'جہاد' کا مفہوم اور دورِ حاضر میں اسکے تقاضے

اسلام میں جہاد کا تصور اور فضیلت، دیگر ادیان و مذاہب کے بالمقابل اسلام کا امتیازی تصور ہے جس کی رو سے جہاں جان و مال اور عقل و نسل کا تحفظ بنیادی حق قرار پاتا ہے، وہاں سیکولر ازم کے برعکس دین کا تحفظ بھی اسلام کی نظر میں بنیادی حقوق میں شاملہے۔ بلاشبہجہاد کا یہ تصور اسلام کی حقانیت اور جامعیت کا بہت بڑا ثبوت ہے۔

مولانا زاہد الراشدی قلم و دانش کے ان مجاہدین میں شامل ہیں جو موقع بموقع ایسے تصورات کو اجاگر کرتے رہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں پنجاب یونیورسٹی (شیخ زاید اسلامک سنٹر) کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں پڑھا جانے والا موجودہ مقالہ ہدیہٴ قارئینہے جس کی ہم بھرپور تائید کرتے ہیں تاہم یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ اس مقالہ میں بعض مقامات ایسے آئے ہیں جہاں جوشِ خطابت میں جہاد کی خصوصی نوعیت قتال (محاربہ) کے مقصد کے بارے میں اسلامی جہاد اور عسکریت کے درمیان التباس پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ قتال ومحاربہ اسلام کی نظر میں بنفسہ پسندیدہ اور مرغوب چیز نہیں ہے بلکہ رسول اللہ کے فرمان :« لاتتمنوا لقاء العدو واسئلوا الله العافية...الحديث» (بخاری) "دشمن سے ملاقات کی آرزو نہ کرو اور اللہ سے عافیت طلب کرو..." وغیرہ کی روشنی میں حتیٰ الوسع قتال سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس مفہوم کو علمائے اُصول نے حسن بنفسہ اور حسن لغیرہ کی تقسیم سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے یعنی جس طرح حدود (رجم، قطع ید وغیرہ) فی نفسہ اسلام کا مقصود ومطلوب نہیں ہیں بلکہ معاشرے میں امن و امان کی ایک ناگزیر ضرورت ہیں یعنی حدودِ شرعیہ فی نفسہ پسندیدہ نہ ہونے کی وجہ سے حسن لغیرہ کے زمرہ میں آتیہیں، اسی طرح قتال و محاربہ اسلام کی نظر میں ذاتی طور پر مطلوب نہیں بلکہ دفاعِ دین کی ایک ضرورت ہونے کے ناطے حسن لغیرہ کے طور پر اہم ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے ﴿وَقـٰتِلوهُم حَتّىٰ لا تَكونَ فِتنَةٌ...١٩٣ ﴾... سورة البقرة" کی روشنی میں 'قتال' کو اسلام کے مقصد ومنہاج کی بجائے فتنہ و فساد کے خاتمہ کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ حقیقةً شیخ الاسلام ابن تیمیہ  جیسے شخص کی یہ وضاحت اسلام کی بہت اہم تعبیر ہے۔ زیرنظر مقالہ میں اسی نکتہ نظر کی وضاحت کے لئے ہم نے کئی عبارتوں پر حواشی لگانے کی جسارت کی ہے جس سے مقصود مولانا زاہد الراشدی صاحب سے اختلاف نہیں بلکہ مذکورہ بالا موقف میں غیر شعوری طور پر پیدا ہونے والے التباس کو رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ اس وقت مغربی دنیا میں بالعموم اور اسلامی معاشرہ میں بالخصوص ایسی بحثیں جاری ہیں کہ کیا دنیا بھر میں عسکری تنظیموں کی تمام کاروائیاں بلااستثنا اسلامی ہیں یا بعض کاروائیاں اس تشدد کے زمرہ میں آتی ہیں جس کی اسلام غیر مشروط اجازت نہیں دیتا؟ مثلاً مصر کے صدر انور سادات وغیرہ کا قتل یا بعض ایسے تخریبی کام جنہیں کسی صورت بھی اسلام کا جبہ نہیں پہنایا جاسکتا۔

مولانا زاہد الراشدی جیسے حضرات سے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ عسکری تنظیموں کی بلا استثنا تمام کاروائیوں کی تائید کی بجائے دنیا کے کئی مسلم معاشروں میں ان کے بعض انتہا پسندانہ پہلوبھی پیش نظر رکھیں گے جس طرح موصوف نے حضرت حذیفہ بن یمان اور ان کے والد کی جنگ ِبدر میں عدمِ شمولیت اور حضرت سلمان فارسی کاجنگ ِاحزاب سے پہلے کے غزوات سے غیر حاضر ہونے کا عذر اپنے مضمونِ ہذا میں پیش کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے زبان و قلم میں مزید زور اور قوتِ تاثیر پیدا فرمائے۔ آمین ! (محدث)

میرے پیش نظر موضوع 'سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں جہاد کا مفہوم' ہے جس کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ حتیٰ کہ تذکرہ بھی اس مختصر وقت میں ممکن نہیں ہے۔ اس لئے بہت سے اُمور کو نظر انداز کرتے ہوئے چند ایک ایسے سوالات کا جائزہ لینا چاہوں گا جو جہاد کے حوالے سے آج کے دور میں عالمی سطح پر موضوعِ بحث ہیں اور ان کے بارے میں مثبت اور منفی طور پر بہت کچھ لکھا اور کہا جارہا ہے :

'جہاد' کا لفظ لغوی طور پر (مقابلہ میں) کوشش، محنت و مشقت اور تگ و دو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی، دعوت و تبلیغ، ترویج و تنفیذ اور تحفظ ودفاع کے لئے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن و سنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

لیکن جہاد کا ایک خصو صی مفہوم 'جنگ' اور 'محاربہ' بھی ہے جسے قرآنِ کریم میں 'جہاد فی سبیل اللہ' اور 'قتال ' کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے1 چنانچہ سینکڑوں آیاتِ قرآنی اور ہزاروں احادیث ِنبویہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور اس 'جہاد' کے فضائل، احکام، مسائل اور مقصدیت پر قرآن و سنت میں پورے اہتمام کے ساتھ جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لئے کافروں کے خلاف میدانِ جنگ میں صف آرا ہوکر ہتھیاروں کے ساتھ ان سے معرکہ آرائی کرنا اور قتل و قتال کے ذریعے سے کفر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کی اہمیت و فضیلت پر قرآنِ کریم اور سنت ِنبوی کی سینکڑوں تصریحات گواہ ہیں اور اس کو آج کے دور میں اس وجہ سے سب سے زیادہ تنقید و اعتراض کانشانہ بنایا جارہا ہے کہ جدید عقل و دانش کے نزدیک عقیدہ ومذہب کے فروغ اور غلبہ کے لئے ہتھیار اُٹھانا تہذیب و تمدن کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنا بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے۔2

جہاد ہر دور میں تھا اور ہمیشہ جاری رہے گا

اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عقیدہ و مذہب کے لئے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لئے عسکری جنگ لڑنے کا آغاز حضرت محمد رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا بلکہ جہاد کا یہ عمل آسمانی ادیان میں پہلے سے تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اُسلوب کا اضافہ کرنے کی بجائے آسمانی مذاہب کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا ہے چنانچہ جس طرح قرآنِ کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے، اسی طرح بائبل میں بھی ان مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لئے لڑیں۔ مثال کے طور پر قرآنِ کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورة البقرة میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو 'ساؤل' بادشاہ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔

اس لئے اگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف صرف قرآنِ کریم اور جنابِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی نہیں بلکہ اصولی طور پر بائبل اور بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کی پوری تاریخ اس کی زد میں ہے ، صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ بائبل کے ماننے والوں نے بائبل پرایمان کے باوجود اس کے عملی احکام اور ماضی سے دستبرداری کا اعلان کردیا ہے جبکہ قرآنِ کریم پر ایمان رکھنے والے تمام تر عملی کمزوریوں کے باوجود اپنے ماضی اور قرآنی احکام و تعلیمات سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اس وضاحت کے بعد جہاد کی مقصدیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہا دکا مقصد جنابِ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے 'اعلاء کلمة اللہ' قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جس کا مطلب عملی طور پر یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں حکم اور قانون کا درجہ انسانی خواہشات اور ظن و گمان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آسمانی تعلیمات کو حاصل ہونا چاہئے اور کلمة اللہ کی اسی سربلندی کے لئے قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانی مذاہب کی ان دینی معرکہ آرائیوں کے تسلسل کو باقی رکھا ہے تاکہ کسی دور میں بھی انسانی خواہشات اور عقل و گمان کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر غلبہ حاصل نہ ہونے پائے اور انسانی سوسائٹی پراللہ تعالیٰ کے احکام کی عملداری کے جس مشن کے لئے حضرات انبیاءِ کرام مبعوث ہوتے رہے ہیں، اس میں تعطل واقع نہ ہو چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ارشادِ مبارک میں یہ کہہ کر اس جدوجہد کے قیامت تک جاری رہنے کا اعلان فرما دیا ہے کہ : «الجهاد ماض إلی يوم القيامة»3

جنگ وجدل کے لئے دورِ حاضر کی خوشنما توجیہات

یہ فکر و فلسفہ کی جنگ ہے، اسلوب زندگی کی معرکہ آرائی ہے اور تہذیب و ثقافت کا محاذ ہے جس میں شروع سے آسمانی مذاہب کا یہ موقف رہا ہے اور اب آسمانی مذاہب و ادیان کے حقیقی وارث کی حیثیت سے اسلام کا موقف بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہنمائی اور اس کے مسائل کے حل کے لئے انسانی خواہشات اور عقل و دانش تنہا کفایت نہیں کرتیں بلکہ ان پر آسمانی تعلیمات کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ اس 'چیک اینڈ بیلنس' (Check & Balance) کے بغیر انسانی خواہشات اور انسانی عقل کے لئے پوری نسل انسانی کی ضروریات و مفادات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہے لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تہذیب ِجدید نے آسمانی تعلیمات سے دستبرداری کا اعلان کرکے خواہشات اور عقل ہی کو تمام اُمور کی فائنل اتھارٹی قرار دے رکھا ہے جس سے توازن بگڑ گیا ہے، اجتماعی اخلاقیات دم توڑ گئی ہیں، طاقت کا بے لگام گھوڑا وحی الٰہی کی لگام سے آزاد ہوگیا ہے اور پوری دنیا میں ہر طرف 'جنگل کے قانون' (Might is Right) کا دور دورہ ہے۔

آج کی جدید دانش نے چونکہ مذاہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرکے شخصی زندگی کے دائروں میں محدود کردیا ہے، اس لئے عقل جدید کے نزدیک مذہب کو وہ مقام حاصل نہیں رہا کہ اس کے لئے ہتھیار اٹھائے جائیں اور اس کے فروغ و تنفیذ کے لئے عسکری قوت کو استعمال میں لایا جائے، ورنہ ہتھیار تو آج بھی موجود ہیں اور جتنے ہتھیار آج پائے جاتے اور تیار ہورہے ہیں، انسانی تاریخ میں اس سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے۔ یہ ہتھیار استعمال بھی ہوتے ہیں اور وہ ایسی تباہی لاتے ہیں کہ اس سے قبل انسانی تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے مگر ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے والوں کے مقاصد اور عنوانات مختلف ہیں :

...٭ جرمنی نے 'جرمن نسل کی برتری' کے عنوان سے ہتھیار بنائے اور دو عظیم جنگوں میں پوری دنیا کے لئے تباہی کا سامان فراہم کیا۔

...٭ روس نے 'محنت کشوں کی طبقاتی بالا دستی' کے نام پر عسکری قوت کا بے تحاشا استعمال کیا اور نسل انسانی کے ایک بڑے حصے کو تہہ تیغ کردیا۔

...٭ اسرائیل ایک 'نسلی مذہب کی برتری' کے لئے اپنے سائز سے سینکڑوں گنا زیادہ ہتھیار جمع کئے ہوئے ہے اور فلسطینیوں کی مسلسل نسل کشی (Genocide) میں مصروف ہے۔

...٭ اور امریکہ نے 'مغرب کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ' کے نام پر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر نسلی برتری ، طبقاتی بالادستی اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھانا اور صرف اُٹھانا نہیں بلکہ اسے وحشیانہ اندا زمیں اندھا دھند استعمال کرکے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا دہشت گردی نہیں ہے تو 'آسمانی تعلیمات کے فروغ اور وحی الٰہی کی بالادستی' کے لئے ہتھیار اٹھانے کو کون سے قانون اور ا خلاقیات کے تحت دہشت گردی قرار دیا جارہا ہے؟

تبصرہ: باقی تمام پہلوؤں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آج کی معروضی صورت حال (Scenario) میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے طرزِعمل کا جائزہ لے لیں کہ افغانستان اور دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں اسلام کے اجتماعی نظام کے نفاذ کا نام لینے والوں کے خلاف 'عالمی اتحاد' کے پرچم تلے جو وحشیانہ فوج کشی جاری ہے، اس کے جواز میں اس کے علاوہ اب تک کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی کہ اسلام کا نام لینے والے ان مبینہ انتہا پسندوں سے آج کی عالمی تہذیب کو خطرہ ہے۔ بالادست (Dominant) ثقافت کو خطرہ ہے اور بین الاقوامی نظام کو خطرہ ہے، اس لئے ان انتہا پسندوں کا خاتمہ ضروری ہے اور ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ عقیدہ و مذہب کے لئے ہتھیار اٹھانے کو 'دہشت گردی' کہنے والے خود ایک مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے میدانِ جنگ میں مسلسل صف آرا ہیں۔

میری اس گزارش کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایک عقیدہ، فلسفہ اور تہذیب کے تحفظ کے لئے ہتھیار اٹھانے اور اسے بے دریغ استعمال کرنے کا ایک فریق کو حق حاصل ہے تو اس کے خلاف دوسرے عقیدہ، فلسفہ اور تہذیب کے علمبرداروں کو ہتھیار اٹھانے کے حق سے کس طرح محروم نہیں کیا جاسکتا...!

اور ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کے لئے یہ کوئی وجہ جواز (Excuse) نہیں ہے کہ چونکہ ایک فریق کے پاس ہتھیار بنانے کی صلاحیت زیادہ ہے اور اسے ان ہتھیاروں کے استعمال کے مواقع زیادہ میسر ہیں ، اس لئے اسے تو ہتھیار بنانے اور چلانے کا حق حاصل ہے اور دوسرا فریق اس صلاحیت میں کمزور اور ان مواقع کی فراوانی سے محروم ہے اس لئے اسے اس کا سرے سے کوئی حق نہیں ہے !!

آج امریکہ اور اس کے اتحادی ا س بات پر مطمئن ہیں کہ جو جنگ وہ لڑ رہے ہیں، وہ اعلیٰ مقاصد کی خاطر لڑی جارہی ہے، ا نسانیت کی بھلائی کی جنگ ہے اور ان کے بقول اعلیٰ ترین تہذیبی اقدار کے تحفظ کی جنگ ہے۔جنگ کی اسی مقصدیت کی وجہ سے انہیں اس عظیم جانی و مالی نقصان کی کوئی پروا نہیں ہے جو دنیا بھر میں ان کے ہاتھوں مسلسل جاری ہے۔ انسان مر رہے ہیں، عورتیں بیوہ ہورہی ہیں، بچے یتیم ہورہے ہیں، عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہورہی ہیں، ملکوں اور قوموں کی معیشتیں تباہ ہورہی ہیں اور امن و امان کا توازن مسلسل بگڑتا چلا جارہا ہے لیکن ایسا کرنے والے چونکہ اپنے زعم کے مطابق یہ سب کچھ اعلیٰ مقاصد کے لئے کررہے ہیں اور ان اقدامات کے ذریعے سے اعلیٰ تہذیب و ثقافت کا تحفظ کررہے ہیں، اس لئے ان کے خیال میں یہ سب کچھ جائز ہے اور جنگ کا حصہ ہے جسے کسی چون و چرا کے بغیر پوری نسل انسانی کو برداشت کرنا چاہئے۔

یہی بات اسلام کہتا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نسل انسانی کے لئے نجات کا راستہ انسانی خواہشات اور صرف انسانی عقل نہیں ہے بلکہ وحی الٰہی کی نگرانی اور آسمانی تعلیمات کی برتری انسانی سوسائٹی کے لئے ضروری ہے اور اسلام کے نزدیک انسانیت کی اعلیٰ اقدار اور تہذیبی روایات کا سرچشمہ انسانی خواہشات اور عقل محض نہیں بلکہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات ہیں، اس لئے ایک مسلمان اگر ان مقاصد کے لئے ہتھیار اُٹھاتا ہے تو دنیا کی مسلمہ روایات اور تاریخی عمل کی روشنی میں اسے یہ کہہ کر اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا کہ مخالف فریق کے نزدیک اس کا یہ عمل دہشت گردی قرار پاگیا ہے۔

اس اُصولی وضاحت کے بعد قرآن و سنت کی رو سے جہاد کی چند عملی صورتوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں:

جہاد ... اعلانیہ اور پوشیدہ ، ہرانداز سے

قرآنِ کریم نے بنی اسرائیل کے حوالے سے جہاد کے ایک حکم کا تذکرہ سورة المائدہ میں کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے چنگل سے بنی اسرائیل کونکال کر صحرائے سینا میں خیمہ زن ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو حکم ملا کہ وہ 'بیت المقدس'کو عمالقہ سے آزاد کرنے کے لئے جہاد کریں اورآگے بڑھ کر حملہ آور ہوں مگر غلامی کے دائرے سے تازہ تازہ نکلنے والی مرعوب قوم کو اس کا حوصلہ نہ ہوا اور پھر اس کے چالیس سال بعد بنی اسرائیل کی نئی نسل نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جنگ لڑکر بیت المقدس کوآزاد کرایا۔

قرآنِ کریم نے بنی اسرائیل ہی کے حوالے سے ایک اور جہاد کا تذکرہ کیا ہے جس کا حوالہ ہم پہلے بھی دے چکے ہیں کہ جالوت نامی ظالم بادشاہ نے فلسطین کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کرکے بنی اسرائیل کو مظالم کا شکار بنانا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت سموئیل علیہ السلام کے حکم پر طالوت بادشاہ کی قیادت میں بنی اسرائیل کی مٹھی بھر (Handful) جماعت نے جالوت کا مقابلہ کیا اور اسے میدانِ جنگ میں شکست دے کر فلسطین کے علاقے آزاد کرائے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کفارِ مکہ کے خلاف پہلے بڑے معرکے کی قیادت بدر کے میدان میں کی اور قریش کو شکست دے کر شاندار کامیابی حاصل کی۔ یہ جنگ قریش مکہ کے ان عزائم پر ضرب لگانے کے لئے بپا ہوئی تھی جو وہ اسلام کوختم کرنے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کو ناکام بنانے کے لئے اختیار کئے ہوئے تھے۔ اس کے بعد 'اُحد' اور 'احزاب' کی جنگیں بھی اسی پس منظر میں تھیں اور ا س کشمکش کا خاتمہ اس وقت ہوا جب نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۸ ہجری میں خود پیش قدمی کرکے مکہ مکرمہ پرقبضہ کرلیا۔

یہودِ مدینہ کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن و امان کے ماحول میں وقت بسر کرنے کی کوشش کی لیکن یہودیوں کی سازشوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ رہا توجناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے سب سے بڑے مرکز (Stronghold) خیبر پر حملہ آور ہوکر اسے فتح کرلیا اور یہود کا زور توڑ دیا۔

قیصر روم کے باج گذاروں نے مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور یہ خبر ملی کہ خود قیصر روم مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری کررہا ہے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں اس کا انتظار کرنے کے بجائے شام کی سرحد کی طرف پیش قدمی کی اور تبوک میں ایک ماہ قیام کرکے رومی فوجوں کا انتظار کرنے کے بعد وہاں سے واپس تشریف لائے۔

یہ تو چند کھلی جنگیں ہیں جو علانیہ لڑی گئیں تھیں، ان سے ہٹ کر ایسی متعدد کاروائیاں بھی سیرت النبی کے ریکارڈ میں ملتی ہیں جنہیں چھاپہ مار کاروائیوں (Ambush) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

...٭ مدینہ منورہ کے ایک سازشی یہودی سردار کعب بن اشرف کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما پر حضرت محمد بن مسلمہ  اور ان کے رفقا نے شب خون مار کر قتل کیا۔

...٭ خیبر کے نواح کے ایک اور سازشی یہودی سردار ابورافع کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر حضرت عبداللہ بن عتیک نے اسی قسم کی چھاپہ مار کاروائی کے ذریعے سے قتل کیا۔

...٭ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں یمن کے اسلامی صوبہ پر ایک نئے مدعی نبوت اسود عنسی نے قبضہ کرکے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ گورنر کو شہید کردیا اور اسلامی ریاست کے عمال کو یمن چھوڑنے پر مجبور کردیا تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما پر حضرت فیروز دیلمی اور ان کے رفقا نے چھاپہ مار کاروائی کرکے اسودعنسی کو رات کی تاریکی میں قتل کیا اور یمن پر اسلامی اقتدار کا پرچم دوبارہ لہرا دیا۔

...٭ صلح حدیبیہ میں قریش مکہ کی بعض ناجائز اور یک طرفہ شرائط کے خلاف دباؤ ڈالنے کے لئے حضرت ابوبصیر اور حضرت ابوجندل نے سمندر کے کنارے ایک باقاعدہ چھاپہ مار کیمپ قائم کیا اور قریش کا شام کی طرف تجارت کا راستہ غیر محفوظ بنا دیا جس سے مجبور ہوکر قریش کو صلح حدیبیہ کے معاہدے میں شامل اپنی یک طرفہ شرائط واپس لینا پڑیں اور ابو بصیر کی چھاپہ مار کاروائیوں سے تنگ آکر قریش کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ گفتگو کرنا پڑی۔

جہاد... زندگی کے ہر محاذ پر!

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ جنگ میں دشمن کے مقابلے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے محاذ پر بھی کفار کے خلاف صف آرائی کی، چنانچہ غزوہٴ احزاب کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ایک اجتماع میں باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا کہ اب قریش مکہ کو مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کی جرأت نہیں ہوگی لیکن اب وہ زبان کی جنگ لڑیں گے اور مسلمانوں کے خلاف پورے عرب میں پراپیگنڈے اور منافرت انگیزی کا بازار گرم کریں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر شعر و خطابت سے تعلق رکھنے والے صحابہ کر ام کو میدان میں آنے کی ترغیب دی، چنانچہ حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبداللہ بن رواحہ  اور حضرت کعب بن مالک نے کھلے بندوں اعلان کرکے یہ محاذ سنبھالا اور شعر و شاعری کے محاذ پر کفار کے حملوں کا پوری جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا۔

زیادہ تفصیلات کا موقع نہیں ہے لیکن ان گزارشات سے اتنی بات ضرور سامنے آگئی ہوگی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی سربلندی اور اُمت ِمسلمہ کے تحفظ و استحکام کے لئے موقع و محل کی مناسبت سے جنگ کی ہرممکنہ صورت ا ختیار کی اور محاذ آرائی کے جس اسلوب نے بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنا چیلنج رکھا، اسے جواب میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

چھاپہ مار کاروائیاں

آج کے حالات میں جہاد کے حوالے سے دو سوال عام طور پر کئے جاتے ہیں: ایک یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان مجاہدین کی چھاپہ مار کاروائیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور کیا کسی علاقے میں جہاد کے لئے ایک اسلامی حکومت کا وجود اور ا س کی اجازت ضروری نہیں ہے؟

اس کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں حضرت ابوبصیر کا کیمپ اور حضرت فیروز دیلمی کی چھاپہ مار کاروائی ہمارے سامنے واضح مثال کے طور پر موجود ہے۔ حضرت ابو بصیر نے اپنا کیمپ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے قائم نہیں کیا تھا لیکن جب یہ کیمپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس کے نتائج کو قبول کیا بلکہ قریش کی طرف سے یک طرفہ شرائط سے دست برداری کے بعد اس کیمپ کے مجاہدین کو باعزت طور پر واپس بلا لیا۔4

اسی طرح یمن پر اسود عنسی کا غیر اسلامی اقتدار قائم ہونے کے بعد جناب نبی اکرم ا نے مدینہ منورہ سے فوج بھیج کر لشکر کشی نہیں کی بلکہ یمن کے اندر مسلمانوں کو بغاوت کرنے کا حکم دیا اور اسی بغاوت کی عملی شکل وہ چھاپہ مار کاروائی تھی جس کے نتیجے میں اسود عنسی قتل ہوا۔

مسلم اقلیتوں کی جہاد میں شرکت ؟

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جہاد شرعی فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے تو جو مسلمان غیرمسلم اکثریت کے ملکوں میں اقلیت (Minority) کے طور پر رہتے ہیں، ان کی ذمہ داری کیا ہے اور کیا ان کے لئے جہاد میں شمولیت ضروری نہیں ہے؟5

اس کے جواب میں دو واقعات کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ غزوئہ بدر کے موقع پر حضرت حذیفہ بن یمان اور ان کے والد محترم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ کی خدمت میں جہاد میں شمولیت کے لئے حاضر ہورہے تھے کہ راستے میں کفار کے ایک گروہ نے گرفتار کرلیا اور اس شرط پر انہوں نے ہمیں رہا کیا ہے کہ ہم ان کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کے ساتھ مل کر حصہ نہیں لیں گے۔اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر انہیں بدر کے معرکے میں شریک ہونے سے روک دیا کہ اگر تم نے اس بات کا وعدہ کرلیا ہے تو اس وعدہ کی پاسداری تم پر لازم ہے چنانچہ حضرت حذیفہ اور ان کے والد ِمحترم موجود ہوتے ہوئے بھی بدر کے معرکے میں مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے سکے تھے۔

اسی طرح حضرت سلمان فارسی نے اس وقت اسلام قبول کیا تھا، جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبا میں قیام فرما تھے اور ابھی مدینہ منورہ نہیں پہنچے تھے لیکن حضرت سلمان فارسی کا ذکر نہ بدر کے مجاہدین میں ملتا ہے اور نہ وہ اُحد ہی میں شریک ہوسکے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت آزاد نہیں تھے بلکہ ایک یہودی کے غلام تھے چنانچہ غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ان کی شمولیت جس پہلے غزوہ میں ہوئی، وہ احزاب کا معرکہ ہے۔

ا س کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کے معروضی حالات اور ان کی مجبوریوں کا لحاظ رکھا ہے۔ اس لئے جو مسلمان غیر مسلم اکثریت کے ملکوں میں رہتے ہیں اور ان کے ان ریاستوں کے ساتھ وفاداری کے معاہدات موجود ہیں، ان کے لئے ان معاہدات کی پاسداری لازمی ہے، البتہ اپنے ملکوں کے قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد ، ہمدردی اور خیر خواہی کے لئے وہ جو کچھ بھی کرسکتے ہیں، وہ ان کی دینی ذمہ داری ہے اور اس میں انہیں کسی درجے میں بھی کوتاہی روا نہیں رکھنی چاہئے۔

گذشتہ سال (۲۰۰۱ء) افغانستان پر امریکی حملے کے موقع پر میں برطانیہ میں تھا۔ مجھ سے وہاں کے بہت سے مسلمانوں نے دریافت کیا کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کویہودیوں کی پیروی کرنا چاہئے اور ان سے کام کا طریقہ سیکھنا چاہئے کیونکہ یہودی ان ممالک میں رہتے ہوئے جو کچھ یہودیت کے عالمی غلبہ اور اسرائیل کے تحفظ و دفاع کے لئے کررہے ہیں، اسلام کے غلبہ اور مظلوم مسلمانوں کے دفاع کے لئے وہ سب کچھ کرنا مسلمانوں کا بھی حق ہے مگر یہ کام طریقہ اور ترتیب کے ساتھ ہونا چاہئے اور جن ملکوں میں مسلمان رہ رہے ہیں، ان کے ساتھ اپنے معاہدات اور کمٹ منٹ کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنا چاہئے۔

آج دنیا کی عمومی صورتِ حال پھر اس سطح پر آگئی ہے کہ خواہشات اور محدود عقل پرستی نے ہر طرف ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور آسمانی تعلیمات کا نام لینے کو جرم قرار دیا جارہا ہے۔ آج کی اجتماعی عقل نے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت سے انکار کرکے حاکمیت ِمطلقہ کامنصب خود سنبھال لیا ہے اور وحی الٰہی سے راہنمائی حاصل کرنے کے بجائے اس کے نشانات و اثرات کو ختم کرنے کی ہر سطح پر کوشش ہورہی ہے۔ اس فضا میں 'اعلاء کلمة اللہ' کا پرچم پھر سے بلند کرنا اگرچہ مشکل بلکہ مشکل تر دکھائی دیتا ہے لیکن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و سیرت کا تقاضا یہی ہے کہ نسل انسانی کو خواہشات کی غلامی اور عقل محض کی پیروی کے فریب سے نکالا جائے اور اسے آسمانی تعلیمات کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلاتے ہوئے وحی الٰہی کی ہدایات کے دائرے میں لانے کی کوشش کی جائے۔

اس کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان جس مظلومیت اور کسمپرسی کے عالم میں ظالم اور متسلط قوتوں کی چیرہ دستیوں کا شکار ہیں اور انہیں جس بے رحمی اور سنگ دلی کے ساتھ ان کے مذہبی تشخص کے ساتھ ساتھ قومی آزادی اور علاقائی خود مختاری (Territorial Independence) سے محروم کیاجارہا ہے اس کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا اور ان مظلوم مسلمانوں کو ظلم و جبر کے ماحول سے نجات دلانے کے لئے جو کچھ ممکن ہو کر گزرنا، یہ بھی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ارشادات کا ایک اہم حصہ ہے جس سے صرفِ نظر کرکے ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔

ان دو عظیم تر ملی مقاصد کے لئے جدوجہد کے مختلف شعبے ہیں۔ فکر و فلسفہ کا میدان ہے، میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جولانگاہ ہے، تہذیب و ثقافت کا محاذ ہے، تعلیم و تربیت کا دائرہ ہے، لابنگ اور سفارت کاری کا شعبہ ہے اور عسکری صلاحیت کے ساتھ ہتھیاروں کی معرکہ آرائی ہے۔ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے شعبے اور اعلاء کلمہ اللہ کے ناگزیر تقاضے ہیں۔ اس لئے آج کے دور میں 'سنت ِنبوی کی روشنی میں جہاد کا مفہوم' یہ ہے کہ :

...٭ نسل انسانی کو خواہشات کی غلامی اور عقل محض کی پیروی سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور آسمانی تعلیمات کی عمل داری کی طرف لانے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کی جائے۔

...٭ اسلام کی دعوت اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو نسل انسانی کے ہر فرد تک پہنچانے اور اس کی ذہنی سطح کے مطابق اسے دعوتِ اسلام کامقصد و افادیت سمجھانے کااہتمام کیا جائے۔

...٭ ملت ِاسلامیہ کو فکری وحدت ، سیاسی مرکزیت، معاشی خود کفالت، ٹیکنالوجی کی مہارت اور عسکری قوت و صلاحیت کی فراہمی کے لئے بھرپور وسائل اور توانائیاں بروئے کار لائی جائیں۔

...٭ مسلمان کو صحیح معنوں میں مسلمان بنانے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کے اخلاق و کردار کی تعمیر کے لئے تگ و دو کی جائے نیز دینی تعلیم و تربیت کے نظام کو ہر سطح پر مربوط ومنظم کیا جائے۔

...٭مظلوم مسلمانوں کو ظلم وجبر سے نجات دلانے اور ان کے دینی تشخص اور علاقائی خود مختاری کی بحالی کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کی جائے۔

...٭مسلم ممالک میں قرآن وسنت کی عمل داری اور شرعی نظام کے نفاذ کی راہ ہموار کر کے تمام مسلم ملکوں کو عالمی سطح پر کنفیڈریشن کی صورت میں خلافت اسلامیہ قائم کرنے پر آمادہ کیا جائے۔

...٭دینی جذبہ وغیرت کے تحت ظالموں کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں ہتھیار اٹھانے والے مجاہدین کو عالمی استعمار کے ہاتھوں ذبح کرانے اور ان کے قتل عام پر خوش ہونے کے بجائے ان کو بچانے کی کوشش کی جائے اور اس عظیم قوت کو ضائع ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کی خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرتے ہوئے انہیں ملت اِسلامیہ کے لیے حقیقی معنوں میں ایک کار آمد قوت بنانے کی راہ نکالی جائے۔

...٭اسلامی تعلیمات ،قرآن وسنت کے قوانین اور جہاد کے بارے میں عالمی استعمار اور مغربی تہذیب کے علم برداروں کے یک طرفہ اور معاندانہ پروپیگنڈے سے متاثر ومرعوب ہونے کے بجائے اس کو مسترد کیا جائے اور دلیل ومنطق کے ساتھ اسلامی احکام اور جہاد کی ضرورت وافادیت سے دنیا کو روشناس کرایا جائے۔

یہ کام دراصل مسلم حکومتوں کے کرنے کے ہیں اور انہیں او آئی سی کے عملی ایجنڈے کا حصہ ہونا چاہئے لیکن ا گر دینی مراکز اور اسلامی تحریکات بھی باہمی ربط ومشاورت کے ساتھ ان مقاصد کے لیے مشترکہ پیش رفت کا اہتمام کر سکیں تو حالات کو خاصا بہتر بنایا جا سکتا ہے۔


نوٹ

1.  قرآن وحدیث میں جس طرح بہت سے مقامات پر 'جہاد' قتال فی سبیل اللہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کلمہ کی سربلندی کی غرض سے واقعتا غالب آنے کی ہرکوشش 'مقدس جہاد' کی قسم ہے۔ لیکن کتاب وسنت میں 'جہاد' جنگ کے علاوہ تحفظ دین کی دوسری مساعی پر بھی جابجا بولا گیا ہے، بالخصوص منافقین سے جہاد کی بیشتر صورتیں بلاسیف ہیں، اسی طرح ہجرت سے پہلے مکی سورتوں میں 'جہاد' کا ذکر قطعاً جنگ کے معنی میں نہیں آیا۔ (محدث)

2.  جہادکے مقصد کی مذکورہ تعبیر اسلام میں جہاد کی ضرورت کی حد تک تو درست ہے لیکن اگر اس عبارت سے کوئی عسکریت پسند یہ کشید کرے کہ اسلام ایک عسکری دین (Militant Religion) ہے تو یہ تعبیر غلط ہوگی۔ ا سلام امن و امان کا علمبردار مذہب ہے اور اپنی تعلیمات کی روشنی میں فرد و معاشرہ کی سلامتی کا ضامن بھی، اسی لئے جنگ ِقادسیہ کے فاتح حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے نمائندہ رِبعی ؒبن عامر کا رستم کے دربار میں یہ قول سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے :

(گذشتہ) ''واللہ جاء بنا لنخرج العباد من عبادة العباد إلی عبادة اللہ'' '' اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ تعالیٰ ہمیں (تمہارے خلاف اس لئے چڑھا) لایا ہے کہ ہم تمام بندگانِ خدا کو بندوں کی غلامی سے نکال کر خدائے واحد کی غلامی میں لے جائیں۔'' (تاریخ طبری، تاریخ ابن کثیر وغیرہ)

حضرت عمر ؓ کا عمرو بن العاص کے بیٹے کی طرف سے زیادتی پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ فرمانا: ولدتهم أمهاتهم أحرارا... ''ان کی مائوں نے انہیں آزاد جنم دیا تھا ، تم نے کب سے انہیں غلام بنا لیا۔'' سے بھی واضح ہوتا ہے کہ بلاوجہ کسی کو غلام نہیں بنایا جاسکتا۔ اسلامی حکومتوں کے اندر تمام ذمی اور مستامن کفار غلام نہیں ہوتے۔

اس سے ثابت ہوا کہ اسلام کا مقصد اِن معنوں میں جہانبانی اور جہانگیری نہیں ہے کہ لوگوں کو جبراً اسلام میں داخل کیا جائے بلکہ جنگ کا مقصد بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالنا ہے۔ جہاں تک اللہ کی بندگی میں لانے کا مسئلہ ہے اس کے بارے میں اسلام دعوت و تبلیغ کا طریق کاراختیار کرتا ہے...

اس مسئلہ کو یوں بھی واضح کیا جاسکتا ہے کہ اسلام عقیدہ ومذہب کے بارے میں دنیاوی زندگی کی حد تک کافر کو بھی اسی طرح آزادی دیتا ہے جس طرح ایک شخص کو اسلام میں آنے اور مسلمان رہنے کی پوری آزادی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسلام تشدد اور دھمکی سے مسلمان بنانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اسلام کی غلط تعبیر ہے جوسوئِ فہمی کا نتیجہ ہے !! (محدث)

3.  دین اسلام میں جس طرح قتال دفاعِ دین کے لئے ہوتا ہے، اسی طرح کافرانہ معاشروں میں قائم ظلم و عدوان کے خاتمے کے لئے بھی ہوتا ہے جس کی ایک سرکاری صورت 'اقدامی قتال' ہے۔ عہد ِرسالت میں جنگ ِخندق کے بعد اقدامی قتال کی متعدد مثالیں موجود ہیں، تاہم اقدامی قتال اجتماعی امور کے باب کاحصہ ہے۔ سیکولر طبقہ اسے اس لئے نہیں مانتا کہ اس کے نزدیک دین کا 'اجتماعیات' میں کوئی دخل نہیں ہے چنانچہ مولانا زاہد الراشدی آئندہ سطور میں خود یہی بحث کررہے ہیں۔ حضرت موصوف کا یہ موقف قابل تحسین ہے۔ (محدث)

4.  یہ درست ہے کہ ابوجندلؓ، ابوبصیرؓ اور ان کے ساتھیوں کی کارروائیوں سے بالآخر مسلمانوں کو بڑے فوائد حاصل ہوئے لیکن ان کی کارروائیوں کو غیر مشروط طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید سے مزین کرنا محل نظر ہے، کیونکہ آپؐ کا ابوبصیر ؓکے متعلق یہ ارشاد کہ : ویل أمه، مُسعر حرب لوکان له أحد (صحیح بخاری:۲۷۳۲)

''اس کی ماں کی بربادی ہو، یہ تو جنگ کی آگ بھڑکا دے گا... کاش! اسے کوئی سمجھانے والا ہو۔''

سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اس کے فعل قتل کو' کلی طورپر' پسند نہیں کیا۔ (محدث)

5.  فاضل موصوف نے مسلم اقلیتوں کے جہاد میں شمولیت اختیار کرنے کے حوالے سے یہ بڑی مناسب بات پیش کی ہے کہ ایسے مسلمان بھی دامے درمے اور سخنے اپنے علاقوں میں اپنی حکومتوں کے معاہدات کے دائرے میں رہتے ہوئے دیگر مظلوم مسلمانوں سے ہر طرح کا تعاون جاری رکھیں۔ لیکن اس سلسلہ میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اسلام اور مسلمان دنیا میں غیر اسلامی عقائد و نظریات کے حامل یا کافرانہ جبر و تسلط کے تحت ابدی طور پر مصالحت و مداہنت کے ساتھ رہنے کے لیے نہیں ہیں بلکہ غیر اسلامی اور وضعی قوانین کے خلاف جدوجہد حتیٰ المقدور ہر مسلمان پر فرض ہے حتیٰ کہ جب مسلم اقلیتوں کو اجتماعی طور پر کسی کامیاب تدبیر سے اپنی کافر حکومتوں کے خلاف خروج کا یقین واعتماد ہو جائے تو ایسے حالات میں کافرانہ تسلط کے خلاف جہاد بالسیف بھی فرض ہو جاتا ہے۔

بلکہ اگر کوئی نام نہاد مسلم حکمران اسلام کے نام پر کافرانہ نظام کو مسلط کرنے کی کوشش کرے اور اسلامی تعلیمات پر آزادانہ عمل پیرا ہونے میں رکاوٹیں کھڑی کرے تو ایسے حکمران کے خلاف جہاد کی پیش آمدہ کسی مناسب صورت کی بھی اسلام تجویز پیش کرتاہے جس کی تفصیلات فقہ کی کتابوں میں موجود ہیں۔لہٰذا جب اسلام ایسی نام نہاد مسلم حکومت کی بھی جہاد کے ذریعے اصلاح پر زور دیتا ہے تو پھر خالصتاً کافرانہ حکومتوں کے تحت ابدا لاباد راضی و مطیع بن کر رہنے اور اس نظام و حکومت کے خلاف جدوجہد سے ہاتھ کھینچنے کو کیسے پسند کرسکتا ہے؟

جو لوگ حکمرانوں کے خلاف ہر قسم کے خروج کی نفی پر مصر ہیں، انہیں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد پیش نظر رکھنا چاہیے :

«ما من نبي بعثه اللہ في أمة قبلي إلا کان له من أمته حواریون وأصحاب یأخذون بسنته ویقتدون بأمرہ، ثم إنھا تخلف من بعدھم خلوف یقولون مالا یفعلون ویفعلون ما لا یؤمرون، فمن جاھدھم بیدہ فھومؤمن ومن جاھدھم بلسانه فھو مؤمن ومن جاھدھم بقلبه فھو مؤمن و لیس وراء ذلك من الایمان حبة خردل» (مسلم، کتاب الایمان: رقم۵۰)

''مجھ سے پہلے ہر امت میں اللہ تعالیٰ نے جب کسی نبی کو مبعوث کیا تو اس کی امت میں سے اس کے مخلص ساتھی بھی ہوا کرتے تھے جو اس نبی کے طریقے اور حکم کی اقتدا واتباع کرتے، پھر ان کے بعد ایسے (ناخلف) جانشین ہوں گے، جو ایسی باتیں کریں گے جو وہ عملاً کرنے والے نہیں اور وہ ایسے کام کریں گے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا۔ لہٰذا جو شخص ان کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جہاد کرے گا وہ مؤمن ہے او رجو ان کے ساتھ اپنی زبان سے جہاد کرے گا، وہ مؤمن ہے او رجو ان کے ساتھ اپنے دل سے جہاد کرے گا ، وہ بھی مؤمن ہے۔ اس کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔'' (یعنی جو دل سے بھی انہیں برا نہیں سمجھتے ، ان کے دلوں میں رائی برابر ایمان نہیں جیسے آج کل کے ظالم حکمرانوں کے کاسہ لیس بے ضمیر خوشامدی ہیں)

حدیث ِبالا کی رو سے غیر مسلم معاشروں میں خروج کے مسئلہ میں ہمیں معذرت خواہانہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہئے۔ (محدث)