آئینہٴ پرویزیت از مولانا عبدالرحمن کیلانی 

۹۱۵ صفحات...طبع سوم، جنوری ۲۰۰۱ء... ناشر مکتبة السلام، وسن پورہ، لاہور

اسلام کے ہر دور میں مسلمانوں میں یہ بات مسلم رہی ہے کہ حدیث ِنبوی قرآن کریم کی وہ تشریح اور تفسیر ہے جو صاحب ِقرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے صادر ہوئی ہے۔ قرآنی اصول واحکام کی تعمیل میں جاری ہونے والے آپ کے اقوال و افعال اور تقریرات کو حدیث سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم ہماری راہنمائی اس طرف کرتا ہے کہ قرآنی اصول و احکام کی تفاصیل و جزئیات کا تعین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب ِرسالت میں شامل تھا اور قرآن و حدیث کا مجموعہ ہی اسلام کہلاتا ہے جو آپ نے امت کے سامنے پیش فرمایا ہے، لہٰذا قرآن کریم کی طرح حدیث ِنبوی بھی شرعاً حجت ہے جس سے آج تک کسی مسلمان نے انکار نہیں کیا۔

انکارِ حدیث کے فتنہ نے دوسری صدی میں اس وقت جنم لیا جب غیر اسلامی افکار سے متاثر لوگوں نے اسلامی معاشرہ میں قدم رکھا اور غیر مسلموں سے مستعار بیج کو اسلامی سرزمین میں کاشت کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت فتنہ انکار ِ حدیث کے سرغنہ کے طور پر جو دو فریق سامنے آئے وہ خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج جو اپنے غالی افکار ونظریات کو اہل اسلام میں پھیلانے کا عزم کئے ہوئے تھے، حدیث ِنبوی کو اپنے راستے کا پتھر سمجھتے ہوئے اس سے فرار کی راہ تلاش کرتے تھے۔ دوسرے معتزلہ تھے جو اسلامی مسلمات کے ردّوقبول کے لئے اپنی ناقص عقل کو ایک معیار اور کسوٹی سمجھ بیٹھے تھے، لہٰذا انکارِحد رجم، انکارِ عذابِ قبر اور انکارِ سحر جیسے عقائد و نظریات اس عقل پرستی کا ہی نتیجہ ہیں جو انکارِ حدیث کا سبب بنتی ہے۔

دور ِجدید میں برصغیر پاک و ہند میں فتنہ انکارِ حدیث نے خوب انتشارپیدا کیا اور اسلامی حکومت ناپید ہونے کی وجہ سے جس کے دل میں حدیث ِ نبوی کے خلاف جو کچھ آیا اس نے بے خوف وخطر کھل کر اس کا اظہار کیا۔ دین کے ان نادان دوستوں نے اسلامی نظام کے ایک بازو کو کاٹ پھینکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور لگا رہے ہیں۔ اس فتنے کی آبیاری کرنے والے بہت سے حضرات ہیں جن میں سے مولوی چراغ علی، سرسیداحمدخان، عبداللہ چکڑالوی، حشمت علی لاہوری، رفیع الدین ملتانی، احمددین امرتسری اور مسٹرغلام احمدپرویز وغیرہ نمایاں ہیں۔ ان میں آخر الذکر شخص نے فتنہٴ انکار ِحدیث کی نشرواشاعت میں اہم کردار ادا کیا، کیونکہ انہیں اس فتنہ کے اکابر حضرات کی طرف سے تیارشدہ میدان دستیاب تھا جس میں صرف کسی غیر محتاط قلم کی باگیں ڈھیلی چھوڑنے کی ضرورت تھی۔ چنانچہ اس کام کا بیڑہ مسٹر غلام احمدپرویز نے اٹھا لیا جو کہ فتنوں کی آبیاری میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔

زیر تبصرہ کتاب 'آئینہ پرویزیت' میں مدلل طریقے سے فتنہٴ انکارِ حدیث کی سرکوبی کی گئی ہے، اور مبرہن انداز میں پرویزی اعتراضات کے جوابات پیش کئے گئے ہیں، مصنف کے بقول اس کتاب کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے :

حصہ اوّل:معتزلہ سے طلوعِ اسلام تک: اس حصہ میں منکرین حدیث کی سلسلہ وار تاریخ انکارِ حدیث کے اسباب اور عجمی تصورات کی اسلام میں درآمد، معتزلہ کے مخصو ص عقائد و نظریات اور نتائج پر بحث کی گئی ہے۔

حصہ دوم:طلوع اسلام کے نظریات: اس میں حسبنا کتاب الله، عجمی سازش، نظریہٴ ارتقا، مساواتِ مردوزن، مرکز ِملت اور قرآنی نظامِ ربوبیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور عقلی ، نقلی اور تاریخی دلائل سے ان نظریات کا محاسبہ کیا گیا ہے۔

حصہ سوم: قرآنی مسائل : یہ' قرآنی فیصلے ' کے جواب میں ہے اور اس میں ان تیرہ مسائل کا ذکر ہے جن کا جواب دینا ضروری تھا اور ان پر قرآن ہی کی رو سے گرفت کی جاسکتی تھی۔وہ مسائل یہ ہیں: قرآنی نماز، قرآنی زکوٰة و صدقات، قربانی، اطاعت ِوالدین، ناسخ و منسوخ، عذاب ِ قبر، ترکہ اور وصیت، یتیم پوتے کی وراثت، تلاوت ِ قرآن پاک، نکاحِ نابالغاں، تعددِ ازواج، غلام اور لونڈیاں، رجم اور حد ِ رجم۔

حصہ چہارم: دوام حدیث : یہ حصہ اسلم جیراج پوری کے ان مقالات کے جواب میں لکھا گیا ہے جو 'مقام حدیث' میں مندرج ہیں۔ فن حدیث میں تشکیک کے جن پہلوؤں پر گفتگو کی گئی ہے وہ یہ ہیں: روایت ِحدیث، کتابت وتدوین حدیث، تنقید ِحدیث، اصولِ حدیث، دلائل حدیث اور وضع حدیث وغیرہ۔

حصہ پنجم: دفاع حدیث: یہ حصہ مقامِ حدیث کے باقی ماندہ مقالات کے جواب میں لکھا گیا ہے ان مقالات کا بیشتر حصہ کتب احادیث کے داخلی مواد پر اعتراضات اوران کے جوابات سے متعلق ہے۔عنواناتِ ابواب یہ ہیں: (1) حدیث پر چند بنیادی اعتراضات (2) حدیث اور چند نامور اہل علم و فکر (3) جمع قرآن، روایات کے آئینے میں (4) تفسیر بالحدیث (5) متعہ کی حرمت (6) حصولِ جنت، احادیث کی رو سے (7) بخاری کی قابل اعتراض احادیث (8) خلفاے راشدین کی شرعی تبدیلیاں۔

حصہ ششم: طلوعِ اسلام کا اسلام : اس حصہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ طلوع اسلام کا اپنا اسلام کیسا ہے اور انکارِحدیث کے بعد وہ دوسرے مسلمانوں کو کس طرح کے اسلام کی راہ دکھانا چاہتا ہے، اس حصے کے ابواب یہ ہیں : (1) طلوعِ اسلام کا ایمان بالغیب (2) طلوعِ اسلام اور ارکانِ اسلام (3) وحی الٰہی سے روشنی حاصل کرنے کا طریقہ (4) فکر پرویز پر عجمی شیوخ کی اثر اندازی (5) داعی انقلاب کا ذاتی کردار (6) پرویزی لٹریچر کی خصوصیت

آخر میں ایک باب بطورِ ضمیمہ شامل ہے جس کا عنوان ہے "طلوع اسلام سے چند بنیادی سوالات" یہ سوالات جہاں ایک طرف اس کتاب کا لب ِلباب ہیں تو دوسری طرف طلوعِ اسلام کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے قبل بھی یہ کتاب دو دفعہ چھپی، لیکن کتابت و طباعت کی خامیوں سے پاک نہ ہوسکی، قارئین کو ہمیشہ اس کی بھدی کتابت کے پیش نظر اسے پڑھنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا لیکن یہ اس کتاب کی طبع سوم ہے جو دیدہ زیب کمپیوٹر کتابت ہے اور ان تمام خامیوں سے پاک ہے جن کی قارئین کو عرصے سے شکایت تھی۔ اب اس کا معیار ایسا اعلیٰ ہے کہ انسان اس کتاب کو پڑھنا شروع کرتا ہے تو پڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور کوئی تکان اور ملال محسوس نہیں کرتا۔ اس کتاب کا تمام لائبریریوں اور سب علم دوست حضرات کے پاس ہونا بہت ضروری ہے۔ (مبصر: محمد رمضان سلفی)

شیخ سرہند از جمیل اطہر سرہندی


صفحات:۲۵۶...جنوری ۱۹۹۹ء...پبلشر :ادارئہ اسلامیات، لاہور

برصغیر پاک و ہند میں تاریخ دعوت و عزیمت کا ایک روشن باب شیخ احمد سرہندی ملقب بہ مجدد الف ثانی (۱۵۶۴ء... ۱۶۲۴ء) سے منسوب ہے۔ مغل سلطنت نے جہاں برصغیر میں علوم و فنون اور بہت سے دوسرے ثقافتی اور تمدنی مظاہر کی بنا رکھی،وہاں علوم و افکار کے راستے اِلحاد و زندقہ کی راہ کو ہموار کرنے میں بھی اپنی سعی ٴ بد کو بروے کار لائے۔ نصیر الدین ہمایوں نے ایران سے واپسی پر مغل دربار میں ایک کشمکش کی بنا رکھی جو اس کے فرزند اکبر *

کے عہد میں فتنہ و اِلحاد کے بامِ عروج تک پہنچ گئی۔ جلال الدین اکبر نے دین الٰہی کو ایجاد کیا۔ ملامبارک کے بیٹوں ابوالفضل اور فیضی نے توحید کے بعد نبوت کی ضرورت سے انکار کردیا۔ نبوت پر اعتراضات کی رو شِ بد کا آغاز کیا بلکہ مجلس میں ابوالفضل نے مجدد الف ِثانی کی موجودگی میں امام غزالی پر نامعقولیت کی پھبتی کسی۔ عبادات اور شعائر ِاسلام کو عقل کے خلاف ثابت کیا گیا۔ مساجدکو گرانے کا کام شروع ہوا اور عین شاہی محل میں ایک آتش خانہ تیار کرایا گیا جس میں خود اکبر بھی اپنے مخصوص عقائد کے مطابق عبادت کرتا تھا۔ اذان کی بجائے ناقو س اور صور پھونکے جانے لگے۔ ہندو علم الاصنام کے کرداروں برہما، مہاویر، شین، کشن وغیرہ کی تعظیم کی جانے لگی۔ سورج کی عبارت دن میں چار مرتبہ کی جانے لگی۔ اکبر خود سورج کے ایک ہزار ناموں کی مالا جپتا۔ اکبر کی تقلید میں تمام درباری داڑھی منڈانے کو خوبی تصور کرنے لگے۔ ماتھے میں قشقہ لگایا جاتا۔ آگ، پانی، درختوں اور دوسرے مظاہر فطرت کی پوجا ہونے لگی۔ خنزیر کے گوشت کو حلال اور کتوں کو متبرک سمجھا جانے لگا۔ گائے کا گوشت حرام اور اس کا پیشاب پوتر قرار پایا۔ سود، شراب اور قمار کی تمام شکلیں حلال تصور کی گئیں۔لے دے کے ایک کسر باقی رہ گئی اور اسے پورا کرنے کے لئے اکبر نے اپنی تعظیم میں سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ لا إلہ الا إللہ أکبر خلیفة اللہ کا کلمہ دین الٰہی کی اساس اور بنیاد ٹھہرایا گیا۔ مختلف شعائر اسلام کی جس قدر توہین کی گئی، قلم اسے لکھتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتا ہے۔ الغرض یہ وہ نازک دینی صورت حال تھی جس میں اکثر علماءِ سوء دین سے انحراف کو ذہنا قبول کرچکے تھے۔اس عالم میں اللہ تعالیٰ نے مجدد الف ِثانی کو اس فتنہ و الحاد کی سرکوبی کے لئے منتخب کیا، جن کی خدمات کے باعث علامہ اقبال نے فرمایا : *

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفس گرم سے ہے گرمی احرار
وہ ہند میں سرمایہٴ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار


پیش نظر کتاب 'شیخ سرہند  ' اس تاریخ دعوت و عزیمت کے مختلف پہلوؤں کو سامنے لاتی ہے۔ اس کتاب کے فاضل مرتب جمیل اطہر سرہندی پیشے کے لحاظ سے صحافی ہیں اور دائرہ صحافت میں ان کی سرگرمیاں گذشتہ چار عشروں پر محیط ہیں۔ جمیل اطہر کے قلم میں جو جرأت و جسارت اور بیباکی کا عنصر ہے، اغلباً یہ بھی حضرت مجدد کی سیرت کا ایک ادنیٰ پرتو ہے۔ جمیل اطہر کے آباؤ اجداد سرہند کی سرزمین میں بستے تھے اور انہیں حضرت مجدد کی خانقاہ اور سلسلہٴ طریقت سے ایک ذ ہنی اور قلبی لگاؤ تھا۔

فاضل مرتب کو ایک مرتبہ ۱۹۵۴ء میں اپنے والد کی ہمراہی میں اور دوسری مرتبہ ۱۹۸۸ء میں ایک وفد کے ہمراہ سرہند کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ حضرت مجدد کے ساتھ اسی خاندانی اور شخصی محبت نے انہیں 'حضرت مجدد الف ثانی سوسائٹی' کی تشکیل کا داعیہ بخشا۔ جس کے مختلف جلسوں میں جو متعدد مضامین پڑھے گئے، وہ سب جرعاتِ علمی اب اس ارمغانِ علمی کی شکل میں پیش خدمت ہیں۔ پیش لفظ کے علاوہ اس میں ۲۳ نثری مضامین اور دو اُردو منظومات شامل ہیں۔ ان مضامین میں سات مستقل مضامین خود فاضل مرتب کے قلم سے یادگار ہیں۔

اس مجموعہ مبارک کے مطالعہ سے برصغیر کے ایک خاص عہد میں اس دینی ابتلا کا اندازہ ہوتا ہے جس کے دفاع کے لئے حضرت مجدد نے عظیم تجدیدی کارنامہ سرانجام دیا۔ عجمی تصوف اور وحدت الوجود کی دلدل میں اُتری ہوئی امت کے بے بس افراد کو 'اثبات النبوة' اور 'مکتوبات 'جیسی تحریروں کے ذریعے ساحل عافیت پر لانے کی کوششیں کی گئیں۔ شعائر ِاسلامی کے انسداد کے باعث مجدد علیہ الرحمہ نے اسلامی تہذیب و ثقافت کی روایات کے دفاع میں جو عظیم خدمات پیش کیں، ان کے باعث ملت کو ایک مرتبہ پھر اپنا تشخص نصیب ہوا اور سیاسی سطح پر یہ دوقومی نظریے کی مثبت اساس تھی جس پر آگے چل کر اسلامیانِ ہند نے اپنی سیاسی جدوجہد کو استوار کیا۔ حضرت مجدد نے تصوف کی اصلاح و تجدید کے لئے جو عظیم کارنامہ سرانجام دیا اس کی تفصیلات بھی اس مختصر مجموعہ مضامین کا مستقل حصہ ہیں۔ اس کتاب کا اسلوبِ ترتیب موزوں ہے اور اس کے مطالعے سے برصغیر کی تاریخ کے سب سے سیاہ اور سب سے روشن پہلو کا علم اور اِدراک حاصل ہوتا ہے۔ فاضل مرتب اس مقصد میں بخوبی کامیاب ہیں۔ (پروفیسر عبدالجبار شاکر)

ضیاء الکلام شرح عمدة الاحکام از مولانا محمود احمد غضنفر


صفحات۶۶۸... جون ۲۰۰۰ء...ناشرنعمانی کتب خانہ ، اردو بازار، لاہور

اسلام دین فطرت ہے۔ ہمارا جو کام شریعت ِاسلامیہ کے مطابق ہوگا، وہ فطرت کے عین مطابق بھی ہے اور جو کام کتاب و سنت کے خلاف ہوگا، وہ عین فطرت کے منافی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنی شریعت کی حفاظت کا ذمہ خود اٹھایا اور اس کے بہت سے اسباب پیدا فرما دیئے۔ قرآنِ کریم تو عہد ِنبوی ہی میں مکمل طور پر لکھا ہوا موجود تھا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں اسے یکجا کرکے ایک مصحف کی شکل دے دی گئی۔ اس طرح تدوین حدیث کا آغاز بھی عہد ِنبوی میں ہی ہوگیا تھا۔ پھر صحابہ نے لکھ کر اور بعض نے اسے اپنے سینوں میں محفوظ کرلیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسے پروان چڑھایا۔ حتیٰ کہ پانچویں صدی ہجری میں تدوین حدیث کا کام اپنے تہذیبی و ترتیبی مراحل سے گزر کر تکمیل کو پہنچا اور محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لمحہ لمحہ کو کتابی شکل جمع کرکے وضع حدیث کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیا۔

تدوین حدیث کی تکمیل کے بعد یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ مختلف حالات کے پیش نظر مختلف عناوین کے تحت اس کا سلسلہ جاری رہا۔ محدثین نے ان پر خصوصاً صحیح بخاری پر مستخرجات، استدراکات، شروحات اور اختصارات لکھے، مختلف عناوین پر مستقل کتب تحریر کی گئیں۔ انہیں عناوین میں سے ایک موضوع احادیث ِاحکام کا بھی ہے۔

مختلف ادوار میں اس موضوع پرکتب منصہ شہود پر آئیں۔ امام عبدالحق اشبیلی ۵۸۱ھ نے چھ جلدوں میں احکام الکبریٰ لکھی۔ ابن تیمیہ نے المنتقی من الاخبار المصطفیٰ تحریر کی، اس پر امام شوکانی  نے 'نیل الاوطار' کے نام سے شرح لکھی۔ ابن دقیق العید نے 'الالمام فی احادیث الاحکام' لکھی۔ حافظ ابن حجر نے 'بلوغ المرام' لکھی۔

اسی سلسلہ کی ایک کتاب 'عمدة الاحکام عن سیدالاحکام' جس کے مصنف امام تقی الدین عبدالغنی ہیں۔ جو ایک جلیل القدر محدث، عظیم فقیہ اور زہد و تقویٰ میں یکتائے روز گار تھے۔ ابن رجب حنبلی  اورمتعد د جلیل القدر علما نے ان کے متعلق تعریفی کلمات ذکر کئے ہیں اور خود انہیں امیرالمومنین فی الحدیث کا خطاب دیا ہے۔ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتاہے جو منکرات کے خلاف ، ہاتھ ، زبان اور دل سے جہاد کرکے خدمت دین کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت انہیں اپنے مشن سے برگشتہ نہیں کرسکی۔ امام احیاء ِسنت کا جذبہ صادقہ رکھتے تھے ۔ انہوں نے چالیس سے زائد کتب تحریر کیں۔ زیر نظر کتاب عمدة الاحکام اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں مصنف نے صرف صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احکام سے متعلقہ احادیث کو فقہی ترتیب سے جمع کردیا ہے تاکہ قاری ان احادیث کو پڑھتے ہوئے کسی قسم کے شک و شبہ کا شکار نہ ہو۔ اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایاجاسکتا کہ یہ اکثردینی مدارس میں شامل نصاب ہے اور اب تک اس کی نصف درجن سے زائد شروحات و حواشی لکھی جاچکی ہیں۔ جن میں ابن دقیق العید کی کتاب 'احکام الاحکام شرح عمدة الاحکام' اور شیخ عبداللہ بن عبدالرحمن آلِ بسام کی کتاب 'تیسیر العلام شرح عمدة الاحکام' قابل ذکر ہیں۔

یہ کتاب چونکہ عربی میں ہے اور اس کی شروحات بھی عربی میں ہیں۔ اس لئے عرصہ سے عمدة الاحکام کے ایسے ترجمہ جو عام فہم ہو، زبان سادہ اور اس کے ساتھ ضروری تشریح و توضیح ہو، کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔

اللہ جزائے خیر دے مولانا محمود احمد غضنفر کو جنہوں نے سلیس اسلوب میں اس کا ترجمہ اور ضروری تشریحات سے اس ضرورت کو کافی حد تک پورا کردیا ہے۔ کتاب کی نمایاں خوبی یہ ہے کہ شستہ اور دلآویز زبان میں سب سے پہلے معنی الحدیث کے عنوان سے حدیث کا ترجمہ کیا ہے۔ پھر مفردات الحدیث کے عنوان سے مشکل الفاظ کے معنی، پھر خلاصہ کے طور پر حدیث کا مفہوم۔ پھر اس سے مستنبط مسائل کو الگ الگ عنوانات کے تحت جمع کرکے لغت ِعرب سے نابلد حضرات کے لئے استفادہ کا سامان کردیا ہے۔

مولانا نے اس تالیف میں خوب دادِتحقیق دی ہے۔ آپ کی بہت سی دیگر تالیفات بھی خوب مقبول ہیں۔ ان کے جس شگفتہ اسلوبِ بیان اور شستہ دلآویز زبان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کا ثبوت ان کی کتب جرنیل صحابہ، حیاتِ صحابہ کے درخشاں پہلو، حیاتِ تابعین کے درخشاں پہلو، صحابیاتِ مبشرات وغیرہ بھی فراہم کرتی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اس خدمت ِدین کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اسے ان کے لئے آخرت کا زادِ راہ بنائے۔

زیر تبصرہ کتاب ضیاء الکلام شرح عمدة الاحکام ۶۶۸صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا معیاری کاغذ، نظر امروز کمپوزنگ دیدہ زیب، ٹائٹل اور ا س کی خوبصورت اور مضبوط جلد بڑی جاذب ِنظر ہے ۔ احادیث احکام پر مبنی اس کتاب کا مطالعہ ہر مسلمان کو کرنا چاہئے۔ (مبصر: محمد اسلم صدیق)

صلوٰة النبی کے حسین مناظر از ابوانشاء قاری خلیل الرحمن جاوید


صفحات۴۹۶... قیمت۲۹۹روپے...ناشرجامعہ الاحسان الاسلامیہ، کراچی

'ابوانشاء' کنیت رکھنے والے جناب قاری خلیل الرحمن جاوید جامعة الاحسان الاسلامیہ، منظور کالونی کراچی کے مدیر ہیں۔کراچی یونیورسٹی سے ڈبل ایم اے کر رکھا ہے۔ قبل ازیں جناب موصوف کی دو کتب 'مرد وزن کی نماز' اور 'مہد سے لحد تک' منظر عام پر آکر داد حاصل کرچکی ہیں۔ان کی تحریر میں ناصحانہ انداز غالب ہے۔ مصنف نے سلیس اور واضح اسلوب سے کتاب"صلوٰة النبی کی حسین مناظر" تالیف کی ہے۔ نام سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف نماز کے گرد گھومتی ہے، لیکن فاضل مصنف نے اسے طہارت سے لے کر نمازِ جنازہ تک پھیلا دیا ہے۔ شریعت ِاسلامیہ میں عقائد کے بعد سب سے زیادہ اہمیت عبادات کو دی گئی ہے اور عبادات اسلامی معاشرہ کی تشکیل میں اساسی کردار اداکرتی ہیں۔

نماز ایسے اہم فریضہ پر اُردو زبان میں جو کتب آج سے پہلے لکھی گئی ہیں، چندایک کے ماسوا باقی میں مسلکی تعصب، غیر واضح انداز، دقیق انداز بیان اورمسائل میں اُلجھاؤ پایاجاتا ہے۔ لیکن فاضل مصنف نے فقہی اختلافات سے ہرممکن پہلوتہی اختیار کرتے ہوئے مختلف فیہ مسائل میں ہر طرف کے دلائل نقل کرکے ترجیح اور وجہ ترجیح ذکر کرتے ہوئے قاری کو عمل میں آسانی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ نماز کو صحیح معنوں میں باہمی اُخوت کی سبیل ثابت کیا ہے۔ اپنے استدلال میں قرآن و سنت اور عمل صحابہ کو محور بناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اسلام جس اجتماعیت کا مسلمانوں سے تقاضا کرتا ہے ، وہ نماز کے بغیر ممکن نہیں۔

آپ نے نماز کے موضوع پر قلم اٹھا کر الجھاؤ کے شکار حضرات کے لئے اطمینان کا راستہ نکالا ہے تاکہ وہ نماز کی ایمانی لذت حاصل کرسکیں۔ چنانچہ نماز کے متعلقہ کوئی پہلو ایسانہیں جس میں تشنگی پائی جائے۔ کتاب بارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں عبادت کا بیان ہے، جس میں مقصد ِعبادت، مطلب عبادت، فلسفہ عبادت، اہمیت ِنماز، فوائد ِنماز، مقبول نماز کے علاوہ بہت سیپہلوؤں پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ دوسرا باب طہارت کے فقہی مسائل پرمشتمل ہے ، تیسرا باب طہارت کے اہم پہلو 'وضو' کے بارے میں ہے۔ چوتھا باب لباس اور ستر کے لئے خاص کیا گیا ہے۔ جبکہ پانچواں باب تاریخی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں مساجد کی تاریخ، شرعی حیثیت اور آداب کو واضح کیا گیا ہے۔ چھٹا باب اوقاتِ نماز اور ساتواں باب اذان کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ آٹھواں باب صف بندی کے موضوع کو لئے ہوئے ۔ نواں باب امامت، نماز باجماعت کے عنوان پر ہے جس میں عورت کی امامت جیسے نازک فقہی مسئلہ پر مستند شرعی نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے۔دسواں باب 'سترہ' کے لئے خاص جبکہ گیارہویں باب میں مختلف نمازوں کی رکعات پر سیر حاصل بحث موجود ہے جو نماز تراویح، عیدین، وتر، اشراق جیسی نمازوں کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ جبکہ بارہواں اور آخری باب مسنون طریقہ نماز پر مشتمل ہے، جو نمازاو رکتاب کی جان قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس باب میں بہت سارے مسائل پر فاضل مصنف نے تفصیل سے قلم اٹھایا ہے جو انکے وسیع مطالعہ کی دلیل ہے۔ عورتوں کے طریقہ نماز پر بھی ایک مستقل بحث اس باب میں شامل کی گئی ہے۔

فنی اعتبار سے بھی یہ کتاب ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے کہ کتاب کی اجمالی فہرست کے ساتھ ساتھ تفصیلی فہرست بھی دی گئی ہے اور ہرباب کو ایک نئے صفحہ سے شروع کرتے ہوئے ذوق جمال کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ ہر 'باب' بسم اللہ سے شروع ہوتاہے جس کے اگلے صفحہ پر باب نمبر، اور عنوان باب کے نیچے اس باب کے متعلقہ قرآنی آیت، حدیث ِنبوی یا پھر شعر درج کیا گیا ہے۔ خصوصیت سے کتاب کے آخری باب 'مسنون طریقہ نماز' میں نما زکی ان تمام حالتوں کو تصویری خاکوں سے واضح کیا گیا ہے جہاں عام طور پر قاری اُلجھن کا شکار ہوسکتا ہے اور منقولات کے ساتھ معقولات کا بھی ایک درجہ تک اہتمام کیا گیاہے۔

کتاب کے آخر میں اسماء حسنیٰ کے فضائل، اسماء حسنیٰ کا معانی کے ساتھ خانوں میں اندراج، دعاے قنوت اور قنوت پڑھنے کا طریقہ، بارگاہِ ایزدی میں التجائیہ دعا اور نظم "سرجھکا اے بے نماز!" کے علاوہ یادشتوں کے لئے مخصوص صفحہ سے کتاب کے اشاعتی حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔

"صلوٰة النبی کے حسین مناظر" میں برمحل شعروں سے بھی کام لیا گیا ہے ، اور واقعات سے بھی چاشنی پیدا کی گئی۔ اعلیٰ کاغذ، نفیس پرنٹنگ، فورکلر ٹائٹل اور مضبوط جلد سے کتاب کا گیٹ اپ خوبصورت ہوجاتا ہے۔اس کتاب پرجامعةالاحسان الاسلامیہ، کراچی کے شیخ الحدیث حضرت عبدالرزاق حفظہ اللہ نے مہر تصدیق و توثیق ثبت کی ہے، جبکہ دیباچہ پروفیسر عبدالجبار شاکر نے تحریر فرمایا ہے۔ جن کے بقول

"یہ کتاب نماز مسنونہ کا انسائیکلو پیڈیا ہے اور عامة المسلمین کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔"

یہ کتاب اس اہمیت کی حامل ہے کہ اسے اپنی لائبریری کے لئے ضرور حاصل کیا جائے، ان شاء اللہ 'صلوٰة النبی کے حسین مناظر' آپ کے بک شیلف کے لئے خوبصورت اضافہ ہوگی۔ اور یقینا آپ صلوا کما رأيتمونی أصلیکے منظر دیکھنے پر قادر ہوں گے۔ (مبصر: عبدالشکور ظہیر)

معراج المومنین (کتاب الصلوٰة) از اشفاق الرحمن خان


صفحات۱۷۷ ... اکتوبر ۲۰۰۰ء

توحید کے بعد اسلام کا سب سے اہم اور عظیم الشان رکن نماز ہے اور نماز موٴمن کی معراج ہے۔ لیکن وہ نماز ہی حقیقی معنوں میں موٴمن کے لئے معراج ثابت ہوگی جو «صلوا کما رأیتمونی أصلی» کی عملی تصویر ہوگی، وگرنہ یہی نماز روزِ قیامت انسان کے منہ پر مار دی جائے گی۔ روایت ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے ایک شخص کو نما زپڑھتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کب سے یہ نماز پڑھ رہے ہو؟ اس نے کہا: چالیس سال سے، فرمایا: «ما صليت لومُتَّ لمُتَّ علی غير أمة محمدﷺ»

"تیری نماز نہیں ہوئی، اگر تو اسی پر فوت ہوگیا تو تیری موت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر نہیں ہوگی۔"

زیرتبصرہ کتاب نمازکے موضوع پر ہے جسے جناب اشفاق الرحمن خان نے مرتب کیا ہے۔ فاضل موٴلف اپنے دل میں دین کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اوران کی یہ کتاب نماز کے موضوع پر ایک بہترین کاوش ہے جس میں فاضل مصنف نے نمازاور اس کے متعلقہ طہارت، غسل وغیرہ تمام مسائل کو نہایت ہی عمدہ ترتیب کے ساتھ جمع کردیا ہے۔ زبان سلیس اور اسلوبِ تفہیم سادہ اور سہل ہے۔ مصنف نے اختلافی مباحث سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اپنی ذاتی رائے بیا ن کرنے کی بجائے ہر مسئلہ کے تحت اس سے متعلقہ صحیح احادیث کے ذکر پراکتفا کیا ہے، تاکہ قاری خود فیصلہ کرے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ؟ اکثر بخاری اور مسلم کی احادیث سے استدلال کیا گیا ہے۔ احادیث کا ترجمہ سلیس اور عام فہم ہے، اگرچہ بعض جگہ ابہام کی شکایت محسوس ہوتی ہے۔بعض مقامات پر حدیث سے مستنبط مسائل کو نہایت خوبی سے بیان کیا گیا ہے اور تقریباً نماز کے متعلقہ تمام مسائل کو اجاگر کرکے زیورِ احادیث سے آراستہ کردیا ہے۔

فاضل مصنف کو چاہئے تھا کہ وہ پہلے کتاب کو ابواب پر تقسیم کرتے، پھرہر باب کے متعلقہ مسائل اس کے تحت ذیلی ترتیب سے رقم کرتے تاکہ قاری کے لئے مزید آسانی پیدا ہوتی۔ مصنف نے کتاب کو ۶۹ عنوانات پرتقسیم کیا ہے۔ بہرحال عنوانات کی ترتیب نہایت عمدہ ہے۔ سب سے پہلے احادیث اور اقوال ائمہ اربعہ سے یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مطاعِ حقیقی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی کی بات حجت نہیں ہوسکتی۔اس کے بعد قرآن مجید سے نما زِپنجگانہ کا ثبوت ذکر کیا ہے۔ پھر پانی کے احکام اور مسائل طہارت (وضو ،غسل تیمم) کاتذکرہ ہے۔ اس کے بعد نما زکی اہمیت، اوقات، اذان کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ پھر مسجدکے آداب و مسائل کا تذکرہ ہے۔ پھر نمازِ پنجگانہ کی جماعت کی فضیلت اور اس سے متعلقہ احکام تعداد رکعات، شرائط ِنماز اور نماز کی ترکیب کو نہایت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس سے پہلے سترہ کے احکام بیان کئے ہیں۔

فرض نماز کی مفصل ترکیب کے بعد نمازِ وتر، قنوتِ نازلہ اور نمازِ تہجد پھر نمازِ تراویح، اس کے بعد نمازِ جمعہ کی تفصیلات کا ذکر ہے۔ پھر مسافر، عورت، مریض کی نماز کے احکام ذکر کئے ہیں۔ اس کے بعد نفلی نمازوں، عیدین، استسقاء، اشراق وغیرہ کا تفصیل سے ذکر ہے۔

کتاب میں بعض تسامحات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر فاضل مصنف نے چھ کلمات کا ذکر کیا ہے: حالانکہ حدیث میں کلمہ طیبہ لااله الا الله کا ثبوت ہے یا ایک صحابی سے یہ الفاظ ثابت ہیں: أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمد رسول اللهﷺ رہے باقی کلمات تو انہیں کلمہ توحید، تمہید، استغفار اور ردّ کفر وغیرہ کانام دینا ثابت نہیں اور نہ ہی اوّل، دوم، سوم وغیرہ کی اصطلاح کا کہیں وجود ہے۔ انہیں زیادہ سے زیادہ اَدعیہ کا نام دیاجاسکتا ہے۔ وہ بھی اس وقت جب ان کی صحت ثابت ہو جائے۔ انہیں چھ کلموں پر محصور کرنا اورپھر ان کے ساتھ مذکورہ اصطلاحات کا لاحقہ لگانا بدعت کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس تسامح کے باوجود مجموعی لحاظ سے کتاب کی عمدگی کا اعتراف نہ کرنابخل ہوگا۔

اعلیٰ کاغذ، عمدہ کمپوزنگ، دیدہ زیب پرنٹنگ نے کتاب کو اور زیادہ جاذبِ نظر بنا دیا ہے۔ اس لحاظ سے کتاب کی اہمیت اوربھی بڑھ جاتی ہے کہ اس پر نظرثانی کا کام جامعہ لاہور الاسلامیہ کے نائب شیخ الحدیث مولانا محمد رمضان سلفی اور مصنف کتب ِکثیرہ مولانا عبدالجبار سلفی نے کیا ہے۔ (مبصر: محمد اسلم صدیق)