تہذیبی تصادم ، المیہء افغانستان اور عالم اسلام کا کردار

ہم ذیل میں دو حوالوں سے اپنے موضوع پر گفتگو کریں گے

(1) مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہے؟ (2) اور کیاہونا چاہئے؟

پہلے حصے یا سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ اس وقت مسلمانانِ عالم کا کوئی عالمی کردار نہیں ہے۔ یعنی کہنے کو تو مسلمانوں کی ۶۰ مملکتیں ہیں اور ان میں اور دیگر ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد بھی ایک اَرب سے متجاوز ہے۔ علاوہ ازیں مسلمان افرادی قوت اور متعدد قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہیں، ان کا جغرافیائی محل وقوع بھی نہایت اہمیت کا حامل اور تقریباً باہم پیوست ہے جو ایک نہایت عظیم اکائی اور زبردست قوت بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود مسلمان ممالک کی حیثیت صفروں کے مجموعہ سے زیادہ نہیں۔ وہ ایک تودہٴ خاک ہیں جو کسی طوفان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتا، وہ ایک چراغِ رہ گزر ہیں جو بادِتند تو کیا بادِنسیم کا جھونکا بھی برداشت نہیں کرسکتا، وہ گردابِ بلا میں پھنسی ایک ڈولتی کشتی ہیں جس سے طوفانِ بلاخیز کی خوفناک موجیں اٹھکیلیاں کررہی ہیں۔ وہ ایک ایسا گنگا ہیں جو سیلابی ریلے کے ساتھ بہنے پر مجبور ہے، وہ انسانوں کاایک ایسا ریوڑ ہیں جس کی کوئی سمت ہے، نہ اس کا کوئی رکھوالا۔ وہ گم گشتہ راہی ہیں جسے اپنی منزل کا پتہ ہے، نہ اس کا کوئی شعور ہی انہیں حاصل ہے۔ وہ بیوہ کا آنچل ہیں جسے کوئی بھی نوچ کر پھینک سکتا ہے، وہ یتیم کا آنسو ہیں جس کی کوئی اہمیت نہیں، وہ ایک گدائے بے نوا ہیں جس کی کوئی عزت و آبرو نہیں اور وہ ایک شہر خموشاں کی مانند ہیں جس میں زندگی کی کوئی حرارت و توانائی نہیں۔ یا بالفاظِ دگراِن کے پاس عصا ہے لیکن کوئی کلیمی کردار ادا کرنے والا نہیں۔ دعاے ایمان ہے لیکن ضربِ یداللّٰہی نہیں، حسین سے نسبت پر فخر ہے لیکن رسم شبیری ادا کرنے کی ہمت نہیں، نبی آخر الزمان حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جذباتی تعلق و و ابستگی ضرور ہے لیکن اسوہ ٴ رسول اپنانے کے لئے تیار نہیں اور قرآن کریم جیسا نسخہ کیمیا اور نسخہ شفا ان کے پاس موجود ہے لیکن شدتِ مرض سے جاں بلب ہونے کے باوجود اسے استعمال کرنے کے لئے تیار نہیں!!

قارئین کرام! یہ مفروضات نہیں، الفاظ کے طوطا مینا نہیں، پروپیگنڈہ کی شعبدہ گری نہیں، حقائق ہیں گو تلخ ہیں، واقعات ہیں جو ہر شخص کے تجربہ و مشاہدہ کا حصہ ہیں۔ یہ ہمارا وہ کردار ہے جو 'عیاں راچہ بیاں' کے مصداق محتاجِ وضاحت نہیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اسلامیانِ عالم کا یہ حال ان کے اپنے اخلاق و کردار کا نتیجہ اور ان کے اپنے اعمال کا برگ و بار ہیں *

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روزِ سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے!


ورنہ یہی مسلمان تھے جنہوں نے بدرواُحد کے معرکے سر کئے تھے، قیصر و کسریٰ کی عظیم الشان سلطنتوں کو روند ڈالا تھا، ساری دنیا پر اپنی عظمت و رِفعت کے پرچم لہرائے تھے اور اپنے تمدن و تہذیب کا سکہ رواں کیا تھا۔ آج ان کے برعکس ایسا کیوں ہے کہ ان کاخون مانند ِآب، ارزاں ہے؟ انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے ، ایک مسلمان ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، لیکن سارا عالم ٹک ٹک دیدم نہ کشیدم، کا مصداق بنا رہا۔ بلکہ ہم نے تو اپنے کندھے بھی یہ کہہ کر پیش کردیئے کہ

ع تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر!

ہماری گذشتہ روشن تاریخ کے مقابلے میں، عالم اسلام کا حالیہ کردار، جس میں پاکستان سرفہرست ہے، نہایت حیرت و استعجاب کا باعث ہے۔ ایک وقت وہ تھا کہ جب سندھ میں راجہ داہر کے زیرنگیں علاقے میں بحری قزاقوں نے مسلمانوں پر جبر و ظلم کیا تو ایک مسلمان عورت نے ہزاروں میل دور حجاج بن یوسف کو مدد کے لئے پکارا اور یہ پکار اور فریاد جب حجاج کے علم میں آئی تو اسی وقت اس نے لبیک کہا اور اس نے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے ایک لشکر ِجرار روانہ کردیا جس نے آخر سندھ اور ہندی اسلامی فتوحات کا دروازہ کھولا۔ آج دنیا نے دوسرا منظر دیکھا کہ وہ طالبان، جن کو ان کے اسلامی تشخص کی بنا پر پاکستان نے بھی سپورٹ کیا، اور بھی بعض اسلامی ممالک نے ان سے تعاون کیا اور اس تعاون سے انہوں نے افغانستان کے نوے فیصد حصے پر اسلام کا نفاذ کردیا، شرعی حدود جاری کیں، اسلحے اور منشیات، بدامنی اور قتل و غارت گری کی وارداتوں سے ملک کو محفوظ کیا، عورتوں کی بابت اسلامی تعلیمات کی پابندی کی، مخلوط تعلیم، مخلوط ملازمت ختم کی اور ان کے لئے مردوں سے الگ بعض شعبوں میں تعلیم اور ملازمت کا انتظام کیا (جو اسلامی تعلیمات کا اور وقت کا اہم تقاضا تھا)،اور امن و سکون کا ایک نہایت قابل رشک ریکارڈ قائم کرکے وہ تباہ حال افغانستان کی تعمیر نو کا کام نہایت اخلاص، بے لوثی اور برق رفتاری سے کررہے تھے کہ امریکہ میں گیارہ ستمبر کو ہونے والی دہشت گردی کی واردات کو بہانہ بنا کر اور بلا ثبوت اسامہ بن لادن کو ذمے دار ٹھہرا کر افغانستان کو اور اس میں قائم اسلامی حکومت کو تہس نہس کردیا۔ حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی جس میں سرعت، ماہرانہ چابک دستی اور سازش کی گہرائی اور گیرائی نے دنیا کو حیرت زدہ اور امریکیوں کو مبہوت کردیا، اسامہ یا اس کی تنظیم 'القاعدہ' کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ یقینا ایک ایسے گروہ کی کارروائی ہے جو امریکی ہی ہے اور اسے امریکہ کے خصوصی اداروں تک رسائی بھی حاصل ہے۔ لیکن امریکہ طالبان کو صرف اس لئے ختم کرنا چاہتا تھا کہ مفلس و قلاش ہونے کے باوجود انہوں نے امریکہ کی دریوزہ گری کرنی پسند نہیں کی۔ دوسرے، صدیوں سے امن سے محروم علاقے میں اسلام کی حکمرانی کے ذریعے سے انہوں نے عملاً امن قائم کرکے دکھا دیا۔

قابل غوربات یہ ہے کہ کیا دہشت گردوں کے ہاتھوں بھی کبھی امن قائم ہوا ہے؟ کیا دہشت گردوں کے ذریعے سے بھی لوگوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ ہوا ہے؟ کیا دہشت گردوں کے اقدامات سے بھی کبھی تعمیر وطن کا کام ہوا ہے؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا نفی میں ہے تو کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوجاتا کہ طالبان دہشت گرد تھے نہ دہشت گرد کے پشتیبان۔ وہ تو اسلام کے محافظ تھے، وطن کے معمار تھے، ناقہ ٴ ملت کے حدی خواں تھے، اسلامی اقدار و روایات کے پاسبان تھے، اسلامی تہذیب کے علم بردار اور قرونِ اُولیٰ کے سے اخلاق و کردار کے حامل تھے۔ اسی لئے وہ عالم اسلام کی اُمیدوں کا مرکز تھے، الحاد و زندقہ کی تاریکیوں میں قندیل ربانی تھے، ظلمت ِشب میں صبح درخشاں کی نوید جاں فزا تھے، وہ مقاصد فطرت کی نگہبانی کرنے والے بندگانِ صحرائی اور مردانِ کہستانی تھے، وہ عجم کا حسن طبیعت اور عرب کا سوزِ دروں تھے اور اس دور میں جبکہ سوائے سعودی عرب کے کوئی بھی اسلامی ملک اسلامی عقیدہ و ایمان کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کے لئے تیار نہیں، وہ سرمایہٴ ملت کے نگہبان اور علامہ اقبال کے ان اشعار کے مصداق تھے *

یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے

جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی

دونیم، ان کی ٹھوکر سے صحراء و دریا

سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

شہادت ہے مطلوب و مقصود موٴمن

نہ مالِ غنیمت، نہ کشور کشائی

افسوس!

وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دیئے

ڈھونڈا تھا آسمان نے جنہیں خاک چھان کر!

مرورِ ایام کی دبیزتہوں اور لیل و نہار کی ہزاروں گردشوں کے بعد چشم فلک نے ایسے حکمران دیکھے تھے جن کا رہن سہن، طور اطوار اور طرزِ بودوباش اسی طرح عام انسانوں کا سا تھا جس کی مثالیں خلفائے راشدین نے قائم کی تھیں۔ شاہانہ کروفر سے دور، امیرانہ ٹھاٹھ باٹھ سے پاک اور مسرفانہ و عیاشانہ طرزِزندگی سے نفور، سارے وسائل عوام کی فلاح و بہبود کی نذر اور شب و روز کا ہر لمحہ ملک و ملت کی خدمت کے لئے وقف۔ انہوں نے فقیری میں بادشاہی کی، غریبی میں خود داری کا مظاہرہ کیا، تباہ حالی کے باوجود گدائی کا کاسہ اور کشکول نہیں اُٹھایا، کسی کے سامنے جھولی نہیں پھیلائی، غیروں کی دریوزہ گری نہیں کی، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے حسین جالوں میں نہیں پھنسے۔ بلکہ فاقہ کشی،بھوک، قحط اور بے سروسامانی کے باوصف خود انحصاری کی پالیسی اپنائی۔ لیکن افسوس! قلب و نظر کی کجی اور نگہ کی نامسلمانی نے ان کی خوبیوں کو برائی سمجھا، ان کی غیرت و خود داری کو 'نادانشی' باور کرایا، ان کے عزم و ایمان کو ایک ناقابل معافی جرم قرار دیا ع

کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں!

اور اپنے دین پر استقلال و ثابت قدمی کو 'انتہا پسندی' کا عنوان دیا اور ان کی سادگی کو 'فریب خوردگی' سے اور مغرب کی حیا باختہ تہذیب سے نفرت کو 'بے خبری' سے تعبیرکیا اور جب ان طعنوں سے بھی کام نہ بنا اور افغانستان پر ان کی گرفت کمزور ہونے کی بجائے مضبوط تر ہوتی گئی تو بھیڑیے اور میمنے کے مشہور واقعے کی طرح ۱۱/ ستمبر کے واقعے کو بہانہ بناکر ان پر آتش و آہن کی بارش کردی۔ انہوں نے اگرچہ مردانہ وار مقابلہ کیا اور اپنے خون سے شجاعت و مردانگی کی ایک لازوال تاریخ رقم کردی۔ لیکن وہ چونکہ نہتے تھے جدید اسلحی و سائل سے محروم تھے اور ان تابڑ توڑ فضائی حملوں کا جواب دینے سے قاصر تھے جو دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد نے ان پر کئے۔ اس وحشیانہ بمباری اور خونخوارانہ دہشت گردی نے انہیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ یوں ان کی خوبیاں ان کے لئے بلائے جان بن گئیں ع

اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی

اور یہ ظلم، وحشت و بربریت کا یہ مظاہرہ اور درندگی و خون آشامی کی یہ حرکت صرف دشمنوں ہی نے نہیں کی، بلکہ اپنے بھی اس میں شریک ہوگئے۔ بیگانوں ہی نے وار نہیں کئے، دوستوں نے بھی خنجر گھونپنے سے گریز نہیں کیا، اعدائے دین ہی نے انہیں کشتنی قرار نہیں دیا بلکہ نام نہاد مسلم حکمرانوں نے بھی انہیں گردن زدنی ہی سمجھا۔یہ مظلوم طالبان بہ زبانِ حال کہہ رہے ہیں *

من از بیگانگاں ہرگز نہ نالم

کہ بامن آنچہ کرد آں آشنا کرد

اور بقول حفیظ جالندھری *

دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی!

دوستوں نے اپنوں پر ناوک افگنی کے لئے دلیل یہ پیش کی کہ ہم نے انہیں بہت سمجھایا، صورتِ حال کی نزاکت کا احساس دلایا، وہ سمجھے بغیر اور حالات کی خطرناکی کے اِدراک سے قاصر رہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ بات ایسی نہیں ہے جوباور کرائی جارہی ہے۔ طالبان کا رویہ ہرگز عدمِ مفاہمت کانہیں تھا، وہ تو ۱۹۹۸ء سے یہ کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے پاس اگر اسامہ کے دہشت گردی کی کسی کارروائی میں ملوث ہونے کا ثبوت ہے تو وہ کسی غیر جانبدار عدالت میں پیش کرے، ہم اس کے لئے اسامہ کو کسی تیسرے ملک کی تحویل میں دینے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن چونکہ اس کے پاس ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا اور نہ ہے، اس لئے مذاکرات کی یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ اس کے پاس صرف اتہامات و مفروضات ہیں جنہیں وہ دھونس اور دھاندلی سے ثبوت باور کرانا چاہتا تھا۔ اس کا اصل مقصد تو افغانستان سے ایسی حکومت کا خاتمہ تھا جو دنیا میں اسلامی عدل و انصاف کی مظہر اور اسلامی اخوت و مساوات کا نمونہ تھی۔ بلاشبہ امریکہ کے کچھ اور سیاسی و معاشی مقاصد بھی ہیں لیکن بڑا مقصد احیائے اسلام اور جہاد کے بڑھتے ہوئے اس جذبے کا خاتمہ تھا جو طالبان کے طرزِ حکومت اور ان کی منصفانہ پالیسیوں سے پیدا ہورہا تھا۔ جس کا علاج بقولِ اقبال انہوں نے یہی سوچا *

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا

روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو!

فکر عرب کو دے کے فرنگی تخیلات

اسلام کو حجاز و یمن سے نکال دو!

افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج

ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو!

اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو

آہو کو مرغزارِ ختن سے نکال دو!

اقبال* کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز

ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو!

اقبال مرحوم کا یہ کلام ضربِ کلیم میں ہے، اس نظم کا عنوان ہی یہ ہے

"ابلیس کا فرمان، اپنے سیاسی فرزندوں کے نام"

چنانچہ ابلیس کے سارے سیاسی فرزندوں نے مل کر، جس کا نام عالمی اتحاد ہے، افغانستان کے چمن سے اس کے اس غزل سرا کو نکال دیا، جس نے افغانستان کو امن و استحکام عطا کیا تھا جو کسی ملک کی تعمیر نو کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے۔

اب افغانستان میں پھر قتل وغارت گری کا بازار گرم اور لوٹ کھسوٹ اور خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہے اور امن و استحکام ایک خواب و خیال بن کر رہ گیا ہے۔ اگر ان عالمی دہشت گردوں کا مقصد افغانستان میں امن و استحکام قائم کرکے اس کی تعمیر نو ہوتا، تو یہ کام طالبان سے مفاہمت کرکے ہی ممکن تھا۔ اب یہ مقصد سالہا سال تک حاصل ہوتا نظر نہیں آتا *

جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے      وہی چراغ چلیں گے تو روشنی ہوگی!

طالبان کے مخالفین ذرا گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جو کارروائی ہوئی ہے، اس سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوا ہے یا دہشت گردی کا دیو اور زیادہ قوی ہوگیا ہے؟ امن و استحکام قائم ہوا ہے یا اس کے برعکس بدامنی اور عدم استحکام میں اضافہ ہوگیا ہے؟ اگر یہ تسلیم ہے اور ایک حقیقت ہے کہ دہشت گردی ختم نہیں بلکہ بڑھی ہے اور آئندہ بھی کم ہونے کا نہیں بلک بڑھنے کا امکان ہے تو پھر اس کارروائی کا کیا جواز ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی ہے؟

المیہ افغانستان پر اسلامیانِ عالم کا اضطراب

دنیاے اسلام کے عام مسلمان بلا شبہ المیہ افغانستان پر خون کے آنسو رو رہے ہیں *

آسماں را حق بود گر خوں بہ بار برزمیں

بر زوال تو مجاہد اے امیر المؤمنین

وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے اور کرنا چاہتے ہیں، لیکن بے بس ہیں اور احتجاج و اضطراب کی صدا بلند کرنے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ الحمدللہ! عوام نے اپنا یہ فرض ادا کیا، وہ تڑپتے رہے اور تڑپ رہے ہیں، مضطرب و پریشان رہے اور مضطرب و پریشان ہیں۔ بلاشبہ ان کا یہ اضطراب اور پریشان ہونا، ان کے ایمان کی علامت اور ان کے جذبہ اُخوتِ اسلامی کا مظہر ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ گرامی ہے:

«تری المؤمنين فی تراحمهم وتوادهم وتعاطفهم کمثل الجسد إذا اشتکی عضوا تداعی له سائر جسده بالسّهر والحمی»(صحیح بخاری: الادب، باب رحمة الناس والبهائم، حدیث ۶۰۱۱)

"تم موٴمنوں کو ایک دوسرے پر رحم کرنے، باہم نرمی اور محبت کرنے میں ایسا دیکھو گے جیسے ایک جسم ہوتا ہے، جسم کا جب کوئی ایک حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم ہی تکلیف محسوس کرتا اور اس کی وجہ سے بیدار رہتا اور بعض دفعہ بخار تک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔"

ایک دوسری حدیث میں فرمایا:«المؤمنين للمؤمن کالبنيان يشد بعضه بعضا»

(صحیح بخاری: المظالم، باب نصر المظلوم، حدیث ۲۴۴۶)

"موٴمن، موٴمن کے لئے ایسے ہے جیسے ایک دیوار یا عمارت ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مضبوطی کا باعث ہوتا ہے۔"

قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفت یہ بیان فرمائی ہے :

﴿وَالمُؤمِنونَ وَالمُؤمِنـٰتُ بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ...٧١ ﴾... سورة التوبة

"موٴمن مرد اور موٴمن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔"

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی صفت بیان فرمائی:

﴿لا تَجِدُ قَومًا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ يُوادّونَ مَن حادَّ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ وَلَو كانوا ءاباءَهُم أَو أَبناءَهُم أَو إِخو‌ٰنَهُم أَو عَشيرَ‌تَهُم ۚ أُولـٰئِكَ كَتَبَ فى قُلوبِهِمُ الإيمـٰنَ وَأَيَّدَهُم بِر‌وحٍ مِنهُ ۖ وَيُدخِلُهُم جَنّـٰتٍ تَجر‌ى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ‌ خـٰلِدينَ فيها ۚ رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَ‌ضوا عَنهُ ۚ أُولـٰئِكَ حِزبُ اللَّهِ ۚ أَلا إِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ المُفلِحونَ ٢٢ ﴾... سورة المجادلة

"تم ایسے لوگوں کو جو اللہ اور یوم آخرت پرایمان رکھتے ہیں، ایسا نہیں پاؤ گے کہ وہ ایسے لوگوں سے محبت رکھیں جو اللہ اور اس کے رسول کے دشمن ہیں، چاہے وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں میں ایمان لکھ دیا ہے اور اپنی خاص رحمت سے ان کی مدد کی ہے اور وہ ان کو ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے، یہی اللہ کا گروہ ہے اور اللہ کا گروہ ہی کامیاب ہونے والا ہے۔"

ایک اور مقام پر اللہ نے یہود و نصاریٰ کو دو ست بنانے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا اور ساتھ ہی یہ فرمایا:

﴿إِنَّما وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَ‌سولُهُ وَالَّذينَ ءامَنُوا...٥٥وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ وَالَّذينَ ءامَنوا فَإِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ الغـٰلِبونَ ٥٦ ﴾... سورة المائدة

"تمہارا دوست تو صرف اللہ، اس کا رسول اور اہل ایمان ہیں (اور یاد رکھو) اللہ کا گروہ ہی غالب آنے والا ہے۔"

ان آیات و احادیث سے واضح ہے کہ

1) اہل ایمان ایک جسم کی مانند ہیں چاہے وہ کوئی بھی ہوں، کسی بھی نسل سے ان کا تعلق ہو، کوئی بھی زبان وہ بولتے ہوں، مشرق میں رہتے ہوں یا مغرب میں۔ ایمان کے رشتے نے ان کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے ۔ وہ ایک دو سرے کے مونس و غم خوار ایک دوسرے کے دست و بازو اور دکھ درد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں *

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر        سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے!

2) یہ اللہ کا گروہ ہیں۔

3) ان کے مقابلے میں کافر شیطان کاگروہ ہیں۔

4) اہل ایمان کی محبت اور دوستی صرف اہل ایمان کے ساتھ ہوتی ہے۔ (جیسے کافر ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں) اور کافروں کے ساتھ ان کی دوستی نہیں ہوتی، چاہے وہ ان کے باپ، ان کے بیٹے، ان کے بھائی یا ان کے خاندان اور قبیلے کے فرد ہوں۔

5) فلاح و غلبہ ایسے ہی موٴمنوں کا حق ہے۔

ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

﴿وَالَّذينَ كَفَر‌وا بَعضُهُم أَولِياءُ بَعضٍ ۚ إِلّا تَفعَلوهُ تَكُن فِتنَةٌ فِى الأَر‌ضِ وَفَسادٌ كَبيرٌ‌ ٧٣ ﴾... سورۃ الانفال

"کافر ایک دوسرے کے دوست ہیں، اگر تم ایسا کرو گے (یعنی تم مسلمان بھی ایک دوسرے کے دوست نہیں بنو گے) تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پیدا ہوگا۔"

اور وہ فتنہ اور فساد یہی ہے کہ اس صورت میں کافروں کے حوصلے بڑھ جائیں گے، مسلمان مغلوب ہوجائیں گے اور اللہ کا کلمہ بلندہونے کی بجائے پست ہوجائے گا۔

اس اعتبار سے اہل ایمان کی یہ صفت کہ وہ ایک دوسرے کے دوست اور ایک دوسرے کے معاون اور انصار ہیں، مسلمانوں کی ایک پالیسی اور مقصد ِزندگی ہے اور ہونا چاہئے، اس لئے کہ اسی پالیسی میں اللہ کے دین کی بلندی کا راز مضمر ہے۔

مسلم دنیا پر مسلط حکمرانوں کا کردار

عوام کی حدتک تواہل ایمان نے اس پالیسی کا بلاشبہ اظہار کیا، لیکن مسلم حکمرانوں نے اس کے برعکس پالیسی اختیار کرکے ایک جرمِ عظیم کاارتکاب کیاہے۔ ان میں سے کچھ نے تو امریکہ کو سب کچھ پیش کردیا۔ ان کو معلومات فراہم کیں (جن کی اس دور میں بہت زیادہ اہمیت ہے) اپنی فضائی حدود کے استعمال کی اجازت دی۔ فوجی نقل و حرکت اور دیگرجنگی ضروریات و مقاصد کے لئے اپنے اڈّے انہیں دے دیے اور بھی انہوں نے جس چیز کا مطالبہ کیا، انہوں نے پیش کرنے میں تامل نہیں کیا اور یوں چند ڈالروں کے وعدئہ فردا پراپنے لئے ایمان کش اور غلامانہ کردار پسند کیا۔ آہ ع

قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند!

انہوں نے ملت فروشوں میں اپنا نام لکھوا کر ذلت و رسوائی کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے

جعفر از بنگال و صادق از دکن       ننگ ِآدم، ننگ دیں، ننگ وطن

اور کچھ مسلمان ملکوں نے اپنے اڈے تو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی، لیکن اپنے بعض ذہنی تحفظات کی وجہ سے امریکی کارروائی کو خاموشی سے دیکھنے پر قناعت کی اور بعض مسلمان ملکوں نے دبے لفظوں میں اسے صرف جلد بازی سے تعبیر کیا۔ لیکن کسی مسلمان ملک کو اس جرأتِ رندانہ کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ امریکہ سے یہ مطالبہ کرتا کہ پہلے ہمیں اسامہ کی دہشت گردی کا واضح ثبوت دکھلاؤ، اس کے بغیر تمہاری کارروائی بجائے خود دہشت گردی ہوگی۔ حتیٰ کہ اس نازک موقعے پر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس تک بلانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، صر ف وزرائے خارجہ کی حد تک۔ وہ بھی جب چڑیاں سارا کھیت چگ گئیں، ایک اجلاس ہوا اور اس میں بھی نشستند و گفتندد و برخاستند سے زیادہ کچھ نہیں ہوا، کیونکہ اس میں ایک قراردادِ مذمت تک پاس نہیں ہوئی۔

گویا سارے مسلمان ممالک اس وقت امریکہ کے غلام ہیں اور ان سب کا آقاے ولی نعمت امریکہ ہے، وہ جو چاہے کرے، اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ اقوامِ متحدہ سے کچھ لوگ امیدیں وابستہ کرتے ہیں لیکن اس کا کردار بھی ایک امریکی لونڈی سے زیادہ نہیں۔ امریکہ اسے بھی صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے اور یوں اس کا کردار بھی اپنی پیشرو' لیگ آف نیشنز' (انجمن اقوام) سے مختلف نہیں رہا، جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا *

من نہ دانم بیش ازیں کہ کفن دزدے چند

بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند

یہ سارے مسلمان ممالک، اقوامِ متحدہ سمیت، اس شعر کا مصداق ہیں *

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا

یہ ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے، ہمارا وجود ایک مجسم عبرت ہے، ذلت و رسوائی کا عجیب و غریب نمونہ ہے۔ بقول حالی مرحوم *

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

اسلام کا گر کر نہ اُبھرنا دیکھے

مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد

دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے

یا بقول اقبال مرحوم *

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

ایک اور شعر میں اس حقیقت کو یوں بیان فرماتے ہیں :

تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر

مری دانش ہے افرنگی، میرا ایماں ہے زناری

مسلمانوں کا عالمی کردار کیا ہونا چاہئے؟

بہرحال اس وقت مسلمانوں کا عالمی کردار تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب اس موضوع کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ ان کا عالمی کردار کیا ہونا چاہئے؟ اس کا جواب بھی واضح ہے کہ اسلام غالب ہونے کے لئے آیا ہے مغلوب ہونے کے لئے نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «الاسلام یعلوا ولا یعلی علیه»

اس لئے یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ ہم اس کے برعکس غالب ہونے کی بجائے مغلوب کیوں ہیں؟ فاتح کی بجائے مفتوح کیوں ہیں؟ سربلند و سرخرو ہونے کی بجائے ذلیل و رسوا کیوں ہیں؟ دنیا کے قائد ہونے کی بجائے مقتدی کیوں ہیں؟

اس کے اسباب و وجوہ مخفی نہیں، ڈھکے چھپے نہیں، کوئی سربستہ راز نہیں، بلکہ ہر شخص پرواضح اور آشکارا ہیں۔ اس کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا سبب ایمان و یقین کی کمی، اپنے نظریے اور عقیدے سے انحراف، اپنے اسلامی تشخص کے تحفظ و بقا کے جذبے سے مجرمانہ حد تک غفلت واِعراض اور غیروں کی تہذیب کو اپنانے کا شوقِ فراواں اور ان کی نقالی پر فخر کرنا ہے۔ اسے علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے ایک شعر میں یوں سمو دیا ہے ٭

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ٹی وی پر اسی مغرب کی حیا باختہ تہذیب کی یلغار ہے، ہمارے قومی اخبارات اسی تہذیب کو پھیلانے میں نہایت موٴثر کردار ادا کر رہے ہیں اور یوں بڑی تیزی سے ہم اسلامی تہذیب اور اس کے حیاء و عفت کے تصور اور ایمان و یقین سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ اقبال نے اس بات کو ظریفانہ انداز سے اس طرح بیان کیا تھا *

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی

ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ

روش مغربی ہے مد نظر

وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ

یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین؟

پردہ اُٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

اقبال نے یہ اشعار اس وقت کہے تھے جب بے پردگی اور غیروں کی نقالی کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا، اسی دور میں اکبر الٰہ آبادی نے بھی کہا تھا ٭

بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے پردہ تمہارا وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

اب اس ڈرامے کے سارے سین سامنے آگئے ہیں، پردہ اُٹھ گیا ہے اور بقول اقبال ہی بے حجابی کا وہ زمانہ آگیا ہے جس میں دیدارِ یار عام ہے۔

(1) قارئین کرام ! مسئلہ انگریزی زبان کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کا نہیں ہے، اصل مسئلہ تہذیبی شناخت اور نظریاتی تشخص کا ہے۔ انگریزی زبان اس وقت بین الاقوامی نیز سائنسی علوم کی زبان ہے۔اس لئے اس کی اہمیت و ضرورت اور افادیت و ناگزیریت سے مجال انکار نہیں۔ بنابریں بحیثیت ِزبان کے اور بطورِ علم و فن کے اس کے سیکھنے کو کوئی ناجائز نہیں کہتا۔ لیکن کیا اسے پڑھنے اور سیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم انگریزی زبان کو اپنا اوڑھنا بچھونا ہی بنالیں، ہماری کوئی گفتگو بلاضرورت انگریزی الفاظ کی بھرمار کے بغیر نہ ہو، ہماری دکانوں کے سائن بورڈ انگریزی ہی میں ہوں، ہمارے گھروں کے باہر ناموں کی تختیاں انگریزی ہی میں ہوں، ہماری تقریبات کے دعوت نامے انگریزی میں ہوں، حتیٰ کہ ہمیں اب اپنی زبان کے امی جان ، ابوجان، چچا جان، ماموں جان اور خالہ جان وغیرہ الفاظ بھی پسند نہ ہوں اور ان کی جگہ ڈیڈی، پاپا، ماما، ممی، انکل اور آنٹی وغیرہ محبوب ہوں۔ عام لوگ شاید ان باتوں پر چیں بہ جبیں ہوں گے یا اسے بے وقت کی راگنی قرار دیں گے یا غیر اہم سمجھتے ہوں گے۔ لیکن میں عرض کروں گاکہ ان باتوں پر چیں بہ جبیں ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ بے وقت کی راگنی بھی نہیں ہے۔ اور اسے غیراہم بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ تہذیبی شناخت کا مسئلہ ہے، نظریاتی تشخص کا مسئلہ ہے، قومی غیرت اور حمیت کا مسئلہ ہے۔ اگر آپ دنیا میں اپنا وجود منوانا چاہتے ہیں، اقوامِ دنیا میں عزت و وقار کا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں، اپنی عظمت ِرفتہ کے حصول کی کوئی تمنا اور آرزو رکھتے ہیں تو آپ بلا شبہ انگریزی زبان میں خوب مہارت حاصل کریں، لیکن آپ کو اپنی تہذیبی شناخت کو برقرار رکھنا ہوگا، اپنے اسلامی تشخص کی حفاظت کرنی ہوگی اور ملی غیرت و حمیت کا ثبوت دینا ہوگا۔ اس کے لئے اپنی قومی زبان، اپنا قومی لباس اور اپنا مسلم تمدن اپنانا ہوگا۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو یاد رکھئے تہذیبوں کے موجودہ تصادم اور نظریات کے ٹکراؤ میں آپ کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور آپ حرفِ غلط کی طرح مٹا دیئے جائیں گے۔ بقولِ اکبر الٰہ آبادی*

تم شوق سے کالج میں پڑھو، پارک میں پھولو

جائز ہے غباروں میں اُڑو چرخ پہ جھولو

لیکن یہ سخن بندہٴ عاجز کا رہے یاد

اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

بہرحال دنیا میں عزت و وقار کا مقام حاصل کرنے کے لئے پہلی بات اپنے ایمان و عقیدے کی حفاظت اور اپنے نظریاتی تشخص کا احساس اور دینی و ملی غیرت کی بقا اور اس کا ا ظہار ہے۔ اس کے لئے نصابِ تعلیم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا ضروری ہے۔ ٹی وی کا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے اور قومی اخبارات کے مالکان و مدیران کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں اور قوم کے اسلامی تشخص کے تحفظ و بقا کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔

(2) ہماری پستی اور زبوں حالی کا دوسرا سبب خود انحصاری کی بجائے آئی ایم ایف وغیرہ کے قرضوں پر معیشت کا ڈھانچہ استوار کرنا ہے۔ جو حکومت بھی آتی ہے وہ خود انحصاری کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹتی ہے اور کشکول توڑنے کا اعلان کرتی ہے، لیکن ساری دنیا میں کشکول لئے پھرتی ہے اور جب وہ حکومت رخصت ہوتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ قرضوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ بوجھ اور بڑھ گیا ہے۔ غلامی کی زنجیریں اور بوجھل ہوگئی ہیں اور قرض کی مے پی پی کر ہماری فاقہ مستی خوب رنگ لا رہی ہے۔ جب تک ہماری حکومتیں بیرونی قرضوں پر اپنا انحصار ختم نہیں کریں گی، ہم دنیا میں سراٹھا کر چلنے کے اور ان کے ناجائز دباؤ کو نظر انداز کرنے کے قابل نہیں ہوسکیں گے۔

(3) تیسرا سبب، مسلمان ملکوں کا باہمی اختلاف اور ان کے مابین اتحاد کافقدان ہے، اسی اختلاف اور عدمِ اتفاق نے ان کی قوت کو منتشر اور پارہ پارہ کر رکھا ہے۔ اگر یہ سارے ملک اسلام کی بنیاد پر متحد ہوجائیں، ان سب کی آواز ایک ہوجائے، تو اقوامِ متحدہ من مانی کرسکتی ہے نہ امریکہ و برطانیہ کو مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی ہمت ہوسکتی ہے۔۱۱/ ستمبر کے بعد، جیسے ساری دنیاے اسلام نے امریکہ میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کی تھی، اسی طرح اگر وہ اسامہ بن لادن کے بارے میں بھی متحدہ موقف اختیار کرتی اور امریکہ سے ثبوت مانگتی۔ یا ہمارے صدرِ محترم امریکی صدر سے مہلت لے کر تمام اسلامی سربراہوں سے رابطہ کرکے انہیں صورتحال اور معاملے کی سنگینی اور نزاکت سے آگاہ کرتے، تو یقینا اس المیے سے بچا جاسکتا تھا جو عالم اسلام کی بے حسی، مجرمانہ سکوت اور ہمارے بزدلانہ اور غیر دانش مندانہ فیصلے کی وجہ سے رونما ہوا۔ آئندہ ایسے المیوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ عالم اسلام میں باہم اتحاد واتفاق ہو، اسلامی سربراہی کانفرنس موٴثر اور فعال ہو اور آپس کی تلخیاں اور کشیدگیاں دور ہوں، پورا عالم اسلام ایک جسد ِواحد کی طرح اور ایک بنیانِ مرصوص ہو، عالمی مسائل بالخصوص مسلمانوں سے متعلق پالیسیوں میں ان کاموقف ایک اور اسلامی تعلیمات کا مظہر ہو۔

(4) ہماری پستی اور کمزوری کا چوتھا سبب، منصوبہ بندی کا فقدان اور اپنے مسائل ووسائل کا عدمِ شعور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلامی ملکوں کو ایک تو افرادی قوت سے نوازا ہے۔ دوسرے ہر قسم کے قدرتی وسائل انہیں وافر مقدار میں عطا کئے ہیں، لیکن منصوبہ بندی کے فقدان اور خداداد وسائل کی قدر وقیمت کے عدمِ احساس کی وجہ سے ہم پستی کا شکار اور غیروں کے محتاج ہیں۔ ہمارے اہل علم و ہنر دیارِ غیر میں کام کررہے ہیں اور ان کی ترقی میں ان کے ساتھ خوب تعاون کررہے ہیں، ہم انہیں معقول تنخواہیں اور مراعات دے کر ان کو ملکی ترقی میں حصہ دار بنانے کے لئے تیار نہیں۔ حتیٰ کہ اگر کوئی خود ملی اور قومی جذبے کے پیش نظر اپنے ملک میں رہ کر اپنے ملک کو سائنسی و ایٹمی ٹیکنالوجی یادیگر اہم شعبوں کو رفعت بہ کنا رکرنا چاہتا ہو، تو ہمیں اس کی خدمات قبول نہیں، یا اس کی قدرومنزلت کا اہتمام کرکے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے تیار نہیں، بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کرنا اور اس کی تذلیل و توہین کرنا ہمارا شعار ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بالآخر وہ پھر دیارِ غیر ہی کو اپنا مسکن اور غیروں ہی کی خدمت کو اپنا مقصد ِزندگی بنا لیتا ہے یا خاموشی اور گمنامی کی زندگی گزارنے پرمجبور ہوجاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال ہمارے دو ایٹمی سائنس دانوں کے ساتھ موجودہ حکومت کا وہ رویہ ہے جو اس نے اپنے آقائے ولی نعمت امریکہ کے کہنے پر ان کے ساتھ کیا ہے ... ع شرم تم کو مگر نہیں آتی!

اسی طرح خداداد وسائل کا معاملہ ہے، ہمیں ان کی قدر و قیمت کا اور انہیں ترقی دے کر ان سے استفادہ کرنے کا صحیح شعور و احساس ہی نہیں ہے۔ ورنہ اگر عالم اسلام مل کر اپنے وسائل و مسائل کے بارے میں اجتماعی سوچ اور فکر کو بروئے کار لائے اور ایک دوسرے سے اخذ و استفادہ کرکے انہیں ترقی دے اور انہیں صحیح طریقے سے استعمال کرے، تو اس سے ان کے مسائل بھی بہت حد تک حل ہوسکتے ہیں اور بہت جلد ترقی سے بھی ہمکنار ہوسکتے ہیں۔ اس وقت ہماری جو صورتِ حال ہے، اس کا نقشہ علامہ اقبال نے اس طرح کھینچا ہے *

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو

نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو

بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو

بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

(5) ہماری کمزوری و زبوں حالی کا پانچواں سبب ہمارا اپنے دفاع سے غفلت برتنا ہے۔ عالم اسلام کی دفاعی حالت یہ ہے کہ اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ مال دار ملک کویت اور سعودی عرب اور عرب امارات اپنے دفاع کے لئے مغربی ممالک کے محتاج ہیں۔ آج سے چند سال قبل صدام حسین نے کویت پر جارحانہ قبضہ کرلیا اور سعودی عرب پر بھی جارحیت کے ارتکاب کا اظہار کیا، تو ان دونوں ممالک نے امریکہ و برطانیہ وغیرہ سے امداد طلب کی اور انہوں نے ہی آکر صدام کی جارحیت سے ان دونوں کو بچایا، جس کی بہت بھاری قیمت ان کو چکانی پڑی، بلکہ ابھی تک چکا رہے ہیں، جس نے ان کی معیشت کو نیم جان کردیا ہے۔ اسی طرح ۵۴ سال سے اسرائیل نے عربوں کا ناک میں دم کررکھا ہے، حالانکہ عربوں کے مقابلے میں وہ ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے باشندگان کی تعداد بھی ۳۰ لاکھ سے زیادہ نہیں ہے، جب کہ عرب ۱۱/کروڑ کی تعداد میں ہیں اور دنیاوی وسائل سے مالا مال بھی ہیں۔ لیکن چونکہ وہ اپنا موٴثر دفاع کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس لئے اسرائیل سے مسلسل مارکھا رہے ہیں، بالخصوص فلسطینی مسلمانوں پراس نے عرصہٴ حیات تنگ کر رکھا ہے لیکن کوئی اسلامی ملک اس کا ہاتھ پکڑنے اور اسے سبق سکھانے کے قابل نہیں۔

تیسری مثال اسامہ اور ملا عمر کی ہے، مسلم حکمران امریکہ کے دباؤ پر یا اپنے ذہنی تحفظات کی وجہ سے انہیں جو چاہیں کہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو دہشت گرد کہنا ایک بہت بڑا جھوٹ اور دہشت گرد سمجھنا بہت بڑا ظلم ہے۔ یہ دونوں اسلام کے مجاہد اور ملت ِاسلامیہ کے عظیم ہیرو ہیں۔ اسامہ، اسلامی جہاد کی علامت ہے، اس نے عالم اسلام میں جہاد کی ایک لہر پیدا کی ہے جس سے عالم کفر لرزاں ہے، اس نے مسلم نوجوانوں کو ایک ولولہ تازہ دیا ہے، ان کے اندر چٹانوں کا سا عزم اور حوصلہ پیدا کیاہے، اسلام کی خاطر مرمٹنے کا جذبہ اور شعور بیدار کیا ہے جس کی وجہ سے ممولے کے اندر شہباز سے لڑنے کی اور کنجشک فرومایہ کے اندر ہم پایہٴ سلیمان جیسے لوگوں سے ٹکرانے کی قوت و توانائی پیدا ہوئی ہے۔ ملا عمر، حضرت عمرفاروق اور حضرت عمر بن عبدالعزیز  کے بعد تاریخ اسلام کا وہ تیسرا عمر ہے جس نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وسائل کی قلت اور مسائل کی بھرمار کے باوجود اسلامی حکومت کا اور اس کے عدل و انصاف اور مساوات کا وہ نمونہ عملی طور پر پیش کرکے دکھا دیا جس نے خلافت ِراشدہ کے دور کی یاد تازہ کردی جس کے قیام کی ہر مسلمان اپنے دل میں آرزو رکھتا ہے۔ ان دونوں داناے راز شخصیتوں کاامریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں شہید یا گرفتار ہوجانا، عنداللہ تو یقینا ان کے لئے اعزاز و اکرام کا باعث ہوگا، لیکن ہم مسلمانوں کے لئے وہ دن ایک نہایت المناک دن اور ڈوب مرنے کا مقام ہوگا۔ عالم اسلام کی یہ بے بسی کہ وہ ملت ِاسلامیہ کے ان بے گناہ عظیم سپوتوں کو اس وقت پناہ مہیا کرنے سے قاصر ہے، قابل عبرت تو ضرور ہے لیکن ناقابل فہم ہرگز نہیں اور ہماری غلامی کی انتہا ہے کہ حکومت نے اوقاف کی مسجدوں میں ائمہ کرام کو امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے خلاف قنوتِ نازلہ پڑھنے یعنی ان کے لئے بددعا کرنے سے حکماً روک دیا ہے فانا لله وانا اليه راجعون۔ اقبال نے سچ ہی کہا تھا ع غلامی میں بد ل جاتا ہے قوموں کا ضمیر... بلکہ شاید ضمیر نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں رہتی اور صرف 'یس سر' کہنا ہی یاد رہ جاتا ہے۔

وجہ اس بے بسی کی یہی ہے کہ کوئی بھی اسلامی ملک اپنا دفاع کرنے کے قابل نہیں ہے حتیٰ کہ سارا عالم اسلام مل کر ان کا مقدمہ بھی اقوامِ متحدہ میں پیش کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، چہ جائیکہ وہ انہیں پناہ دے سکے، جبکہ ان مغربی ممالک کا اپنا کردار یہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے دہشت گردوں اور بڑے بڑے اخلاقی مجرموں کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے۔

ان مثالوں سے مقصد اس نکتے کی وضاحت ہے کہ عالم اسلام اپنے دفاع سے یکسر غافل ہے۔ حالانکہ قرآنِ کریم میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے:

﴿وَأَعِدّوا لَهُم مَا استَطَعتُم مِن قُوَّةٍ وَمِن رِ‌باطِ الخَيلِ تُر‌هِبونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُم وَءاخَر‌ينَ مِن دونِهِم...٦٠ ﴾... سورة الانفال

"جتنی طاقت تم تیار کرسکتے ہو، تیار کرو اور گھوڑے بھی باندھے ہوئے تیار رکھو، تم اس کے ذریعے سے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کو ڈراؤ"

حدیث میں آتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی، ألا إن القوة الرمی»(صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب فصل الرمی و الحث عليه... حدیث ۱۹۱۷)

"سن لو! قوت سے مراد تیر اندازی ہے، قوت سے مراد تیر اندازی ہے، قوت سے مراد تیراندازی ہے"

یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قوت سے مراد تیراندازی لی ہے۔ گویا اس طرح تیراندازی کے سیکھنے کی اہمیت کو واضح فرمایا، کیونکہ اس وقت جنگ میں تیراندازی ہی سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ قرآن کریم میں قوت تیار کرنے اور قوت مہیا رکھنے کا جو حکم ہے تو اس سے مراد اپنے وقت کے وہ ہتھیار اور اسلحی وسائل ہیں جو جنگ میں زیادہ سے زیادہ موٴثر اور دشمن کو زیر کرنے میں کارگر ہوسکتے ہیں۔اس اعتبار سے آج کل بری، بحری اور فضائی تینوں شعبوں میں جو نئے نئے ہتھیار تیار ہوئے ہیں، بے آواز جہاز سے لے کر میزائل اور ایٹم بم اور ہائیڈروجن بموں تک تمام ہتھیاروں کی تیاری اور انہیں مہیا کرکے اپنے پاس رکھنا ضروری ہے، یہ قرآن کا اور پیغمبر اسلام کا فرمان ہے۔ اسی لئے علماے اسلام کامتفقہ موقف ہے کہ سی ٹی بی ٹی پر دستخط نہ کئے جائیں کیونکہ ایٹمی قوت کے حصول اوراس میں پیش رفت، حکم قرآنی کا تقاضا ہے اور اس سے انحراف قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔

لیکن افسوس مسلمان ممالک اس حکم قرآنی سے غافل رہے اور غافل ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج امریکہ اور اس کے اتحادی جو چاہیں کریں، مسلمان ممالک اس کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہیں۔ وہ اس کے حکم سے سرتابی کرنے کی ہمت نہیں رکھتے، وہ ملت ِاسلامیہ کے عظیم مجاہد اور ہیرو کو دہشت گرد کہیں، وہ اسلام کے ایک بے داغ اور مثالی حکمراں کو دہشت گردوں کا پشتیبان قرار دیں تو ہمارے اندر ان سے اختلاف کرنے کی ہمت نہیں، وہ ان دونوں پر چڑھ دوڑیں اور ان کے ساتھ دیگر بہت سے معصوم اور بے گناہوں پر تابڑ توڑ حملے کریں تو ہم اس مسلم کشی میں ان کے دست و باز بن جائیں اور اپنا سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کردیں جیسا کہ المیہ افغانستان کے پس منظر میں بیگانوں کی ستم رانی کے ساتھ اپنوں کی کرم فرمائی واضح ہے ٭

قریب ہے یارو روزِ محشر، چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر؟

جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا !

اس لئے ضروری ہے کہ عالم اسلام اپنے وسائل جمع کرے، جس کے پاس مال و دولت ہے ، وہ مال دے، جس کے پاس علم و ہنر ہے وہ اپنا علم و ہنر پیش کرے، جس کے پاس جذبہ و توانائی ہے، وہ اسے بروئے کار لائے، یوں وہ اپنے وسائل اور صلاحیتیں جمع کرکے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنائے تاکہ اس المیے کا اعادہ نہ ہوسکے اور اس تہذیبی تصادم میں مسلمان ممالک بھی اپنی تہذیب کوبچانے میں کوئی کردار ادا کرسکیں ․

(6) چھٹا سبب، مغرب کے مقابلے میں ہمارے اخلاق و کردار کی پستی ہے۔ مغرب بے دین ہونے اور بے حیائی کو تہذیب کے طور پر اپنانے کے باوجود عمومی زندگی میں چند اخلاقی قدروں کا پاسبان ہے، امانت و دیانت اس کا شعار ہے۔ محنت، لگن اور جدوجہد کرنے والا ہے، علم و ہنر کا حامل اور اہل علم و ہنر کا قدردان ہے۔ اپنی ان خوبیوں کا وہ صلہ پارہا ہے، دنیا میں اس کی تجارتی ساکھ قائم ہے، پوری دنیا اس کی مصنوعات کی منڈی ہے اور گراں سے گراں تر ہونے کے باوجود لوگ انہیں آنکھیں بند کرکے لے لیتے ہیں۔

حالانکہ یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی تلقین ہمیں ہمارے مذہب نے کی ہے، ان خوبیوں میں ہمیں ممتاز ہونا چاہئے تھا، اخلاق و کردار کی یہ بلندی ہمارا شعارہونا چاہئے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے معاملہ اس کے برعکس ہے، ہم مذکورہ خوبیوں سے محرو م اور اخلاقی پستیوں میں مبتلا ہیں!!

اور ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ ہم آج کل مغرب کی تقلید اور اس کی نقالی کرنے میں فخر تو محسوس کرتے ہیں لیکن اس کی مذکورہ خوبیاں اپنانے کے لئے پھر بھی تیار نہیں۔ گویا ہم نے اس کی تقلید بھی کی ہے تو ایسی باتوں میں جو ہمارے مذہب کے خلاف ہیں اور ان کا کوئی تعلق مادّی و سائنسی علوم اور ترقی سے نہیں ہے۔ ہم شوق سے کتے پالتے ہیں، ڈاگ شو اور فیشن شو منعقد کرواتے ہیں۔ کس لئے؟ کہ فرنگی اس کا شوق رکھتے ہیں، ہم نے اپنی عورتوں کو بے پردہ کردیا، محض اس لئے کہ ان کی عورتیں بے پردہ ہیں، ہم نے ان کا سا لباس اختیار کرلیا ، تاکہ ہم بھی ماڈرن اور مہذب لگیں یا کہلوائیں۔ لیکن کوئی بتلائے کہ ان چیزوں کا کوئی تعلق ان کی ترقی اور ان کے علوم و فنون کی مہارت سے ہے؟ کیا ان کی ترقی کتوں سے پیار کرنے کی مرہونِ منت ہے یا کوٹ پتلون اور ٹائی کا اس میں دخل ہے؟ کیا عورتوں کی عریانی ان کی ترقی کی بنیاد ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ پھر ان چیزوں میں ان کی تقلید کا کیا فائدہ؟ اور اپنے تہذیبی تشخص اور مذہبی انفرادیت کو ختم کرنے کا کیا مطلب؟ ان کی ترقی کا راز تو علم وہنر، ان کی محنت اور لگن، امانت و دیانت اور انتھک جدوجہد میں مضمر ہے۔علامہ اقبال رحمہ اللہ نے، جنہوں نے خود مغرب میں رہ کر ہر چیز کا مشاہدہ کیا تھا، وہ یورپ کی ترقی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :

قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب

نے ز رقص دختراں بے حجاب

نے ز سحر ساحران لالہ رو است

نے ز عریاں ساق و نے از قطع مو است

محکمی او نہ از لادینی است

نے فروغش از خط لاطینی است

قوتِ افرنگ از علم و فن است

از ہمیں آتش چراغش روشن است

حکمت از قطع و برید جامہ نیست

مانع علم و ہنر عمامہ نیست

ہماری پستی اور کمزوری کے یہ چند اسباب ہیں۔ جب تک ہم اپنی مذکورہ کمزوریوں کا ازالہ نہیں کریں گے اور مذکورہ خطوط پر اپنی پالیسیوں کو استوار نہیں کریں گے، ہم موجودہ تہذیبی تصادم میں اپنا وہ عالمی کردار ادا نہیں کرسکیں گے جو ہماری عظمت ِرفتہ کابھی آئینہ دار ہو اور وشن مستقبل کا مظہر بھی۔ بقولِ علامہ اقبال *

اٹھو! وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی

دوڑو! زمانہ چال قیامت کی چل گیا

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے 'اہل اسلام'

تمہاری داسان تک نہ ہوگی داستانوں میں

یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصہٴ محشر میں ہے

پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے

نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر

جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا

ترک خرگاہی ہو یا اعرابی والا گہر

نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی

اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگذر

تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار

لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر

علامہ اقبال مزید فرماتے ہیں *

ناموس ازل راہ تو امینی تو امینی!

دار اے جہاں را تو یساری تو یمینی

اے بندہٴ خاکی تو زمانی تو زمینی

صہبائے یقیں درکش و از دیر گماں خیز

از خواب گراں، خواب گراں، خواب خیز!

از خواب گراں خیز!

فریاد زافرنگ و دل اویزئ افرنگ

فریاد زشیرینی و پرویزئ افرنگ

عالم ہمہ ویرانہ زچنگیزئ افرنگ

معمار حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز

از خواب گراں، خواب گراں، خواب گراں خیز!

از خواب گراں خیز!