بھارتی مسلمان اور ہم !
پاکستان کا قیام دو قومی نظریہ کی بنیاد پر عمل میں آیا۔ اس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ مسلمان اپنے دینی عقائد، تصورِ عبادت، قانون و شریعت، تہذیب و ثقافت اور تاریخی روایات کی بنا پر ہندوؤں سے الگ قوم ہیں۔ اسلام نے رنگ ونسل، زبان وعلاقہ کی وحدت کی بجائے نظریہ کی وحدت کو مسلم قومیت(ملت٭) کی بنیاد ٹھہرایا۔ اسلام نے تمام بنی نوع انسان کو ملت ِاسلامیہ اور ملت ِکفریہ میں تقسیم کیا ہے۔
کلیسا کے مذہبی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لئے یورپ کے فلسفیوں نے 'قومی ریاست' کا تصور پیش کیا جو گذشتہ ۴ سو سال سے ان کے ہاں مقبول رہا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے جب نظریاتی ریاست اور اسلامی قومیت کا تصور پیش کیا تو کانگریس کے راہنماؤں نے اسے فرقہ وارانہ تعصب قرار دیتے ہوئے انڈیا کی وحدت کے لئے خطرہ قرار دیا۔ مسلمانوں کو علیحدہ ریاست سے محروم رکھنے کے لئے گاندھی، نہرو اور دیگر نیشنلسٹ راہنماؤں نے متحدہ قومیت کا تصور پیش کیا۔ مگر یہ سوچ اس وقت بھی فریب انگیز تھی اور آج بھی غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ ۵۵ سال کے بعد بھی دو قومی نظریہ ایک آفاقی صداقت کے طور پر زندہ ہے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ ہندو اور مسلمان میری دو آنکھیں ہیں، یہ ماضی کی افسوسناک تاریخ بھول کر بھائیوں کی طرح اکٹھے رہ سکتے ہیں مگر قائداعظم نے اس کو فریب اور مغالطہ آمیز تصور کہا۔
احمدآباد کے حالیہ مسلم کش فسادات نے دو قومی نظریہ کی صداقت کو ایک دفعہ پھر واضح کردیا ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کو دو آنکھیں قرار دینے والے گاندھی کے دیس میں مسلمانوں کے لئے اپنے ہی وجود کو باقی رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ آج بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف کی خلیج پرُ ہونے کی بجائے مزید گہری ہوگئی ہے۔ معروف ہندو صحافی نے اپنے حالیہ مضمون میں اعتراف کیا ہے:
"گجرات میں قتل و غارت ایک بدترین واقعہ ہے۔ مگر یہ علامت ہے، اصل مرض نہیں۔ اصل بیماری ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وہ فاصلہ ہے جو تقسیم ہند کے ۵۵ سال کے بعد مزید بڑھا ہے۔ ہم نے دنیا کا سب سے زیادہ سیکولر آئین بنایا ہے لیکن ہم اس آئین کو نافذ کرنے کے لئے جس مزاج کی ضرورت ہوتی ہے، اس کو تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں۔ روح کا تو ذکر ہی کیا، ہم تو آئین کے الفاظ پر عملدرآمد نہیں کراسکے۔" (ڈان: ۹/ مارچ ۲۰۰۲ء)
ہم محض یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے کہ دو قومی نظریہ ایک آفاقی صداقت ہے۔ اس عظیم نظریہ کا تقاضا ہے کہ ہم بھارتی مسلمانوں کے ساتھ عملی طور پر یکجہتی کا اظہار کریں۔ دوریاستوں کے الگ الگ شہری ہونے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے مسلمان ایک ہی ملت سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوں تو پاکستانی مسلمان پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ دینی رشتے میں منسلک ہیں۔ مگر ہندوستان کے مسلمانوں سے ہمارے نسلی، خونی اور لسانی رشتے بھی بہت گہرے ہیں۔ ہماری تاریخ، ثقافت اور علاقائی اسلاف ایک ہیں، اب بھی لاکھوں پاکستانی ایسے ہیں جن کے قریبی عزیز و اقارب انڈیا میں رہتے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کے عظیم تہذیبی و علمی مراکز اس وقت تک انڈیا میں ہیں۔ دہلی کی سرخ پتھروں والی جامع مسجد ہو یا لاہور کی شاہی مسجد، دونوں ایک ہی روایت کے دو نام ہیں۔ علی گڑھ، آگرہ، فیض آباد، لکھنوٴ، الٰہ آباد، دہلی، رام پور، بھوپال، حیدر آباد دکن، میسور اوراحمد آباد کا نام سنتے ہی مسلمانوں کی شاندار تاریخی فتوحات اور تہذیبی کارناموں کے روشن چراغ ذہن میں جگمگانا شروع کردیتے ہیں۔ تحریک ِپاکستان کے دوران سب سے زیادہ کردار جن علاقوں کے مسلمانوں نے ادا کیا وہ اس وقت بھارت میں ہیں۔ اگر ہم آج ہندوؤں کی غلامی سے آزاد ہوکر ایک آزاد ریاست میں ہر طرح کی نعمتوں سے متمتع ہورہے ہیں، تو اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ ان مسلمانوں کو جاتا ہے جن کی قربانیوں کا حقیقی ثمر ہم کھا رہے ہیں۔ قومی سطح پر اس سے بڑھ کر احسان فراموشی اور اجتماعی بے حمیتی کوئی اور نہ ہوگی کہ ہم بھارت کے مسلمانوں کو فراموش کردیں!!
موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں، ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان مسلمان بھائیوں کو یونہی تنہا نہ چھوڑ دیں جو بھارت میں ہندو اکثریت کے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ قیامِ پاکستان کا بنیادی مقصد پورے برصغیر کے مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنا تھا۔ پاکستان کے قیام کا مقصد اُدھورا رہے گا، اگر ہم مسلمانوں کے مفادات کو پاکستان کی علاقائی حدود تک محدود کردیں۔
قائداعظم جب تک زندہ رہے، وہ ہمیشہ بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے تحفظ کے متعلق فکرمند رہے اوران کی حمایت میں بھرپور آواز اٹھاتے رہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کا وہ مکا اب تک مشہور ہے جو انہوں نے لاہور میں اس وقت لہرایا تھا جب بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ انہوں نے نہایت سخت الفاظ میں جواہر لال نہرو کو دھمکی دی تھی کہ وہ مسلمانوں کا قتل عام بند کرائیں۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی اسی قومی حمیت کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان اقلیتوں کے تحفظ کے لئے لیاقت نہرو معاہدہ وجود میں آیا۔ احمد آباد کے مسلم کش فسادات کے خلاف ہماری طرف سے محض زبانی احتجاج کافی نہیں ہے۔ حکومت ِپاکستان کو یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں کھڑا کرنا چاہئے۔ عالمی ضمیر کو اس مسئلہ پر جھنجھوڑنا چاہئے اور عالم اسلام میں بھارت کے مسلمانوں کے تحفظ کے لئے رائے عامہ کو متحرک کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں اسلامی ممالک کی تنظیم کا پلیٹ فارم بھی استعما ل کرنا چاہئے۔ مسلمان ممالک پر زور دینا چاہئے کہ وہ بھارت کی طرف سے عدمِ تعاون کی صورت میں اس کا تجارتی بائیکاٹ کردیں۔ حکومت ِپاکستان کو بھارت کو یہ بتلادینا چاہئے کہ ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ لیاقت نہرو معاہدے کی رو سے بھارت مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ کا پابند ہے اور پاکستان اس معاملے پر بھرپور اور عملی احتجاج کا حق رکھتا ہے۔
بھارت میں جنونی ہندو اکثریت تو بہیمانہ قتل و غارت کے ذریعے پوری دنیا کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم نہیں ہوسکتے۔ مگر ہمارے ہاں کے نام نہاد دانشور سرے سے دو قومی نظریہ کے وجود ہی سے انکار پر تلے ہوئے ہیں اور آج کل ایک قومی نظریے کی بات نہایت شدومد سے کی جارہی ہے۔ یہ بات ذہن میں ر ہنی چاہئے کہ ہندو جب دو قومی نظریہ کی بات کرتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ چونکہ بھارت میں ہندو اکثریت میں ہیں لہٰذا وہاں ہندو راج ہی ہونا چاہئے۔ بھارت کی انتہا پسند ہندو تنظیمیں برملا یہ نعرے لگاتی ہیں کہ غیر ہندوؤں کو بھارت دھرتی سے نکال دینا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں قومی یکجہتی کو برقرار رکھنے کے لئے انہیں سیکولرزم کا سہارا لینا پڑا۔ ان کے خیال میں وہاں قومی اتحاد محض ہندو مذہب کے نظریے پر قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ لیکن مسلمان جب دو قومی نظریہ کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد غیر مسلموں سے عدمِ رواداری ہرگز نہیں ہوتا، اسلامی تاریخ اقلیتوں سے حسن سلوک کی شاندار مثالیں پیش کرتی ہے، دنیا کے کسی بھی مذہب نے اقلیتوں کو وہ حقوق نہیں دیئے، اسلام نے جس قدر دیئے ہیں، مگر ہمارے ہاں بھی اسلام کی بجائے 'سیکولرزم' کی بات کی جاتی ہے !!
پاکستان میں ملت بیزار سیاستدانوں نے ملی حمیت کوبیدار کرنے کی بجائے اور پاکستان کو اس کی اصل منزل سے ہمکنار کرنے کی کوششوں کی بجائے قوم کو لہو و لعب اور خرافات میں مشغول رکھنے کی پالیسی کو ترجیح دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہزاروں مسلمانوں کی دردناک اموات کی خبریں پڑھ کر بھی ہمارے دلوں میں غم کی لہر نہیں دوڑتی۔ ثقافت کے نام پر کثافت پھیلانے والے نام نہاد فنکاروں اور سیکولر ادیبوں نے ہمیشہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی لائن مٹا دینے کی بات ہے۔ جب بھی کوئی ثقافتی طائفہ یا گروہِ اُدبا بھارت کی یاترا کو جاتا ہے، وہاں وہ ہمیشہ دو قومی نظریے کے خلاف بات کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ محض اسلامی بنیاد پرست ہی ہیں جن کی وجہ سے بھارت او ر پاکستان کے تعلقات معمول پر نہیں آرہے۔ وہ بھارتی ہندوؤں کی انتہا پسندی کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔
اکیسویں صدی کے آغاز ہی میں عالم اسلام میں ایک دوسرے کے معاملات سے لاتعلقی، اُمت کے مسائل سے خود غرضانہ چشم پوشی، اور مسلمانوں پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑنے کے باوجود بے حسی اور بے حمیتی کی ایک کربناک عمومی فضا جو نظر آتی ہے، چند برس پہلے تک یہ صورت قطعاً نہ تھی۔ گذشتہ چندماہ میں افغانستان میں امریکہ نے انسانیت سوز مظالم اور کارپٹ بمباری کے ذریعے ۵۰ ہزار سے زیادہ بے گناہ مسلمانوں کو شہید کردیا، مگر عالم اسلام نے سرکاری سطح پر اس بہیمانہ درندگی پر اتنا بھی احتجاج نہ کیا جتنا کہ یورپ اور امریکہ نے ایک یہودی صحافی ڈینیل پرل کے قتل پر کیاہے۔ اب دوسرا المناک سانحہ بھارت کے صوبہ گجرات میں وسیع پیمانے پر مسلم کش فسادات کی صورت میں سامنے آیا ہے، جس میں ایک ہزار سے زیادہ بے گناہ مسلمانوں کو اذیت ناک انداز میں زندہ جلا دیا گیا، ہزاروں بے گھر ہو کر فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ہیں، ان کی کروڑوں کی جائیداد کو نذرِ آتش کرکے ان کی معاشی حالت کا جنازہ نکال دیا گیا ہے مگر عالم اسلام کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ صدرِ پاکستان نے اپنے بیان کے ذریعے عالم اسلام اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی اپنے تئیں معمولی سی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں مطالبہ کیاکہ بھارت میں مسلمانوں کا قتل عام بند کیا جائے۔ انہوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں کو انتہا پسند ہندوؤں کی دہشت گردی سے بچانے کے لئے موٴثر اقدامات کرے، فسادات کے ذمہ دار گرفتار کرکے سزا دی جائے۔" (روزنامہ انصاف: ۳/ مارچ) مگر بھارتی حکومت نے پرویزمشرف کے اس جائز مطالبے کو نہایت حقارت سے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اس طرح کا بیان بھارت کے اندرونی معاملات میں ناروا مداخلت ہے۔ بلکہ بھارت کے وزیرخارجہ ایڈوانی نے تو حسب ِمعمول ان واقعات کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ قرار دیا !!
صدرِ پاکستان نے کہا: "ایسے واقعات پر عالمی برادری خاموش نہیں رہ سکتی۔" وہ عالمی ضمیر کو جگانا چاہتے تھے، مگر کامیاب نہیں ہوئے۔ عالمی برادری تو کیا جاگتی، عالم اسلام سویا ہوا ہے۔ ۴/ مارچ کو پھر حکومت ِپاکستان کے ترجمان کا بیان شائع ہوا: "بھارتی سیکولرازم کا پول کھل گیا۔ دنیا فسادات کا نوٹس لے۔" بھارتی سیکولرزم کا پول تو پہلے ہی کھلا ہوا تھا، مسلم کش فسادات سینکڑوں نہیں، ہزاروں مرتبہ ہوچکے ہیں۔ البتہ ترجمان نے جو بات نہیں کی، وہ یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ، امریکہ او ریورپی ممالک کے انسانی حقوق کے احترام اور دہشت گردی ختم کرنے کے دعوؤں کاپول بھی کھل گیا ہے، ہماری حکومت کے ترجمان نجانے دنیا کے بارے میں اس قدر خوش اعتقادی کا شکار کیوں ہیں۔ انہیں اب تک معلوم ہونا چاہئے تھا کہ دنیا بھارت میں صرف انہی فسادات کا نوٹس لیتی ہے جس میں امریکہ او ریورپ کے ہم مذہب مسیحیوں کو قتل کیا جاتا ہے۔ مسلمان انسان ہوتے تو دنیا ان کے انسانی حقوق کا تحفظ بھی کرتی۔ عالمی ضمیر کے آئینے میں صرف ان انسانی حقوق کی تصویریں منعکس ہوتی ہیں جو عیسائیوں، یہودیوں اور دیگر غیرمسلموں کے خون کی لکیروں سے بنتی ہیں، مسلمانوں کا خون تو اس قدر سیاہی مائل ہے کہ اس کے پڑتے ہی عالمی ضمیر کا آئینہ سنگ خارا کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
صدرِ جنرل پرویز مشرف کے بیانات سے ہندو جنونیوں کی درندگی میں کمی آئی ہے، نہ بھارتی حکومت نے اس کا اثر قبول کیا ہے، مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ جنابِ صدر کو جلد ہی احساس ہوگیا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ ۱۲/ جنوری کی معروف تقریر میں انہوں نے فرمایا تھا کہ دنیا میں جہاں کوئی واقعہ ہوتا ہے، پاکستانی مسلمان خوامخواہ اس میں کود پڑتے ہیں۔ مگر اب وہ خود ہی جب بھارت سے فسادات بند کرانے اور دنیا کو ان فسادات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کررہے ہیں تو انہوں نے بتا دیا ہے کہ بعض واقعات ایسے خونچکاں ہوتے ہیں کہ مسلمان اپنے ہم مذہب بھائیوں کا قتل عام دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ کہیں نہ کہیں تو کودنا پڑتا ہی ہے، وہ قندھار او ر کابل کی زمین پر خونِ مسلم کی بہتی ندیاں ہوں یا احمدآباد کی گلیوں میں مسلمانوں کے خون کا دریا ہو۔
۱۹۶۹ء میں احمدآباد میں ہونے والے بدترین مسلم کش فسادات میں معروف دانشور صحافی کے ایل گابا کے بیان کے مطابق چھ ہزار مسلمان مارے گئے تھے اور ۳۰ ہزار مسلمان گھروں سے اُجاڑ دیئے گئے تھے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے کہ کوئی اور جائے پناہ نہ تھی۔
آج سے ۳۴ برس پہلے مسلمانوں میں 'پان اسلام ازم'کی اچھی خاصی رمق باقی تھی۔ ابھی اُمت ِمسلمہ کی کوکھ مکمل طور پر بانجھ نہیں ہوئی تھی ، ابھی شاہ فیصل شہید جیسے اس کے غیور و جسور بیٹے زندہ تھے۔ احمد آباد کے فسادات کے چند ماہ بعد ۱۹۷۰ء میں مراکش کے شہر 'رباط' میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی تو سیکولر زم کا فریب انگیز دعویٰ کرنے والے بھارت نے مطالبہ کیا کہ اس کانفرنس میں بھارتی وفد کو بھی شریک ہونے کی دعوت دی جائے کیونکہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ سوائے انڈونیشیا اور پاکستان کے دوسرے کسی مسلمان ملک میں اس قدر مسلمان آباد نہیں ہیں۔ انڈیا کی یہ درخواست منظور ی کے بعد آٹھ رکنی بھارتی وفد جس میں صرف تین مسلمان اراکین تھے، رباط کانفرنس میں شریک ہوا۔ مسلمان زخم خوردہ تھے مگر انہوں نے اس وفد کو خوش آمدید کہا، مگر اس دوران ہندوستان نے یہ حرکت کی کہ اعلان کردیا کہ رباط کانفرنس میں احمد آباد کے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے متعلق اس وفد سے کسی قسم کا سوال جواب بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت سمجھا جائے گا۔ یہ اعلان سنتے ہی اس بھارتی وفد پر رباط کانفرنس کے دروازے بند کردیئے گئے اور بھارت کے سرکاری وفد کو بے حد ذلت آمیز انداز میں کانفرنس کے دوران ہی میں واپس لوٹنا پڑا۔ اس کانفرنس میں عالم اسلام کے راہنماؤں نے بھارتی حکومت کی شدید مذمت کی اور اسے مسلمانوں کے جان ومال کے تحفظ میں ناکام رہنے کا الزام دیا۔ کانفرنس میں احتجاج کا ایسا اثر ہوا کہ مراکش اور اُردن نے اپنے ممالک سے بھارتی سفیروں کو واپس بھجوا دیا۔ان فسادات کے تھوڑے عرصے بعد پاکستان سے سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان بھی انڈیا پہنچے۔ انہوں نے مہاتما گاندھی کے 'اتباع' میں احمد آباد کے فسادات میں ہلاک ہونے والوں کے غم میں تین دن تک مرن بھرت کیا۔ مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کے ان واقعات نے بھارتی ہندو قیادت کو کافی حد تک پریشان کیا۔ فساد زدہ علاقوں میں افواج کی تعداد بڑھا دی گئی۔ خطرناک علاقوں میں رات کو کرفیو کا دورانیہ بڑھا دیا گیا۔ "('مجہول آوازیں' از کے ایل گابا)
مگر آج کیا صورتحال ہے۔ گذشتہ دس روز کے اخبارات اٹھا دیکھئے، ان کے صفحات احمدآباد کے مسلمانوں کی بے گوروکفن لاشوں اور زخمیوں کی تصویروں سے بھرے پڑے ہیں۔ اگر کوئی خبر نہیں نظر آئی تو صرف یہ ہے کہ عالم اسلام کے حکمرانوں کی طرف سے بھارت کی خدمت میں بیانات کا تذکرہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش واحد ملک ہے جس کی خاتون وزیراعظم نے مسلم کش فسادات پر سخت رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
فسادات کی ذمہ دار، بھارتی حکومت
اب تک آزاد ذرائع ابلاغ نے جو کچھ رپورٹ کیا ہے، اس کی روشنی میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ بھارتی حکومت صوبہ گجرات میں مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ بھارتی صوبہ گجرات میں خالصتاً بی جے پی کی حکومت ہے۔ وہاں کی صوبائی حکومت انتہا پسند ہندوؤں کی مکمل پشت پناہی کرتی رہی ہے۔ پولیس کی موجودگی میں مسلمانوں کو زندہ جلایا جاتا رہا ہے۔ فوج کو بروقت نہیں بلایا گیا، حتیٰ کہ ایسی رپورٹ بھی شائع ہوئی ہیں کہ کرفیو کے دوران بھی بلوائیوں نے مسلمانوں کے گھروں کو نذرِ آتش کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ احمد آباد میں فسادات کے پہلے ۷۲ گھنٹوں میں ۳۰۰ سے زیادہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ ٹائمز آف انڈیا، بھارتی انسانی حقوق کمیشن، حیدر آباد دکن سے شائع ہونے والے روزنامہ 'سیاست'، وائس آف جرمنی، بی بی سی حتیٰ کہ امریکہ نے بھی قرار دیا کہ بھارتی حکومت اقلیتوں کے جان، مال کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔ احمدآباد کے مسلم کش فسادات میں زیادہ تر خون ریزی ویشوا ہندوپریشد کے تربیت یافتہ غنڈوں نے کی او ریہ انتہا پسند ہندو تنظیم بی جے پی کی سب سے بڑی حلیف ہے۔ واجپائی حکومت کی اصل قوت ویشواہندو پریشد اور راشٹریہ سیوک سنگھ جیسی انتہا پسند ہندو تنظیمیں ہیں۔ بھارتی حکومت پاکستان سے جہادی تنظیموں سے وابستہ ۲۰ / افراد کو باربار طلب کررہی ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ وہ انتہا پسند ہندو تنظیموں کے قتل و غارت میں ملوث لیڈروں کی حوالگی کا مطالبہ کرے۔ امریکہ پاکستان کی چند تنظیموں پر پابندی لگوانے میں تو بہت دلچسپی رکھتا ہے ، عالمی پیمانے پر متعدد اسلامی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیتا اور ان کے اکاؤنٹس منجمد کرنے میں بہت تیزی دکھاتا ہے لیکن بھارت کی ایسی فرقہ وارانہ تنظیمیں جو انسانیت کی سنگین مجرم ہیں، او ربھارتی حکومت جو ان کی سرپرستی کررہی ہے ، ایسی حکومت کا نہ انسانی حقوق کا ریکارڈ خراب ہوتا ہے اور نہ ان تنظیموں پر پابندی کا کوئی مطالبہ سامنے آتا ہے ۔ یہ امریکہ کا وہی دوغلا معیار ہے جس کے بہت سے مظاہر آج دنیا بھر میں جابجا بکھرے پڑے ہیں۔عالم اسلام میں اگر کوئی دم خم ہے تو اسے بھارتی حکومت کے ساتھ روابط کو ایسی انتہا پسند تنظیموں پر پابندی کے ساتھ مشروط کرنا چاہئے۔
بھارتی حکومت کی خونِ مسلم سے بے پروائی کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ اس نے پاکستان کی سرحد پر تو لاکھوں کی تعداد میں افواج بٹھا رکھی ہیں، مگر فساد زدہ علاقوں میں فوج کو تعینات نہیں کیا جاتا۔ حکومت ِپاکستان کو اقوامِ متحدہ کے ذریعے بھارت میں ہونے والے ان المناک فسادات کی تحقیق کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ خدانخواستہ اگر پاکستان میں ہندو اقلیت کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی ہوتی تو بھارت نے اب تک عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف طوفان کھڑا کردینا تھا۔
بھارتی مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل
آبادی اور تعداد کوپیش نظر رکھا جائے تو پوری دنیا کے صرف سات ممالک ایسے ہیں، جن کی آبادی بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ شاندار ماضی اور ذلت آمیز حال کو دیکھاجائے تو شاید ہی کسی ملک میں اقلیت ایسی ہو جس کی سیاہ بختی بھارتی مسلمانوں سے قابل موازنہ ٹھہرے۔ جہالت ، غربت اور قومی انتشار ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے ان کے اندر آبرومندانہ حیاتِ اجتماعی کا تصور ایک خواب کی صورت اختیا رکرگیا ہے۔ وہ ایک وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں، مگر ان کے مصائب کی حقیقی وجہ وسعت ِعلاقہ نہیں، عدمِ اتحاد کی فضا ہے۔ مسلمانوں کے ایسے بڑے مگر بدنصیب گروہ کے لئے کوئی لائحہ عمل تجویز کرنا آسان امر نہیں ہے۔ ان کے سامنے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھتے ہوئے بھارت کے قومی دھارے میں کس طرح شریک ہوں۔ متعصب جنونی ہندو جن کا نصب العین ہی 'ہندو توا' کا حصول ہے، وہ نہ تو مسلمانوں کو قومی دھارے میں شریک کرنا چاہتے ہیں اور اورنہ ہی قومی دھارے سے انہیں باہر رکھ کر ان کے اسلامی تشخص کے تسلسل کو برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ کانگریس اورچند دیگر جماعتیں جو 'سیکولر ازم'کی علمبردار ہیں اور رنگ،نسل اور مذہب کے امتیازات پر یقین نہ رکھنے کا دعویٰ کرتی ہیں، ان کا طرزِ عمل بھی یہ رہا ہے کہ جب بھی مسلمان کبھی ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے تو ان کی اس آواز کو فرقہ وارانہ شرانگیزی کا نام دے کر دبا دیا جاتا۔ جب بھی انہوں نے کسی سیاسی جماعت یا کمیٹی کے قیام کا منصوبہ بنایا، کانگریس نے بھی اسے 'نئے پاکستان' کے حصول کا نام دے کر اس کو آغاز ہی میں ابھرنے نہ دیا۔
بھارت میں ہندو اپنے مذہبی نظریات کے مطابق سیاسی جماعتیں بنانے میں آزاد رہے ہیں۔سیکولر ازم کے دعوؤں کے باوجود کانگریس نے کبھی راشٹریہ سیوک سنگھ، ویشوا ہندو پریشد، شیو سینا، جینا سنگھ اور پری وار جیسی جنونی مذہبی سیاسی جماعتوں کے سرگرمیوں پرپابندی نہ لگائی مگر تقسیم کے بعد بچی کچھی مسلم لیگ کو کسی بھی جگہ کام نہ کرنے دیا۔ قیامِ پاکستان کو بھارت ماتا کی تقسیم قرار دے کر مسلم لیگ کے وجود کو بھارت میں نیست و نابود کردیا گیا۔ سیدابوالحسن علی ندوی اور دیگراکابرین ملت کی کاوشوں سے کافی دیر تک 'مجلس مشاورت'کام کرتی رہی جس کا بنیادی مقصد قومی آہنگی قائم کرنا اور مسلمانوں کے مطالبات کو حکومت کے نوٹس میں لانا تھا، ۱۹۷۸ء میں 'مسلم مجلس' کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ یہ مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی تنظیموں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم تھا، مگر ہندو اکثریت کی ریشہ دوانیوں سے اسے بھی کام کرنے کا موقع نہ ملا۔ موجودہ صورتحال میں بھارتی مسلمانوں کے لئے ہمارے خیال میں درج ذیل لائحہ عمل پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے :
1۔ اوّلین بات یہ ہے کہ مسلمان ایک سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لائیں جس کی سرگرمیوں کا دائرہ کسی ایک خاص صوبہ کی بجائے پورے بھارت پر محیط ہو، بھارتیہ جنتا پارٹی اگر سیکولر بھارت میں ہندوؤں کے مفادات کے تحفظ کے نام پر اقتدار میں آسکتی ہے اور اس کی سرگرمیوں سے بھارت کا سیکولر تشخص مجروح نہیں ہوتا تو پھر مسلمانوں کو اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے ایک جماعت کے قیام پر فرقہ وارانہ خیالات کے پرچار کا طعنہ نہیں دیا جاسکتا۔ ماضی میں کانگریس او رحال میں بی جے پی کا طرزِ عمل مسلمانوں کے سامنے ہے۔ وہ کسی بھی ہندو اکثریت پر مبنی سیاسی جماعت پر اعتماد کریں گے تو دھوکہ ہی کھائیں گے۔
2۔ بھارتی مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کا مرکزی نقطہ ہندو اکثریت سے تصادم و تحارب سے اجتناب کرتے ہوئے مسلمانوں میں اپنی قومی ذمہ داریوں کے متعلق آگاہی اور شعور پیدا کرنا ہونا چاہئے․
3۔ بھارتی مسلمانوں کو مخلوط طریق انتخابات کی بجائے جداگانہ طریق انتخابات کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ ہندو اکثریت کی سال بہ سال بڑھتی تنگ نظری اور تشدد پر مبنی پالیسی کی وجہ سے مخلوط انتخابات مسلمانوں کے لئے سیاسی موت کا باعث بن جائیں گے۔ اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی تعداد ۱۴ فیصد ہے، مگر پارلیمنٹ میں ان کو اس تناسب سے نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ جداگانہ انتخابات کے نتیجہ میں وہ بھارتی لوک سبھا میں ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئیں گے۔ چونکہ بھارت کے مخصوص حالات کے پیش نظر کسی ایک سیاسی جماعت کا قومی سطح پر بھاری اکثریت سے جیت جانے کا امکان کم ہی رہے گا، ہمیشہ مخلوط حکومتیں ہی بنتی رہیں گی۔ ایسی صورت میں مسلمانوں کے لئے اپنی سیاسی قوت کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال میں لانے کے مواقع پیدا ہوں گے۔
موجودہ مخلوط انتخابات میں یہ ہوتا ہے کہ الیکشن کے دوران تو کانگریس اور دیگر پارٹیاں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتی ہیں، مگر پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بعد وہ یکسر آنکھیں پھیر لیتی ہیں۔ چونکہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی مناسب نمائندگی نہیں ہوتی، اسی لئے وہ اپنا دباؤ ڈالنے کے لئے پانچ سال کے بعد ہونے والے انتخابات کا انتظار کرتے ہیں۔ جداگانہ انتخابات کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ مسلمان مرکز اور صوبوں میں کابینہ میں بھی مناسب حصہ حاصل کرسکیں گے۔ بعض اوقات سودے بازی کے نتیجہ میں پارلیمنٹ میں ارکان کے تناسب سے بھی زیادہ کابینہ میں نمائندگی حاصل کرلی جاتی ہے۔
4۔ بھارتی وزیراعظم کشمیر کے متعلق بارہا یہ بیان دے چکے ہیں کہ ہم ایک دفعہ پھر مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے، مگر وہ مذہب کی بنیاد پر خون ریز فسادات کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے کان میں بلیغانہ انداز میں یہ بات ڈال دینی چاہئے کہ بھارت کی دھرتی پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا ہندوؤں کا۔ اگر ان پر یونہی ظلم و ستم روا رکھا گیا تو وہ علیحدگی کی تحریک پر بھی غور کرسکتے ہیں۔
5۔ موجودہ دور میں قومی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے ذرائع ابلاغ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ یہودیوں کی سیاسی کامیابیوں کے پس پشت میڈیا پر ان کے کنٹرول نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ بھارتی مسلمانوں کو بھی بھارت میں اخبارات ورسائل، انٹرنیٹ،ٹیلی ویژن اور دیگر ذرائع ابلاغ کے استعمال کے لئے موٴثر منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔ اپنے موقف کو بین ا لاقوامی اور قومی سطح پر پیش کرنے اور مخالف گروہوں کے منفی پراپیگنڈہ کا موٴثر جواب دینے کے لئے انہیں دنیا کی مختلف زبانوں میں لٹریچر اور پروگرام پیش کرنے چاہئیں۔
6۔ بھارتی مسلمانوں کو دنیا کے مختلف ممالک میں اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد کے ساتھ اپنے آپ کو شریک کرنا چاہئے۔ انہیں مطالعہ کرنا چاہئے کہ زندہ قوموں میں اقلیتیں اپنے حقوق کی پرامن جدوجہد کے لئے کیا کیا حکمت ِعملی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بھارت کے بعد دنیا میں، کینیڈا میں فرانسیسی بولنے والی اقلیت شاید سب سے بڑی ہے۔ امریکہ، برطانیہ او ردیگرممالک کی ا قلیتوں کے ساتھ انہیں قریبی رابطہ استوار کرنا چاہئے۔
7۔ اقوامِ متحدہ اور مسلم ممالک کے ساتھ مسلمانوں کو خاص طور پر رابطہ استوار کرنا چاہئے۔ یہ وہ ادارے ہیں جہاں سے انہیں سب سے زیادہ اخلاقی اور عملی امداد کے ملنے کے امکانات ہیں۔
8۔ مسلمانوں کو بھارت میں اپنی نوجوان نسل کے اندر تعمیری سرگرمیوں کا ذوق پیدا کرنا چاہئے۔ تعلیمی میدان میں انہیں بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ نوجوان نسل کو ٹکراؤ، جلاؤ، گھیراؤ جیسے منفی جذبات سے نکال کر تعمیری راستوں پر چلنے کے لئے تیار کرنا چاہئے۔ ہندوؤں کے خلاف یہ ٹکراؤ ان کے قومی مفاد میں نہیں ہوگا، مگر اس کے برعکس انہیں ایسے اسلامی سکالروں کی پالیسی کو بھی مسترد کردینا چاہئے جو صرف مسلمانوں کو امن کی تبلیغ کرکے مکمل ناکارہ اور بے غیرت بنا دینا چاہتے ہیں۔
9۔ اسلام ہی مسلمانوں کامحفوظ ترین قلعہ ہے۔ بھارتی مسلمانوں کواس قلعے میں پناہ لینے کی پاکستانی مسلمانوں سے زیادہ ضرورت ہے۔ بھارتی ہندو کلچر کی یلغار سے پاکستان کی نوجوان نسل محفوظ نہیں ہے، تو بھارتی مسلمان کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ اسلامی ثقافت سے محبت کو فروغ دینے اور اسلامی تعلیمات کو نوجوان نسل تک پہنچانا بے حد ضروری ہے۔ اس کام کے لئے دینی مدارس اور تعلیمی اداروں کو استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
10۔ جہاں کہیں مسلم کش فسادات شروع ہوجائیں، قریبی علاقوں کے مسلمانوں کو خاموش تماشائی کی بجائے اپنے مسلمانوں بھائیوں کے تحفظ اور دفاع کے لئے سرتوڑ کوشش کرنی چاہئے۔ غیر محفوظ علاقوں میں اجتماعی پناہ گاہیں بنائی جائیں، بوقت ِضرورت فوری طور پر خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو منتقل کیا جاسکے۔
11۔ مسلمانوں کی مقامی قیادت کو ہندو قیادت سے قریبی رابطہ رکھنا چاہئے، جب بھی کھچاؤ کی صورتحال پیدا ہو فوری مذاکرات کے ذریعے اس کھچاؤ میں کمی لانی چاہئے۔
نوٹ
٭قرآن کے الفاظ میں اس تصور کی درست تعبیر'قومیت' کے بجائے 'ملت' کے لفظ سے ہوتی ہے کیونکہ قرآن کی رو سے وطن زبان ، رنگ یا نسل کی مشترکہ بنیاد رکھنے والوں کو 'قوم' جب کہ مختلف اعتقاد ونظریات رکھنے والوں کو مختلف 'ملتیں' کہا گیا ہے ۔ اس اعتبار سے نظریۂ پاکستان کی بنیادکو 'دوقومی نظریہ' کی بجائے 'دو ملی نظریہ' کہنا زیادہ بہترہے (دیکھئے محدث: مئی ۲۰۰۱ء ص۶۵)