جامعة لاہور الإسلامية میں ورکشاپ
جمعية إحياء التراث الاسلامي كويت كى ايك فلاحى تنظيم ہے جو دنيا بهر ميں اسلامى ورثے اور روايات كے تحفظ كا مشن ركھتى ہے اوراسى مشن كے تحت اپنى متنوع سرگرميوں كو فروغ دينے كے لئے برس ہا برس سے مصروفِ عمل ہے-پاكستان كے اطراف واكناف ميں بهى اس تنظيم سے مبلغين ودعاة كى ايك بڑى تعداد وابستہ ہے جو مختلف مساجد ميں خطابت وامامت يا دينى مدارس ميں تعليم وتدريس كى ذمہ دارياں اداكر رہے ہيں- ان حضرات كى تربيت كے لئے وقتاً فوقتاً ريفريشر كورسوں كا اہتمام بهى كيا جاتا ہے جس كے ليے بالخصوص موسم گرما كى تعطیلات سے فائدہ اُٹهايا جاتا ہے- ايسے ہى ايك تربيتى كورس كے ليے گذشتہ دنوں جامعہ لاہور الاسلاميہ ميں جمعية احياء التراث الاسلامى كى طرف سے ملك گير تربيتى وركشاپ كا انعقاد كيا گيا- ہفتہ بهر كى اس وركشاپ ميں ڈيڑھ صد كے قريب اہل علم نے شركت كى جنہيں ملك كے مايہ ناز اہل علم ودانش نے دورِ حاضر كے اہم علمى ودعوتى موضوعات پرلیكچرز ديے-
وركشاپ كا مركزى موضوع 'دورِ حاضر ميں دعوتِ اسلام كو درپيش چيلنج' تها-صبح 8 بجے سے شام 7بجے تك روزانہ پانچ ليكچرز ديے جاتے اور ہر لیكچر كے بعد سوالات كا وقفہ بهى ہوتا- اس تربيتى وركشاپ كا ايك اہم مقصد يہ بهى تها كہ اسلام كے خلاف اُٹھنے والے فتنوں اور شكوك وشبہات سے علماے كرام كو آگاہ كيا جائے تاكہ وہ معاشرے ميں موٴثر اور فعال كردار ادا كر سكيں- وركشاپ ميں بعض اہم موضوعات پر سيمينار اور سمپوزيم كا اہتمام بهى كيا گيا-
يہ وركشاپ جامعہ لاہور الاسلاميہ كے مدير حافظ عبدالرحمن مدنى كى زيرسرپرستى منعقد ہوئى اور جمعية احياء التراث الاسلامى كى طرف سے اس كى نظامت كے فرائض حافظ محمد اسحق زاہد نے انجام ديے- حافظ صاحب موصوف نے شرعى اور سماجى علوم كى تعليم جامعہ لاہور الاسلاميہ سے حاصل كى، بعد ازاں مدينہ منورہ يونيورسٹى كى حديث فيكلٹى سے ليسانس كى ڈگرى خصوصى امتياز سے حاصل كى اور فراغت كے بعد آپ جامعہ لاہور الاسلاميہ ميں ايك عرصہ بطورِ مدرّس اپنى خدمات انجام ديتے رہے- گذشتہ چند سالوں سے آپ كويت ميں قيام پذير ہيں ، جہاں آپ اپنى علمى اوردينى مصروفيات كے علاوہ جامعہ لاہور الاسلاميہ اور ماہنامہ 'محدث' كى نمائندگى بهى كررہے ہيں-
23 /جولائى 2005ء،ہفتہ سيمينار ہمدرد سنٹر، لاہور
اس فكر ى اور تربيتى وركشاپ كے آغاز پر 23 /جولائى 2005كو ہمدرد سنٹر لاہور ميں چيئرمين سينٹ آف پاكستان جناب محمد مياں سومرو كى زير صدارت 'اسلام او ردہشت گردى' كے موضوع پر ايك بين الجماعتى سيمينار كا انعقاد كيا گيا جس ميں لندن ميں حاليہ بم دهماكوں كے بعد پيدا ہونے والى صورتحال پر مختلف مكاتب ِفكر كے نمائندگان كو اظہارِ خيال كى دعوت دى گئى تهى- تقريب كى مفصل كارروائى كے لئے محدث كے اسى شمارے ميں شائع شدہ رپورٹ كا مطالعہ كريں- چار گهنٹے جارى رہنے والى يہ تقريب نمازِ ظہر پر اختتام پذير ہوئى-
* اسى روز عصر كے بعد وركشاپ كے دوسرے سيشن كا آغاز مجلس التحقیق الاسلامى كے ايئركنڈيشنڈ ہال ميں ہوا- جامعہ لاہور الاسلاميہ كے اُستاذ مولانا محمد شفيق مدنى نے سٹیج سيكرٹرى كے فرائض انجام ديتے ہوئے جامعہ كے اُستاذ قارى عارف بشير كو تلاوتِ قرآن مجيدكى دعوت دى- ان كى پُرسوز تلاوت نے حاضرين پر تقدس كا پر كيف سماں طارى كر ديا تها-
* سب سے پہلے جامعہ كے شيخ الحديث حافظ ثناء اللہ خاں مدنى حفظہ اللہ كو "الطائفة المنصورة ومنهجها"كے موضوع پر اظہارِ خيال كى دعوت دى گئى- حافظ صاحب موصوف نے اپنے ايك گهنٹے كے افتتاحى عربى خطاب ميں رسول اللہﷺ كے فرمان(لاتزال طائفة من أمتي ظاهرين حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون)وفي رواية (ظاهرين علىٰ الحق لا يضرهم من خَذَلهم) اور نبى ﷺ كى وضاحت كہ اس سے مراد(ما أنا عليه وأصحابي)كى روشنى ميں اس طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجيہ كے اَوصاف اور خصوصيات كا تذكرہ كيا- خطاب ميں آپ نے ابن تیمیہ كے اس قول كو ذكر كيا كہ
"اس سے مراد وہ لوگ ہيں جو رسول اللہ ﷺ كى سيرت، آپ كے حالات اور آپ كى احاديث كو اُمت ميں سے سب سے بڑھ كر جاننے والے ہيں اور وہ لوگ جنہوں نے قرآن وسنت كى معرفت اور ان كے ظاہر و باطن كى پہچان، ان سے محبت اور ان كے تقاضوں كے مطابق عمل كا حق ادا كرديا-" اور بقول امام اللالكائى :
"اس سے مراد وہ لوگ ہيں جن كے علم و استدلال كا مركز رسول اللہ ﷺ كا علم ہے، جو آپ كى احاديث كى اتباع كى جستجو كرتے ہيں اور يہى لوگ فرقہ ناجيہ منصورہ ہيں- "
اور بقول شاہ ولى اللہ دہلوى:"فرقہ ناجیہ سے مراد وہ لوگ ہيں جو عقیدہ و عمل ميں كتاب وسنت نيز صحابہ و تابعین كے منہج پر كاربند ہيں-"
اس كے بعد اُنہوں نے عظيم ائمہ حديث و فقہا كے اَقوال كى روشنى ميں يہ ثابت كيا كہ ان صفات كے حامل اہل السنة والجماعت اور اہل الحديث ہيں- مثلاً على بن مدينى نے فرمايا كہ اس طائفہ سے مراد 'اصحابُ الحديث' ہيں- امام احمد كا قول ہے كہ "إن لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم" "اگر اس سے مراد اہل الحديث نہيں ہيں تو پهر مجهے نہيں معلوم كہ اس سے مراد كون ہيں؟"
اُنہوں نے غنية الطالبين كے حوالہ سے شيخ عبدالقادر جيلانى كا يہ قول ذكر كيا :
"وأما الفرقة الناجية فهي أهل السنة والجماعة،وأهل السنة لا إسم له إلا إسم واحد وهو أصحاب الحديث"
"نجات يافتہ گروہ اہل السنة والجماعہ ہى ہے- اور اہل سنت كا كوئى نام نہيں سوائے اصحاب الحديث كے-"
اس كے علاوہ اُنہوں نے ابن تيميہ، امام اللالكائى اور ابن قيم وغيرہ متعدد ائمہ كے اقوال كا تذكرہ كيا جنہوں نے الطائفة المنصورة كا مصداق اہل السنہ والجماعة اور اہل الحديث كو قرار ديا ہے اور امام نووى كے حوالہ سے بتايا كہ اس سے مراد كوئى خاص فرقہ نہيں ہے بلكہ وہ لوگ ہيں جو مذكورہ صفات كے حامل ہيں-
* اس دن كا دوسرا خطاب مولانا ارشاد الحق اثرى (مدير ادارہ علوم اثريہ، فيصل آباد)كا تها- مولانا اثرى نے "ضعیف اور موضوع احاديث كے خطرات اور فضائل ميں ضعيف حديث پر عمل كا حكم" كے موضوع پر گفتگو كرتے ہوئے اُمت ِمسلمہ ميں اختلاف كا بڑا سبب ضعیف وموضوع روايات كے چلن اور ان پر اعتماد كو قرار دياكہ جہاں فضائل تو دركنار عقيدہ كے مسائل كو بهى ضعیف اور موضوع روايات كى بهينٹ چڑها ديا گيا ہے-
اس كے بعد اُنہوں نے ضعيف حديث پر عمل كے سلسلہ ميں علما كے تين اَقوال كا تذكرہ كرتے ہوئے دلائل سے يہ ثابت كيا كہ ضعيف اور موضوع روايت عقيدہ، عبادات و معاملات تو كجا، فضائل اعمال ميں بهى ناقابل قبول ہے اور يہى موقف ابن سيد الناس، يحيىٰ بن معين، امام بخارى، امام مسلم، ابن حبان، ابن حزم ، ابن العربى اور امام شوكانى رحمہم اللہ كا ہے-
اُنہوں نے كہا كہ جب عام معاملہ ميں عادل گواہ شرط ہے اور فاسق كى بات قابل قبول نہيں تو پهر دين كے معاملہ ميں يہ احتياط كيوں نہ ملحوظ ركهى جائے-اُنہوں نے كہا كہ بعض ايسى روايات كو بهى حديث بنا كر پيش كيا گيا ہے جو جهوٹے راويوں سے بهى ثابت نہيں اور ان كے بارے ميں يہ كہا گيا كہ يہ شايد ان كتابوں ميں ہوں جو سقوطِ بغداد ميں دريا برد ہوگئى ہوں- اُنہوں نے كہا كہ اگر اس احتمال كو تسليم كرليا جائے تو اس كا مطلب يہ ہوگا كہ دين دريا برد ہوگيا اور اس كے بعد دين كى حفاظت كا دعوىٰ بهى باطل ہوكر رہ جائے گا-
نيز اُنہوں نے ضعيف * ضعيف= ضعيف كے اُصول كوغلط قرا رديا اور كہا كہ محدثين كا اُصول يہ ہے كہ روايت كے تمام طرق كو جمع كركے اس كو پايہٴ ثبوت پرلايا جائے-
دوسرا دن اتوار: 24 /جولائى 2005ء
* تلاوتِ كلام پاك كے بعد صبح 8 بجے ڈاكٹر حافظ محمد انور نے 'فرقہ پرستى ؛ اسباب اور اس كا حل' كے موضوع پر اظہارِ خيال كرتے ہوئے قرآن و سنت كے دلائل سے تفرد اور فرقہ پرستى كو اُمت ِمسلمہ كے لئے زہر قاتل اور ايك ناسور قرار ديا- اُنہوں نے بتايا كہ جس طرح دورِ جاہليت كے عرب سياسى اور معاشرتى خلفشار كاشكار ہونے كى وجہ سے غيروں كے محكوم ہوگئے تهے، اسى طرح آج اُمت ِمسلمہ كى سياسى و حدت پارہ پارہ اورتفرقہ كا شكار ہے- حكمران طبقہ كافروں كاحليف اور عوام الناس دوسرى طرف كهڑے ہيں اور مسلمان مسلمان كو مار رہا ہے-
اس كے بعد اُنہوں نے اس تفرق كے اخلاقى، دينى اور سياسى اَسباب كا تذكرہ كرتے ہوئے بلاتحقیق ہر كسى كى بات پر يقين كرنے اور اس پر فورى ردعمل كے اظہار كو اس تفرق كا اہم سبب قرار ديا اور كہاكہ آج مغربى ميڈيا مسلمانوں ميں انتشار پيدا كرنے كے لئے يہى حربہ استعمال كررہا ہے- نيز اُنہوں نے سورئہ حجرات كى روشنى ميں تمسخر ، بدگمانى، غيبت وغيرہ كو تفرق كے اَخلاقى اسباب اور قرآن و سنت اور صحابہ كے منہج سے دستبردارى كو اس كا اہم دينى سبب قرار ديتے ہوئے اس كا علاج يہ تجويز كيا كہ اتباعِ نفس سے دست كش ہوكر ہر كام كى بنياد تقوىٰ اور خدا خوفى پر ركهى جائے اور الحب للہ والبغض في اللہ كے اُصول پر عمل كيا جائے-
* پروفيسر سعيد مجتبىٰ سعيدى نے 'منكرين سنت كے شبہات اور ان كا ردّ' كے موضوع پر خطاب كرتے ہوئے سنت اور حديث كى لغوى،اصطلاحى تعريف اور ان كا باہمى تعلق بيان كيا اور مختلف حوالوں سے واضح كيا كہ محدثين كے نزديك 'حديث و سنت' ايك ہى مفہوم ميں استعمال ہوتے ہيں-
اُنہوں نے عقلى اور نقلى دلائل سے سنت كى اہميت بيان كرتے ہوئے واضح كياكہ سنت كے بغير قرآن كو صحيح سمجھنا اور اس پر عمل كرنا ناممكن ہے اور اس كے بعد متعدد ايسى قرآنى آيات پيش كيں جنہيں حديث كے بغير سمجھا نہيں جاسكتا-
انہوں نے انكارِ حديث كى تاريخ كا اختصار سے ذكر كرتے ہوئے منكرين حديث كے كم وبيش 15 شبہات كا ذكر كرنے كے بعد تفصيل سے ان كا ردّ پيش كيااور ثابت كيا كہ كوئى صحيح حديث قرآن كے خلاف نہيں ہوسكتى- رسول اللہ ﷺ كى اطاعت روزِ قيامت تك فرض ہے، كيونكہ آپ كى نبوت عالمگير ہے ،نيز حديث كو ظنى قرار دينا محض دهوكہ اور سازش ہے اور آخر ميں دلائل سے ثابت كيا كہ بيشتر صحابہ كے پاس حديث كے صحيفے لكھے ہوئے موجود تهے، لہٰذا مستشرقين اور منكرين حديث كا يہ اعتراض باطل ہے كہ حديث دوسرى اور تيسرى صدى ہجرى ميں لكهى گئى-
* حافظ عبدالرحمن مدنى حفظہ اللہ مدير جامعہ لاہور الاسلاميہ نے 'فكر ِغامدى اور اس كے خطرات' كے موضوع پر نہايت پرمغز ليكچر ارشاد فرمايا- اُنہوں نے حضرت عمر كے قول"ہم جاہليت كو جانے بغير اسلام كو نہيں جان سكتے!"سے استدلال كرتے ہوئے دورِ حاضر كے فتنوں اور انحرافات كوجو دراصل خوارج، جہميہ اور معتزلہ كا نيا روپ ہيں ، سمجهنے كى اہميت پر زور ديا-
اُنہوں نے فرقہ غامديہ كے گمراہ كن نظريات ،مثلاً افغانستان و عراق پر امريكى جارحيت كو جائز اور اسامہ اور ملا عمر كو جارحيت كا مجرم قرار دينا، مرزا غلام احمد قاديانى كى طرح جہاد اور نزولِ عيسىٰ كا انكار، رسول اللہ ﷺ پر موسيقى اور ناچ گانا سننے كا الزام عائد كرنا، تصوير اور مجسمہ سازى، ويلنٹائن ڈے اور بسنت جيسے مغربى اور ہندوانہ رسوم و رواج كو جائز سمجھنا اور مردوں كے لئے عورت كى امامت كے جواز كے فتوىٰ كو اُمت كے اجتماعى رويہ سے انحراف قرا رديتے ہوئے واضح كيا كہ يہ دراصل پرويزمشرف كے پرفريب ايجنڈے :'روشن خيال اور اعتدال پسند اسلام' كو آگے بڑهانے كى منظم كوشش ہے-
اُنہوں نے كہا كہ مولانا امين احسن اصلاحى نے محدثين كے اُصولوں كو من مانا مفہوم پہنا كر انكارِ حديث كے جو دروازے كهولے اور خود ساختہ اُصول وضع كئے، ان سے فائدہ اٹها كر اس اعتزالى فرقہ نے اسلام كا حليہ بگاڑنے كا سلسلہ شروع كر ركهاہے -
اُنہوں نے يونيورسٹيوں كے اندر پروان چڑهنے والے اس رويہ كہ "صرف قرآن سے دليل پيش كرو" كو انتہائى خطرناك قرار ديتے ہوئے دلائل سے ثابت كيا كہ رسول اللہ ﷺ كا ہر طرزِعمل شريعت ہے، اِلا كہ آپ خود واضح كرديں كہ يہ ميرا ذاتى فعل ہے، مثلاً رسول الله ﷺ كا پيوندكارى سے منع كرنا اور گوہ كا گوشت نہ كهانا-
اُنہوں نے واضح كيا كہ حديث و سنت ہم معنى ہيں اور ان كے درميان فرق صرف اعتبارى ہے، لہٰذا سنت سے صرف تواتر ِعملى (جو اُمت ميں عام رائج ہوجائے) مراد لينا غلط ہے- رسول اللہ ﷺ كا ايك دفعہ كسى كام كو كرنا اس بات كا واضح ثبوت ہے كہ يہ بات اسلامى شریعت كا ضرورى حصہ ہے- اب اس بنياد پر كہ رسول اللہ ﷺ كى يہ سنت اُمت ميں رائج نہيں ہوسكى، اسے حديث قرار دے كر سرے سے اس كا انكار كردينا كہاں كا انصاف ہے ؟
اُنہوں نے كہا كہ يہ انتہائى بدديانتى اور دهوكہ ہے كہ ايك اصطلاح كے واضعين نے اس كا جومفہوم متعين كيا ہے، اس سے انحراف كركے اسے اپنى مرضى كا مفہوم پہنا ديا جائے-
شيعہ جو اپنے ائمہ كے اجتہاد كو معصوم قرار ديتے ہيں، اس كا ردّ كرتے ہوئے اُنہوں نے واضح كيا كہ رسول اللہ ﷺ كے علاوہ كسى كا اجتہاد بهى معصوم نہيں ہے اور معصوم ہونے كابهى مطلب يہ نہيں كہ آپ سے غلطى ہوتى نہيں تهى بلكہ مطلب يہ ہے كہ آپ كو اس اجتہادى غلطى پر فوراً متنبہ كرديا جاتا تها- اُنہوں نے 'فقہ اور شريعت كا فرق' بيان كرتے ہوئے واضح كيا كہ فقہ علما كى اجتہادى كاوشوں اور شريعت كتاب و سنت كا نام ہے اور اجتہاد شريعت نہيں بلكہ شريعت كى تعبير ہے جس ميں غلطى كا امكان بہرحال موجود ہے-
عصر كے بعد دوسرے سيشن كا آغاز قارى عبدالسلام صاحب كى تلاوت سے ہوا- اس كے بعد
* پروفيسر ڈاكٹر عبدالروٴف ظفر نے 'اہل السنہ اور شیعہ كے اُصولِ حديث كا تقابلى جائزہ' كے موضوع پر اپنا مقالہ پيش كيا-اُنہوں نے شيعہ كے مخصوص عقائد تقيہ وغيرہ كاذكر كرتے ہوئے واضح كيا كہ روافض نے فضائل ميں تين لاكھ احاديث وضع كيں-
اُنہوں نے شیعہ كے اُصولِ حديث كا ذكر كرتے ہوئے واضح كيا كہ شیعہ حضرت على اور ان كے ماسوا 15صحابہ كے علاوہ تمام صحابہ پر جرح كرتے ہيں اور ان 15 كے علاوہ كسى سے روايت نہيں ليتے- اُنہوں نے شيعہ كى كتب ِصحاح كا تعارف كرواتے ہوئے ان كى مستند ترين كتاب الصحيح الكافي كا الصحيح البخاري سے تقابلى جائزہ پيش كيا اور واضح كيا كہ صحيح بخارى و مسلم كے تمام رواة "قد جاوز القنطرة" ہيں، ليكن الصحيح الكافي ميں بعض مجہول اور ضعيف رواة موجود ہيں-
* حافظ حسن مدنى مديرہنامہ 'محدث' نے 'دعوت و تحقیق كے ميدان ميں كمپيوٹرسے استفادہ' كے موضوع پر گفتگو كرتے ہوئے دور ِحاضر ميں كمپيوٹر، انٹرنيٹ اور انفارميشن ٹيكنالوجى كى اہميت پر مثالوں كے ذريعے سے روشنى ڈالى- خطاب كے آغاز ميں اُنہوں نے كمپيوٹر كو استعمال كرنے كى شرعى حيثيت پر بحث كى اور كہا كہ اس كا جواز اس كے اچهے برے استعمال كے تابع ہے- اپنے خطاب ميں ٹى وى اور كمپيوٹر كا تقابل كرتے ہوئے انہوں نے كمپيوٹر كى اہميت پر 5 نكات ذكر كيے اور اس كے حسب ِذيل تين امتيازات كا تذكرہ كيا :
كمپيوٹر ميں مختصر جگہ پر زيادہ سے زيادہ عبارت كو سمويا جاسكتا ہے- اس نكتے كے تحت اُنہوں نے متعدد كتب پر مشتمل سى ڈيز كا تعارف كراتے ہوئے سامعين كو ان سے استفادہ كى ترغیب دى- دوسرے امتياز كى نشاندہى كرتے ہوئے اُنہوں نے كمپيوٹر ميں درج ہوجانے والى تمام عبارت كو حرو فِ ابجد كى مدد سے تلاش كرنے كى سہولت كا تذكرہ كيا- اُنہوں نے كہا كہ كسى مفہوم تك پہنچنے ميں الفاظ بنيادى حيثيت ركهتے ہيں، اگر ملتے جلتے الفاظ تك پہنچنا ممكن ہوجائے تو اس سے گويا مكمل كتاب كا ايك حد تك انڈیكس حاصل ہوجاتا ہے- اُنہوں نے احاديث كى كتابى فہارس كے بالمقابل كمپيوٹر فہارس كے وسيع امكانات كو تفصیل سے بيان كيا- تيسرے امتياز كے طور پر اُنہوں نے معلومات كو ايك دوسرے سے منسلك اور ملحق كرنے كى صلاحيت كو ذكر كيا- اس نكتہ كے تحت اُنہوں نے كمپيوٹر پر احاديث اور فقہى مسائل كے موضوعاتى فہارس، اسماء الرجال اور اليكٹرونك ترجمہ وغيرہ كے پروگراموں كا تعارف كرايا-
خطاب كے دوسرے حصہ ميں انٹرنيٹ كے بارے ميں بتاتے ہوئے اُنہوں نے ديگر مذاہب كے اپنى دعوت ميں انٹرنيٹ كواستعمال كرنے كے اَعداد وشمار پيش كئے، انٹرنيٹ پر دعوت وتبلیغ كے مختلف اساليب كى نشاندہى كرتے ہوئے اُنہوں نے اہم اسلامى ويب سائٹس كى نشاندہى كى جن كے ذريعے سے اسلامى كتب ، مخطوطات، خطباتِ جمعہ اوراحاديث وغيرہ كو اپنے كمپيوٹر پر اُتارا جاسكتا ہے- اپنے خطاب كے آخر ميں اُنہوں نے تحقيق كے ميدان ميں ايك مسلم اور غير مسلم كو دستياب سہولتوں اورجديد آلات كا ايك نقشہ پيش كرتے ہوئے اس امر كى طرف حاضرين كى توجہ مبذول كرائى كہ ان كو استعمال نہ كرنے سے مسلمانوں كے تحقیقى كام ميں كس قدر مشكلات حائل ہوجاتى ہيں-
تيسرا دن سوموار: 25/ جولائى 2005ء
اس روز صبح كے سيشن ميں 'سلفى دعوت كا آغاز و ارتقا، خصوصيات، كمزورى كے اسباب، راستے ميں حائل ركاوٹيں، اور اس دعوت كو پروان چڑهانے كے طريقے' كے موضوع پر ايك مذاكرہ كا اہتمام كيا گيا تها، جس كے شركا ميں ڈاكٹر سہيل حسن، مولانامحمد اسحق بھٹى، شيخ الحديث حافظ ثناء الله مدنى اور حافظ عبدالرحمن مدنى حفظہم الله شامل تهے-
* پروفيسر ڈاكٹر سہيل حسن جامعہ الامام سے پى ايچ ڈى كرنے كے بعد اس وقت بين الاقوامى اسلامك يونيورسٹى اسلام آباد ميں شعبہ قرآن وسنت كے چيئرمين ہيں- آپ نے سلفى دعوت كے خصائص؛ توحيد، اتباعِ رسول اور تزكيہٴ نفس اور اس كے ذريعے سے ايسے معاشرہ كا قيام جو اِن صفات سے متصف ہو، كاتذكرہ كرتے ہوئے ان اثرات كا تفصيل سے جائزہ ليا جو اس دعوت كے نتيجے ميں دنيا اورخصوصاً ہندوستان پر مرتب ہوئے-
اُنہوں نے كہا كہ اس علمى اور فكرى تحريك كى دعوت سے فقہى جمود ٹوٹا، كتب ِحديث كو فروغ حاصل ہوا، ان كى شروحات اور حاشيے لكھے گئے، جس كى وجہ سے احناف ميں بهى كتب احاديث كے حواشى لكھنے كى تحريك پيدا ہوئى اور صديوں سے فقہى جمود تلے دباہوا يہ رويہ دوبارہ زندہ ہوا كہ دين كى اصل بنياد كتاب و سنت ہے-مدارس كا قيام عمل ميں آيا، جس سے ايسے جيد علما پيداہوئے جن كى بازگشت عالم عرب ميں بهى سنى گئى اور پهر وہاں سے لوگ ہندوستان حصولِ علم كے لئے آئے-ان علما كا تذكرہ كرتے ہوئے آپ نے برصغير ميں اہل حديث كى خدمت حديث پر بعض علما ے عرب كے خيالات بهى پيش كئے-آپ نے كہا كہ
تصنیف و تالیف كے ميدان ميں اس دعوت كے حاملين نے كارہائے نماياں انجام ديے- قرآن كى تفاسير اور احاديث كى متعدد شروحات لكهى گئيں، اس سلسلہ كى بے شمار شخصيات ہيں جن ميں مولانا عبدالرحمن مباركپورى، مولانا شمس الحق عظيم آبادى، نواب صديق حسن خان، مولانا ثناء اللہ امرتسرى اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑى سرفہرست ہيں اور پهر اسى تحريك كے حاملين نے ہندوستان ميں سب سے پہلے 'جہاد' كا ميدان سجايا-
* نامور موٴرخ اور متعدد كتب كے مصنف مولانا اسحق بھٹى حفظہ اللہ نے ہندوستان ميں تحريك ِاہلحديث كے آغاز و ارتقا كى تفصيلات پيش كيں اور بتايا كہ ہندوستان ميں 25 صحابہ، 48 تابعین اور 18 تبع تابعین تشريف لائے- اُنہوں نے احاديث كى تصحیح وتضعيف ميں اُمت كے درميان اِفراط و تفريط كے رويہ كى نشاندہى كرتے ہوئے مسائل ميں اتفاق و اتحاد كا رويہ اختيار كرنے پر زور ديا- نيز اُنہوں نے ہندوستان ميں جماعت اہل حديث كے تين نامور خاندان: غزنوى، لكھوى اور روپڑى كا مختصر تعارف پيش كرتے ہوئے ان كى خدمات كو خراجِ تحسین پيش كيا، اُنہوں نے تاريخ كى اہميت كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا كہ اگر تاريخ نہ ہوتى تو آپ رسول اللہ ﷺ كے احوال ، صحابہ كرام كى سيرت سے واقف نہ ہوتے اور يہ تاريخ كا ہى كرشمہ تها كہ اس نے صرف حديث سے متعلق پانچ لاكھ رجال كے حالات محفوظ كرديے- چنانچہ اُنہوں نے اسلاف كى زندگيوں اور كارناموں كو تاريخ كے اوراق ميں محفوظ كرنے اور اس كارِخير ميں مصروف افراد كو معلومات فراہم كرنے ميں ہر ممكن تعاون پر زور ديا، كيونكہ اسلاف كى شاندار روايات كو سامنے ركھ كر ہى ہم مستقبل كى صحيح منصوبہ بندى كرسكتے ہيں-
* مدير الجامعہ حافظ عبدالرحمن مدني نے زير بحث موضوع پر گفتگو كرتے ہوئے كہاكہ ہندوستان ميں حديث كے عدمِ فروغ كى وجہ سے بہت سى بدعات كو سنت كے طور پر اختيار كرليا گيا اورمجتهد في المذهب كے طور پر جمع شدہ اَقوال پر تقليد ِجامد اختيار كرلى گئى تو سلفيّت كى اس تحريك نے صديوں سے رائج ان بدعات كا رد كيا اور سب سے پہلے "فردّوه إلىٰ الله والرسول" كے رويہ كا احيا كيا جو صديوں سے تقليد كى دبيز تہہ تلے دب چكا تها-
اُنہوں نے كہا كہ بدعات كے ردّ اور فقہى جمود كو توڑنے ميں شاہ ولى اللہ اور ان كے ابناءِ اربعہ كى فروغِ حديث كى تحريك نے اہم كردار ادا كيا اور پهر ولى الله مسند كے جانشين سيد نذير حسين محدث دہلوى كى زندگى كا 50 سالہ عرصہ اسى تحريك كو پروان چڑهانے ميں صرف ہوا، جن كى درس گاہ دارالعلوم ديوبند سے 25 سال پہلے دہلى ميں 1842ء ميں قائم ہوچكى تهى- ليكن فقہى جمود اور كتاب وسنت كومروّجہ فقہ كے مطابق ڈهالنے كا رويہ بهى اس كے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور نہايت ذہين دماغ اس لاحاصل كوشش ميں صرف ہوتے رہے- يہى وجہ ہے كہ بعض مخلص اكابر ديوبند نے اپنے اس رويہ كو ضياعِ حيات كے مترادف قرا رديا، جيسا كہ دارالعلوم ديوبند كے شيخ الحديث مولانا انورشاہ كشميرى كا واقعہ مشہورہے جو مفتى محمد شفيع نے بيان كيا ہے-
آخر ميں اُنہوں نے اس علمى اور فكرى تحريك كى چند كمزوريوں كا ذكر كرتے ہوئے واضح كيا كہ اہل حديث چند اختلافى مسائل كا نام نہيں بلكہ اس رويہ اور فكر كا نام ہے كہ سلف اور فقہا كے اجتہادات سے استفادہ كرتے ہوئے براہ راست كتاب و سنت سے اختلافى مسائل اور جديد چيلنجز كا حل تلاش كيا جائے-انہوں نے كہا كہ سلفى كا معنى يہ نہيں كہ وہ بس ماضى سے چمٹ جائے بلكہ حقيقى سلفى وہ ہے جو اكابر كى اقدار كو آگے بڑهائے-
* اس كے بعد جامعہ لاہور الاسلاميہ كے شيخ الحديث حافظ ثناء اللہ مدنى نے تحريك اہلحديث كى تاريخ كا تذكرہ كرتے ہوئے شاه ولى الله كو ہندوستان ميں اس تحريك كا محركِ اوّل قرار ديا- اُنہوں نے شاہ صاحب كى زندگى كو تين ادوار ميں تقسيم كرتے ہوئے كہا كہ زندگى كے پہلے دو ادوار ميں اُنہيں اہلحديث تحريك كا بانى كہنا مشكل ہے- ہاں تيسرا دور ان كى زندگى كا انقلابى دور ہے جس ميں انہوں نے ہندوستانيوں كا رخ كتاب و سنت كى طرف موڑ ديا- اس كے بعد اُنہوں نے شاہ محمد اسحق، سيد نذير حسين محدث دہلوى،حافظ عبدالمنان وزيرآبادى، مولانا عبدالرحمن مباركپورى، حافظ محمد گوندلوى، حافظ عبداللہ محدث روپڑى، مولانا عبداللہ غزنوى مولانا شمس الحق عظيم آبادى اور مولانا محمد على لكهوى كى خدماتِ جليلہ كا ذكر كرتے ہوئے ان كى سوانح حيات خصوصاً سيد نذير حسین محدث دہلوى كى خدمات كو متعارف كروانے پر زور ديا اور ان شبہات كا ردّ كيا جو اس تحريك كے متعلق مخالفین كى طرف سے اُٹهائے جاتے ہيں- اُنہوں نے سلفى دعوت كى كمزوريوں كا ذكر كرتے ہوئے كتاب و سنت سے لاعلمى اور اپنے اسلاف كى تاريخ سے بے اعتنائى اور اس كے مشن سے ہٹ جانے كو ان كمزوريوں كا اہم سبب قرار ديا-
اُنہوں نے كہاكہ اس سلفى تحريك كو موجودہ گندى سياست ميں ملوث كرنے كا نتيجہ يہ نكلا ہے كہ آج ہمارے مدارس سے ابن تیمیہ و ابن قیم وغيرہ كى ياد تازہ كرنے والے محدث، مدرس اور مفتى پيدا ہونے كى بجائے سياستدان پيدا ہورہے ہيں- اُنہوں نے كہا كہ مسائل ميں اختلاف كا ہونااُمت ميں انتشار كا باعث نہيں بلكہ اختلاف كى بنياد پرتفرداور تعصب كا رويہ انتشار كا اصل سبب ہے-
يہاں اُنہوں نے دعوتِ سلفى كے احيا ميں اپنے اور اپنے ساتهيوں مولانا عبد السلام كيلانى اور حافظ عبدالرحمن مدنى كے كردار كا تذكرہ كرتے ہوئے 35 برس قبل ماہنامہ محدث كے آغاز كى تفصيلات پر بهى روشنى ڈالى اور فرمايا كہ اس مجلہ كا نام ميرے آبائى گاؤں 'سرہالى' ميں مولانا عبد السلام كيلانى كى تجويز پر 'محدث' ركها گيا، پهر اُنہوں نے محدث كى 35 سالہ جدوجہد كا مختصر تذكرہ كرتے ہوئے ان دينى اداروں كے قيام اور بقا كے لئے اپنے ساتهى حافظ عبد الرحمن مدنى (مدير الجامعہ) كى خدمات كو سراہا- آپ كے خطاب كے دوران سلفى تحريك پر جنورى 1971ء كے شمارہ 'محدث' ميں شائع ہونے والے ايك نادر مقالہ كو بهى تقسيم كيا گيا-
* مذاكرہ كے اختتام كے بعد مولانا مفتى عبدالحنان زاہد (مفتى جامعہ سلفيہ فيصل آباد) نے 'مكالمہ كے آداب' كے موضوع پر اظہارِ خيال كرتے ہوئے قرآن و سنت كے دلائل كى روشنى ميں ايك داعى كيلئے مكالمہ كى ضرورت و اہميت ، اس كے تقاضے اور شرائط كا تذكرہ كيا-
اُنہوں نے كہا كہ مكالمہ كا مقصد علمى تفوق اور دوسرے كو نيچا دكهانا نہيں ہونا چاہيے- ايسى سوچ يقينا خطرناك اور بقول امام غزالى شراب كى طرح اُمّ الخبائث ہے-نيزمكالمہ كو بلا وجہ طول نہ ديا جائے، بلا وجہ ہر بحث ميں كودا نہ جائے، ليكن اگر حق و باطل كى بات ہو تو اس ميں احقاقِ حق داعى كى ذمہ دارى ہے- قطعى دلائل پر مبنى حلال و حرام كے مسائل ميں روشن خيالى كا رويہ كہ يہ بهى درست اور وہ بهى درست ، عقل وفطرت اور شريعت كے منافى ہے، ليكن جہاں دلائل احتمالى ہيں، وہاں تعصب و تنگ نظرى اور افراط و تفريط اور اختلاف كى بنياد پر دوسرے كو جاہل، كافر اور ملحد كہنے اور دوسرے سے حق تفہم اور حق اختلاف چھين لينے كا رويہ انتہائى خطرناك ہے- اُنہوں نے كہا كہ ايك داعى كو﴿ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ...﴿١٢٥﴾...سورۃ النحل﴾كى عملى تصوير ہونا چاہئے- حضرت ابراہیم كا نمرود سے اور حضرت عمر بن عبدالعزيز كا خوارج سے مكالمہ اور رسول اللہ ﷺ كا اس آدمى كے ساتھ طرزِ عمل جس نے آپ سے زنا كى اجازت چاہى تهى، اور انصار كے ان نوجوانوں كے ساتھ خوبصورت رويہ جنہوں نے جنگ ِحنین ميں قریش كے نو مسلموں كو مال دينے پر اعتراض كيا تها،اس كى روشن مثاليں ہيں-
اُنہوں نے كہا كہ صحابہ كے درميان متعدد مسائل ميں اختلاف ہوا، ليكن كہيں باہم سرد مہرى، تفرد اور دهڑے بازى كا رويہ سامنے نہيں آيا- مثلاً حضرت زيد بن ثابت اورابن عباس كا وراثت كے ايك مسئلہ ميں اختلاف ہوا، حضرت عمر اور حضرت عمار كا بامرمجبورى حالت ِجنابت ميں تیمم كرنے كے مسئلہ ميں اختلاف ہوا، تيسرى طلاق كے بعد عورت كے لئے نفقہ وسكنىٰ كے مسئلہ پر حضرت عمر اور فاطمہ بنت قيس كے درميان اختلاف ہوا، ليكن كہيں بهى باہم روادارى اور ايك دوسرے كى رائے كے احترام كا دامن ہاتھ سے نہيں چهوٹا- موصوف كا يہ مقالہ اس رپورٹ كے متصل بعد شائع كيا جارہا ہے- مكمل تفصیل كے لئے اس كا مطالعہ فرمائيں-
* شام كے سيشن ميں مولانا حافظ مسعود عالم نائب شيخ الحديث جامعہ سلفيہ فيصل آباد نے 'عقيدہ اور عمل ميں اہل السنہ والجماعة كے اُصول' كے موضوع پر انتہائى پرمغز گفتگو كى- اُنہوں نے كہا كہ عقيدہ سے مراد انسان كا وہ مصمم نظريہ ہے جس پر اس نے دل و دماغ ميں گرہ باندھ لى ہو اور پهر اس كے مطابق اس كا كردار اور عمل ڈهل جائے نيز أہل السنة والجماعة سے مراد رسول اللہ ﷺ اور صحابہ كے طريقہ پركاربند وہ جماعت ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے فرقہ ناجيہ اور طائفہ منصورہ قرار ديا ہے-
اُنہوں نے عقيدہ اور عمل ميں أهل السنة والجماعةكے درج ذيل اُصول بيان كئے:
(1) صرف وحى الٰہى (كتاب و سنت) كو عقیدہ اور دين كى اصل بنياد اور عقل، فلسفہ، الہام، قياس اور رائے كو وحى كا تابع بنايا جائے، كيونكہ رائے اور فكرو عقل، ناقص ہيں، ان كے ساتھ آفات لگى ہيں، لہٰذا وہ حياتِ انسان كے علاوہ انسان كے جبلى اور فطرى تقاضوں كو سمجهنے ميں تو كچھ رہنمائى دے سكتى ہيں،ليكن دين،انسان كے مبدا و معاد، نظامِ كائنات اور اس كے پیچھے كارفرما قوت كے بارے ميں رہنمائى دينا عقل كے بس كى بات نہيں،وہاں رہنمائى كا قابل اعتماد ذريعہ صرف وحى ہے جو آفات سے بالاتر ہے- عقل كا كام صرف مرادِ الٰہى اور وحى كوسمجھنا ہے اور پهر وحى الٰہى ميں متواتر اور آحاد كاكوئى فرق نہيں ہے، آحادسے جس طرح عمل ثابت ہوتا ہے، اسى طرح اس سے عقيدہ بهى ثابت ہوتا ہے۔
اُنہوں نے كہا كہ كشف و الہام بهى اہل السنة كے ہاں ناقابل اعتماد ہيں- ممكن ہے كوئى جذبہ يا شيطانى وہم قلب و ذہن پر راسخ ہوجائے اور الہام و كشف كا روپ دهار كر سامنے آجائے- اگر يہ چيزيں قرآن و سنت كے مطابق ہيں تو درست ورنہ قابل ردّ ہيں۔
(2) اُمت ِمسلمہ كوايك پليٹ فارم پر جمع كرنے كے لئے ضرورى ہے كہ قرآن و سنت كو اسى طرح سمجھا جائے، جس طرح صحابہ كرام اور تابعين نے سمجھا،كيونكہ وہ خيرالقرون كا دور تها، ان كے سامنے وحى نازل ہوئى تهى اور ان كا تزكیہ خود رسول اللہ ﷺ نے كيا- وہ عرب ہونے كے ناطے عربى زبان كى باريكيوں كو زيادہ سمجهتے تهے، يا آپ ﷺ سے پوچھ ليتے تهے-
(3) قرآن و سنت كى نصوص كے درميان معارضہ كرنے كى بجائے جمع بين النصوص كا طریقہ اختيار كياجائے- قرآن و صحيح احاديث كے درميان معارضہ كرنا اہل بدعت كاطريقہ ہے-
(4) عقيده و عمل كا چوتها اُصول اُنہوں نے ايمان باللہ اور توحيد كو قرار ديا- انہوں نے كہا كہ توحيد ِربوبيت تو وجدانى اور فطرى ہے ،ليكن اللہ كے اسماء و صفات كيا ہيں؟ وہ كن اعمال سے ناراض اور كن سے خوش ہوتا ہے؟يہ چيز عقل كى بجائے صرف وحى سے ہى حاصل ہوسكتى ہے اور اُن پر ايمان ركهنا عقيدہ كى مضبوط اساس ہے اور اس كے لئے اہل سنت كا دستور ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ﴿١١﴾...سورۃ الشوری﴾ اور حضرت امام مالك كا يہ قول ہے: "الاستواء معلوم والكيف مجهول والإيمان به واجب والسوٴال عنه بدعة" كہ اللہ كى صفات و اسماء كو بغير تاويل، تشبیہ، تعطیل كے اس طرح مانا جائے جس طرح اس كى شان كو لائق ہے اورجس طرح نصوص ميں ان كاذكر ہوا ہے- اس كے بغير اللہ كى صحيح معرفت ممكن نہيں ہے اور اس كے بغير انسان فلاسفہ اور معتزلہ وغيرہ كى طرح سرگرداں ہى رہتا ہے جيسا كہ امام رازى نے 'اللذات' ميں لكها ہے :
" ہم نے دانش گاہيں گهوم ديكهيں ،ليكن كہيں سے ايمان كى دولت نصيب نہيں ہوئى- ميں نے ايسے لوگوں كو حيران و سرگرداں يا ندامت كے ساتھ اپنے دانتوں ميں اُنگلياں دابے ہى ديكها ہے- جب ہم رات كو ليٹتے ہيں، پهر دلائل كا معارضہ كرتے ہيں ،پهر يہ بات كہ اللہ ہے كہ نہيں؟ ... انسان كيا كہہ سكتا ہے؟"
اُنہوں نے كہاكہ اللہ كى صفات اس كى ذات سے متعلق ہيں ،جب ذات كى كنہ اور حقيقت ہمارے علم سے ماورا ہے تو پهر صفات كى كنہ بهى ہمارے علم سے ماورا ہے، اہل السنة كے دستور سے ہٹ كر وحدة الوجود اور وحدة الشهود جيسے نظريے ايمان بالله اور توحيد كے منافى ہيں، توحيد كے لئے اس كى ضد 'شرك' كو سمجھنا اور اس سے بيزار ى كا اعلان كرنا ضرورى ہے- اس كے بعد اُنہوں نے سوالات كا جواب ديتے ہوئے اشاعرہ اور ماتريديہ كوبهى اہل سنت سے خارج قرار ديا، كيونكہ وہ بهى بعض صفاتِ الٰہيہ ميں تاويل كرتے ہيں-
* اس خطاب كے بعد سيروتفريح كے لئے تمام شركا كو لاہور كے گلشن اقبال پارك ميں لے جايا گيا- يہاں كھلى فضا ميں فاضل شركا كے مابين مختلف علمى پروگرام منعقد كئے گئے- عشاء كى نماز پر سب حضرات اپنى رہائش گاہ جامعہ لاہور الاسلاميہ ميں واپس لوٹے-
چوتهادن منگل: 26/ جولائى 2005ء
* تلاوتِ كلام كے بعدپروفيسرعبدالجبار شاكرڈائريكٹر 'بيت الحكمت' نے 'عالم اسلام كى موجودہ علمى صورتِ حال پر ايك نظر'كے موضوع پر اظہارِ خيال كرتے ہوئے مسلمانوں كى علمى تحريك كے ارتقا، اس كى نماياں خصوصيات، تعليم كے ذرائع اور اس سلسلہ ميں سرزد ہونے والى غلطيوں كا جائزہ ليا۔
اُنہوں نے مسلمانوں كى علمى تحريك كى نماياں خصوصيات كا تذكرہ كرتے ہوئے كہا كہ تاريخ ميں پہلى دفعہ قرآن و سنت كے چشمہ سے پهوٹنے والے عقائد و نظريات كو عبادات ومعاملات كى صورت ميں عملاً وجود بخشا گيا- كتاب اللہ كى بنياد پرمرتب ہونے والا نقشہ عملى تها، جسے سيرتِ رسول اور حديث كا نام ديا گيا-مسلمانوں كے علم كى بنياد قابل اعتماد سند اور روايت پر ہے جس كى مثال پورى انسانى تاريخ ميں نہيں ملتى- مستشرقين نے صلیبى تعصب كى بنياد پر مسلمانوں كے خلاف علم و تحقیق كا جو ميدان سجايا اور مسلمانوں پر اعتراضات كئے تو اس كا سارا مواد قرآن و سنت (علم وحى) سے نہيں بلكہ تاريخ كے بطن سے فراہم كيا- مغازى عروہ بن زبير، واقدى، محمد بن اسحق كى سيرت اور طبقاتِ ابن سعد كى ايك ايك جلد پر ان كے پروفيسرز نے كام كيا اور اس پر استشراق كى پورى عمارت تعمير كى۔
اُنہوں نے كہا كہ جب قرآن كا مطالعہ يونانى فكرو فلسفہ اور عقل كو معيار بنا كر كيا گيا اور پهر ايرانى علوم اور باطنى تصورات كى آميزش اسلام كے ساتھ ہوئى اور يہ فكر جب مذاہب كے جنگل ہندوستان ميں پہنچى تو اس كے نتيجے ميں اسلام كا ايك نيا ايڈيشن 'تصوف' كى صورت ميں پيدا ہوا جو اسلام كى اس علمى تحريك كے لئے بہت بڑا دھچكا تها-
اُنہوں نے كہا كہ جب تك مسلمان نے اپنے دو علمى دهاروں: علم وحى اور علم الاشياء سے سيرابى كا سامان كرتے رہے، اس وقت تك دنيا ان كى محتاج تهى- يورپ كے حكما ان كے علم سے زلہ ربائى كرتے رہے، ان كى كتابيں يورپ كى يونيورسٹيوں ميں بطورِ متن پڑهائى جاتى رہيں، ليكن جب يہ دهارے خاموش ہوگئے تو پهر ہم دنيا كا ساتھ نہ دے سكے،مستشرقين نے مسلمانوں كے علم كا متعصبانہ اور معاندانہ مطالعہ كرتے ہوئے تاريخ سے مرچ مصالحہ تلاش كيا اور قرآن و سنت سے دنيا كوبدظن كرنے كى تحريك شروع كى-
اُنہوں نے اُنيسويں اور بيسويں صدى كو تراثِ اسلامى كے احيا كى صدياں قرار ديا،جس ميں مسلمانوں كو يورپ سے رابطہ كا موقع ملا اور پهر مسلمان علما نے ان كے اعتراضات كى دهجياں بكهیر كر ركھ ديں اور گردوغبار چهٹنا شروع ہوگئے-
اُنہوں نے مسلمانوں كے بہت بڑے علمى ذخيرہ كے تحفظ كو مستشرقين كى كوششوں كا مرہونِ منت قرا رديتے ہوئے كہا كہ فرانس كى سوربون يونيورسٹى كى لائبريرى ميں مسلمانوں كى علمى اور تاريخى 30 لاكھ كتب اور چيسٹربٹى لائبريرى ميں ايك لاكھ سے زائد مخطوطے موجود ہيں جن ميں چاليس ہزار متون ايسے تہے جو صحابہ كرام كے لكهے ہوئے تهے اور يہ قدرت كا عظيم كرشمہ تها كہ دشمن كے ہاتھ سے ہمارے وِرثے كا تحفظ ہوا- اُنہوں نے كہا كہ يمن سے قرآنى قراطيس نكلے، جب ان كا قرآن سے تقابل كيا گيا تو اس ميں جزوى اختلاف بهى نہيں تها۔
اس كے بعد اُنہوں نے ڈاكٹر ايم ايم اعظمى كا قرآن، حديث اور تاريخ كے حوالہ سے كام كا تعارف كروايا جس ميں اُنہوں نے مستشرقين كے اعتراضات كا جواب ديا ہے- اُنہوں نے سعودى حكومت كو خراجِ تحسین پيش كيا، جن كى كوششوں سے اسلامى يونيورسٹيوں كا قيام عمل ميں آيا اور دور زوال ميں نظر اندازہونے والا مسلمانوں كا علمى سرمايہ زيورِ طبع سے آراستہ ہوا- اُنہوں نے كہا كہ اس وقت مغرب اور استشراق كے دفاع كى نہيں بلكہ تعاقب كى ضرورت ہے جس كے لئے استشراق كى زبانوں پر عبور حاصل كرنا ضرورى ہے -ايران نے جامعہ جعفر صادق اور جامعہ فيضيہ، قم ميں عربى و فارسى كے علاوہ ديگر زبانوں كو سیكھنا بهى لازمى قرار دے ديا ہے اور اہل تشيع تحريك ِاستشراق سے مقابلہ ميں اہم كردار ادا كررہے ہيں- ہميں بهى طلبا كے لئے جديد زبانوں كى تعليم كا انتظام كرنا چاہئے، رسول ﷺ نے اپنے تمام سفر ا كے لئے اس ملك كى زبان سیكھنے كا ماحول پيدا كيا- ابو موسىٰ نے سورة فاتحہ كے فارسى ترجمہ كا آغاز كيا-
اُنہوں نے كہا كہ اس وقت قاديانيوں كى ريشہ دوانيوں كى بنياد صرف زبان ہے -بهاء الله (بهائى) كى نحو كے موضوع پر كتاب كا كوئى صفحہ بهى غلطى سے خالى نہيں ہے ، اس كا اُنہوں نے آٹھ سو زبانوں ميں ترجمہ كرواياہے- اسرائيل كى عبرانيہ يونيورسٹى نے 1215/ اساتذہ كو عبرانى زبان كے اِحيا پرمامور كيا۔
* مولانا عبدالعزيز علوى شيخ الحديث جامعہ سلفيہ ،فيصل آباد نے 'تشريع اسلامى ميں سنت كامقام' كے موضوع پر بات كى- اُنہوں نے حجیت ِحديث كے دلائل كو ذكر كرتے ہوئے متعدد ايسى قرآنى آيات پيش كيں جنہيں سنت كے بغير سمجھنا ناممكن ہے، مثلاًنمازوں، زكوٰة اور حج كى تفصيل، جنگ ِبدر،اُحد، خندق اور صلح حديبيہ، حج كا احرام كہاں سے باندهنا ہے؟ طواف اور سعى ميں كتنے چكر ہيں؟ ان كى تفصيل حديث وسنت كے بغير قطعاً سمجھى نہيں جا سكتى-اُنہوں نے كہا كہ يہى مطلب ہے قرآنى آيت﴿إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾...سورۃ القیامہ﴾ كا اور امام اوزاعى كے اس قول:السنة قاضية علىٰ الكتاب كا- اُنہوں نے طرزِفكر كے ساتھ ساتھ كردار كوبہتر بنانے پر زور ديا اور كہا كہ انقلاب محض فكر سے نہيں، عمل سے آتا ہے- اس حوالہ سے انہوں نے مدرسہ حزب الاحناف كے مہتمم مولانا ديدار على كا واقعہ سنايا جو چینیاں والى مسجد ميں مولانا داوٴد غزنوى كے چچا كے پیچھے لوگوں كو نماز پڑهنے سے روكتے تهے ليكن خود چھپ كر صبح كى نماز ان كے پیچھے پڑهتے تهے-جب انكشاف ہوا تو اُنہوں نے كہا كہ
"جس دن ان كے پیچھے صبح كى نماز پڑھ لوں تو باقى نمازوں ميں بهى بڑا سرور آتا ہے -"
اُنہوں نے سنت كو محض فكر ى طور پر ہى نہيں، عملى طور پر اپنانے اور فرض واجب اور سنت كى اصطلاحات سے قطع نظر (ما أنا عليه وأصحابي) كو اپنا دستورِ حيات بنانے پرزور ديا-
اُنہوں نے كتب ِصحاحِ ستہ كا تعارف كرواتے ہوئے كہا كہ صحيح بخارى كے ابواب امام بخارى كى فقاہت پر روشن دليل ہيں اور صحيح بخارى ميں عبادات ومعاملات عقائد اورزہد و وَرع الغرض زندگى كے ہر پہلو پر گفتگو ہے- اُنہوں نے كہا كہ صحيح مسلم بهى جامع اور حسن ترتيب كا اعلىٰ نمونہ ہے ، ليكن امام مسلم نے ابواب خود قائم نہيں كئے- اُنہوں نے كہا كہ مسلم كى ايك خصوصيت اس كا مقدمہ ہے جس ميں اُصولِ حديث اور علم جرح وتعديل پر خوبصورت بحث كى گئى ہے-اُنہوں نے صحيح بخارى اور صحيح مسلم كے درميان ايك فرق يہ بيان كيا كہ امام مسلم نے ايك حديث كے تمام طرق كو ايك جگہ جمع كر ديا ہے ليكن صحيح بخارى ميں ايك حديث طريق كے اختلاف كے ساتھ متعدد تراجم ابواب كے تحت بار بار آئى ہے-
انہوں نے كہا كہ سنن ابن ما جہ ميں سنن ہونے كے باوجود 'فضائل الصحابہ' كو سب سے مقدم كيا گيا ہے تا كہ باور كرايا جا ئے كہ صحابہ كرام ہى دين كى بنياد ہيں- ا گر كوئى ان كى طرف دست ِجرح بڑهاتا ہے تو گويا وہ دين كى بنيادوں كو ہلانا چاہتا ہے-
آخر ميں اُنہوں نے دورِ حاضر ميں احاديث پر صحت وضعف كا حكم لگانے كے بارے ميں افراط وتفريط كے رويہ كو ہدفِ تنقيد بناتے ہوئے واضح كيا كہ اس سلسلہ ميں ہم سلف كے پابند ہيں-آج اگر كوئى اس حديث كو ضعيف كہتا ہے جسے سلف نے صحيح كہا ہے تو اسے قبول نہيں كيا جائے گا-احاديث كى صحت وضعف ميں متقدم علما كى رائے كو متاخرين پر ترجيح حاصل ہے- اُنہوں نے كہاكہ امام ذہبى كا امام ترمذى كو متساہل كہنا بهى محل نظر ہے ،كيونكہ ذہبى تو ترمذى سے كافى متاخر ہيں۔
* چوہدرى يٰسين ظفر مدير تعليم جامعہ سلفيہ، فيصل آباد نے 'عالم اسلامى كى موجودہ صور تِ حال' كا تعارف كرواتے ہوئے اسلامى ممالك كے نظامِ حكمرانى، جغرافيہ، رقبہ اور آبادى كا تذكرہ كيا اور بتايا كہ اسلامى ممالك ايشيا سے مراكش تك 20 ہزار كلوميٹر كے رقبہ پر مشتمل ہيں- دنيا كى اہم ترين بندرگاہيں اور تمام گزرگاہيں، جبل طارق ،نہر سويز، خلیج عدن، خلیج فارس تمام مسلمانوں كے پاس ہيں، جن سے لاكهوں ڈالر يوميہ كى آمدن حاصل ہوتى ہے اور جن كے بند كردينے سے دنيا كا كوئى بحرى بيڑا حركت نہيں كرسكتا-
اس كے علاوہ گرم مرطوب موسم، قدرتى نظامِ آبپاشى، وسيع زرخيز زمين، بہترين قدرتى دريا، وافر بارش، دنيا كابہترين چاول اور گندم، دنيا كى 40 فيصدكپاس كا مصر، سوڈان اور پاكستان سے پورا ہونا؛ دنيا كى بہترين سبزياں، خوردنى تيل، بہترين پھل كہ پاكستان 40 فيصد آم برطانيہ كو بھیجتا ہے- ضرورت سے زائد گوشت اور دودہ ، دنيا كا 70 فيصد تيل، قدرتى گيس كا عظيم ذخيرہ، پاكستان ميں كوئلہ كے بڑے بڑے پہاڑ، ايٹم بم ميں استعمال ہونے والى يورينيم جوالجزائر پورى دنيا كو سپلائى كرتا ہے، يہ اللہ كى ايسى نعمتيں ہيں جن سے اكثر مغربى دنيا محروم ہے، ا س كے باوجود مغرب ہم پر حكمران ہے اور اُمت ِمسلمہ زوال اور ذلت كا شكار !!
اس كے بعد اُنہوں نے ان اسباب اور عوامل كا جائزہ ليا جن كى وجہ بارہ صدياں تك يورپى دنيا پر حكمرانى كرنے والے مسلمان ذلت وپستى كا شكار ہو گئے - مسلمانوں كے عروج كا عالم يہ تها كہ بعض اوقات دنيا كى كوئى بندرگاہ ايسى نہيں تهى جس پر مسلمانوں كا جھنڈا نہ لہراتا ہو- ديگر ممالك مسلمانوں كے ساتھ دوستى اور ان كى يونيورسٹيوں ميں تعليم حاصل كرنے پر فخر كيا كرتے تهے- ہر گهر بنيادى ضرورتوں سے آراستہ تها، شيشوں كے پائپوں كے ذريعے چشموں كا پانى اندلس كے شہروں ميں پہنچتا تها اور مسلم سائنسدانوں نے اندلس كے پورے پورے شہروں كو ان كے چاروں طرف باغ اور اندر چشمے لگا كر ايئركنڈيشنڈ كرديا تها، اب وہى مسلمان ذلت و محكومى كا شكار كيوں ہيں؟مولانا نے فرقہ بندى، مذہبى اور لسانى و قبائلى تعصب، علومِ وحى سے دستكش ہوكر فلسفہ اور علم الكلام كو مقصد بنانا، سياسى انتشار، باطنى گروہوں كے تسلط، غيروں پر اعتماد اور اسلامى ممالك سے عداوت كو مسلمانوں كے زوال كے داخلى عوامل قرار ديا۔
نیز تاتاريوں كے خروج، صليبى جنگوں، مارٹن لوتهر كى اصلاحى تحريك كے اسلامى مملكتوں پر اثرات، بيرونى طاقتوں كو مدد كے لئے بلانا، ايجنسيوں كا آلہ كار بن كر تحريكيں چلانے كو زوالِ اُمت كے اہم خارجى عوامل قرار ديا ۔
اس كے بعد اُنہوں نے ان اثرات اور نقصانات كا تذكرہ كيا جو اسلام كے زوال اور اسلامى قيادت كى محرومى سے مسلمانوں بلكہ پورى دنيا كو اٹهانے پڑے كہ جاہليت كا پرانا دور پهر دنيا پر چهاگيا، بدعات اور گمراہ فرقے پهر سر اُٹهانے لگے، دعوتِ دين كا كام رك گيا- تعلیمى مراكز اور كفالت ِطلبا كا نظام ختم ہونے سے ذرائع تعليم معدوم ہوگئے- علوم يورپ كى طرف منتقل ہوگئے، اسرائيل كى شكل ميں ايك ناسور دنيا كے نقشہ پر اُبهرا جس كے زہريلے اثرات پورى دنيا ميں سرايت كررہے ہيں- دينى تحريكوں كے حاملين ہزار وں علما قتل كئے گئے- يہوديوں كے آلہ كار مسلم اُمہ پر مسلط كرديے گئے، مسلمانوں كے لئے زہرقاتل اقوامِ متحدہ كا ادارہ وجود ميں آيا- مسلمانوں پر تجارتى اور معاشى پابندياں لگيں، غير فطرى قوانين زبردستى نافذ كئے گئے، مسلمانوں كے وسائل پر قبضہ كياگيا وغيرہ- اُنہوں نے ايسے متعدد مصائب اور نقصانات كا تذكرہ كيا جن كو سنتے ہوئے انسان شدت سے محسوس كرتا ہے كہ دنيا كى موجودہ صورتحال كو بدلنے كى شديد ضرورت ہے اور اس عالمى اسلامى قيادت كو دوبارہ حاصل كرنا نہايت ضرورى ہے جو مسلمانوں نے اپنى مجرمانہ كوتاہى اور غفلت كى وجہ سے كهو دى ہے-
اُنہوں نے كہا كہ اس عالمى خسارہ اور نقصانات سے بچنے كے لئے ضرورى ہے كہ انسانيت كو قرآن و سنت كے سرچشمہ ہدايت پر لاكهڑا كيا جائے اور مذكورہ بالا ان تمام عوامل پر سنجيدگى سے غور كيا جائے جس كى وجہ سے ہميں بلكہ پورى دنيا كو ذلت اور پريشانى سے دوچار ہونا پڑا ہے-
* شام كے سيشن ميں مولانا ابوعمار زاہد الراشدى مديرماہنامہ 'الشريعہ' نے 'اسلام ميں روشن خيالى اور اعتدال پسندى كا تصور' كے موضوع پر گفتگو كرتے ہوئے كہا كہ روشنى اور اعتدال تو اسلام كے مزاج ميں داخل ہے جيسا كہ قرآن كريم ميں ہے: ﴿يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ...﴿٢٥٧﴾...سورۃ البقرۃ﴾ اور ﴿وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا...﴿١٤٣﴾...سورۃ البقرۃ﴾ اُنہوں نے كہا كہ اسلام نے ہى تو حضرت عيسىٰ كے بارے ميں يہوديت و نصرانيت كو اعتدال كا راستہ دكهايا-پورى دنيا كو غلو اور افراط و تفريط كے درميان اعتدال كى راه دكهائى، رہبانيت اور مادّہ پرستى كے درميان راہ اعتدال قائم كى اور يہ حديث (إن لربك عليك حق ولزوجك عليك حق فأعطِ كل ذي حق حقه) اور اسلام كى ديگر تعلیمات اعتدال كى آئينہ دار ہيں،ليكن آج خوارج كى طرح جنہوں نے ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ...﴿٥٧﴾...سورۃ الانعام﴾ كو غلط مقصد كے لئے استعمال كركے دين ميں فتنہ پيدا كيا تها،اسى طرح روشن خيالى اور اعتدال پسندى كى اصطلاح كو بقول حضرت على "كلمة حق أريد بها الباطل" غلط مقصد اور اُمت ميں انتشار پيدا كرنے كے لئے استعمال كيا جارہا ہے- اُنہوں نے كہا كہ روشن خيالى اور اعتدال پسندى كو بالكل اس كے متضاد معانى ميں استعمال كرتے ہوئے ہم سے يہ تين مطالبات كئے جارہے ہيں :
(1) ہم ديگر مذاہب كے ساتھ مكالمہ ميں بس مثبت باتيں كريں، منفى باتيں نہ كريں اور روادارى كا مظاہرہ كرتے ہوئے مفاہمت (كمپرومائز)كى كوئى صورت نكاليں-
(2) دورِ حاضر كے تہذيبى، تمدنى اور معاشرتى ارتقا اور ماحول كو سامنے ركهتے ہوئے ان روايات، قوانين اسلامى اور اعمال سے دستبردار ہوجائيں جو آج كے ماحول اور عالمى حالات سے مطابقت نہيں ركهتے- حدود آرڈيننس ختم كريں، مرد وزَن ميں توازن قائم كريں اورعورت كو طلاق كا حق ديں۔
(3) مذہب كا تعلق صرف اخلاقيات، عقيدہ اور عبادات تك محدود ركهيں اور تجارت، سياست اور اجتماعيات كو مذہب كى جكڑ بنديوں سے آزاد كريں تو ہم اعتدال پسند اور روشن خيال، وگرنہ نہيں!
اس كے بعد اُنہوں نے دورِ رسالت كے كافروں كے ساتھ مسلمانوں كے تين مكالمات كا تذكرہ كيا جن سے اُنہوں نے يہ ثابت كيا كہ اسلام عقائد، اُصول اور اقدارِ مشترك پر سمجهوتہ كرنے كا روادار نہيں ہوسكتا اور پوپ كى طرح كسى مسلمان كو يہ حق نہيں ہے كہ وہ كسى حكم ميں تبديلى كرے اور اس ميں ايك مكالمہ اس وقت كا ہے جب اسلام مغلوب اور مسلمان بے بس تهے، اس سے ہمارے اوپر اس اعتراض كا بهى ردّ ہوجاتا ہے كہ تم اپنے غالب دور كى باتيں كرتے ہو، حالانكہ غالب دور كا فلسفہ اور ہوتا ہے اور دورِ مغلوبيت كا فلسفہ اور!
پہلا مكالمہ:اس وقت جب مسلمان ظلم و ستم كے بدترين دور سے گزر رہے تهے- اس دور كے غالب مذہب كے حامل مكہ كے 25 سردارنبى ﷺ كے ساتھ گفتگو كرتے ہيں كہ آپ اپنے خدا كى بات كرو، ہمارے خداوٴں لات، عزىٰ اور حبل كو كچھ نہ كہو، مثبت بات كرو، منفى بات نہ كرو- ہم تمہارى نماز ميں كبهى كبهى شركت كرليا كريں گے، تمہيں پورا پروٹوكول ديں گے حتىٰ كہ علاقہ كى سردارى، خوبصورت عورت سے شادى كى اور مال و متاع كى پيشكش بهى كى بشرطيكہ ايك خدا كا تعجب انگيز مطالبہ چهوڑ دو، ليكن اللہ نے اسى رواد ارى، اعتدال پسندى كا يہ جواب ديا:
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٣﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿٤﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٥﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾...سورۃ الکافرون
ايك مسلمان كى بات كا آغاز ہى لا سے ہوتا ہے- 'لا اله الا الله محمد رسول الله' پہلے نفى ہے پهر اِثبات ہے- اسلام مغلوب ہو يا غالب ، سودا بازى كا سوال ہى پيدا نہيں ہوتا (تفصيل كے لئے: أصحّ السِيَراز عبدالروٴف داناپورى اور سيرت النبى ﷺ از سيد سلیمان ندوى)
دوسرا مكالمہ :نجران كے عيسائيوں سے- ان كا وفد پورے پروٹوكول كے ساتھ مسجد نبوى ميں خیمہ زن ہے، مذاكرات ہوئے، آپ نے فرمايا: (أدعوكم من عبادة العباد إلىٰ عبادة الله،أدعوكم من ولاية العباد إلىٰ ولاية الله)كوئى نتيجہ نہ نكلا- بات مباہلہ پر آگئى- وہ تيار نہ ہوئے تو اللہ تعالىٰ نے ايك اُصولى بات قيامت تك كے لئے مسلمانوں كو بتا دى: ﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ...﴿٦٤﴾...سورۃ آل عمران﴾ بتاديا كہ انسان پر حاكميت اللہ كى ہے، اس پر سمجهوتا نہيں ہوسكتا-
جب حضرت عدى نے جو عيسائيت چهوڑ كر مسلمان ہوچكے تهے، كہا كہ اے اللہ كے رسول! قرآن كى آيت ﴿وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ...﴿٦٤﴾...سورۃ آل عمران﴾ كى بات سمجھ نہيں آئى، ہم نے تو ان كو ربّ نہيں بنايا تها- آپ نے جواب ديا: عدى بتاوٴ !كيا تم نے حلال كو حرام اور حرام كو حلال كرنے كى اتهارٹى اپنے علما كو نہيں دى تهى- اُنہوں نے تسليم كيا- آج بهى يہ اتهارٹى پوپ كے پاس موجود ہے- ليكن اگر سارى دنيا كے مسلمان بهى كسى حلال كو حرام اور كسى حرام كو حلال كرناچاہيں تو نہيں كرسكتے- اللہ نے يہ اختيار اپنے نبى كو بهى نہيں ديا!!
تيسرا مكالمہ: بنو ہوازن كے وفد كے ساتھ، اُنہوں نے كہا كہ ہم اس شرط پر مسلمان ہوتے ہيں كہ ہمارے بت لات كو نہ توڑا جائے- ہميں شراب، سود اور زناكى اجازت دے ديں، ليكن آپ نے تمام شرائط كو مسترد كرديا- وفد ناكام چلا گيا، ليكن صبح ہى واپس آكر وہ لوگ اپنى شرائط سے دستبردار ہوكر مسلمان ہو گئے۔
اُنہوں نے كہا كہ افسوس آج آلِ رسول ہونے كا دعوىٰ كرنے والے،كعبہ كى چھت پر چڑهنے اور اپنے لئے روضہٴ رسول اور خانہ كعبہ كا دروازہ كھلنے كو اپنے اسلامى تشخص كى علامت قرار دينے والے بهى اپنے لئے ايسى ہى عجيب و غريب شرائط كا مطالبہ كررہے ہيں-
مولانا راشدى نے كہا كہ واشنگٹن ميں ميرى ايك لبرل دانشور سے بات ہوئى- اس نے كہا كہ" سارى باتيں ٹهيك ہيں، ليكن ہميں كچھ تو كرنا ہى پڑے گا- عالمى برادرى كى بات بالكل نظر انداز نہيں كى جاسكتى-"ميں نے اُسے كہا: آوٴ، ترمیمى بل تيار كرتے ہيں كہ مثلاً حدود اور فلاں فلاں چيز يں ختم كردى جائيں ،ليكن تم بتاوٴ اس بل كو كس فورم پر پيش كرنا ہے كيا اقوامِ متحدہ، او آئى سى يا مشرف كے پاس اتهارٹى ہے كہ وہ ﴿السَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا...﴿٣٨﴾...سورۃ المائدہ
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ...﴿٢﴾...سورۃ النور ٓ ميں ترميم كرسكے - اس ميں ترميم كى اتهارٹى كون ہے ... ؟
نوٹ:يہ مكمل خطاب بعد ميں روزنامہ 'اسلام' ميں 3 قسطوں اور پمفلٹ ميں شائع كر ديا گيا-
* مولانا قاضى عبدالرشيد،جھلن جماعت ِاہل حديث كے معروف مناظر ہيں، اُنہوں نے 'اُصولِ مناظرہ' كے موضوع پر بات كرتے ہوئے ايك مناظر كے لئے عالم دين ہونا ضرورى قرار ديا- اُنہوں نے كہا كہ مناظر كو اپنے موقف پر تمام دلائل اور مخالف فريق كے اعتراضات و دلائل اور ان كے جوابات پر مكمل عبور حاصل ہونا چاہئے- اپنى اور مخالف كى مسلمہ كتب كا ہمراہ ہونا بهى ضرورى ہے- اُنہوں نے كہا كہ مناظرے كا يہ اہم اُصول ہے كہ آ پكا دعوىٰ نرم ہو، ليكن دلائل مضبوط ہوں اور جس مسئلہ كے بارے ميں دلائل كمزور ہوں ،اس پر مناظرہ نہ كريں۔
نیز مناظرہ كرتے ہوئے ارد گرد كے ماحول اور حالات كو پيش نظر ركهنا بهى ضرورى ہے- اُنہوں نے اپنے ايك مناظرہ كے حوالہ سے فاتحہ خلف الامام كے دلائل فراہم كرتے ہوئے ثابت كيا كہ امام كے پیچھے سراً سورة فاتحہ پڑھنا حديث كے لفظ 'انصات' (خاموشى) اور قرآن كے حكم 'توجہ سے سننا' كے منافى نہيں ہے مثلاً صحيح بخارى كى روايت ہے كہ صحابى رسول نے آپ سے پوچها: إسكاتك بين التكبير والقراءة ما تقول " آپ تكبيراور قراء ة كے مابين سكوت كے دوران كيا پڑهتے ہيں؟" يہاں خاموشى اور پڑهنا دونوں كو اكٹھا ذكر كيا گيا ہے جس سے معلوم ہوا كہ خاموشى كے وقت پڑها جاسكتا ہے- اسى طرح خطبہ جمعہ كے دوران رسول اللہ نے اِنصات كا حكم ديا ہے اور اس كے ساتھ خطبہ جمعہ كے دوران بیٹھنے سے پہلے دو ركعت نماز پڑهنے كى تلقین بهى كى ہے تو معلوم ہوا كہ دو ركعت پڑھنا انصات كے منافى نہيں-اسى طرح صحابہ كرام مكہ مكرمہ ميں آيت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴿٢٠٤﴾...سورۃ الاعراف﴾كى موجودگى ميں نماز ميں باتيں بهى كرليا كرتے تهے جس سے بعد ميں روك ديا گيا-نيز اُنہوں نے بتايا كہ ميرے ان دلائل سے متاثر ہو كر مخالف مناظر مولانا محمد صادق جو مولانا غلام الله كے شاگرد ہيں،نے اہل حديث ہونے كا اعلان كرديا-
انہوں نے كہا كہ مناظرہ ميں ايسے دلائل پيش كريں جس سے مخالف كو بهى انكار نہ ہو، مثلاً رفع اليدين كے بارے معروف حنفى عالم مولانا انور شاہ كاشميرى نے بهى تسليم كيا ہے كہ إن الرفع متواتر إسنادًا وعملًا لايشك فيه ولم ينسخ ولاحرف منه...الخ 1
" رفع اليدين كى سنت روايت اور عمل ہر دو كے لحاظ سے متواترچلى آرہى ہے، يہ امر شك وشبہ سے بالا ہے، اس ميں كوئى نسخ نہيں ہوا بلكہ اس كا ايك حرف بهى منسوخ نہيں ہوا ..."
اسى طرح شاہ ولى اللہ نے رفع اليدين كى احاديث كواكثر اور أثبت اور اس عمل كو زيادہ پسنديدہ قرار ديا ہے- اُنہوں نے امام بخارى كے حوالہ سے ذكر كيا كہ كسى بهى صحابى رسول سے عدم رفع اليدين ثابت نہيں ہے -نيز اُنہوں نے فقہ كے متعدد مسائل كا ذكر كيا جو صريح اور صحيح نصوص كے مخالف ہيں اور ان كو چهوڑنے پر اگر كوئى چيز مانع ہے تو وہ تقليد ہے- ُانہوں نے كہا كہ مناظرہ ميں تقليد ِجامد كا رويہ قطعاً قابل تحسین نہيں ہے-
* شام كى نشست كے ان دو خطابات كے بعدلاہور ميں مكتبہ دار السلام كى زيارت كا پروگرام تها، دو بڑى بسوں ميں تمام دعاة بوقت ِ مغرب مكتبہ پہنچے- باجماعت نماز كے بعد لاہور كے منتخب اہل علم كو سٹیج پر تشريف لانے كى دعوت دى گئى- استاذ القراء قارى محمد ادريس عاصم كى تلاوت سے پروگرام كا آغاز ہوا، نظم كے بعد پروفيسر عبد الجبار شاكر ، مكتبہ كے مدير تحقیق وتصنيف حافظ صلاح الدين يوسف اور مولانا عبد الستار حماد نے اپنے خطابات ميں مكتبہ كى خدمات كا ايك جامع تعارف پيش كيا- عشائيہ كے بعد تمام شركا كو دار السلام كى مطبوعات پيش كى گئيں اور رات گئے قيام گاہ كو واپسى ہوئى-
پانچواں دن بدھ 26 /جولائى 2005ء
تلاوتِ كلامِ مجيدكے بعد مولانا عبدالستار حماد كو "تكفير كے ضوابط، اثرات، شروط اور اس كے موانع" كے موضوع پر محاضره كى دعوت دى گئى-
مولانا موصوف نے حضرت اسامہ كى حديث جس ميں يہ ذكر ہے كہ اُنہوں نے ايك جنگ ميں بظاہر تلوار كے ڈر سے كلمہ پڑهنے والے كو قتل كرديا تها اور رسول الله ﷺ نے ان كے اس عمل سے برا ت كا اعلان كيا تها، اور دوسرى حديث جس ميں آپ نے ايك لونڈى سے الله كے بارے ميں پوچها تو اس نے آسمان كى طرف اشاره كيا، سے استدلال كرتے ہوئے لا إله الا الله كے اقرار اور كسى ايسے قرينہ يااشارہ كو دخولِ اسلام كا دروازہ قرار ديا جس سے ظاہر ہوتا ہو كہ وہ اسلام ميں داخل ہونا چاہتا ہے، قطع نظر اس كے كہ وہ تلوار كے ڈر سے كلمہ پڑھ رہا ہے يا محض دكهاوے اور ريا كارى كے لئے-
اس كے بعد اُنہوں نے ايسے شخص كو اسلام سے خارج قرار ديا جو توحيد ربوبيت، اُلوہیت، اللہ تعالىٰ كے اسماء و صفات اللہ كى ذات يا رسالت كے بارے ميں طعن كرتا ہے- ايسا شخص اگر دوبارہ اسلام ميں داخل ہونا چاہے تو اس كے لئے ضرورى ہے كہ وہ كلمہ طيبہ كے اقرار كے ساتھ اپنے اس سابقہ عقيدہ سے برا ت كا اعلان بهى كرے-
اُنہوں نے كہا كہ بعض اوقات تكفير كے اسباب موجود ہوتے ہيں، ليكن بعض موانع كى وجہ سے كفر كا فتوىٰ نہيں لگايا جاسكتا- ان ميں سے ايك تاويل اور دوسرا جہالت ہے- جو شخص تاويل يا جہالت كى وجہ سے كفر كا ارتكاب كرتا ہے، اُسے كافر نہيں كہہ سكتے ،مثلاً حضرت معاذ نے رسول اللہ ﷺ كو سجدہ كيا اور كہا كہ جب ہم بادشاہوں كے پاس جاتے ہيں تو اُنہيں سجدہ كرتے ہيں اور آپ اس كے زيادہ مستحق ہيں تو آپ نے منع فرما يا،ليكن حضرت معاذكو تجديد ِايمان كا حكم نہيں ديا- اسى طرح جب جنگ ِحنين كے موقع پر صحابہ نے آپ سے ذات ِانواط قائم كرنے كى درخواست كى تو آپ نے انہيں قومِ موسىٰ سے تشبیہ دى جنہوں نے حضرت موسىٰ كے كوہ طور پر جانے كے بعد بچھڑے كو خدا بنا ليا تها، ليكن آپ نے ان صحابہ كو تجديد ِايمان كا حكم نہيں ديا كيونكہ انہوں نے لا علمى كى وجہ سے اس كفريہ كلمہ كا اظہار كيا تها-
انہوں نے حاضرين سے بريلويوں كو كافر كہنے كى بجائے ان كى جہالت كو ختم كرنے پر زور ديا- اُنہوں نے سيدنا عمار بن ياسر كے واقعہ كو جنہوں نے كفار كى ناقابل برداشت اذيت ناكى سے مجبور ہوكر رسول اللہ ﷺ اور اسلام كے بارے ميں كچھ ناروا باتيں كہہ ديں تهيں،سے استدلال كرتے ہوئے 'ا كراہ' (مجبورى) كو ايسا سبب قرار ديا جس كى بنا پر كسى كى تكفير نہيں كى جاسكتى، بشرطيكہ انسان كا دل ايمان پر مطمئن ہو- ليكن عظمت كا تقاضا يہى ہے كہ آدمى استقامت كا مظاہرہ كرے اور ہمارى تاريخ ايسے اصحابِ عزيمت سے بهرى پڑى ہے-
اُنہوں نے كہا كہ كافروں كے نقصان سے بچنے كے ليے يا ان كو نقصان پہنچانے كے لئے بهى آدمى اسلام كو چھپا كر كفر كا اظہار كرسكتا ہے، جيسا كہ جنگ ِخندق كے موقع پر نعيم بن مسعود نے كفار كے درميان پهوٹ ڈالنے كے لئے يہوديوں اور كفارِ مكہ كے سامنے كفر كا اظہار كيا- محمد بن مسلمہ نے دشمن اسلام كعب بن اشرف كو قتل كرنے كے لئے آپ كے خلاف نازيبا الفاظ اور كفر كے اظہار كى اجازت طلب كى تاكہ اس كى ہمدردى حاصل كى جائے تو آپ نے اجازت دے دى-اسى طر ح اگر شدتِ جذبات سے بهول كر كلمہ كفر منہ سے نكل جائے تو ايسے شخص كو بهى كافر نہيں كہہ سكتے، جيسا كہ حديث ميں ہے كہ جنگل ميں سامانِ رسد سے لدا ہوا اونٹ گم ہوجائے اور انسان موت كے انتظار ميں ليٹ جائے اور اُٹهے تو اونٹ سامنے كهڑا ہو اسے ديكھ كر شدتِ جذبات سے كہہ دے :"اے اللہ تو ميرا بندہ اور ميں تيرا ربّ " تو اللہ اس بندے كى بات سن كرتعجب كرتاہے-
يا انسان كسى غلط نظريہ كى بنياد پر كلمہ كفر كا ارتكاب كرے، مثلاً بخارى ميں اس كفن چور كا واقعہ جس نے اللہ كے ڈر سے اپنى اولاد كو وصيت كى كہ موت كے بعد ميرى لاش كو جلا كر ہوا ميں اُڑا دينا، شايد اس طرح اللہ مجهے دوبارہ زندہ كرنے پر قادر نہ ہوسكے اور ميں اس كے عذاب سے بچ جاوٴں- بظاہر يہ كلمہ كفر ہے، ليكن اللہ سے ڈر جانے كى وجہ سے اللہ نے اسے معاف كرديا-اُنہوں نے كہا كہ حديث: (رُفِع القلمُ عن ثلاث) كے تحت اگر كوئى شخص نيند ميں يا نشہ ميں يا حكايت كے طور پر كفر كا ارتكاب كرے تو اسے كافر قرار نہيں ديا جائے گا-
آخر ميں اُنہوں نے سوالات كا جواب ديتے ہوئے خاوند كے لئے مجازى خدا كا لفظ استعمال كرنے اور لفظ 'خدا'اور 'يزدانى' كے استعمال كو ناجائز قرار ديا- نيز كہا كہ سجدئہ تعظيمى حرام ہے، شرك نہيں- اُنہوں نے كہا كہ جس شخص نے كبهى بهول كر بهى نمازنہ پڑهى ہو نہ عيد تو اس كا اسلام سے كوئى تعلق نہيں-
* گورنمنٹ سائنس كالج كے پروفيسر مياں محمداكرم نے 'دورِ حاضر ميں سودى معاملات' كے موضوع پر گفتگو كرتے ہوئے گانا بجانے، قحبہ گرى ، شراب ، جوا اور سود كى آمدنى وغيرہ كو قرآن وسنت كے دلائل كى رو سے حرام قرار ديا -اُنہوں نے ربا النسيئةاور رباالفضل كى تعريف كرتے ہوئے قرآن وسنت كى نصوص سے ثابت كيا كہ سود خواہ مہاجنى ہو يا تجارتى مقاصد كے لئے، اللہ تعالىٰ سے جنگ اور سگى ماں سے زناكرنے كے مترادف ہے-اس كے لئے اُنہوں نے اسلامى نظرياتى كونسل،سپريم كورٹ آف پاكستان، فقہ اكيڈمى آف انڈيا كا حوالہ ديا كہ ان سب نے عصر حاضر كے بنكوں كے سود كو حرام قرار ديا ہے- اس كے بعد اُنہوں نے دنيا ميں رائج سود كى مختلف شكلوں بيع عينہ، انشورنس، نقد اور اُدهار ميں فرق، پراويڈنٹ فنڈ، درآمدات وبرآمدات ميں ليٹر آف كريڈٹ، سيونگ اكاونٹ،مارك اپ اور مارك ڈاوٴن (بيع مرابحة)، انعامى بانڈز وغيرہ كا تعارف كرواتے ہوئے اُنہيں ناجائز قرار ديا-
اپنے خطاب ميں آپ نے ان سودى صورتوں كى بعض بنيادى علامتوں كا تذكرہ كرتے ہوئے ان كے شرعى حكم كے بارے ميں كتاب وسنت سے بهى دلائل پيش كئے۔
* اس روز عصر كى نماز كے بعد پروفيسر ڈاكٹر اكرم چودہرى ڈين فیكلٹى آف اورينٹل سائنسز پنجاب يونيورسٹى كا خطاب 'تحريك ِاستشراق ، تعارف او رمقاصد' كے موضوع پر تها، عين ليكچر كے وقت گورنر ِپنجاب سے ميٹنگكے سبب آپ تشريف نہ لاسكے- چنانچہ اس موقع پر شركا كو دو حصوں ميں تقسيم كر كے ان كے درميان مقابلہ معلومات منعقد كرايا گيا۔
* عصر كے بعد اس روز دوسرا خطاب پروفيسر ڈاكٹر مزمل احسن شيخ نے 'دعوتِ دين كى حكمت' كے موضوع پرديا- اُنہوں نے دين كے داعى كامقام و مرتبہ ذكر كرتے ہوئے ان اوصاف اور خصائل حميدہ كو نہايت دلنشین انداز ميں بيان كيا جو ايك داعى كا طرہٴ امتياز ہونى چاہيے -انہوں نے كہا كہ حضرت يوسف كى سيرت : قيد خانہ ميں بهى دعوتِ حق كا سرگرم داعيہ اوريا صاحبي السجن كا سا خوبصورت اندازِ تخاطب ، ہمارے لئے مشعل راہ ہونا چاہيے- اُنہوں نے كہا داعى صرف مسجد ميں ہى نہيں بلكہ وہ گهر ، بازار ، دوستوں يا دشمنوں كى مجلس ميں دعوت كا موقع ہاتھ سے نہيں جانے ديتا- اُنہوں نے اخلاقِ حسنہ ،مسكرا كر بات كرنا، كهانا كهلانا، ہر حقدار كو اس كا حق دينا، دوسروں كى غم خوارى، دعوت ميں تدريج و حكمت كو ملحوظ ركهنا وغيرہ پر زور ديتے ہوئے علم كے ساتھ عمل وحلم كو بهى ايك داعى كى ميراث قرار ديا۔
اُنہوں نے دعوتِ دين كے موضوع پر ڈاكٹر عبد الغنى فاروق كى كتاب "ہم كيوں مسلمان ہوئے؟ "اور ڈاكٹر فضل الٰہى كى كتاب "نبى كريم ﷺ بحيثيت ِمعلم "جيسى چند ديگر كتابوں كا تعارف كرواتے ہوئے ان كے مطالعہ كى تلقين كى-
* وركشاپ كو دلچسپ اور مفيد تر بنانے كے لئے مسلسل تيسرے روز بهى علمى زيارت كا انتظام تها- آج لاہور ميں عرصہ دراز سے مصروفِ عمل دار الدعوة السلفية اور مكتبہ سلفيہ كا پروگرام تها، اسى ادارے سے ہفت روزہ الاعتصام بهى شائع ہوتا ہے اور لاہور كى اہم دينى لائبريرى بهى يہيں قائم ہے-يہاں بهى شركا كو علم وطباعت كے ميدان ميں مكتبہ كى خدمات كا تعارف كرايا گيااور دار الدعوة كى دينى سرگرميوں كى جامع رپورٹ پيش كى گئى-
چھٹا روز جمعرات: 28 /جولائى 2005ء
* وركشاپ كے آخرى روز مكتب ُالدعوة اسلام آباد كے ڈاكٹر حافظ عبدالرشيد اظہر نے 'عقل اور اسلام ميں اس كادائرہ كار' كے موضوع پر اظہارِ خيال كرتے ہوئے انسانى زندگى ميں عقل كے كردار اور اس كى اہميت كا تذكرہ كيا-ت اُنہوں نے عقل كے صحيح استعمال كو معاشرہ اور علمى دنيا كے لئے بے حد مفيد اور عقل ميں افراط و تفريط كے رويہ كو معاشرہ اور علمى دنيا كے لئے وبال اور انتہائى مہلك قرار ديا-
اُنہوں نے كہا كہ عقيدہ اور عمل كے درست ہونے كے لئے خود علم، مصادر ِعلم اور منہج تلقى كا درست ہونا انتہائى ضرورى ہے- اُنہوں نے كہا كہ بعض لوگوں نے عقل دشمنى كا ثبوت ديتے ہوئے وحى كے بجائے اوہام، كشف، وجدان، ذوق اور خوابوں كو مصدرِ علم اور اصل دين قرار ديا تو بعض نے اپنے جيسے انسانوں كو مقدس، معصوم اور عالم الغیب سمجھ كر انہيں مصدرِ علم سمجھ ليا- اس كے برعكس بعض لوگوں نے عقل پر اندها اعتماد كرتے ہوئے وحى، كتاب اللہ اور حديث كو عقل كے پيمانوں پر پركہنا شروع كرديا اور پورى اسلامى تاريخ ميں سب سے بدترين فتنے عقلانيوں كے اس گروہ نے برپا كئے- اُنہوں نے اس گروہ كے سرخيل زمخشرى اور باقلانى وغيرہ كے اوہام اور گمراہ كن نظريات كا تذكرہ كرتے ہوئے ان عقل پرستوں كو وہم پرست اور وسواس و اتباع الہوىٰ كے مريض قرار ديا جنہوں نے بے شمار انسانوں كو گمراہ كيا اور پهر اپنے كئے پر ندامت كے آنسو بہاتے اس دنيا سے چلے گئے اور امام غزالى كوالمنقذ من الضلال ميں آخر يہ اعتراف كرنا پڑا :
(1) انسانى مصالح كو سب سے بڑھ كر جاننے والے اللہ كے رسول ہيں-
(2) رسول اللہ ﷺ نے وہ سب كچھ انسانوں تك پہنچا ديا جو اللہ نے ان پر نازل كيا تها-
(3) سارى كائنات ميں سب سے بڑھ كر كتاب و سنت كے معانى كو جاننے والے صحابہ كرامہيں، جن كے سامنے قرآن نازل ہوا اور اللہ نے آسمان سے ان كى صفائى پيش كى-
(4) صحابہ كرام نے ان متكلمين كى طرح قرآن كى تاويلات پيش نہيں كيں-
مولانا نے الہام، كشف، وجدان اور اوہام كى بجائے صرف وحى الٰہى كو مصدرِ علم اور محدثين كے توسط سے اُمت تك پہنچنے والے صحابہ و تابعین كے طریقہ كو منہج تلقی قرا رديتے ہوئے عقل كا كردار يہ بيان كيا كہ اگر عقل كو پس پشت ڈال ديا جائے تو جاہلیت، صوفیت اور رافضيت جنم لیتى ہے اور اگر عقل پر اندها اعتماد كيا جائے تو ہوا پرستى اور اعتزاليت جنم لیتى ہے-
اُنہوں نے الٰهيات اور مابعد الطبيعات اُمور كو عقل كے دائرہ سے خارج قرار ديا اور صرف توحيد، علم الكلام اور فقہيات اور اجتہادى اُمور كو عقل كا دائرہ كار قرا رديتے ہوئے اس ميں عقل سے كام لينے كے لئے درج ذيل اُصولوں كو پيش نگاہ ركهنا ضرورى قرا رديا:
(1) عقل وحى كے تابع ہو-
(2) وحى اور عقل كا رشتہ استاد اور شاگرد كا ہے ،وحى كى حيثيت استاد اور عقل كى حيثيت شاگرد كى ہے-
(3) عقل كا دائرہ زمان و مكان اور حواسِ خمسہ اور عالم السعادت تك محدود ہے، الٰہيات اور عالم الغیب تك رسائى عقل كے بس كى بات نہيں ہے-
* ان كے بعد مولانا حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ نے آيات ِقرآنيہ:وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّـهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ﴿٣٣﴾...سورۃ فصلت
قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿١٠٨﴾...سورۃ یوسف
ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ...﴿١٢٥﴾...سورۃ النحلسے اپنے خطاب كا آغازكرتے ہوئے دعوتِ دين كى اہميت، اس كى حكمت ِعملى، تقاضوں اور شرائط كو بيان كيا اوران اوصاف كا تذكرہ كيا جو ايك داعى كاطرہٴ امتياز ہوتے ہيں-
اُنہوں نے كہا كہ راہ دعوت كے راہى كے لئے ضرورى ہے كہ وہ اخلاص و للہيت كا پيكر ہو اور اس كى دعوت مفاد اوراغرض سے بالاتر ہو- مقصود لوگوں كو اپنا گرويدہ بنانا اور ان پر اپنے علم كى دهاك بٹهانا نہ ہو بلكہ اس كى دعوت اللہ كى طرف اور اللہ كے لئے ہو ، نيز داعى كو ہر وقت اپنا محاسبہ اور اللہ سے اخلاص كا سوال كرتے رہنا چاہئے -
اُنہوں نے قرآنى آيات (عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي...﴿١٠٨﴾...سورۃ یوسف) اور (فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ...﴿١٢٢﴾...سورۃ التوبہ) اور(فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ...﴿١٩﴾...سورۃ التوبہ) اورصحيح بخارى كے باب:العلم قبل القول والعمل سے استدلال كرتے ہوئے داعى كا ايك وصف يہ بيان كيا كہ
(2) اسے اپنى دعوت كا گهرا علم و فہم اور شعور يقين كى حد تك حاصل ہو، اور (3) يہ كہ اس دعوت كى صداقت اور حقانيت اس كے دل ودماغ اور رگ و پے ميں اس حد تك سرايت كرجائے كہ مصائب كى آندهياں اور زمانہ كى گردشيں اس كے پاوٴں ميں لغزش پيدا نہ كرسكيں اور اس دعوت كے غالب آنے كا اسے مكمل يقين ہو، جيسا كہ خباب نے جب اپنا زخموں سے چھلنى جسم رسول الله ﷺ كو دكهايا تو آپ نے فرمايا تها: "يہ دعوت سچى دعوت ہے، يہ ضرور غالب آئے گى- پهر ايك عورت صنعا سے مكہ تك تنہا سفر كرے گى اور اسے كسى كا ڈر نہيں ہو گا- اے خباب !پہلے لوگوں كے گوشت كنگھیوں سے نوچے گئے، وہ آروں سے چيرے اور ذبح كئے گئے، ليكن يہ مصائب انہيں دين سے ہلا نہ سكے-خباب! صبر كرو اور جلدى نہ كرو-"
اور جنگ ِخندق ميں (وَإِذْ زَاغَتِ الْأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّـهِ الظُّنُونَا ﴿١٠﴾...سورۃ الاحزاب) جيسے خوفناك حالات ميں آپ كا قيصرىٰ و كسرىٰ اور خيبر كى تباہى كى پيش گوئى كرنا، آپ كا اپنى دعوت كى صداقت اور اس كے غلبہ پر يقين محكم كا آئينہ دار ہے-
اُنہوں نے قرآنى آيات (قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾ لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ﴿١٦٣﴾...سورۃ الانعام)
(أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ﴿٤٤﴾...سورۃ البقرۃ)
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٢﴾ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿٣﴾...سورۃ الصف
اور متعدد احاديث اور عربى اشعار كا حوالہ ديتے ہوئے داعى كا چوتها وصف يہ بيان كيا كہ وہ خود بهى اپنى دعوت پر مكمل طور پر عامل ہو، ورنہ جہاں يہ دعوت بے اثر ہوكر رہ جائے گى، وہاں يہ بے عملى اس كے لئے تباہ كن ثابت ہوگى -
اُنہوں نے كہا كہ داعى كو چاہئے كہ وہ سورہٴ مزمل كو اپنى زندگى كا دستور بنا لے جس ميں ايك داعى كے لئے نوافل، قيام الليل، قرآنِ كريم كى تلاوت،اس ميں غوروفكر اور بكثرت اللہ كے ذكركى تلقين كى گئى ہے اور يہ چيزيں دعوت كے لئے نہايت اثر انگيز ثابت ہوتى ہيں-
اُنہوں نے كہا كہ ماحول كے بد اثرات اور شيطانى ہتھكنڈوں سے بچنے اور اپنى روحانيت اور ايمان كو برقرار ركهنے كے لئے بهى داعى كو ان اعمال كا اہتمام كرنا چاہئے- اللہ تعالىٰ نے حضرت موسىٰ كو (وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي ﴿١٤﴾...سورۃ طہ) اور ساتھ ہارون كو (وَلَا تَنِيَا فِي ذِكْرِي ﴿٤٢﴾...سورۃ طہ) كى تلقين كى تهى- اُنہوں نے ايك بزرگ كا قول بيان كيا كہ" جس طرح ايك درخت كو پھل نہيں لگتا بلكہ اس كا اثر اس كے اندر رہتا ہے مثلاً گنا، ليكن جس درخت كو پھل ياپهول لگتے ہيں وہ اندر سے كڑوا ہوجاتا ہے اور مٹھاس پھل كى طرف منتقل ہوجاتى ہے، اسى طرح داعى بهى ايك ثمر بار درخت كى طرح لوگوں كوپھل پهول تقسيم كرتا ہے اور اسے اپنے آپ كو كڑواہٹ سے بچانے او راپنے اندر مٹھاس پيدا كرنے كيلئے ان اعمال كا التزام كرنا چاہيے-
(3) اُنہوں نے قرآنى آيات (فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا...﴿٤٤﴾...سورۃ طہ) (فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ۖ...﴿١٥٩﴾...سورۃ آل عمران) (ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ...﴿٣٤﴾...) (فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ ﴿٨٥﴾...سورۃ الحجر) (وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا ﴿١٠﴾...سورۃ المزمل) اور طائف كے موقع پر رسول اللہ ﷺ كے اُسوہٴ حسنہ جو بروايت ِعائشہ آپ كى زندگى كا مشكل ترين دن تها كا حوالہ ديتے ہوئے داعى كے لئے حليم الطبع، رقيق القلب اور پيكر ِصبر وضبط ہوناضرورى قرار ديا-
اُنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور سلف كے ايسے واقعات بيان كئے جن سے ايك داعى كو گالياں سن كے بهى بے مزا نہ ہونے اور گاليوں كے جواب ميں دعائيں دينے كا سبق ملتا ہے- اُنہوں نے كہا كہ داعى كو ﴿لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلٰى أثَارِهِمْ ﴾ (الكہف:6)كا عملى نمونہ ہونا چاہئے-
اس كے بعد اُنہوں نے دعوت كى حكمت ِعملى بيان كرتے ہوئے فرمان الٰہى: (ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ...﴿١٢٥﴾...سورۃ النحل)ميں 'حكمت' كى يہ وضاحت كى كہ داعى عقل و فطرت اور انفس و آفاق كے دلائل و براہين نيز عقلى و نقلى دلائل كے ساتھ حق كو ثابت كرے اور موعظہ حسنہ كامطلب يہ بيان كيا كہ داعى مخاطبوں كى تباہى كے غم ميں گھلتے ہوئے تذكير بأيام الله،تذكير بالقرآن اور تذكير بآلاء الله كے ساتھ سامعين كو خواب ِغفلت سے بيدار كرنے كے لئے ان كے دل پر چوٹ كرے-
اُنہوں نے كہا كہ اگر مخاطب كسى ذہنى اور فكرى شبہ كا شكار ہے اور اسے حق سجھائى نہيں دے رہا تو پهر اس كے ساتھ مجادلہ ہو نا چاہيے اور وہ اس طر ح كہ اسے مسلمات سے منازعات كى طرف اور پهر آخر كار ايسى جگہ پر لے آيا جائے كہ وہ سوچنے پرمجبور ہوجائے-
(2) اُنہوں نے قرآنى آيت (إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ﴿٧﴾...سورۃ القلم)سے استدلال كرتے ہوئے دعوت كى دوسرى حكمت ِعملى يہ بيان فرمائى كہ داعى كو مخاطب پر گمراہ، جہنمى وغيرہ كے فتوے لگانے سے پرہيز كرنا چاہئے- يہ داعى كا نہيں، مفتى كا كام ہے- داعى كے لئے دستور يہ ہے كہ (ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ...﴿٣٤﴾...سورۃ فصلت)
(3) نيز اُنہوں نے دعوت كى ايك حكمت ِعملى يہ بيان كى كہ داعى تبليغ و تبيين ميں كتمانِ حق اور مداہنت سے كام نہ لے- اہم تر سے اہم ترين كے اُصول كوملحوظ ركهتے ہوئے (ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً...﴿٢٠٨﴾...سورۃ البقرۃ)كو ہدف بنائے اور (صلاح أول هذه الأمة بالذهادة واليقين وهلاك آخرها بالبخل والأمل)2 ، 3كے تحت توحيد باللہ، اطاعت رسول اللہ ﷺ كے جذبہ اور شرك سے نفرت كے ساتھ ساتھ بقولِ رسول ﷺ سب سے بڑے فتنہ (حب الدنيا وكراهية الموت)كا علاج كرے،ليكن اس كے ساتھ تدريج اور آسانى كا اُصول فراموش نہ كرے، جيسے رسول الله ﷺ نے قبيلہ بنو ثقيف كو نماز كى تو نہيں ليكن فى الحال زكوٰة اور جہاد سے رخصت دے دى تهى-
مولانا كا خطاب انتہائى اثر انگيز تها جسے سامعين نے مسك الخِتام قرار ديا-
، اس كے بعد وركشاپ ميں ديے گئے محاضرات ميں سے 25 سوالات پر مشتمل سوال نامہ تيا ركيا گيا- وركشاپ ميں شريك تمام مبلغين نے پورى ذمہ دارى سے امتحان ميں حصہ ليا اور رزلٹ ميں اكثر شركا كى كاركردگى عمدہ اور قابل تحسین تهى-
عين اسى روز مجلس التحقيق الاسلامى كے دوسرے ہال ميں دعوة اكيڈمى، بين الاقوامى اسلامك يونيورسٹى، اسلام آباد اور انسٹيٹيوٹ آف پاليسى سٹڈيز كے اشتراك سے جامعہ لاہور الاسلاميہ كے زيراہتمام لاہور كے تمام دينى مدارس كے مہتمم اور منتظمين كا ايك روزہ وركشاپ بهى چل رہا تها جس كى رپورٹ بهى مستقل طورپر اسى شمارے ميں ملاحظہ كى جاسكتى ہے-
چھٹے روز دو اہم خطابات اور امتحان كے انعقاد كے بعد يوں تو صبح كا سيشن تمام ہوچكا تها ليكن مسلسل چہ روز كى لگاتار مصروفيت كى وجہ سے شركا تھك چكے تهے، ويسے بهى پاكستان بهر ميں اپنے مراكز ميں پہنچ كر انہيں اگلے روز جمعہ كا خطبہ دينا تها، اس لئے متصل بعد ہى وركشاپ كى اختتامى تقريب كے انعقاد كا فيصلہ كيا گيا-
اس تقريب سے قبل تمام شركاميں وركشاپ كے بارے ميں تجزيہ وتبصرہ فارم تقسيم كئے گئے، جس ميں ہر پہلو سے ان سے تجاويز اور آرا طلب كى گئيں- دو صفحات ميں پھیلے اس تبصرہ فارم كو تمام شركا نے پر كيا اور وركشاپ كے انتظامات كو سراہتے ہوئے ہر دينى ادارے ميں ايسى ہى وركشاپ منعقد كرنے كى تجاويز پيش كيں-
اختتامى تقريب جمعرات بوقت ِظہر
دينى مدارس كے مہتمم اور منتظمین كى وركشاپ ميں تشريف لائے ہوئے جناب قارى احمد مياں تهانوى جو لاہور ميں دار العلوم الاسلاميہ كے نائب مہتمم اور ملك كے ممتاز قارى ہيں، كى خوبصورت تلاوتِ قرآن مجيد سے اختتامى تقريب كا آغاز ہوا-
* جامعہ لاہور الاسلاميہ كے مدير حافظ عبدالرحمن مدنى نے اختتامى تقريب سے خطاب كرتے ہوئے ايسى وركشاپوں كے قيام كو سراہا اور شركاے وركشاپ ، علما كرام اور دعاة كو خراجِ تحسين پيش كيا جو محض رضاے الٰہى كے لئے ملك كے كونے كونے سے يہاں تشريف لائے-
اُنہوں نے كہا كہ آپ لوگ خوش قسمت ہيں كہ اللہ نے آپ كو اپنے دين كے لئے قبول كرليا ہے- دنيا تو اللہ تعالىٰ جسے چاہتا ہے ديتا ہے ليكن دين كى دولت صرف اسى خوش بخت كو نصيب ہوتى ہے جو اللہ كا پسنديدہ اور برگزيدہ ہوتا ہے- اُنہوں نے فرمايا كہ آپ انبيا كے وارث ہيں اور بہت بڑى ذمہ دارى آپ كے كندهوں پر ہے- جس طرح اس ذمہ دارى كونبھانا عظمت كا باعث ہے، اسى طرح اس ميں كوتاہى بهى تباہى كا باعث بن سكتى ہے- لہٰذا علم كے ساتھ اپنا تعلق مضبوط كريں اور ا س كے مطابق اپنے عمل كو ڈهال كر لوگوں كے سامنے اُسوئہ نبوى پيش كيجئے ورنہ اس كے بغير اسلام كى دعوت كو پهيلانا ممكن نہ ہوگا-
بعد ازاں تقريب كے مہمان خصوصى مولانا حافظ عبد الرشيد اظہركو پروگرام كے بارے ميں اپنے جذبات كا اظہار كرنے كى دعوت دى گئى -انہوں نے طالب علمى كو عظيم اعزاز قرار ديتے ہوئے كہا كہ اس وركشاپ كے شركا، علما اور دعاة اس لحاظ سے انتہائى خوش نصيب ہيں كہ اللہ تعالىٰ نے اُنہيں حصولِ دين كا موقع عطا فرمايا اور وہ بهى تدريس كے اس دور ميں كہ جب انسان دوسروں سے پوچھتے ہوئے حجاب اورجھجك محسوس كرتا ہے- اُنہوں نے كہا كہ عملى زندگى ميں سرگرم حضرات كے لئے ايسى وركشاپيں حياتِ نو كے مترادف ہيں كہ جن ميں آدمى برس ہا برس سے ذہن ميں اُٹهنے والے سوالات كا حل دريافت كرسكتا ہے-اُنہوں نے كہا كہ آپ اس لحاظ سے مباركباد كے مستحق ہيں كہ اللہ نے حاملين دين كے لئے آخرت ميں تو بہترين بدلہ ركها ہى ہے كہ فرشتوں كى جماعتيں جنت ميں(سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ﴿٧٣﴾...سورۃ الزمر) كے الفاظ سے ان كا استقبال كريں گى ليكن اس كے ساتھ الله نے اس دارالعمل (دنيا) ميں بهى اُنہيں عزت و شرف سے نوازا ہے اور دُنيا كو آپ كى خدمت پر لگا ديا ہے- لہٰذا آپ اپنے محسنين كو دعا وٴں ميں ضرور ياد ركهيں جنہوں نے آپ كے لئے تعليم و تربيت اور ايسى قيمتى وركشاپ كا انتظام كيا ہے -
آخر ميں اس وركشاپ كے آرگنائزر حافظ محمد اسحق زاہدكو اظہارِ خيال كى دعوت دى گئى- اُنہوں نے ان تمام علماے كرام اور پروفيسر حضرات كا تہہ دل سے شكريہ ادا كيا جنہوں نے اپنا قيمتى وقت نكال كر شركاے وركشاپ كو اپنے علم سے مستفيد كيا-اُنہوں نے جمعيہ احياء التراث الاسلامى جس كى طرف سے يہ وركشاپ منعقد كى جارہى تهى، كا تعارف كرواتے ہوئے كہا كہ كويت كے اس ادارہ كانام سلفى تنظيموں ميں سر فہرست ہے اوراس كى سرگرميوں كا دائرہ بہت وسيع ہے- اُنہوں نے كہا كہ ماہانہ اور ہفتہ وار مختلف دروس كا اہتمام،سيٹلائٹ كے ذريعے سعوديہ كے كبار علما كے براہ راست دروس ،مكتبہ طالب العلم كے ساتوں حصوں كى ہزاروں كى تعداد ميں تقسيم،غير ملكى اور خصوصاً اُردو دان طبقہ كے ليے ہفتہ وار 36 دروس ،يہ اس ادارہ كى اندرونِ كويت سرگرمياں ہيں- نيز پورى دنيا ميں مدارس اور مساجد كى تعمير، سلفى دعوت كا اہتمام كرنے والے دعاة كى كفالت، موٴسسة الفرقان الخيريہ پشاور كے تحت تحفيظ القرآن كے 70 حلقات كا قيام اور ان طلبہ حفظ ِقرآن كى كفالت، يہ اس ادارہ كى بيرونِ كويت سر گرمياں ہيں- اُنہوں نے بتايا كہ ادارہ كا تيسرا كارنامہ مختلف زبانوں ميں ترجمہ القرآن كى طباعت ہے اور اداره كا چوتها كام دنيا بهر ميں اس طرح كى تربيتى وركشاپس كا انعقاد ہے-آخر ميں جہاں اُنہوں نے ادارہ كے مسوٴلين كى خدمات كو سراہا، وہاں اپنے استاد حافظ عبد الرحمن مدنى كے كردار كو بهى خراجِ تحسین پيش كيا جنہوں نے وركشاپ كے انعقاد ميں اپنى خدمات پيش كيں-
وركشاپ كے شركا كے لئے مختلف تحائف اور انعامات كا بهى انتظام كيا گيا تها- مكتب الدعوة اسلام آباد، مكتبہ دار السلام لاہور، لجنة الدعاة گوجرانوالہ اور ادارئہ محدث كے علاوہ اُردو ڈائجسٹ لاہور كى طرف سے دينى كتب، قرآنِ كريم اور رسائل وجرائد كے تازہ شماروں كے تحائف كے بنڈل بنائے گئے تهے- جس كے ساتھ ہر داعى كو ايك خوبصورت بيگ كا تحفہ بهى ديا گيا-امتحان، مقابلہ معلومات ميں پوزیشنیں حاصل كرنے اورپروگرام ميں نماياں كاركردگى كا مظاہرہ كرنے والے 14 دعاة كو خصوصى انعامات ديے گئے اورسب شركا كو اسناد عطا كى گئيں-
جامعہ لاہور الاسلاميہ كے 20 سے زائد اساتذہ اس پروگرام كى تنظيم ميں مصروف تهے- ان ميں سے بہترين انتظامى كاركردگى كا مظاہرہ كرنے والے 7 اساتذہ كو بهى خصوصى انعام عطا كيا گيا- اور اس كے ساتھ ہى يہ علمى، فكرى، تربيتى اور ہر لحاظ سے نہايت خوبصورت وركشاپ دعا كے ساتھ تكميل پذير ہوئى-
حوالہ جات
1. نيل الفرقدين: ص22
2. ترجمہ : ''اس امت کے پہلے شخص کی اصلاح زہد اور موت کے ڈر سے ہوئی اور اس اُمت کے آخری شخص کی ہلاکت کا سبب بخل اور دنیا کی حرص ہو گی۔''
3. صحيح ترغيب وترهيب:3315