'علما کا غیر فرقہ وارانہ قتل' اور تازہ پس منظر

سیکولرزم کی نئی لہر...ایک لمحہ فکریہ!

۲۰۰۲ء کے ماہ مارچ اور پھر ماہ مئی کے دوران وطن عزیز کی پاک سرزمین اپنے دو ایسے فرزندانِ جلیل کے لہو سے گل رنگ ہوئی جن کی شہادت نے اہل و فکر ونظر کو بے تاب وبے قرار کردیا۔ مملکت خدادادِ پاکستان میں امر ربی کے قیام اور تسلسل کا خواب دیکھنے والی آنکھیں اشک بار ہوگئیں اور اس ملک کے طول و عرض میں قرآن و سنت کی سرفرازی کا ارمان رکھنے والے دل مجروح ہوکر رہ گئے!!

پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب شہید دینی حلقوں میں ایک غیر متنازع شخصیت کے حامل تھے۔ آپ نے اپنی زندگی عربی زبان کے فروغ بذریعہ تفہیم قرآنِ کریم کے لئے وقف کررکھی تھی۔ اللہ بزرگ و برتر نے انہیں تفہیم قرآن کا ایسا اچھوتا اسلوب عطا کیا تھا جو اپنی مثال آپ تھا۔ آپ وسیع المشربی، فرقہ واریت سے بریت اور مذہبی رواداری کی علامت تھے۔ آپ کے قائم کئے ہوئے درسِ قرآن کا سفر چراغ در چراغ پھیلتا چلا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پچاس سے زائد مقامات پر یہ روشنی مستقل طور پر جگمگانے لگی۔

۱۹/ مارچ ۲۰۰۲ء کو آپ حسب ِ معمول اپنے سننے والوں کے قلوب کو نورِ قرآن سے روشن کرنے کے لئے صبح سات بج کر بیس منٹ پر اے جی آفس کے اندرونی دروازے پر گاڑی سے اُترے۔ ابھی چند ہی قدم اپنی منزل کی جانب اُٹھا پائے تھے کہ دو اجنبی نوجوانوں نے ان پر گولیوں کی بارش کردی۔ گولیوں نے آپ کے سرکو بھی نشانہ بنایا۔ جس کی وجہ سے آپ کی زندگی کا چراغ موقع پر گل ہوگیا۔ اس کے بعد قاتلوں نے پروفیسر صاحب کے ڈرائیو شیراز پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ اس طرح یہ لمحہ شیراز کی زندگی کا بھی آخری لمحہ ثابت ہوا۔

ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک شہید کی دل نواز شخصیت، پاکستان اور پاکستان سے باہر اسلام پسند حلقوں کے لئے ہمیشہ محبوب و مقبول رہی۔ آپ فلسفہ اسلام اور سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں پیچیدہ دینی سوالات کا جواب آسان الفاظ اور اس دل نشین انداز میں دیا کرتے تھے کہ سننے اور دیکھنے والے ان کے گرویدہ ہوجایا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک عرصہ تک ٹیلی ویژن پر قرآن و حدیث پر مبنی پروگرام اس حسن و سلیقے سے پیش کئے کہ کروڑوں اسلامیانِ عالم کی دلوں کی دھڑکن بن گئے۔ ان کی اگلی منزل ایک بین الاقوامی اسلامی ٹی وی چینل کا قیام تھا۔ جس کے ذریعے وہ دنیا بھر کو اسلام کی روشنی سے منور کرنا چاہتے تھے۔

۷/ مئی ۲۰۰۲ء کی ایک شام کو انہیں فون کرکے بلایا گیا اور ایک قطعہ اراضی، دینی مدرسے کے لئے، ان کے ذریعے مخصو ص کرنے کی پیش کش کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب ڈرائیور کے ہمراہ گھر سے روانہ ہوئے، مہران بلاک علامہ اقبال ٹاؤن ان کا مقتل ٹھہر چکا تھا۔ اس مقام پر دو دہشت گرد موٹر سائیکل سواروں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے اس ممتاز اور منفرد عالم دین کو شہید کردیا۔ ان کے ڈرائیور اعجاز کو بھی اسی انداز میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

دونوں وارداتوں کے فوراً بعد سارے شہر کو سیل کردیا گیا لیکن قاتل بھری آبادیوں میں ایک ایک تیسرا قتل کرنے کے بعد روپوش ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس نے روایتی انداز میں بہت سے زاویوں سے ان وارداتوں کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔ ماہرین سے مبینہ قاتلوں کے سکیچ بنوا کر اخبارات میں شائع کروائے لیکن نتیجہ وہی نکلا جو اس طرح کے معاملات میں نکلا کرتا ہے۔ یعنی دونوں علمائے دین کے قاتلوں کو دہشت گردی کی وارداتیں قرار دے کر ان پر سرد مہری کا قفل لگا دیا گیا۔

مذکورہ بالا دونوں وارداتوں کے مماثل پہلوؤں کو سامنے رکھا جائے تو حسب ِذیل حقائق سامنے آتے ہیں :

1۔ دونوں علماے دین کو ایک ہی انداز میں قتل کیا گیا یعنی آتشیں اسلحہ سے ان کے سروں کو نشانہ بنایا گیا․

2۔ دونوں وارداتوں میں ۳۰ بور کے پسٹل استعمال کئے گئے اور تین تین افراد کو موت کے گھاٹ اتارا گیا․

3۔ دونوں وارداتیں موٹر سائیکل ہنڈا ۱۲۵ پر باریش مجرموں نے کیں اور فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

4۔ دونوں علما کی گاڑیاں چلانے والے شوفروں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا گیا۔

5۔ دونوں شہدا کا تعلق کسی سرگرم مذہبی جماعت، کسی جوشیلے گروہ، یا جہادی گروپ سے نہیں تھا۔

6۔ قتل کیلئے ایسے علماے دین کو منتخب کیا گیا جو فرقہ وارانہ تعصب سے ماورا ہونے کی شہرت رکھتے تھے․

7۔ اشاعت ِدین اور تفہیم قرآن و حدیث کے سلسلے میں ان کا ا سلوبِ بیان عام مسلمانوں کی غالب اکثریت میں مقبول و موٴثر بن کر اُبھر رہا تھا۔

8۔ دونوں کے بارے میں اب تک ایسی کوئی ٹھوس شہادت دستیاب نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر حتمی طور پر کہا جاسکے کہ انہیں ذاتی دشمنی، خاندانی رنجش، جائیداد کے تنازعے، لسانی بنیاد، سیاسی وجوہات یا پھر لین دین کے جھگڑے پر موت کا نشانہ بنایا گیا۔

دہشت گردی کے حوالے سے مختلف عوامل گنوائے جاسکتے ہیں جو ججوں، وکیلوں، صحافیوں، افسروں، ڈاکٹروں، سماجی لیڈروں اور مذہبی قائدین کی جان لینے کی بنیاد بنتے رہے ہیں۔ ججوں اور وکلا کے قتل کے پس پردہ، کرپشن اور دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت اور ان کی پیروؤں جیسے محرکات کارفرما تھے۔ حکیم سعید شہیدجیسے سماجی رہنما کو مبینہ طور پر جگا ٹیکس کی ادائیگی سے انکار اور ایک لسانی تنظیم کے جرائم سے متعلق ثبوت ہاتھ آنے پر شہید کردیا گیا۔ ایڈیٹر ہفت روزہ 'تکبیر'صلاح الدین شہید کے قلم کو حق نگاری کے جرم پر لہو میں ڈبو کر روک دیا گیا۔ پولیس اور دیگر افسران اور ڈاکٹروں کو دہشت گردوں کے مفاد کے خلاف فرائض سرانجام دینے اور تفتیشی مراحل میں ٹھوس پیش رفت کو نابود کرنے کے لئے سفاکی سے قتل کیا گیا۔ اور مذہبی راہنماؤں کو ان کے عقائد میں سخت کوشی یا استقامت کے نتیجے میں دہشت گردی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔

دہشت گردی کے ضمن میں بہت سے ایسے قتل بھی دیکھنے میں آئے جہاں قتل کے لئے باقاعدہ کسی خاص شخصیت کا انتخاب نہیں کیا گیا بلکہ محض جان کے بدلے جان والے اصول کے تحت کسی بھی ایک مکتب فکر کے دستیاب عالم دین یا ڈاکٹر، وکیل کو صرف اس لئے قتل کردیا گیا تاکہ دوسرے مکتب ِفکر کے کسی ایسے ہی مقتول کے خون کا حساب برابر کیا جاسکے۔

مولانا عطاء الرحمن ثاقب شہید اور ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک شہید کی شہاد توں کے آئینے میں مماثلتی حقائق نامے پر غور کیا جائے تو یہ بات پایہٴ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ دونوں قتل دہشت گردی کے ان جوازات پر پورے نہیں اترتے جن کا مذکورہ بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے۔ لہٰذا ان دونوں قتلوں کی ذمہ داری روایتی مذہبی دہشت گردی کے کھاتے میں نہیں ڈالی جاسکتی۔ ان اگر دونوں علماے دین کی شہادت کا عمیق نظری سے تجزیہ کیا جائے تو تحقیق و جستجو کے بہت سے نئے اُفق دعوتِ فکر دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور افکار و عوامل کا دائرہ پھیلتے پھیلتے ۱۱/ ستمبر ۲۰۰۱ء کو تباہ ہونے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے واقعہ تک جا پہنچتا ہے۔

دنیا کی خود ساختہ واحد سپر پاور امریکہ نے اپنی دھرتی پر نازل ہونے والی اس عظیم تباہی کی پلاننگ کا ذمہ دار ایک مسلمان اسامہ بن لادن کو ٹھہرایا اور بلا تحقیق یہ اعلان کیا کہ جن اُنیس نوجوانوں نے اس منصوبے کو اپنی جان دے کر کامیابی سے ہم کنار کیا، وہ بھی تمام کے تمام مسلمان تھے۔ اس کے بعد امریکہ اور اس کے غیر مسلم اتحادیوں نے بظاہر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کردیا۔ لیکن بعد کے حالات وواقعات نے ثابت کردیا کہ ان کی جنگ دراصل ایک صلیبی جنگ ہے جس کا نشانہ صرف مسلمان ممالک اور مسلمانوں کو بنایا جارہا ہے۔ عملی جنگ کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسلام کے خلاف ایک فکری جنگ کا آغاز بھی کردیا اور دولت، طاقت، پراپیگنڈے اور ذرائع ابلاغ پر وسیع دسترس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری غیر مسلم دنیا کویہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ اسلام اپنی فطرت میں ایک دہشت گرد دین ہے اور وہ مقدس کتاب جسے مسلمان دنیا کا آخری صحیفہ خیال کرتے ہیں اور اسے سینوں میں محفوظ کرنے کا جتن کرتے رہتے ہیں، درحقیقت دہشت گردی سکھانے والی کتاب ہے۔ جب تک اس کتاب میں جہاد اور اشاعت اسلام کا سبق موجود ہے اور جب تک اس سبق کو طالبانِ علم کی روح میں اتارنے والی شخصیات موجود ہیں، دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے!!

اپنی اس خود وضع کردہ تھیوری کی روشنی میں جب امریکی قیادت نے دنیا کے نقشے پر نظر ڈالی تو اسے نام نہاد دہشت گردی کی پرورش گاہ کے طور پر کام کرتے ہوئے جتنے بھی ممالک دکھائی دیئے، وہ تمام کے تمام مسلمان تھے۔ دہشت گردی کی 'بنیادی وجہ یعنی اسلام' کا تعین کرنے کے بعد امریکی تھنک ٹینک کو اس خطرے کی بیخ کنی کرنے کے لئے تجاویز مرتب کرنے کے لئے کہا گیا۔ تھنک ٹینک کے تجویز کردہ طریقوں کو امریکی طرزِ عمل اور زمینی حقائق کے حوالے سے دیکھا جائے تو عالم اسلام کو لگام ڈالنے کے لئے امریکہ اور مغربی دنیا کی مندرجہ ذیل ترجیحات سامنے آتی ہیں :

1) منتخب مسلمان ممالک کا اقتصادی، تجارتی اور سماجی ناطقہ بند کرنا۔

2) ان ممالک کی افواج کو جنگی جہازوں ، ہتھیاروں اور گولہ بارود وغیرہ کی سپلائی بند کرنا اور ان کے متحارب ممالک کو یہی سہولتیں مہیا کرنا۔

3) خودی یا عزتِ نفس کا مظاہرہ کرنے والے مسلم ممالک کو گرم جنگ اور دیگر ہر طرح کی داخلی مداخلت کے ذریعے تباہ و برباد کرنا۔ (جیسا کہ افغانستان میں کیا گیا)

4) جن مسلمان ممالک کی طرف سے آئندہ کسی 'خود سری' کا اندیشہ ہو، انہیں غیرمستحکم کرنا اور خطرئہ جنگ سے مسلسل دوچار رکھنا۔ (جیسا کہ عراق کے ساتھ ہوا اور پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے)

5) منظم فوجی طاقت کے ساتھ، مسلم حریت پسند قوتوں کی ٹھوس حمایت کرنے والے مسلمان ممالک کو حالات کے جبر میں مبتلا کرکے ان کی اقتصادی اور سیاسی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان میں اپنی افواج، ماہرین اور جاسوس ایجنسیوں کے آدمی داخل کرنا تاکہ ان کی عسکری تیاریوں اور حریت پسندی کی 'شدت' پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ( جیسا کہ آج کل پاکستان کے معاملے میں ہورہا ہے)

6) مسلمان ممالک اور ان کے دوست ممالک کے باہمی رشتہ اُخوت اور جذبہ تعاون کو کمزور کرنا۔ مسلم ریاستوں کے باہمی فروعی اختلافات کو ہوا دے کر اور ان کے دوست ممالک میں غلط فہمیاں پھیلا کر یہ مشن پورا کیا جارہا ہے۔ (پاکستان سے چین اور ایران کے تعلقات کی حالیہ سطح ا س کی ایک مثال ہے)

7) جہادی تنظیموں کو جڑ سے اکھیڑنا۔

8) دینی مدرسوں اور دوسرے مذہبی اداروں کے نصاب اور سرگرمیوں کو مانیٹر کرنا اور ان میں 'حق پسندی' کا عنصر ختم کروانے کے لئے سخت اقدامات کرنا۔ (دینی مدرسوں میں امریکی سفیروں اور اعلیٰ عہدیداروں کے دورے اسی سلسلے کی ایک مطالعاتی کڑی ہیں)

9) اسلامی ممالک میں خالص دینی جماعتوں کے اقتدار اور نظامِ حکومت کو قرآنی احکامات کے مطابق چلانے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا۔(جیسا کہ پاکستان میں قانونِ توہین رسالت، حدود قوانین، حرمت ِسود کے قانون اور وفاقی شرعی عدالت کو ختم کرنے کے لئے مغربی سرمائے سے چلنے والی این جی اوز سے کام لیاجارہا ہے)

10) اسلامی ممالک میں دینی نظام کے برعکس سیکولر نظام لانے والی قیادتوں کو اُبھارنا، جو ایک 'فرسودہ اسلام' کے بجائے ایک 'روشن خیال اور جدیدیت کے حامل ترقی پسند اسلام' کو فروغ دے سکیں۔

11) ایسے علماے دین کو منظر سے ہٹانا جو روحِ قرآنی اور تعلیمات سیرت ﷺ کو ایک دل نشین اندازمیں عوام الناس تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ایک فکری انقلاب کی طاقت سے لادینیت کا راستہ روک سکتے ہوں۔

پاکستان چونکہ واحد مسلمان ایٹمی طاقت ہے اور امت ِمسلمہ کے اتحاد کا علمبردار بھی ہے، اس کے علاوہ اپنے آئین اور قیام کے حوالے سے ملک کے اندر اسلامی نظام رائج کرنے کا پابند بھی ہے۔ اس لئے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی پاکستان میں مذکورہ بالا تمام حربوں کوبیک وقت آزما رہے ہیں۔

ان حالات میں مقصد براری کے لئے غیر جمہوری حکومتیں ہمیشہ ممدومعاون ثابت ہو تی ہیں۔ وطن عزیز میں بھی اس وقت ایک غیر جمہوری قیادت برسراقتدار ہے اور مغربی دنیا کے نظریات کے عین مطابق یہ قیادت اپنے لبرل اور ترقی پسند ہونے کے ساتھ ساتھ جدید دنیا کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کی دعویدار بھی ہے۔ لہٰذا اس سنہری موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے نادیدہ قوتیں سیکولر عناصر کو حکومتی ڈھانچے میں داخل کرنے اور سیکولر فلسفے کو مقبولِ عام بنانے کے لئے سرگرمِ عمل ہوچکی ہیں۔ بہت سے حکومتی اقدامات سے سیکولر طاقتوں کے اثر نفوذ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلے تو توہین رسالت کے قانون میں تبدیلی کرکے ایف آئی آر درج کروانے اور تفتیش کے طریقہ کار کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا گیا اگر زبردست عوامی ردّعمل سامنے نہ آتا تو یہ اعلان موٴثر قانون کی صورت اختیار کرلیتا۔

ابھی حال ہی میں حکومت نے ووٹر فارم سے مذہب کا خانہ جس میں قادیانیت کے بارے میں اقرار یا انکار بھی شامل تھا، ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ لیکن تمام مذہبی جماعتوں ، علمائے کرام اور اسلام پسند سیاست دانوں کے پرزور احتجاج اور جون کے مہینے سے سڑکوں پر تحریک کے اعلان پر حکومت نے یہ حکم نامہ واپس لے لیا۔ اور ووٹر فارم پر مذہب کے اعلان سے متعلق خانہ حسب ِسابق بحال کرنے پر مجبور ہوگئی۔ لیکن معاملات جس انداز میں چلائے جارہے ہیں۔ ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ انہی اقدامات کو کسی دوسرے انداز میں دوبارہ موٴثر بنانے کی کوششیں بھی درپردہ جاری و ساری ہیں۔

مئی کے مہینے میں 'پاکستان لاء کمیشن' کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان نے کی۔ اس اجلا س میں مسلم فیملی لاز میں تبدیلیوں کی سفارش کی گئی۔ حدود آرڈیننس کا ازسرنو جائزہ لینے اور اس میں ترمیمات تجویز کرنے کے لئے ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کے اکثر ارکان اِلحاد و تجدد کے علمبردار یا اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے والے ہیں۔

دوسری طرف بنکوں کی جانب سے سود کو حرام قرار دیئے جانے والے تاریخی فیصلے پر نظرثانی کے لئے سپریم کورٹ اپلیٹ بنچ میں درخواست دائر کروائی گئی ہے۔ جس کی سماعت جون کے دوسرے ہفتے سے شروع ہونے والی ہے۔ اسی دوران حکومت نے سود کو حرام قرار دینے والا فیصلہ تحریر کرنے والے جسٹس مولانا تقی عثمانی کو ان کے عہدے سے بغیر کوئی وجہ بتائے فارغ کردیا ہے اور بنچ کے لئے دو نئے علما ججوں جناب خالد محمود اور جناب رشید احمد جالندھری کو مقرر کردیا گیا ہے۔ ان دونوں حضرات کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک صاحب کا میدانِ مطالعہ چند فرقہ وارانہ مسائل تک محدود ہے یعنی وہ اجتماعی مسائل حیات میں کسی اسلامی تخصص کے حامل نہیں ہیں جبکہ دوسرے صاحب سیکولر بلکہ سوشلسٹ نقطہ نظر کی پذیرائی کرتے رہتے ہیں۔ ان دوسرے صاحب نے جج کا حلف لینے کے بعد ایک اخباری بیان میں بظاہر تو فرمایا ہے کہ قرآنی احکامات کے مطابق سود حرام ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ اظہار بھی کیا ہے کہ سود کی بہت سی اقسام ہیں اور یہ کہ ہر زمانے کے زمینی حقائق کی روشنی میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قوم کو اجتہاد کا حق بھی دیا ہوا ہے۔

ان اقدامات سے قطع نظر آئین میں تبدیلیوں کے معاملے کو بھی حتمی شکل دی جارہی ہے۔ شنید ہے کہ ان تبدیلیوں کے ذریعہ باقی مقاصد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عالمی تصور کو زیادہ آزاد خیال اور لبرل بنانے پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے مئی کے آخری ہفتے کے دوران ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے 'فرمایا' ہے کہ "فوج کو بیرک اور ملا کومسجد تک محدود رہنا چاہئے۔"

اس انتہائی تشویش ناک صورت حال میں لاجواب کردینے والے استدلال کے ساتھ قرآن وحدیث کی تفسیر و تشریح کرنے والے غیر متنازعہ علماے دین ہی سیکولر سیلاب کے سامنے ایک فکری بند باندھنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ سیکولر حلقوں کو اس امر کا بخوبی ادراک ہے ۔ جن علما نے بدلتے ہوئے حالات کا احساس کرتے ہوئے انفرادی طور پر اس چیلنج کو قبول کیا اور سیکولر فلسفے کے خلاف خاموشی سے لیکن موٴثر انداز میں عام مسلمانوں کی ذہن سازی کا بیڑہ اٹھایا، ان میں پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب شہیداور پروفیسر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک شہید کا نام اور کام نمایاں تھا۔ ان دونوں کامشن بھی مماثل تھا اور شہادت بھی مماثل حالات میں ہوئی۔ لہٰذا ان کے قتل کو متحارب فکری گروہوں کے مذہبی تعصب کا شاخسانہ قرار دے کر نظر انداز کردینا قرین انصاف نہیں ہوگا۔

وہ حلقے جو ان قتلوں کا سراغ لگانا چاہتے ہیں انہیں اس امر پر بھی غور کرنا چاہئے کہ مذہبی تعصب کے پردہٴ زنگاری میں ایف بی آئی، سی آئی اے، سیکولر بھارت کی تنظیم 'را' یا کسی بین الاقوامی لادین ایجنسی جیسا معشوق تو سرگرمِ عمل نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستان کے ایسے بہت سے علماءِ دین کی زندگی کے بارے میں بھی متفکر ہونا پڑے گا جو ہرطرح کے تعصبات سے بالاتر ہوکر بھرپور ایمانی جذبے کے تحت پاکستان میں خالصتاً اسلامی نظامِ حیات کی ترویج اور نفاذ کے لئے اللہ کی آخری کتاب اور اللہ کے آخری رسولﷺ کے پیغام کو ایک قابل قبول استدلال کے ساتھ مسلم اُمہ تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر قومی سطح پر اس نقطہ نظر سے حقائق کا ادراک کرلیا گیا تو یقین جانئے کہ پروفیسر عطاء الرحمن ثاقب شہید اور پروفیسر ڈاکٹر غلام مرتضیٰ ملک شہید کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ان شاء اللہ

٭٭٭٭٭