رسالت ِمحمدی پر ایمان ... مدارِ نجات!
نبی ٴ عربی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے بغیر اور آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو اختیار کئے بغیر بنی نوعِ انسان کی نجات ممکن نہیں۔ اوراس نجات سے صرف اُخروی نجات ہی مرادنہیں بلکہ حقیقت میں دنیاکی تلخیوں اور مشکلات سے نجات بھی دامن رسالت ِمحمدیہ سے وابستہ ہونے ہی میں ہے۔ یعنی آپ کی رسالت پر ایمان رکھنے والے ہی آخرت میں فوز و فلاح سے ہم کنار ہوں گے۔ قرآنِ کریم نے اسی اُخروی سعادت کو ﴿وَذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ ١٣ ﴾... سورة النساء" سے اور ان اہل ایمان و اہل سعادت کو ﴿وَأُولـٰئِكَ هُمُ المُفلِحونَ ٥ ﴾... سورة البقرة" سے تعبیر کیا ہے۔ اور دنیوی زندگی میں بھی خوش بختی و کامرانی، امن وسکون اور عافیت و بھلائی انہی لوگوں کے حصے میں آئے گی جو شریعت ِمحمدیہ کے صحیح پیروکار اور دین اسلام کو مکمل طور پراپنانے والے ہوں گے۔
اور یہ دعویٰ محض عقیدت و محبت کی بنیاد پر نہیں ہے، صرف ایک مسلمان ہونے کے ناتے سے نہیں ہے اور کسی خوش فہمی کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کی بنیاد واضح حقائق اور ٹھوس دلائل ہیں، عقل و منطق کی میزان ہے اور تاریخ و واقعات کی کسوٹی ہے۔
آئیے، دلائل کی بنیاد پر اس دعویٰ کا تجزیہ کیجئے، عقل و منطق کے تقاضوں پراس کو پرکھئے اور تاریخ کے معیار سے اس کے غلط یا صحیح ہونے کا فیصلہ کیجئے۔ ذرا اس دعوے کے دلائل اور حقائق ملاحظہ فرمائیے:
قرآن کریم کی صداقت وحقانیت
سب سے پہلی اور بنیادی چیز قرآنِ کریم کی صداقت اور اس کا منزل من اللہ ہونا ہے۔ قرآنِ کریم نے تو اپنی بابت دعویٰ کیا ہے کہ وہ اللہ کانازل کردہ کلام ہے: ﴿وَإِنَّهُ لَتَنزيلُ رَبِّ العـٰلَمينَ ١٩٢ ﴾... سورة الشعراء "اور یہ ربّ العٰلمین کا نازل کردہ ہے"... ﴿ذٰلِكَ الكِتـٰبُ لا رَيبَ ۛ فيهِ...٢ ﴾... سورة البقرة"یہ وہ کتاب ہے جس کے منزل من اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔" اس کی صداقت کو پرکھنے کے لئے قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَإِن كُنتُم فى رَيبٍ مِمّا نَزَّلنا عَلىٰ عَبدِنا فَأتوا بِسورَةٍ مِن مِثلِهِ وَادعوا شُهَداءَكُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ٢٣ ﴾... سورة البقرة
"اگر تم ہمارے بندے پر نازل شدہ قرآن کے بارے میں شک میں مبتلا ہو، تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور اللہ کے سوا تمہارے جتنے حمایتی ہیں، ان سب کو بلا لو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔" دوسرے مقام پرفرمایا:
﴿أَم يَقولونَ افتَرىٰهُ ۖ قُل فَأتوا بِسورَةٍ مِثلِهِ وَادعوا مَنِ استَطَعتُم مِن دونِ اللَّهِ إِن كُنتُم صـٰدِقينَ ٣٨ ﴾... سورة يونس
"کیا وہ کہتے ہیں کہ یہ قرآن وہ خود گھڑ لایا ہے؟ (اگر یہ سچ ہے) تو اس جیسی کوئی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن کو تم بلاسکتے ہو، بلا لو اگر تم سچے ہو۔"
اس کے ساتھ ساتھ قرآن نے یہ چیلنج بھی دیا:
﴿قُل لَئِنِ اجتَمَعَتِ الإِنسُ وَالجِنُّ عَلىٰ أَن يَأتوا بِمِثلِ هـٰذَا القُرءانِ لا يَأتونَ بِمِثلِهِ وَلَو كانَ بَعضُهُم لِبَعضٍ ظَهيرًا ٨٨ ﴾... سورة الإسراء
"کہہ دیجئے! اگر سارے انس و جن اس قرآن کی مثل بنا لانے کے لئے جمع ہوجائیں، تب بھی وہ اس کی مثل نہیں لاسکتے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگاربن جائیں۔"
۱۴ صدیاں گزر جانے کے باوجود، قرآنِ کریم کا یہ چیلنج تشنہ ٴ جواب ہے، بڑے بڑے فصحاء و بلغا، ادباء وشعرا قرآنِ کریم کی نظیر بنانے سے قاصر رہے ، قاصر ہیں اور قاصر رہیں گے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں، انسانی فکرو کاوش کا اس میں دخل نہیں، بلکہ یہ واقعی کلامِ الٰہی ہے جو جبریل امین کے ذریعے سے پیغمبر اسلام کے قلب ِاطہر پر نازل ہوا اور اللہ نے آپکے سینے میں اسے محفوظ کردیا:
﴿نَزَلَ بِهِ الرّوحُ الأَمينُ ١٩٣ عَلىٰ قَلبِكَ لِتَكونَ مِنَ المُنذِرينَ ١٩٤ بِلِسانٍ عَرَبِىٍّ مُبينٍ ١٩٥ ﴾... سورة الشعراء
"اسے روح الامین لے کر نازل ہوا، آپ کے دل پر، تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں، واضح عربی زبان میں۔"
﴿لا تُحَرِّك بِهِ لِسانَكَ لِتَعجَلَ بِهِ ١٦ إِنَّ عَلَينا جَمعَهُ وَقُرءانَهُ ١٧ فَإِذا قَرَأنـٰهُ فَاتَّبِع قُرءانَهُ ١٨ ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ١٩ ﴾... سورة القيامة
"آپ اس قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، اس کا (آپ کے سینے میں) جمع کردینا اور اس کا پڑھ دینا، ہمارے ذمے ہے۔ پس جب ہم اسے پڑھ لیں، تو آپ اس پڑھنے کی پیروی کریں، پھر اس کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔"
جب اس قرآنِ مجید کا کلام الٰہی ہونا متحقق اور ثابت ہوگیا، تو اس کا ماننا بھی لازم اور ضروری ہوگیا۔
قرآنِ کریم کی حفاظت اور تشریح کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے!
دوسری حقیقت قرآن کریم نے یہ بیان فرمائی کہ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ ہی نے لیا ہے۔ فرمایا ﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـٰفِظونَ ٩ ﴾... سورة الحجر "اس ذکر کے نازل کرنے والے ہم ہیں اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔" یعنی اس کو دست ِبردِ زمانہ سے بچانا اور لفظی تحریف و تغیر سے محفوظ رکھنا بھی ہمارا کام ہے۔ چنانچہ تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ قرآن کریم جس طرح اُترا تھا، آج تک اسی طرح محفوظ ہے، اس میں کوئی کسی قسم کاتغیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ علاوہ ازیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے الذکر(نصیحت) یاددہانی سے تعبیر فرمایا، جس کی بابت دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿وَأَنزَلنا إِلَيكَ الذِّكرَ لِتُبَيِّنَ لِلنّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيهِم وَلَعَلَّهُم يَتَفَكَّرونَ ٤٤﴾... سورة النحل
"اے پیغمبر یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لئے ان چیزوں کو وضاحت سے بیان کریں جو ان کی طرف نازل کی گئی اور تاکہ وہ غور وفکر کریں۔"
اور اس ذکر (نصیحت اور یاددہانی) کی تبیین و تشریح کی بابت بھی اللہ نے فرمایا کہ یہ بھی ہماری ہی سکھلائی اور بتلائی ہوئی ہے:
﴿ثُمَّ إِنَّ عَلَينا بَيانَهُ ١٩﴾... سورة القيامة "اس کا بیان بھی ہمارے ذمے ہے۔"
جب یہ قرآنِ مجید اور اس کا بیان (تشریح وتوضیح نبوی) دونوں منجانب اللہ ہیں، تودونوں ہی کی حفاظت اللہ کے ذمے ہوئی۔ اور یہ بیان کیا ہے؟ نبی ﷺ کی سیرت کے تابندہ نقوش اور آپ کے فرموداتِ گرامی ہیں جن میں آپ نے اپنے قول یا عمل کے ذریعے سے قرآن مجید کے مجملات کی تفصیل، اسکے عمومات کی تخصیص اور اس کے اطلاقات کی تقیید فرمائی ہے۔ اسی تبیین رسول کو 'حدیث' کہاجاتا ہے۔
قرآن کی تشریح حدیثِ رسولﷺ بھی محفوظ ہے!
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کے متن کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی تشریح، حدیث ِرسول، کی بھی اس طرح حفاظت فرمائی کہ تکوینی طور پر محدثین کرام اور نقادانِ حدیث کا ایسا عظیم گروہ پیدا فرمایا، جس نے نہایت محنت اور جانکاہی سے ذخیرئہ احادیث کو نہ صرف جمع کیا، بلکہ اس کو جانچنے اور پرکھنے کے ایسے اصول و قواعد وضع کئے، جن میں فن اسماء الرجال اور مصطلحاتِ حدیث، سرفہرست ہیں، کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس محیرالعقول فن اور محنت نے مل کر حدیث کی حفاظت کا اہم فریضہ اس طرح انجام دیا کہ اسے مشیت ِالٰہی کے تکوینی انتظام کے علاوہ کسی اور نام سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
بہرحال یہ موضوع الگ اور بہت تفصیل طلب ہے، یہاں اس کی طرف اشارہ کرنے سے مقصود صرف اس پہلو کی وضاحت کرنا ہے کہ قرآنِ مجید اور اس کی نبوی تشریح و توضیح ان دونوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حدیث ِرسول کے بغیر قرآن کوسمجھا ہی نہیں جاسکتا اور جب سمجھا ہی نہیں جاسکتا تو اس پر عمل کیسے کیا جاسکتا ہے؟
اب اس پر غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان د ونوں چیزوں کی حفاظت کس لئے فرمائی ہے؟ محض اس لئے کہ تمام انسان ان میں بیان کردہ باتوں کوتسلیم کریں، ان میں کسی قسم کا شک و شبہ نہ کریں اور جب یہ بات ثابت ہے کہ واقعی اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی ہے تو عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے کہ انسان قرآن و حدیث پر ایمان لائیں اور ان سے انحراف نہ کریں۔
نبوتِ محمدی کے امتیازات
اور جب یہ واقعہ ہے تو اس کی روشنی میں پیغمبر اسلام محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی حیثیت اور آپ کی شان واضح اور متعین ہوجاتی ہے اور وہ یہ کہ آپ کی رسالت ونبوت، سابقہ تمام انبیاء و رسل کے مقابلے میں ایک امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔
1۔ پچھلے تمام انبیا ایک محدود علاقے یا مخصوص قوم کے لئے مبعوث ہوتے رہے، اسی لئے ان کے مخاطب صرف ان کی قوم ہی ہوتی تھی۔
2۔ ان کا زمانہٴ نبوت بھی محدود ہوتا تھا، کچھ عرصہ گزر جانے پرایک نیا نبی اورنیا رسول آجاتا تھا۔
3۔ جب ان کے مخاطبین بھی مخصوص ہوتے تھے اور ان کا عرصہٴ نبوت بھی محدود، تو ان کو جو شریعت ملتی تھی، اس کی تعلیمات میں بھی وسعت و عالم گیریت کی بجائے محدودیت ہوتی تھی۔
(1) ان کے مقابلے میں پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے یہ عظمت ِشان عطا فرمائی کہ آپ کو کسی مخصوص علاقے یا قوم کے لئے نبی نہیں بنایا، بلکہ آپ کو تمام انسانوں کا ہادی اور رہنما بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَما أَرسَلنـٰكَ إِلّا كافَّةً لِلنّاسِ بَشيرًا وَنَذيرًا...٢٨ ﴾... سورة سبا
"ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر بھیجا ہے۔"
﴿تَبارَكَ الَّذى نَزَّلَ الفُرقانَ عَلىٰ عَبدِهِ لِيَكونَ لِلعـٰلَمينَ نَذيرًا ١ ﴾... سورة الفرقان
"بابرکت ہے وہ ذات جس نے فرقان اپنے بندے پرنازل کی تاکہ وہ جہانوں کو ڈرانیوالا ہو"
اپنے پیغمبر کی زبان مبارک سے کہلوایا :
﴿قُل يـٰأَيُّهَا النّاسُ إِنّى رَسولُ اللَّهِ إِلَيكُم جَميعًا الَّذى لَهُ مُلكُ السَّمـٰوٰتِ وَالأَرضِ ۖ لا إِلـٰهَ إِلّا هُوَ يُحيۦ وَيُميتُ ۖ فَـٔامِنوا بِاللَّهِ وَرَسولِهِ النَّبِىِّ الأُمِّىِّ الَّذى يُؤمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمـٰتِهِ وَاتَّبِعوهُ لَعَلَّكُم تَهتَدونَ ١٥٨ ﴾... سورة الاعراف
"کہہ دیجئے، اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، جس کے لئے آسمانوں او رزمین کی بادشاہی ہے۔ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا او رمارتا ہے۔ پس تم اللہ پر او راس کے رسو ل نبی اُمی پرایمان لاؤ، وہ جو اللہ پر او راس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ۔" اور نبی ﷺ نے فرمایا:
«کان النبي يبعث إلی قومه خاصة وبعثت إلی الناس عامة»
(صحیح بخاری، کتاب التیمم، حدیث نمبر۳۳۵)
"پہلے نبی صرف اپنی قوم ہی کی طرف مبعوث ہوتا تھا، اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں"
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں: «کان کل نبي يبعث إلی قومه خاصة وبعثت إلی کل أحمر وأسود» (صحیح مسلم، کتاب المساجد، حدیث ۵۲۱، بہ تحقیق فواد عبدالباقی)
"ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا اور مجھے ہر احمر و اسود کی طرف نبی بنا کربھیجا گیا ہے"
(2) آپ کا دوسرا شرف و امتیاز یہ ہے کہ آپ پر نبوت کا خاتمہ فرما دیاگیا ہے، یعنی جس طرح آپ کی بعثت بعثت ِخاصہ نہیں، بلکہ بعثت ِعامہ ہے، اسی طرح آپ کی نبوت کا عرصہ بھی محدودنہیں، بلکہ قیامت تک ہے اور یہ آپ کی بعثت ِعامہ کا لازمی تقاضا ہے۔ قرآن میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے:
﴿ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلـٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّـۧنَ...٤٠ ﴾... سورة الاحزاب
"محمد(ﷺ) تمہارے مردوں سے کسی کے باپ نہیں،لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النّبیین ہیں"
خاتَم مہر کو کہتے ہیں اور مہر آخری عمل ہی ہوتا ہے یعنی آپ پر نبوت و رسالت کاخاتمہ فرما دیا گیاہے، آپ کے بعد جو بھی نبوت کا دعویٰ کرے گا، وہ نبی نہیں، دجال و کذاب ہوگا۔ احادیث میں اس مضمون کو تفصیل سے بیان کیاگیا ہے اور اس پرپوری امت ِمسلمہ کا اجماع و اتفاق ہے۔
جھوٹی نبوتوں پرایمان رکھنے والے خاتم النّبیین کی بھی ایسی دوراز کار تاویل کرکے اسی لفظ سے، جوختم نبوت پرنص قاطع ہے، سلسلہٴ نبوت کے جاری رہنے کا بزعم خویش اثبات کرتے ہیں۔ ان کی یہ تاویل ایسی ہی ہے جس کے متعلق علامہ اقبال نے کہا ہے
ولے تاویل شاں درحیرت انداخت خدا و جبریل و مصطفی را
ان کی یہ رکیک اوربے معنی تاویل حدیث ِرسول سے بھی باطل قرار پاتی ہے۔ نبی ﷺ نے اپنے فرمان میں خاتم النّبیین کے معنی واضح فرما دیئے ہیں۔ آپ نے فرمایا:
«وإنه سيکون في أمتي ثلاثون کذابون، کلهم يزعم أنه نبي وأنا خاتم النبيين، لانبي بعدي» (ترمذی: کتاب الفتن، باب ۴۳، حدیث ۲۲۱۹)
"میری اُمت میں ۳۰ (بڑے) کذاب ہوں گے۔ وہ سب کے سب دعویٰ کریں گے کہ وہ نبی ہیں۔ (لیکن یاد رکھو!) میں خاتم النّبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں!"
ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا:
«إن مثلي ومثل الأنبياء من قبلي، کمثل رجل بنی بيتا فأحسنه وأجمله إلا موضع لَبِنَةٍ من زاوية فجعل الناس يطوفون به ويعجبون له ويقولون، هلا وضعت هذه اللبنة؟ قال فأنا اللبنة وأنا خاتم النبيين»
(صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین، حدیث نمبر ۳۵۳۵)
"میری اور مجھ سے پہلے ( ہوگزرنے والے) انبیا کی مثال ایسے ہے جیسے ایک آدمی نے ایک گھر بنایا، بڑا خوبصورت اور نہایت جمیل۔ لیکن ایک گوشے میں اس نے ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی، پس لوگ آتے اور گھوم پھر کر اسے دیکھتے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے: یہ اینٹ کی جگہ کیوں خالی چھوڑدی گئی ہے؟ پس میں ہی وہ اینٹ ہوں(جس سے نبوت کی عمارت کی تکمیل ہوگئی) اور میں خاتم النّبیین ہوں۔"
(3) آپ کا ایک تیسرا شرف و امتیاز یہ بھی ہے اور یہ آپ پر ختم نبوت کا لازمی تقاضا بھی ہے کہ آپ پر دین اسلام کی تکمیل فرما دی گئی، اور اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمادیا:
﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة
"آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پرپوری کردی۔ اور میں نے تمہارے لئے اسلام کودین کے طور پر پسند کرلیا۔"
اور یہ ایک واضح اور منطقی با ت ہے کہ جب آپ کی نبوت کسی مخصوص قوم یا مخصوص علاقے کے لئے نہیں، بلکہ پورے بنی نوع انسان کے لئے ہے، علاوہ ازیں آپ نبوت کے سلسلة الذہب کی آخری کڑی ہیں، آپ کے بعد کسی اور نبی نے بھی نہیں آنا تھا، تو آپ کو دین بھی وہ عطا کیا جاتا جو ہرلحاظ سے مکمل ہوتا جس میں عالم گیریت کی شان بھی ہوتی اور اَبدیت کی خوبی بھی۔ الحمدللہ اسلام میں یہ شان اور خوبی ہے۔ اس میں تمام انسانوں کی ہدایت کا سامان ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی علاقے میں آباد ہوں اور اس کے اصول بھی ابدی اور ناقابل تغیر ہیں لیکن و ہ احوال و حوادث کے تغیرات کے باوجود قابل عمل ہیں، ان میں تبدیلی کی ضرورت نہیں۔
آج بہت سے لوگ کہتے اور سمجھتے ہیں کہ سائنس نے بڑی ترقی کرلی ہے، حالات و ظروف میں بڑی تبدیلیاں آگئی ہیں، اس لئے اسلامی تہذیب و اقدار کے مقابلے میں مغربی تہذیب و اقدار کو اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ یہ ان کی بہت بڑی بھول اور بہت بڑا مغالطہ ہے، حالانکہ تہذیبی اقدار اور تمدنی روایات ایک الگ چیز ہے اور سائنسی ترقی اور تمدنی سہولتوں میں اضافہ، الگ چیز۔ اس سائنسی ترقی اور تمدنی سہولتوں میں اضافے کا تعلق علم و فن اورمحنت و جدوجہد سے ہے، اس کا اسلام کے کسی بھی اصول اور ضابطے سے ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ اسلام میں اس کی حوصلہ افزائی اور تائید ہی ملتی ہے۔ ہم اپنی اسلامی تہذیب و اقدار پرقائم رہتے ہوئے اور مغرب کی حیاباختہ تہذیب سے دامن کشاں رہ کر، اگر ترقی کرنا چاہیں تو اسی طرح ترقی کرسکتے ہیں جس طرح مغرب نے کی ہے اور مسلسل کررہا ہے۔ ہماری تہذیبی روایات و اقدار قطعاً اس میں رکاوٹ نہیں ہیں اورنہ اس میں ہمیں مغربی تہذیب کی نقالی ہی کی کوئی ضرورت ہے، کیونکہ اس حیا باختگی کا کوئی تعلق علم و فن، امانت و دیانت اور محنت و کاوش سے نہیں ہے، جب کہ سائنسی اور مادّی ترقی کیلئے انہی خوبیوں کی ضرورت ہے نہ کہ حیا باختہ تہذیب کو اپنانے کی۔
علامہ اقبال جنہوں نے خود مغرب میں رہ کر ہرچیز کا مشاہدہ کیاتھا، وہ یورپ کی ترقی پرروشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نے ز رقص دخترانِ بے حجاب
نے ز سحر ساحرانِ لالہ رُو است
نے ز عریاں ساق و نے از قطع مو است
محکمئ اُو نہ از لادینی است
نے فروغش از خط لاطینی است
قوتِ افرنگ از علم و فن است
از ہمیں آتش چراغش روشن است
حکمت از قطع و برید جامہ نیست
مانع علم و ہنر عمامہ نیست
اسلام کے سوا اللہ تعالیٰ کے ہاں دین قبول نہیں!
بہرحال میرا موضوع اس وقت یہ نہیں ہے ، یہ تو ضمناً... مقطع میں آپڑی ہے سخن گسترا نہ بات ... کے طور پر نوکِ زبان پر آگئی ہے۔ بات یہ ہورہی تھی کہ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کو یہ شرف وامتیاز، یہ شان اور فضیلت عطا کی گئی کہ آپ کو تمام انسانوں کا ہادی و رہنما بنایا گیا، آپ ہی کی نبوت کو قیامت تک باقی رکھا گیا اور آپ کی تعلیمات میں عالم گیریت اور ابدیت یعنی کاملیت کو سمو دیا گیا ہے، تو یہ سارا اہتمام اسی بات کو واضح کرتا ہے کہ قیامت تک کے آنے والے انسانوں کے لئے نجات کا کوئی راستہ ہے تو وہ وہی راستہ ہے جسے آپ نے دنیا کے سامنے پیش کیا، اسی دین میں نجات ہے جو قرآن وحدیث میں محفوظ ہے اور انہی تعلیمات کے اپنانے میں ہے جن کے مجموعے کا نام دین اسلام اور اسوہٴ حسنہ ہے۔ عقل و منطق کا تقاضا بھی یہی ہے اور خالق کائنات کا اعلان بھی یہی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں فرمایا: ﴿إِنَّ الدّينَ عِندَ اللَّهِ الإِسلـٰمُ...﴾... سورة آل عمران "دین تو اللہ کے ہاں اسلام ہی ہے۔" ...﴿وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...٣ ﴾... سورة المائدة "میں نے تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین کے پسند کرلیا"... ﴿وَمَن يَبتَغِ غَيرَ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَةِ مِنَ الخـٰسِرينَ ٨٥ ﴾... سورة آل عمران"جو اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا، وہ ہرگز مقبول نہیں ہوگا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا"۔ اور نبی آخر الزمان ﷺ نے بھی فرمایا:
«والذي نفس محمد بيدہ لا يسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي ولا نصراني ثم يموت ولم يؤمن بالذي أرسلت به إلا کان من أصحاب النار» (صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا محمدﷺ، حدیث نمبر ۱۵۳، بہ تحقیق فواد عبدالباقی)
"قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے، میری اُمت میں سے جس نے بھی میرا نام سنا، وہ یہودی ہو یا نصرانی۔ پھر وہ میری رسالت پر ایمان لائے بغیر ہی مرگیا، تو وہ جہنمیوں میں سے ہوگا۔"
اس حدیث میں اُمت سے مراد، اُمت ِدعوت ہے، یعنی قیامت تک آنے والے انسان۔کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لئے نبی ہیں، اس لئے تمام انسان آپ کی اُمت ہیں لیکن اُمت دعوت، یعنی آپ کی دعوت کی مخاطب اُمت اور یہ قیامت تک آنے والے تمام انسان ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، نظریہ اور ازم سے ہو۔ یہودی اور عیسائی کا نام تو مثال کے طور پر ہے، ورنہ مراد ہر غیر مسلم ہے۔
علاوہ ازیں یہودی اور نصرانی کا نام لینے میں یہ عظیم حکمت ہے کہ جب یہودی اور نصرانی کہلانے والوں کی نجات بھی رسالت ِمحمدیہ کے تسلیم کرلینے ہی میں ہے، تو دوسرے کب مستثنیٰ ہوں گے، حالانکہ یہ دونوں آسمانی مذاہب کے ماننے والے اور آسمانی کتابوں کے حامل ہیں، اسی لئے قرآنِ کریم میں انہیں اہل الکتاب کہا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ اگر اس قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے جو حضرت محمدﷺ پرنازل ہوا اور آپ کی رسالت کو تسلیم نہیں کریں گے، تو ان کی بھی نجات ممکن نہیں، کیونکہ نزولِ قرآن کے بعد، پچھلی تمام کتب ِسماویہ منسوخ ہوگئیں اور نبی ﷺ کے مبعوث ہونے کے بعد، سب نبیوں کی نبوتیں ختم ہوگئیں۔ اسی لئے نبیﷺ نے فرمایا:
«والذي نفس محمد بيده لو بدا لکم موسیٰ فاتبعتموہ وترکتموني لضللتم عن سواء السبيل ولوکان حيا وأدرك نبوتي لاتبعني»
(رواہ الدارمی بحوالہ مشکوة، باب الاعتصام، حدیث ۱۹۴)
"قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے، اگر موسیٰ تمہارے لئے ظاہر ہوجائیں اور تم ان کی پیروی شروع کردو اور مجھے چھوڑ دو، تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے۔ اگر موسیٰ زندہ ہوتے اور میری نبوت پالیتے تو ان کے لئے بھی میری پیروی کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔"
دنیوی فلاح کا ضامن بھی اسلام ہی ہے!
پھر رسالت ِمحمدیہ پر ایمان صرف اُخروی نجات ہی کے لئے ضروری نہیں، بلکہ دنیوی خوش حالی کا حصول بھی اس کے بغیر ممکن نہیں۔ ا س کی سب سے بڑی دلیل مغرب اور یورپ کا ترقی یافتہ معاشرہ ہے۔ یہ ممالک سائنسی اور مادی ترقی میں بامِ عروج پر پہنچے ہوئے ہیں، وہاں مال و دولت کی فراوانی اور تمدنی سہولتوں کی خوب ارزانی ہے، لیکن وہاں کا انسان حقیقی امن و سکون سے عاری ہے، روح کی سیرابی سے وہ محروم ہے۔ اس تشنگی اور محرومی ایمان نے اسے حیوان اور درندہ صفت بنا دیا ہے۔ چنانچہ امریکہ جیسے انتہائی ترقی یافتہ ملک میں ایک مرتبہ بجلی چلے جانے سے جو قیامت وہاں برپا ہوئی تھی اور جو لوٹ مار مچی تھی، باخبر حلقوں سے وہ مخفی نہیں۔ اوراسی امریکی قیادت میں عالمی اتحاد نے افغانستان میں جس چنگیزیت کا مظاہرہ کیا ہے، وہ تو ابھی کل کی بات بلکہ ہم ہی پر بیتی ہوئی نہایت المناک داستان ہے۔
بقول علامہ اقبال
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہٴ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا!!
اور اس کی وجہ بھی علامہ مرحوم نے بیان فرمائی ہے:
وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
ہمارے ایک اور اسلامی شاعر، ماہر القادری مرحوم نے بھی کہا :
یہ ایجادات کی دھن، بے یقینی کی فراوانی
مبارک؟ اہل مغرب کو نگاہ و دل کی ویرانی
خشیت کی جھلک جن میں نہ ایمان کی چمک جن میں
تو ایسی کوششوں کا صرف حاصل ہے پشیمانی
یہ قزاقی، یہ سفاکی، یہ صیادی، یہ جلادی
اسی کا نام رکھ چھوڑا ہے آئین جہاں بانی
وہ شبنم، آہ۔ جس کے آگ کے شعلے نگہبان ہو
وہ گلہ، ہائے! جس کی بھیڑیے کرتے ہوں چوپانی
تباہی نسل انسانی کی اب دیکھی نہیں جاتی
ضرورت ہے کہ پھر سے عام ہوں افکار قرآنی
اسی تہذیب کی شیشہ گری کو ختم کرنا ہے
کہ جس تہذیب میں ہو 'آرٹ' کی معراج، عریانی
بجھا دو! ہاں بجھا دو ہر چراغ محفل عشرت
اُلٹ دو! ہاں اُلٹ دو! ہر بساطِ عیش سامانی
اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ مسلمان ممالک بھی چونکہ اپنے مذہب اسلام کو نافذ نہیں کررہے ہیں اور ان میں بھی مغربی قوانین یا ان کا چربہ ہی نافذ ہے، اس لئے وہاں بھی بدامنی اور قتل و غارت گری عام ہے۔ جس کا ایک بدترین نمونہ افسوس کہ ہمارا ملک پاکستان بھی ہے۔ اسلامی ممالک میں صرف سعودی عرب ہے جہاں اسلام کی حدود نافذ ہیں اور اسلام کی کچھ حکمرانی قائم ہے۔ تو وہاں کامعاشرہ امن و سکون کے اعتبار سے پوری دنیا میں ایک مثالی اور نہایت قابل رشک معاشرہ ہے۔
اس کی ایک دوسری مثال افغانستان میں طالبان کا پانچ سالہ دورِ حکومت ہے جس میں غربت وناداری کے باوجود، محض اسلامی حدود کے نفاذ کی برکت سے، مثالی امن قائم رہا۔ اب طالبان کے بعد افغانستان میں پھر وحشت و بربریت کا راج ہے !!
اسلامی ممالک کی یہ صورتحال بھی اس بات کے اثبات کے لئے کافی ہے کہ اُخروی نجات ہی نہیں، بلکہ دنیوی سعادت کا مدار بھی محمد رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے نظام کے اپنانے ہی میں ہے، جن اسلامی ممالک نے انہیں اپنایا ہے وہ پرامن معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہیں اور جو محض سیرت کانفرنسیں منعقد کرانے کی حدتک ہی اسلام کو مانتے اور باقی ہر وقت منافقانہ بلکہ باغیانہ طرزِ عمل اختیار کئے رکھتے ہیں، وہ ہر لحاظ سے ناکام ہیں، وہ سیاسی ابتری کا بھی شکار ہیں اور معاشی بدحالی کا بھی۔ وہ بدانتظامی و بداخلاقی میں بھی مبتلاہیں اور بدامنی و بے سکونی میں بھی، ذلت و اِدبار ان کا مقدر بنا ہوا ہے اور دریوزہ گری ان کا شعار!
حالانکہ نبی ﷺ کوجو مقام و فضیلت اور مرتبت و شان عطا کی گئی ہے، اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ امت مسلمہ علمی دلائل سے بھی دنیائے انسانیت کو اسلام کی حقانیت و صداقت کی قائل کرتی اور اپنے عمل سے بھی اسلام کا سچا نمونہ پیش کرکے ہر شعبہٴ زندگی میں اسلامی تعلیمات کی برتری اور اسی میں انسانیت کی نجات کے انحصار کو ثابت کرتی۔ اللہ تعالیٰ نے امت ِمسلمہ کا مقام و منصب بھی یہی متعین کیاتھا: ﴿وَكَذٰلِكَ جَعَلنـٰكُم أُمَّةً وَسَطًا لِتَكونوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ...١٤٣ ﴾... سورة البقرة" اور ﴿كُنتُم خَيرَ أُمَّةٍ أُخرِجَت لِلنّاسِ تَأمُرونَ بِالمَعروفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ...١١٠ ﴾... سورة آل عمران" میں اسی مقام و منصب اور اس کے تقاضوں کابیان و تذکرہ ہے۔ مگر افسوس ع 'مژدہ باد اے مرگ، عیسیٰ ہی بیما رہے' والی بات ہے۔ ہماری غفلت، بے عملی و بدعملی اور زبوں حالی کا وہی حال ہے جو آج سے تقریباً ایک صدی قبل مولانا حالی نے بیان کیا تھا۔ انہوں نے فرمایا تھا *
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفاں بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہل کشتی
پڑے سوتے ہیں، بے خبر اہل کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈ لارہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا آرہی ہے
کہ کل کون تھے، آج کیا ہوگئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سوگئے تم
پر اس قوم غافل کی غفلت وہی ہے
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں پر رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہرحال ضرورت ہے کہ مسلمان اپنا مقام و منصب بھی سمجھیں اور اس ذمے داری کو بھی، جو اس مقام کا لازمی تقاضا ہے۔ بقولِ علامہ اقبال *
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کی
علامہ اقبال مزید فرماتے ہیں *
ناموس ازل را تو امینی تو امینی!
دا رائے جہاں را تو یساری تو یمینی
اے بندہٴ خاکی تو زمانی تو زمینی
صہبائے یقین درکش و از دیر گماں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز
فریاد ز افرنگ و دل آویزیٴ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزئ افرنگ
عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزئ افرنگ
معمارِ حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز
از خوابِ گراں، خوابِ گراں، خوابِ گراں خیز
از خوابِ گراں خیز
٭٭٭٭٭