دہشت گردی اور اسلام

23/جولائى 2005 كو ہمدرد سنٹر لاہورميں جامعہ لاہور الاسلاميہ كے زير اہتمام چيئرمين سينٹ آف پاكستان جناب محمد مياں سومرو كى زير صدارت مذكورہ موضوع پر ايك سيمينار كا انعقاد كيا گيا جس ميں تمام مكاتب ِفكر كے نمائندہ علماے كرام شريك ہوئے- صبح 10بجے سيمينار كا باقاعدہ آغاز قارى حمزہ مدنى كى تلاوتِ كلام پاك سے ہوا اورسٹیج سيكرٹرى كے فرائض 'بيت الحكمت' كے ڈائريكٹر پروفيسر عبد الجبار شاكر نے انجام ديے۔

لندن ميں چند روز قبل ہونے والے بم دهماكوں كے بعد پيدا ہونے والى صورتحال پر مختلف مكاتب ِفكر كے اظہارِ خيال كے لئے يہ سيمينار منعقد كيا گيا تها جس ميں جماعت ِاسلامى پاكستان كے ممتاز رہنما حافظ محمد ادريس، تحريك ِحرمت قرآن پاكستان كے سربراہ انجينئر سليم اللہ خاں،ادارئہ علوم اثريہ فيصل آباد كے رئيس مولانا ارشاد الحق اثرى، تنظيم المدارس پاكستان كے ناظم اعلىٰ ڈاكٹر محمد سر فراز نعيمى، وفاق المدارس السلفيہ پاكستان كے ناظم امتحانات مولانا محمد اعظم تحريك المجاہدين كے ڈاكٹر محمد راشد رندهاوا، بيت الحكمت كے ڈائريكٹر پروفيسر عبد الجبار شاكر جمعية احياء التراث الاسلامى كے نمائندہ حافظ اسحق زاہد، جامعہ ميں گذشتہ سال منعقد ہونے والى وركشاپ كے ناظم ڈاكٹر حافظ محمد انور، ممتاز صحافى جناب عطاء الرحمن، نثار احمد ايڈووكيٹ، پروفيسر مزمل احسن شيخ، مولانا عبد الرشيد خليق، مدير ماہنامہ محدث حافظ حسن مدنى، جامعہ لاہور الاسلاميہ ميں كلية الشريعةكے پرنسپل مولانا رمضان سلفى، مولانا محمد شفيق مدنى، مولانا عبدالقوى لقمان، پروفيسر خالد حميد قريشى، مكتبہ قدوسيہ كے ڈائريكٹر عمرفاروق قدوسى، الاعتصام كے مدير حافظ عبد الوحيد اور پنجاب يونيورسٹى كے پروفيسر ڈاكٹر عبد اللہ كے علاوہ جامعہ لاہور الاسلاميہ كے تمام اساتذہ اور جمعية إحياء التراث الإسلامي كے 160 دعاة نے شركت كى-

* خطبہ استقباليہ كے لئے جامعہ لاہور الاسلاميہ كے مدير حافظ عبد الرحمن مدنى كو دعوت دى گئى- اُنہوں نے مہمانانِ گرامى اور تمام حاضرين كو خوش آمديد كہا اور تقريب ميں تشريف آورى پر جامعہ كے ذمہ داران كى طرف سے ان كا شكريہ ادا كيا- اُنہوں نے تاريخى تناظر ميں دہشت گردى كے حوالہ سے اسلام كے موقف كو پيش كرتے ہوئے دہشت گردى كو اپنے مفادات كے حصول كے لئے مغربى طاقتوں كا ايك بڑا ہتهيار قرار ديا جسے خود ساختہ ايشو بنا كر اسلام اور مسلمانوں كے خلاف عالمى دہشت گردى كا آغاز كر ديا گيا ہے-

اُنہوں نے دورِ حاضر ميں ملت ِاسلاميہ كو درپيش چيلنجز كا تذكرہ كرتے ہوئے مسلمانوں كو ان كى ذمہ داريوں كا احساس دلايا اور اُنہيں اپنى قوت كو ہر قسم كے تخريبى ہتھكنڈوں سے محفوظ ركهتے ہوئے علم وتحقيق كى تابندہ روايات كو زندہ كرنے اور يورپ كے ساتھ مكالمہ كى راہ اختيار كرنے كا مشورہ ديا-اُنہوں نے بتايا كہ علم وتحقیق سے مسلمانوں كا تعلق گہرا كرنے كے لئے جامعہ ہذاكے زير اہتمام پاكستان بهر سے تشريف لائے ہوئے سينكڑوں علما كى ايك تربيتى وركشاپ كا آغاز ہو رہا ہے اور يہ سيمينار بهى اس وركشاپ كے آغاز كى مناسبت سے ہى منعقد كيا جارہا ہے- مولانا كا مكمل خطاب اور خطبہ استقباليہ اسى رپورٹ سے متصل بعد ملاحظہ كيا جاسكتا ہے-

* سيمينار سے خطاب كرتے ہوئے وفاق المدارس السلفية پاكستان كے ناظم امتحانات مولانا محمد اعظم نے قرآنى آيت إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلْإِسْلَـٰمُ...﴿﴾...سورۃ آل عمران) سے اپنى تقرير كا آغاز كرتے ہوئے اسلام كو امن و سلامتى كا علمبردار مذہب قرار ديا اور كہا كہ دہشت گردى كا اسلام سے كوئى تعلق نہيں- اُنہوں نے رسول اللہﷺ كى حديث "حيرہ سے مكہ تك ايك عورت بلا خوف و خطر اكيلى سفر كرے گى-" كا حوالہ ديتے ہوئے اسلام كے اس امن وسلامتى كے پيغام كو سارى دنيا تك پہنچانا اُمت ِمسلمہ كى اہم ذمہ دارى قرار ديا-اُنہوں نے كہا كہ اسلام كے قلعے 'دينى مدارس' پر دہشت گردى كا كوئى واقعہ ثابت نہيں ہوسكا ہے،اس كے باوجود ان پردہشت گردى كا الزام عائد كرنا مضحكہ خيز ہے-

* جماعت ِاسلامى پاكستان كے ممتاز رہنما حافظ محمد ادريس نے آيت ِكريمہ ﴿إِنَّ هَـٰذِهِۦٓ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَ‌ٰحِدَةً﴾...﴿٩٣﴾...سورۃ الانبیا) اورفرمانِ نبوى (الجهاد ماضٍ إلىٰ يوم القيامة) سے اپنے خطاب كا آغاز كرتے ہوئے كہا كہ اُمت ِاسلاميہ جسد ِواحد كى مانند ہے- اس كا كوئى حصہ اگر اُمت كے ديگر افراد كى ٹيس كو محسوس نہيں كرتا تو گويا وہ شل ہوچكا ہے- اُمت كے مسائل ميں دلچسپى ركهنا ہر مسلمان كا فرض ہے !!

اُنہوں نے كہا كہ امريكہ كى عالمى دہشت گردى اور افغانستان و عراق پر غاصبانہ قبضہ كے خلاف رد ِعمل ميں اگر مسلمان اُٹھ كهڑے ہوں تو اس ميں كوئى اچنبھے كى بات نہيں ہے- اُنہوں نے لندن كے ميئر كى بات كا حوالہ ديا جس نے لندن كے سٹى ہال ميں كہاتها :
"جس قدر ہم نے مسلمانوں پر ظلم ڈهائے ہيں، اس كا اگر دسواں حصہ ہم پر ڈهائے جاتے تو ہم ميں كہيں زيادہ 'دہشت گرد' پيدا ہوجاتے-"

اُنہوں نے 11ستمبر كے واقعات اور برطانيہ ميں حاليہ بم دهماكوں كواسلام كے خلاف ايك گھناوٴنى سازش قرار ديتے ہوئے يہوديوں كو اس كا ذمہ دار قرار ديا اور كہا كہ6ہزار يہوديوں كا11/ستمبر كے روز ورلڈ ٹريڈ سنٹر ميں ڈيوٹى پر نہ جانااوربرطانيہ ميں دہشت گردى كے واقعات كى روك تهام پر ہونے والى ميٹنگ ميں يہودى وزير كا حاضر نہ ہونا اس كا واضح ثبوت ہے-

اُنہوں نے مدنى صاحب كى بات كہ "يورپ كے ساتھ مكالمہ ہو نا چاہيے" كى تائيد كرتے ہوئے كہا كہ اہل يورپ كے درميان خير كے علمبردار بهى موجود ہيں- اُنہوں نے امريكى مصنف كى كتاب America is Rogue State(بدمعاش امريكہ) كے حوالے سے امريكہ كے ظلم وستم اور پاكستان كے خلاف اس كى سازشوں كا ذكركيا- اُنہوں نے نيلسن منڈيلا، ياسرعرفات وغيرہ كو پہلے دہشت گرد اور پهر امن كا نوبل پرائز دينے كو امريكہ اور يورپى طاقتوں كا دوہرا معيار قرا رديا- اُنہوں نے كہا آج على گيلانى كو دہشت گرد كہا جارہا ہے ،ليكن ايك وقت آئے گا كہ ان شاء الله پهر وہى نوبل پرائز كے حق دار قرار پائيں گے- اُنہوں نے پرامن لوگوں كو دهماكہ سے اُڑانے كى پُرزور مذمت كرتے ہوئے افغانستان اورعراق كے جہادكو اس سے مختلف قرار ديا اور كہاكہ مذہب كے نام پر ہونے والى دہشت گردى كے پیچھے غير ملكى ايجنسيوں كا ہاتھ كارفرما ہے- اُنہوں نے كہاكہ مغربى طاقتوں كے اشاروں پر اُمت كو دبايا نہيں جاسكتا ہے اور پرويز مشرف كو يہ بات بتائى جائے كہ كوئى اپنى قوم كے خلاف لڑكر جنگ نہيں جيت سكتا- اگر وہ كاميابى كا منہ ديكهنا چاہتے ہيں تو پهراُنہيں صحابہ كرام حضرت خالد، ابوبكر و عمر اور عثمان و على رضى اللہ عنہم اور مسلم جرنيلوں طارق بن زياد، موسىٰ بن نصيركے كردار كو نمونہ اور نقش پا بنانا ہوگا-

* روزنامہ نوائے وقت كے كالم نگار، ممتاز صحافى جناب عطاء الرحمن نے خطاب كرتے ہوئے دہشت گردى كے مختلف پہلووٴں اوراس كے اصل اسباب و محركات كا ذكر كرتے ہوئے علما كو معذرت خواہانہ رويہ اختيار كرنے كى بجائے دہشت گردى كے اصل منبع اور وجوہات كى نشاندہى كرنے كى تلقين كى- اُنہوں نے كہا كہ سب سے خوفناك صورت دہشت گردى 'رياستى' ہوتى ہے جس ميں جاسوسى كا نظام اہم كردار اداكرتا ہے اور آج امريكہ كى سى آئى اے نے پورى دنيا پر دہشت گردى كا جال پهيلايا ہے-اُنہوں نے لندن كے دهماكوں كى مذمت كرتے ہوئے اس كے اسباب و محركات كو ختم كرنے پر زور ديا- اُنہوں نے كہا كہ آج اُمت ِمسلمہ پر ظلم كى انتہا كردى گئى ہے اور اسلامى حكومتيں جہاد كا علم بلند كرنے كى بجائے امريكہ كى فرنٹ لائن بن گئى ہيں ،ان حالات ميں اگر كوئى رد ِعمل ميں اُٹھ كر دهماكے كردے تو اسے مطعون كيوں كيا جاتا ہے؟

اُنہوں نے كہا كہ 1947ء تا 1958ء تك آئينى سول حكومتيں رہيں، اس دوران كوئى مذہبى اور لسانى دہشت گردى نہيں ہوئى- اس كے بعد فوجى حكومتوں نے سياسى جماعتوں كو سياست سے دور ركهنے كے لئے ايم كيو ايم، سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد جيسى جماعتوں كو فروغ ديا اور ملك دہشت گردى كى لپيٹ ميں آ گيا جس سے فائدہ اٹها كر 'را' اور ملك دشمن عناصر نے بهى اپنى كاروائيوں كا آغاز كر ديا-

* تقريب كے صدر، چيئرمين سينٹ جناب محمد مياں سومرو نے اپنے خطاب ميں كہا كہ موجودہ دہشت گردى كے واقعات عالمى امن كے ليے انتہائى تشويشناك ہيں-اسلام امن وسلامتى كا دين ہے اور يہ انسانى جان كے احترام كو بنيادى اہميت ديتا ہے- اُنہوں نے قرآنِ مجید كى مختلف آيات كے حوالے سے اسلامى موقف كو واضح كيا- اُنہوں نے حكومت ِپاكستان اور ملت ِاسلاميہ كے اس موقف كو بڑى تفصيل كے ساتھ پيش كيا جو وہ دہشت گردى كے ان واقعات كى مذمت ميں پيش كرتے ہيں-آخر ميں اُنہوں نے اُمت كو اس صورتحال كے تدارك كيلئے اپنا كردار ادا كرنے كى دعوت دى اور مسلم ممالك كے شہريوں كو يہ مشورہ ديا كہ وہ علم اور تحقيق كى روايت كو مستحكم كرتے ہوئے اس نوعيت كى منفى سرگرميوں كا تدارك كريں-

* ادارئہ علوم اثريہ، فيصل آباد كے مدير مولانا ارشاد الحق اثرى نے اپنے خطاب ميں كہا كہ اسلام انسان كى جان ومال كا سب سے بڑا محافظ اور دہشت گردى كا سرے سے مخالف ہے- اُنہوں نے كہا كہ جو مذہب رحم مادر سے لے كر موت كے بعد تك بهى انسان كے تحفظ كى ضمانت ديتا ہو اور ايك انسان كے قتل كو پورى انسانيت كا قتل قرار ديتا ہو، وہ يقينا دہشت گردى كى حمايت نہيں كرسكتا- اُنہوں نے كہا كہ جب تك مسلمانوں نے دين كے غلبہ اور ظلم كے خاتمہ كو اپنا مقصد بنايا اور ايك مظلوم عورت كى پكار پر اسلامى حكومت حركت ميں آتى رہى، اس وقت تك مسلمان سپر طاقت رہے- اُنہوں نے كہا كہ جب تك مسلم حكمران اپنے ذاتى اقتدار كا تحفظ چهوڑ كر مسلم اُمہ پر ظلم و ستم كے خلاف كچھ نہيں كريں گے، اس وقت تك ان سے دہشت گردى كا الزام نہيں دُهلے گا- بقول علامہ اقبال

 

تقدير كے قاضى كا يہ فتوىٰ ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعيفى كى سزا مرگ مفاجات


* تنظيم المدارس پاكستان كے ناظم اعلىٰ اور جامعہ نعیمیہ لاہور كے مہتمم مولانا ڈاكٹرسرفراز نعیمى نے اپنے خطاب ميں تاريخ كے تناظر ميں امريكہ اور يواين او كے گھناوٴنے اور دوہرے كردار كو واضح كرتے ہوئے دہشت گردى كے اسباب اور وجوہات كو تلاش كرنے پر زور ديا- اُنہوں نے حكومت ِپاكستان كو افغانستان كے خلاف امريكہ كو لاجسٹك سپورٹ دے كر مسلمان بچوں، بوڑهوں اور عورتوں كو قتل كروانے كا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے طالبان كو ملت ِاسلاميہ كے قابل قدر سپوت قرار ديا-اُنہوں نے 11ستمبر اور 7 جولائى كے واقعات كو مسلمانوں كے خلاف يہود ونصارىٰ كى سازش قرار ديتے ہوئے كہا كہ آج خود مسلمان ہر جگہ رياستى دہشت گردى كا شكار ہيں جس كى واضح مثال كشمير اور فلسطين ہے- اُنہوں نے كہا كہ امن كے حصول كے لئے مسلمانوں كو اپنى قوت مجتمع كرنا ہوگى كيونكہ امن بهيك مانگنے سے كبهى نہيں ملا كرتا۔

اُنہوں نے پرويز مشرف كى تقرير پر تبصرہ كرتے ہوئے قوم كے خلاف طاقت استعمال كرنے اور اُنہيں اسلام پسندوں كو ووٹ دينے سے روكنے كو خود صدر كى انتہا پسندى قرار ديا-انہوں نے كہا كہ صدر نے مذہبى جماعتوں پر انتہا پسندى كا الزام عائد كركے عوام كو ان سے متنفر كرنے كى مہم شروع كرركهى ہےتاكہ عوام ا ن سے سياسى اور معاشرتى ميدان ميں كسى مثبت كردار كى توقع نہ ركهيں- اُنہوں نے اسلامى قوتوں كو جھكنے كى بجائے اُنہيں اس كردار كو عملاً اپنانے كى ترغيب دى جس كا اسلام نے اُنہيں مكلف كيا ہے-

* ممتاز وكيل نثار احمدبٹ نے اپنے خطاب ميں كہا كہ عالمى صيہونى تحريك WZO عيسائى حكومتوں كے ذريعے عالم اسلام كو زير كرنے كے لئے دنيا ميں دہشت گردى كروا رہى ہے-اُنہوں نے امريكہ كى عراق اور افغانستان كے خلاف جارحيت كا اصل ہدف مسلمانوں كے وسائل پر قبضہ كو قرار ديا- اُنہوں نے كہا كہ بڑى طاقتیں اپنا اسلحہ بیچنے كے لئے بهى دہشت گردى كے واقعات كے ذريعے جنگى حالات خود پيداكرتى ہيں-

* پروفيسر عبدالجبار شاكر نے خطاب كرتے ہوئے يہوديوں كو موجودہ عالمى انتشار اور امن تباہ كرنے كا ذمہ دار قرار ديا اور كہا كہ مسلمانوں كو دہشت گرد قرار دينے كى مثال اس مرغى كى ہے جو اپنے چوزوں كو بلى سے بچانے كے لئے اپنى چونچ كو استعما ل كرتى ہے- عالمى ميڈيا بلى كى دہشت گردى كو نظر انداز كركے مرغى كا اپنے دفاع كے لئے ٹهونگے مارنے كو دہشت گردى قرار دے رہا ہے جبكہ دفاع كرنا ہر ايك كا حق ہے، اور اصل دہشت گرد وہ ہے جو دوسروں پر اپنے مفاد كے لئے ظلم وستم كا ارتكاب كرتا ہے- آج سارى دنيا كى بجائے مسلمانوں پر دہشت گردى كا الزام اس لئے ہے كہ وہ بد مست ہاتهى امريكہ اور اس كے حواريوں كے خلاف جدوجہد كررہے ہيں-

اُنہوں نے عالم اسلام ميں سرگرم ملٹى نيشنل كمپنيوں كے كردار كو مشكوك اور خطرناك قرار ديتے ہوئے كہا كہ مسلمانوں كو ايك ملٹى نيشنل كمپنى كى وجہ سے پورے ہندوستان سے ہاتھ دهونا پڑا ليكن آج سينكڑوں ملٹى نيشنل كمپنياں پاكستان اور ديگر اسلامى ممالك ميں مغربى طاقتوں كے ايجنڈے پر كام كررہى ہيں جس كا نتيجہ ہمارے ليے تباہ كن ہو گا-

اُنہوں نے مساجد اور مدارس كو دنيا ميں امن كے علمبردار اور اسلام كے قلعے قرار ديتے ہوئے علماے كرام كو پستى وپريشانى كا شكار ہونے كى بجائے ايك سپاہى كى طرح جاگتے ہوئے اپنے اس كام كو آگے بڑهانے پر زور ديا اور كہا كہ اس سلسلہ ميں ہمارى غفلت خوفناك صورت ِحال پيدا كرسكتى ہے- اُنہوں نے كہاكہ مدارس كے نصاب ميں اصلاح كا مقصد اپنے نظريہ سے انحراف نہيں بلكہ مقصد اسے جديد چيلنجز سے وابستہ كرنا ہونا چاہئے-

* مولانا حافظ عبدالرحمن مدنى نے اس سيمينار كے بعد ہونے والى وركشاپ كا تعارف كرواتے ہوئے كہا كہ اس وركشاپ كا مقصد علماے كرام كو غزوِ فكرى كے ليے تيار كرنا اور دورِحاضر كے چيلنجوں سے آگاہ كرنا ہے تاكہ وہ اسلامى علوم سے استفادہ كرتے ہوئے لوگوں كى رہنمائى كا فريضہ انجام دے سكيں-

اُنہوں نے كہا كہ عالمى قوتيں دنيا بهر ميں مصروفِ عمل جہادى قوتوں كو معركہ آرائى سے روكنا چاہتى ہيں اور اس كام ميں مسلم ممالك كے حكمران ان كے حاشيہ نشين كا كردار ادا كررہے ہيں- اگر خدانخواستہ ان كو اپنے مذموم مقصد ميں كاميابى ہوجاتى ہے تو مسلمانوں كو اسى قسم كى صورتحال كا سامنا كرنا پڑے گا جيسا كہ برصغير ميں جنگ ِآزادى كے بعد كے سالوں ميں ہوا- يہاں كے مسلمانوں نے پہلے زورِبازو سے انگريز سامرا ج كو برصغير سے نكالنے كى كوشش كى ليكن جب وہ اس ميں كامياب نہ ہوسكے تو برسر اقتدار سامراج نے ان پر عرصہٴ حيات تنگ كرديا اور اُنہيں سنگين سزاؤں سے دوچار ہونا پڑا- ايسے حالات ميں وقت كى مسلم قيادت نے علم وفكر كے ميدان ميں اسلام كا علم بلند كيا اور اپنى كوششوں كو مسلم قوم كى اصلاح اور تعمير و ترقى كى طرف موڑ ديا- جس كا نتيجہ يہ نكلا كہ جنگ ِآزادى كے بعد مسلمانوں ميں كئى علمى وفكر ى تحريكيں شروع ہوئيں جن ميں دينى مدار س ميں دار العلوم ديوبند اور سرسيد كى علمى تحريك وغيرہ نماياں ہيں-

اُنہوں نے كہا كہ ہميں مسلم ممالك سے سپر قوتوں كو بے دخل كرنے كى ہرممكن كوشش كے ساتھ ساتھ مسلم ممالك ميں فكرى اور علمى اصلاح كے لئے بهى كام كو جارى ركهنا چاہئے- اسلام نے 'جہاد' كو صرف قتال اور معركہ آرائى ميں محدود كرنے كى بجائے غلبہ دين كيلئے بروئے كار لائى جانے والى تمام مساعى پر محيط قرار ديا ہے اور دينى قوتوں كو ہر ميدان ميں غلبہ دين كے لئے متحرك كردار ادا كرنا ہوگا، تب ہى اسلا م كو درپيش چيلنجز كا صحيح طور پر سامنا كيا جاسكتا ہے-

* تحريك حرمت ِقرآن پاكستان كے سربراہ انجينئر سليم اللہ خان نے كشمير ميں اپنى عزت كا دفاع كرنے والى عورت اور غليل سے اپنا دفاع كرنے والے فلسطينى كو دہشت گرد قرار دينا اور اُنہيں بموں سے اُڑانے والوں كو امن پسند قرار دينے كو مغرب كا دوہرا معيار قرار ديا- اُنہوں نے كہا كہ﴿ حَرِّ‌ضِ ٱلْمُؤْمِنِينَ عَلَى ٱلْقِتَالِ﴾...﴿٦٥﴾...سورۃ الانفال)كے تحت آج جہاد و قتال ہى وقت كا اہم تقاضا ہے، غزوِ فكرى پر اصرار مغربى ميڈيا كى پراپيگنڈہ مہم كا نتيجہ ہے-

اُنہوں نے مغربى ميڈيا كا كردار واضح كرتے ہوئے كہا كہ اگر مغرب كى بلى مرجائے تو ميڈيا آسمان سر پر اُٹها ليتا ہے ليكن ہزاروں مسلمانوں كى ہلاكت ان كے نزديك انسانى حقوق ميں شامل نہيں ہے-اُنہوں نے كہا كہ مدارس كو دہشت گردى كے ساتھ وابستہ كرنا مضحكہ خيز ہے، كيونكہ حاليہ واقعات كے ملزموں ميں كوئى بهى مدارس كا پڑها ہوا نہيں ہے-

* آخر ميں ڈاكٹر راشد رندهاوا كو حرفِ نصيحت اور دعا كے لئے دعوت دى گئى- اُنہوں نے پروپيگنڈہ كے اس دور ميں قرآنِ كريم كى روشنى ميں تين رہنما اُصولوں كا تذكرہ كيا :
(1) ﴿إِن تَصْبِرُ‌وا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّ‌كُمْ كَيْدُهُمْ شَيْـًٔا﴾ ...﴿١٢٠﴾...سورۃ آل عمران) يعنى اگر مسلمان اللہ كا تقوىٰ اختيار كريں اور اپنى جدوجہد كے نتائج كے لئے صبر وتحمل سے كام ليں تو آخركار غيرمسلموں كو ناكامى كا سامنا كرنا پڑے گا-
(2) دنيا كے كافر آپس ميں دوست ليكن قرآن كى رو سے مسلمانوں كے دشمن ہيں- لہٰذا ہميں انہيں اپنا دشمن ہى سمجھنا چاہيے-
(3) ﴿وَمَآ أَصَـٰبَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ﴾ ...﴿٣٠﴾...سورۃ الشوری) كہ ہمارے برے اعمال ہى ہمارى ذلت كا سبب ہيں، لہٰذا اگر ہم اللہ كى بغاوت ترك كر ديں تو ذلت كا يہ دور ٹل سكتا ہے-

آخر ميں ان كى رقت آميز دُعا سے يہ مجلس اختتام پذير ہوئى-