عید کا خطبہ اور عید کے بعد اجتماعی دعا

٭عید کا خطبہ ایک یا دو؟... خطبہ عید کے بعد اجتماعی دعا؟

٭ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کا حکم؟... اذان او راقامت ؟

٭سوال: جمعہ کے خطبہ کی طرح عید کا خطبہ سننا بھی ضروری ہے یا جو اُٹھ کر جانا چاہے، جاسکتا ہے؟

جواب:عید کے خطبے کا سنناجمعہ کے خطبہ کی طرح ضروری نہیں بلکہ خطبہ نما زکے تابع ہے(یعنی چونکہ نماز عیدین سنت موٴکدہ ہے لہٰذا خطبہ سننا بھی واجب نہیں)۔(فتح الباری:۲/۴۴۶) بوقت ِضرورت اٹھ کر جانے کا جواز ہے۔

٭ سوال:کیا عید کا ایک خطبہ ہی ہونا چاہئے یادو خطبے دینے کی گنجائش بھی ہے؟ جبکہ امام نسائی نے ایک عام حدیث سے دو خطبوں کے جواز پر استدلال کیا ہے؟

جواب:صحیح روایات کے مطابق عید کا خطبہ ایک ہی ہے اور جن روایات میں دو کا ذکر ہے، ان میں کلام ہے۔ (ملاحظہ ہو : مرعاة المفاتیح۲/۳۳۰)

اور سوال میں نسائی کی ذکرکروہ روایت صحیح توہے لیکن اس میں دو خطبوں کی تصریح نہیں اور ابن ماجہ کی روایت میں تصریح تو ہے لیکن وہ ضعیف ہے، اس میں راوی اسماعیل بن مسلم بالاجماع ضعیف ہے اور دوسرا راوی ابوبکر بھی ضعیف ہے۔

اس سلسلہ میں ایک روایت مسند بزار میں بھی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے۔( مجمع الزوائد:۲/۲۰۳)

٭سوال:عید کے بعد اجتماعی دعا کرنا جائزہے ،بعض لوگ اسے بھی بدعت میں داخل کردیتے ہیں؟

جواب:نمازِ عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں، ظاہر ہے جب کوئی ثابت نہ ہو تو وہ خطرہ کا مقام ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: مرعاة المفاتیح ۲/۳۳۱

٭سوال: کیا عید کی نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا بدعت ہے ، اگر نہیں تو کیا نماز کے بعد دعا مانگی جائے یا خطبہ کے بعد یا خطبہ کے دوران؟ اور ہاتھ اٹھائے جائیں یا نہیں؟

جواب:نمازِ عید یا خطبہ کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں، ظاہر ہے کہ جو چیز ثابت نہ ہو، وہ بدعت ہونے کے خطرہ سے خالی نہیں ۔ اور نماز یا خطبہ کے بعد اجتماعی دعا کرنا درست نہیں۔

٭ سوال: ۱۰ مئی ۲۰۰۲ء کے 'الاعتصام' میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ نمازِ عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں اور بے ثبوت شے کا اختیار کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ عرض ہے کہ خاکسار گزشتہ ۲۵ برس کے دوران ہندو پاک کے مختلف شہروں میں عید کی نمازوں میں شامل ہوتا رہا ہے اور ہر جگہ خطبے کے بعد اجتماعی دعا ہی ہوتی رہی۔ بلکہ علماء کرام اور ائمہ نماز اس اجتماعی دُعاکی تاکید بھی فرماتے رہے خصوصاً صحیحین کے حوالے سے جہاں حائضہ عورتوں کی عید کے اجتماع میں شمولیت کی تاکید ہے یعنی «وليشهدن الخير ودعوة الموٴمنين اور فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم»(بخاری) «وليشهد الخير ودعوة المسلمين»(مسلم) کے احکام کو ا جتماعی دعا کی تاکید کے لیے سنت کے مترادف خاص کیا جاتا رہا ۔مگر اب اس پر بدعت ہونے کا احتمال ہونے لگا۔ محولہ بالا احکامِ نبوی کے باوصف اگر صحابہ کرام کا معمول اجتماعی دعا کا نہ تھا تو اس کاثبوت بھی ہونا چاہئے کہ ان کا طریق کار کیا تھا؟

کیا وہ (مردو زَن) خطبے کے فوراً بعد عید گاہ کو چھوڑ دیتے تھے۔یا انفرادی دعائیں مانگتے رہتے تھے جب کہ کسی کی دعا قلیل اور کسی کی طویل ہو سکتی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اہلحدیث علماء کرا م نے بھی اس 'بدعت' کو کیسے جاری رکھا ہوا ہے؟ جن عورتوں کو نماز کی معافی ہو، انکی عید گاہ میں حاضری کے لیے تاکید کا مقصد کیا ہو سکتا ہے ؟ صرف خطبہ سن کر چلے جانا یا کچھ اور بھی ؟ مسئلہ کی وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔(ڈاکٹر عبید الرحمن چوہدری ،لاہور)

جواب :ظاہر یہ ہے کہ مشار الیہ حدیث میں 'دعوة المسلمین' سے مراد خطبہ عیدین میں ذکر اذکار اور کلماتِ وعظ ونصیحت ہیں۔ نبی اکرم ﷺ سے ثابت نہیں ہو سکا کہ عیدین کے بعد دعا کی ہو۔ احادیث کے راویوں میں سے کبھی کسی راوی نے بھی اس بات کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ اس وقت جو چیز آپ ﷺ سے ثابت ہے، وہ یہ کہ مسلمانوں کی جملہ حاجات وضروریات کا جائزہ لے کر ان کے حل کی سعی فرماتے ۔جب ساری ہیئت ِاجتماعی دعا ہی ہے تو پھر خو د ساختہ تکلّفات میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے جس میں بجائے فائدہ کے نقصان کا پہلو یقینی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سبھی کچھ روحِ نماز سے غفلت کا نتیجہ ہے ورنہ نمازتو مناجاتِ ربّ اور قربِ الٰہی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَاسجُد وَاقتَرِ‌ب١٩ ﴾... سورة العلق "اور سجدہ کرو 1اور قربِ الٰہی کی کوشش کرتے رہو۔ "

اور صحیح مسلم میں حدیث ہے «أقرب ما يکون العبد من ربه وهو ساجد فأکثروا الدعاء»

"سجدہ کی حالت میں بندہ اپنے ربّ کے انتہائی قریب ہوتا ہے، لہٰذا بکثرت دعا کرو۔"

باقی رہی یہ بات کہ سارے علماء حدیث کا عمل عید کے بعد اجتماعی دعا پر رہا ہے ۔بات یوں نہیں ہے بلکہ محققین اہل علم ہمیشہ سے اس بات کے قائل نہیں ہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ہمارے استاذ حافظ محمد محدث گوندلوی کے شاگردِ رشید علامہ عبید اللہ مبارکپوری مرعاة المفاتیح (۲/۳۳۱) میں فرماتے ہیں

«لم يثبت عن النبي ﷺ دعاء بعد صلوة العيدين ولم ينقل الدعاء بعدها»

"نبی ﷺسے عیدین کے بعد دعا ثابت نہیں ہو سکی اور نہ کسی نے اس کے بعد دعا نقل کی ہے۔"

لہٰذا عمل دلیل کے تابع ہونا چاہئے۔ نیز صحابہ کرام کا دعا میں طریقہ وہی تھا جس کی سنت سے وضاحت ہو چکی اور صحابیات بھی اسی پر عمل پیرا تھیں۔

٭سوال: اگر عید کی نماز کسی وجہ سے مسجد میں پڑھی جائے تو کیا تحیة المسجد پڑھنی چاہئے؟

جواب:نما زِعید اگر مسجد میں پڑھی جائے تو عمومِ حدیث کے پیش نظر تحیة المسجد پڑھنی چاہئے۔

٭سوال:اگر کوئی شخص خطبہ جمعہ کے وقت دو رکعت نماز شروع کرے۔اسی دوران نماز کھڑی ہوجائے اور وہ نماز توڑ دے تو کیا ان دو رکعتوں کی قضا ضرور ی ہے؟

جواب:ایسی حالت میں اُدھوری چھوڑی ہوئی نماز کی قضا ضروری نہیں۔

٭سوال:جمعہ کے خطبے میں خطیب دعائیہ جملے کہے تو کیا سامعین 'آمین' کہہ سکتے ہیں؟

اسی طرح اگر آدمی خطبہ شروع ہونے کے بعد گھر سے نکلے اور خطبہ کی آواز سنائی دے رہی ہو تو کیا رستے میں کوئی ذکر یاکسی سے کوئی ضروری بات کرسکتا ہے؟

جواب:خطبہ کے دوران آمین کہنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس سے خطبہ کا سماع فوت نہیں ہوتا... دور سے محض خطبہ سننے سے خاموش رہنا لازم نہیں آتا بلکہ جب اس کے لئے تیار ہو کر باقاعدہ سماع کرے تب وہ 'سننے والا'شمار ہوگا اور تب اس پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

٭سوال: (۱لف) فجر کی سنت پڑھنے کے بعد دائیں کروٹ لیٹنا واجب ہے یا مستحب؟

(ب) اگر جماعت کھڑی ہونے میں صرف ایک آدھ منٹ باقی ہو تو کیا لیٹ سکتا ہے ؟

(ج) کیا یہ حکم صرف رات کو قیام کرنے والوں کیلئے ہے کہ وہ کچھ دیر سستا لے یا ہر شخص کیلئے ہے ؟

دورکعت سنت فجر گھر میں پڑھے یا مسجد میں۔ ہر دوجگہ لیٹنے کا حکم کیا یکساں ہے ؟

جواب: (الف) فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا راجح مسلک کے مطابق صرف مستحب ہے، واجب نہیں۔ اور دائیں کروٹ پر لیٹنا چاہئے ۔امام شوکانی نے نیل الاوطار میں اسی بات کو اختیار کیا ہے ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو اعلام اہل العصر: ص ۶۸اور ۷۴ اور بخاری شریف کا باب یوں ہے :

«باب الضجعة علی الأيمن بعد رکعتي الفجر»" فجر کی دورکعتوں کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنا "

(ب) ایک آدھ منٹ باقی ہو تو تب بھی لیٹنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اسوقت صف بندی ضروری نہیں․

(ج) اہل علم کے ایک گروہ کا یہی خیال ہے کہ یہ حکم صرف رات کو قیام کرنے والے کے لئے ہے کہ وہ کچھ سستا لے اور کتاب اعلام اہل العصر کے ص ۷۱ پر چھٹا مذہب یہی بیان ہوا ہے لیکن راجح مسلک یہی ہے کہ ایسا کرنا سب کے لئے مستحب ہے۔ امام بخاری نے باب بایں الفاظ قائم کیا ہے:« باب من تحدث بعد الرکعتين ولم يضطجع» "فجر کی سنتیں پڑھ کر باتیں کرنا اور نہ لیٹنا"

٭ سوال:جمع تقدیم کرنے والا عشاء کی نماز مغرب کے وقت پڑھے تو وِتر اسی وقت پڑھ سکتا ہے یا غروبِ شفق کے بعد پڑھنا ضروری ہے ۔ (ابو عبدا لرحمن سلفی ، مسجد قدس، ٹاوٴن شپ)

جواب: اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ شافعیہ اور حنابلہ اس بات کے قائل ہیں کہ عشاء کی جمع تقدیم کی صورت میں شفق غائب ہونے سے قبل وتر پڑھے جا سکتے ہیں جب کہ مالکیہ اس بات کے قائل نہیں اور حنفیہ کے نزدیک عشاء کی جمع تقدیم ویسے ہی غیر درست ہے۔ اس کا تقاضاہے کہ وقت سے پہلے میرے نزدیک وِتر بطریق جائز نہ ہوں۔ مرعاة المفاتیح (۲/۲۰۵)

اس صورت میں بظاہر جواز ہے کیونکہ عام حالات میں وتر عشاء کے تابع ہیں۔ واللہ أعلم بالصواب

٭ سوال: پانی کی نجاست کے بارے میں آپ امام مالک کے مذہب کو ترجیح دیں گے یا امام شافعی کے مذہب قُلّتین کو؟

جواب: اس مسئلہ میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے۔ پہلے گروہ کا استدلال احادیث کے عمومات سے ہے جب کہ دوسری حدیث میں قلتین (پانچ مشکیں) کی قید موجود ہے۔ مطلق کو مقید پر محمول کرنا اصولِ فقہ کا معروف قاعدہ ہے۔ لہٰذا ترجیح دوسرے مسلک کو ہے تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: تحفة الاحوذی اور نیل الاوطار وغیرہ۔ ہمارے شیخ محدث روپڑی نے بھی اسی مسلک کو راجح قرار دیا ہے۔ (فتاویٰ اہلحدیث: ۱/۲۳۴)

٭سوال:اذان کے دوران بیت الخلا جانے کا کیا حکم ہے؟ جبکہ اذان کے کلمات کا جواب بھی دینا ہو اوراگر انتظار کرے توبیت الخلا اور وضو سے فراغت تک جماعت گذر جانے کا ڈرہو، خصوصاً نمازِ مغرب میں؟

جواب: دورانِ اذان آدمی بیت الخلا میں جاسکتا ہے لیکن وہاں اذان کا جواب دینا منع ہے کیونکہ نجس مقام ہے۔ ایسی حالت میں تو نماز موٴخر ہوجاتی ہے چہ جائیکہ آدمی اذان کا جواب دینے کیلئے رُکا رہے ۔

٭سوال:کیا اقامت میں حی علی الصلوةِ میں ة پر زیر پڑھنا، قدقامت الصلوة پر وقف کرنا جائز ہے ؟

جواب:اقامت کے ان کلمات کے اعراب کی ادائیگی کا محض جواز ہے، ورنہ اصلاً سماع میں وقف ہے۔ (عون المعبود:۱/۱۸۸)


 

نوٹ

1.  محترم حافظ صاحب کی سجدہ والی مثال حائضہ عورت کے حوالہ سے واضح نہیں ہے کیونکہ حائضہ عورت نماز نہیں پڑھتی ۔ البتہ حدیث میں وارد لفظ ودعوتہم  کی دعا کے ساتھ تفسیر صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ صحیح بخاری  میں ہے
«عن أم عطیة قالت کنا نؤمر أن نخرج یوم العید حتی نخرج البکر من خدرها حتی نخرج الحیض فیکن خلف الناس فیکبرن بتکبیرهم ویدعون بدعائهم»  (صحیح بخاری مع الفتح: ۲؍۴۶۱)
’’حضرت اُمّ عطیہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺکی طرف سے ہمیں عید کے دن نکلنے کا حکم ہوتا۔ یہاں تک کہ ہم کنواری عورت او رحیض والی عورتوں کو بھی ساتھ لے جائیں۔ وہ لوگوں سے پیچھے مردوں کے ساتھ تکبیریں کہتیں اور ان کی دعا میں شریک ہوتی تھیں۔‘‘    حدیث نبوی سے ہی لفظ ’دعوت‘ کی وضاحت آجانے کے بعد دیگر معانی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔  مولانا محمد رمضان سلفی (اُستاذ جامعہ لاہور الاسلامیہ)