مسلم نوجوانوں کے لیے جدید علوم کی ضرورت و اہمیت

اسلام دین فطرت ہے جو اپنے واضح احکام وفرامین کی کشش کے باعث قلب ِانسانی میں گھر کرتا ہے، فطرتِ بشری کی تجزیہ کاری اس کے متنوع علوم ومعارف کی تصدیق کرتی ہے اور ان کی افادیت کی مظہر ہے۔ درحقیقت اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو انسان کو کائنات کے سربستہ اَسرار معلوم کرنے کی دعوت دیتاہے تاکہ اس کے ماننے والے محض نام کے مسلمان نہ کہلائیں بلکہ وہ اپنے قلب وذہن کی پوری آمادگی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور اسلام کے جملہ احکام پر ایما ن لانے والے ہوں۔ اس کا بنیادی مقصد حقیقی اور باعمل مسلمان کے نمونے کی تیاری ہے جوکفار کے لئے اسلام کی دعوت کا ذریعہ ثابت ہو۔

علم کی اہمیت سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں۔ زمانہٴ قدیم سے دورِ حاضر تک کا ہر متمدن ومہذب معاشرہ علم کی اہمیت سے واقف ہے۔ فطرتِ بشری سے مطابقت کی بنا پر اسلام نے بھی علم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اس کے ابتدائی آثار ہمیں صدرِ اسلام یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک میں ملتے ہیں۔ چنانچہ غزوئہ بدر (رمضان ۲ھ) کے قیدیوں کی رہائی کے لئے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی۔ ان میں سے جو نادار تھے، وہ بلامعاوضہ ہی چھوڑ دیئے گئے لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، انہیں حکم ہوا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو چھوڑ دیئے جائیں گے۔ چنانچہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جو کاتب وحی تھے، اسی طرح لکھنا سیکھا تھا۔ (سیرت النبی از شبلی نعمانی: ۱/۱۹۶)

یہ معمولی واقعہ ہی اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہوں میں تحصیل علم کس قدر ضروری تھا۔ اسلام بجا طور پر جملہ مباح علوم کی اور بالخصوص سائنس کی افادیت کو نہ صرف تسلیم کرتاہے بلکہ دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے اس کی ترویج کو مقتضاے شریعت کی تکمیل تصور کرتا ہے۔ جو مذاہب انسان کو دنیا سے فرار کا درس دیتے ہیں، اسلام ان کے برعکس سائنس اور دیگر جائز علوم کو نظامِ قدرت میں مداخلت قرار نہیں دیتا بلکہ ایک سچے اور کھرے مسلمان کے ساتھ ساتھ دنیا میں مروّجہ علوم کا ماہربھی اسے درکار ہے جو اسلام کے پیغا مِ حق کو جدید ذرائع کی وساطت سے غیر مسلمانوں تک پہنچاسکے۔

اسلام کی اس حقیقت پسندانہ سوچ کے باوجود عصر حاضر کا یہ عظیم المیہ ہے کہ مسلمانوں کا جس قدر علمی عروج اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر کئی صدیوں تک قائم رہا، اسی قدر وہ آج انحطاط وتنزل کا شکار ہیں۔ صرف علم میں فقدان کے باعث ہم کئی اور شعبوں میں بھی مغرب کے غلام بن چکے ہیں۔ معیشت ، معاشرت، ثقافت وسیاست اور دیگر کئی معاملات میں ہم اَغیار کے محتاج ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے جس کا بدقسمتی سے ہمیں سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ مسلمان جس کی تخلیق دنیا کی راہنمائی کے لئے کی گئی تھی آج خود نشانِ منزل کھو چکا ہے اور سرابِ سفر کو مقصودِ حقیقی سمجھ کر اس پر قانع وشاکر ہے۔ اسی لئے ذلت ومسکنت کے گہرے بادل شش جہت سے ہمیں اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے شاندار ماضی اور عبرتناک حال کو دیکھ کر مستقبل کو درخشان کرنے کی بہترمنصوبہ بندی کریں۔

جدید سائنسی ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ

اس دور میں جب پورا یورپ جہالت کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا، مدارسِ اسلامیہ بالخصوص غرناطہ، طلیطلہ اور بغداد میں علم کی قندیلیں روشن تھیں۔ یورپ کے بیشتر جویانِ علم مسلمان اساتذہ کے سامنے زانوے تلمذ تہ کرکے اپنی علمی تشنگی دور کرتے تھے۔ اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ یورپ کی موجودہ تہذیب وترقی مسلمانوں کے سائنسی ارتقا کی رہین منت ہے۔ اسلامی علوم وفنون نے کچھ تو ہنگری اور بلقانی ریاستوں کے ذریعے اور زیادہ تر اندلس وصقلیہ (سپین اور سسلی) کے رستے یورپ میں نفوذ کیا۔ خلافت ِاندلس میں پوری علمی آزادی تھی۔ طلیطلہ اور قرطبہ کے مضافات میں بے شمار خانقاہیں تھیں جو مسافروں کے لئے اقامت گاہوں کا کام دیتی تھیں۔ یورپ کے تمام ممالک سے طالبانِ علم عربوں کے علمی مراکز کا رخ کرتے تھے اور وہاں آکر مسلمانوں کی علمی فیاضی سے مستفید ہوتے تھے۔

صقلیہ میں فریڈرک دوم اور اس کے جانشینوں نے مختلف علوم وفنون (فلسفہ، سائنس اور طب) کی کتابیں لاطینی میں بکثرت ترجمہ کروائیں۔ یورپ میں اندلس کے اسلامی علوم وفنون کی اشاعت بھی فریڈرک کے واسطے سے اٹلی (اطالیہ) اور سسلی (صقلیہ) کی راہ سے ہوئی اور فلسفہ وطب کے علاوہ دیگر علوم کی کتب بھی لاطینی زبان میں ترجمہ کی گئیں۔ ان کتابوں کے بیشتر مترجم یہودی علما تھے۔ جنہوں نے یورپ کے ثقافتی ارتقا میں بھر پور حصہ لیا اور اسلامی ثقافت کویورپ کے دوردراز اور نیم مہذب علاقوں تک پہنچایا۔ عربی کتابوں کے عبرانی اور لاطینی تراجم یورپ کے لئے سرچشمہ رحمت ثابت ہوئے۔ فرانسیسی اور جرمن راہبوں نے علوم کی درسی کتب یہودی فضلا سے پڑھیں۔ ولیم آف نارمنڈی کے ساتھ بے شمار یہودی فضلا انگلستان آئے، جہاں آکسفورڈ میں ان کے ہاتھوں پہلا مدرسہ قائم ہوا۔ اسی سکول میں راجر بیکن (Roger Bacon) نے عربی زبان اور دیگر علومِ حکمیہ حاصل کئے۔ کہاجاتا ہے کہ مغرب میں تجربی علوم کا سہرا راجر بیکن کے سر ہے۔ مسیحی یورپ نے مسلمانوں کے علوم راجر بیکن سے سیکھے جس نے خود آکسفورڈ کے علاوہ پیرس میں قیام کرکے مسلمانوں کے علوم سیکھے تھے۔ وہ برملا یہ اعتراف کرتا تھا کہ "اس کے معاصرین کے لئے 'علم صحیح' کا واحد ذریعہ صرف عربی زبان اور اس کے علوم ہیں"۔ اسے اعتراف تھا کہ اس نے ارسطو کا فلسفہ ابن رشد کی تصانیف کے تراجم سے سمجھا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے اردو دائرئہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ پنجاب ، لاہور، مقالہ علم: جلد ۱۳ / ۱،۱۴)

جدید علوم اور عیسائیت کا طرزِ عمل

اسلام کی معارف پروری کے برعکس عیسائیت کا علوم کے ساتھ طرزِ عمل ملاحظہ کیجئے۔ عیسائی راہبوں نے علم کو مذہب سے متصادم قرار دیاہے۔ اس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ جس شخص کو انہوں نے تحصیل علم اور اس کی تدریس وتعلیم میں منہمک دیکھا، اسے یا تو ختم کردیا، یا مستوجب ِسزا وتعزیر قرار دے دیا۔ مذکورہ سائنسدان راجر بیکن کو جادوگر اور شیطانی علم کا پرچارک قرار دیا گیا اور کلیسا کی جانب سے سنائی گئی سزا کے مطابق اسے ۲۴ سال جیل میں گزارنے پڑے۔ گلیلیو گلیلی (۱۵/ نومبر ۱۵۶۴ء تا ۸/ جنوری ۱۶۴۲ء) اور کوپرنیکس Copernicus (۱۴۷۳ء تا ۱۵۴۳ء ) کو بھی اپنے افکار ونظریات کے عیسائیت سے متصادم ہونے کے باعث بے پناہ مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا۔

اسکندریہ یونیورسٹی

سکندرِ اعظم نے ۳۳۴ قبل مسیح میں مصر پر قبضہ کیا اور ۳۳۳ قبل مسیح میں اسکندریہ کی بنیاد رکھی جو یورپ اور ایشیا کی تجارت کا مرکز ہونے کے باعث رفتہ رفتہ تہذیب وثقافت اور فکر ودانش کا مرکز بن گیا۔ اس میں موجود یونیورسٹی قریباً چھ سو سال تک تشنگانِ علم کو سیراب کرتی رہی۔ اس میں موجود کتب کی تعداد چھ لاکھ سے متجاوز تھی۔ اسکندریہ کی یہ عظیم لائبریری جسے انسانی فکر کے ارتقا میں سنگ ِمیل کی حیثیت حاصل تھی، عیسائی مذہب کے سائنس کے خلاف تعصب کی نذر ہوگئی۔ ۳۹۰ء میں پشپ تھیوفیلس کے فتویٰ کی بنا پر اسے نذرِ آتش کردیا گیا۔ ان کتب کی کوکھ سے جن مشہور ومعروف سائنسدانوں نے جنم لیا، ان میں اقلیدس (۳۲۳۔ ۲۸۵ قبل مسیح) ، ارشمیدس (۲۸۷۔۲۱۲ قبل مسیح ) ، جالینوس (۱۲۹۔ ۲۵۹ء) اور بطلیموس (۹۵۔۱۶۸ء) وغیرہ شامل ہیں۔

اسی یونیورسٹی سے وابستہ ایک مشہور معلمہ جس کا نام ہائی پیشیا (Hypatia) تھا، عیسائی تعصبات کا شکار ہوگئی۔ وہ فلسفہ ارسطو کی تشریحات میں مہارت رکھتی تھی۔ ایک دن وہ اپنے مدرسہ جا رہی تھی کہ پادریوں اور عیسائی راہبوں نے اسے گھیر لیا اور بیچ بازار میں کپڑے پھاڑ کر اسے بالکل برہنہ کردیا پھر گھسیٹتے ہوئے ایک گرجا میں لے گئے اور وہاں مقدس عصاے پطرس کی متواتر ضربات سے اس کا سرپاش پاش کرڈالا۔

مسلمانوں میں علوم کا فروغ

مسلمان سائنسدانوں نے علم کائنات ، علم حشرات الارض وحیوانات، علم نباتات، علم جہاز رانی، جغرافیہ وحساب، علم طب یعنی علم الابدان، علم ریاضی، علم کیمیا ، علم طبیعات، علم فلکیات، علم توانائی اور علم تعمیرات وغیرہ سے دنیا کو روشناس کرایا۔ جن عظیم مسلمان سائنسدانوں نے اس سلسلے میں کارہاے نمایاں سر انجام دیئے ان میں جابر بن حیان (۷۲۲۔ ۸۱۷ء) عبدالملک اصمعی (۷۹۰۔ ۸۳۱ء) ، محمد بن موسیٰ الخوارزمی (۷۸۰۔۸۵۰ء)، یعقوب بن اسحق الکندی اور الجاحظ (متوفی ۸۶۹ء ) وغیرہ شامل ہیں۔

مذکورہ بالامسلمان سائنسدانوں کے جملہ علمی کارناموں کی مکمل تفصیل ایک ضخیم کتاب کی متقاضی ہے تاہم اِجمال وایجاز کے پیش نظر کچھ تفصیل حسب ِذیل ہے

(1) نور الدین طوسی: قطب الدین شیرازی (متوفی ۱۳۱۱ء) کا ذہین وفطین شاگرد تھا۔ اس نے نهاية الادراک فی دراية الافلاک لکھی جو 'شیرازی' کی علم نجوم پر مشہور تصنیف'تذکرہ' کی ارتقائی صورت ہے۔ اس میں ہندسی مسائل پر بھی بڑے قیمتی مباحث ملتے ہیں، مثلاً رؤیت کی خاصیت اور قوسِ قزح (Rainbow) کی تشکیل۔ وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے قوسِ قزح کی تشکیل کا ایک صحیح اور واضح حل پیش کیا۔

(2) جابر بن حیان: بہت سی کتابوں کا مصنف تھا۔ وہ تجرباتی کیمیا کا بانی تھا۔ اس نے اپنی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑا رنگنے، دھاتوں کے مرکبات بنانے، دھاتوں کو مُصفّٰی کرنے، لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے ،ا س پر وارنش کرنے اور بالوں کو سیاہ کرنے کے لئے خضاب تیار کرنے کی طرح کے بیسیوں طریقے بیان کئے ہیں۔ جابر نے سفیدہ (Lead Carbonate) ، سنکھیا (Asenic) اور سرمے (Antimony) کو ان کے سلفائیڈ (Sulphide) سے حاصل کرنے کے طریقے بتائے۔

(3) محمد بن موسی الخوارزمی :میدانِ ریاضی اور ہندسہ میں ید ِطولیٰ رکھتا تھا۔ بالخصوص الجبرے کی مساوات پیش کرکے اس نے دنیاے ریاضی میں تہلکہ مچا دیا۔ عالم اسلام کا یہ سب سے پہلا ریاضی دان تھا جس نے پوری دنیا کو الجبرا، جیومیٹری اور حساب کے ایسے ایسے اُصول مرتب کرکے دیئے جو سابقہ یونانی ورومی علم ریاضی کو یکسر مات دے گئے۔ اس کی کتاب کا نام 'الجبر والمقابلہ' ہے۔

یورپی مصنّفین نے مسلمان فلاسفہ پر سخت تنقید کی ہے کہ انہوں نے کوئی نئی چیز پیش نہیں کی بلکہ ساری عمر ارسطو کی پیروی اور اس کی تصانیف کی شرح و اختصار میں صرف کردی۔ لیکن اس بے بنیا دالزام کی خود یورپ کے بعض فضلا نے تردید کی ہے۔ مشہور جرمن ریاضی دان ویدمان (wied mann) نے لکھا

"اس میں کوئی شک نہیں کہ عربوں نے بعض نظریات یونانیوں سے لئے تھے، لیکن انہو ں نے ان نظریات کو اچھی طرح سمجھ اور پرکھ کر ان کا انطباق مختلف ادوار کے کثیر حالات پر کیا۔ پھر انہوں نے جدید نظریات اور اچھوتے مباحث پیدا کئے۔ اس طرح ان کی علمی خدمات نیوٹن اور دوسرے سائنسدانوں سے کم نہیں"۔ (اردو دائرئہ معارف ِاسلامیہ: جلد ۱/۱۴، ص ۳۲۲)

حکماے اسلام کے سوانح وتراجم کے مطالعہ سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ روم اور یونان کے علومِ عقلیہ کو خلافِ دین، حرفِ آخر یا جامد چیز نہیں سمجھتے تھے۔ وہ خود اپنی ذاتی رائے رکھتے تھے۔ غوروفکر کرتے تھے، تجربہ ومشاہدہ سے کام لیتے تھے، ان علوم میں نئی چیزیں پید اکرتے تھے اور دوسروں کے اَقوال پر تنقید بھی کرتے تھے۔ تعلیم وتعلّم اور افادہ واستفادہ کے لئے وہ اقصاے ترکستان سے 'مغرب'تک اور اندلس سے حجاز تک محو ِسفر رہا کرتے تھے۔ علومِ طبیہ میں ان کے نظریات ونتائج حیرت انگیز ہیں اور ان میں سے بعض حکما مستقل دبستان ہائے فکر کے بانی تھے۔

علم تاریخ

خاص طور پر ایک عنوان کے ماتحت 'علم تاریخ' کو بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس علم کے ساتھ مسلمانوں سے زیادہ کسی نے اعتنا نہیں کیا۔ مسلمانوں سے قبل تاریخ محض بے سند واقعات پر مبنی تھی، جسے توہم و خرافات اور قصہ وداستان وغیرہ کا مجموعہ سمجھا جاسکتا ہے۔ مسلمان چونکہ امر واقعہ کی صداقت کے لیے مستعد رہتے تھے، لہٰذا انہوں نے علمی بنیادوں پر علم تاریخ کی بنیاد رکھی، جس کے لیے انہوں نے شہادت، روایت اور درایت تینوں کو اہمیت دی، انہوں نے ہر قسم کی روایتوں میں سند کی مسلسل جستجو کی اور رواة کے حالات و تراجم اس سعی و تلاش سے بہم پہنچائے کہ اسے ایک عظیم فن بنا دیا۔

ابن خلدون فلسفہ تاریخ کا موجد ہے۔ اس نے درایت کے اصول مرتب کیے اور اس امر کی تشریح کی کہ راویوں کی جرح و تعدیل کے علاوہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ واقعہ فی نفسہ ممکن بھی ہے یا نہیں؟ امام محمد بن جریر طبری (متوفی ۳۱۰ھ) کی 'تاریخ الرسل والملوک' ، البلاذری کی 'فتوح البلدان' ، ابن کثیر کی 'البدایہ والنھایہ' اور 'طبقاتِ ابن سعد' وغیرہ تاریخ و سوانح کی عظیم کتابیں شمار کی جاتی ہیں جو کئی کئی مجلدات پر مشتمل ہیں۔

بیت الحکمت کا قیام

یہ ایک علمی ادارہ تھا جس کی تاسیس ہارون الرشید یا اس کے بیٹے مامون الرشید (روایات میں اختلاف ہے) کے ہاتھوں انجام پائی۔ بغداد میں موجود اس دارالترجمہ اور دارالتصنیف میں مختلف ممالک کے رہنے والے مختلف مذاہب کے پیر و کار اور مختلف زبانیں جاننے والے علما مصروفِ کار رہتے تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ یونانی اور دیگر زبانوں میں موجود اہم علمی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا جائے۔ اس ادارے سے فلکیات کی رصد گاہیں (Observatories) بھی ملحق تھیں،ان میں سے ایک بغداد میں اور دوسری دمشق میں قائم کی گئی۔ جہاں مسلم سائنسدانوں نے بطلیموس (Ptolemaeus) کی تیار کردہ قدیم تقویم کی تصحیح کی اور خاص طور پر نئی تقاویم ایجاد کیں۔

سطورِ بالا میں مسلمانوں کے گزشتہ علمی عروج اور عیسائیت کا علم سے تصادم نیز یورپ کے علمی انحطاط کا احوال مختصراً بیان کیاگیا ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی موجودہ کیفیات کا بخوبی جائزہ لے سکتے ہیں اور ان اسباب و علل پر تفکر و تدبر کر سکتے ہیں جو ہمارے موجودہ انہیار و زوال کا باعث بنے۔ عالم اسلام کے نامور ادیب وداعی مولانا سیدابوالحسن علی ندوی  (متوفی ۳۱/ دسمبر ۱۹۹۹ء) رقمطراز ہیں:

"عالم اسلام کے لیے ضروری ہے کہ علم کی اس طرح تنظیم جدید کرے جواس کی روح اور اس کے پیغام سے مطابقت رکھتی ہو۔ عالم اسلام نے قدیم دنیا پر اپنی علمی سیادت کا سکہ جما دیا تھا اور دنیا کی عقلیت و ثقافت کے رگ و ریشہ میں سرایت کر گیا تھا۔ اس نے دنیا کے ادب اور فلسفہ کے جگر میں نشیمن بنایا تھا، صدیوں متمدن دنیا اس کی عقل سے سوچتی رہی، اس کے قلم سے لکھتی رہی اور اسی کی زبان میں تصنیف و تالیف کرتی رہی، چنانچہ ایران، ترکستان، افغانستان اور ہندوستان کے مصنّفین اور اہل علم اگر کوئی کتاب لکھنا چاہتے تھے تو عربی ہی میں لکھتے تھے۔

اگرچہ یہ علمی تحریک جو عہد ِعباسی کے آغاز میں شروع ہوئی تھی، یونان اور عجم سے متاثر تھی ، اور اسلامی سپرٹ اور اسلامی فکر کی بنیاد پر قائم نہیں تھی اور اس میں علمی و دینی حیثیت سے متعدد خامیاں اور کمزوریاں تھیں، لیکن اپنی قوت و تازگی کی وجہ سے وہ پوری دنیا پر آندھی اور سیلاب کی طرح چھا گئی اور قدیم علمی نظام اس کے سامنے ٹھٹھر کر رہ گئے ۔

اگر عالم اسلامی کی خواہش ہے کہ نئے سرے سے وہ اپنی زندگی شروع کرے اور غیروں کی غلامی سے آزاد ہو، اگر وہ عالمگیر قیادت حاصل کرنا چاہتا ہے تو صرف تعلیمی خودمختاری ہی نہیں بلکہ علمی لیڈر شپ بھی بہت ضروری ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں، یہ مسئلہ بہت گہرے غور و فکر کا محتاج ہے اس کی ضرورت ہے کہ وسیع پیمانہ پر تصنیف و تالیف اور علوم کی تدوین جدید کا کام شروع کیا جائے، اس کام کے سربراہ عصری علوم سے اتنی واقفیت اور گہری بصیرت رکھتے ہوں جو تحقیق و تنقید کے درجہ تک پہنچتی ہو، اور اس کے ساتھ اسلام کے اصل سرچشموں سے پورے طور پر سیراب اور اسلامی روح سے ان کا قلب و نظر معمور ہو۔"

(انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر: ص ۳۵۱ تا۳۵۳ از سید ابوالحسن علی ندوی)

سطورِ ذیل میں ہم ان اہم شعبوں کا ذکر کرتے ہیں کہ جن میں مسلمانوں کوید ِطولیٰ حاصل ہونا چاہیے:

1۔ سائنس کی تعلیم

ہمیں اپنے تمام مسائل کے حل کے لیے جملہ وسائل کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ ان میں جدت کی تخلیق اور خود کفالت کی تحصیل کے لیے کیمیا (Chemistry)،طبیعات (Physics) ، حیاتیات (Biology) ،ریاضی (Mathematics) اور دیگر عصری علوم میں مہارت و ممارست کی ضرورت ہے، انہی علوم میں دفاعی اور حربی مقاصد کے لیے ایٹمی قوت بھی شامل ہے جو کہ اسلام کا جزوِلاینفک ہے۔

2۔ انگریزی زبان کی تعلیم

غیر مسلموں کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لیے اور ان کو اسلامی نظریات و افکار سے روشناس کرانے کے لیے انگریزی بنیادی اہمیت رکھتی ہے جو صرف انگریزوں کی زبان ہونے کے باوجود دنیاکے قریباً تمام ممالک میں بولی، پڑھی، لکھی اور سمجھی جا رہی ہے۔ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلام کی نشرو اشاعت میں ان تمام زبانوں سے کام لینا چاہیے جو عوام الناس میں رائج ہیں۔ (الدعوة الی اللہ واخلاق الدعاة: ص ۲۵)

3۔ کمپیوٹر کی تعلیم

اسلام میں اکثر اشیا اپنے عمومی استعمال کی بنا پر جائز ہیں۔ مثلاً چاقو عام طور پر مختلف اشیا یعنی پھل اور سبزی وغیرہ کاٹنے کے لیے مستعمل ہے جو کہ جائز ہے۔ لیکن اسی سے جب کسی انسان کو موت کے گھاٹ اتارا جائے تو اس وقت یہ ایک قبیح و مکروہ اوزار اور آلہ قتل متصور ہوگا۔

ایسے ہی کمپیوٹر (Computer) کا استعمال ہے جس سے عام طور پر تجارت وغیرہ ایسے مباح اُمور کے لیے خاطر خواہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ان سب کے باوجود قطعی فیصلہ عموم کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ اکثریت جس کام کو کرے، مشاہدات و نتائج اسی سے مرتب کیے جاتے ہیں چنانچہ اس بات میں ذرا بھی جھوٹ نہیں کہ نوے فی صد سے زیادہ لوگ کمپیوٹر میں انٹرنیٹ کے ان پروگراموں کو استعمال کرتے ہیں جو ہمہ وقت عریانی و فحاشی کے مہلک زہر کو نوجوان نسل کی شریانوں میں اُتار رہے ہیں اور اگر مبالغے پر محمول نہ کیا جائے تو ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ کاروبار وغیرہ کا تو جھانسا ہے ورنہ انٹرنیٹ (Internet) کی ایجاد اسی مقصد کیلئے ہوئی ہے کہ اس قوم کی اخلاقیات کے قلعے مسمار کر دئیے جائیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ علم جہاں کامرانی، اقتدار، قیادت اور تہذیبی سربلندی کا ذریعہ ہے وہاں تہذیب ِاخلاق کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ بقولِ شاعر

علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ !


بدقسمتی سے مغرب میں مدتِ دراز سے علم کے ارتقا کا تعلق انسانی بہبود و فلاح اور اخلاقی استحکام کے ساتھ برقرار نہیں رہ سکا۔ اس نے انسان کے اخلاقی وجود کو نظرانداز کر کے علم کو محض مال وزر ، طاقت کے حصول ا ور آسانیوں کی فراہمی کا وسیلہ بنا لیاہے۔ چنانچہ معاشرے کی فلاح وبہبود کا محض مادّی پہلو پیش نظر رہ گیا ہے اور حقیقی انسانیت سے ماورا اخلاقی پستیوں کے خوگر مصنوعی معاشرے وجود میں آ گئے ہیں۔ مغرب سے آنے والے جدید علوم اور ثقافتی تصورات مشرق کے لیے من وعن قبول کرنے کے لائق نہیں۔ ان میں مغربی دنیا اس قدر غرق ہوچکی ہے کہ نہ تو کسی اچھے معاشرے کی تشکیل میں کامیاب ہوسکے گی اور نہ فرد کا ارتقا صحت مند طریقے سے ہوسکے گا۔ مغرب کے پاس معلومات کا ڈھیر تو ہے اور وہ فارمولے بھی ہیں جن کے ذریعے کائنات کی توانائیوں سے ہزارہا کام لیے جاسکتے ہیں مگر وہ اصول و نظریات نہیں ہیں جو ان معلومات کو سلیقہ مندی سے استعمال کرنے کے لیے روشنی فراہم کر سکیں۔ ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی کے باوجود مغرب کے لوگو ں میں حقیقی زندگی جو اصل اخلاقیات سے متصف ہو، عنقا ہے۔

سب سے اہم مسئلہ ان کے اخلاقی انحطاط کا ہے۔ یورپین ممالک اور امریکہ وغیرہ کے لوگوں میں مادرپدر آزادی اور رند مشرب خیالات کا فروغ زوروں پر ہے۔ اسی اخلاقی اور معاشرتی پستی نے ان کو انسانیت سے نکال باہر کیا ہے جو حیوان سے بھی بدتر کردار کے حامل ہوچکے ہیں۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر چھ منٹ کے بعد عصمت دری کا ایک واقعہ سرزد ہو جاتا ہے۔ جب کہ سویڈن میں ستر فی صدی کنواری لڑکیاں شادی سے قبل حاملہ ہو جاتی ہیں۔

حضرت عثمان  کا فرمان ہے کہ "ایک زانیہ عورت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ (دنیا میں موجود) تمام عورتیں زنا کریں"...اسی فرمان کی صداقت موجودہ حالات کے حقیقت پسندانہ تجربہ سے واضح ہوتی ہے۔ کہ مغرب محض اپنے دامِ فریب میں پھنسانے کے لیے تجارت میں سبقت (Advancement) وغیرہ کا دھوکہ دیتا ہے حالانکہ وہ دراصل اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر رہا ہوتا ہے اور یہود جیسی گھاگ، سرد و گرم چشیدہ اور گرگ باراں دیدہ قوم سے یہ کچھ بعید بھی نہیں جن کے مکائد و دسائس ہمیشہ اہل اسلام کی مزاحمت و مخالفت میں مصروفِ کار رہے ہیں۔

دانا حضرات کا قول ہے کہ اگر کسی بڑے نقصان سے بچاؤ کے لیے کسی چھوٹے فائدے سے صرفِ نظر کرنا پڑے، تو یہ خسارے کا سودا نہیں۔ کیا پاکستان جیسی اسلامی نظریاتی مملکت میں کاروبار اور معلومات وغیرہ کی زیادتی کے لیے اس علانیہ فحاشی سے بے پروا ہوا جاسکتا ہے جو بتدریج وطن مالوف کی جڑو ں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ یہ قدامت پسندی نہیں بلکہ پیش آمدہ خطرے سے بچاؤ کی تدبیر ہے۔ کیا کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کی ایجاد سے قبل پاکستان کے لوگ بھوکے مرتے تھے یا فاقے کرتے تھے۔ یا اب ہمارا ستارئہ حیات کون سی بلندی پر محو ِگردش ہے؟ وہی کفار ملعونین کے قرضوں سے وطن عزیز کی مصنوعی ترقی (سبقت) پنجہ یہود کی بے رحم و ظالم گرفت میں ہے۔ ان اشیا کی افادیت کے راگ الاپنے والے بتائیں کہ ان کے لیے کون سی ترقی کا حصول ممکن ہوا ہے؟

بہرکیف اگر ہم باوجود کوشش کے اپنی قوم کے سرمایہٴ مستقبل یعنی نوجوانوں کو اس لعنت سے دور نہیں رکھ سکتے تو کم از کم اس کی اصلاح کی بقدرِ استطاعت جدوجہد کی جانی چاہیے۔ مسلمانوں کے اہل فکر و نظر طبقہ پر لازم ہے کہ وہ انٹرنیٹ کی تعلیم حاصل کر کے اس میں موجود شرعی و اخلاقی قباحتوں اور برائیوں کو فی الفور ختم کرے۔ شاید یہ عمل ہی ملت ِاسلامیہ کے نوجوانوں کو اس گہرے کنویں میں گرنے سے بچا لے جس کی تہ میں سوائے مہلک کانٹوں اور زہریلے بچھوؤں کے اور کچھ نہیں ۔ اعاذنا الله من هذه الخرافات!

ہم نے اللہ کی نصرت و تائید سے علومِ دنیوی میں مسلمانوں کے وافرعمل دخل کا کچھ ذکر کیا ہے، جس سے اس حقیقت کا اِدراک آسان ہو جاتا ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کا موجودہ سائنسی ترقی میں تحقیقی و تنقیدی کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے اور عصر حاضر کی بیشتر ترقی ان کی سائنسی کاوشوں کی مرہونِ منت ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام کی موجودہ علمی اور سائنسی کیفیت کا بھی اجمال سے مگر بغور جائزہ لیا جائے، تاکہ تشنگی باقی نہ رہے۔

دورِ حاضر میں عالم اسلام کی سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت خاصی مایوس کن ہے، جس کا اندازہ ذیل میں دئیے گئے اَعداد و شمار سے لگایاجاسکتا ہے۔ ۵۶ آزاد اور خودمختار اسلامی ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا بیس فیصد (تقریباً سوا ارب) ہے۔ اس آبادی کا تقریباً چالیس فیصد حصہ اَن پڑھ ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں موجود یونیورسٹیوں کی تعداد تقریباً ۳۵۰ ہے، جن میں پنجاب یونیورسٹی (لاہور ۱۸۸۲ء) انڈونیشیا یونیورسٹی (جکارتہ ۱۹۵۰ء) ، تہران یونیورسٹی (دانش گاہ، تہران ۱۸۵۱ء) جامعہ ملک سعود (ریاض ۲۱ ربیع الآخر ۱۳۷۷ھ/۱۴ نومبر ۱۹۵۷ء) اور جامعة الازہر (قاہرہ، مصر ۹۷۰ء) وغیرہ شامل ہیں۔ ان یونیورسٹیوں سے سالانہ تقریباً ایک ہزار افراد پی ایچ ڈی کرتے ہیں۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ان اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف ۸۰ لاکھ کے قریب ہے، جوان شعبوں میں مصروفِ عمل عالمی آبادی کا تقریباً چار فیصد ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور ۲۰ لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں، جب کہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی سائنسی اور تحقیقی کتب اور مقالات کی سالانہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز نہیں کر سکی۔

یہ ان اسلامی ممالک کا مجموعی حال ہے، جن کی آزاد مملکتیں کرئہ ارض کے تقریباً تین کروڑ مربع کلو میٹر پر محیط ہیں، جو تیل کے پوری دنیا میں موجودہ ذخائر کے تین چوتھائی حصے کے مالک ہیں اور جنہیں اپنے لامحدود و بے شمار قدرتی وسائل سے استفادہ کی سہولت حاصل ہے۔ اس کے باوجود علومِ جدیدہ میں مغرب سے مسابقت کے بجائے غفلت اور تساہل نے اسلامی ممالک کو ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ عوام الناس کے خیال میں عصری علوم کی تحصیل محض مادّیت کی پرورش و نمو کا سبب ہے اور اس سے مفید امور کی انجام دہی ممکن نہیں۔ جب کہ ایسا نہیں، اسلام نے ان علوم کی درس و تدریس سے منع کیا ہے، جو کسی بھی پہلو سے اسلام کے لیے مضر اور نقصان دہ ثابت ہوں۔ جب کہ جو علوم نوعِ بشری کو حقیقی کامیابی سے ہمکنار کریں اور انہیں فطرت کے اسرارسے آگاہی عطا کریں، ان کی تحصیل اور تدریس تو اسلام میں پسندیدہ ہے۔ شاید اسی سوچ کا یہ ثمر ہے کہ اسلامی ممالک کی مجموعی قومی پیداوار ایک ہزار ایک سو پچاس ارب امریکی ڈالر ہے، جب کہ صرف جرمنی کی قومی پیداوار ۲ ہزار ۴ سو ارب ڈالر اور جاپان کی پانچ ہزار ایک سو ارب ڈالر ہے۔ مسلم ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق پر مجموعی طور پر جو رقم خرچ کی جاتی ہے ، صرف جرمنی اس سے دوگنا اور جاپان چار گنا زائد رقم خرچ کرتا ہے۔

عالمی تناظر سے ہٹ کر بالخصوص پاکستان میں اس وقت ۲۵ کے قریب یونیورسٹیاں ہیں، جن میں اعلیٰ تعلیم کی ۱۴، انجینئرنگ کی ۸ اور ۳ زرعی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سائنس اور آرٹس کے ۸۰۰ کالج ہیں، جن میں خواتین کے ۲۹۶ کالج بھی شامل ہیں۔ پرائمری اور مڈل سکولوں کی خاصی تعداد ہونے کے باوجود پاکستان کی ۵۹ فیصد (تقریباً آٹھ کروڑ) آبادی کبھی تعلیمی اداروں میں نہیں گئی۔ ایک حالیہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق سوا کروڑ خواتین مکمل ناخواندہ ہیں۔ ریسرچ اور ڈویلپمنٹ سے منسلک سائنسدانوں کی تعداد امریکہ میں ساڑھے نو لاکھ سے زائد اور جاپان میں آٹھ لاکھ کے قریب ہے، جب کہ پاکستان میں صرف ۱۲ ہزار کے قریب ہے۔ یہاں سائنس کے مضامین میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد سالانہ ۴۰،۵۰ ہوتی ہے۔

پاکستان میں ناخواندگی اور سائنس و ٹیکنالوجی میں انحطاط کا بنیادی سبب حکومتی سطح پر شعبہٴ تعلیم سے قیامِ پاکستان سے آج تک مسلسل بے توجہی ہے۔ پاکستان اپنی قومی پیداوار کا بمشکل ۲ فیصد (۲۱ ارب روپے) عام تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکہ میں قومی پیداوار کا ۶.۵ فیصد (۷۸۴،۲۶ ارب روپے) جاپان میں ۶. ۳ فیصد (۱۲۶،۹ ارب روپے) جرمنی میں ۸.۴ فیصد (۳۱۴، ارب روپے) اور فرانس میں ۱.۶فیصد (۴.۹۶ ارب روپے) تعلیم کے شعبے میں خرچ کیے جاتے ہیں۔

پاکستان میں ہر دس لاکھ آبادی میں ۴ ہزار، جاپان میں ۶۳۰۹، جرمنی میں ۳۸۴۳ اور فرانس میں ۲۵۸۴سائنسدان ہیں۔ پاکستان پسماندہ ممالک کے مقابلے میں بھی بہت کم وسائل تعلیم پر صرف کر رہا ہے۔ ایران، ترکی اور ملائشیا اپنے کل بجٹ کا ۲۰ فیصد، نیپال اور سری لنکا ۱۰ فیصد اور بنگلہ دیش ۱۷ فی صد تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان کے ۵۵ فیصد لڑکے اور ۷۵ فیصد لڑکیاں اَن پڑھ ہیں۔ بچوں کی کل آبادی کا صرف ۴۰ فیصد سکول جاتا ہے، جب کہ بھارت میں یہ شرح ۹۰ فیصد اور بنگلہ دیش میں ۷۸ فیصد ہے۔۱۹۹۸ء میں میاں نواز شریف نے قومی پیداوار کا ۳ فیصد ۱۹۹۹ء سے تعلیم کے لیے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر تاحال پرویز مشرف حکومت نے عمل نہیں کیا اور تعلیم پر اس وقت ۲ فیصد سالانہ کے قریب ہی خرچ ہو رہا ہے۔

بہرکیف، ایک ترقی پذیر اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں پسماندہ ملک ہونے کے باوجود پاکستان کی ایٹمی قوت میں خودکفالت ایک خوش آئند امر ہے۔ یہ اعزازپوری اسلامی دنیا میں صرف پاکستان ہی کو حاصل ہے۔ ایٹمی شعبے میں بالخصوص اور دیگر سائنسی شعبوں میں بالعموم پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (۱۹۵۵ء)، پاکستان اکیڈمی آف سائنسز (۱۶ فروری ۱۹۵۳ء) اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (جو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا اسلام آباد کے قریب واقع ایک ذیلی ادارہ ہے) مصروفِ کار ہیں۔ اگر ہم قومی سلامتی کے جملہ اُمور میں اغیار کی محتاجی چھوڑ کر اپنے بے شمار قدرتی وسائل سے استفادے کی صلاحیت حاصل کر لیں، تو کچھ عجب نہیں کہ ہم عالم کفر کی دریوزہ گری کے بجائے ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔

موجودہ دور میں اسلامی دنیا کی، جدید علوم میں کماحقہ دسترس اور مہارت کی عدمِ موجودگی نے مسلمانوں کو تقریباً ہر شعبہٴ زندگی میں ترقی یافتہ ممالک، جن کی اکثریت کفار پر مشتمل ہے، کا غلام بنا دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ان کی تہذیب و ثقافت اور معیشت و معاشرت کے رذیل اثرات نے عالم اسلام پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی دنیا من حیث المجموع اپنے کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کے لیے عصری علوم میں قرونِ اولیٰ کی طرح آج بھی پوری دنیا پر اپنی سیادت و بالادستی قائم کرے اور یونیسکو وغیرہ کی علمی امداد و معاونت سے مستغنی ہو کر اپنا مضبوط علمی بلاک تشکیل دے، جس میں دینی علوم کے احیا کے ساتھ عصری علوم کی، مسلم ماہرین کے زیر نگرانی از سرنو تدوین کی جائے، تاکہ مغربی ممالک پر کلی یا جزوی انحصار کے بجائے مسلمان خود دنیا کے جملہ شعبوں میں استیلا و غلبہ حاصل کر سکیں۔

آخر میں اس بات کی توضیح لازمی ہے کہ علومِ جدیدہ کی تحصیل میں اسلام کے جملہ زرّیں احکام کی پیروی ہر لحاظ سے ضروری ہے۔ اسی سے اسلام کے منشاے حقیقی کی صحیح تکمیل ہوگی، وگرنہ دین اسلام سے روگردانی کرتے ہوئے دنیوی علوم کی تحصیل کی، نہ تو اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ ایسے علوم انسانیت کے لیے حقیقی معنوں میں فائدہ مند ہوسکتے ہیں۔ یعنی ایسا نہ ہوکہ کوئی شخص مروّجہ علوم میں تو تمام ڈگریاں لے جائے، مگر دین میں بالکل کورا ہو، ایسے شخص کے حاصل کردہ علم کی نہ اسلام میں کوئی اہمیت ہے اور نہ اس کے حاصل کرنے والے کے لیے کوئی گوشہ ہے، کیونکہ دینی تعلیمات سے دور اور شیطانی افکار سے قریب ہونے کا نتیجہ سواے الحاد و بے دینی کے اور کچھ نہیں ۔ درحقیقت دین اور دنیا میں توازن اور برابری ہی کا نام اسلام ہے۔ جہاں جابر بن حیان اور ابن ہیثم جیسے عظیم سائنسدان جنم لیں، وہاں امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ ایسے عظیم ائمہ دین بھی پیدا ہوں، تاکہ دنیوی مقاصد کی تکمیل کے ساتھ دینی روح بھی ضعف کا شکار نہ ہو جس کی تقویت اور مضبوطی ہر چیز سے مقدم ہے!!

٭٭٭٭٭