پنجابیت، اسلامی قومیت اور پاکستان

فکری سرطان میں مبتلا پاکستانی دانش باز اسلام اور پاکستان کے خلاف اپنے خبث ِباطن کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ۱۳/ اپریل اور ۱۶/ اپریل ۲۰۰۱ء کے دوران لاہور میں منعقدہ چار روزہ عالمی پنچابی کانفرنس کی جو تفصیلات قومی پریس میں شائع ہوئی ہیں، اس سے یہ نتیجہ اَخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ یہ کانفرنس یہود وہنود لابی کی پاکستان کے خلاف مذموم سرگرمیوں کا تسلسل تھی۔ پنجابی زبان و ادب کے پردے میں نظریہٴ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے لئے اس کانفرنس کو مارکسی پہلوانوں نے اکھاڑے کے طور پر استعمال کیا۔ کانفرنس کا ایجنڈا ہر اعتبار سے سیاسی نوعیت کا تھا۔ اگرچہ ورلڈ پنجابی فاؤنڈیشن نے اس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا مگر اس کے کرتا دھرتا اور روح رواں پاک انڈیا فرینڈ شپ، عاصمہ جہانگیر کا انسانی حقوق کمیشن اور دیگر این جی اوز تھیں جوگذشتہ ایک برس سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان 'امن' کے قیام کے امریکی ایجنڈے کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے میں سرگرم عمل ہیں۔
پاکستان کی طرف سے اس کانفرنس کے منتظمین میں اشتراکی دانش بازوں کا وہ گروہ پیش پیش رہا جو نظریہٴ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کو اپنی ترقی پسندی اور 'روشن خیالی' کے اظہار کے لئے بوجہ ناگزیر سمجھتا ہے۔ فخرزمان جوپنجابی ورلڈ فاؤنڈیشن کے وائس چیئرمین بھی ہیں، گذشتہ ایک برس سے اس کانفرنس کے انتظامات کو آخری شکل دینے میں لگے ہوئے تھے۔ عبداللہ ملک جو اشتراکیت کے متعلق وفاداری بشرطِ استواری کے مسلک پر یقین رکھتے ہیں، فخر زمان کے دست و بازو بنے رہے۔ معراج خالد، حمیداختر، افضل توصیف، طاہرہ مظہر علی اور عاصمہ جہانگیر نے اس کانفرنس کے انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہ کانفرنس پاکستان دشمن بائیں بازو کے دانش بازوں کا ایک شو تھا جسے انہوں نے اپنے انتہا پسندانہ خیالات کے اظہار کے لئے بھرپور استعمال کیا۔ اس کانفرنس میں پاکستان کے علاوہ انڈیا، کینیڈا، انگلینڈ اور دیگر ممالک سے سکھ اور ہندو مندوبین بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے۔ پنجابی زبان و ادب کے نام پر ہونے والی اس کانفرنس کے مقررین نے جن خیالات کا ا ظہار کیا، اس کی بعض تفصیلات درج ذیل ہیں :
(۱) کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں بھارتی وفد کے سربراہ سردار ستینڈرسنگھ نور نے کہا کہ پنجابیت کی حیثیت ایک آئیڈیالوجی کی ہے۔ پنجابیت مذہب سے بڑی سچائی ہے۔ ہم پہلے پنجابی ہیں، بعد میں ہندو، مسلمان اور سکھ ۔(روزنامہ انصاف، نوائے وقت)
ہم سارے پنجابیت سے جڑے ہوئے ہیں۔ ملک بنانے کی وجوہات اور اختیار عوام کے پاس نہیں ہوتے، ملک دو بن جاتے ہیں مگر پنجابیوں کے درمیان کوئی دیوارِ برلن نہیں۔ (جنگ)
(۲) بھارتی خاتون ہر جندر کور اور چند دیگر مقررین نے کہا کہ تقسیم کی دیوار کو گرانا چاہئے۔ ایک مقرر نے پنجابیوں کو طعنہ دیا کہ جرمنوں نے دیوارِ برلن گرا دی، لیکن پنجابی یہ دیوار نہیں گراسکے۔ (روزنامہ انصاف، نوائے وقت، تکبیر)
(۳) متعدد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر منجیت سنگھ نے تجویز پیش کی کہ بھارت اور پاکستان کے پنجابی علاقوں میں ویزا کی پابندی ختم کردینی چاہئے۔ (تکبیر)
(۴) بھارتی شاعر سنتوش سنگھ دھیرا نے اپنی پنجابی نظم میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کی جنگ سے پنجابی مرتے ہیں، لہٰذا یہ جنگیں نہیں ہونی چاہئیں۔ (تکبیر:۲۵/ اپریل )
(۵) بھارتی اداکار اور پارلیمنٹ کے رکن راج ببر نے کہا کہ مذہب یا عقیدہ ایک دوسرے کی پہچان نہیں ہوتے بلکہ زبان ہوتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ میں جب لکھنوٴ جاتاہوں تو ویزا نہیں لینا پڑتا، جب مالیر کوٹلہ جاتا ہوں تو مجھے ویزا نہیں لینا پڑا لیکن جب میں لاہور آتا ہوں تو مجھے ویزا کیوں لینا پڑتا ہے؟ آج ہم یہ فیصلہ کرکے اٹھیں کہ ہمیں تمام دیواریں گرا دینی ہیں۔ (تکبیرصفحہ ۲۲)
بھارتی مقررین کے ان زہریلے خیالات کے بعد پاکستانی 'دانشوروں' کے ارشادات ملاحظہ کیجئے :
(۱) سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور سابق وزیر اعظم پاکستان ملک معراج خالد نے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "پاکستان اور بھارت دو ملک بن چکے ہیں، مگر پنجابیوں کے دلوں میں کوئی دیوار نہیں ہے۔" (نوائے وقت، ۱۵/ اپریل)
(۲) اشتراکی ٹولے کی اہم خاتون رکن افضل توصیف، جولاہور کے ایک کالج میں پڑھاتی ہیں اور کالم نگاری کا شوق بھی رکھتی ہیں، کانفرنس میں خوب چہکیں۔ اسی اشتراکی بلبل کی نواسنجی ملاحظہ فرمائیے: "۱۹۴۷ء کی تقسیم دراصل پنجاب کی تقسیم تھی، یہ پنجاب کی دھرتی کا قتل تھا، جس پر پنجاب کی عورت نے بین کئے۔ اس تقسیم نے پانی کو تقسیم کیا جس کی وجہ سے آج پنجاب کے دریاؤں راوی اور ستلج میں پانی ختم ہوگیا، آج پنجاب کا عام آدمی خوشحالی چاہتا ہے جبکہ حکمرانوں کی بقا جنگوں میں ہے۔ ایٹمی دھماکے نہ صرف افسوسناک تھے بلکہ یہ موت کے پیغام پر رقص کے مترادف تھے۔ (کالم حق سچ، نوائے وقت ۱۷/ اپریل)
(۳) اشتراکی میکدے کے ایک اور بے نور دماغ جسے پاکستان کے بن جانے کانہایت قلق ہے، کانفرنس میں یوں 'ارشاد'فرماتے ہوئے سنے گئے: " دودھ کی بہتی دھاریں مشترکہ ہوتی ہیں۔ دین دھرم کے نام پر ہمارا جسم کاٹ دیا گیا لیکن تم کب تک تاروں کی باڑ لگا کر ہمیں ایک دوسرے سے دور رکھو گے؟" بھارتی ہندوؤں کے فراق کے صدمہ میں گھائل اس نامعقول شخص کا نام انجم سلیمی رپورٹ ہوا جو فیصل آباد سے وارد ہوا تھا۔ (تکبیر)
(۴) کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک مقرر بابا نجمی نے اپنے دل کا نوحہ یوں بیان کیا: "گولیاں چلا چلا کر ہمیں ایک دوسرے سے دور کردیا گیا۔" (تکبیر)
(۵) کانفرنس کے ایک اجلاس میں سٹیج سیکرٹری جنید اکرام نے شاعرہ ایم زیڈ کنول کا مذاق اُڑاتے ہوتے کہا: "اس نے صبح سے اُردو بول بول کر مجھے پریشان کررکھا ہے۔"
(۶) اَرذل العمر کو پہنچے ہوئے اشتراکی بڈھے حمید اختر نے قرآنِ مجید کے خلاف اپنے خبث باطن کا اظہار یوں کیا: " پاکستان قرآن کی تلاوت کے لئے نہیں، ترقی کے لئے بنا تھا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے دور میں قانون ساز اسمبلی کے کسی بھی اجلاس میں تلاوتِ قرآن پاک نہیں کی گئی۔"
یاد رہے حمیداختر نے یہ ہفواتی کلمات اس وقت کہے جب کانفرنس کے کسی شریک فرد نے پنجابی کانفرنس کے اجلاسوں کے دوران تلاوتِ قرآن پاک نہ کرنے پراعتراض کیا۔ (نوائے وقت، انصاف، جنگ، خبریں)
(۷) اداکار شجاعت ہاشمی نے کمپیئر نگ کرتے ہوئے ایک مقرر کو دعوت دینے کے موقع پر کہا کہ
"اگر میں ان کا صحیح نام نہ لے سکا تو اس میں میرا قصور نہیں ہے بلکہ یہ قصور اس سرحد کا ہے جس نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کررکھا ہے"۔ اس ڈرامہ باز نے سکھوں کو خوش کرنے کے لئے یہ دروغ گوئی بھی کی: " ایک ڈرامے میں سکھ کا کردار ادا کرنے پر پاکستانی پنجابیوں نے اسے زندہ جلانے کی دھمکیاں دیں مگر وہ ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہ ہوا۔" (نوائے وقت، انصاف)
(۸) مارکس گزیدہ احمدبشیر نے بھارت سے اپنی محبت کا یوں اعتراف کیا: " میرے اندر تھوڑا سا انڈیا ہے۔" (جنگ ۱۵/اپریل) ...یہ تو ابھی تھوڑا سا انڈیا ہے، اگر کچھ زیادہ انڈیا ان کے اندر ہوتا تو نجانے کیا غضب ڈھاتے۔
(۹) اشتراکی عبداللہ ملک جو مجاہدین سے سخت کدورت رکھتے ہیں، نے کہا : "پنجابیت اور انسانیت میں کوئی فرق نہیں۔ اس طرح ادھر جہادی ہیں تو ادھر بھی ایڈوانی ہیں۔ پاک بھارت تصادم میں ادھر بھی پنجابی مرتا ہے، ادھر بھی پنجابی مرتا ہے۔ آپ بھی اپنے جنونیوں اور جہادیوں پر دباؤ ڈالیں، ہم بھی اپنے جنونی جہادیوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔" (جنگ)
(۱۰) تاریخ کی مادّی تعبیر کا پرچار کرنیوالے بائیں بازو کے موٴرخ ڈاکٹر مبارک علی نے اسلام سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "پاکستان کے نام کے ساتھ اسلامی جمہوریہ نہیں ہونا چاہئے۔" (انصاف)
(۱۱) سید افضل حیدر ایڈووکیٹ نے اپنے سیکولر افکار کا پرچار کرتے ہوئے پنجابی کانفرنس کے دوسرے روز کے اجلاس میں کہا: " دھرتی کا کوئی مذہب نہیں، پاکستان بننے کے بعد ہمیں بہت گالیاں پڑیں۔" افضل حیدر نے اپنی دانشوری بکھیرتے ہوئے یہ انکشاف بھی کیا: "۲۱/ مارچ سے لے کر ۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء تک یہاں کوئی حکومت نہیں بنی جس سے پنجاب کے ٹکڑے ہوئے۔ انہوں نے کہا: اصل میں زبان ہی دھرتی کا دھرم ہوتی ہے۔ " (خبریں ۱۶/اپریل)
(۱۲) پنجابی کانفرنس میں سب سے زیادہ قابل اعتراض، گھٹیا، مضحکہ خیز اور مجنونانہ بیانات اس کانفرنس کے کنوینر فخرزماں نے ہی دیئے۔ فخرزماں نے مختلف اجلاسوں میں اپنے پراگندہ ذہنیت کا جس طرح بھونڈے انداز میں اظہار کیا، اس کا خلاصہ یوں ہے: " جو بھی پنجاب میں رہتے ہوئے پنجابی کلچر کی مخالفت کرے گا، اسے پنجاب میں نہیں رہنے دیں گے۔ اگر کسی بھی اہل زبان اردو بولنے والے نے پنجاب میں رہتے ہوئے پنجابی زبان کی مخالفت کی تو وہ سمجھ لے کہ اسے پنجاب میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے کہا: ہم کس قسم کے پنجابی ہیں جو گھروں میں بچوں سے اُردو بولتے ہیں۔ ہم پنجابی کی مخالفت کرنے والی جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ن گروپ) اور دوسرے مولویوں سے مقابلہ کریں گے۔ مخالفوں کے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے۔
اختتامی اجلاس میں فخر زماں نے آپے سے باہر ہوتے ہوئے کہا کہ ہم مولویوں کو اس حد تک برداشت کرسکتے ہیں کہ وہ جمعرات کی روٹیاں کھائیں یا جنازے پڑھائیں۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ فیصد اُردو بولنے والے اس دھرتی کے سپوت نہیں ہیں۔
فخر زماں نے کہا کہ میں پنجاب کا الطاف حسین ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی زبان اور کلچر کا حق مانگتے ہیں تو اس سے نظریہٴ پاکستان کی مخالفت کیسے ہوگی۔ ہم رواداری اور انسان دوستی والے بلھے شاہ اور سلطان باہو کی بات کرتے ہیں۔ اگر انہیں صوفیاکی زبان پسند نہیں تو پھر یہ لوگ پنجاب میں کیوں رہ رہے ہیں، یہاں سے نکل جائیں۔ اگر یہ نہیں نکلتے تو ہم انہیں دھکے دے کرنکال دیں گے۔ اُردو والے سن لیں، اب لاہور میں لکھنوٴ کا پان کلچر نہیں چلے گا۔ فخرزماں نے کہا: اب پنجاب والوں نے شناخت کے بحران پر قابو پالیا ہے۔ آمدورفت بڑھے، ویزے کی پابندیاں نرم ہوں تو ہم سانجھ کا کلچر مل کر سنبھالیں"۔ (خبریں، نوائے وقت، جنگ، انصاف)
قارئین کرام! ہم نے کوشش کی ہے کہ نام نہاد پنجابی کانفرنس کے شرکا کی ہرزہ سرائیوں اور خرافات کو یکجا کردیں۔ یہ تلخیص ہے محض ان بیانات کی جو اخبارات میں شائع ہوئے۔ اصل تقاریر میں یقینا اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کہا گیا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ اسلام دشمن دانش بازوں کی ہفواتِ مسلسل کامفصل تجزیہ کیا جائے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے تصور اجتماع کی طرف کچھ اشارہ کردیا جائے۔تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ پنجابی کانفرنس کے دوران جس مسخ شدہ پنجابیت کاتصور پیش کیا گیا، وہ اسلام کے فلسفہ اجتماعی اور نظریہٴ پاکستان سے کس طرح متصادم ہے۔
اسلامی تصورِ اجتماع ... قوم، ملت، جماعت اور حزب
قوم: انگریزی زبان میں 'قوم' کا ہم معنی لفظ Nation ہے اور قومیت کے لئے Nationality کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ مغرب میں قوم اور قومیت کی تشکیل کے لئے رنگ و نسل، زبان کے اشتراک کو ہی ضروری خیال کیا جاتاہے ، وہاں مذہب فی نفسہ قومیت کی بنیاد نہیں سمجھا جاتا۔ یورپی اقوام کا مشترکہ مذہب عیسائیت ہے، مگر اختلافِ زبان و وطن نے انہیں الگ الگ قوموں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ چونکہ اسلام نے بھی ان مادّی رشتوں پر مبنی قوم کے تصور کو مسترد کردیا، اسی لئے قرآن و حدیث میں لفظ 'قوم' کو اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ مولانا مودودی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"قدیم عرب میں قوم کا لفظ عموماً ایک نسل یا ایک قبیلہ کے لوگوں پر بولا جاتا تھا، اسی طرح آج بھی لفظ 'نیشن' کے مفہوم میں مشترکہ جنسیت (Common Descent) کا تصور لازمی طور پر شامل ہے اور یہ چیز چونکہ بنیادی طور پر اسلامی تصورِ اجتماع کے خلاف ہے، اس وجہ سے قرآن میں لفظ قوم اور اس کے ہم معنی دوسرے عربی الفاظ مثلاً شعوب وغیرہ کو مسلمانوں کی جماعت کے لئے اصطلاح کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔ قرآن نے جو لفظ مسلمانوں کی جمعیت کے لئے استعمال کیا ہے، وہ 'حزب' ہے۔ جس کے معنی 'پارٹی' کے ہیں۔ قومیں نسل و نسب کی بنیاد پر اٹھتی ہیں اور پارٹیاں اُصول و مسلک کی بنیاد پر۔ اس لحاظ سے مسلمان حقیقت میں قوم نہیں بلکہ ایک پارٹی ہیں... قرآن روئے زمین کی اس پوری آبادی میں صرف دو ہی پارٹیاں دیکھتا ہے۔ ایک اللہ کی پارٹی (حزب اللہ)، دوسرے شیطان کی پارٹی (حزب الشیطان)۔ شیطان کی پارٹی میں خواہ باہم اُصول ومسلک کے اعتبار سے کتنے ہی اختلاف ہوں، قرآن ان سب کو ایک سمجھتا ہے۔قرآن کہتاہے : ﴿استَحوَذَ عَلَيهِمُ الشَّيطـٰنُ فَأَنسىٰهُم ذِكرَ‌ اللَّهِ ۚ أُولـٰئِكَ حِزبُ الشَّيطـٰنِ ۚ أَلا إِنَّ حِزبَ الشَّيطـٰنِ هُمُ الخـٰسِر‌ونَ ١٩ ﴾..... سورة المجادلة "شیطان ان پر غالب آگیا اور اس نے خدا سے انہیں غافل کردیا۔ وہ شیطان کی پارٹی (حزبِ شیطان) کے لوگ ہیں اور جان رکھو شیطان کی پارٹی آخر کار نامراد ہی رہنے والی ہے۔" ( مسئلہ قومیت: صفحہ ۱۰۳) ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
"پارٹی کا یہ اختلاف ایک خاندان والوں اورقریب ترین رشتہ داروں کے درمیان بھی محبت کا تعلق حرام کردیتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر باپ اور بھائی اور بیٹے بھی حزب الشیطان میں شامل ہوں تو حزب اللہ والا اپنی پارٹی سے غداری کرے گا، اگر ان سے محبت رکھے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
﴿لا تَجِدُ قَومًا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ يُوادّونَ مَن حادَّ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ وَلَو كانوا ءاباءَهُم أَو أَبناءَهُم أَو إِخو‌ٰنَهُم أَو عَشيرَ‌تَهُم ۚ أُولـٰئِكَ كَتَبَ فى قُلوبِهِمُ الإيمـٰنَ وَأَيَّدَهُم بِر‌وحٍ مِنهُ ۖ وَيُدخِلُهُم جَنّـٰتٍ تَجر‌ى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ‌ خـٰلِدينَ فيها ۚ رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَ‌ضوا عَنهُ ۚ أُولـٰئِكَ حِزبُ اللَّهِ ۚ أَلا إِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ المُفلِحونَ ٢٢﴾..... سورة المجادلة "تم ہرگز نہ پاؤ گے کہ کوئی جماعت اللہ اور یوم آخرت پرایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور رسول کی دشمنوں سے دوستی بھی رکھے خواہ وہ ان کے باپ، بیٹے، بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ اللہ کی پارٹی (حزب اللہ) کے لوگ ہیں اور جان رکھو کہ آخر کار اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔"
ملت: قرآن کریم نے جہاں 'قوم' کا لفظ عمومی معنوں میں استعمال کیا ہے، اور بقول مولانامودودی اسلامی تصورِ اجتماعکو 'قوم' کی بجائے 'حزب' سے تعبیر کیا ہے ، وہاں ایک لفظ اس سے بھی زیادہ واضح قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور وہ لفظ ہے 'ملت'... قرآن کی رو سے 'ملت' اور 'قوم' میں فرق ہے۔ 'ملت ِاسلامیہ' کا لفظ 'مسلمان قوم' سے زیادہ جامع ہے کیونکہ قوم کا لفظدیگر اقوام کے ہاں مخصوصمعنی میں استعمال کیا جاتا ہے ۔قرآنِ مجید میں مختلف انبیاے کرام کے حالات کے ضمن میں لفظ 'قوم' اور 'ملت' کئی مقامات پر آیا ہے جس سے ان دونوں کے فرق پر روشنی پڑتی ہے۔سورة الاعراف کی آیت ۸۸ میں حضرت شعیب علیہ السلام کاذکر ان الفاظ میں ملتا ہے:
﴿قالَ المَلَأُ الَّذينَ استَكبَر‌وا مِن قَومِهِ لَنُخرِ‌جَنَّكَ يـٰشُعَيبُ وَالَّذينَ ءامَنوا مَعَكَ مِن قَر‌يَتِنا أَو لَتَعودُنَّ فى مِلَّتِنا ۚ قالَ أَوَلَو كُنّا كـٰرِ‌هينَ ٨٨ قَدِ افتَرَ‌ينا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِن عُدنا فى مِلَّتِكُم بَعدَ إِذ نَجّىٰنَا اللَّهُ مِنها.....٨٩﴾..... سورة الاعراف
" قومِ شعیب کے متکبر سرداروں نے کہا: شعیب ! ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں، اپنی بستی سے نکال دیں گے یا پھر تمہیں ہماری 'ملت' میں واپس آنا ہوگا۔ شعیب نے کہا: "خواہ ہم اسے ناپسند کرتے ہوں تو بھی؟ اگر ہم تمہاری 'ملت' میں دوبارہ چلے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا جبکہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے۔"
اس آیت میں 'قوم' اور 'ملت' کے الفاظ ایک جملے میں لیکن مختلف معانی کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔'قوم' سے مراد حضرت شعیب کے قبیلے کے وہ لوگ ہیں جو ان کی بستی میں رہائش رکھتے تھے اور ان کی زبان، نسل اورعادات مشترک تھیں پھر قرآن کہتا ہے کہ حضرت شعیب کی قوم نے انہیں اپنی ملت میں واپس لانے کے لئے دباؤ ڈالا، اس سے پتہ چلتا کہ ملت کا تصور قوم سے وسیع تر ہے اور اس میں اشتراکِ مذہبی کا عنصر بھی شامل ہے چنانچہ ملت سے مراد 'دین' یا 'مذہب' ہے۔اسی لئے اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ یہاں 'دین' ہی کیا ہے۔ الغرض قوم کا لفظ اشتراکِ نسل، زبان اور وطن کے لئے تو بولا جاتا ہے۔ اس میں مذہب کو کوئی دخل نہیں جبکہ ملت کے لفظ میں مذہبی اشتراک بھی شامل ہے۔
پاکستان کے کئی علاقوں میں آج بھی 'قوم' کا مطلب وہی لیا جاتا ہے جو قدیم عرب معاشرے میں مستعمل تھا۔ جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں مثلاً پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں ایک اجنبی شخص جب کسی دوسرے اجنبی شخص سے ملتا ہے تو عام طور پر اس کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے: "تم کس قوم سے ہو؟" ا س کے جواب میں دوسرا شخص اپنی 'ذات' یا برادری بتاتا ہے۔ مثلاً گیلانی، لغاری، کھوسہ، کھر وغیرہ۔ صوبہ سرحد کے اکثر علاقوں میں 'قوم' سے مراد قبیلہ ہی لیا جاتا ہے۔ خوانین کے بارے میں وہاں کہا جاتاہے: "یہ فلاں قوم کے سردار ہیں"۔
تحریک ِپاکستان کے دوران دو قومی نظریہ کے الفاظ عوامی معنوں میں استعمال کئے گئے۔ لیکن قرآنی اصطلاح کی رو سے دیکھا جائے تو دوقومی نظریہ کو 'دو ملی نظریہ' ہونا چاہئے۔اسی لئے بعض افراد کے ذہن میں اس کے حقیقی مفہوم کے متعلق 'کنفیوژن' پائی جاتی تھی۔ 'دوقومی نظریہ' کی بجائے "دو ملی نظریہ" کی ترکیب استعمال کی جاتی، تو ابہام پیدا نہ ہوتا۔
قوم اور ملت کے درمیان فرق کی ایک توجیہ یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ قوم کا لفظ بول کر مطلوبہ معنی تک ذہن فوری منتقل ہوجاتا ہے جبکہ ملت کا لفظ عوام میں اس قدر وسیع پیمانے پرسمجھا نہیں جاتا۔ چنانچہ اہل علم کے درمیان تو ہر دو الفاظ کے حقیقی معانی کے پیش نظر فرق کیا جانا چاہئے لیکن عوام الناس سے اس فرق کی توقع رکھنا مشکل ہے۔ بہر حال نظریات اور نعروں میں بھی اہل علم کو قوم کی رہنمائی کرنی چاہئے۔
اُمّت:دوسرا لفظ جو جماعت کا مترادف ہے، 'اُمت' ہے، قرآنِ مجید اور احادیث میں یہ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔مولانا مودودی  کے بقول " اُمت اس جماعت کوکہتے ہیں جس کو کسی امر جامع نے مجتمع کیاہو، جن افراد کے درمیان کوئی اصل مشترک ہو، ان کو اسی اصل کے لحاظ سے 'اُمت' کہا جاتا ہے۔مثلاً ایک زمانہ کے لوگ بھی 'امت' کہے جاتے ہیں۔ ایک نسل یا ایک ملک کے لوگ بھی 'اُمت' کہے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کو جس اصل مشترک کی بنا پر اُمت کہا گیاہے وہ نسل یا وطن، یا معاشی اغراض نہیں ہیں وہ ان کی زندگی کا مشن اور ان کی پارٹی کا اُصول اور مسلک ہے۔چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿كُنتُم خَيرَ‌ أُمَّةٍ أُخرِ‌جَت لِلنّاسِ تَأمُر‌ونَ بِالمَعر‌وفِ وَتَنهَونَ عَنِ المُنكَرِ‌ وَتُؤمِنونَ بِاللَّهِ..... ١١٠ ﴾..... سورة آل عمران "تم وہ بہترین اُمت ہو جسے نوعِ انسانی کے لئے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو، اور خدا پرایمان رکھتے ہو۔" سورۂ بقرہ میں فرمایا:
﴿ وَكَذ‌ٰلِكَ جَعَلنـٰكُم أُمَّةً وَسَطًا لِتَكونوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ وَيَكونَ الرَّ‌سولُ عَلَيكُم شَهيدًا......١٤٣ ﴾..... سورة البقرة "اور اس طرح ہم نے تم کو ایک بیچ کی اُمت (اُمت ِوسطاً) بنایا ہے تاکہ تم نوعِ انسانی پر نگران ہو اور رسول تم پر نگران ہو۔"
مولانا مودودی ان آیات کی تشریح میں فرماتے ہیں :
"بیچ کی اُمت' سے مراد یہ ہے کہ 'مسلمان' ایک بین الاقوامی جماعت کا نام ہے۔ دنیا کی ساری قوموں میں سے ان اشخاص کو چھانٹ کر نکالا گیا ہے جو ایک خاص اصول کو ماننے، ایک خاص پروگرام کو عمل میں لانے اور ایک خاص مشن کو انجام دینے کیلئے تیار ہوں۔یہ لوگ چونکہ ہر قسم سے نکلے ہیں اور ایک پارٹی کے بن جانے کے بعد کسی قوم سے ان کا تعلق نہیں رہا ہے، اسی لئے یہ 'بیچ کی اُمت 'ہیں۔" (مسئلہ قومیت: ص ۱۰۶)
جماعت : مسلمانوں کی اجتماعی حیثیت ظاہر کرنے کے لئے نبی کریم نے جو تیسرا اصطلاحی لفظ کثرت سے استعمال کیا ہے وہ لفظ 'جماعت' ہے۔ آپ کا اِرشاد ہے: علیکم بالجماعة "جماعت کو لازم پکڑو" (سنن ترمذی :حدیث ۲۰۹۱) یا فرمایا: يد الله علی الجماعة " اللہ کی مدد جماعت کے ساتھ ہے۔" (سنن نسائی، حدیث ۳۹۵۴) ان احادیث کا ذکر کرنے کے بعد مولانا مودودی وضاحت کرتے ہیں:
"آپ نے کبھی یہ نہ فرمایا کہ "ہمیشہ قوم کے ساتھ رہو" یا "قوم پر خدا کا ہاتھ ہے" بلکہ ایسے مواقع پر آپ جماعت ہی کا لفظ استعال فرماتے تھے۔ ا س کی وجہ صرف یہ ہے اور یہی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کے اجتماع کی نوعیت ظاہر کرنے کے لئے 'قوم' کے بجائے جماعت کے اَلفاظ ہی زیادہ مناسب ہیں۔ قوم کا لفظ جن معنوں میں عموماً استعمال ہوتا ہے، ان کے لحاظ سے ایک شخص خواہ وہ کسی مسلک اور کسی اُصول کا پیرو ہو، ایک قوم میں شامل رہ سکتا ہے جب کہ وہ اس قوم میں پیدا ہوا ہو اور اپنے نام، طرزِ زندگی، اور معاشرتی تعلقات کے اعتبار سے اس قوم کے ساتھ منسلک ہو، لیکن پارٹی، جماعت اور حزب کے الفاظ جن معنوں میں استعمال ہوتے ہیں، ان کے لحاظ سے اُصول اور مسلک ہی پر پارٹی میں شامل ہونے یا اس سے خارج ہونے کا مدار ہوتا ہے۔" (ایضاً: صفحہ ۱۰۷)
مگر مسلمان 'قوم' کا لفظ جن معنوں میں آج کل استعمال کرتے ہیں، اس پرافسوس کا اظہار کرنے کے باوجود مولانا مودودی اعتراف کرتے ہیں :
" رفتہ رفتہ مسلمان اس حقیقت کوبھولتے چلے گئے کہ وہ دراصل ایک پارٹی (ملت) ہیں اور پارٹی ہونے (یعنی ایک مشترکہ مذہب رکھنے) کی حیثیت پر ہی ان کی قومیت کی اَساس رکھی گئی ہے۔یہ بھلاوا بڑھتے بڑھتے اب یہاں تک پہنچ گیاہے کہ پارٹی کا تصور قومیت کے تصور میں بالکل ہی گم ہوگیا۔ مسلمان اب صرف ایک قوم بن کر رہ گئے ہیں۔" (ایضاً: صفحہ ۱۰۸)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایک قوم کی بجائے ملت یاجماعت بننا چاہئے یعنی ان کے تعلق کی بنیاد وطن، نسل یا زبان کی بجائے مذہب ہی ہونا چاہئے او رزبان وطن کے تعصبات سے برتر ہو کر مشترکہ مذہب کی بنا پر تمام دنیا کے مسلمانوں کے دل ایک ساتھ دھڑکنے چاہئیں۔ ان کے وطنی (قومی) مفادات پرملی (دینی) مفادات غالب رہنے چاہئیں۔ تمام دنیا کے مسلمان اس ملی رشتے میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے ہیں، علامہ اقبال نے بھی یہی بات یوں کہی ہے :

فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں !        موج ہے اندرونِ دریا، بیرونِ دریا کچھ نہیں !

پنجابی کانفرنس میں پیش کردہ نظریات کا ناقدانہ جائزہ

پنجابی زبان و ادب کے نام پر فتنہ پرور کانفرنس میں دیئے گئے بیانات کے بارے میں ہماری معروضات درج ذیل ہیں :
1۔اجتماعیت کی قوی بنیاد زبان ہے یا مذہب؟ : زبان اظہار کا وسیلہ ہے، یہ فی نفسہ کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔ الفاظ نظریات کے لئے لبادہ کا کام کرتے ہیں۔ دنیا کی کسی بھی زبان کی بنیاد پر کوئی آئیڈیالوجی آج تک پیش نہیں کی گئی۔ زبان کا اشتراک جزوی اعتبار سے ایک اجتماعیتکو پروان چڑھانے میں کردار ضرور ادا کرتا ہے، مگر جہاں فکری اشتراک نہ ہو، وہاں لسانی اشتراک ہوا میں تحلیل ہوجاتا ہے۔ جب نظام یا آئیڈیالوجی کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد مختلف افکار کا ایک مربوط و منضبط سلسلہ ہوتا ہے جس میں استدلا ل کی کڑیاں پیوست ہوتی ہیں۔
اسلام ایک آئیڈیالوجی ہے، یہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں راہنمائی عطا کرتا ہے۔ نظریہٴ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر ہے، اس کی مذہبی، ثقافتی، سیاسی جہات بالکل واضح ہیں، سوشلزم بھی ایک آئیڈیالوجی ہے کیونکہ یہ ریاستی کنٹرول سے لے کر افراد کی زندگی کے لئے ایک ضابطہ حیات تجویز کرتا ہے۔ اس کے برعکس پنجابیت کو آئیڈیالوجی قرار دینا ایک حد درجہ غیر عقلی بات ہے۔ یہ محض سخن سازی تو ہے، اس کا حقائق نفس الامری سے کوئی علاقہ نہیں ہے۔
اسی طرح زبان مذہب سے بڑی سچائی نہیں ہے۔ اس مادّہ پرستانہ دور میں بھی بین الاقوامی تعلقات کا دائرہ ہو یا ریاست کے مختلف طبقات کے درمیان باہمی رشتوں کے تعین کا مسئلہ ہو، مذہب کی اہمیت ہر جگہ مسلمہ ہے۔ اہل مغرب اور بھارتی جنتا اپنے سیکولر ہونے کا جتنا بھی ڈھنڈورا پیٹتے رہیں، مسلمانوں سے ان کے تعلقات کی بنیاد ہمیشہ مذہبی فرق کو پیش نظر رکھ کر ہی رکھی جاتی ہے۔ روزنامہ انصاف کے اداریہ کی یہ سطور حقیقت کی آئینہ دار ہیں:
"پنجابیت نہ سچ ہے، نہ جھوٹ، نہ یہ حق ہے نہ باطل، نہ یہ کوئی خوبی ہے نہ برائی، اور اگر لسانیت کو ان باتوں کامعیار بنا دیا گیا تو یہ دنیا بہت پرفتن ہوجائے گی۔ مذہب ہی اصل سچ ہے، بشرطیکہ وہ صحیح مذہب ہو اور اس مذہب سے بڑی سچائی کوئی نہیں۔" (۱۵/اپریل)
پنجابی زبان کے حوالے سے ہیر رانجھا اور سسی پنوں کے قصوں کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ محض افسانوی قصے ہیں۔ ان میں زبان کااسلوب بے شک متاثر کن ہوسکتاہے، مگر ان قصوں کی بنیاد کوئی آئیڈیالوجی نہیں ہے۔ صوفیا نے جن خیالات کو شاعری میں پیش کیا، اس کی تہہ میں بھی ان کے مخصوص مذہبی تصورات کارفرما ہیں، پنجابیت کا فروغ فی نفسہ ان کا مقصود کبھی نہیں رہا۔ لسانی تعصب میں مبتلا ان حضرات کا دماغی خلل ہے جو انہیں پنجابیت میں بھی کوئی آئیڈیالوجی دکھاتا ہے۔
2۔مسلمانوں سے پنجابی سکھوں کی دشمنی سے بھری تاریخ: پنجاب کے سکھوں اور مسلمانوں میں جزوی حد تک لسانی اشتراک و وحدت ضرور پائی جاتی ہے، مگر یہ کوئی ایسی زبردست قوتِ رابطہ نہیں ہے کہ وہ ان قوموں کے مختلف کثیرالتعداد اجزا کو قومیت کے تعلق سے اس طرح پیوستہ و بستہ کردے کہ وہ سب ایک ٹھوس چٹان بن جائیں۔ محض لسانی وحدت ان کے دل ودماغ کو اس طرح متاثر نہیں کرسکتی کہ وہ متحد و یکجا ہو کر ہر قربانی کے لئے تیار ہوجائیں۔ پنجابیت کا لغو پراپیگنڈہ کرنے والے تاریخی حقائق کو یکسر نظر انداز کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔
سکھ اپنی مختصر قومی تاریخ کے دوران مسلمانوں کے ساتھ عام طور پر متحارب، متصادم اور متخالف ہی رہے ہیں۔ سکھ بحیثیت ایک سیاسی گروہ کے مسلمانوں کی مرکزی حکومت کے لئے ہمیشہ مسائل پیدا کرتے رہے ہیں۔ مغل بادشاہ نو رالدین جہانگیر کے دور میں اسی تصادم کے نتیجے میں سکھوں کا گرو گوروبند سنگھ قتل ہوا۔ ا س کے بعد سکھوں نے مغلوں کو دل سے کبھی قبول نہ کیا، آئے دن فساد برپا کرتے رہے، راجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر قبضہ مسلمانوں کوشکست دینے کے بعد ہی کیا۔ سکھ دورِ حکومت میں پنجاب کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاکردی گئی۔ مسلمان زمینداروں سے زمینیں چھین کر سکھوں کو دے دی گئیں۔بادشاہی مسجدلاہور سے قیمتی سنگ مرمر اُکھاڑ کر امرتسر لے جایا گیا۔ ملکہ نور جہاں، آصف خان اور جہانگیر کے مقبروں سے قیمتی پتھر اتار کر امرتسر پہنچایا گیا۔ مسلمانوں کے لئے جب زندہ رہنا دوبھر کردیاگیا، تو سید احمدشہید اور شاہ اسمٰعیل شہید نے سکھوں کے خلاف اعلانِ جہاد کردیا۔ ۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ کے مقام پر سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان تاریخی معرکہ ہوا جس میں سید احمد،شاہ اسمٰعیل اور ان کی جماعت کے ہزاروں افراد نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ۱۸۴۳ء میں جب انگریزوں نے پنجاب میں سکھوں کو شکست دی تو عام مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا۔ پھر ۱۹۴۷ء میں سکھوں کے وحشی جتھوں نے پاکستان آنے والے مہاجرین کے قافلوں کے ساتھ جس غارت گری کا مظاہرہ کیا، اس کو مسلمان کیسے فراموش کرسکتے ہیں۔
پنجابیت کے بے حمیت علمبرداروں کی آنکھ کا پانی خشک نہ ہوچکا ہوتا تو وہ کبھی سکھوں کے ساتھ 'سانجھے کلچر' کو پروان چڑھانے کی بات نہ کرتے۔ پنجاب میں آج بھی لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جہاں کوئی نہ کوئی مہاجر اپنے عزیز و اقارب کے قتل ہونے کے واقعات سنانے کے لئے زندہ ہے۔ مشرقی پنجاب میں اب بھی ایسی ہزاروں بے بس اور ستم رسیدہ بوڑھی مسلمان عورتیں زندہ ہوں گی جنہیں ۱۹۴۷ء میں سکھ بدمعاشوں نے اغوا کرکے اپنے گھر میں رکھ لیا تھا۔ حالات کے جبر نے انہیں غیر مسلمانوں کے ساتھ زوجیت کا بے نکاحی رشتہ نبھانے پرمجبور کردیا۔ نجانے ان میں سے کتنی آج بھی کسی محمد بن قاسم جیسے بھائی، باپ، بھتیجے کے انتظار میں ہوں گی جو اپنے مسلمان ہاتھوں سے انہیں مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا سکے۔ ابھی چند سال پہلے اس طرح کی مظلوم عورت کس طرح لاہو رپہنچ گئی تھی مگر تلاشِ بسیار کے باوجود یہ اپنے خاندان کو تلاش نہ کرسکی۔
فخر زماں جو آج پنجاب سے اُردو بولنے والوں کو دھکے دے کر نکال دینے کی بڑھکیں ما ر رہا ہے، اس میں اسلامی حمیت بلکہ پنجاب کی غیرت ہی ہوتی تو وہ ان بے بس مسلمان عورتوں کا سکھوں سے حساب ضرور مانگتا۔ مگر جب اِلحاد رگ و پے میں سرایت کرجائے تو پھر ایسی حمیت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ یہ فخر زماں جیسے بے غیرت اَفراد کا حوصلہہے کہ وہ چندی گڑھ میں جاکر ایوارڈ وصول کرتے ہیں اور لاہور میں پنجابی کانفرنس کے پردے میں سکھوں کے ساتھ شراب و کباب کی فاسقانہ محافل برپا کرتے ہیں۔
3۔ پنجابی زبان و ادب اور پنجابیت کے خانہ زاد علمبردار بے نور دماغ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ اپنے نظریات کی تکمیل کے لئے جو تنظیم قائم کرتے ہیں، اس کا نام ہی پنجابی زبان میں رکھ سکیں۔ لاہور میں پنجابی کانفرنس کا اہتمام کرنے والی تنظیم کا نام " ورلڈ پنجابیت فاؤنڈیشن" ہے جس کے ارکان میں 'مہادانشور' قسم کے لوگ شامل ہیں۔ فخرزماں، ا س کے نائب صدر ہیں۔ اس تنظیم کے نام میں ورلڈ اور فاؤنڈیشن تو انگریزی کے الفاظ ہیں مگر 'پنجابیت' فارسی یا اُردو سے لیا گیا ہے۔ کیا پنجابی زبان میں اس کا متبادل کوئی لفظ نہیں ہے؟ اگرپہلے سے نہیں ہے تو نیا لفظ بھی ایجاد کیا جاسکتا تھا۔ مگر سطحی ذہن رکھنے والے یہ نعرہ باز قسم کے دانشور اتنا بھی تکلف نہیں کرسکے۔ یہ پنجابی زبان و ادب کی خدمت کیا خاک کریں گے؟؟
4۔پنچابی ثقافت اورپنجابی زبان سے منتظمین کا اِنحراف : پنجابی کانفرنس میں پنجابیت کی بات تو بہت کی گئی، مگر اس اصطلاح کا حقیقی مفہوم واضح کرنے کی زحمت کسی دانشور نے گوارا نہ کی۔ پنجابیت سے مراد اگر پنجابی کلچر ہے، تو اس کا مظاہرہ پنجابی کانفرنس میں دیکھنے میں نہ آیا۔ پنجابیت کے یہ کوتاہ فکردانش باز شاید کلچر میں زبان ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ کلچر جن متعدد اجزا سے مل کر تشکیل پاتا ہے، ان میں رہن سہن، عادات و اطوار، لباس و پوشاک، طرز زندگی، عقائد و ایمان، پسند ناپسند، سماجی رو یے، کھانے پینے کے مخصوص طریقے، اندازِ نشست و برخاست، انسانی رویے غرض اس طر ح کے بے شمار عناصر ہیں جن کے مجموعہ کو کلچر کا نام دیا جاتا ہے۔ پنجابی کانفرنس میں جوکلچر پیش کیا گیا وہ بدمعاشوں اور اوباشوں کا کلچر تو کہا جاسکتاہے، پنجاب کے شرفا یا عوام کا کلچر ہرگز نہیں ہے۔
پنجابیت کے بڑے دعویدارفخرزماں نے پنجابی لباس کی بجائے فرنگی لباس ٹی شرٹ کے ساتھ پہنا ہوا تھا۔ کانفرنس میں شریک سکھ شرکا نے سوائے سروں پر پگڑ باندھنے کے باقی تمام انگریزی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ یہ کون سی پنجابیت ہے جس میں پنجابی لباس کہیں نظر نہیں آتا۔ پھر ذرا غور فرمائیے اہل پنجاب، بالخصوص مسلمان کتنے ہیں جو شراب یوں اجتماعی مجالس میں غٹا غٹ پیتے ہیں۔ کانفرنس کے دوران فلیٹیز ہوٹل میں سکھوں، ہندوؤں، مشرقی پنجاب سے آنے والی بے حیا لڑکیوں اور پاکستان کے پنجابی دانشوروں نے اس قدر شراب چڑھائی کہ اخبارات کے رپورٹرز کے بقول گذشتہ چار ماہ میں شراب کے اس قدر پرمٹ جاری نہیں ہوئے تھے۔ تکبیر کے نمائندے اسرار بخاری کی رپورٹ کے مطابق پیپلزپارٹی کے مقامی راہنما اور شاعر اسلم گورداس پوری شراب کے نشے میں بری طرح دھت تھے اور ان کی غیر شائستہ حرکتوں کا سب ہی نے نوٹس لیا۔ بھارتی شاعر گوربچن سنگھ جب اپنا کلام سنا رہے تھے، سامعین میں موجود سکھوں نے جو بری طرح ٹن تھے، نازیبا حرکتیں شروع کردیں۔ بالاخر گوربچن سنگھ کو آواز دینی پڑی، "انتظامیہ ایناں نوں نتھ پائے!۔ "
بھارت سے آئی ہوئی ڈانسر لڑکیاں مسلسل توجہ کا مرکز بنی رہیں۔ ان لڑکیوں کے کمرے بھی رات گئے تک پررونق رہے۔ (تکبیر، ۲۵/ اپریل) یہ بے حیائی اور بدمعاشی کا کلچر آخر پنجاب کا کلچر کیسے ہوگیا؟
۲۰ /اپریل کے روزنامہ 'انصاف' میں پنجابی کانفرنس کااہتمام کرنے والے کرتا دھرتا خواتین و حضرات کی ذاتی زندگیوں کے حوالے سے رپورٹ شائع ہوئی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پنجابیت کے پرچارک فخرزماں کا بیٹا انگریزی بولتا ہے، گھر میں مغربی فلمیں چلتی ہیں، پنجابی لباس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے... کانفرنس کی انتظامیہ کمیٹی کے رکن حمیداختر صاحب پنجابی لکھ نہیں سکتے...طاہرہ مظہر علی کے دونوں بیٹے یورپ میں عیش کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی بیٹی ایک انگریزی اخبار کی ایڈیٹر رہی ہیں۔ ان کا گھرانہ انگریزی صحافت سے ہی وابستہ رہا، گھر میں پنجابی کو کوئی منہ نہیں لگاتا۔
فخرزماں کا ایک بیٹا لاہور گرامر سکول میں زیرتعلیم ہے، گھر میں انگریزی ہی چلتی ہے۔ ان کے گھر کا پورا ماحول مغربی طرز کا ہے... طاہرہ مظہر علی خان کا گھر مغربی طرز کا ایک شاہکار ہے۔ ان کے گھر میں کوئی ایک شخص بھی پنجابی زبان میں بات نہیں کرسکتا۔ یہ لوگ انگریزی بولنے اور سیکھنے میں ہی فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ لکھتے ہوئے ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے کہ کانفرنس میں شریک ہونے والے بھارتی اداکار راج ببر کی بیوی نادرہ کا تعلق 'مسلمان' گھرانے سے ہے۔ یہ پاک و ہند میں ترقی پسند تحریک کے باقی معروف کمیونسٹ راہنما سجاد ظہیر کی صاحبزادی ہیں۔ کیا کوئی پنجاب میں ایسا بے غیرت موجود ہے جو اپنی بیٹی کا'نکاح' کسی ہندو سے کر دے۔ پنجاب کی غیرت مند بیٹیوں نے تو ہندوؤں کے چھونے کی بجائے موت کو ترجیح دی تھی۔ مگر آج پنجابیت کی علمبردار ایک نام نہاد 'مسلمان' عورت ایک ہندو کی بیوی بننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔ پنجاب کے سادہ لوح عوام یہ پوچھنے کا آخر حق تو رکھتے ہیں کہ یہ لوگ جو پنجابیت کے خود ساختہ پرچارک بنے ہوئے ہیں، ان کی اپنی زندگیوں میں پنجابیت کس قدر سرایت کئے ہوئے ہے؟ یہ اہل پنجاب اور ان کی ثقافت کا کھلا استحصال ہے۔ روزنامہ انصاف کے اداریہ نویس کی پیش گوئی بالکل درست ہے:"عوامی ردّعمل ان کے خلاف ہوا، تو انہیں پناہ کے لئے لندن یا دلی بھاگنا ہوگا، پنجاب کی سرزمین میں انہیں کوئی جائے پناہ نہیں ملے گی۔" (۲۵/ اپریل)
5۔ہندوستان اور پاکستان کی پنجابی میں زمین آسمان کا فرق ہے: یہ ایک فکری مغالطہ ہے کہ پنجاب کے سکھوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کی مادر ی زبان 'پنجابی' ایک ہے۔ مسلمان جو پنجابی بولتے ہیں وہ اس پنجابی سے بہت مختلف ہے جو ہندو یا سکھ بولتے ہیں۔ ایک ہی علاقے کے رہنے والے مسلمان اور سکھوں کا لہجہ شاید ملتا جلتا ہو، مگر ان کا ذخیرئہ الفاظ ایک نہیں ہے۔ مسلمانوں کی پنجابی پر عربی، فارسی ادب اور اسلامی تعلیمات کا گہرا اثر ہے۔ سکھوں اور ہندوؤں کی پنجابی پر ہندی زبان اور سنسکرت کے الفاظ کا اثر اس قدر زیادہ ہے کہ ایک ہندو ادیب کی پنجابی تحریر بعض اوقات ایک مسلمان کے لئے سمجھنا بے حد دشوار ہوجاتاہے۔ یہ موضوع بے حد تفصیلی تنقید و تحقیق کا متقاضی ہے۔ مگر راقم یہاں اختصار کے ساتھ اس بنیادی فرق کو واضح کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ راقم کے سامنے اس وقت امرتسر سے نکلنے والا معروف پنجابی زبان کا رسالہ 'اجو کے شیلا لیکھ' کا اپریل ۲۰۰۱ء کا شمارہ ہے۔ اس کے ایڈیٹر ایچ۔ ایس بھٹی ہیں جو ورلڈ پنجابیت فاؤنڈیشن کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔ کھوجی کا فر جو اس فاؤنڈیشن کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں، اس رسالہ کے بورڈ کے ممبر ہیں۔ یہ رسالہ عالمی پنجابی کانفرنس کے دوران تقسیم کیا گیا۔ اس رسالہ میں شامل مضامین سے منتخب کئے گئے چند فقرے ملاحظہ کیجئے :
1۔ اس سماگم دا سنچالن سمپاوک پنجابی ٹربیوں نے کیتا، اس دی پردھانگی شری ہربھجن ہوار وی نے کیتی۔ ص۵
2۔ اس توں بلا سنماں سماروح شروع ہوئیا۔ (صفحہ نمبر ۵)
3۔اتے پاکستان وچ پنجابی ضبان اتے سجھیا چار دی ستھتی نے چانناں پائیا۔ (صفحہ ۷)
4۔پنجابی بدھی جیویاں نے آپنے خیالی پرگٹ کیتے۔ (صفحہ نمبر ۷)
5۔پنجابیاں دے لگاتار استھر اتہاس نے اتے جھوجھن دے سوبھاونے نے ایہنانوں شکتی شالی طاقت بخشی، اونوں دیش دی گھڑگ بھوجانبادتا۔ (صفحہ نمبر ۹)
مندرجہ بالا فقروں میں استعمال کئے گئے الفاظ "سما گم، سنچالن، سمپاوک، پردھانگی، سنمان، سما روح، سبھیا، ستھتی، بدھی جیویاں، پرگٹ، جھوجھن، شکتی شالی، گھڑگ، استھراتہاس وغیرہ لاہور میں بسنے والا شاید ہی کوئی مسلمان پنجابی سمجھتا ہو۔ مذکورہ رسالہ کا نام بھی پاکستانی پنجاب کے لوگوں کی سمجھ میں آنے والا نہیں ہے۔ اس رسالے کے پہلے صفحے پر سرپرستوں اور مدیروں کے نام دیئے گئے ہیں۔ جس میں ایچ ایس بھٹی کو 'مکھ پربندھک' اور کھوجی کافر کو 'پربندھی سمپاوک' لکھا گیا ہے ، نجانے ان الفاظ کا مطلب سرپرست ِاعلیٰ یا مدیر ہے یا کچھ اور ۔ اس رسالہ پر ناشر کے لئے 'پرکاشک' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
مجھے معلوم نہیں ہے کہ پاکستانی پنجاب میں شائع ہونے والے کسی پنجابی زبان کے رسالہ کے شروع میں اس طرح کے الفاظ کبھی استعمال کئے گئے ہیں۔ میرے سامنے اس وقت لاہور سے شائع ہونے والے رسالہ 'پنجابی' کے چند شمارے رکھے ہیں۔ اس کے سرورق پر لکھا ہے: 'ایڈیٹر: محمد جنید اکرم' اس رسالہ کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد پنجابی زبان میں چھپنے والا یہ پہلا رسالہ ہے۔ ایڈیٹر کے لفظ کے علاوہ، سرپرست، نگران، نگرانِ اشاعت، ایگزیکٹو ایڈیٹر، اور مینیجنگ ایڈیٹر جیسے الفاظ، عہدے اور نام بھی اس پر شائع شدہ ہیں۔ ان دو رسالوں میں دی گئی فہرست عہدیداران سے ہی مغربی اور مشرقی پنجاب میں بولی اور لکھی جانے والی پنجابی کا فرق بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ تو بات وضاحت کی محتاج نہیں کہ سکھ گورمکھی رسم الخط میں پنجابی لکھتے ہیں جبکہ مسلمان شاہ مکھی میں جو درحقیقت فارسی رسم الخط ہے۔ پاکستانی پنجاب میں کتنے لوگ ہیں جو گورمکھی کوپڑھ اور لکھ سکتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی پنجابی غیر مسلموں کی پنجابی سے اتنی ہی مختلف ہے جتنی کہ ہندی اُردو سے مختلف ہے۔ ڈاکٹر سید اختر جعفری پنجابی زبان کے معروف مصنف اور نقاد ہیں۔ ان کی کتاب 'نویں زاویے'، پنجابی ادبی تنقید کے حوالے سے مقبولیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ صدارتی ادبی ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہے۔یہ کتاب سی ایس ایس کے پنجابی کے پرچے میں بھی شامل ہے۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں:
"لسانی اعتبار سے پنجابی زبان اور ادب کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ پنجاب میں مسلمانوں کے داخل ہونے کے ساتھ ہی پنجابی نے اپنے آپ کو بھرنش (زبان) سے جدا کرکے اپنا بالکل وکھرا، منفرد اور قابل پہچان روپ اختیار کر لیا۔ یعنی پنجابی بولی کا پراکرت اور بھرنش زبان سے رشتہ (سانجھ) ٹوٹ گیا۔ اس وقت صو فیاے کرام نے پنجاب میں اسلام کی تبلیغ کا آغاز کیا، ان کی کوششوں سے قرآن پاک کی تعلیم عام ہوئی۔ اسلامی تصوف کی ٹھنڈی چھائیں ہندوستان کی زمین پر پھیل گئیں۔ جس کے نتیجے میں عربی اور فارسی کے ان گنت الفاظ خود بخود وقتکے ساتھ پنجابی زبان میں داخل ہوگئے۔ ان میں سے بہت سارے ایسے الفاظ تھے جو پہلے پنجابی میں موجود نہیں تھے۔" (نویں زاویے:صفحہ ۴۶۶)
پنجابی زبان کے مستند محقق تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی پنجابی زبان کا پراکرت اور بھرنش سے اس وقت ہی سانجھ ٹوٹ گیا تھا جب اسلام پنجاب میں داخل ہوا، نجانے فخرزماں سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان کس لسانی اشتراک کی بنیاد پر 'سانجھے کلچر' کو پروان چڑھانے کی واہیات جدوجہد کر رہے ہیں۔
6۔ زبان او رمذہب کا اٹوٹ رشتہ: ہمارے سیکولر دانشور جس قدر جی چاہے مذہب کے خلاف اپنے خبث ِباطن اور بیزاری کا اظہار کرتے پھریں مگر یہ ایک یونیورسل ( آفاقی) حقیقت ہے کہ کرہ ٴ ارضی کی معروف اور بڑی زبانوں کے ارتقا اور ترقی میں مذہب اور مذہبی تعلیمات نے بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بعض خطے کے رہنے والوں نے نہایت خوش دلی کے ساتھ اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر ایک ایسی زبان کو اپنا لیا جس میں ان کی مذہبی تعلیمات کا ذخیرہ موجود تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ وہ مذہبی زبان ہی ان کی مادری زبان کا روپ دھار گئی۔ مصر، تیونس، لیبیا، مراکش، الجزائر، سوڈان جیسے ممالک کے لوگ آج عربی زبان بولتے ہیں، مسلمانوں کی آمد سے پہلے ان علاقوں کی الگ الگ زبانیں موجود تھیں۔ مگر ان لوگوں نے عربی زبان کو اس قدر والہانہ پذیرائی بخشی کہ ان کی قدیم مادری زبانیں اب صرف تاریخ کے صفحات پر ہی موجود ہیں۔ اس تبدیلی کی بنیادی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان خطوں کی زبانیں عربی کے مقابلے میں کم ترقی یافتہ تھیں۔ زبان ترقی یافتہ ہو یا غیر ترقی یافتہ، اس کے بولنے والے اس کے متعلق لسانی عصبیت ضرور رکھتے ہیں ۔ زور اور جبر سے اس کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ عربی زبان کو اپنا لینے کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ زبان وہ ہے جس میں قرآن مجید اُترا اور یہ زبان مسلمانوں کے آقاے نامدار حضرت محمدا کی زبان ہے۔ اس زبان سے مسلمانوں کی دلچسپی محض ادبی اعتبار سے نہیں، اس سے عقیدت کی حقیقی وجہ اس کا اسلام سے تعلق ہے۔
مندرجہ بالا علاقوں کے علاوہ ایران، فارس کے بہت سے علاقوں میں بھی مسلمانوں نے فارسی کی بجائے عربی زبان کو اپنا لیا۔ اس زمانے کے معروف عجمی سائنس دانوں، علما اور صوفیاے کرام نے عربی زبان میں تصانیف تحریر کیں۔ سنسکرت اور ہندی سے ہندوؤں کی دلچسپی محض لسانی اور علاقائی عصبیت کی بنیاد پر نہیں ہے۔ وہ ان زبانوں سے والہانہ شغف رکھتے ہیں کیونکہ انہی زبانوں میں ان کا مذہبی لٹریچر موجود ہے۔ آج بھارت میں اردو، فارسی اور عربی زبان کو جو دیس نکالا دیا جارہا ہے، اس کے محرکات بھی مذہبی ہی ہیں۔
سکھوں کو پنجابی زبان و ادب سے اس قدر دلچسپی اور انہماک کبھی نہ ہوتا، اگر ان کے 'پیغمبر' گورونانک کی مادری زبان پنجابی نہ ہوتی۔ ان کی مذہبی کتابیں 'گرنتھ صاحب' وغیرہ بنیادی طور پر پنجابی میں ہیں۔
یہودی قوم نے گذشتہ دو ہزار برسوں میں خوب دھکے کھائے، پوری دنیا میں ذلیل ہوتے پھرے، مگر وہ جہاں بھی گئے، انہوں نے اپنی زبان عبرانی کو کبھی نہ چھوڑا۔ اس قدر قدیم اور متروک زبان کواگر وہ اب تک گلے لگائے ہوئے ہیں تو اس کی محض ایک ہی وجہ ہے کہ یہ ان کی مذہبی زبان ہے۔ چینی ادب سے کنفیوشس کی تعلیمات نکال دی جائیں، تو اس کی جو صورت باقی رہے گی، اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ انگریزی زبان جس سطح پر آج پہنچی ہوئی ہے ، کبھی نہ پہنچ پاتی اگر اس کے ارتقا میں عیسائیت نے کردار ادا نہ کیاہوتا۔ سترہویں صدی سے پہلے کا انگریزی ادب زیادہ تر مذہبی ادب ہی ہے۔
لاطینی زبان جسے عیسائی دنیا میں ایک طویل عرصہ تک مذہبی زبان کے تقدس کا درجہ حاصل رہا، اگر اس زبان کے الفاظ کو انگریزی سے نکال دیا جائے، تو انگریزی کے علوم و فنون کا کثیر حصہ بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔ مختصر بات یہ ہے کہ پنجابی زبان و ادب کا جو کچھ ذخیرہ اب تک سامنے آیا ہے، اس میں سے مذہب کو خارج کردیں تو پنجابی ادب اپنا وقار کھو دے گا۔ اگر اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے تو راقم یہ کہنے کا میلان رکھتا ہے کہ پنجابی ادب اور مذہب کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔
7۔ پنجابی کے کلاسیکی ادب کواسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا: آج عالمی پنجابی کانفرنس میں شریک مذہب بیزار دانشور قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرنے دیتے کیونکہ ان کے خیال میں یہ بات 'روا داری' کے تقاضوں کے منافی ہے۔ ایک دانشور نے تو بے حد ملحدانہ بے باکی سے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان تلاوت کے لئے نہیں بنا تھا۔ مارکسزم کو اپنے ذہن پر سوار کرنے والے بزرگ صحافی عبداللہ ملک نے مذکورہ کانفرنس میں کہا کہ پنجابیت درحقیقت انسانیت ہے۔ ایسی کانفرنسوں میں شریک دانشور اپنے آپ کو انسان دوستی کا علمبردار کہتے نہیں تھکتے۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ان کی 'رواداری' اور 'انسان دوستی' کا سرچشمہ درحقیقت صوفیاکی تعلیمات ہیں۔
مگر جس 'رواداری' اورانسان دوستی کا یہ پرچار کرتے ہیں، اس کو صوفیاسے منسوب کرناایک پرلے درجے کی دروغ گوئی اور صوفیاکے خلاف ایک گھٹیا درجہ کی بہتان تراشی ہے۔ ان کی کھوکھلی، فریب انگیز رواداری اور مکارانہ انسان دوستی، کا اصل سرچشمہ ان کا وہ 'مذہب' ہے جس کو علامہ اقبال نے 'ملحدانہ اشتراکیت' کا نام دیا تھا۔ ذرا غور فرمائیے یہ اپنے آپ کو صوفیاکی تعلیمات کے پیروکار سمجھتے ہیں مگر ان کا طرزِعمل ان سے کس قدر مختلف ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی 'روا داری' تو اس قدر نازک ہے کہ یہ پنجابی کانفرنس میں سکھوں کی موجودگی میں تلاوتِ قرآن مجید تک کو برداشت نہیں کرپاتی مگر صوفیا ایسی معذرت خواہانہ رواداری پر یقین نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں ہزاروں ایسے اشعار ہیں جو درحقیقت قرآن مجید کی کسی آیت یا حدیث کا لفظی ترجمہ ہیں۔ ان کی شاعری پر قرآن و حدیث کے واضح نقوش مرتسم ہیں۔ کوئی بھی شخص جو قرآن و حدیث سے واقف نہیں ہے، ان کی شاعری کے بیشتر حصے کا اِدراک ہی نہیں کرپائے گا۔ ڈاکٹر سید اختر جعفری نے "پنجابی ادب اُتے قرآن حکیم دے اثرات" کے عنوان سے ایک نہایت پرمغز اور جامع مقالہ تحریرکیا ہے، ان کا یہ مقالہ ان کی کتاب 'نویں زاویے' میں شامل ہے۔ (جاری ہے)

٭٭٭٭٭

لا تَجِدُ قَومًا يُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌ يُوادّونَ مَن حادَّ اللَّهَ وَرَ‌سولَهُ وَلَو كانوا ءاباءَهُم أَو أَبناءَهُم أَو إِخو‌ٰنَهُم أَو عَشيرَ‌تَهُم ۚ أُولـٰئِكَ كَتَبَ فى قُلوبِهِمُ الإيمـٰنَ وَأَيَّدَهُم بِر‌وحٍ مِنهُ ۖ وَيُدخِلُهُم جَنّـٰتٍ تَجر‌ى مِن تَحتِهَا الأَنهـٰرُ‌ خـٰلِدينَ فيها ۚ رَ‌ضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَ‌ضوا عَنهُ ۚ أُولـٰئِكَ حِزبُ اللَّهِ ۚ أَلا إِنَّ حِزبَ اللَّهِ هُمُ المُفلِحونَ ﴿٢٢