شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی 

جن لوگوں نے دنیا میں علمی، دینی، ملی اور سیاسی کارنامے انجام دیئے۔ ان کا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لئے رقم ہوجاتا ہے اور ان کی یاد دلوں سے محو نہیں ہوتی اور جب ایسے لوگ دنیا سے رِحلت کرجاتے ہیں تو لوگ ان کی یاد میں آنسو بہاتے ہیں اوران کے کارناموں کو مجلسوں اور محفلوں میں بیان کرتے اور انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں مشہور ادیب اور صاحب ِقلم جناب نعیم صدیقی لکھتے ہیں:

"آدمی کا مرنا اس آسمان کے نیچے کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں، کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ بچے مرتے ہیں،جوان مرتے ہیں اور بوڑھے مرتے ہیں۔ موت ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں ہر آن زندگی کے ہاتھوں سے خراج وصول کرتی ملتی ہے ع گلشن ہستی میں مانند ِنسیم ارزاں ہے موت۔ لیکن کئی طرح کے جینے والے اور کئی قسموں کے مرنے والے ہیں۔ زندگی کے ڈھنگ ہی گونا گوں ہیں اور موت کے انداز بھی رنگا رنگ ہیں۔ ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جو زمانے سے زندگی کی بھیک مانگتے ہیں اور بھیک مانگتے ختم ہوجاتے ہیں۔ جو زمانے سے لڑتے لڑتے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر زندگی گزارتے ہیں اور جب مرتے ہیں تو اس شان سے مرتے ہیں کہ زندہ تر ہوجاتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگ کیڑے مکوڑوں کی طرح مرتے ہیں اور تاریخ کا کارواں انہیں نظر انداز کرکے آگے بڑھ جاتا ہے۔ دوسری قسم کے لوگ اپنے نفس کو تلوار بناکر کسی اصول و مقصد کے لئے جہاد کرتے ہیں۔ قوتوں کا سارا خزانہ نچوڑ دینے کے بعد سقراط کی طرح موت کے زہر کا پیالہ ہنستے مسکراتے پیتے ہیں اور سچائی کے محاذ پر دم توڑتے ہیں۔ تاریخ ان کے کارناموں کی میراث دامن میں سمیٹتی ہے۔ ان کی عظیم روحوں کے مزار اپنے سینوں میں بناتی ہے اوران کی یادوں کے داغ دل میں لئے وقت کی وادیوں میں ارتقا کے مراحل طے کرتی ہے اور داغوں کے یہ دیے قیامت تک اُجالا کرتے ہیں․"

پروفیسر رشید احمد صدیقی اپنی کتاب 'گنج ہائے گراں مایہ' میں لکھتے ہیں:

"موت سے کسی کو مفر نہیں لیکن جو لوگ ملی مقاصد کی تائید و حصول میں تادمِ آخر کام کرتے رہتے ہیں، وہ کتنی ہی طویل عمر کیوں نہ پائیں۔ ان کی وفات قبل از وقت اور تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔"

مولانا محمد اسمٰعیل سلفی پر یہ جملہ مکمل طور پر صادق آتا ہے جنہوں نے ۲۰/فروری ۱۹۶۸ء کو گوجرانوالہ میں انتقال کیا۔شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی اپنے دم میں ایک عہد تھے۔ وہ اپنی ذات سے خود ایک انجمن اور ادارہ تھے۔ مرحوم ملت ِبیضا کی شمع تھے۔ ان کے رخصت ہونے سے ایک روشن چراغ گل ہوا اور اندھیرا بڑھ گیا۔ ان کے دم قدم سے دنیاے علم و ادب میں جو رونق تھی، وہ سونی پڑگئی۔

علم و فضل:مولانا محمد اسمٰعیل سلفی علومِ اسلامیہ کا بحر ذخار تھے۔ تمام علوم یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، اُصول فقہ، تاریخ و سیر، اسماء الرجال، ادب ونعت میں یکتا تھے۔ ٹھوس اور قیمتی مطالعہ ان کا سرمایہٴ علم تھا۔ تفسیرو حدیث اور فقہ و تاریخ پر ان کا مطالعہ گہرا تھا۔ عربی ادب کابڑا ستھرا اور عمدہ ذوق رکھتے تھے۔ وہ ایک جید عالم دین، فقیہ، مصنف اور مدرّس و خطیب تھے۔

ذاتی خصوصیات:مولانا سلفی مرحوم قدرت کی طرف سے بڑے اچھے دل و دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ ذہن و ذکاوت کے ساتھ قوتِ حافظہ بھی قوی تھا۔ جو کتاب ایک دفعہ نظر سے گزر گئی، حافظہ میں محفوظ ہوجاتی تھی۔ مطالعہ کے بہت زیادہ شوقین تھے۔ مرحوم نے ٹھوس اور تحقیقی مطالعہ کا ذوق اپنے استاد مولانا سید عبدالغفور غزنوی سے پایا تھا۔

مولانا سلفی تحریر و تقریر کے میدان کے کامیاب شہسوار تھے۔ زبان و قلم میں بلاکی شگفتگی و دلآویزی تھی۔ آپ کی تقریروں میں علم و روحانیت، فکروبصیرت اور تحقیق و کاوش کے جوہروں کے ساتھ ساتھ ادب کی چاشنی اور اُسلوب کی دلآویزی چمکتی اور دمکتی نظر آتی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ مولانا سلفی مرحوم کوقدرت نے نثر نگاری کا جتنا صاف ستھرا ذوق دیا تھا، اس کی مثال ان کے دور کے علما میں کم ہی نظر آتی ہے۔

مولانا سلفی مرحوم ایک کامیاب مدرّس بھی تھے۔ بلا شبہ تاریخ میں ایسے بے لوث، تعمیر پسند اور دوسروں کو ہر قدم اور ہر موڑ پر سہارا دینے والے کم ہی لوگ نظر آتے ہیں۔ نہ جانے ان کے کتنے شاگرد ہیں جو ان کی حوصلہ افزائی اور تعاون کی بدولت صاحب ِقلم، صاحب ِتصنیف اور علمی و ادبی دنیا میں شہرت وعظمت کے حامل ہوگئے۔

اخلاق و عادات

مولانا سلفی مرحوم ایک کریم النفس اور شریف الطبع انسان تھے۔ اپنے پہلو میں ایک دردمند دل رکھتے تھے۔ دوستوں کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔ ان کی راحت و تکلیف کا خیال رکھتے۔ وہ بہت زیادہ خوددار بھی تھے۔عفاف اور استغنا کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ طبیعت میں قناعت تھی۔ جاہ وریاست کے طالب نہ تھے۔کریمانہ اخلاق اور ستودہ صفات کے حامل تھے۔

مولانا سلفی مرحوم اصلی معنوں میں انسانی اُخوت اور خدمت ِخلق کا بہترین مجسمہ اور نکھرا ہوا نمونہ تھے۔ ان کی عظمت کا سب سے جدا اور منفرد پہلو یہ تھا کہ ان سے گفتگو کرتے وقت متکلم کو اپنی بڑائی اور عظمت کا احساس ہونے لگتا تھا۔ وہ ہر ایک سے محبت سے ملتے۔ سب کا دکھ درد سنتے اور اپنی استطاعت کی حدتک پریشانی دور کرنے کی کوشش بھی فرماتے۔ مولانا سلفی بہت سادہ لباس استعمال کرتے تھے۔ گرمیوں میں عموماً تہبند استعمال کرتے تھے۔مولانا محمد اسحاق بھٹی لکھتے ہیں کہ

"ایک دفعہ مولانا محمد اسمٰعیل سلفی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے اجلاس میں تہبند باندھ کر شریک ہوئے تو مولانا سید داود غزنوی کو ناگوار گزرا اورمولانا محمد اسمٰعیل سے مخاطب ہوکر فرمایا: میں بحیثیت امیر حکم دیتاہوں کہ آئندہ کوئی رکن مجلس تہبند باندھ کر نہ آئیں۔ شلوار پہن کر میٹنگ میں شریک ہوں۔"

حدیث ِنبوی سے شغف

مولانا سلفی مرحوم کو حدیث ِنبوی سے بہت زیادہ محبت تھی اور حدیث ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ مولانا محمد عطاء اللہ حنیف نے کئی بار مجھ سے فرمایا کہ

"جماعت اہل حدیث میں شیخ الاسلام مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری اور شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی کو یہ شرف حاصل ہے کہ حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔جب بھی کوئی مضمون یا کتاب ایسی شائع ہوتی جس میں حدیث ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنقید ہوتی تو یہ دونوں حضرات اس کا فورا ً نوٹس لیتے۔ مولانا ثناء اللہ مرحوم اخبارِ اہلحدیث، امرتسر میں فوراً جواب دیتے اورمولانا سلفی مرحوم بھی پہلے اخبارِ اہلحدیث امرتسر میں لکھتے رہے اورقیامِ پاکستان کے بعد'الاعتصام' لاہور میں ان کے بے شمار مضامین حدیث کی مدافعت و نصرت و تائید میں شائع ہوتے رہے ہیں اور مجھے پختہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں علمائے کرام کو حدیث نبوی کی مدافعت اور نصرت میں اجر ِعظیم عطا کرے گا۔ " مولانا عطاء اللہ حنیف مرحوم یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ

"خاکسار بھی حدیث کے معاملہ میں کسی قسم کی مداہنت برداشت نہیں کرسکتا جب بھی کوئی مضمون حدیث کی تنقیص میں شائع ہوتا ہے تو فورا ً اس کا جواب الاعتصام میں شائع کرتا ہوں۔ میرے علاوہ حافظ عبدالقادر روپڑی کو بھی یہ شرف حاصل ہے کہ وہ حدیث کے معاملہ میں بہت زیادہ متشدد اور سخت ہیں۔ جب کوئی مضمون حدیث کے خلاف ان کی نظر سے گزرتا ہے تو تحریر و تقریر کے ذریعہ دلائل سے جواب دیتے ہیں اور حدیث کے مخالفین کو مناظرہ کا چیلنج دیتے ہیں۔ "

مولانا اسمٰعیل سلفی مرحوم کی تمام تصانیف حدیث ِنبوی کی تائید و حمایت میں ہیں، جن کا تعارف آگے آرہا ہے۔

سیاسی خدمات

مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ایک جید عالم دین،مفتی، مدرّس اور خطیب و مقرر تھے۔ مفسر قرآن تھے، محدث تھے، موٴرّخ، نقاد اور محقق تھے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ان کو سیاسی بصیرت بھی عطا کی تھی۔ تحریک استخلاصِ وطن میں ان کی خدمات قدر کے قابل ہیں۔ برصغیر کی آزادی سے قبل ان کی جوانی علم دین حاصل کرنے اور انگریزوں سے وطن عزیز کو آزاد کرانے میں گزری۔ آزادی کی لڑائی انہوں نے کانگرس کے پلیٹ فارم سے لڑی۔ وہ مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا سید محمد داود غزنوی اور دوسرے کانگرسی مجاہدین آزادی کے شانہ بشانہ ہوکر آزادیٴ وطن کے لئے لڑتے رہے اور کئی بار اسیر زنداں ہوئے۔

قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں کوشاں رہے اور تحریر وتقریر کے ذریعہ حکومت ِپاکستان کی توجہ اس طرف مبذول کراتے رہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے، اس میں کتاب و سنت کو نافذ اور رائج کیا جائے۔

۱۹۵۳ء کی قادیانی تحریک:۱۹۵۳ء میں قادیانیوں کے خلاف تحریک چلائی گئی کہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ حکومت نے علمائے کرام پر بہت سختیاں کیں۔ لاہور میں مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور علمائے کرام کو جیلوں میں بند کردیا گیا۔ مولانا محمد اسمٰعیل سلفی کو بھی گرفتار کرکے گوجرانوالہ جیل میں بند کردیا گیا۔ اس وقت توحکومت نے قادیانیوں کو اقلیت قرار نہ دیا لیکن ۱۹۷۷ء میں ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت پاکستان کے وزیراعظم تھے، نے قادیانیوں کواقلیت قرار دے دیا۔

اسلامی آئین کی تشکیل کے لئے علما کا بورڈ:۱۹۵۲ء میں حکومت ِپاکستان نے علامہ سید سلیمان ندوی کی سربراہی میں ۳۱ علمائے کرام پر مشتمل ایک بورڈ بنایا کہ وہ ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں حکومت کو تجاویز اور سفارشات پیش کریں۔شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی اس بورڈ کے رکن تھے۔

جماعتی خدمات

مولانا محمد اسمٰعیل سلفی نے جماعت ِاہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے میں جو گرانقدر خدمات سرانجام دیں، اس کی مثال تاریخ اہلحدیث میں ملنی مشکل ہے۔ مولانا محمد اسمٰعیل سلفی نے جماعت اہلحدیث سے جو رشتہ جوڑا، وہ روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ ۱۹۲۰ء میں انجمن اہلحدیث پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے صدر مولانا عبدالقادر قصوری اور ناظم اعلیٰ مولانا ثناء اللہ امرتسری کو بنایا گیا اور مجلس عاملہ کے ارکان درج ذیل علمائے کرام تھے :

مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی، مولانا قاضی محمد سلیمان منصورپوری، مولانا محمداسمٰعیل سلفی، مولانا قاضی عبدالرحیم، مولانا محمد علی لکھوی اور حکیم نور الدین۔

مولانا محمد اسمٰعیل سلفی آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی مجلس عاملہ کے رکن بھی رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد مولانا سید محمد داود غزنوی کی سعی سے مغربی پاکستان میں جمعیت ِاہلحدیث کا قیام عمل میں آیا۔ ۲۴/ جولائی ۱۹۴۸ء کو تقویة الاسلام شیش محل روڈ لاہور میں علمائے اہلحدیث کا ایک اجلاس مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی کی صدارت میں منعقد ہوا ، جس میں اس وقت تین عہدے دار منتخب کئے گئے

صدر: مولانا سید محمد دا ود غزنوی ناظم اعلیٰ: پروفیسر عبدالقیوم ناظم مالیات:میاں عبدالمجید

اور مجلس عاملہ کے ارکان درج ذیل علماء کو بنایا گیا :

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی، مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا محمد اسمٰعیل سلفی، مولانا محمد حنیف ندوی، مولانا عطاء اللہ حنیف، مولانا محی الدین احمد قصوری، مولانا محمد علی قصوری، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا سید اسمٰعیل غزنوی، مولانا معین الدین لکھوی اور حاجی محمد اسحق حنیف امرتسری۔

اپریل ۱۹۴۹ء میں پروفیسر عبدالقیوم نے نظامت ِاعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا تو ان کی جگہ مولانا محمد اسمٰعیل سلفی کو ناظم اعلیٰ بنایا گیا۔ آپ ۱۶/ دسمبر ۱۹۶۳ء تک جمعیت ِاہلحدیث مغربی پاکستان کے ناظم اعلیٰ رہے۔ ۱۶/ دسمبر ۱۹۶۳ء کو مولانا سید محمد داود غزنوی نے انتقال کیا تو مولانا محمد اسمٰعیل سلفی کو امیر منتخب کیا گیا اور پروفیسر سید ابوبکر غزنوی کو ناظم اعلیٰ بنایا گیا۔ مولانا محمد اسمٰعیل اپنے انتقال ۲۰/ فروری ۱۹۶۸ء تک جمعیت اہلحدیث کے امیررہے۔

جامعہ سلفیہ، فیصل آباد کا قیام:آپ کے دورِ نظامت میں اپریل ۱۹۵۵ء کی لائل پور کانفرنس میں جامعہ سلفیہ کا قیام عمل میں آیا۔ ابتدا میں جامعہ سلفیہ میں تعلیم کا آغاز تقویة الاسلام، شیش محل روڈ لاہور میں ہوا اور یکم جون ۱۹۵۶ء کے 'الاعتصام' میں جامعہ سلفیہ کا نصاب شائع کیا گیا۔ جس کے لئے مولانا سید محمدداؤد غزنوی کو علومِ قرآن ، مولانامحمد اسمٰعیل سلفی کو اصولِ حدیث ، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف کو حدیث، مولانا محمد حنیف ندوی کو عربی ادبیات، نظم و نثر اورمولانا شریف اللہ خان کو علومِ فقہیہ و کلامیہ کی تدریس کی ذمہ داریاں دی گئیں۔

۲۲ جون ۱۹۵۶ء کو لائل پور (فیصل آباد) کی جامع مسجد اہلحدیث امین پور بازار میں جامعہ سلفیہ کے ثانوی درجے کا افتتاح کیا گیا۔ ۲۲ جون کو جمعہ تھا۔ جمعہ کا خطبہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے ارشاد فرمایا۔ مولانا غزنوی نے اپنے خطبہ جمعہ میں لاہور میں تدریس کے آغاز کاذکر فرمایا اور جامعہ سلفیہ کے محل و قوع میں تعلیم کے سلسلہ کو باقاعدہ کرنے کی راہ میں جو مشکلات حائل تھیں، ان کی تفصیل بیان فرمائی۔

فیصل آباد میں مولانا عبداللہ دہروالوی کا مدرسہ دارالقرآن والحدیث جاری تھا۔ مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور مولانا محمد اسمٰعیل سلفی کی خواہش تھی کہ مولانا عبداللہ اپنے مدرسہ کو جامعہ سلفیہ میں مدغم کردیں لیکن وہ اس پر رضا مند نہ ہوئے۔مولانا سید محمد داؤد غزنوی اور مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ۸/ جولائی ۱۹۵۶ء کو فیصل آبادتشریف لے گئے۔ مولانا عبداللہ سے تفصیلی گفتگو ہوئی لیکن وہ رضا مند نہ ہوئے۔

مولانا سیدداؤد غزنوی اور مولانا محمد اسمٰعیل نے حاضرین سے خطاب کیا۔مولانا محمد اسمٰعیل نے اپنی تقریر میں جماعت اہلحدیث کی تاریخ اور اس کے مسلک کی وضاحت کی اور اس کے ساتھ جامعہ سلفیہ کے قیام اور اہلحدیث مدارس کے طریق تعلیم اورنصابِ تعلیم پر روشنی ڈالی۔مولانا سلفی مرحوم نے نصابِ تعلیم کے بارے میں فرمایا:

"ہمارے مدارس کے ناقص نصابِ تعلیم اور جماعت بندی کے فقدان نے طلبا کے تعلیمی معیار کو اس بری طرح گرا دیا ہے کہ اچھے اور مستعد طلبا کا ملنا بے حد دشوار ہوگیا ہے۔ یہ صو رتِ حال اس وقت سامنے آئی جب ہم نے جامعہ سلفیہ کے درجہ تکمیل کے لئے طلبا سے درخواستیں طلب کیں۔ ان سے انٹرویو میں معمولی سوالات کئے، تو ان کی ا کثریت ان کے صحیح طور سے جواب نہ دے سکی۔ وہ سب اپنے اپنے مدارس کے فارغ التحصیل طالب علم تھے۔ لیکن ان کی حالت یہ تھی کہ صحاحِ ستہ تو پڑھی ہیں لیکن اُصول فقہ میں اُصولِ شاشی تک نہیں پڑھی۔ منطق میں مرقاة تک کا علم نہیں، ویسے وہ فارغ التحصیل ہیں۔اردو کے ایک معمولی جملے کا عربی میں ترجمہ نہیں کرسکتے۔ ہم صرف تین طالب علم درجہ تکمیل میں داخل کرسکے ہیں۔ کئی درخواستیں مسترد کردی گئیں اور ۹ طالب علم اس شرط پر رکھے گئے کہ وہ ایک سال میں درجہ خاص(سپیشل کلاس) میں تعلیم حاصل کریں گے اور جن علوم کی کمی ہے اسے پورا کریں گے تاکہ آئندہ سال درجہ تکمیل میں داخل ہوسکیں۔"

مولانا محمد اسمٰعیل سلفی جامعہ سلفیہ کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ صدر مولانا سید محمد داؤد غزنوی تھے۔ مولانا سلفی ناظم تعلیمات بھی رہے ہیں۔

مولانا سلفی کے علم و فضل کا اعتراف

مولانا محمد اسمٰعیل سلفی علم و فضل کے اعتبار سے جامع الکمالات تھے۔ بڑے حساس، ذہین، فطین اور شگفتہ مزاج تھے۔ ایک وسیع النظر عالم دین اور صاحب ِفکر و بصیرت انسان تھے۔ آپ کا تدبر و تفکر، سیاسی سوجھ بوجھ، معاملہ فہمی، شرافت ِنفس، ذکاوتِ حس، اخلاص، صبر و ضبط، اور استقلال و بسالتکا سکہ مخالف وموافق سبھی تسلیم کرنے پرمجبور تھے۔ مولانا سلفی مرحوم جدید وقدیم کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتے تھے اور اپنی خصوصیات،اوصاف اور کمالات کی بنا پر اپنے معاصرین میں ایک نمایاں اور ممتاز مقام کے مالک تھے۔

مشہور دیوبندی عالم مولانا محمدعلی کاندھلوی مرحوم نے ایک دفعہ راقم سے فرمایا کہ میں ۱۹۵۳ء کی قادیانی تحریک میں گوجرانوالہ جیل میں نظر بند تھا۔مولانا محمد اسمٰعیل سلفی مرحوم بھی میرے ساتھ نظر بند تھے اور ان کے سوہدرہ کے مولانا عبدالمجید خادم اورحکیم عنائت اللہ نسیم سوہدروی بھی ہمارے ساتھ تھے۔ میں نے ایک دن مولانا محمد اسمٰعیل سلفی مرحوم سے عرض کیا کہ آپ یہاں جیل میں 'حجة اللہ البالغہ' کا درس دیا کریں۔ مولانا سلفی مرحوم نے میری اس درخواست کوشرفِ قبولیت بخشا۔ چنانچہ آپ نے گھر سے حجة اللہ البالغہ منگوائی اور دوسرے دن 'حجة اللہ البالغہ' کا درس شروع کردیا۔مولانامحمدعلی کاندھلوی نے فرمایا:

"میں نے حجة اللہ البالغہ مولانا شبیر احمد عثمانی سے پڑھی تھی، اور میرا یقین تھا کہ جس طرح مولانا عثمانی مرحوم 'حجة اللہ البالغہ' کا درس دیتے ہیں، ان جیسا کوئی دوسرا عالم درس نہیں دے سکتا۔ لیکن جب مولانا محمداسمٰعیل سلفی کا درس سنا تو مجھے اپنی رائے تبدیل کرنی پڑی۔ مولانا سلفی جس انداز سے حجة اللہ البالغہ کے مسائل کی تشریح فرماتے تھے۔ اس طرح کوئی دوسرا مدرّس تشریح نہیں کرسکتا تھا اور اس وقت میرا یقین پختہ ہوگیا کہ مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ایک جید عالم دین ہیں۔ علومِ اسلامیہ پر ان کی نظر وسیع ہے اور جماعت اہلحدیث کے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔"

سید سلیمان ندوی سے تعلقات

مولانا محمد اسمٰعیل سلفی کے علامہ سید سلیمان ندوی سے دوستانہ تعلقات تھے۔ سید صاحب مولانا سلفی مرحوم کے علم و فضل کے معترف تھے۔ خط و کتابت اور مراسلت کا سلسلہ جاری رہتا تھا اور سید صاحب مولانا مرحوم کی بہت قدر کرتے تھے۔ مولانا محمد حنیف ندوی مرحوم اورمولانا عبدالقادر ندوی صدر جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کو مولانا سلفی کی سفارش پر سید صاحب نے ندوة العلماء لکھنوٴ میں داخلہ دیا تھا۔ اپریل ۱۹۳۳ء میں جب سید صاحب لاہور تشریف لائے اور ادارئہ معارفِ اسلامیہ کے اجلاس میں شرکت فرمائی تو اجلاس کے اختتام پر سید صاحب گوجرانوالہ تشریف بھی لے گئے۔گوجرانوالہ میں آپ مولانا محمد اسمٰعیل سلفی اور مولانا محمد چراغ مرحوم سے بھی ملے۔ سید صاحب نے اس کاذکر معارف اعظم گڑھ میں کیا ہے۔

علمائے سلف سے محبت

مصلحین اُمت میں امام احمدبن حنبل، امام ابن حجر عسقلانی، امام ابن تیمیہ، امام ابن قیم، شاہ ولی اللہ، سید احمدشہید،مولانا شاہ اسمٰعیل شہید اور امام محمد بن عبدالوہاب رحمہم اللہ اجمعین سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ ان حضرات کی تصانیف کا مطالعہ بڑے ذوق و شوق سے کرتے تھے اور اپنے تلامذہ کوبھی ان کی تصانیف کے مطالعہ کی ترغیب دیتے تھے۔

علمائے اہلحدیث میں شیخ الکل مولانا سید محمدنذیر حسین دہلوی، مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری، مولانا شمس الحق عظیم آبادی، مولانا سید نواب صدیق حسن خان، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری، مولانا قاضی احمد سلیمان منصورپوری، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری، مولانا سید عبدالجبار غزنوی، مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی، مولانا سید محمد داؤد غزنوی،مولانا حافظ عبداللہ روپڑی اور مولانا حافظ محمد گوندلوی رحمہم اللہ اجمعین سے انہیں والہانہ عقیدت تھی اوران کے علم و فضل کے معترف تھے۔

کتب خانہ

مولانا محمد اسمٰعیل سلفی کاکتب خانہ انفرادی کتب خانوں میں بہت بڑا کتب خانہ تھا اور ہر موضوع سے متعلق عمدہ کتابوں کا ذخیرہ ان کے کتب خانہ میں موجود تھا۔ ان کے پاس تفسیر، حدیث، شروح، فقہ، اُصولِ فقہ، اُصولِ حدیث، تاریخ و سیر، اسماء الرجال اور فنون کی تمام کتابیں موجود تھیں۔ اُردو کتابوں کا بھی کافی ذخیرہ تھا۔ اردو کے علمی رسائل واخبارات کے کئی فائل ان کے کتب خانہ میں موجود تھے۔ علم حدیث اور علم فقہ سے ان کو خاص دلچسپی تھی۔ حدیث کی کتابوں کی کافی شروح ان کے کتب خانہ میں موجود تھیں اور اس کے علاوہ چاروں فقہ (حنفی، مالکی، شافعی،حنبلی) اور فقہ جعفریہ کی کتابیں بھی ان کے پاس موجود تھیں۔ فتاویٰ پر بھی ان کے پاس کافی کتابیں تھیں۔ وہ ہر موضوع سے متعلق تمام کتابوں کاباقاعدہ مطالعہ کرتے تھے اور اہم مقامات پر نوٹ لکھتے۔

سوانح حیات

شیخ الحدیث مولانا محمد اسمٰعیل سلفی ۱۸۹۵ء میں تحصیل وزیرآباد کے قصبہ 'ڈھونیکی' میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کانام مولانا حکیم محمدابراہیم تھا۔ جو جید عالم دین، حاذق طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پایہ کے خوشنویس بھی تھے۔ آپ عرصہ تک مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی کا رسالہ 'اشاعة السنة' کتابت کرتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے امام حدیث مولانا عبدالرحمن محدث مبارکپوری کی مشہور کتاب 'تحفة الاحوذی شرح جامع ترمذی' جو چار جلدوں میں ہیکی کتابت بھی کی۔ تحفة الاحوذی کے ٹائٹیل پر یہ عبارت درج ہے: کتبہ محمد ابراہیم : موضع ڈھونیکی، تحصیل وزیرآباد، ضلع گوجرانوالہ

مولانا محمد اسمٰعیل نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا حکیم محمد ابراہیم سے حاصل کی۔ اس کے بعد آپ دارالحدیث وزیرآباد تشریف لے آئے۔ دارالحدیث وزیرآباد میں استادِ پنجاب شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی توحید و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل تھے۔ استادِ پنجاب کے علاوہ اس مدرسہ میں مولوی عمر الدین وزیرآبادی اور استادِ پنجاب کے صاحبزادہ مولوی عبدالستارمرحوم بھی مدرّ س تھے اور ایک مدرّس مولوی تاج الدین بھی تھے۔

مولانا محمد اسمٰعیل نے صرف و نحو کی کتابیں مولوی تاج الدین سے پڑھیں۔ مولوی عمر الدین سے فارسی کتابیں گلستان، بوستان وغیرہ پڑھیں اور مولوی عبدالستار صاحب سے سنن نسائی کا رُبع اوّل پڑھا اور استادِ پنجاب سے جملہ علوم و فنون، قرآن و حدیث، فقہ و اصول فقہ، عربی ادب، منطق و فلسفہ اور عقائد وکلام میں استفادہ کیا۔

وزیرآباد میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا محمد اسمٰعیل دہلی تشریف لے گئے۔ دہلی ان دنوں علم وفن کا مرکز تھا۔ یہاں پر شاہ ولی اللہ دہلوی اور ان کی تحریک ِعلمی کے گہرے نقوش تھے۔ آپ نے مدرسہ امینیہ، دہلی میں داخلہ لیا اورمولانا محمد قاسم سے فقہ کے اسباق پڑھے، لیکن عامل بالحدیث ہونے کی وجہ سے جلدہی مدرسہ سے خارج کردیئے گئے۔ اس کے بعد آپ نے مدرسہ دارالکتاب والسنة، صدر بازار دہلی کا رخ کیا،جہاں مولانا عبدالوہاب ملتانی صدر مدرّس تھے اور مولانا عبدالرحمن ولایتی مدرّس تھے۔ مولانا عبدالرحمن ولایتی بلند پایہ عالم دین، محدث اور فقیہ تھے۔ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ ان سے مولانا محمد اسمٰعیل نے حدیث اور معقولات کی کتابیں پڑھیں اور اس کے بعد مولانا عبدالجبار عمرپوری (جد ِامجد مولانا عبد الغفار حسن)سے تفسیر ابن کثیر اور تفسیر فتح البیان کے بعض اجزا پڑھے۔ مولانا عبدالجبار ان دنوں مکفوف البصر (نابینا) ہوگئے تھے۔

اس کے بعد مولانا محمداسمٰعیل واپس وطن وزیرآباد تشریف لے آئے اور دوبارہ استادِ پنجاب کی خدمت میں حاضر ہوکر تفسیر و حدیث کی سند حاصل کی۔ اور اس کے بعد دوبارہ دہلی تشریف لے گئے۔اس زمانہ میں عالمی جنگ زوروں پر تھی۔ دہلی کے حالات کافی حد تک خراب تھے، جس کی وجہ سے مولانا محمد اسمٰعیل اپنے سبق صحیح طور پر شروع نہ کرسکے۔ ان دنوں استاذالاساتذہ مولانا حافظ عبداللہ محدث غازی پوری دہلی میں قیام فرما تھے۔ مولانا محمد اسمٰعیل ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران کے درسِ قرآن سے مستفیض ہوتے رہے۔

دہلی میں حالات چونکہ خراب تھے۔ اس لئے مولانا محمد اسمٰعیل دہلی سے امرتسر تشریف لے آئے۔ امرتسر بھی ان دنوں علم و فن کا مرکز تھا۔ حضرت مولانا عبداللہ غزنوی  نے مدرسہٴ غزنویہ کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی تھی جس میں مولانا سید عبداللہ غزنوی اپنی زندگی میں قرآن و حدیث کا درس دیتے رہے۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادگان مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی، مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی اور مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمہم اللہ اجمعین اس مدرسہ میں قرآن و حدیث کا در س دیتے رہے۔

مولانا محمد اسمٰعیل جب امرتسر تشریف لائے تو اس وقت مولانا عبدالرحیم بن مولانا سید عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالغفور بن مولانا محمد بن عبداللہ غزنوی اور مولانا محمد حسین ہزاروی داماد مولانا عبدالجبار غزنوی مدرسہٴ غزنویہ کے روحِ رواں تھے۔ مولانا محمد اسمٰعیل نے ان ہر سہ علما سے جملہ علومِ اسلامیہ میں استفادہ کیا۔ منطق و فلسفہ کی کتابیں مولانا مفتی محمد حسن امرتسری بانی جامعہ اشرفیہ، لاہورسے پڑھیں۔طب کی تعلیم امرتسر میں مولوی حکیم محمد عالم امرتسری سے حاصل کی۔ مولوی حکیم محمد عالم اسلامیہ ہائی سکول میں عربی کے استاد تھے۔ مسلکا بریلوی تھے لیکن بڑے وسیع الظّرف تھے۔

امرتسر میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد مولانا محمد اسمٰعیل واپس وزیرآباد تشریف لائے اور اس کے بعد مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اپنے وقت کے مشہور مناظر، مفسر قرآن اور کامیاب مصنف تھے اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کے دست ِراست تھے۔ مولانا محمد اسمٰعیل نے مولانا سیالکوٹی سے تفسیر قرآن میں استفادہ کیا۔مولانا محمد اسمٰعیل فرمایا کرتے تھے کہ

"مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا درسِ قرآن مناظرانہ انداز سے بہت مفید ہوتا تھا۔ میں نے تفسیر بیضاوی مولانا سیالکوٹی سے شروع کی مگر مقامی مشاغل کی وجہ سے چند اسباق ہی پڑھ سکا۔ اس کے بعد چھٹی ہوگئی۔"

۱۹۲۱ء میں مولانا محمد اسمٰعیل نے جملہ علومِ اسلامیہ سے فراغت پائی۔۱۹۲۱ء میں ملک میں آزادی کا آغاز ہوچکا تھا اور رواٹ ایکٹ نافذ ہوچکا تھا۔ مجلس خلافت نے ترکی خلافت کے لئے تحریک ِخلافت شروع کردی تھی۔ ۱۹۲۱ء میں مولانا محمد اسمٰعیل کو مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی نے گوجرانوالہ میں رہائش اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ آپ مسجد ِاہلحدیث حاجی پورہ میں خطیب مقرر ہوئے۔ چوک نیائیں گوجرانوالہ میں بھی ایک مسجد ِاہلحدیث تھی جو اب مرکزی مسجداہلحدیث کہلاتی ہے۔ اس مسجد کے خطیب مولانا علاؤ الدین مرحوم تھے۔مولانا علاؤ الدین ضلع ملتان کے ایک گاؤں 'اوج بھٹیاں' کے رہنے والے تھے۔ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی کے شاگرد تھے۔ ۱۸۷۴ء/۱۲۹۰ھ میں گوجرانوالہ میں اقامت اختیار کی۔ ۱۹۲۱ء/۱۲۳۹ھ میں انتقال ہوا۔

مولانامحمد اسمٰعیل چند ماہ مسجد اہلحدیث حاجی پورہ کے خطیب رہے۔مولانا علاؤ الدین کے انتقال کے بعد آپ کو مسجد اہلحدیث چوک نیائیں کا خطیب مقرر کیا گیا۔ آپ اپنی وفات ۱۹۶۸ء تک اس مسجدمیں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ مسجد اہلحدیث چوک نیائیں کا خطیب مقرر ہوتے ہی آپ نے اس مسجد میں مدرسہٴ محمدیہ کی بنیاد رکھی اور اس میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ مدرسہ آپ کی یادگار ہے اور آج بھی اسلام کی نشرواشاعت ، توحید و سنت کی ترقی و ترویج اور شرک و بدعت کی تردید وتوبیخ میں کوشاں ہے۔ مولانا محمد اسمٰعیل کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے۔ مشہور تلامذہ جنہوں نے کسی نہ کسی حیثیت سے علمی دنیا میں اپنا ایک مقام پیدا کیا، ان میں چند ایک یہ ہیں :

1۔ مولانا محمد حنیف ندوی: مفسر قرآن اور مشہور فلسفی، فلسفہ اسلام کو اپنا موضوع بنایا اور اس پر بہت کچھ لکھا۔

2۔ مولانا محمد اسحق بھٹی: مشہور صحافی اور مصنف

3۔ مولانا محمد خالد گھرجاکھی: صاحب ِتصانیف کثیرہ اور بیشتر عربی کتابوں کے ناشر

4۔ مولانا حکیم محمود سلفی: مشہور طبیب، جید عالم دین

5۔ مولانا حافظ اسمٰعیل ذبیح: مشہور عالم، واعظ اور مدرس

6۔ مولانا محمد سلیمان کیلانی: مشہور عالم اور مصنف (مولانا عبد الرحمن کیلانی کے برادرِ کبیر)

7۔ حکیم عبداللہ خان نصر سوہدروی: مشہور طبیب، پروفیسر طبیہ کالج دہلی

8۔ مولانامعین الدین لکھوی: مشہور عالم، واعظ اور سیاسی رہنما

مولانامحمد اسمٰعیل نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تحریک ِآزادی میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ تحریک ِاستخلاصِ وطن کے سلسلہ میں کئی بار قید ہوئے اورحرمت ِختم نبوت کے سلسلہ میں بھی آپ اسیر زنداں رہے۔مولانا محمد اسمٰعیل علم و فضل کے اعتبار سے بلند پایہ عالم دین تھے۔ آپ اکابر علمائے اہلحدیث کی جملہ صفات کے حامل اور ایک مثالی شخصیت تھے۔

مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری کا ورع اور تقویٰ، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری کی تواضع، مولانا عبدالواحد غزنوی کا ذوقِ قرآن فہمی، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی انگریز دشمنی، مولانا ابوالکلام آزاد کا جوہر خطابت،مولانا عبدالوہاب دہلوی کی شیفتگی ٴسنت، مولانا ابوالوفاثناء اللہ امرتسری کا ذوقِ تالیف، مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی اور مولانا محمد حسین بٹالوی کا وسعت ِعلم، مولانا عبدالقادر قصوری کی متانت اور عمق فکر، مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی شرافت اور تبحر علمی، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی کا ملکہ افتا اور مولانا سید محمد داؤد غزنوی کی معاملہ فہمی اور وسعت ِقلبی... یہ صفات ایک مولانا محمد اسمٰعیل میں موجود تھیں۔

مولانا محمد اسمٰعیل کئی بار حج بیت اللہ کی سعادت سے مشرف ہوئے، قیامِ مکہ کے دوران آپ نے شیخ ابوبکر توقیر سے تدریس و افتا میں 'اجازہ' حاصل کی۔

جماعت ِاہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے میں ان کی خدمات قدر کے قابل ہیں۔ حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو والہانہ محبت تھی اور حدیث کے معاملہ میں معمولی سی مداہنت بھی برداشت نہیں کرتے تھے۔ گوجرانوالہ میں تعمیر مساجد میں بھرپور حصہ لیا۔ آپ نے جس وقت اس دنیا کو خیر باد کہا، اس وقت آپ نے اس شہر میں اہلحدیث کی ۲۵ ویں مسجد کی تاسیس فرمائی۔ (اس وقت گوجرانوالہ میں اہلحدیث مساجد کی تعداد ۶۰ کے قریب ہے۔)

وفات

مولانا محمد اسمٰعیل سلفی نے نصف صدی تک مسند ِدرس و تدریس اور خطابت و افتاکو زینت دینے کے بعد ۲۰/ فروری ۱۹۶۸ء مطابق ۲۰/ ذی قعدہ ۱۳۸۷ھ بروز منگل بعد نمازِ عصر انتقال کیا۔ انا لله وانا اليه راجعون

بدھ کے روز بعد نمازِ ظہر گوجرانوالہ میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی مرحوم نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ راقم کو بھی نمازِ جنازہ میں شرکت کی سعادت حاصل ہے۔جنازہ پر بے پناہ ہجوم تھا شورش کاشمیری مرحوم بھی جنازہ میں شریک تھے۔ انہوں نے اپنے اخبار ہفت روزہ چٹان،لاہور میں لکھا:

"ایسا جنازہ تو بادشاہوں کوبھی نصیب نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کی بال بال مغفرت فرمائے اور علیین میں مقام عطا فرمائے۔"

اساتذہ

مولانا سلفی نے جن اساتذہ کرام سے مختلف علوم و فنون میں استفادہ کیا، ان کے نام درج ذیل ہیں :

1۔مولانا حکیم محمد ابراہیم  2۔مولانا عمر الدین وزیرآبادی 

3۔مولانا تاج الدین 4۔مولوی عبدالستار بن شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی

5۔مولانا عبدالرحمن ولایتی 6۔استاد پنجاب شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی

7۔مولانا محمد قاسم مدرس مدرسہ امینیہ دہلی8۔مولانا عبدالجبار عمرپوری

9۔مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری  10۔مولانا عبدالرحیم غزنوی 

11۔مولانا عبدالغفور غزنوی 12۔مولانا محمد حسین ہزاروی

13۔ مولانا مفتی محمدحسن امرتسری  14۔مولوی حکیم محمد عالم امرتسری 

15۔مولانا محمدابراہیم میر سیالکوٹی  16۔شیخ ابوبکر توقیر مکی (جاری ہے)