نمازیوں کو سلام کہنا اور بعض احادیث کی تحقیق

٭نمازیوں کو سلام کہنا اور اس کا جواب ٭بعض احادیث اور الفاظ کی تحقیق

٭ظہر اور عصر سے قبل ۴ رکعت سنتیں ایک سلام سے پڑھنا ٭سسرال میں قصر نماز پڑھنا

٭ سوال : مسنون خطبہ میں الفاظ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ صحیح سند سے ثابت ہیں؟

لفظ أشهد صرف واحد کے صیغہ سے ہی ہے یا جمع سے بھی؟

لفظ يُضْلِلْ کے ساتھ ضمیر 'ہ' کا اضافہ ثابت ہے؟

جواب:مسنون خطبہ میں ونؤمن بہ ونتوکل علیہ کے اَلفاظ ثابت نہیں۔ یہ الفاظ 'تاریخ بغداد' میں حضرت جابر سے مروی روایت میں ہیں لیکن سند کے اعتبار سے سخت ضعیف ہیں۔

اور لفظ أَشْهَدُ مفرد کے صیغہ سے ہی ثابت ہے، بطورِ صیغہ جمع نہیں۔

لفظ يُضْلِلْ کے ساتھ' ه ' ضمیر کا اضافہ ثابت نہیں ، مذکورہ روایت صحیح مسلم (۳/۱۱) ، سنن نسائی (۱/۲۳۴) ، سنن بیہقی (۳/۲۱۴) اور مسنداحمد(۳/۳۱۹، ۳۷۱ )میں موجود ہے۔

٭سوال:افطاری کی دعا: «اللهم لک صمت وعلیٰ رزقک أفطرت» کی اِسنادی حیثیت کیسی ہے؟بعض مقامات پر تو الفاظ «وبک آمنت وعليک توکلت بما قدمت وأخرت» کا اضافہ بھی کیا جاتا ہے ، کیا یہ اضافہ کسی حدیث سے ثابت ہے۔ (صبغت اللہ صابر بلوچ ،کراچی)

جواب:اصلاً یہ روایت سنن ابوداود میں 'مرسلا' مروی ہے لیکن شواہد کی بنا پر اس کو تقویت حاصل ہے۔ مشکوٰة از علامہ البانی (۱/۶۳، حدیث ۱۹۹۴) اور وبک آمنت ... کے اَلفاظ بے اصل ہیں، جہالت اور لاعلمی کی بنا پرلوگ یہ لکھتے ہیں۔کسی حدیث میں ان کا ثبوت نہیں ملتا۔

٭ سوال: "تمہاری قربانیاں پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گی۔" (تلخیص) علامہ البانی نے سلسلہ ضعیفہ حدیث نمبر ۷۴ اور ۲۵۵ میں اسے سخت ضعیف قرار دیا ہے۔ کیا یہ فضیلت کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے؟

جواب: مذکورہ حدیث واقعی ضعیف ہے۔ امام ابن العربی فرماتے ہیں :

«ليس فی فضل الأضحية حديث صحيح، وقد روی الناس فيها عجائب لم تصح، منها قوله : إنها مطاياکم إلی الجنة» (عارضة الأحوذي: ۶/۲۸۸)

"قربانی کی فضیلت میں کوئی حدیث صحیح نہیں۔ لوگوں نے اس بارے میں کئی عجوبے نقل کئے ہیں جو غیر صحیح ہیں۔ انہی میں سے یہ قول بھی ہے کہ یہ جنت کی طرف تمہاری سواریاں ہیں* ۔"

٭سوال:حضرت فاطمہ سے تعزیت کے واقعہ والی حدیث (ابوداود مع عون المعبود: ۳/۱۶۰) کی سند کیسی ہے؟ اس حدیث سے یا ترمذی کی مذکورہ بالا حدیث سے تعزیت کے موقع پر مروّ جہ اجتماعی دعا ثابت ہوتی ہے یا نہیں ؟

جواب:یہ حدیث سنداً ضعیف ہے۔ اگر صحیح بھی مانی جائے تو اس میں اجتماعی مروّجہ دعا کا ذکر ہی نہیں۔ اسی طرح ترمذی کی مذکورہ روایت سے بھی تعزیت کے موقع پر مروّجہ اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ملتا۔

٭سوال:مشکوٰة حدیث نمبر ۴۹۴۴ عن ابن عباس کا خلاصہ یہ ہے کہ والدین کی طرف رحمت سے دیکھنے سے حج کا ثواب ہوتا ہے۔ تحقیق المشکوٰة میں علامہ البانی نے اس حدیث کو 'موضوع' کہا ہے․ تنقیح الرواة (۲/۳۳۱) میں ہے کہ ورمز لہ السیوطی فی جامع الصغیر بالضعف (امام سیوطی نے جامع الصغیر میں اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے)... کیا یہ حدیث یا اس میں مذکور فضیلت کسی دوسری صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ (محمد صدیق تلیاں ، ایبٹ آباد)

جواب: والدین کے ساتھ احسان و سلوک کی بے شمار روایات ثابت ہیں لیکن اس قسم کی فضیلت کی کوئی روایت ثابت نہیں۔

٭ سوال: حضرت سلمان فارسی کے حوالے سے سنن ترمذی میں یہ روایت آتی ہے: «إن ربکم حيي کريم يستحيی من عبدہ إذا رفع يديه إليه أن يردهما صِفرا» (مشکوٰة:۲۲۴۴) اس حدیث سے بعض لوگ فرض نماز کے بعد مروّجہ اجتماعی دعا پر استدلال کرتے ہیں جبکہ علامہ ابن تیمیہ اس دعا کو 'بدعت' کہتے ہیں (فتاویٰ الکبریٰ ۱/۲۱۹)۔ درست موقف کون سا ہے؟

جواب: اس حدیث میں فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا ذکر ہی نہیں تو اس سے استدلال کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام حالات میں ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے۔ ملاحظہ ہو المجموع شرح المہذب (۴/۵۰۷ تا۵۱۱) اور علامہ سیوطی کا رسالہ فضل الدعاء تخریج از محمد شکور میادینی۔

٭سوال:مسجد میں جب نمازی نماز پڑھ رہے ہوں تو کیا بلند آواز سے 'السلام علیکم' کہہ سکتے ہیں؟

جواب:نمازی کو بآوازِ بلند سلام کہا جاسکتا ہے لیکن وہ اس کا جواب انگلی یا ہاتھ کے اشارے سے دے گا۔چنانچہ سنن ترمذی میں حضرت ابن عمر سے مروی ہے :

«قال قلت لبلال: کيف کان النبیﷺ يردّ عليهم حين کانوا يسلمون عليه وهو في الصلوة؟ قال: کان يشير بيده»

"ابن عمر نے کہا: میں نے بلال سے دریافت کیا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم بحالت ِنماز لوگوں کے سلام کا جواب کس طرح دیتے تھے؟ کہا :ہاتھ کے اشارے سے۔"

صاحب ِمرعاة المفاتیح فرماتے ہیں:

«والحديث فيه دليل علی جواز ردّ السلام فی الصلوٰة بالإشارة وهو مذهب الجمهور واختلف الحنفية فمنهم من کرهه، ومنهم الطحاوي ومنهم من قال لا بأس به» (مرعاة المفاتیح: ۲/۱۲)

"اس حدیث میں اس امر کی دلیل ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارہ سے ہونا چاہئے اور اس بارے میں احناف کا آپس میں اختلاف ہے۔ بعض نے اسے ناپسند کیا مثلاً طحاوی اور بعض کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں۔ "

بلاشبہ دلائل کے اعتبار سے جواز کا پہلو راجح ہے۔تفصیلیبحث کے لئے ملاحظہ ہو: المرعاة: ۲/۱۲

٭سوال:ظہر اور عصر سے قبل چار رکعت سنت، ایک سلام سے پڑھنا کیسا ہے؟ جبکہ حدیث میں ہے

(1) «قال رسول اللهﷺ: صلوٰة الليل والنهار مثنیٰ مثنیٰ» (ترمذی، ابوداود، ابن ماجہ)

(2) «کان النبیﷺ يصلی قبل العصر أربع رکعات يفصل بينهن بالتسليم»(صحیح سنن ترمذی : ۳۵۳)

جواب:ظہر اور عصر سے پہلے چار رکعات اکٹھا پڑھنے کا جواز ہے۔ چنانچہ سنن ابوداود، نسائی اور ابن ما جہ میں حضرت اُمّ حبیبہ سے مروی ہے کہ

"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: جس نے ظہر سے قبل چار رکعات اور اس کے بعد چار رکعات باقاعدگی سے ادا کرتا ہے، اللہ اس پر آگ کوحرام کردیتے ہیں۔ "

یہ حدیث مجموعی اعتبار سے صحیح ہے ۔ اسی طرح صحیح بخاری باب الرکعتین قبل الظہرکے تحت حضرت عائشہ  سے مروی ہے : «أن النبی ﷺ کان لايدع أربعا قبل الظهر»

"نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعتیں نہیں چھوڑتے تھے۔"

حدیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ چار رکعتیں اکٹھی پڑھتے تھے۔ جبکہ سوال میں مذکور حدیث میں ہے کہ رات اور دن کی نماز دو دو رکعتیں ہیں اور صحیح بخاری میں امام بخاری نے بھی اسی پر زور دیا ہے تو اس بارے میں اولیٰ بات یہ ہے کہ اس کو دو حالتوں پر محمول کیا جائے: بعض دفعہ آپ دو پڑھتے اور بعض دفعہ چار۔ چنانچہ فتح الباری (۳/۵۸) میں ہے : «والأولی أن يحمل علی حالين: فکان تارة يصلی ثنتين وتارة يصلی أربعا»

٭سوال:فرض نماز کے بعد اگر کوئی شخص دعا کرنے کی اپیل کرے تو کیا امام اور مقتدی اجتماعی دعا کرسکتے ہیں۔ نیز نما زِجمعہ کے بعد اجتماعی دعا کرنا کیسا ہے؟ (محمد شاہد، حجرہ شاہ مقیم)

جواب:کسی پیش آمدہ مسئلہ کی بنا پر اجتماعی دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں، صحیح بخاری میں ہے :

«فرفع رسول اللهﷺ يديه يدعو ورفع الناس أيديهم مع رسول اللهﷺ يدعون» (باب رفع الناس أيديهم مع الإمام فی الاستسقآء)

"پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو دعا کے لئے اٹھایا تو لوگوں نے بھی اپنے ہاتھ نبی کریم کے ساتھ دعا کے لئے بلند کرلئے۔"

اس کے لئے وقت کا کوئی تعین نہیں، چاہے فرض نماز کے بعد ہو یا جمعہ کی نماز کے بعد۔ اور اگر فرض نماز اور جمعہ کے بعد طریقہ مسنونہ سمجھ کراجتماعی دعا کی جائے تو یہ سنت سے ثابت نہیں۔

٭سوال:'صلوٰة المسلمین' میں مختلف احادیث سے ثابت کیا گیا ہے کہ امام رکوع سے سر اُٹھاتے وقت «اللهم ربنا ولک الحمد» بھی بلند آواز سے کہے۔ کیا کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ امام مذکورہ الفاظ سری طور پر کہہ سکتا ہے؟

جواب:مذکورہ الفاظ امام کو 'سری' کہنے چاہئیں چنانچہ صحیح بخاری میں رفاعہ بن رافعہ سے مروی ہے کہ

"ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا تو «سمع الله لمن حمده» کہا۔پیچھے ایک آدمی نے کہا: «ربنا ولک الحمد...الخ» جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ابھی یہ کلمات کس نے کہے؟ ایک آدمی نے کہا: میں نے، آپ نے فرمایا: میں نے تیس سے زائد فرشتوں کو دیکھا ہے، وہ اس کوشش میں تھے کہ کون پہلے اس نیک عمل کو لکھتا ہے۔ "

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس ذکر کو جہری پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کا طریقہ نہ تھا، اگر تمام صحابہ کرام اس ذکر کو جہری پڑھتے تو اس صحابی کی آواز سب کی آواز سے نمایاں نہ ہوتی۔ یہ سنت قولی تقریری ہے، اس کا تعلق بھی فرائض سے ہے لہٰذا سری پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں۔

٭سوال:سورة السجدہ (آیت ۱۱) میں 'ملک الموت' کا ذکر ہے، اسی طرح مسند احمد میں حدیث براء اور صحیح مسلم میں فضائل موسیٰ علیہ السلام میں بھی 'ملک' کا تذکرہ ہے۔ بعض مفسرین نے ان کا نام عزرائیل نقل کیا ہے ، کیا صحیح حدیث میں ملک الموت کا نام عزرائیل ثابت ہے یا پھر ملک الموت ہی کہنا چاہئے؟

جواب:ملک الموت کا نام صحیح مرفوع متصل حدیث سے تو عزرائیل ثابت نہیں، البتہ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر القرآن العظیم (۳/۵۹۹) میں فرماتے ہیں:

«الظاهر من هذه الاٰية أن ملک الموت شخص معين من الملائکة کما هوالمتبادر من حديث البراء المتقدم ذکره فی سورة إبراهيم وقد سمي فی بعض الاٰثار بعزرائيل وهو المشهور، قاله قتادة وغير واحد وله أعوان»

"اس آیت سے ظاہر یہ ہے کہ ملک الموت فرشتوں میں سے ایک معین شخص کا نام ہے، جس طرح کہ حدیث ِبراء سے واضح ہے جو سورئہ ابراہیم میں گزر چکی ہے۔ تاہم بعض آثار میں اس کا نام عزرائیل مشہور ہے جس طرح کہ قتادہ اور دیگر کئی ایک اہل علم نے بیان کیا ہے جس کی تائید دیگر اقوال سے بھی ہوتی ہے۔"

٭سوال:حضرت عثمان سے ایک روایت آئی ہے کہ سسرال میں نماز، قصر کی بجائے پوری پڑھنی چاہئے (رواہ احمد) ... وضاحت فرمائیے؟

جواب:یہ روایت ضعیف ہے۔ امام بیہقی نے کہا کہ اس کی سند میں انقطاع ہے علاوہ ازیں اس کی سند میں عکرمہ بن ابراہیم ضعیف راوی ہے، بحوالہ اضواء البیان (۱/۳۳۱)۔ اس سلسلہ میں کوئی مرفوع متصل روایت ثابت نہیں،تاہم ابن ابی شیبہ وغیرہ کے بعض آثار و اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ جائے ملکیت پر نماز مکمل پڑھنی چاہئے۔ حضرت ابن عباس، حضرت عثمان اور امام مالک ، ابوحنیفہ اور احمد کا مذہب یہ ہے کہ جہاں کوئی نکاح کرلے یا اس کی بیوی اسی شہر میں ہو وہاں سے شوہر کا گزر ہو تو پوری نماز پڑھے کیونکہ یہ ان کے نزدیک وطن کے حکم میں ہے۔ ان آثار کی بنا پر سسرال میں پوری نماز پڑھنے کا صرف جواز ہے لیکن ضروری نہیں۔ واللہ اعلم!

٭سوال:میرا مستقل رہائشی مکان میرے ڈیوٹی سٹیشن سے ۹۰ کلومیٹر دورہے، اور میرا زیادہ تر قیام ڈیوٹی سٹیشن پر ہی ہوتا ہے۔ یہاں رہائش سرکاری ہے اور تقریباً تمام سہولیات موجود ہیں اور نماز پوری ادا کرتا ہوں۔ تقریباً پندرہ روز بعد مستقل گھر میں جوکہ والد صاحب کی ملکیت ہے، ایک رات کے لئے جاتا ہوں ۔آیا یہاں نماز قصر کی جاسکتی ہے؟ (ڈاکٹر حق نواز، راولپنڈی)

جواب:جب والد صاحب کی زیارت کیلئے جائیں تو وہاں نماز پوری پڑھیں، احتیاط کا تقاضا یہی ہے۔

٭سوال:کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، تفصیلاً جواب دیں؟

جواب:اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، راجح مسئلہ یہی ہے۔ سنن ابوداود میں حضرت براء بن عازب سے مروی ہے:

«سئل رسول اللهﷺ عن الوضوء من لحوم الإبل، فقال: توضوٴوا منها الحديث»

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس سے وضوکرو۔"

امام نووی فرماتے ہیں: دلیل کے اعتبار سے یہ مسلک زیادہ پختہ ہے، اگرچہ جمہور کا مسلک اس کے خلاف ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: عون المعبود (۱/۷۲،۷۳)