ہیں۔مثال کے طور پر وہ لہجہ جس میں راگنی ہو۔ ایسا لہجہ نہ دل میں خشوع و خضوع پیدا کرتا ہے اور نہ ہی قرآن سے نصیحت حاصل کرنے پر برانگیختہ کرتا ہے،بلکہ یہ ایک طرح کا سامانِ تفریح اور قرآنِ کریم کے ساتھ مذاق ہے جو اس کے مقام و مرتبہ سے قطعاً مناسبت نہیں رکھتا۔
قرآن کو رقت اور سوز سے تلاوت کرنا : بعض لہجے ایسے ہیں جن میں سوز اور خشوع و خضوع ہوتا ہے، ایسے لہجے واقعی قرآن کے شایان شان ہیں جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ أَلَم يَأنِ لِلَّذينَ ءامَنوا أَن تَخشَعَ قُلوبُهُم لِذِكرِ اللَّهِ وَما نَزَلَ مِنَ الحَقِّ...١٦ ﴾... سورة الحديد
"جو لوگ ایمان لائے ہیں کیا ان کے لئے وقت نہیں آیا کہ اللہ کے ذکر سے اور جو حق نازل ہوا ہے، اس سے ان کے دل پسیج جائیں؟" اسی طرح فرمایا:
﴿لَو أَنزَلنا هـٰذَا القُرءانَ عَلىٰ جَبَلٍ لَرَأَيتَهُ خـٰشِعًا مُتَصَدِّعًا مِن خَشيَةِ اللَّهِ ۚ وَتِلكَ الأَمثـٰلُ نَضرِبُها لِلنّاسِ لَعَلَّهُم يَتَفَكَّرونَ ٢١ ﴾... سورة الحشر
"اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہوجاتا اور اس قسم کی مثالیں ہم لوگوں کے لئے اس لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غوروفکر کریں۔"
ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحسَنَ الحَديثِ كِتـٰبًا مُتَشـٰبِهًا مَثانِىَ تَقشَعِرُّ مِنهُ جُلودُ الَّذينَ يَخشَونَ رَبَّهُم ثُمَّ تَلينُ جُلودُهُم وَقُلوبُهُم إِلىٰ ذِكرِ اللَّهِ...٢٣ ﴾... سورة الزمر
"اللہ نے بہترین کلام نازل کیا جو ایسی کتاب ہے جس کے مضامین ملتے جلتے اور بار بار دہرائے جاتے ہیں، جن سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں۔ پھر ان کے چمڑے اور ان کے دل نرم ہوکر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔"
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ نبی نے فرمایا:
"سب سے خوبصورت قراء ت اس شخص کی ہے جو پڑھے تو یوں لگے کہ اس کا دل خوفِ الٰہی سے کانپ رہا ہے۔" (رواہ أبونعیم فی أخبار أصبھان:۲/۵۸، ابن ابی شیبہ ،۵/۴۱۴، ابن ماجہ: ۱/۴۲۵... حدیث کی تحقیق کے لئے دیکھئے: اخلاق حملة القرآن از آجری)
اس لئے قاری خواہ کسی بھی لہجے میں ترنم کے ساتھ قراء ت کرے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کی مشابہت سے بچے جن کاذکر حضرت حذیفہ کی حدیث میں گزر چکا ہے ۔خصوصاًعجمیوں کے لہجوں سے بچنا اور بھی ضروری ہے کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے ، اسے اہل عرب مثلا قراء ِحجاز و مصر کے لہجوں میں ہی پڑھا جانا چاہئے۔ اسی طرح شیطان اور فحش گویوں کی طرح اچھل اچھل کر اور آہیں بھر بھرکر اٹھکیلیاں کرتے ہوئے پڑھنا اورقواعد ِتجوید سے قطع نظر ہوکرالحان (قواعد ِموسیقی)کے ساتھ آواز میں اتار چڑھاؤ اور مدوجزر پیداکرکے قراء ت کرنا بھی جائز نہیں ہے ،کیونکہ یہ ساری حرکات کلام الٰہی کی عظمت کے سراسر منافی ہیں۔ اسی طرح یہود و نصاریٰ کے لہجوں کی مشابہت اختیار کرنے سے بچنا بھی بے حد ضروری ہے ، کیونکہ ان کی مشابہت تو تمام معاملات میں حرام ہے،اس صورت میں کیسے جائز ہوسکتی ہے؟
اسی طرح قاری کو چاہئے کہ قراء ت کرتے ہوئے آہ و بکا کرنے سے بچے حتیٰ کہ ان لوگوں کے مشابہ نہ ہوجائے جو تکلیف پہنچنے پر تقدیر الٰہی کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرتے ہوئے آہ و بکا اور واویلا کرتے ہیں۔
(3) تیسری شرط :یہ ہے کہ جب وہ الحان اور ترنم کے ساتھ قراء ت کرے تو اس کی آواز میں درد اور سوز ہونا چاہئے۔کیونکہ یہی لحن قرآنِ کریم کی عظمت کے شایانِ شان ہے۔ اس لحن سے دل میں اللہ کا خوف اور نصیحت حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس قسم کا اِلحان سامعین کو خشیت ِالٰہی اور رونے پر اُبھارتا ہے اور یہی قرآن کا مقصودِ حقیقی ہے۔
اسلئے بعض سلف مثلاً امام شافعی اور لیث بن سعدنے قرآن کو تغنی کے ساتھ پڑھنے والی حدیث کی یہی تفسیر کی ہے کہ قرآن کو پڑھتے ہوئے دل پر غم اور رقت طاری ہوجائے۔ (فتح الباری: ۹/۷۰)
اس کی دلیل حضرت سعد بن ابی وقاص کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
"جب قرآن پڑھو تو روؤ ، اگر رو نہ سکو تو رونے کی سی شکل بنا لو اور اس کو ترنم اور خوش الحانی سے پڑھو۔ جو شخص قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہمارے طریقہ پر نہیں ہے۔" (ابوداود: ۲/۷۴، دارمی: ۲/۳۳۸، احمد: ۱/ ۵ ۷ ۱ ، حاکم: ۱/۵۶۹) یہ حدیث مختلف طرق سے مروی ہے لیکن کوئی بھی طریق ضعف سے محفوظ نہیں ہے۔ لیکن کثرتِ طرق کی وجہ سے اسے تقویت حاصل ہوجائے گی۔
عبداللہ بن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"قرآن کریم کو سوز اور رِقت ِقلبی کے ساتھ پڑھوکیونکہ قرآن انتہائی رقت آمیز کتاب ہے۔" (طبرانی فی الاوسط ، مجمع الزوائد ۷/۱۶۹، ابونعیم فی الحلیہ ۶/۱۹۶، اخلاق حملة القرآن : ص۷۸)3
عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"بے شک سب سے بہترین قراء ت اس شخص کی ہے جو قرآن پڑھے اور اس کی آنکھوں سے غم جھلکتا ہو اور دل پر رِقت طاری ہو۔" (طبرانی، مجمع الزوائد:۷/۱۷۰، فضائل القرآن از ابن کثیر:ص۵۵)4
حضرت ابوہریرہ کے متعلق مروی ہے کہ انہوں نے ایک سورة کی تلاوت فرمائی اورپھر اس قدر رنجیدہ ہوئے جس طرح کوئی شخص کسی کی موت کے غم میں رنجیدہ ہوتا ہے۔(فتح الباری: ۹/۷۰) حافظ ابن حجر فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ ابوداؤد نے اس حدیث کو بسند حسن روایت کیا ہے۔
لیکن یہاں یہ دھیان رہے کہ کہیں وہ نوحہ اور ماتم کرنے والوں کے لب و لہجہ میں و اقع نہ ہوجائے جس سے منع کیا گیاہے۔ یہ ایسا مرحلہ ہے کہ ایک پختہ کار اور ماہر قاری ہی اس پر قابو رکھ سکتا ہے۔
(4) قاری قرآن کے لئے چوتھی شرط یہ ہے کہ وہ آواز کو خوبصورت بنانے اور ترنم میں حسن پیدا کرنے یا فطری خوش آوازی میں مزید حسن پیدا کرنے کے لئے الحان کو بقدرِ ضرورت اختیار کرسکتا ہے۔جیسا کہ ابوموسیٰ اشعری نے کہا تھا :" اگر مجھے معلوم ہوتا کہ نبی میری قراء ت سن رہے ہیں تو میں اپنی آواز کومزید خوبصورت بناتا۔" لیکن یہ خیال رہے کہ خواہ مخواہ تکلف اور تصنع کے ذریعے جائز حدود سے تجاوز نہ کرجائے۔ ایسا عموماً وہ لوگ کرتے ہیں جو اس کام کو بطورِ پیشہ اختیار کرلیتے ہیں اور قرآن کو کمائی، کھانے پینے اور شہرت کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ خصوصاً ریڈیو اور مجالس عزا میں قراء ت کے جوہر دکھانے والے قراء، جو تکلف اور تصنع میں غایتدرجہ مبالغہ کرتے ہیں کہ گردن کی رگیں پھول جاتی ہیں، آنکھیں باہر کو آجاتی ہیں ۔ ان کا مقصد محض تسکین خواہشات، شہرت کا حصول اور مال کمانا ہوتاہے اور وہ لو گ جنہیں ان کی یہ حالت اچھی لگتی ہے، وہ صرف ان کی آواز سنتے ہیں اور ان کی چیخ و پکار کی داد تو دیتے ہیں لیکن قرآن کی آیات میں سے کچھ بھی نہیں سمجھتے۔
امام قرطبی، قاسم بن محمد سے روایت کرتے ہیں کہ امام مالک سے سوال کیا گیا کہ نماز میں لب و لہجہ (قواعد ِموسیقی کی رو رعایت) سے قراء ت کرناکیسا ہے؟ تو فرمایا: "میں اسے اچھا نہیں سمجھتا، یہ تو گانا ہے۔ لوگ اس لئے گاتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے مال حاصل کریں۔" (مقدمہ تفسیرقرطبی:۱/۱۰)
یہ قول جو ہم نے اختیار کیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہی درست ہے۔ یہ افراط و تفریط کے دو راستوں کے درمیان ایک معتدل راستہ ہے۔ نہ تو انتہائی سختی کرتے ہوئے کلی طور پر اس دروازہ کو بند کرنے کا فتویٰ دینا درست ہے اور نہ ہی اس قدر آگے نکل جانا درست کہ بالکل قواعد ِتجوید سے ہی بے نیاز ہو جائے۔5
مذکورہ رائے ہماری خود ساختہ نہیں بلکہ سلف میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے اسی قول کو اختیار کیا ہے جیسا کہ ہم پہلے یہ ذکر کرچکے ہیں کہ حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ میں سے بعض فقہا نہ صرف اس کے جواز کے قائل ہیں بلکہ وہ اس کو مستحب کہتے ہیں۔امام نووی نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے۔ اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے تغنی کے متعلق تفصیلی بحث کی ہے اور پھر مختلف طرزوں پر قراء ت کرنے کے بارے میں فقہاء کے مذاہب کا خلاصہ پیش کرنے کے بعد راجح قول کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے :
"دلائل کے تناظرمیں جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں تغنی سے مطلوب قرآن کو خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھناہے۔اگر کوئی آدمی طبعی طور پر خوش آواز نہیں ہے تو وہ جس قدر ہوسکے، آواز میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اس کی دلیل ابن ابی ملیکہ کا قول پہلے گزر چکا ہے، جسے ابوداود نے بسند ِصحیح نقل کیا ہے۔آواز کی ساری خوبصورتی کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس میں قوانین نغمہ کا اہتمام کیا جائے، یقینا جس سے آواز کا حسن دوبالا ہوجائے گا اور اگر انسان قوانین نغمہ سے قطع نظر ہوجائے تو یقینی بات ہے کہ اس سے آواز کا حسن متاثر ہوگا۔ بسا اوقات قوانین نغمہ کو پیش نگاہ رکھنے سے بدصورت آواز بھی خوبصورتی کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ قوانین نغمہ (قواعد ِموسیقی)کے ساتھ ساتھ تجوید و قراء ت کے ان قواعد و احکام کی پوری طرح پابندی ہونی چاہئے جو اہل فن کے ہاں مسلمہ ہیں۔حروف کی صحت ِادا سے بے نیاز ہوکر محض الحان اور آواز میں مدوجزر پیدا کرنے کے درپے ہوجانے سے آواز کا حسن مکمل نہیں ہوسکتا۔
شاید جو لوگ قوانین نغمہ کے تحت قراء ت کو مکروہ خیال کرتے ہیں، اس کی یہی بنیاد ہو ، کیونکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جو شخص قوانین نغمہ کے اہتمام کو ہی اپنا مقصود بنالے وہ حروف کی صحت ِادا سے غافل ہو جاتا ہے۔البتہ اگر کوئی شخص الحان کے ساتھ ساتھ قواعد ِتجوید اور حروف کی صحت ِادا کی بھی پابندی کرتا ہے تو یہ شخص زیادہ قابل ستائش ہے کیونکہ یہ شخص آواز میں حسن پیدا کرنے کا جو حکم دیا گیا، اس پر بھی عمل پیرا ہے اور قواعد ِتجوید کی خلاف ورزی کا بھی مرتکب نہیں ہو رہا۔" (فتح الباری:۹/۷۲)
اب رہا یہ مسئلہ کہ جو اسلاف قرآت میں 'الحان' کو نا پسند سمجھتے ہیں، اس کی کیا توجیہ پیش کی جائے گی تو اس کے بارے میں ابو مجاہد (موٴلف) فرماتے ہیں کہ
"سلف صالحین مثلاً انس بن مالک، سعید بن مسیب اور ان کے معاصر علماء اسی طرح امام مالک، امام احمد وغیر جو الحان کے ساتھ قراء ت کو مکروہ خیال کرتے ہیں، ان کے اس قول کو اس صورت پر محمول کیا جائے گا جس میں قواعد ِتجوید اور حروف کی صحت ِادا (مخارج اور صفاتِ حروف: اظہار، ادغام ، ترقیق، تفخیم، مد اور قصر وغیرہ) کی پابندی نہ کی گئی ہو، جیسا کہ حافظ ابن حجر کے حوالہ سے ذکر ہو چکا ہے ۔ یاپھراس صورت پر جس میں راگنی ہو جو کہ قرآن کے مقام ومرتبہ اور اس کے وقار کے منافی ہے۔اس کی وضاحت بھی ہم کرآئے ہیں۔ یا وہ صورت جس میں ان لوگوں کے ساتھ مشابہت ہو جن کا ذکر حضرت حذیفہ کی حدیث میں گزر چکا ہے۔ وگرنہ مطلق الحان کے ساتھ قراء ت کرنا ان کے نزدیک منع نہیں6 ہے ۔"
اس کی دلیل وہ اختلاف ہے جو امام احمد سے منقول ہے جوکہ الحان کے سخت مخالف ہیں اور ان کا اختلاف بھی امام شافعی سے ہے جواس کے جواز کے سلسلے میں کافی وسیع النظر ہیں، تودراصل یہ اختلاف دو حالتوں کا اختلاف ہے، دو اقوال کا اختلا ف نہیں،جیسا کہ امام نووی نے ذکر کیا ہے۔اور پھر اس کی وضاحت زیر نظر روایات سے بھی ہوتی ہے کہ امام احمد اس صورت میں الحان کے ساتھ قرآت کو ناپسند کرتے ہیں جب اس میں قواعد ِتجوید کا خیال نہ رکھا جائے ۔ چنانچہ احمد الخلال سے روایت ہے کہ :
"ایک آدمی نے اما م احمد سے سوال کیا کہ قرآن کو الحان کے ساتھ پڑھنے کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ تو آپ نے پوچھا: کیا نام ہے تمہارا ؟ کہا :محمد۔جس پرامام احمد نے فرمایا:کیا تو پسند کرتا ہے کہ تجھے کوئی 'موحمد' کہے؟"
اسی طرح ابوبکرمروزی فرماتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن المتطبّب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے امام ابو عبداللہ احمد سے قرآن کو الحان کے ساتھ پڑھنے کے متعلق سوال کیا توانہوں نے فرمایا:
"اے ابوالفضل! ان لوگوں نے قرآن کو نغمہ اور گیت بنا لیا ہے، ان سے قرآن نہ سنو۔"
(الأمربالمعروف للخلال: ص ۱۷۷،۱۷۹)
اسی طرح وہ روایت کہ ایک آدمی مسجد ِنبوی میں قرآن کو راگ اور سر لگا کر پڑھ رہا تھا تو قاسم بن محمد نے اسے دیکھ کر قرآن کی یہ آیت پڑھی: ﴿لا يَأتيهِ البـٰطِلُ مِن بَينِ يَدَيهِ وَلا مِن خَلفِهِ ۖ تَنزيلٌ مِن حَكيمٍ حَميدٍ ٤٢ ﴾... سورة فصلت" تو یہاں قاسم بن محمد کے اعتراض کو ایسے شخص پر محمول کیا جائے گا جو قرآن کو فاسق و فاجر گلوکاروں کی طرح پڑھتا ہے۔ (الخبرعندالخلال:ص۱۷۶)
کیونکہ قاسم بن محمد نے جس آیت سے اشتہاد کیا ہے، اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص فاسق وفاجر گلوکاروں کی طرز پر پڑھ رہا تھا۔
لیکن اگر کوئی شخص قوانین نغمہ کے ساتھ ایسی قراء ت کرتا ہے کہ اس کی آواز میں سوز و درد ہو ، خوفِ خدا اس سے جھلکتا ہو اور دل اس کے ساتھ حرکت میں آجائیں تو بتائیے، کیا کوئی اسکوناجائز قرار دے گا؟
احمد الخلال کہتے ہیں کہ مجھے ابوبکر مروزی نے بتایا کہ ہم ایک لشکر کے ساتھ محاذ جنگ سے واپس آرہے تھے۔ رستے میں، میں نے ابوعبداللہ (امام احمد) کو ایک آدمی سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ
"کاش تم مجھے قرآن پڑھ کر سناتے۔ جب اس نے پڑھنا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ امام احمد کی آنکھیں بار بار آنسوؤں سے ڈبڈبا جاتی تھیں۔" (الخبرعندالخلال:ص۱۷۸)
احمد الخلال فرماتے ہیں کہ میں نے ابوبکر مروزی کو دیکھا کہ جب کسی ایسے شخص کو دیکھتے جس کی قرات پر سوز اور غمناک ہوتی تو اس سے قرآن پڑھنے کی خواہش کرتے اور اکثر کہتے کہ﴿إِنَّ الأَوَّلينَ وَالءاخِرينَ ٤٩ لَمَجموعونَ إِلىٰ ميقـٰتِ يَومٍ مَعلومٍ ٥٠ ﴾... سورة الواقعة"سے پڑھو۔ (ایضاً)
یہ امر واضح ہے کہ قراء ت میں سوز کاہونا بھی تو الحان اور آواز کی ایک طرز ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام احمد اور دیگر سلف کا اس مسئلہ میں سختی اختیار کرنے سے اصل مقصود مطلق لحن اور ترنم سے روکنا نہیں بلکہ اس بلاوجہ کے تکلف سے روکنا ہے،جس کی وجہ سے قراء ت اپنی جائز حدود سے تجاوز کرجاتی ہے۔اور جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کو خوش آوازی اور ترنم سے پڑھنے سے آواز میں دانستہ یا نادانستہ موسیقی کے معروف قواعد میں سے کوئی نہ کوئی قاعدہ ضرور پایا جائے گا، تو یہ بھی ماننا پڑے گاکہ کوئی بھی آواز الحان سے خالی نہیں ہوسکتی۔جب کوئی ماہر قاری دانستہ قواعد ِموسیقی کے تحت تلاوت کرے گا تو غالب یہ ہے کہ اس کی آواز میں مزید حسن پیدا ہوگااوریہ کوئی قابل حرج بات نہیں ہے،جیسا کہ عطاء کا قول پہلے گزر چکا ہے۔
ابوموسیٰ اشعری کو دیکھئے، وہ نبی سے کہتے ہیں: " اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ آپ میری قراء ت سن رہے ہیں تو میں اس میں مزید حسن پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔" حالانکہ جو آواز نبی نے سنی تھی، وہی اس قدر خوبصورت تھی کہ آپ نے اسے داود کی آواز سے تشبیہ دی۔ یہ تو ان کی آواز کا طبعی اور فطری حسن تھا ،پھر انہوں نے شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے اس میں مزید حسن پیدا کرنے کے لئے کوشش کرنے کی خواہش کا اظہار کیا لہٰذا شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے خوش آوازی کی کوشش کرنے کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں ہونا چاہئے ۔
حضراتِ سلف کی اس مسئلہ میں سختی کرنے کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان کے دور میں قوانین نغمہ اور الحان کے ساتھ قراء ت کر نے کی صورت حال اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی حتیٰ کہ بعض لوگ اس طرح کے الحان میں قراء ت کرتے تھے جو قرآن کے مقام و مرتبہ کے منافی تھے۔ بعض وہ جو قرآن کو مرثیہ خوانوں اور راہبوں کے الحان میں پڑھتے تھے اور بعض خود ساختہ اور نئے نئے بے ہودہ اور شیطانی گانوں کی طرز پر پڑھتے تھے۔اس کی ایک مثال ہیثم کی یہ قراء ت ہے: ﴿ أَمَّا السَّفينَةُ فَكانَت لِمَسـٰكينَ يَعمَلونَ فِى البَحرِ...٧٩ ﴾... سورة الكهف" ...اس آیت کو ا س نے اس گانے کی طرز پر پڑھا
أما الفطاة فإني سوف أنعتها نعتًا يوافق نعتي بعض ما فيها
(المعارف از ابن قتیبہ: ص ۵۳۳)
الحان کے ساتھ قراء ت کے جواز کے لئے جو شرائط ہم نے مقرر کی ہیں، ان میں سے دوسری اور تیسری شرط کی قیدسے اس قسم کے تمام الحان از خود نکل جاتے ہیں ،ان شرائط کی طرف رجوع کیجئے اور ان پر غور فرمائیے۔
آواز میں حسن پیدا کرنے کے ذرائع
اب سوال یہ ہے کہ آواز میں حسن پیدا کرنے کے لئے کون سے وسائل اختیار کئے جا سکتے ہیں تو اس کا جواب حدیث ِتغنّی میں موجود ہے ۔اس حدیث کے راوی ابن ابی ملیکة سے جب کہا گیا کہ بتائیے اگر آدمی طبعی طور پر خوش آواز نہیں ہے تو وہ کیا کرے ؟تو انہوں نے فرمایا: جس قدر ممکن ہو، آواز میں حسن پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ اس حدیث سے یہ دلیل اخذ کی جاسکتی ہے کہ قاریٴ قرآن کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنی آواز کو خوب صورت بنانے کے لئے جووسائل میسر ہوں، انہیں بقدرِ ضرورت کارگاہِ عمل میں لائے۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کے لئے قوانین نغمہ (قواعد ِموسیقی) اور وہ مناسب لہجے جو وہ خود اپنے لئے منتخب کرتا ہے یا استاد اس کے لئے منتخب کردیتاہے، ان کو سیکھنے کی مشق کرے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ مقررہ حدود سے تجاوز نہ کرنے پائے اوریہ بھی ضروری ہے کہ وہ ان الحان (لہجوں) کو ایسے استاد سے حاصل کرے جو اس سلسلے میں مہارتِ تامہ کا حامل ہو ،نہ کہ موسیقاروں اور گلوکاروں سے، کیونکہ نبی نے فاسق و فاجر لوگوں کے الحان سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ دوسرا طریقہ تقلید اور محاکاةکا ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ شاگر د دورانِ تعلیم اپنے استاد کی نقل اتارے یا پھر قاری منشاوی اور قاری عبدالباسط عبدالصمد جیسے بعض خوبصورت آواز اورمتاثر کن لہجات کے حامل ماہر فن قراء ِکرام کی نقل اتارے۔
حدر میں طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ماہر قراء کرام جو نمازِ تراویح میں اپنی خوبصورت آواز اور حسن ادائیگی سے دلوں پر رِقت طاری کردیتے ہیں، ان کی نقل اتاری جائے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اس طرح نقل اتارنے میں کوئی حرج ہے، بلکہ تعلیم اور تدریس کا ہمارا طویل تجربہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ آج اس کی شدید ضرورت ہے، خصوصاً ابتدائی طلبا کے لئے ،یہاں تک کہ وہ اس فن میں مکمل مہارت حاصل کرلیں اور خوش آوازی اور ادائیگی ٴ حروف میں سلاست اور روانی کے لحاظ سے یکتائے روزگار بن جائیں۔
چنانچہ قرا ء ت او رلحن میں تقلیداور نقل اتارنے کے جواز کے سلسلے میں بطورِ دلیل صرف دو احادیث پیش کرنے پر اکتفا کروں گا :
1۔ پہلی حدیث صحیح بخاری میں عبداللہ بن مغفّل سے مروی ہے، اس میں یہ ذکر ہے کہ نبی ﷺ سورة فتح یا اس کی بعض آیات کو ترنم کے ساتھ دہرا دہرا کر پڑھتے تھے۔وجہ دلیل اس میں راوی معاویہ بن قرة کے یہ الفاظ ہیں:« لو شئت أن أحکي لکم قرأة النبي ﷺ لفعلت» (بخاری: حدیث ۴۸۳۵)
"اگر میں تمہارے سامنے نبی ﷺکی قراء ت کی نقل کرنا چاہوں تو کرسکتا ہوں۔" (فتح: ۸/۵۸۳)
صحیح بخاری میں یہ الفاظ بھی ہیں :
«لولا أن يجتمع الناس لرجّعت کما رجّع ابن مغفل،يحکي النبي»(حدیث: ۷۵۴۰)
" اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ لوگ ہجوم کی شکل میں جمع ہوجائیں گے تو میں قراء ت کو اسی طرح ترنم کے ساتھ بار بار دہراتا (ترجیع کرتا)جس طرح ابن مغفل نے نبی کی نقل کرتے ہوئے آپ کی قراء ت کو دہرا دہرا کر پڑھا تھا۔"
ابو عبید کی روایت میں یہ الفاظ ہیں : «لو لا أن يجتمع الناس لأخذت لکم في ذلك الصوت أو قال اللحن» (فضائل القرآن: ق ۱۵، جرمن مخطوطہ)
"اگر مجھے لوگوں کے ہجوم کی شکل میں جمع ہوجانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں تمہارے سامنے اسی آواز یا اسی طرز (لحن) میں پڑھتا۔"
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عبداللہ بن مغفلنے نبی ﷺ کی طرز کی تقلید کی۔اسی طرح تابعی معاویہ بن قرة نے بھی ایسا کرنے کا ارادہ کیا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ قراتِ قرآن میں نقل اتارنا جائز ہے۔
2۔ دوسری دلیل حضرت سعد بن ابی وقاص کی صحیح حدیث ہے جس میں قرآن کو پرُدرد اور پرُسوز آواز سے پڑھنے کی ترغیب ہے۔ (دیکھئے اس مقالہ کا صفحہ ۳ اور۸)
واقعہ یہ ہے کہ نبی جب کسی فضیلت پر اُبھارتے تو سب سے پہلے خود اس پرعمل کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی جب ترنم اور خوش الحانی سے قرآن پڑھتے تو خود بھی روتے اور دوسروں کو بھی رُلاتے۔ اسی طرح صحابہ کرام آپ کی نقل کرتے اور اسی لحن (طرز) پر قرآن پڑھتے تھیجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آواز کا پرسوز اور پردرد ہونا بھی ایک لحن ہے۔ اس کی دلیل حضرت ابوہریرہ کا وہ اثر ہے جس کا ذکر ہم پہلے بھی کرچکے ہیں کہ ابوہریرہ نے ایک سورة کی تلاوت کی اور اس قدر غمزدہ ہوئے گویا کسی عزیز کی موت کی خبر سن لی ہو ۔ ابن حجر فتح الباری ( ۹ /۷۰) میں فرماتے ہیں کہ ابوداود نے اس حدیث کو سند حسن سے روایت کیا ہے۔
کیا یہ تمام دلائل قاریٴ قرآن کو یہ جواز مہیا نہیں کرتے کہ وہ خوش الحانی میں نبی کی نقل اتارے؟ کیا اس دلیل کے بعد کہ صحابہ کرام پیغمبر کے لحن کی نقل کرتے تھے، کسی مزید دلیل کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے ؟
صحابہ کرام جو نبی کی ہرہر ادا پرعمل کرنے کے بہت شائق تھے، کیا وہ آپ کے لحن کی اقتدا میں حریص نہیں ہوں گے؟ جب ایک شاگرد اپنے استاد کی آواز، اس کے لحن اور ادائیگی حروف میں نقل کرسکتا ہے تو کیا ہم اس بارے میں معلم اوّل امام العالمین حضرت محمد ﷺ کی اقتدا اور نقل نہ کریں۔ واللہ أعلم
نوٹ
1. یہ روایت ابوعمر زاذان (تابعی، صدوق) اور اوس بن ضمعج سے مروی ہے اور حدیث میں یہ زیادتی ان لوگوں کے دعویٰ کی نفی کرتی ہے جوکہتے ہیں کہ حدیث «زینوا القرآن بأصواتکم مقلوب» ( تبدیل شدہ) ہے اور اصل حدیث یوں ہے:
«زینوا أصوأتکم بالقرآن یا أحسنوا أصواتکم بالقرآن»
''اپنی آوازوں کو قرآن سے حسن بخشو یا اپنی آوازوں کو قرآن سے خوبصورتی عطا کرو۔''
گویا ان کے بقول یہ حدیث اہل عرب کے قول عرضت الحوض علی الناقة (تالاب اونٹنی پر پیش کیا گیا) کی قبیل سے ہے۔ (تذکار: ص ۱۱۴)
اگر ہم ان کی بات کو درست بھی مان لیں تو تب بھی ہم اس حدیث سے وہی کچھ مراد لیں گے جو حدیث «لیس منا من لم یتغن بالقرآن» سے مراد لیا تھا جس میں قرآن کو خوش الحانی سے پڑھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس صورت میں زینوا
(سابقہ حاشیہ) أصواتکم بالقرآن کا معنی یہی ہوگاکہ قرآن کو پڑھتے ہوئے خوش آوازی سے پڑھو۔ یوں سمجھئے کہ خوبصورت آواز اور قرآن دونوں گویا ایک خوبصورت زیور ہیں جو ایک دوسرے کو زینت اور حسن بخشتے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ خوبصورت آواز تلاوتِ قرآن میںایسا حسن اور جادو پیدا کردیتی ہے کہ قرآن دلوں میں اترتا چلا جاتاہے۔
امام ابن جزری ؒاپنے مقدمہ میں تجوید کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ «وهو أیضا حلیة التلاوة وزینة الأداء والقراء ة» ''قرآن کوتجوید کے ساتھ پڑھنا بھی تلاوت کا زیور اور تلفظ کو حسن اور زینت بخشتا ہے ۔''
جہاں تک حضرت برائؓ کی حدیث کی صحت و ضعف کا تعلق ہے تو یہ حدیث صحیح ہے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ کی سند کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ سند جید ہے اور اس حدیث کے راوی عبدالرحمن بن عوسجہ کو امام نسائی اور ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔
ازدی سے روایت ہے کہ یحییٰ بن سعد قطان نے کہا:''میں نے عبدالرحمن بن عوسجہ کے متعلق مدینہ منورہ کے علما سے سوال کیا تو میں نے کسی سے بھی اس کی تعریف نہیں سنی۔''
ابوعبید قاسم ؒبن سلام فرماتے ہیں کہ ہمیں یحییٰ بن سعید نے شعبہ سے بیان کیا کہ انہوں نے فرمایا
''مجھے ایوب سجستانی نے حدیث زینوالقرآن بأصواتکم کو بیان کرنے سے منع فرمایا تھا۔''
ابوعبیدؒ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں ایوب نے اس لئے حدیث بیان کرنے سے منع کیا تھا کہ لوگ اس حدیث کو بنیاد بنا کر طرح طرح کی سروں کے لئے رخصت پیدا کرلیں گے۔ابن کثیرؒ فرماتے ہیں: اس کے بعد شعبہؒ نے اللہ پربھروسہ کرتے ہوئے یہ حدیث جس طرح اسے بیان کی گئی تھی، آگے بیان کردی۔ اگر اس حدیث کو، اس خوف سے بیان کرنا چھوڑ دیا جاتا کہ باطل پرست اس کی تاویل سے غلط فائدہ اٹھائیں گے تو آج ہم ایک مسنون عمل سے محروم ہوجاتے۔ لوگوں نے تو قرآن کی متعدد آیات کو بھی تاویل وتحریف کی بھینٹ چڑھا کر انہیں ان کے اصل مفہوم سے پھیر دیا ہے تو کیا ان کی تاویل کے خوف سے اب قرآن کو بھی پڑھنا پڑھانا چھوڑ دیا جائے۔
2. یہ تمام روایات بقیہ کے طریق سے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ
«حدثني حصین بن مالك قال: سمعت شیخا یکنی أبا محمد یحدث عن حذیفة»
امام فسویؒ المعرفۃ والتاریخ:۲؍۴۸۰ میں بقیہؒ کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ اہل افریقہ میں سے ہے۔ اور اس سے صرف ایک حدیث مروی ہے۔امام ذہبی 'میزان' (۱؍۵۳۳) میں 'حصین بن مالک' کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس سے روایت کرنے میں 'بقیہ' منفرد ہے جو ناقابل اعتبار راوی ہے لہٰذا یہ خبر 'منکر' ہے۔ اس کے منکر ہونے کی حقیقی وجہ یہ نہیں بلکہ اصل وجہ ابو محمد کا مجہول ہونا ہے ۔اس کے باوجود اس حدیث کا متن قابل اعتبار ہے کیونکہ متعدد روایات اسکے ثبوت پر شاہدہیں۔
3. ابن حجرعسقلانی ؒقرآن کوالحان کے ساتھ پڑھنے کے بارے میں علما ء کے اختلاف کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیںکہ یہ اختلاف اس صورت میںہے جب مخارج ِحروف میں کوئی فرق نہ پڑے۔اگر اس سے حروف کے مخارج متاثر ہوتے ہیں تو اس صورت میں امام نووی اپنی کتاب 'التبیان' میں فرماتے ہیں کہ علما کا اس کی حرمت پر اجماع ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں:
''علماء کرام فرماتے ہیں کہ قراء ت میں آواز کو خوبصورت بنانا اور اس میںترنم پیدا کرنا مستحب ہے بشرطیکہ قاری قواعد تجوید کی پوری پوری پابندی کرے۔ لیکن اگر الحان کے ساتھ پڑھتے ہوئے کھینچ کر پڑھنے سے کسی حرف کو زیادہ بڑھا دیا یا کسی حرف کو مخفی کردیا (یعنی لحن جلی کا ارتکاب کیا ) تو اس طرح الحان کے ساتھ پڑھنا حرام ہے۔''
الحان (لب و لہجہ، ترنم) کے ساتھ قراء ت کرنے کے بارے میں امام شافعیؒ ایک جگہ تو اسے مکروہ قرار دیتے ہیں اور دوسری جگہ کہتے ہیں کہ میں اسے مکروہ نہیں سمجھتا۔چنانچہ اصحاب ِشافعی اس تضاد کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان دونوں اقوال میں قدرے تفصیل ہے ، وہ یہ کہ
''اگر قاری لفظ کو کھینچتے ہوئے اس قدر افراط سے کام لے کہ حد سے تجاوز کرجائے تو ایسا کرنا امام شافعی کے نزدیک مکروہ ہے، لیکن اگر وہ لفظ کو کھینچنے میں حد ِاعتدال سے تجاوز نہیں کرتا تو تب ان کے نزدیک ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے۔''
4. اس کی تمام اسانید میں ایک راوی اسماعیل بن سیف ہے جوضعیف ہے ۔
5. اس کی سند میں ایک راوی ابن لہیعہ ضعیف ہے۔
6. ہمارے خیال میں مکمل طور پر اس دروازہ کو بند کرکے قرآن کو الحان سے پڑھنے کی حرمت کافتویٰ دینا مناسب نہ ہوگا۔ خصوصاً اس دور میں جبکہ شیطانی گانوں اور موسیقی کاسیلاب لوگوں کی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اب جبکہ علما اس کے آگے بند باندھنے سے بے بس نظر آتے ہیں، یہ عقلمندی نہیں ہوگی کہ وہ ایک ایسی شرعی گنجائش کو بھی ترک کردیں جسے شارعِ کریم عزوجل نے جائز قرار دیا ہے۔
الحان کے ساتھ قراء ت کے مسئلہ میں زیادہ سختی اور اسے قراء کے لئے حرام قرار دینے کا ہمارے ہاں نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حفاظِ کرام نے تلاوت میں ترنم اور خوبصورتی پیدا کرنے کی کوشش چھوڑ دی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی آواز بجائے لوگوں کے دلوں میں رقت پیدا کرنے ، تھکاوٹ اور بوریت کا سبب بن گئی ہے ۔ پھر تعجب ہے کہ اس مسئلہ میں سختی نے ایک اور سختی کو جنم دیا ہے کہ بعض طلبائِ علم نے قواعد ادا اور تجوید کے قواعد کو 'بدعت' کہنا شروع کردیا ہے۔ فیا للعجب !
٭ کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ قاری، قرآن کریم کو ترنم سے پڑھے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس میں نغمگی اور قواعد ِموسیقی کو دخل نہ ہو بلکہ لازما ً دانستہ یا نادانستہ اس میں کوئی نہ کوئی نغمہ اور قاعدئہ موسیقی پایا جائے گا ۔وَأَذِنَت لِرَبِّها وَحُقَّت ﴿٢﴾