سعودی امن منصوبہ اور اعلانِ بیروت

عراق اور کویت کی باہمی مفاہمت


لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ۲۸/مارچ ۲۰۰۲ء کو ختم ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس نے مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لئے سعودی عرب کی جانب سے پیش کردہ امن منصوبہ کی بالآخر منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبہ پر عمل درآمد کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی قائم کردی گئی ہے۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ 'اعلانِ بیروت' کا دوسرا اہم نکتہ عراق اور کویت کے درمیان مکمل مفاہمت کا اعلان ہے۔ کانفرنس کے دوران عراق نے تحریری طور پر یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ کویت پر کبھی حملہ نہیں کرے گا۔ عرب سربراہ کانفرنس کے شرکا نے عراق پر کسی بھی ممکنہ فوجی حملے کی حمایت کے امکان کو مسترد کردیا۔ عرب لیڈروں نے خلیجی جنگ کے دو حریف ملکوں میں مفاہمت کا خیرمقدم کرتے ہوئے عراق کے کویت پر حملہ نہ کرنے کے فیصلہ کو سراہا۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے کہا کہ قرارداد کو تمام ۲۲ ممالک نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔اسرائیل نے حسب ِتوقع اس امن منصوبہ کو مسترد کردیا ہے۔ (روزنامہ جنگ، نوائے وقت: ۲۸/ مارچ۲۰۰۲ء)

مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کی جدوجہد نے اس وقت اچانک نئی صورتحال اختیار کرلی جب چند ہفتے قبل سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز آلِ سعودنے امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ اگر اسرائیل ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مقبوضہ عرب علاقے فلسطین کو واپس کردے تو عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے غور کریں گے۔ شہزادہ عبداللہ نے جو امن منصوبہ پیش کیا، اس کے تین اہم نکات یہ ہیں:

1) اسرائیل نے ۱۹۶۷ء اور اس کے بعد جن عرب علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کیا ہے، انہیں خالی کردے۔

2) فلسطین کی آزاد ریاست کو جس کا دارالحکومت بیت المقدس (مشرقی حصہ) ہو، تسلیم کرلے۔

3) اسرائیل کے علاقے سے جن فلسطینیوں کو طاقت کے ذریعہ نکالا گیا ہے، انہیں اپنے گھروں کو واپس آنے کی اجازت دے دی جائے۔

شہزادہ عبداللہ کے مذکورہ انٹرویو کے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد اسرائیل کے وزیراعظم ایریل شیرون نے اس کا خیرمقدم کیا تھا، حتیٰ کہ یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ اس منصوبہ پر مزید مذاکرات کے لئے ریاض (سعودی دارالحکومت) جانے کو تیار ہیں اور اگر شہزادہ عبداللہ اسرائیل کا دورہ کرنا پسند کریں تو ان کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ امریکہ، اقوامِ متحدہ اور یورپ سمیت دنیا بھر میں اس امن منصوبہ کو مثبت سوچ قرار دیا گیا۔ البتہ اس وقت بھی عراق کے صدر صدام حسین نے بیان دیا تھا کہ سعودی عرب کو فلسطینیوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں دیا جاسکتا۔ اُس وقت شہزادہ عبداللہ آلِ سعود نے وضاحت پیش کی تھی کہ اس وقت یہ محض ایک خیال ہے، اسے وہ ۲۸/ مارچ کو ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس میں پیش کریں گے، اس کی حتمی منظوری کا اختیار کانفرنس کو ہوگا۔ اس وقت اسرائیل کی انتہا پسند یہودی جماعتوں نے اس منصوبہ کی مخالفت کی تھی اور اسے اسرائیل کے وجود کے لئے خطرہ قرار دیا تھا۔

۲۷/ مارچ کو جب بیروت میں عرب سربراہ کانفرنس شروع ہوئی تو ابتدا ہی میں ایسی پریشان کن صورتحال پیدا ہوگئی کہ اس کانفرنس کی کامیابی کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانے لگا۔ ۲۲ میں سے ۱۰ عرب سربراہوں نے شخصی طور پر اس میں شرکت سے معذوری کا اظہار کردیا۔ ان میں نمایاں ترین مصر کے صدر حسنی مبارک، اُردن کے بادشاہ عبداللہ اور لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی تھے۔ حسنی مبارک اور شاہ عبداللہ نے اسرائیل کی طرف سے یاسرعرفات کو اس کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے طور پر اس کانفرنس میں شرکت نہ کی۔ اس وقت نازک صورت حال پیدا ہوگئی جب لبنان کے صدر نے یاسر عرفات کے سیٹلائٹ کے ذریعے ویڈیو خطاب کی بھی اجازت دینے سے انکار کردیا، اس پر فلسطین سے آئے ہوئے وفد کے ارکان نے کانفرنس سے 'واک آؤٹ'کا اعلان کردیا۔ پھر اسی دن اسرائیل میں ایک فدائی حملے میں اسرائیل کے ۲۱/ افراد مارے گئے تو اسرائیل کی طرف سے فلسطین کے ہیڈکوارٹر پر شدید حملہ کردیا گیا۔ ان تمام ناسازگار عوامل کی موجودگی میں عرب سربراہ کانفرنس کا کامیابی سے پایہٴ تکمیل تک پہنچنا اور اہم چونکا دینے والے 'دلیرانہ' فیصلے کرنا یقینا ایک خوشگوار حیرت کا حامل معاملہ ہے۔ ان سب رکاوٹوں کے باوجود سعودی عرب کا اپنے پیش کردہ امن منصوبے کو کانفرنس سے متفقہ طور پر منظور کرالینا بہرحال ایک عظیم سفارتی کامیابی قرار دیے جانے کے لائق ہے۔ سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل نے درست کہا ہے کہ اب یہ منصوبہ 'عرب منصوبہ' کی شکل اختیار کرگیا ہے۔

۱۹۴۸ء میں یورپی اقوام نے دوسری جنگ ِعظیم کے بعد ارضِ فلسطین پر صہیونی ریاست کو زبردستی قائم کرا دیا، اس وقت سے لے کر اب تک فلسطین کی تاریخ ایک نہ ختم ہونے والی خون چکاں داستانِ الم کی صورت دھار چکی ہے۔ ہزاروں سال سے بسنے والے لاکھوں فلسطینی مسلمانوں کو اپنے گھروں کو خیرباد کہہ کر قریبی مسلمان ممالک میں ہجرت اختیار کرنی پڑی۔ عرب ممالک نے ۱۹۴۸ء، ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۳ء میں اسرائیل سے ارضِ مقدس کو آزاد کرانے کے لئے خون ریز جنگیں بھی لڑیں، مگر امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی اور عملی امداد کی و جہ سے وہ فلسطین کے سینے میں پیدا شدہ اس ناسور کو ختم کرنے میں ناکام ہی نہ رہے بلکہ ہر تصادم کے بعد مزید علاقوں سے محرومی کے صدمات سے بھی دوچار ہوتے رہے۔

اسرائیل کے وحشی درندوں نے فلسطینی مہاجرین کو بھی سکھ کا سانس نہ لینے دیا۔ ۱۹۸۲ء میں بیروت کے قریب شتیلہ اور صابرہ نام کے فلسطینی کیمپوں پر اسرائیل نے وحشیانہ حملہ کرکے ۲۰ ہزار سے زائد فلسطینی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو شہید کردیا۔ اُردن کے مغربی کنارے اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں یہودیوں کی آبادکاری سے بچے کھچے فلسطینیوں کی زندگی کو جہنم زار بنا دیا گیا۔ جو فلسطینی اسرائیل کی ناجائز ریاست کی حدود میں رہنے پر مصر تھے، ان پر ہر ظلم روا رکھا گیا۔ بدنصیب فلسطینی مسلمان کسی ایسے دن کو ترس گئے، جب ان کے علاقوں سے یہودی غاصبوں کے ظلم و ستم سے شہادت پانے والے جوانوں کے جنازے نہ اٹھائے گئے ہوں۔

۱۹۸۹ء سے 'انتفاضہ' تحریک کی صورت میں فلسطین کی جدوجہد ِآزادی نے نئی صورت اختیار کرلی۔ بے بس فلسطینی نوجوانوں نے یہودی ٹینکوں اور راکٹوں کے مقابلے میں غلیلوں کے ذریعے مقابلہ شروع کردیا۔ یاسرعرفات کی قیادت میں فلسطینی مجاہدین کے 'الفتح' گروپ نے ایک طویل تھکا دینے والی جدوجہد کے بعد بالآخر سیاسی مفاہمت کا رستہ اختیار کیا۔ چند سال پہلے 'اوسلو' کا معاہدہ سامنے آیا جس کی رو سے غزہ کی پٹی پر فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا مگر حماس اور دیگرفلسطینی گروہوں نے اس معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے فلسطین کی مکمل آزادی تک اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کیا۔ گذشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران حماس کے مجاہدین نے فدائی حملوں کے ذریعے اسرائیلی وحشت ودرندگی کامقابلہ شروع کیا ہے۔ صہیونی مظالم تو پہلے بھی کم نہ تھے، مگر ان فدائی حملوں نے صہیونیوں کو پاگل جنونی بناکے رکھ دیا ہے۔ آئے روز یہودی ٹینک فلسطینی علاقوں کومسمار کررہے ہیں اور ان کے جنگی جہاز اہم عمارتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ گذشتہ چار ماہ سے اسرائیل نے یاسرعرفات کو 'رملہ' میں عملاً قید کررکھا ہے اور ان کے ہیڈکوارٹر پرجارحانہ حملے جاری ہیں۔ یاسرعرفات کی اپنی ذات عدمِ تحفظ کا شکار ہے۔ ان حالات میں اسرائیلی درندوں کے خلاف مسلمانوں بالخصوص فلسطینیوں کے دل میں نفرت کا جو لاواپک رہا ہے ، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔

نفرت اور اشتعال کی اس شدید فضا میں سعودی امن منصوبہ کا سامنے لایا جانا یقینا ایک 'جرأت مندانہ ' اقدام ہے۔ اُصولی طور پر دیکھا جائے تو یہ فیصلہ مسئلہ فلسطین کے متعلق اب تک عرب مسلمانوں کے متفق علیہ موقف سے ایک واشگاف دستبرداری ہے۔ اب تک مسلمانوں کا یہ موقف رہا ہے کہ ارضِ فلسطین پر اسرائیل کا قیام ناجائز ہے اور مسلمان ممالک نے، سوائے ترکی اور مصر کے، اسرائیل کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ اعلانِ بیروت ظاہر کرتا ہے کہ عرب قیادت تمام فلسطین سے اپنے جائز استحقاق کو چھوڑنے پر ذہنی طور پر آمادہ ہوگئی ہے او رحالات کی ستم ظریفیوں نے انہیں مایوسی کے ایسے اندھے غار میں دھکیل دیا ہے کہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے علاوہ ان کے پاس اب کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ بات اسرائیل کے مقابلے کی ہوتی تو شاید وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہتے، مگر ان کا مقابلہ امریکہ اور یورپی اقوام کی متحدہ سیاسی و عسکری قوت سے ہے جنہوں نے انتہائی ڈھٹائی سے اسرائیل کی پشت پناہی کو ہمیشہ اپنی خارجہ پالیسی اور قومی مفادات کا مرکزی نقطہ بنا رکھا ہے۔

اعلانِ بیروت کی ایک اور تعبیر بھی کی جاسکتی ہے، وہ یہ کہ شہزادہ عبداللہ نے مشرقِ وسطیٰ میں اس منصوبہ کو پیش کرکے ایک 'سیاسی چال' چلی ہے۔ ان کی اس 'سیاسی چال' نے امریکہ اور اسرائیل دونوں کو بھونچکا کے رکھ دیا ہے۔ اسے 'سیاست ِ مدن' کا نام بھی دیا جارہا ہے۔ عرب سفارت کاری کے میدان میں یہودیوں کی فریب کاریوں سے ہمیشہ مات کھاتے رہے ہیں، یہ غالباً پہلا موقع ہے کہ صاف گو، کھردرے مزاج اور سادہ طبیعت کے حامل عربوں نے سفارت کاری اور بین الاقوامی سیاست کی بساط پر ایک ایسا مہرہ چلا ہے کہ جن کا فوری توڑ پیش کرنا امریکہ اور اسرائیل دونوں کے لئے مشکل دکھائی دیتا ہے۔

گذشتہ کئی برسوں سے امریکہ عرب ممالک پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں۔ اب سعودی امن منصوبہ کو منظور کرکے عربوں نے بال امریکہ اور اسرائیل کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ ا س امن منصوبہ میں جن اہم شرائط کو شامل کیا گیا ہے، ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جسے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی صورت میں اخلاقی حمایت حاصل نہ ہو۔ اقوامِ متحدہ نے اپنی قراردادوں کے ذریعے اسرائیل کو ۱۹۶۷ء کے بعد قبضہ میں لینے والے علاقے خالی کرنے کو کئی بار کہا ہے اور امریکہ بھی اس قرار داد کی حمایت کرتا رہا ہے۔

اسرائیل نے سعودی امن منصوبہ کی جس شق پر اعتراض کرکے اس منصوبہ کو مسترد کردیا ہے، اس کا تعلق اسرائیل کے علاقہ سے نکالے گئے فلسطینیوں کی دوبارہ اسرائیل میں بحالی سے ہے۔ اسرائیلی قیادت کا کہنا ہے کہ اس شرط کو مان لینے سے اسرائیل تباہ ہوجائے گا اور ایک کی بجائے دو فلسطین قائم ہوجائیں گے۔ اقوامِ متحدہ کی قرار داد نمبر ۱۹۴، جو ۱۹۴۸ء میں منظور کی گئی تھی، اس میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ فلسطینی مہاجرین جنہیں طاقت کے زور سے اپنے وطن سے نکال دیا گیا تھا، اگر وہ واپس نہ آنا چاہیں تو اسرائیل انہیں بے دخل کرنے پر مالی معاوضہ ادا کرے۔ یہاں غور کے قابل یہ نکتہ ہے کہ اسرائیل اس امن منصوبہ کو مسترد کرنے کے لئے جو بے ہودہ دلیل پیش کرتا ہے، وہ خود اس کے خلاف جاتی ہے۔

اسرائیل فلسطین سے ہزاروں سال پہلے نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کی فلسطین میں آبادکاری کو تو محض اس بنیاد پر ان کا حق قرار دیتا ہے کہ یہ ان کا موروثی وطن ہے، مگر وہ محض پچاس سال پہلے سے نکالے گئے فلسطینیوں کے حق کو تسلیم نہیں کرتا جو فلسطین کے اصل مالک ہیں۔ مارچ کے پہلے ہفتے کے دوران جب سعودی امن منصوبہ سامنے آیا تھا تو اسرائیل نے فوری طور پر اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ اب جب کہ انہوں نے یہ منصوبہ مسترد کردیا ہے تو معلوم ہوتا ہے ان کا مذکورہ خیرمقدم بھی ایک 'صہیونی چال' تھی۔ ایریل شیرون کا خیال تھا کہ اس کے خیرمقدم کے اعلان سے عرب ریاستوں میں شدید ردعمل سامنے آئے گا اور عرب آپس میں ہی لڑ پڑیں گے، مگر خیر مقدم کے اعلان کا فوری فائدہ یہ ہوگا کہ اس کے خلاف فدائی حملے رک جائیں گے۔ اس کا خیال تھا کہ یہ منصوبہ محض خیال اور 'اعلان'تک ہی محدود رہے گا، کسی عملی پیش قدمی کا موجب نہیں ہوگا۔

ایرل شیرون کا اندازہ کچھ اتنا غلط بھی نہیں تھا کیونکہ فلسطینیوں کی ایک موٴثر تنظیم 'حماس' نے اب بھی اس منصوبہ کو مسترد کردیا ہے۔ اسامہ بن لادن کی طرف سے بھی (مبینہ طور پر) ایک عرب اخبار نے ای میل شائع کیا ہے جس میں اسامہ نے اس منصوبہ کوامریکی سازش قرار دیا ہے اور شہزادہ عبداللہ کو امریکی پٹھو کہا ہے۔ مگر فلسطینی ریاست کے سربراہ یاسر عرفات نے اس امن منصوبہ کو جرأت مندانہ اور قابل قبول اقدام قرار دے کر صہیونی چال کو ناکام بنا دیا ہے۔ اسرائیل بہت برے طریقے سے بے نقاب ہوگیا ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔ چونکہ اسے یقین ہوگیا ہے کہ عرب ریاستیں اسے فوجی اقدام کے ذریعہ ختم نہیں کرسکتیں، اسی لئے وہ آج ان شرائط پر صلح کے لئے بھی تیار نہیں ہے، جن کو تسلیم کرنے کے لئے وہ ہمیشہ رضا مندی کا اظہار کرتا رہا ہے۔

امریکہ کی طرف سے بھی اعلانِ بیروت کا خیرمقدم تو کیا گیا ہے مگر اس کا ردعمل نیم دلانہ اور معنی خیز ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رچرڈ باؤچر نے کہا ہے کہ امریکہ اسے کوئی منصوبہ (Plan) تصور نہیں کرتا بلکہ ابھی تک یہ محض ایک 'خیال' (Vision) ہے...آج سے چند ہفتے پہلے جب پہلی مرتبہ سعودی امن منصوبہ سامنے آیا تھا تو امریکہ نے اس پرنہایت مثبت ردعمل کا اظہار کیا تھا، اس وقت اس کے ذہین سفارت کاروں کے ذہن میں اس طرح کی موشگافی نہیں آئی تھی، مگر اب اسرائیل کے موڈ کو دیکھتے ہوئے اس کے صہیونیت پرست حکمرانوں نے اس منصوبہ میں کیڑے نکالنا شروع کردیئے ہیں۔ اب انہیں یہ محض ایک 'بصیرت' ہی نظر آتا ہے حالانکہ کانفرنس کی منظوری کے بعد یہ خیال ایک 'عملی حقیقت' کا روپ دھارنے کا منتظر ہے۔ عربوں نے تو اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ اب اس 'خیال' کو عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری اسرائیل اور اس کے 'مربی' امریکہ کی ہے۔

امریکہ کی سوچ دیکھتے ہوئے ان لوگوں کے یہ خدشات درست معلوم نہیں ہوتے جو سعودی امن منصوبہ کو بنیادی طور پر امریکی امن منصوبہ قرار دیتے رہے ہیں۔ اگر یہ امریکی منصوبہ ہوتا، تو اسرائیل اسے مسترد کبھی نہ کرتا۔ بلکہ اسرائیل کی پیشگی منظوری کے بغیر امریکہ اسے آگے بڑھانے کا خطرہ کبھی مول نہ لیتا۔بہرحال اصولی طور پر سعودی امن منصوبہ کے درست ہونے یا نہ ہونے میں تو کلام ہوسکتا ہے، اس کے حق میں اور مخالفت میں دلائل دینے کی گنجائش بھی موجود ہے، یہ ایک حقیقت پسندانہ حکمت ِعملی ہے یا غیر دانش مندانہ عجلت پسندی، اس کے بارے میں حتمی رائے فی الحال قائم کرنا مشکل ہے۔ مگر ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ منصوبہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے قیام کے حوالے سے ایک تاریخی پیش رفت ہے۔

... ( ۲ ) ...


اعلانِ بیروت کی ایک نہایت اہم پیش رفت عراق اور کویت کے درمیان مفاہمت کا اعلان ہے۔ بیروت میں طے پانے والی اس مفاہمت کا اعلان کرتے ہوئے قطر کے وزیرخارجہ شیخ حامد بن جاسم آلِ ثانی نے یہ خوش آئند اعلان کیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان سارے معاملات حتمی طور پر طے پاگئے ہیں اور عراق نے کویت کو آئندہ کوئی فوجی کارروائی نہ کرنے کی مکمل یقین دہانی کرا دی ہے۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے بھی اس مفاہمت کو حتمی اور یقینی قرار دیا ہے اور خود کویت کے نائب وزیراعظم نے اس سمجھوتے پر اپنے سو فیصد مطمئن ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس تاریخی مفاہمت میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ نے اہم کردار ادا کیا۔ گیارہ سال کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے عراق کے وزیراعظم عزت ابراہیم کے ساتھ معانقہ کیا۔ یہ معانقہ 'عرب اُخوت' کی بحالی کا علامتی اظہار تھا۔ ۱۹۹۰ء میں عراق کی طرف سے کویت کے خلاف فوجی جارحیت کے بعد سے علاقے میں مستقل طور پر غیر یقینی صورتحال چلی آرہی تھی۔ اب تو امریکی ذرائع ابلاغ بھی یہ تصدیق کرچکے ہیں کہ خلیجی جنگ امریکی حکمت ِعملی کا نتیجہ تھی۔امریکہ نے خلیج کے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں اپنی مستقل موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے عراق کو کویت پر قبضہ کرنے کا 'گرین سگنل' دیا۔ اس وقت عراق میں متعین امریکی خاتون سفیر نے صدام حسین سے ملاقات کرکے اسے اپنی حکومت کی طرف سے عدمِ مداخلت کی یقین دہانی کرائی تھی۔ جب صدام حسین نے پیش قدمی کی تو امریکہ نے واویلا مچا دیا اور یورپی دنیا کو جمع کرکے اتحادی افواج کے ذریعے عراق کی فوجی قوت کو تباہ کرکے رکھ دیا۔

خلیجی جنگ نے نہ صرف عراق کو تباہ کیا بلکہ اس کے منفی اثرات پورے علاقہ پر پڑے۔ امریکہ نے صدام حسین کا ہوا دکھا کرسعودی عرب اور عرب امارات میں فوجی اڈے قائم کررکھے ہیں۔ حجاز مقدس میں امریکی استعماری افواج کی موجودگی ہمیشہ تشویش کا باعث بنتی رہی ہے۔ سعودی حکومت کو اپنے عوام کی طرف سے امریکی افواج کی وجہ سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑاہے۔ گاہے بگاہے شہزادہ عبداللہ اور دیگر سعودی حکام کی طرف سے امریکی افواج کے سعودی عرب سے چلے جانے کے متعلق بیانات بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔ امریکہ نے افغانستان پر بمباری کے لئے جب نئے اڈوں کی درخواست کی، تو پہلے پہل سعودی حکومت نے سخت مزاحمت کی ، بعدمیں وہ امریکی دباؤ کا سامنا نہ کرسکی، سعودی عرب میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ امریکہ اپنی افواج کو مستقل طور پر سعودی عرب میں رکھ کر اس مقدس سرزمین کی پاکیزہ ثقافت کو بھی تباہ کرنا چاہتا ہے۔ سعودی شہروں میں امریکی خواتین فوجیوں کی وجہ سے کئی دفعہ امن عامہ کی صورتِ حال بھی پیدا ہوجاتی ہے۔

افغانستان سے دہشت گردی کے نام پر طالبان کی حکومت کے خاتمہ کے بعد امریکی صدر جارج بش کی طرف سے 'برائی کی محور' ریاستوں کا شوشہ کھڑا کیا گیا، ان میں عراق سرفہرست ہے۔ شروع سے ہی امریکہ عراق پر دوبارہ حملہ کرنے کی دھمکیاں دیتا آیا ہے۔ کبھی 'انتھراکس'کا بہانہ بنایا جاتاہے، تو کبھی کیمیکل ہتھیاروں کی کہانی گھڑی جاتی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ عراق دہشت گردوں کی سرپرستی کررہا ہے۔ یورپی ممالک کی طرف سے ابھی تک امریکی منصوبہ کی حمایت نہیں کی گئی، ورنہ حالات کچھ ایسے تھے کہ امریکہ اپنی ریاستی دہشت گردی پر تلا ہوا ہے۔ ادھر عرب ممالک کا بھی خیال ہے کہ عراق پر حملہ کا اب کوئی جواز نہیں ہے، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے عراق پر ممکنہ امریکی حملے کی حمایت نہیں کی ہے۔ ادھر صدام حسین بھی سخت خدشات کا شکار ہے۔ امریکہ واضح اعلان کرچکا ہے کہ وہ صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ کرکے رہے گا۔ ان حالات میں صدام حسین کو بھی اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی پڑی ہے۔ اب جبکہ صدام حسین نے کویت پر حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے تو امریکہ کے لئے فی الواقع ایک مشکل صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے۔

اس نئی پیش رفت کے بعد امریکی افواج کی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں موجودگی کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔ صدام حسین کا ہوا دکھا کر امریکہ اب عرب ممالک کی حمایت بھی حاصل نہیں کرسکے گا۔ امریکہ کبھی نہیں چاہے گا کہ عرب ممالک اور صدام حسین کے درمیان مستقل بنیادں پر مفاہمت قائم ہوجائے۔ اسرائیل بھی یہی چاہتا ہے کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی فوجی طاقت کا اصل حریف ہمیشہ عراق ہی رہا ہے۔ خلیجی جنگ میں عراق نے اسرائیل پربھی سکڈ میزائل گرائے تھے اور بہت عرصہ پہلے اسرائیل نے عراق کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کردیا تھا۔ عراق اور عرب ممالک میں مفاہمت ایک اعتبار سے امریکی ڈپلومیسی کی ناکامی بھی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک امریکی اثرورسوخ اور ناروا دباؤ سے باہر آنے کے لئے کتنے بے چین ہیں۔

سعودی عرب کی حکومت نے ۱۹۹۱ء میں بادلِ نخواستہ عراق کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا تھا مگر یہ فیصلہ ہمیشہ ان کے ضمیر پر بوجھ ہی رہا ہے کہ ایک عرب برادر ملک کے خلاف سعودی افواج نے جنگ میں حصہ لیا تھا۔اعلانِ بیروت کے بعد اس خطے میں امریکی مفادات کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل عرب ممالک کے درمیان اس مثبت پیش رفت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیں گے؟ اس کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔ امریکی سی آئی اے اور صہیونی ایجنسیاں اس مفاہمت کو ناکام بنانے کے لئے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائیں گی۔

سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کو محض اعلانِ بیروت پر ہی قناعت نہیں کرنی چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ وہ نہایت مہارت اور دانش مندی سے صہیونی عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے ابھی سے موٴثر حکمت ِعملی وضع کریں۔ صدر صدام حسین کو بھی چاہئے کہ وہ کھلے دل سے اس مفاہمت کو کامیاب بنانے کے لئے اپنی ذاتی انا کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ کیا بعید ہے کہ عراق اور کویت کے درمیان مفاہمت منتشر اور فساد زدہ عالم اسلام کے اتحاد کے لئے پہلا سنگ ِمیل ثابت ہو!؟۔ اگر ایسا ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ اُمت ِمسلمہ کی تقدیر کب بدل جائے!؟