بنی اسرائیل پر ۴۰ برس سایہ رہا یا بارش؟
قرآنِ کریم کی آیت﴿وَظَلَّلنا عَلَيكُمُ الغَمامَ﴾ کی تفسیر ان دنوں بعض مفسرین نے اس طرز پر کی ہے جو تفسیرسلف کے مخالف ہے۔چنا نچہ ایک نامور مفسرآیت ِکریمہ ﴿وَظَلَّلنا عَلَيكُمُ الغَمامَ...٥٧ ﴾... سورة البقرة" کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
«فی واد التيه أی أرسلنا السماء عليکم مدرارا لأن بني إسرائيل أقاموا فی واد التيه أربعين سنة فکيف يکون المراد الظل المعروف فافهم لقوله تعالی» ﴿إِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيهِم ۛ أَربَعينَ سَنَةً...٢٦ ﴾... سورة المائدة
"ہم (اللہ) نے جنگل میں بنی اسرائیل پر بارش اُتاری ... جو لوگ سایہ کا معنی کرتے ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ بنی اسرائیل جنگل میں چالیس سال ٹھہرے تو سایہ کا معنی کیسے صحیح ہوسکتا ہے اللہ فرماتا ہے ﴿إِنَّها مُحَرَّمَةٌ عَلَيهِم ۛ أَربَعينَ سَنَةً...٢٦ ﴾... سورة المائدة" یعنی شام کی زمین ان پر چالیس سال حرام ہے۔"
«فکيف يکون المراد الظلّ المعروف» سے اشارہ کرتے ہیں کہ جو معنی صحابہ نے کئے ہیں کہ "بنی اسرائیل بیابان میں جب گرمی سے تنگ آئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ابر کا ٹھنڈا سایہ کیا اور یہ موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ تھا"... وہ غلط ہیں۔
غلط ہونے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے، اس میں دو احتمال ہیں: یا تو یہ مطلب ہے کہ بنی اسرائیل جنگل میں چالیس سال رہے تو اتنی مدت ابر کا سایہ ہونا عادةً ناممکن ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ابر کا سایہ تو ان پر آرام کی خاطر ہوا تھا اور چایس سال تک ابر کا سایہ رہنا باعث ِراحت نہیں بلکہ باعث ِتکلیف ہے کیونکہ کسی وقت انسان کا دل دھوپ کو بھی چاہتا ہے۔ اگر پہلا احتمال ہو تو تمام معجزات سے اِنکار لازم آئے گا کیونکہ معجزہ کہتے ہی اسے ہیں جو عادةً ناممکن ہے ۔ اس کے علاوہ ہم کہتے ہیں کہ وہاں کثرت سے بارش ہونا ، یہ بھی عادة ًناممکن ہے کیونکہ اس ملک (مصر کے علاقہ) میں بارش نہیں ہوتی۔
اگر دوسرا احتمال ہو تو یہ بھی صحیح نہیں،
اوّلاً : اس لئے کہ جن ملکوں میں بارہ مہینے گرمی رہتی ہے یا متوسط ہیں، ان میں بارہ مہینے سایہ باعث ِراحت ہے۔
ثانیاً : ا س لئے کہ کسی روایت میں یہ وارد نہیں ہوا کہ سایہ تمام جنگل میں تھا۔ممکن ہے کہ بہت جگہ دھوپ ہو بلکہ ظاہر یہی ہے کہ کیونکہ تمام جنگل میں سایہ کی کیا ضرورت تھی، صرف ان کے ڈیروں پرسایہ ہونا کافی تھا تو اگر کسی وقت ان کا دل دھوپ کو چاہتا تھا تو دھوپ سے یہی فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔
ثالثا ً: اسلئے کہ جو اعتراض آپ سلف کی تفسیر پرکرتے ہیں ، وہی اعتراض آپ کی تفسیر پر بھی ہوسکتا ہے کیونکہ جس طرح بارہ مہینے ابر کا سایہ باعث ِتکلیف ہے، اسی طرح بارہ مہینے بارش بھی باعث ِتکلیف ہے بلکہ سایہ تو انسان برداشت کرسکتا ہے، بارش کو برداشت کرنا مشکل ہے۔اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ وقتاً فوقتاً حسب ِضرورت ان پر بارش ہوتی تھی تو یہی ابر کے سایہ کے بارے میں بھی کہا جاسکتا ہے۔
رابعاً : اس لئے کہ بارش کے اصل فائدہ (یعنی اناج وغیرہ کا پیدا ہونا) سے تو وہ محروم تھے، اسی واسطے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا ﴿لَن نَصبِرَ عَلىٰ طَعامٍ وٰحِدٍ فَادعُ لَنا رَبَّكَ يُخرِج لَنا مِمّا تُنبِتُ الأَرضُ مِن بَقلِها وَقِثّائِها وَفومِها وَعَدَسِها وَبَصَلِها...٦١ ﴾... سورة البقرة" یعنی "ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے، خدا سے دعا مانگ کہ ہمارے لئے ساگ، ککڑی، گیہوں اورمسور وغیرہ زمین سے پیدا کرے" اگر یہ چیزیں وہاں پیدا ہوتیں تو موسیٰ علیہ السلام کو دعا کے لئے نہ کہتے اور موسیٰ علیہ السلام ان کو یہ جوا ب نہ دیتے کہ ان چیزوں کے لئے خدا سے دعا مانگنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ چیزیں شہروں میں مل سکتی ہیں۔ جب بارش کے اصل فائدہ سے محروم تھے تو بارش کیوں ہوتی تھی؟
اگر گرمی دورکرنے کے لئے ہوتی تھی جیسا کہ معروف ہے تو یہ بات ظاہرہے کہ بارش کے ساتھ دو چار روز آرام رہتا ہے پھر دھوپ کی وجہ سے ویسی ہی حالت ہوجاتی ہے بلکہ زمین جب اپنے بخارات چھوڑ دیتی ہے تو تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے۔ پھر ان دوچار روز کے آرام کے ساتھ بارش کی تکلیف کتنی ہے خصوصاً جنگل والوں کو۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ابتدائی پرصعوبت حالت کو بارش کے ساتھ تشبیہ دی ہے1 چنانچہ فرماتا ہے:
﴿أَو كَصَيِّبٍ مِنَ السَّماءِ فيهِ ظُلُمـٰتٌ وَرَعدٌ وَبَرقٌ يَجعَلونَ أَصـٰبِعَهُم فى ءاذانِهِم مِنَ الصَّوٰعِقِ حَذَرَ المَوتِ...١٩ ﴾... سورة البقرة"یا مانند بارش کے جس میں اندھیرے اور گرج اور بجلی ہے، لوگ موت کے ڈر سے انگلیاں کانوں میں رکھتے ہیں۔"
اور اگر کسی اور غرض سے ہوتی تھی تو اس کو بیان کرکے تاریخ وغیرہ سے اس کا حوالہ دے دینا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس بارش کومحل احسان میں ذکر فرمایاہے اور احسان اسی وقت درست ہوسکتا ہے جب اس کا کوئی معقول فائدہ بتایا جائے ورنہ ایسی بارش تو سوائے تکلیف کے کچھ فائدہ نہیں رکھتی۔
خامساً : اس لئے کہ اگر ان پر بارش ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام سے پانی کیوں مانگتے ، جبکہ انہوں نے پانی مانگا، اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
﴿وَإِذِ استَسقىٰ موسىٰ لِقَومِهِ فَقُلنَا اضرِب بِعَصاكَ الحَجَرَ...٦٠ ﴾... سورة البقرة
" جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کیلئے پانی مانگا تو ہم نے کہا، اپنی لاٹھی کے ساتھ پتھر کو مار"
سادساً:اس لئے کہ رسول اللہﷺکے زمانہ میں جو بنی اسرائیل (یہود و نصاریٰ) تھے،ان پریہ احسان جتلایاگیا ہے تو وہ ضرور اس آیت کا صحیح معنی سمجھے ہوں گے کیونکہ اگر وہ بھی نہیں سمجھ سکے تو ان پر احسان جتانا ہی فضول ہے۔ پس جب وہ صحیح سمجھے تو صحابہ کی سمجھ کو کس شے نے غلطی میں ڈال دیا۔
سابعاً : 2اسلئے کہ صحابہ میں سے بہت لوگ بنی اسرائیل بھی تھے تو بنی اسرائیل کا صحیح سمجھنا گویا صحابہ کا صحیح سمجھنا ہے۔ اگر کہا جائے کہ صحابہ میں سے جو بنی اسرائیل تھے وہ تو صحیح سمجھے اور باقی غلط تو اس کی بابت عرض ہے کہ صحابہ سے اختلاف منقول* نہیں۔ (انتخاب: 'درایت ِتفسیری' از محدث روپڑی ص ۱۶ تا ۲۱)
نوٹ
1. یہ تشبیہ اس طرح ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابتداء اسلام میں ایسی تکالیف ہوتی ہیں جیسے ابتدائے بارش میں۔ کیونکہ ابتدامیں اسلام غریب ہوتا ہے اور اس کے مددگار بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور مخالفین زیادہ ۔
2. چھٹی اور ساتویں وجہ خاص شق ثانی کے ابطال میں نہیں بلکہ عام ہیں یعنی پہلی شق کو بھی شامل ہیں۔
٭ ایک شبہ کی وضاحت : بعض لوگ ناواقفیت سے کہہ دیا کرتے ہیںکہ کسی شے کا ذکر نہ ہونا اس شے کے واقع نہ ہونے کی دلیل نہیں یا کسی شے کا نہ ملنا اس شے کے واقع نہ ہونے کی دلیل نہیں۔(عدمِ ذکر ِدلیل عدمِ وِجدان نہیں یا عدمِ وجدان دلیل عدمِ وقوع نہیں)۔ تو یہ کم علموں کا سا استدلال ہے کہ ایک آدھ بات سیکھ کر اس کو ہر جگہ استعمال کرتے ہیں۔
یہ مقدمہ فی نفسہا اگرچہ صادق ہے مگر اس کا اِستعمال اسی موقع پر کارآمد ہے جہاں بے کا رشبہات اور ضعیف احتمالات کو ترجیح ہوتی ہے۔مثلاً حدود قصاص میںایسی صورت واقع ہوجائے تو وہاں یہ مقدمہ مفید ہوگا کیونکہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: اِدْرَؤُا الْحُدُوْدَ بِالشُّبْھَاتِ(حدود کو شبہات کے ساتھ دور کرو) اور جہاں ظاہر پر عمل کیا جاتاہے، وہاں ایسے مقدمات سے دلیل لینا نادانی ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ میلاد نہ رسول اللہ ﷺ نے کیا ،نہ کرایا ، نہ صحابہؓ نے کیا، نہ کرایا ، نہ تابعین نے کیا ،نہ کرایا اور نہ تبع تابعین نے کیا، نہ کرایا تو اس موقع پر کسی صاحب ِبدعت کو یہ کہنے کی مجال نہ ہوگی کہ عدمِ وجدان دلیل عدمِ وقوع نہیں، شائد کسی نے کیا ہی ہو مگر ہم تک نہیں پہنچا۔ اسی طرح ختم اوردیگر بدعات پر کوئی صاحب اس استدلال سے تمسّک نہیں کرسکتا۔
اسی طرح مسئلہ حکم العام أن یتناول جمیع الأفراد : لفظ عام سے تمام افرا د مراد ہوتے ہیں جیسے ﴿یٰأیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا﴾سے تمام مراد ہیں، یہ اصول حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک متفق علیہ ہے کیونکہ اختلاف منقول نہیں۔
اسی طرح مسئلہ کل حکم یخاطب بہ المنکر یجب توکیدہ ( جو شخص کسی بات سے انکاری ہو تو اگراس کے ساتھ بات کریں تو قسم وغیرہ سے بات کرنی چاہئے۔) علمائِ معانی کے نزدیک متفق علیہ ہے ۔
اسی طرح یہ اصول کہ کل جملۃ تقع خبراً أوصفۃً لا بدّ فیھا من العائد اہل نحوکے نزدیک متفق علیہ ہے۔
اسی طرح مسئلہ ما في البخاری ومسلم من الأحادیث اتفق العلماء علی صحتھا علماء کے نزدیک متفقہ ہے
اسی طرح مسئلہ خبر الواحد یجب العمل بہ ولا یکفر جاحدہ ...
اسی طرح مسئلہ کل ما أخرجہ الراوي بلفظۃ نُھینا أو اُمرنا أوکنا نفعل والقرآن ینزل أومثل ذلک فھو فی حکم المرفوع اور اس طرح کی متعدد مثالیں بھی ہیں۔
الغرض مسائل جملہ علوم کے اتفاقی اور اختلافی ہونے کی بنیاد یہی ہے کہ جس مسئلہ میں اختلاف منقول ہے، وہ اختلافی ہے اور جس میں اختلاف منقول نہیں، وہ اتفاقی ہے ۔ اگر ایسے تمام موقعوں پر اوپر درج شدہ استدلال ہی پکڑا جائے تو جملہ علوم درہم برہم ہوجائیں گے۔ (روپڑیؒ)