أدب الحوار
" (ايك دن) وه اپنے ساتهى سے بات كرتے ہوئے بولا:"ميں تجھ سے زيادہ مالدار ہوں اور تجھ سے زيادہ طاقتور نفرى ركهتا ہوں-" پهر وہ اپنے باغ ميں داخل ہوا اور اپنے نفس كے حق ميں ظالم بن كر كہنے لگا : " ميں نہيں سمجھتا كہ يہ دولت كبهى فنا ہو جائے گى اور مجھے توقع نہيں كہ قيامت كى گهڑى كبهى آئے گى-تا ہم اگر كبهى مجهے اپنے رب كے حضور پلٹايا بهى گيا تو ضرور اس سے بهى شاندار جگہ پاوٴں گا-" اس كے ساتهى نے گفتگو كرتے ہوئے اس سے كہا :
" كيا تو كفر كرتا ہے اس ذات سے جس نے تجھے مٹى سے اور پهر نطفہ سے پيدا كيا اور تجھے ايك پورا آدمى بنا كهڑا كيا-"1
یعنى جب ايك باپ كے دو بيٹوں كو وراثت ملى تو اُن ميں سے ايك نے اپنا وراثتى حصہ فى سبيل اللہ خرچ كيا اور دوسرے نے اس حصے سے باغات وغيرہ حاصل كرلئے اور وہ ايمان سے دور تر ہوتا چلا گيا- اس انداز ميں ان كيباہم گفت و شنيد اور تكرار كو قرآنِ مجید نے يُحَاوِر(باہم حوار) سے تعبير كيا ہے-
اسى طرح دوسرى جگہ ارشادِ ربانى ہے :
قَدْ سَمِعَ اللَّـهُ قَوْلَ الَّتِي تُجَادِلُكَ فِي زَوْجِهَا وَتَشْتَكِي إِلَى اللَّـهِ وَاللَّـهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ ﴿١﴾...سورۃ المجادلہ
" اللہ نے سن لى اس عورت كى بات جو اپنے شوہر كے معاملہ ميں تم سے تكرار كر رہى ہے اور اللہ سے فرياد كيے جاتى ہے- اللہ تم دونوں كى گفتگو سن رہا ہے، وہ سب كچھ سننے اور ديكهنے والا ہے-"
جب حضرت اوس بن صامت نے اپنى بيوى سے ظِہار كرليا تو بيوى اس مسئلہ كو لے كر پیغمبر علیہ السلام كے پاس آئى تو آپ نے حسب ِدستور فرمايا كہ اب آپ اكٹھے نہيں رہ سكتے تو سيدہ خولہ بنت ثعلبہ كا اس مسئلہ كے بارے ميں آپ سے تكرار كرنا، اپنى مجبورى بيان كرنا اور آپ كا جواب ارشاد فرمانا، اس مكالمے كو قرآن مجيد نے تحاور(باہم حوار)سے تعبير فرمايا ہے- چنانچہ صاحب مُعجم الوسيط نے حِوار كا يہ مفہوم بيان كيا ہے:
"حديث يجري بين شخصين أو أكثر في العمل القصصي أو بين مُمثّلين أو أكثر علىٰ المَسرح"2
"حوار سے مراد وہ گفتگو ہے جو دوران مكالمہ دو يا دو سے زيادہ افراد كے درميان يا اسٹیج ڈرامہ ميں دو اداكاروں كے درميان چلتى ہے"
حوار كى ضرورت واہميت
اللہ تعالىٰ نے خاص حكمت كے تحت انسانى طبائع ميں فرق ركها ہے اور ان كے مابين نظرى و فكرى تفاوت كے باعث اختلاف كا پايا جانا فطرى امر ہے-اسى لئے امر واقعہ يہ ہے كہ اگر كوئى ايك چيز كو پسند كرتا ہے تو دوسرا كسى دوسرى چيز كو ترجيح ديتا ہے- ايك شخص ايك چيز كو مفيد قرار ديتا ہے تو دوسرے كى عقل و خرد اس كى نقيض و ضد كو بہتر اور فائدہ مند سمجھتى ہے- اس طرح اگر كسى عنوان يا موضوع پر مختلف افراد كا اظہارِ خيال ہو تو مختلف نظريات كا سامنے آجانا ايك طبعى امر ہے- اور انسان كى فطرت ہے كہ جس رائے كو صحيح خيال كرتا ہے، اسے ثابت كرنے كے لئے كوشاں رہتا ہے اور مخالف نظريے اور رائے پر اعتراض اور تنقيد كرنے كے درپے ہوتا ہے، جس كے نتيجہ ميں باہم تكرارِ سوال و جواب اور استدلال و جرح كا سلسلہ چلتا ہے، اسى عمل كانام حِوار ہے۔
گويا كہ عام مفہوم كے اعتبار سے ہر شخص كى زندگى ميں حوار كا عمل پايا جاتا ہے، ليكن ايك عالم اور داعى الىٰ اللہ عزوجل كى زندگى كا تو يہ ايك لازمى حصہ ہے- دين اسلام كى دعوت ميں بسااوقات مخاطب كو دين حق موٴثر انداز ميں پيش كرنا ہوتا ہے تو كہيں مخاطب كے ذہن ميں موجود اعتراضات كا جواب دينا ہوتا ہے- اگر داعى الىٰ اللہ كو ايك طرف دين حق مثبت انداز ميں يا مخاطبين كے قلوب واذہان ميں صحيح اور درست عقيدہ و فكر داخل كرنا ہوتى ہے تو دوسرى طرف اس كے باطل نظريہ، فاسد عقیدہ كى بيخ كنى بهى ضرورى ہوتى ہے- اس مقصد كے حصول كے لئے ايك داعى كو جہاں ديگر طريقہ ہائے دعوت كو اختيار كرنا پڑتا ہے وہاں قدم بقدم اسے اپنے مخاطبين كے ساتھ عمل حوار سے بهى دوچار ہونا پڑتا ہے- لہٰذا عام اشخاص كى نسبت داعى الى اللہ كے لئے اس موضوع كى اہميت كو سمجھنا، اس كى ضرورت كو محسوس كرنا، اس كے نشيب و فراز، حدود و قيود اور شرائط و آداب كو جاننا از حد ضرورى ہے-
حوار كے اصول وضوابط اور آداب
حوار انسانى زندگى ميں اور بالخصوص ايك داعى كى زندگى ميں جس قدر ضرورى اور لازمى ہے اسى قدر يہ خطرناك اور مہلك بهى ہے- تكرار اور ردّ و اخذ كے وقت اعتدال پرقائم رہنا انتہائى مشكل ہوتاہے، بالخصوص حوار ميں استعمال ہونے والى زبان كى تيز طرارياں اور منہ شگافياں بسا اوقات زيربحث مسئلہ كى ذاتى افاديت سے بڑھ كر كہيں بڑے جرائم كا سبب بن جاتى ہيں- غيرت و حمیت كى شدت 'نفس امارہ' كو ابهارتى ہے اور اس طرح بحث و جدال اپنے موضوع كے دائرہ كارسے كہيں دور نكل كر تفرقہ و اختلاف اور فتنہ و فساد كا موجب بن جاتا ہے- اس لئے ضرورى ہے كہ حوار و بحث ميں ان اُصول وضوابط كو پيش نگاہ ركها جائے جو قرآن وسنت اور سيرتِ صحابہ كے مطالعہ سے ہمارے سامنے آتے ہيں۔
(1)فضول گفتگو سے پرہيز
حضور كا فرمان ہے :
(من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرًا أو ليصمت)
"جو شخص اللہ پاك اور قيامت كے دن پر ايمان لاتا ہے، اُسے چاہئے كہ اچهى بات كہے يا خاموش رہے-" 3
(2)مقصد فخر ومباہات كااظہار اور لوگوں كو اپنا گرويدہ بنانا نہ ہو
اس سلسلہ ميں رسول اللہ كا يہ فرمان انسان كو كبهى فراموش نہيں كرنا چاہيے :
(لا تعلموا العلم لتباهوا به العلماء،أو لتماروا به السفهاء أو لتصرفوا به وجوه الناس إليكم فمن فعل ذلك، فهو في النار) 4
"تم علم اس لئے نہ سیكھو كہ تم اس كى وجہ سے علما پر فخر كرو يا بيوقوفوں سے بحث و مباحثہ اور جهگڑا كرو يا لوگوں كى توجہ كو اپنى طرف پهير لو- جس نے ايسا كيا وہ جہنم ميں جائے گا-"
ايسے موقعوں پر شیطان خوب گمراہى كے جال بنا كرتا ہے اور اس سے بچنا محال نہيں تو انتہائى مشكل ضرور ہوتا ہے-مفتى محمد شفيع امام غزالى كے حوالے سے فرماتے ہيں كہ
"جس طرح شراب اُمّ الخبائث ہے، خود بڑا گناہ ہے اور دوسرے بڑے بڑے جسمانى گناہوں كا ذريعہ بهى ہے، اسى طرح بحث و مباحثہ كا جب مقصود مخاطب پر غلبہ پانا اور اپنا علمى تفوق لوگوں پر ظاہر كرنا ہى ہو جائے تو يہ بهى باطن كے لئے اُمّ الخبائث ہے جس كے نتيجے ميں بہت سے روحانى جرائم پيدا ہوتے ہيں، مثلاً حسد، بغض، تكبر، غيبت، دوسرے كے عيوب كا تجسّس،اس كى برائى سے خوشى اور بھلائى سے رنجيدہ ہونا، قبولِ حق سے استكبار كرنا، دوسرے كے قول پر انصاف و اعتدال كے ساتھ غور كرنے كى بجائے جواب دہى كى فكر كرنا، خواہ اس كے پيش نظر قرآن و سنت ميں كيسى بهى تاويلات كرنا پڑيں- 5
(3)حفظ ا للسان كے تقاضوں كو پيش نظر ركها جائے
چنانچہ امام ابن قیم زبان كے خطرات كا تذكرہ كرتے ہوئے لكھتے ہيں :
ومن العجب أن الإنسان يهون عليه التحفظ والاحتراز من أكل الحرام والظلم والزنا والسرقة وشرب الخمر ومن النظر المحرم وغير ذلك ويصعب عليه التحفظ من حركة لسانه 6
"عجب امر ہے كہ انسان كے لئے حرام خورى، ظلم، بدكارى، چورى، شراب نوشى اور غير محرم كى طرف دیكھنا وغيرہ ايسے محرمات سے بچنا تو آسان ہے مگر زبان كو كنٹرول كرنا انتہائى مشكل ہے-"
اس لئے ہر شخص كو چاہئے كہ وہ دوران گفتگو حفظ اللسان كے تقاضوں اور حوار كے آداب و شرائط كو مدنظر ركهے-دوران حوار اور حوار كے بعد اخلاق وآداب كا دامن ہاتھ سے نہ چهوٹنے پائے-حوار سے قبل موضوع اور شركاے مجلس كى نوعيت اور مجلس كے ماحول كو پيش نظر ركهتے ہوئے ہر قسم كى مجلس ميں شريك گفتگو ہونے سے ا حتراز كرے-
كبار علما و شيوخ كى مجلس ميں خاموشى اختيار كرنا ہى قرينہ ادب ہے- جيساكہ ابن عمر نے كبار صحابہ كى موجودگى ميں جواب معلوم ہونے كے باوجود بهى سكوت اختياركيا- 7
(4) مناسب عنوان و ماحول كا جائزہ لينا
مجلس ميں مناسب موضوع و عنوان اور ماحول كو مدنظر ركهنا اور باريك بينى سے جائزه لينا بهى از حد ضرورى ہے، كيونكہ بعض مجلسوں سے كنارہ كشى اور عليحدگى كا شریعت نے حكم ديا ہے- جب مجلس كاماحول محض استہزا اور مذاق ہو، گفتگو ميں شعائر ِاسلام كى توہين كارنگ غالب ہو، حق اور اہل حق كى تحقير ہورہى ہو تو اس مجلس و گفتگو سے كنارہ كشى لازم ہے- چنانچہ اللہ تعالىٰ نے مومنوں كى صفات اور خوبيوں كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا:
الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ﴿٢﴾...سورۃ المومنون
"اور وہ لوگ لغويات سے دور رہتے ہيں-"
اپنے پیغمبر كو شعائر اسلام اور آيات قرآنى كا مذاق ا ڑانے والے منافقين وكفار كى مجلس سے احتراز كا حكم ديتے ہوئے فرمايا:
وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨﴾...سورۃ الانعام
"اور جب آپ ہمارى آيات ميں عیب جوئى كرنے والوں كو دیكھیں تو ان سے اعراض كيجئے يہاں تك كہ وہ كسى اور بات ميں لگ جائيں اور اگر شيطان آپ كو بهلا دے تو ياد آنے كے بعد ظالم لوگوں كے ساتھ مت بیٹھیں-"
نيز فرمايا:
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ﴿١٤٠﴾...سورۃ النساء
"اور اللہ تعالىٰ تمہارے پاس كتاب ميں يہ حكم اُتار چكا ہے كہ جب تم كسى مجلس والوں كو اللہ تعالىٰ كى آيتوں كے ساتھ كفر كرتے اور مذاق اُڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بیٹھو جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں ورنہ تم بهى اس وقت ويسے ہى ہوجاوٴ گے- يقينا اللہ تعالىٰ تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والاہے-"
اللہ تعالىٰ نے ايسى مجالس كے شركا كو سنگين سزا كى دھمكى دى ہے -قرآن ميں ہے:
وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ ﴿٦٦﴾...سورۃ التوبہ
"اگر آپ ان سے دريافت كريں تو يہ لوگ صاف كہہ ديں گے كہ ہم تو يونہى آپس ميں ہنسى مذاق كررہے تهے- كہہ دیجئے كہ اللہ اور اس كى آيات اور اس كا رسول ہى تمہارے لئے ہنسى مذاق كے لئے رہ گئے ہيں-اب عذرات نہ تراشو، تم نے ايمان لانے كے بعد كفر كيا ہے- اگر ہم نے تم ميں سے ايك گروہ كو معاف كر بهى دياتو دوسرے گروہ كو تو ہم ضرور سزا ديں گے،كيونكہ وہ مجرم ہے-"
(5)بيكار موضوع سے احتراز
آج كل اكثر و بيشتر ملحد و فاسق اباحيت پسند دين كے احكام كے متعلق جو رويہ اپنائے ہوئے ہيں، اسے كسى طور پر بهى بهولنا نہيں چاہئے، كيونكہ ان مسائل كو چھیڑ كر ان كا مقصود ہر گز دين كى تفہیم نہيں ہوتا بلكہ احكامِ اسلامى كے بارے ميں حجیت ِحديث كے متعلق تشكیك پيدا كرنا ہوتا ہے-بسا اوقات موضوع نتيجہ خيز نہيں ہوتا اور اس میں تحقیق كے درپے ہونا وقت ضائع كرنے كے مترادف ہوتا ہے، لہٰذا اس ميں بحث و تمحیص بے فائدہ ہوتى ہے-قرآنِ مجيد نے اصحابِ كہف كا تذكرہ كرتے ہوئے رہنمائى دى ہے :
سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم مِّنْهُمْ أَحَدًا ﴿٢٢﴾...سورۃ اکہف
"كچھ لوگ تمہیں كہيں گے كہ اصحابِ كہف تين تهے اور چوتها ان كاكتا تها اور كچھ غيب كى باتوں ميں اٹكل چلاتے ہوئے كہيں گے كہ وہ پانچ تهے، چھٹا ان كا كتا تها- كچھ كہيں گے :وہ سات ہيں ،آٹهواں ان كا كتا تها- آپ كہہ دیجئے كہ ميرا پروردگار ان كى تعداد بخوبى جانتا ہے، پس آپ اس بارے ميں سرسرى گفتگو ہى كريں اور ان ميں سے كسى سے ان كے بارے ميں پوچھ گچھ نہ كريں-"
لہٰذا ايسے عنوان و موضوعات كا سرسرى تذكرہ كرتے ہوئے گزر جانا ہى دانش مندى ہے۔
(6)دنياوى معاملہ كو طول دينے سے گريز
بسا اوقات موضوع كسى دنياوى معاملہ كے حوالہ سے ہوتا ہے- حقوق كے لينے دينے كا تنازعہ ہوتا ہے-ايسے معاملہ كو بهى طول نہيں دينا چاہئے-بلكہ ادائیگى كى صورت ميں زيادہ دے كر اور وصول كى صورت ميں كم وصول كركے معاملہ كو حل كرلينا اور تنازعہ و جھگڑا سے كنارہ كشى اختيار كرلينا ہى سلامتى و عافيت كى راہ ہے -
سرورِ گرامى عليہ السلام نے فرمايا:
(أنا زعيم ببيت في ربض الجنة لمن ترك المرآء وإن كان مُحِقًّا)
"ميں ايسے شخص كے لئے جنت كے اطراف ميں گهر (ملنے كى )ضمانت ديتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بهى جھگڑا اور اختلاف چهوڑ دے-"8
دوسرى حديث ميں ہے :
(أدخل الله عزوجل الجنة رجلًا كان سهلًا مشتريًا وبائعًا وقاضيًا ومقتضيًا)9
"اللہ تعالىٰ نے ايك شخص كو اس لئے جنت دے دى كہ وہ معاملات كى خريدوفروخت اور قرض كى ادائيگى اور مطالبہ ميں نرم خو تها اور آسانى روا ركهتا تها-"
نبى كريم ﷺنے اس سلسلہ ميں ايك رہنما اصول بيان فرمايا:
عن أبي رافع أن رسول الله استسلف من رجل بكرًا فأتاه يتقاضاه بكره فقال لرجل (انطلق فاتبع له بكرا) فأتاه فقال ما أصبت إلا بكرا رباعيا خيارًا فقال(أعطه فإن خير المسلمين أحسنهم قضاء
" ابو رافع سے روايت ہے كہ آپ نے ايك آدمى سے بكر(جوانى كے قريب اونٹ ) ادهار ليا وہ شخص آيا اور اسى نوجوان اونٹ كا مطالبہ كرنے لگا-آپ نے ايك شخص كو اس كے ليے بكر خريدنے كو كہا- وہ شخص آيا اور كہنے لگے كہ مجهے تو اچهے والا رباعى اونٹ(ساتويں برس ميں لگا ہوا)ملا ہے-آپ نے فرمايا: اس كو يہى دے دو، مسلمانوں ميں بہتر وہ ہے جواچها قرض ادا كرے-" 10
ايك دوسرى حديث ميں ہے :
عن كعب أنه تقاضى ابن أبي حدرد دينا كان عليه فارتفعت أصواتهما حتى سمعها رسول الله ﷺ وهو في بيته فخرج إليهما فكشف ستر حجرته فنادىٰ( يا كعب) قال: لبيك يارسول الله قال: (من دينك هذا) وأوما إلىٰ الشطر قال: قد فعلت قال( قم فاقضه) 11
"حضرت كعب نے ابن ابى حدرد سے اپنے قرض كا تقاضا كيا اور ان كى آوازيں بلند ہوگئيں-آپ نے سن ليا آپ اس وقت اپنے گهر ميں تهے آپ ان كى طرف نكلے اور صحن كا پردہ اٹهايا اور پكارا: اے كعب! وہ بولے لبيك يا رسول اللہ: آپ نے فرمايا: اپنا آدها قرض معاف كر دے ،كعب نے كہا :ميں نے معاف كيا- پهر آپ نے ابن ابى حدرد سے كہا: اٹھ اور قرض ادا كر-"
چنانچہ ہر معاملہ ميں حصولِ حق كے گمان سے جھگڑنا مقدمہ بازى اور ذلت و رسوائى كا پيش خیمہ ہوتا ہے-
(7) حق وباطل كے معاملہ ميں مداہنت روا نہيں
بسا اوقات واقعتا موضوع ايسا ہوتا ہے كہ اس ميں حق و باطل كامسئلہ ہوتا ہے- احقاقِ حق اور ابطالِ باطل من جملہ شریعت كے مقاصد ميں سے اہم ترين مقصد ہے، اس لئے وہ داعى كے فرائض ميں سے اہم ترين فرض ہے ، اللہ تعالىٰ فرماتے ہيں:
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ﴿٨١﴾...سورۃ الاسراء
" اور كہہ دو كہ حق آ گيا اور باطل مٹ گيا، باطل تو مٹنے ہى والا ہے-"
اور پهر فرمايا:
بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ...﴿١٨﴾...سورۃ الانبیاء
" مگر ہم تو باطل پر حق كى چوٹ لگاتے ہيں جو اس كا سرتوڑ ديتى ہے اور وه ديكهتے ديكهتے مٹ جاتا ہے-"
ليكن آج ہم ديكهتے ہيں كہ اس ميں بهى عموما افراط و تفريط كا رويہ اپنايا جاتا ہے- ايك طرف تو يہ آواز ہے كہ كسى كو غلط نہ كہو، سب صحيح ہے حتىٰ كہ اديانِ باطلہ كو مصنوعى روا دارى كے نام پر صحيح اور درست كہا جارہا ہے تودوسرى طرف حق پرستى كے دعوىٰ كے ساتھ ساتھ تعصب وعناد اور فريقِ مخالف كو برداشت كرنا تو دور كى بات رہى، اس پر طرح طرح كے الزامات اور كفر وارتداد كے فتوے لگانے ميں كوئى باك محسوس نہيں كيا جاتا- حالانكہ صراطِ مستقیم اس كے درميان ہے- اگر حق و باطل كو واضح كرنا اور گمراہى و ہدايت ميں فرق كرنا ضرورى اور لازمى امر ہے تو اختلافِ رائے كى صورت ميں اعتدال كى راہ پر قائم رہنا بهى اتنا ہى ضرورى اور لازمى ہے لہٰذا اس سلسلہ ميں حكمت اور موعظہ حسنہ كا دامن ہاتھ سے نہيں چهوٹنا چاہيے- فرمان الٰہى ہے :
وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ...﴿٤٦﴾...سورۃ العنکبوت
"اہل كتاب سے كسى بہتر انداز ہى ميں بحث كرو-"
احقاقِ حق ميں بهى دراصل مخاطب كى خيرخواہى ہى مقصود ہوتى ہے- حوار كوئى محض مناظرہ بازى، عقلى كشتى اور ذہنى دنگل نہيں ہوتا كہ اس ميں جيت اور ہار ہى كى بنياد پر بات ہو- اس لئے حوار ميں نرم گفتگو، مناسب كلمات اور مخاطب كے مرتبہ كا لحاظ بهى ضرورى ہوتا ہے-
چنانچہ انبياے كرام كو بهى ان آداب كو ملحوظ خاطر ركهنے كا حكم ديا گيا تها-چنانچہ موسى عليہ السلام كو فرعون سے گفتگو كے ليے بهیجتے ہوئے ہدايت كى گئى كہ
فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ﴿٤٤﴾...سورۃ طہ
" اس سے نرمى كے ساتھ بات كرنا شايد كہ وہ نصيحت قبول كرے يا ڈر جائے -"
(8) اسى طرح كوشش كى جائے كہ گفتگو ميں فريق مخالف كى حميت و تعصب كو بهى اٹھنے نہ ديا جائے، كيونكہ اس طرح مكالمہ و گفتگو اپنا اثر كهو بیٹھتى ہے-ارشادِ بارى تعالىٰ ہے:
وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ...﴿١٠٨﴾..سورۃ الانعام
"ان كے معبودانِ باطلہ كا بهى بدزبانى سے تذكرہ نہ كريں، كيونكہ حمیت و تعصب ميں وہ معبودِ حق كے لئے نازيبا الفاظ كہے گا-"
(9) مخاطب سے اس كى ذہنى استعداد كے مطابق عقلى اور آسان دلائل سے بات كريں- نمونہ كيلئے جناب ابراہیم كا حوار ہميشہ سامنے رہے جو قرآن ميں ان الفاظ ميں بيان ہوا ہے :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّـهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّـهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿٢٥٨﴾...سورۃ البقرۃ
کیا تونے اسے نہیں دیکھا جو سلطنت پا کر ابراہیم (علیہ السلام) سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑ رہا تھا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ میرا رب تو وه ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے، وه کہنے لگا میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق کی طرف سے لے آتا ہے تو اسے مغرب کی جانب سے لے آ۔ اب تو وه کافر بھونچکا ره گیا، اور اللہ تعالیٰ ﻇالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
يہاں اُنہوں نے كس آسان انداز سے مخاطب كے شبہ كا ردّ كيا ہے اور شافى جواب سے اسے خاموش كرديا ہے-صحابہ كرام اور علماے سلف كى گفتگو ايسى مثالوں سے لبريز ہوا كرتى تهى- صحابہ كرام كا آپس ميں كئى مسائل ميں گفتگو كرنا كتب ِاحاديث ميں مذكور ہے، مثلاً طلاقِ بائن ميں بيوى كے لئے نان و نفقہ سے متعلق فاطمہ بنت قيس اور سيدنا عمر كا حوار، حديث (إن الميت ليُعذب ببكاء أهله عليه) كے معنى سے متعلق ابن عمر، ابن عباس،عمرو بن عثمان اورسيدہ عائشہ كا حوار وغيرہ موجود ہے- بالخصوص خوارج سے سيدنا ابن عباس كے مكالمات انتہائى خوبصورت مثال ہيں- ايسے ہى سيدنا حضرت عمر بن عبدالعزيز كا خوارج سے مكالمہ انتہائى پُرتاثير ہے ،جس كى تفصیل يہ ہے كہ
حضرت عمر بن عبدالعزيز كى سيرت و اخلاق، ديانت و امانت، عدل و انصاف كس سے مخفى ہے؟ خوارج بهى اس كا اعتراف كرتے تهے- اب ان كے مابين نقطہ اختلاف يہ بن گيا كہ اگر آپ كا طريقہ صحيح ہے تو آپ كے پيش رو خلفا و امرا كا طريقہ غلط تها- آپ ان سے برأت كا اعلان كريں اور ان پر لعنت كريں- اگر ايسا كريں گے تو ہم آپ كى اطاعت قبول كريں گے ورنہ نہيں- حضرت عمر انتہائى نرمى سے جواب ديتے ہيں اور ان ميں جذبہ محبت و نرمى اُجاگر كرنے كے لئے فرماتے ہيں كہ ميں بخوبى آپ كى محنت و كاوش سے آگاہ ہوں كہ آپ نے گهر بار اور اپنے مال و اولاد كو چهوڑ ركها ہے اور جنگ و قتال كے درپے ہيں كیونكہ آپ اس كو صحيح سمجهتے ہيں،ليكن ميرے نزديك آپ كو اسے سمجهنے ميں غلطى لگى اور راہ حق سے دور چلے گئے ہيں- اس كے بعد عمر اور خوارج كے درميان درج ذيل گفتگو ہوتى ہے۔
عمر : بتائيے دين ايك ہے يا متعدد؟
خوارج : ايك ہے-
عمر: كيا دين ميں كوئى ايسا كام ہے جوتمہارے لئے جائز ہو اور ميرے لئے ناجائز ؟
خوارج: ہرگز نہيں، سب كے لئے يكساں اور برابر ہے-
عمر: آپ حضرت ابوبكر اور عمر كے بارے ميں كيا رائے ركهتے ہيں؟
خوارج: وہ تو اُمت كے سب سے افضل لوگ تهے-
عمر: آپ كو معلوم ہے كہ نبى كى وفات كے بعد مرتدين اور منكرين زكوٰة سے جنگ
ہوئيں، ابوبكر نے مخالفين كو قتل كيا اور مال ضبط كيا اور عورتوں، بچوں كو قيدى بنايا؟
خوارج : بالكل درست ہے، اسى طرح ہوا-
عمر: كيا جب حضرت عمر خليفہ بنے تو اُنہوں نے ان بچوں اور عورتوں كوآزاد كرديا تها؟
خوارج : درست ہے، آزاد كرديا تها-
عمر: كيا اس اختلاف كى وجہ سے حضرت عمر، ابوبكر سے لاتعلق ہوگئے تهے؟
خوارج : ہر گز نہيں-
عمر: اس اختلاف كے باوجود آپ كيا ان دونوں سے محبت كرتے ہو؟
خوارج : ہاں، دونوں سے محبت كرتے ہيں-
عمر: بلال بن مرداس كے متعلق تمہارى كيا رائے ہے؟
خوارج : وہ ہمارا بہترين شخص ہے-
عمر: تمہیں معلوم ہے كہ بلال بن مرداس مخالفين كا قتل اور ان كا مال لوٹنا وغيرہ درست نہيں سمجھتا تها اور نہ ہى عملاً ايسا كرتا تها جبكہ اس كے ساتهى خوب قتل گرى اور لوٹ مار كرتے تهے - اس اختلاف كے باوجود كيا تمہارا آپس ميں اختلاف پيد اہوا تها؟
خوارج: نہيں، ہرگز نہيں۔
عمر: اس اختلاف كے باوجود تم دونوں سے محبت كرتے ہو؟
خوارج : ہاں
عمر: مجهے عبداللہ بن وہب الراسبى كے متعلق بتاؤ، جب وہ اپنے ساتهيوں كو لے كر بصره سے كوفہ آيا تها تو راستہ ميں عبداللہ بن خباب كے پاس سے گزرا تو اُنہوں نے عبد اللہ كو قتل كرديا اور اس كى لونڈى كا پيٹ چاك كرديا- پهر اسى طرح يہ لوگ بنو قطعیہ پر حملہ آور ہوئے- ان كے آدميوں كو قتل كيا، مال لوٹا، بچوں كو قيدى بنايا اور بچوں كے قتل و قيد كے متعلق قرآن پاك كى اس آيت سے استدلال كيا: (إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ﴿٢٧﴾...سورۃ نوح) پهريہ قافلہ كوفہ پہنچا، اہل كوفہ كا گروہ اس قتل و لوٹ مار، عورتوں اور بچوں كو قيد كركے غلام بنانا درست نہيں سمجھتا تها- تو كيا اس اختلاف كى وجہ سے دونوں گروہ ايك دوسرے سے برأت اختيا ركرگئے تهے، ايك گروہ نے دوسرے پر لعنت كى تهى-
خوارج: نہيں ايسا نہيں ہوا
عمر : اس اختلاف كے باوجود تم دونوں سے محبت كرتے ہو؟
خوارج : كيوں نہيں، ضرور ہم دونوں سے ہى محبت كرتے ہيں-
عمر : جب تم اس اختلاف كے باوجود نہ برأت كا اظہار كرتے ہو اور نہ ہى لعنت كرتے ہو تو پهر مجھ سے كيوں مطالبہ كرتے ہو كہ ميں اس اختلاف كى وجہ سے اپنے پيش رو، اہل خانہ سے برأت كا اعلان كروں اور ان پر لعنت كروں-كيا دين ميں ايسا كوئى معيار ہے كہ ايك كام تمہارے لئے جائز ہو اور ميرے لئے ناجائز؟
اچها يہ بتاوٴ كہ كسى مستحق لعنت پر' لعنت' كرنے كا كيا حكم ہے- كيا يہ فرض ہے يا مستحب؟
خوارج : فرض ہے-
عمر: ايك خارجى كو مخاطب كركے :
بهائى! تمہیں كتنى مدت ہو گئى ہے، فرعون پر لعنت كيے ہوئے؟
خوارج : اس نے جواب ديا كہ ايك لمبا عرصہ ہوگيا ہے-
عمر: فرعون تو كفر كا سرغنہ تها اور پهر تم نے اتنى دير سے اسے لعنت نہيں كى-اور ميرے اہل بيت جن ميں نيكوكار بهى تهے اور گنہگار وخطا كار بهى اور درست صحيح كام كرنے والے بهى تهے ليكن لعنت كے لئے مجھ سے كيوں مطالبہ كرتے ہو كہ ميں فوراً لعنت كروں-
حضرت عمر كے اس استدلال و حوار كا نتيجہ يہ نكلا كہ بہت سارے خوارج تائب ہوكر راہ راست پر آگئے-ملاحظہ ہو جامع بيان العلم وفضلہ : 2/105
(10) بسا اوقات حوار اپنے ہى ہم خيال سے ہوتا ہے- كسى ايك جانب غلطى ہوتى ہے تو وہاں دوسرے كى خدمات كا اعتراف كرتے ہوئے احساس بيدار كيا جائے كہ تم نے غلطى كى ہے- چنانچہ نبى اكرم ﷺ كا غزوئہ حنين ميں انصار سے حوار انتہائى عبرت آموز ہے-
مالِ غنیمت آپ نے قريش كے نو مسلموں ميں تقسيم كرديااور انصار كو كچھ بهى نہيں ديا-انصار كے دلوں ميں وسوسہ پيدا ہوا كہ فتوحات ہم نے كى ہيں اور آپ نے سارا مال قريش كو دے ديا ہے، چہ مگوئياں شروع ہوگئيں- سعد بن عبادہ شكايت لے كر دربارِ نبوى ميں حاضر ہوئے كہ قوم يہ كہتى ہے-
آپ نے فرمايا: اے سعد بن عبادہ! آپ كا كيا خيال ہے؟ سعد نے عرض كيا كہ ميں بهى اسى قوم كا فرد ہوں- آپ نے موقعہ كى نزاكت كو پيش نظر ركهتے ہوئے انصار كو ايك جگہ جمع كيا اور انہيں مخاطب كرتے ہوئے فرمايا:
"تم گمراہ تهے، اللہ تعالىٰ نے ميرے ذريعے تمہیں ہدايت دى- تم فقير تهے، ميرے ہاتھ سے اللہ تعالىٰ نے تمہیں غنى كرديا- تم دشمن تهے، الله تعالىٰ نے ميرے سبب تمہارے دلوں ميں محبت واُلفت ڈال دى-اے جماعت ِانصار! تم جواب كيوں نہيں ديتے؟"
انصار كہنے لگے : "ہم كيا جواب ديں؟ تمام فضل وكرم اور احسان و نعمت یقینا اللہ اور اس كے رسول كا ہى مرہونِ منت ہے-" آپ نے فرمايا:
"ربّ كى قسم! اگر تم چاہو تو (جواباً) كہو اور جو كہو گے، سچ كہو گے اور تمہارى بات كى تصديق بهى كى جائے گى- تم كہو(أتيتنا مُكذَّبًا فصدقناك ومخذولا فنصرناك وطريدًا فآويناك وعائلًا فأغنيناك )"مكہ والوں نے آپ كى تكذيب كى تو آپ ہمارے پاس آئے، ہم نے آپ كو برحق رسول تسليم كيا- آپ بے يارومددگار تهے تو ہم آپ كے دست بازو بنے، آپ ٹھكرائے ہوئے آئے تهے تو ہم نے اپنے گهر پيش كئے، آپ دنيا كى متاع سے خالى ہاتھ تهے تو ہم نے مال نچھاور كرديا-" اگر آپ انصارى حضرات يہ باتيں كہو تو يقيناً برحق ہيں اور ميں بهى ان كو تسليم كروں گا-"
اس كے بعد آپ ﷺ نے اصل مسئلہ كى حقيقت كو واضح فرمايا كہ بحمدالله، تم تو سچے پكے ايمان دار ہو اور ميں نے يہ دنيا كى دولت صرف ان كو دے دى ہے جو ابهى نئے مسلمان ہوئے ہيں، ان كى تاليف قلبى كى ہے كہ وہ ايمان واسلام ميں پكے ہوجائيں-
اور كيا آپ كو يہ پسند نہيں ہے كہ لوگ مال و متاع كے ساتھ گهروں كو لَوٹ رہے ہيں اور تمہیں رسول اللہ كى صحبت اور رفاقت كا شرف حاصل ہے اور تم اپنے ساتھ رسول اللہ ﷺ كو لے كر جارہے ہو- يہ ايسى پرتاثير گفتگو اور حوار تها كہ انصاريوں كى آنكهوں سے آنسو جارى تهے اور داڑهياں بھیگ رہى تهيں-12
الغرض ايك پيدا ہونے والى خلش اور غلط فہمى كو ايسے حكیمانہ گفتگو سے دور فرمايا كہ منفى اثرات كى بجائے مثبت اثرات اور ايمان ميں پختگى نصیب ہوئى-
(11)اسى طرح بسا اوقات مخاطب اپنى كج فہمى، كم علمى اور جہالت كى بنا پر انتہائى گرا ہوا سوال كر ديتا ہے تو ايك دانا مربى اور سمجھ دار داعى كا كام يہ ہے كہ حسن كلام اور حكمت كے ساتھ اس كى اصلاح كرے، اس كے بغير كوئى دوسرا طریقہ موٴثر ثابت نہيں ہوسكتا-چنانچہ كتب ِحديث ميں اعرابى و گنوار لوگوں كا آقا كى خدمت ميں حاضر ہونا اور تلخ و كج گفتگو كرنا ، اوراس كے مقابلے ميں آپ ﷺ كا حكیمانہ اسلوب گفتگو اور مكالمہ كہ وہ جاہل گنوار كائنات كے راہنما اور مربى بن گئے، ہمارے ليے اسوہ حسنہ ہے-چنانچہ حضرت ابو ا مامہ بيان كرتے ہيں كہ ايك نوجوان نبى ﷺكى خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض كيا كہ مجهے بدكارى كى اجازت دے دیجئے-
صحابہ كرام نے اس كے سوال كى قباحت و شناعت پر تعجب كرتے ہوئے اسے ڈانٹا ، ليكن نبى اكرم نے صحابہ كو روكا اور اسے اپنے قريب كر كے نہايت حكیمانہ اسلوب اختيار كرتے ہوئے اس سے پوچها: (أتحبه لأمك)
"كيا تم ايسى بدكارى كا فعل اپنى ماں سے پسند كرتے ہو-"
نوجوان: ہرگز نہيں، ربّ كى قسم! اللہ تعالىٰ مجهے آپ پر فدا كرے-
آپ نے فرمايا: تو پهر لوگ بهى اپنى ماوٴں كے ساتھ بدكارى پسند نہيں كرتے-
آپ نے فرمايا: (أتحبه لابنتك)
"ايسا فعل تم اپنى بيٹى سے پسند كرتے ہو-"
نوجوان : ہرگز نہيں، ربّ كى قسم! الله تعالىٰ مجهے آپ پر فدا كرے-
آپ نے فرمايا:لوگ بهى تو اپنى بيٹيوں كے ليے ايسا ہرگز پسند نہيں كرتے-
آپ نے فرمايا: (أتحبه لأختك)
"كيا يہ بدكارى تم اپنى بہن كے لئے پسند كرتے ہو؟"
نوجوان نے كہا: ہرگز نہيں، ربّ كى قسم! اللہ تعالىٰ مجهے آپ پر قربان كرے-
آپ نے فرمايا :كہ لوگ بهى تو اپنى بہنوں كے لئے يہ پسند نہيں كرتے-
آپ نے فرمايا: (أفتحبه لعمتك)
"كيا تم ايسا فعل اپنى پهوپهى كے ليے پسند كرو گے؟"
نوجوان: ہرگز نہيں، ربّ كى قسم! اللہ تعالىٰ مجهے آپ پر قربان كرے-
آپ نے فرمايا تو پهر لوگ بهى تو اپنى پهوپهيوں سے ايسا فعل پسند نہيں كرتے-
آپ نے پوچها: (أفتحبه لخالتك)
"كيا ايسى بدكارى اپنى خالہ كے ليے پسند كرتے ہو؟"
نوجوان : ہرگز نہيں، ربّ كى قسم !اللہ تعالىٰ مجهے آپ پر قربان كرے-
تو آپ نے فرمايا : لوگ بهى تو اپنى خالاوٴں كے لئے ايسا پسند نہيں كرتے-
پهر آپ نے اپنا دست مبارك اس پر ركهتے ہوئے دعا فرمائى:
(اللهم اغفرذنبه وطهّر قلبه وحصّن فرجه)" اے الله ! اس كا گناه معاف فرما دے، اس كے دل كوصاف كر دے اور اس كى شرمگاه كو محفوظ فرما-" 13
راوى كا بيان ہے كہ اس كے بعد وہ نوجوان ايسى چيزوں كى طرف دهيان بهى نہيں كرتا تها-
ايسے واقعات بكثرت موجود ہيں، اس لئے آداب و اخلاق كے دائرے ميں رہتے ہوئے حوار كے ذريعے ابطالِ باطل اور احقاقِ حق بڑے اچهے طريقے سے ہوسكتاہے۔
حوار كے بعد قابل لحاظ اُمور
نيز ياد ركهئے كہ اپنانقطہ نظر مدلل اور دل نشين انداز ميں پيش كرنے كے بعد بهى چند آداب كو ضرور ملحوظ خاطر ركهنا ضرورى ہے-
جہاں دلائل احتمالى ہوں وہاں تعصب وتنگ نظرى ،دوسرے پر اپنى رائے كو مسلط كرنا اور دوسرے سے حق اختلاف چهين لينا درست نہيں ہے -گفتگو اور دلائل پيش كردينے كے بعد اگر فريق مخاطب آپ كى بات تسليم نہ كرے تو زبردستى اس پر اپنى رائے كو مسلط نہ كريں، اسے معذور خيال كیجئے، كيونكہ بسا اوقات دلائل واضح ہونے كے باوجود بهى بوجہ تعارض يا كم فہمى مخاطب انہيں اختيار نہيں كرپاتا- ايسے موقع پر اس كو رعايت دينا چاہئے- جيسے جنبى شخص كے لئے تیمم كے بارے ميں حضرت عمار اور حضرت عمر كا تكرار كتب ِحديث ميں مذكور ہے- عمار اپنے موقف پر قائم بهى ہيں، ليكن حضرت عمر كى رائے كا احترام كرتے ہيں -
اسى طرح اختلاف كے باوجود بهى فريق مخالف كا اكرام و احترام دل سے ہرگز نہ كم ہو، جيساكہ حضرت ابن عباس اور حضرت زيد بن ثابت كا دادا كى وراثت كے مسئلہ پر اختلاف كرنااور آپس ميں دلائل پيش كرنے ميں تيزى و تكرار كا مظاہر ہ كرنا حتىٰ كہ ابن عباس كہتے ہيں:
ألايتقي الله زيد يجعل الابن ابنا ولايجعل الأب أبا
اور حضرت ابن عباس اپنے موقف كے درست ہونے پر چيلنج بهى كرتے ہيں مگر جب ملاقات ہوتى ہے توانتہائى عقيدت و احترام كے ساتھ پيش آتے ہيں اور حضرت زيد كى وفات پر گہرے دُكھ كا اظہار كرتے ہيں اور ايسى بے شمار مثاليں سلف صالحین كى زندگى ميں موجود ہيں-
اور بسا اوقات زير بحث مسئلہ كثیر الجہت ہوتا ہے تو اپنا موقف بيان كرنے كے بعد دوسرے كے موقف كے بارے ميں بهى وسعت ِظرفى اختيار كى جائے-اور اختلاف كو تفرد اور فرقہ بندى كى بنياد نہ بنايا جائے،جيسا كہ بنو قريظہ كے واقعہ ميں صحابہ كا رويہ ہمارے ليے راہنمائى فراہم كرتا ہے كہ نبى نے صحابہ كو فرمايا:
(لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة) 14
" تم ميں سے ہر شخص بنو قريظہ قبيلہ ميں جا كر عصر كى نماز پڑهے-"
تو اس فرمان كے مفہوم ميں صحابہ كى آراء ميں اختلاف ہوگيا،ليكن صحابہ نے اس بنياد پر تفرد اور فرقہ بندى كى روش اختيار نہيں كى اور پهر بعد ميں نبى نے دونوں آرا كو درست قرار ديا-
اسى طرح كسى بحث ميں فريق مخالف سے كوئى محتمل بات ہوجائے تو اس كو اچهے مفہوم پر ہى محمول كريں- بلا وجہ اپنى طرف سے غلط مفہوم نكالتے ہوئے طعن و تشنيع يا بدگمانى كا شكار نہ ہوں- چنانچہ حضرت عمر نے فرمايا تها :
ولا تظنن بكلمة خرجت من أخيك المؤمن إلا خير وأنت تجدلها في الخير محملا 15
"اپنے مسلمان بهائى سے صادر ہونے والے كلمات كا اچها اور بہتر مفہوم ہى مراد ليجئے جبكہ اس ميں اچها معنى لينے كا امكان و احتمال موجود ہو-"
اللہ تعالىٰ سے دعا ہے اللہ تعالىٰ ہميں اخلاقِ عاليہ اپنانے كى توفيق بخشے- آمين ثم آمين!
فضلاء جامعة لاہور الاسلامية كى ايك روزہ ملاقات
ہر انسان كو اُس مادرِ علمى سے گہرا اُنس ہوتا ہے جہاں وہ اپنے بچپن كے دن گزارتا اوراپنے اساتذہ سے علم كا فیض پاتاہے، ايسے ہى درسگاہوں كو بهى اپنے دامن سے علم وفضل حاصل كرنے والوں سے بڑى اپنائيت اور محبت ہوتى ہے- ليكن سالہا سال سے رابطہ نہ ہونے كى وجہ سے يہ گہرا تعلق كمزور پڑتا چلا جاتا ہے اور دونوں ايك دوسرے كے تعاون اور رہنمائى سے محروم ہوجاتے ہيں-
اس گہرے اور زندہ و پائندہ تعلق كو تازہ كرنے كے لئے آپ كى مادرِ علمى جامعة لاهور الإسلامية نے اِمسا ل تكميل صحيح بخارى او رتكميل عشرہ قراء ات كے موقع پر جامعہ سے گذشتہ برسوں ميں تحصيل علم كرنے والوں كى 'ايك روزہ ملاقات' كا اہتما م كيا ہے- اس ملاقات ميں اپنے ساتهيوں كے سامنے جہاں آپ كو ان مراحل زندگى كو بيان كرنے كا موقع ملے گا جن كا اس درسگاہ سے تحصيل علم كے بعد آپ كو سامنا ہوا، وہاں آپ كو اپنے ساتهيوں كى علمى، تبليغى سرگرميوں اور ان كے تجربات سے استفادہ كا موقع بهى حاصل ہوگا- جبكہ آپ كے مشفق اساتذہ بهى اپنے روحانى فرزندوں كے سامنے اپنے تجرباتِ زندگى كا حاصل پيش كركے رہنمائى فرمائيں گے۔ان شاء اللہ
محبت واپنائيت سے بهرپور اس مجلس ميں آپ كو شركت كى پرخلوص دعوت دى جاتى ہے ، اپنے ضرورى كاموں سے فرصت نكال كر ايك دن اپنى مادرِ علمى كے لئے نكالئے جہاں آپ كے كئى پرانے ساتهيوں اور اساتذہ سے ملاقات كے لئے ايك خوبصورت محفل سجائى گئى ہے-
ہم آپ كے چشم براہ ہوں گے!
الداعيان:
شيخ الحديث حافظ ثناء اللہ مدنى، حافظ عبد الرحمن مدنى، مولانا محمد شفيق مدنى
قارى محمد ابراہیم مير محمدى،مولانا محمد رمضان سلفى، ناظم محمد يوسف، مولانا عبد السلام ملتانى
حوالہ جات
1. ترجمہ آيات : 34تا 37
2. المُعجم الوسيط:ص 205،دار المعارف
3. صحيح بخارى:6018
4. معارف القرآن: 5 / 430
5. ابن ما جہ:208
6. الجواب الكافي:ص111
7. بخارى:4698
8. صحيح ابوداود:4015
9. مسند احمد:413
10. صحيح سنن النسائى:4303
11. صحيح سنن النسائى :4998
12. مسند احمد:11333
13. مسند احمد:21708
14. صحيح بخارى:4119
15. تفسیر ابن كثير:4/212