احکامِ قبور اور کثیرمنزلہ قبرستان کی شرعی حیثیت
مسلمان میت کی تدفین صرف زمین میں ہی ہوسکتی ہے !
کسی بھی میت کو زیر زمین دفن کرنا فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے، اسی لئے دنیا میں سب سے پہلی میت کو زمین میں گڑھا کھود کر دفنایا گیا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے ایک بیٹے (قابیل) نے دوسرے (ہابیل) کو ذاتی اَغراض کے لئے قتل کردیا پھر اسے یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ اس لاش کا کیاکیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے ایک کوا بھیجا جو اپنی چونچ اور اپنے پاؤں سے زمین میں گڑھا کھودنے لگا ، ارشادِ باری ہے :
﴿فَبَعَثَ اللَّهُ غُرابًا يَبحَثُ فِى الأَرضِ لِيُرِيَهُ كَيفَ يُوٰرى سَوءَةَ أَخيهِ ۚ قالَ يـٰوَيلَتىٰ أَعَجَزتُ أَن أَكونَ مِثلَ هـٰذَا الغُرابِ فَأُوٰرِىَ سَوءَةَ أَخى ۖ فَأَصبَحَ مِنَ النّـٰدِمينَ ٣١ ﴾... سورة المائدة
"پھر ا للہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ اس نے کہا: ہائے افسوس! کیا میں اتنا مجبور ہوں کہ اس کوے کی ہی مانند ہوتا اور اپنے بھائی کی لاش کو چھپا دیتا، پھر وہ افسوس کرنے لگا۔"
اسلام چونکہ دین فطرت ہے، اس لئے اسلام نے اسی فطرت کو برقرار رکھا، چنانچہ ارشادِ باری ہے:
(1) ﴿مِنها خَلَقنـٰكُم وَفيها نُعيدُكُم وَمِنها نُخرِجُكُم تارَةً أُخرىٰ ٥٥ ﴾... سورة طه
"ہم نے تم سب کو زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی میں تمہیں لوٹائیں گے پھر دوسری بار اسی سے تمہیں نکالیں گے۔"
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے اور ان کی اولاد کو اس نطفہ سے پیدا کیا ہے جو زمین سے پیدا شدہ غذا سے تیار ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ انسانوں کو مختلف مراحل زندگی سے گزار کر اسی زمین (قبر) میں لوٹا دیتے ہیں اور روزِ محشر سب انسان انہی قبروں سے اٹھائیں جائیں گے ۔
(2) ﴿أَلَم نَجعَلِ الأَرضَ كِفاتًا ٢٥ أَحياءً وَأَموٰتًا ٢٦ ﴾... سورة المرسلات
"کیا ہم نے زمین کو مردوں اور زندوں کو سمیٹنے والی نہیں بنایا۔"
یعنی زندہ افراد زمین پر اپنے مسکنوں میں سکونت اختیار کرتے ہیں تو مردہ افراد کو بھی زمین ہی اپنے اندر جگہ دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی ہر دو صورتوں (گھروں اور قبروں) کوبطورِ انعام یادکروایا ہے ۔
(3) ﴿ثُمَّ أَماتَهُ فَأَقبَرَهُ ٢١ ثُمَّ إِذا شاءَ أَنشَرَهُ ٢٢ ﴾... سورة عبس
"پھر اسے موت دے کر قبر میں پہنچا دیا پھر جب وہ چاہے گا، اسے زندہ کرے گا۔"
اس آیت کی تفسیر میں امام شوکانی فرماتے ہیں کہ
"اللہ تعالیٰ نے(ہر) انسان کوقبر میں دفنانے کی تعلیم دی ہے کیونکہ اس میں انسان کی تعظیم ہے۔ ایسا نہیں کہ اسے زمین پردرندوں اور پرندوں کے لیے پھینک دیا جائے۔" ( فتح القدیر :۵/۴۷۲)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی میت کو زیرزمین (Under Ground)قبر میں دفنانے کی تعلیم دی ہے خواہ وہ میت غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو، تاکہ میت کو درندوں وغیرہ سے بچایا جائے اور ان کا تعفن بھی مٹی میں جذب ہوکر رہ جائے۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب ابوطالب فوت ہوگئے تو میں نے اللہ کے رسول کی خدمت میں عرض کی کہ آپ کا بوڑھا (گمراہ) چچا فوت ہوگیا ہے (اسے کون دفن کرے)؟ آپ نے فرمایا کہ جاؤ اسے دفن کر آؤ اور میرے پاس آنے تک کوئی کام نہ کرنا۔ (ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی نے کہا کہ وہ حالت ِشرک میں فوت ہوا ہے تو آپ نے فرمایا کہ جاؤ اور اسے دفن کر آؤ)۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ میں دفنا کر حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: جاؤ غسل کرکے آؤ اور میرے پاس آنے تک کوئی کام نہ کرنا۔ میں غسل کرکے دوبارہ حاضر ہوا تو نبی نے میرے حق میں ایسی دعا فرمائی جو مجھے سرخ اور کالے اونٹوں سے بھی زیادہ خوش کردینے والی تھی۔(احمد:۸۰۷،۱۰۷۴، ابوداؤد:۲/۷۰، نسائی:۱/۲۸۲، بیہقی:۳/۳۹۸)
موجودہ دور میں قبرستان کی تنگی اور قبروں کی کثرت کی و جہ سے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں جن میں سے ایک مسئلہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کیا کئی منزلہ (ملٹی سٹوری) قبرستان بنائے جاسکتے ہیں؟ یا صرف زیر زمین قبرستان کی پابندی کرنا ہی ضروری ہے؟
مذکورہ مسئلہ پربحث و تمحیص سے پہلے ہمیں شرعی نکتہ نظر سے قبرستان کے احکامات اور قبروں کی تعمیر کا جائزہ لینا چاہئے، کیونکہ اسلام کے احکامات ابدی ہیں اور اگر ان احکامات پر کماحقہ عمل کیا جائے تو بہت سی مشکلات خود بخود حل ہوجائیں گی۔ ذیل میں ہم احکامِ قبور کا مختصر سا خاکہ پیش کرتے ہیں جس کے بعد یہ نتیجہ بآسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے فطری اور ابدی احکامات پر عمل کرنے کی صورت میں کثیر منزلہ قبرستان کی بالکل ضرورت ہی پیش نہیں آسکتی، لہٰذا ہمیں نئے مسائل کھڑے کرنے کی بجائے ان وجوہات کا خاتمہ کرنا چاہئے جن کی بنا پر یہ مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
قبرستان کا انتظام وانصرام
اسلام نے جس طرح میت کو دفن کرنے کا حکم دیا ہے، اسی طرح اس بات کی بھی تعلیم دی ہے کہ ایک آبادی کے مردوں کو تدفین کے لئے مخصوص مقام یعنی قبرستان میں ہی دفن کیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اہل مدینہ کے لئے بقيع الغرقد (عرفی نام جنت البقيع) کا قبرستان مختص تھا جہاں مسلمان میتوں کو دفن کیا جاتا تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع الغرقد میں جاکر فوت شدگان کی مغفرت کی دعا کیا کرتے تھے۔ (مسلم:۳/۱۴، نسائی:۱/۲۸۶،احمد:۶/۲۲۱)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان کی زیارت کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ
"میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا، اب ان کی زیارت کرلیا کرو (اس کی اجازت ہے) کیونکہ یہ آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ جو شخص (قبرستان کی) زیارت کے لئے جانا چاہے، اسے اجازت ہے مگر وہاں جاہلانہ باتوں سے اجتناب کرو۔" (مسلم:۶/۵۳، احمد:۵/۳۵۰،ابوداؤد:۲/۷۲،بیہقی:۴/۷۷، نسائی: ۱/۲۸۵) ایک روایت میں ہے کہ
"قبروں کی زیارت کرو۔ بلاشبہ اس میں عبرت ہے اور کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے ربّ ناراض ہو۔" (احمد:۳/۳۸،حاکم:۱/۳۷۳) ایک اور روایت میں ہے کہ
"قبروں کی زیارت کرو، یہ دل کو نرم کرتی ہیں۔ آنکھوں سے آنسو بہاتی ہیں اور آخرت کی یاد دلاتی ہیں اور وہاں لغویات سے اجتناب کرو۔" (احمد:۳/۲۳۷، حاکم:۱/۳۷۶)
مذکورہ احادیث سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1۔ فوت شدگان کے لئے باقاعدہ قبرستان کا انتظام ہو۔
2۔ لوگ قبرو ں کی زیارت کریں تاکہ اپنی موت اور آخرت کی فکر پیدا ہو۔
3۔ قبرستان کو میلہ گاہ نہ بنایا جائے۔
4۔ قبرستان میں شرک و بدعات اور لغویات سے مکمل اجتناب کیا جائے۔
5۔ قبرستان آبادی کے قریب ہوں تاکہ لوگوں کو آمدورفت کی سہولت میسر رہے۔
6۔ مردوں کے لئے بخشش کی دعا کی جائے۔
اس کے علاوہ بھی قبرستان کے بہت سے آداب کتب ِاحادیث میں موجود ہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے قبرستان جدا جدا ہوں
مسلمانوں کے قبرستان میں غیر مسلم کو دفن کرنا درست نہیں لہٰذا غیر مسلموں کے لئے الگ قبرستان کا انتظام کیا جائے ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی کافروں کے الگ قبرستان رکھے جاتے تھے جیسا کہ ابن خصاصیہ بیان کرتے ہیں کہ
"اللہ کے رسول مشرکوں کے قبرستان گئے اور کہا کہ یہ خیرو برکت سے محروم ہوگئے ہیں۔ پھر آپ مسلمانوں کے قبرستان آئے اور کہا کہ انہوں نے خیر و برکت کو بکثرت وصول کیا ہے۔"
(احمد:۵/۸۳، ابوداؤد:۲/۷۲، نسائی۱/۲۸۸،ابن ماجہ:۱/۴۷۴، حاکم:۱/۳۷۳، بیہقی:۴/۸۰)
اسی طرح مشرکوں کی قبریں بھی ختم کرنا درست ہے کیونکہ مسجد ِنبوی اس مقام پر تعمیر کی گئی ہے جہاں اس سے قبل مشرکین کی قبریں تھیں۔چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ِنبوی کی تعمیر کرتے ہوئے مشرکین کی قبریں ختم کردیں تھیں۔ ( صحیح بخاری:۲۹۳۲)
یاد رہے کہ اسلام میں غیرمسلموں کی لاش کو وہ احترام حاصل نہیں جو ایک مسلمان میت کے لئے ہے۔ چنانچہ جنگ ِبدر میں ۲۴/مشرکین کی لاشوں کو گھسیٹ کر ایک گندے کنویں میں پھینک دیا گیا۔(پھرمٹی اور پتھروں سے کنوئیں کوپرکردیا گیا)۔(صحیح بخاری:۳۹۷۶،مسلم:۸/ ۱۶۴،احمد۳/۱۰۴)
چند استثنائی صورتیں
(1) "میدانِ جنگ میں شہید ہونے والوں کو شہادت گاہ میں ہی دفنایاجائے گا، کسی قبرستان منتقل کرنا درست نہیں۔ حضرت جابر سے مروی ہے کہ
"جنگ ِاُحد کے روز لوگوں نے شہداء کوبقیع کے قبرستان میں لے جانے کے لئے سواریوں پر سوار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک شخص نے اعلان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ شہیدوں کو ان کی جائے شہادت پرہی دفن کرو۔" (احمد:۳/۳۹۷، ابوداود:۱۵۳۳، بیہقی: ۲:۱۵۲)
(2) انبیا جہاں فوت ہوں، اسی جگہ انہیں دفن کیا جاتا ہے۔حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ
"جب اللہ کے رسول کی وفات ہوئی تو آپ کو دفن کرنے کے بارے میں صحابہ کرام میں اختلاف پیدا ہوا۔حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ "میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے جو مجھے آج تک یاد ہے کہ اللہ تعالیٰ جس نبی کو جہاں دفن کرنا پسند فرماتے ہیں، وہیں اس کی روح قبض فرماتے ہیں۔" لہٰذا نبی کریم کو آپ کے بستر والی جگہ پر دفن کیا گیا۔"
(ترمذی:۲/۱۲۹، ابن ماجہ:۱/۴۹۸، ابن سعد:۲/۷۱،موطأ:۱/۲۳۰)
گھروں کو قبرستان نہ بنایا جائے
(1) حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا :
" اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور میری قبر کو میلہ گاہ نہ بنانا، مجھ پر درود پڑھو یقینا تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جائے گا تم جہاں کہیں بھی ہوئے۔" (احمد:۱/۳۶۷، ابوداود:۲۰۴۲، عبدالرزاق: ۶۷۲۶، ابن ابی شیبہ :۱۱۸۱۸، صحیح الجامع الصغیر:۷۲۲۶)
(2) حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: "اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ بلا شبہ شیطان اس گھر سے دور بھاگتا ہے جہاں سورةالبقرة پڑھی جائے۔" (مسلم:۱۸۲۱)
قبرستان میں مسجد بنانا درست نہیں
(1) حضرت جندب سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول نے اپنی وفات سے پانچ روز قبل یہ ارشاد فرمایا:
"لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلی اُمتوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مسجدیں* بنالیا تھا۔ خبردار! تم قبروں پر مسجدیں مت بنانا، میں تمہیں اس بات سے منع کرتا ہوں" (مسلم:۵۳۲)
(2) حضرت اُمّ حبیبہ اور ام سلمہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"یقینا ان (عیسائیوں) میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہوجاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں تصاویر آویزاں کرتے، یہی لوگ روزِ قیامت اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق شمار ہوں گے۔" (بخاری :۴۳۳،مسلم:۵۲۸)
(3) حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے ا للہ کے رسول کا یہ ارشاد گرامی سنا کہ
"بلا شبہ بدتر ین لوگ وہ ہیں جن کی زندگی میں قیامت قائم ہوگی اور وہ ایسے لوگ ہوں گے جو قبروں کو مسجدیں بنائیں گے" (احمد:۱/۴۰۵، ابن حبان:۲۳۱۶، ابویعلی :۵۳۱۶، ابن خزیمہ:۷۸۹)
(4) حدیث ِنبوی ہے کہ«لاتجلسوا علی القبور ولاتصلوا إليها» "قبروں پرنہ بیٹھو اور نہ ہی ان کی طرف نماز پڑھو" (مسلم:۳/۶۲،ابوداؤد:۱/۷۱،نسائی:۱/۱۲۴، ترمذی:۱/۱۵۴)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا فتویٰ
"انبیا، صلحا اور بادشاہوں وغیرہ کی قبروں پر جومسجدیں بنائی گئیں ہیں انہیں گرانا اور ختم کرنا چاہئے۔ میرے علم کے مطابق معروف اہل علم کا اسمیں کوئی اختلاف نہیں" (اقتضاء الصراط :۱۵۹)
حافظ ابن قیم کا فیصلہ: حافظ ابن قیم زادالمعاد میں (۳/۲۲) فرماتے ہیں کہ
"ہر ایسی جگہ جہاں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہوتی ہو، اسے 'مسجد ِضرار'کی طرح جلا دینااور ختم کردیناضروری ہے... اسی طرح اگر کسی قبر پرمسجد تعمیر کی گئی ہو تو اس مسجد کو منہدم کرنا ضروری ہے جس طرح مسجد میں اگر میت دفنائی جائے تو اس میت کو مسجد سے نکال لیا جاتاہے جیساکہ امام احمد وغیرہ سے منقول ہے لہٰذا دین اسلام میں مسجد اور قبر جمع نہیں ہوسکتیں۔ مسجد یاقبر میں سے جسے بعد میں بنایا جائے گا اسے اُکھاڑنا ضروری ہے اور ایسی کسی مسجد میں نماز پڑھنا درست نہیں،کیونکہ اللہ کے رسول نے اس سے منع کیاہے اور ایسا کرنے والے پر لعنت کی ہے۔"
٭ روضہٴ رسول کامسئلہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت عائشہ کے حجرے میں دفن کیا گیا جس کا ایک دروازہ مسجد ِنبوی کی طرف کھلتا تھا۔عہد ِصحابہ اور عہد ِتابعین میں یہ حجرہ مسجدسے الگ ہی رہا او رصحابہ کرام نے حدیث ِنبوی کے مطابق آپ کو حجرے کی چار دیواری میں اسی لئے دفنایا تھا کہ وہاں لوگ سجدے اور نمازیں نہ پڑھیں۔ولید بن عبدالملک کے دور (۸۸ھ) میں مسجد ِنبوی کی بقدرِ ضرورت توسیع کی گئی تو حجرے والی جگہ بھی مسجد میں داخل ہوگئی مگر حجرے کی چار دیواری برقرار رکھی گئی او ریہ سب ضرورت کے لئے کیا گیا۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: تاریخ طبری :۵/۲۲۲ اورالبدایة والنھایة:۹/۷۳
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ
"ہر وہ مسجد جسے قبروں میں تعمیر کیا گیا ہو، اس میں مطلق طور پر ہر نماز منع ہے، البتہ مسجد ِنبوی اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ اس میں ایک نماز کا ثواب ہزار نماز کے برابر ہے او راسے تقویٰ کی بنیاد پر بنایا گیاہے۔ مسجد ِنبوی کی حرمت اور تعظیم خود عہد ِنبوی اور عہد ِصحابہ میں قائم رہی پھر عہد ِصحابہ کے بعد (ضرورت کی وجہ سے) آپ کی قبر والا حجرہ مسجد کے احاطے میں داخل کیاگیا ۔"
(الجواب الباہر فی زوار المقابر:ص۲۲ بحوالہ تحذ یر الساجد للالبانی، ص:۱۳۶)
قبرستان میں 'جناز گاہ' کا مسئلہ
نبی کریم کے دور میں مسجد،عید گاہ،جنازہ گاہ اور قبرستان چاروں چیزیں جداتھیں جیسا کہ عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ
(1)"یہودی آنحضرت کے پاس زانی مرد وعورت کو لے کر آئے تو آپ کے حکم کے مطابق انہیں مسجد کے قریب جنازہ گاہ میں رجم کیا گیا۔" (بخاری:۱۳۲۹)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ
"مدینہ کی جنازہ گاہ مسجد ِنبوی سے متصل مشرقی جانب تھی"۔ (فتح الباری :۳:۱۹۹)
(2)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک آدمی (بعض روایات کے مطابق ایک عورت) مسجد ِنبوی کی صفائی کرتا تھا۔ ایک رات وہ فوت ہوگیا تو صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مطلع کئے بغیر اسے دفنا دیا۔ جب آپ کو اس کے متعلق علم ہوا تو آپ نے صحابہ سے کہا کہ مجھے اس کی قبر بتاؤ، پھر وہاں جاکر آپ نے اس کی نماز جنازہ ادا کی اور صحابہ نے آپ کے پیچھے صفیں باندھیں۔(بخاری:۱۳۲۱)
اس حدیث کے پیش نظر اگرچہ بوقت ِضرورت قبرستان میں نمازِ جنازہ ادا کی جاسکتی ہے او رقبرستان میں جناز گاہ کاانتظام بھی کیا جاسکتا ہے تاہم پہلی حدیث کے مطابق مستحب اور قابل احتیاط بات یہی ہے کہ اس سے اجتناب کیاجائے اور جنازہ گاہ کو قبرستان سے جدا رکھا جائے خواہ دونوں کی دیوار مشترک ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالعموم جنازہ گاہ یا کبھی مسجد میں ہی نمازِ جنازہ پڑھا دیا کرتے تھے۔
اگر قبرستان میں جناز گاہ کا انتظام کیا گیا ہو تویہ لحاظ رکھا جائے کہ وہاں نمازِ جنازہ کے سوا دیگر کوئی نماز ہرگز ادا نہ کی جائے کیونکہ آپ نے قبر یا قبرستان میں عام نمازوں کی ادائیگی سے منع کیاہے۔اس لئے قبرستان میں موجود مساجد کو جناز گاہ میں بدل لینا چاہئے۔لیکن اگر جگہ کی قلت کا مسئلہ درپیش ہو تو اس کا یہ حل بھی قابل غور ہے کہ قبرستان کے اوپر چھت ڈال کر اسے جناز گاہ کے طور پر استعمال کرلیا جائے۔ اس طرح جگہ کی قلت بھی ختم ہوجائے گی اور مسئلہ بھی شریعت کی پابندی میں حل ہوجائے گا البتہ اس بارے میں علما کی شرعی آرا بھی لی جانی چاہئیں۔
مذکورہ صحیح روایات کے مطابق قبرستان میں مساجد کی تعمیر کسی طرح بھی درست نہیں لیکن پاکستان میں شاذونادرکہیں ایسا قبرستان دکھائی دے گا جہاں مسجد نہ ہو بلکہ ہر قبرستان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی مخالفت کرتے ہوئے وسیع و عریض مسجدیں تعمیر کی گئی ہیں بلکہ حکومت کی منظوری سے ہر قبرستان میں مسجد کا انتظام کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں بحمداللہ آپ کو ہر طرف ایسے قبرستان دیکھنے کو ملیں گے جہاں مسجد نہیں ہوگی لیکن ہمارے ہاں شاید عوام اس تصور کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں گے بلکہ عوام تو قبرستان ہی کو اصل عبادت کی جگہ سمجھے بیٹھے ہیں لیکن حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اسلام قبرستان میں مسجد کی اجازت نہیں دیتا بلکہ بلا مسجد محض قبر کے پاس نماز پڑھنے سے بھی نبی نے سختی سے منع کیا ہے۔ لہٰذا اگر قبرستان میں مساجد کی تعمیر کا تصور ختم کیا جائے اور تعمیر شدہ مساجد کی جگہ کو قبرستان میں تبدیل کرلیا جائے تو ہر قبرستان میں سینکڑوں نئی قبروں کی جگہ دستیاب ہوجائے گی۔
پختہ قبریں اور مزار بنانا درست نہیں
(1) حضرت جابر سے مروی ہے کہ "اللہ کے رسول نے قبر کو چوناگچ کرنے، ا س پر بیٹھنے اور اس پر عمارت بنانے سے منع کیا ہے۔" (صحیح مسلم:۹۷۰، ابوداؤد:۳۲۲۵، ترمذی:۱۰۵۲، نسائی:۲۰۲۶، ابن ماجہ: ۱۵۶۲، احمد:۳/۳۹۹،حاکم:۱/۳۷۰،عبدالرزاق:۳/۵۰۴)
2۔ حضرت ابوسعید فرماتے ہیں کہ "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر عمارت بنانے، ان پربیٹھنے اور وہاں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔" (ابن ماجہ :۱۵۶۴،ابویعلی:۱۰۲۰،مجمع الزوائد:۳/۶۱)
3۔ حضرت اُمّ سلمہ فرماتی ہیں کہ "اللہ کے رسول نے قبر پر عمارت بنانے یا اسے پختہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔" (مسند احمد:۶/۲۹۹)
امام ابوحنیفہ کا فتویٰ: امام محمد فرماتے ہیں کہ
"ہم اس چیز کو درست نہیں سمجھتے کہ قبر پر اس کی اپنی مٹی سے زیادہ مٹی ڈالی جائے اور ہم اسے بھی مکروہ(بمعنی حرام) سمجھتے ہیں کہ قبر کو چونا گچ کیا جائے یا مٹی سے لیپا جائے یا اس کے قریب مسجد بنائی جائے یا نشان بنایا جائے یا اس پر لکھا جائے۔ اسی طرح ہمارے نزدیک پختہ اینٹ سے قبر بنانا یا اسے قبر میں استعمال کرنا مکروہ ہے۔ البتہ قبر پر پانی لگانے میں کوئی گناہ نہیں اور امام ابوحنیفہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔" (کتاب الآثار مترجم :۱۲۶، فتاویٰ قاضی خان :۱/۹۳)
امام شافعی کا فتویٰ :امام شافعی فرماتے ہیں کہ
"میں نے مہاجرین اور انصار صحابہ کرام کی قبروں کو پختہ تعمیر شدہ نہیں دیکھا۔ طاؤس روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے قبروں پر عمارت کی تعمیر یا اسے پختہ کرنے سے منع کیا ہے اور میں نے ان حکمرانوں کو دیکھا ہے جو مکہ میں قبروں پر بنائی جانے والی عمارتیں گرادیتے تھے۔ جبکہ فقہا ان پر عیب نہیں لگاتے تھے۔" (کتاب الام:۱/۲۷۷)
ابن قدامہ حنبلی کا فتویٰ :ابن قدامہ حنبلی فرماتے ہیں کہ قبر پر عمارت تعمیر کرنا، اسے پختہ بنانا یا اس پرکتبہ لگانا مکروہ ہے کیونکہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ "اللہ کے رسول نے قبر پختہ بنانے، اس پر عمارت کھڑی کرنے اور اس پر بیٹھنے سے منع کیا ہے۔ " (المغنی:۳/۴۳۹)
امام مالک کا فتویٰ :امام مالک فرماتے ہیں کہ "میں قبروں کوپختہ بنانے اور ان پر عمارت تعمیر کرنے کو مکروہ (حرام) سمجھتا ہوں۔" (المدونة الکبریٰ:۱/۱۷۰)
شیخ عبدالقادر جیلانی کا فتویٰ :"قبر زمین سے ایک بالشت اونچی بنائی جائے اور اس پر پانی چھڑکا جائے۔ اس پر سنگریزہ رکھنا اور مٹی سے لیپ کرنا جائز ہے مگر پختہ گچ کرنا مکروہ ہے۔" (غنیہ الطالبین: ۶۴۰)
ابوالحسن موسیٰ کاظم کا فتویٰ :"قبر پر عمارت تعمیر کرنا ،اس پر بیٹھنا ،اسے پختہ کرنا اور لپائی کرنا درست نہیں۔" (الاستبصار:۱/۲۱۷)
امام جعفر صادق کا فتویٰ :"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر ایسی مٹی زیادہ کرنے سے منع کیا ہے جو اس سے نہ نکلی ہو۔ قبروں پر عمارت تعمیر نہ کرو اور نہ ہی گھروں کی چھتوں کو مصوری سے مزین کرو یقینا اللہ کے رسول نے اسے ناپسند کیا ہے۔"(تہذیب الاحکام:۱/۴۶۰۔۴۶۱)
احادیث کے علاوہ تمام فقہی مذاہب کے مطابق بھی پختہ قبر بنانا یا قبر پر عمارت (گنبد، مزار، قبہ وغیرہ) تعمیر کرنا ہرگز جائز نہیں مگر نہایت افسوس سے عرض کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے ہاں اس مسئلہ پربھی عمل نہیں او رکھلے عام قرآن و احادیث اور ائمہ مجتہدین کے فتوؤں کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں۔ اگر اسلامی نقطہ نظر کے مطابق پختہ قبروں کی ممانعت پر عمل کروایا جائے اورپختہ قبروں کو کچی قبروں میں تبدیل کرلیا جائے تو بلاشبہ بیسیوں قبروں کے لئے ایسی جگہ حاصل ہوجائے گی جوبالکل بے فائدہ عمارتوں، مزاروں اور چار دیواریوں کی زینت بنی ہوئی ہے۔
یہ بات پیش نظر رہے کہ پختہ قبروں کو مسمار کرکے کچی قبروں میں تبدیل کرنا اولیاء و صلحا کی قبروں کی بے حرمتی نہیں بلکہ عین شریعت کے مطابق ہے اور پورے وثوق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کسی بھی باعمل مسلمان، نیک صالح ولی یا امام اور عالم نے کبھی یہ وصیت نہیں کی کہ ان کی قبروں کو پختہ بنا کر وہاں رکوع وسجود کیا جائے بلکہ انہوں نے ہمیشہ ایسے اقدامات سے منع ہی کیا جس سے شرک کی بو آتی تھی۔
کچی قبر کی حد اونچائی
کچی قبر ایک بالشت سے بلند نہ کی جائے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر زمین سے ایک بالشت اونچی تھی۔ (بیہقی :۳/۴۱۰) علاوہ ازیں آپ نے اس بات سے منع کیا کہ قبر کے گڑھے (کی مٹی )سے زیادہ مٹی ڈالی جائے (ایضاً)۔ یہی بات حضرت عقبہ بن عامر سے بھی منقول ہے۔ (المغنی:۳/۴۳۵)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ اونچی قبروں کو عام قبروں کے برابر کروا دیا کرتے تھے۔ جیساکہ ابوہیاج اسدی فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت علی نے کہا:
"کیا میں تمہیں اس کام پر مامور نہ کروں جس پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مامور کیا تھا اور وہ یہ کہ تم کوئی تصویر یا مجسمہ مٹائے بغیر نہ چھوڑنا اور جو قبر زیادہ اونچی ہو اسے (عام قبروں کے ) برابر کردو۔" (مسلم:۹۶۹، نسائی:۲۰۳۰، ابوداؤد:۳۲۱۸، ترمذی:۱۰۴۹، حاکم: ۱/۳۶۹، احمد:۱/۱۶۹، بیہقی:۴/۳)
میت کو جلانا اور دریا برد کرنا
ہندو مذہب میں ہر میت کو جلا دیا جاتا ہے اور اس کی راکھ دریا برد کر دی جاتی ہے بلکہ ستم بر ستم یہ ہے کہ مرنے والے کی بیوی کو بھی زندہ ہی جل مرنے پر مجبور کیا جاتا ہے جسے 'ستی' کہا جاتا ہے۔ اسلام نے میت کو جلانا تو کجا اس کی ہڈی توڑنے سے بھی سختی سے منع کیا ہے۔
حدیث ِ نبوی میں ہے کہ "میت کی ہڈی توڑنا زندے کی ہڈی توڑنے کے مترادف ہے۔" (ابوداود:۲/۱۹۰) بلکہ اسلام نے مسلمان میت کا ا س حد تک احترام باقی رکھا ہے کہ انہیں مرنے کے بعد برا بھلا بھی نہ کہا جائے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ
"مرنے والوں کو گالی مت دو اس لئے کہ انہوں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ اس کی طرف پہنچ چکے ہیں۔" (بخاری:۱۳۹۳)
اس حدیث کی رو سے مردے کی لاش کا پوسٹ مارٹم (میڈیکل معائنہ) ممنوع قرا ر پاتا ہے مگر انتہائی مجبوری اور ضرورت کے پیش نظر اس میں گنجائش ہے یعنی جب سبب ِموت، وجہ ِقتل اور اصل قاتل تک پہنچنے کی شدید ضرورت ہو یا مردہ عورت کے جسم سے زندہ بچہ نکالنے کی ضرورت ہو، وگرنہ محض طبی تجربات کے لئے اس کی گنجائش نہیں۔
اسی طرح سمندری سفر میں اگر کوئی فوت ہوجائے اور قریبی ساحل یا کسی جزیرے تک رسائی سے پہلے اس میں تعفن کا خدشہ ہو تو اسے سمندر کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ (المغنی:۳/۴۳۹، فقہ السنة: ۱/ ۵۵۶)
پتھر یا لکڑی کے تابوت بنانا
گذشتہ احادیث کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ پختہ قبریں، قبے، دربار، مزارات وغیرہ کی تعمیر خلافِ شریعت ہے، اس طرح شیشے اور لکڑی کے تابوت میں لاش کو محفوظ رکھنا بھی سنت اور عمل صحابہ کے خلاف ہے۔ البتہ فرعونِ مصر اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ قرآن کی رو سے اس کی لاش رہتی دنیا کے لئے نمونہٴ عبرت ہے ۔ ارشادِ باری ہے:
﴿فَاليَومَ نُنَجّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكونَ لِمَن خَلفَكَ ءايَةً...٩٢ ﴾... سورة يونس
"آج ہم تیرے بدن کونجات دیں گے تاکہ تو اپنے پیچھے والوں کے لیے نمونہ عبرت بن جائے"
صحابہ کرام بھی فطری طریقے کے مطابق ہی مردوں کو دفن کیا کرتے تھے۔ابوالعالیہ سے روایت ہے
"جب ہم نے تسترفتح کیا اور ہرمزان کا خزانہ حاصل کیا تو وہاں ایک تابوت (بعض روایات میں چارپائی کا ذکر ہے) تھا جس میں میت تھی اور میت کے سرہانے ایک صحیفہ تھا۔ ہم نے حضرت عمر کو اس سے مطلع کیا۔ انہوں نے حضرت کعب کو بلاکر اسے پڑھوایا تو کعب فرمانے لگے کہ میں سب سے پہلا عربی ہوں جس نے اسے پڑھا ہے اور میں نے اسے قرآن کی طرح پوری امانت سے پڑھا ہے۔ راوی نے کہا کہ میں نے ابوالعالیہ سے پوچھا کہ اس صحیفے میں کیا تھا؟ تو وہ کہنے لگے کہ اس میں تمہارے احوال و معاملات اور تمہارے لب و لہجے اور مستقبل کے تذکرے تھے۔ میں نے پوچھا کہ تم نے اس میت کا کیا کیا؟ کہنے لگے: ہم نے دن کے وقت تیرہ مختلف قبریں کھودیں اور پھر رات کے وقت ان میں سے کسی ایک میں انہیں دفن کیا اور سب قبریں پر کردیں تاکہ لوگ اس میت کو نکال نہ سکیں۔ میں نے کہا کہ لوگوں کو اس میت سے کیا امیدیں تھیں؟ کہنے لگے کہ وہ قحط سالی میں اس میت کو صحرا میں نکال کربارش طلب کرتے تھے۔ میں نے پوچھا کہ اس میت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہا کہ اسے دانیال نبی سے موسوم کیا جاتا تھا۔"
(البدایہ والنہایہ:۲/۳۷،۳۸،و صححہ منھاج السنة:۱/۴۸۰، ابن اسحاق :ص۶۶،
اقتضاء الصراط:۳۳۹، ابن ابی شیبہ:۱۳/۲۸)
ایک قبر میں ایک سے زیادہ مردے دفنانا
کسی ضرورت کے پیش نظر ایک ہی قبر میں ایک سے زیادہ مردے دفن کئے جاسکتے ہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے اُحد میں سے دو دو، تین تین کو ایک ہی قبر میں دفنانے کا حکم دیا۔ (احمد:۳/۳۹۷)
بامر مجبوری قبر سے مردہ نکالنا درست ہے
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی کو قبر سے نکلوا کر اپنی قمیص پہنا کرد بارہ دفن کروایا ۔ تفصیل کے لئے دیکھئے : بخاری : ۳/۱۶۷، مسلم:۸/۱۲۰،نسائی:۱/۲۸۴،بیہقی:۳/۴۰۲،احمد:۳/۳۸۱
بوسیدہ اور پرانی قبروں کو ختم کیا جاسکتا ہے
امام نووی فرماتے ہیں کہ بلا شرعی عذر قبر کو اکھاڑنا منع ہے۔ جب میت پرانی ہوکر مٹی بن جائے تو قبر اکھاڑنا جائز ہے اور اس وقت وہاں تعمیر یا زراعت بھی جائز ہے۔ اس زمین سے ہر طرح کا فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے، اس بات پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ ایسا اس وقت جائز ہے جب میت کی ہڈی وغیرہ کے نشان باقی نہ ہوں۔ (المجموع:۵/۳۰۳ )
علامہ البانی نے 'کتاب الجنائز' میں اس فتویٰ کو نقل کرکے اس کی تائید فرمائی ہے۔(ص۲۳۵) سعودیہ میں بھی اس فتوے کے پیش نظر پرانی قبروں کو نئے مردوں کے لئے زیراستعمال لایا جاتا ہے۔
ان احادیث سے درج ذیل مسائل ثابت ہوتے ہیں
1۔ میت کو زمین میں ہی دفن کیا جائے۔
2۔ پہاڑ بھی زمین کے حکم میں ہیں۔ اس لئے پہاڑوں پر تدفین اور قبرستان بنانا درست ہے۔
3۔ آبادیوں میں قبرستان کا وسیع انتظام کیا جائے۔
4۔ غیر مسلمانوں کی تدفین کے لئے الگ قبرستان بنائے جائیں۔
5۔ مسجدوں ، گھروں میں تدفین، پختہ مزارات کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
6۔ قبرستانوں میں مساجد تعمیر نہ کی جائیں۔
7۔ پہلے سے تعمیر شدہ مساجد کو ختم کرکے قبرستان کو وسعت دی جائے۔
8۔ عوام کو کچی قبروں پر پابند کیا جائے کیونکہ تمام فقہی مذاہب کی رو سے پختہ قبروں کی ممانعت ہے ۔
11۔ اسی طرح پختہ قبروں کو کچی قبروں میں تبدیل کیا جائے۔ایک قبر کے ساتھ چار دیواری، مزار یا درختوں وغیرہ کے لئے حاصل کی جانے والی زمین ضبط کی جائے۔
12۔ قبرستان کی ساری زمین صرف قبروں کے لئے استعمال کی جائے۔
13۔ انتہائی مجبوری کی صورت میں ایک قبر میں زیادہ مردے دفن کرنے پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
16۔ بوسیدہ قبروں کونئے مردوں کے لئے قابل استعمال بنایا جائے۔
17۔ کسی قبر میں لاش (میت) کے مکمل حل پذیر ہونے کی قدرتی مدت کا تجربہ کیا جائے اور اس کے بعد وہاں نئی قبر بنانے کی اجازت دی جائے۔
18۔ اگرکسی قبر سے ہڈیاں وغیرہ برآمد ہوں تو انہیں نئے مردے کے ساتھ دوبارہ دفن کیا جائے۔
19۔ فطری طور پر ایک دو نسلوں کے بعد نئی نسل اپنے پرانے مردے کی خبرگیری چھوڑ دیتی ہے اور آخرکار اس قبر کے نشان مٹ جاتے ہیں، لہٰذا ان قبروں کو قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے۔
20۔ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے چونکہ قبروں کی حفاظت درست ہے لہٰذا حفاظت کرنے والے ورثا کے لئے مخصوص مدت تک اجازت دی جائے۔
مذکورہ شرعی نکات پرعمل کرنے کی صورت میں سو فیصد اطمینان سے یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ ملٹی سٹوری قبرستان کی ضرورت ہی نہیں رہتی!
ملٹی سٹوری قبرستان کی شرعی حیثیت
1۔ مردوں کو دفن کرنا، کچی قبر کا انتخاب اور پختہ قبر سے اجتناب کرنا، قبر کو جائز حد تک اونچا کرنا یہ سب مسائل (اسلام کے ثقافتی شعائر) عبادات سے تعلق رکھتے ہیں اور عبادات توقیفی ہیں جن کی اصل 'حرمت' ہے۔ لہٰذا ان مسائل میں کسی نئی صورت کی اباحت کے لئے حکم شرعی کی ضرورت ہے جو مذکورہ مسئلہ میں مفقود ہے لہٰذا ایسا قبرستان درست نہیں۔
2۔ کسی مسئلہ میں واضح (صریح) نص کی عدم موجودگی میں قیاس کے ذریعے حل نکالا جاتا ہے لیکن صحت ِقیاس کے لئے مقیس علیہ اور مقیس کے درمیان علت ِمشترکہ کا وجود ضروری ہے وگرنہ قیاس درست قرار نہیں پائے گا۔ چھت پر دفنانے اور زمین میں دفنانے کے مابین علت ِمشترکہ مفقود ہے۔ البتہ پہاڑ کی چوٹی بھی چونکہ زمین کے حکم میں ہے لہٰذا وہاں قبرستان بنانا درست ہے۔ اسی طرح زمین کے ساتھ سرنگوں اور غاروں کے تہہ خانوں کو بھی بطورِ قبرستان استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ بھی ﴿مِنها خَلَقنـٰكُم وَفيها نُعيدُكُم وَمِنها نُخرِجُكُم تارَةً أُخرىٰ ٥٥ ﴾... سورة البقرة"کے ضمن میں شامل ہیں۔ بعض لوگوں نے زیر زمین زیادہ گہرائی اور کم گہرائی پر دفن کرنے کو بھی اس مسئلہ کا حل بتایا ہے، جو 'لحد' یعنی بغلی قبر کی صورت میں ممکن ہے ۔ اگر زیر زمین زیادہ گہرائی پر میت پہنچانے اور وہاں تدفین کا عمل پورا کرنے کی گنجائش میسر آجائے تو ایسی صورت میں بھی بظاہر جواز کا پہلو نکلتا ہے۔جس طرح زمین کی گہرائی میں ایک ہی زاویہ میں کئی قبریں بنائی جاسکتی ہیں اسی طرح قبروں کے اوپر مٹی ڈال کر اس پر مزید قبروں کا انتظام بھی بوقت ِضرورت کیا جاسکتا ہے۔لیکن دونوں صورتوں میں زائرین کی آمد ورفت کا سلسلہ متاثر نہ ہونے کو بھی ملحوظ ِخاطر رکھنا ضروری ہے۔
3۔ چھت پر قبریں بنانے سے وہ مقاصد پورے نہیں ہوسکتے جو زمین میں گڑھے کھودنے سے حاصل ہوتے ہیں۔ کیونکہ زمین اپنی طبعی ساخت کی وجہ سے مردے کا تعفن و بدبو جذب کرکے مٹی کا حصہ بنا دیتی ہے، اسی طرح زمینی حشرات، سورج کی شعاعیں وغیرہ بھی اس کی معاونت کرتے ہیں، علاوہ ازیں مٹی میں دوسری چیز کو پاک کرنے (مُطَهِّر) کی صلاحیت بھی ہے مگر چھت بنانے کی صورت میں یہ مقاصد پورے نہیں ہوتے بلکہ اس سے مزید قباحتیں جنم لیں گی مثلاً:
1) اگر چھت پر پختہ قبریں بنا کر تعفن وغیرہ کو دبانے کی کوشش کی جائیتوپختہ قبریں بنانے کی ضرورت پیش آئے گی جبکہ پختہ قبروں کی حرمت بالکل واضح ہے اور کسی فقہی مذہب نے بھی اس کی ممانعت میں اختلاف نہیں کیا۔
2) اگر چھت پر منوں مٹی ڈالی جائے گی تو اس کے لئے انتہائی مضبوط میڑیل استعمال کرنے کے لئے کروڑوں اربوں کی لاگت برداشت کرنا پڑے گی جو ہر جگہ ممکن نہیں۔
3) مٹی ڈال کر مردے دفنانے کی صورت میں ان کا تعفن اور بدبو کے بھبھوکے پیدا ہوں گے اور اس صورت میں زائرین وہاں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ اگر اس تعفن کو دبانے کے لئے زہریلے کیمیکلز استعمال کئے جائیں گے اور مردے کی ہڈیاں وغیرہ گلانے کی کوشش کی جائے گی تو یہ بھی ممنوع ہے کیونکہ مردے کے جسم، ہڈیوں وغیرہ کی تعظیم بہرحال ضروری ہے۔
4) ملٹی سٹوری قبرستان کی تعمیر کے جواز کی صورت میں سب سے بڑی قباحت یہ پیدا ہوگی کہ گویا ہر قبرستان میں ساٹھ فیصد پختہ قبریں اور مزارات کو درست تسلیم کرلیا گیا ہے۔ تبھی تو ان کی خبر لینے اور انہیں اسلامی نقطہ نظر کے مطابق کچی قبروں میں تبدیل کرنے کی بجائے نئے اُفق کھولے جارہے ہیں۔ کیونکہ کچی قبروں کی صورت میں بالعموم قبرستان کی تنگی کے مسائل پیدا نہیں ہوتے۔
5) بارش وغیرہ کی صورت میں محدود مٹی پانی میں گھل جانے سے لاشوں کے اعضا بکھریں گے اور قبروں کی بے حرمتی ہوگی۔
6) زلزلے وغیرہ کی صورت میں ایسی عمارت کا گرنا خطرے سے خالی نہیں بلکہ جتنی سخت اور مضبوط عمارت ہو، اتنی ہی جلدی وہ زلزلے کی نذر ہوتی ہے، اسی لئے زلزلے والے علاقوں میں لچک دار عمارتیں تعمیر کی جاتی ہیں لیکن اگر قبرستان کی عمارت ویسی لچک دار ہوگی تو اس سے مطلوبہ مقاصد پورے نہ ہوں گے اور عمارت گرنے کی صورت میں لاشوں کی بے حرمتی کا کون ذمہ دار ہوگا؟جبکہ شریعت میں تمام صورتوں کا آسان اورسادہ حل موجود ہے۔
4۔ مذکورہ مسئلہ بہرصورت شک و شبہ سے بالا نہیں لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ «دع ما يريبک الی ما لا يريبک» (شک والی چیز چھوڑ کر غیر مشکوک کو اختیار کرو) پرعمل کرتے ہوئے، «فقد استبرأ لدينه وعرضه» (جو شبہات سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو محفوظ کرلیا) کی نبوی بشارت حاصل کی جائے۔ (هذا ما عندی والله أعلم بالصواب)