سورۂ فاتحہ کے بعض اہم تفسیری نکات

سورۂ فاتحہ کئی اہم او ربنیادی مسائل کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔اس سورت میں اللہ تعالیٰ کے تین نام بیان ہوئے ہیں جو کہ تمام اسماءِ حسنہ اور صفاتِ الٰہیہ کے مرکز و محور قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ وہ تین اسماء یہ ہیں: اللہ، ربّ او ررحمن۔
یہ سورت الوہیت، ربوبیت اور رحمت کا مظہر ہے۔ الوہیت کا مفہوم ﴿إِيّاكَ نَعبُدُ﴾ سے واضح ہوتا ہے۔ ربوبیت ﴿وَإِيّاكَ نَستَعينُ﴾ میں پنہاں ہے اور صفت ِرحمت ﴿اهدِنَا الصِّر‌ٰ‌طَ المُستَقيمَ٦ ﴾..... سورة الفاتحة" سے آشکار ہوتی ہے۔ پھر لفظ 'حمد' ان تینوں اسماء پرحاوی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنی اُلوہیت، ربوبیت اور رحمت میں محمود اور قابل ستائش ہے۔
اس سورت میں آخرت، جزا و سزا، اللہ تعالیٰ کے اس دن حاکم مطلق ہونے اور عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے کا تصور بھی دیا گیا ہے جوکہ آیت ﴿مـٰلِكِ يَومِ الدّينِ ٤ ﴾... سورة الفاتحة" سے واضح ہے۔
اس سورت میں نبوت و رسالت کا اثبات بھی مختلف پہلوؤں سے کیا گیا ہے :
اولاً : اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا رب ہے۔1وہ اپنے بندوں کو دنیوی اور اُخروی مصالح بتائے بغیر نہیں چھوڑ سکتا۔ اس کی صفت ِربوبیت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو ان تمام چیزوں سے آگاہ کرے اور ایسا نہ ماننے کی صورت میں اس کی اس صفت ِربوبیت پر حرف آتا ہے۔
ثانیًا :"اللہ' کا لفظ ہی اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ بس اسی کی ذات ہی قابل عبادت ہے اور ظاہر ہے کہ بندے اس کی عبادت کا طریقہ اسی کے بھیجے ہوئے ر سولوں کے سوا اور کسی ذریعہ سے جان نہیں سکتے۔
ثالثًا: لفظ 'رحمن' اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس کی صفت ِرحمت اپنے بندوں کو بے سہارا چھوڑ دینے اور کمال تک پہنچنے کے ذرائع سے بے خبر رکھنے کے منافی ہے۔ جو شخص لفظ 'رحمن' کی حقیقت جان لیتا ہے، اس سے یہ بات مخفی نہیں رہتی کہ اس کی صفت ِرحمت بارش کے برسانے ، پودوں کے اُگانے اور بیج کے نکالنے سے زیادہ انبیاء کے بھیجنے اور کتب ِسماویہ کے اُتارنے کی مقتضی ہے۔ جسم سے زیادہ روح رحمت خداوندی کی محتاج ہے۔ جن لوگوں کے دل و دماغ پر پردے پڑ چکے ہیں، وہ اس لفظ سے صرف جانوروں اور چوپاؤں کی زندگی ہی اَخذ کرتے ہیں لیکن اہل فکر و دانش اصل حقیقت کی تہ تک پہنچتے ہیں۔
رابعًا: ﴿يَومِ الدّينِ﴾ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ یہ وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان کے اَعمال کی جزا و سزا دے گا۔ انہیں ان کی نیکیوں پر ثواب اور برائیوں پر سزا دے گا لیکن اللہ تعالیٰ کسی پر حجت قائم کرنے سے پہلے گرفت نہیں کرتا اور یہ حجت اس نے اپنے رسول اور کتابیں بھیج کر قائم کردی ہے اور انہیں کی آمد کے بعد اس دن کی نوبت آئے گی کہ تمام نیکوکاروں کو نعیم اَبدی سے نوازا جائے گا اور تمام گنہگاروں کو دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا۔
خامسًا: ﴿إِيّاكَ نَعبُدُ﴾کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت وہی ہوسکتی ہے جس سے اللہ خود راضی ہو۔ جہاں تک اس کے شکر بجا لانے ، ا س سے محبت رکھنے اور اس کی خشیت طاری کئے رکھنے کا تعلق ہے تو عبادت کا یہ مفہوم معقول ہے۔ لیکن عبادت کے اصل طریقے کی معرفت اس کے رسولوں کے بغیر معلوم نہیں ہوسکتی۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عقل سلیم رسولوں کے بھیجے جانے کو اسی طرح تسلیم کرتی ہے جس طرح کہ خود اللہ تعالیٰ کے وجود کو۔ اسی لئے رسول کا انکار کرنے والا درحقیقت رسول کا منکر نہیں ہوتا بلکہ مرسل یعنی اللہ تعالیٰ کا بھی منکر ہوتا ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے رسول پر ایمان نہ لانے کو خدا پرایمان نہ لانے کے ہم معنی قرار دیا ہے۔
سادسًا: ﴿اهدِنَا الصِّر‌ٰ‌طَ المُستَقيمَ ٦ ﴾.... سورة الفاتحة" کے جملے سے پتہ چلتا ہے کہ ہدایت، بیان اور رہنمائی کا نام ہے جس کے بعد توفیق الٰہی اور اِلہام کا درجہ آتا ہے۔ بیان اور رہنمائی کا حصول رسولوں ہی کے واسطے سے ہوسکتا ہے او رایسا ہونے کے بعد خدائی توفیق شامل حال ہوجاتی ہے۔ ایمان دل میں جاگزین ہوکراسی کا ایک جزو بن جاتا ہے۔
درحقیقت یہ دو الگ الگ ہدائتیں ہیں جن کے بغیر دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل نہیں ہوسکتی اور ان کے حصول کے بعد انسان حق کے مدارج کوتفصیلی طور پر جان لیتا ہے اور کھلے و چھپے اسی کا ہورہتا ہے۔ اس کے تمام اعمال، تمام اِرادے، تمام اقوال تاحیات دائرہ حق سے باہر نہیں نکلتے۔
یہاں اس بات کی ضرورت بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کو ہر حال میں ہدایت پانے کی دعا کیوں کرتے رہنا چاہئے او رکہنے والوں کے اس قول کا بودا پن بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہم ہدایت یافتہ ہوتے ہوئے بھی ہدایت کے طلبگار کیوں رہیں؟
وہ اس طرح کہ ہمارے علم میں آئی ہوئی حق باتوں کے مقابلہ میں ایک بڑا حصہ ہمارے لئے نامعلوم ہے۔اور ایسی باتوں کا تو شمار ہی نہیں جنہیں ہم مجمل طور پر جانتے ہیں لیکن تفاصیل سے بے خبر ہیں۔ الغرض ہم مکمل ہدایت کے محتاج ہیں۔یہ تمام اُمور کسی کو حاصل ہوبھی جائیں تو اس کا ہدایت کے لئے سوال کرنا ہدایت پر قائم و دائم رہنے کے لئے ہوتا ہے۔
ہدایت کا سب سے آخری مرتبہ قیامت کے دن جنت تک پہنچنے کے لئے پل صراط کو بآسانی پار کرنے کی ہدایت مانگنا ہے۔ اسی لئے جس شخص کو دنیوی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں اور کتابوں کی معرفت صراطِ مستقیم کی ہدایت حاصل ہوگئی وہ یقینا آخرت میں پل صراط کا رستہ بھی پالے گا اور جس قدر وہ اس دنیا میں خدا کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر ثابت قدم رہا ہوگا، اسی قدر آخرت میں جہنم کے اوپر قائم کئے ہوئے پل صراط پر بھی وہ ثابت قدم رہے گا اورجس تیزی سے وہ دنیا میں اس راستے کے نشیب و فراز سے گزرتا چلا گیا تھا، اسی تیزی سے وہ پل صراط بھی پار کر لے گا۔ کئی تو ایسے ہوں گے جو بجلی کی طرح اسے پار کرجائیں گے اور کئی آنکھ جھپکنے کے وقفہ میں، کئی ہوا کے ایک جھونکے کی طرح تو کئی سواری کی مانند، کئی دوڑتے نظر آئیں گے تو کئی معمولی چال چلتے ہوئے ، کئی گھٹنوں کے بل چلتے ہوں گے تو کئی لنگڑاتے ہوئے اور کئی بیڑیاں پہنے ہوئے رینگتے نظر آئیں گے۔
غرضیکہ بندہ اس دنیا میں اپنی چال ڈھال سے آخرت کے ان مراحل کا بآسانی اندازہ کرسکتا ہے اور یہی عادلانہ فیصلہ ہے:﴿هَل تُجزَونَ إِلّا ما كُنتُم تَعمَلونَ ٩٠ ﴾..... سورة الفاتحة
"تمہارے کئے کابدلہ ہی تمہیں دیا جائے گا۔"
بندے کو یہ دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہ کون سے شکوک و شبہات ہیں جو اس دارِفانی میں اس کے رستے کی آڑ بنے ہوئے ہیں کیونکہ یہی بندھن قیامت کے دن پل صراط کے دونوں طرف آہنی کنڈوں کی طرح اسے نوچتے اور آڑے آتے دکھائی دیں گے :﴿وَما رَ‌بُّكَ بِظَلّـٰمٍ لِلعَبيدِ ٤٦ ﴾.... سورة فصلت
"اور تیرا ربّ بندوں پر ظلم کرنے والانہیں"
الغرض طلب ِہدایت ہر خیر کے حصول او رہر شر سے سلامتی کو سموئے ہوئے ہے۔
سابعًا: نفس مسئول یعنی صراطِ مستقیم کی معرفت سے پتہ چلا کہ ایک رستہ 'صراط' تب ہی ہوسکتا ہے جبکہ اس میں یہ پانچ اُمور پائے جائیں: استقامت، منزلِ مقصود تک پہنچانا، اس کا قریب ہونا، گزرنے والوں کے لئے اس کا کافی وسیع ہونا، منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لئے اس کا تعین ہونا۔ لفظ صراط میں یہ پانچوں باتیں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔
اس کی صفت استقامت سے اس کا قریب ہونا سمجھ میں آتا ہے کیونکہ خط ِمستقیم دو نقطوں کے درمیان قریب ترین خط مانا گیا ہے۔ ذرا سا بھی ٹیڑھا پن اسے لمبا کرنے کے لئے کافی ہے۔اس کی صفت استقامت سے اس کا منزل مقصود تک پہنچانا ظاہر ہوتا ہے اورپھر اس کا تمام خلائق کے لئے نصب کیا جانا اس کی وسعت و ہمہ گیری کا تقاضا کرتا ہے او راس کا یہ وصف کہ یہ رستہ انعام کئے گئے لوگوں کا ہے، گمراہ اورمغضوب علیہم کا نہیں، اس بات کا یقین کرتا ہے کہ یہ راستہ ہی درحقیقت سیدھا او رسچا راستہ ہے۔
صراط کی اضافت کبھی اللہ کی طرف جاتی ہے کیونکہ وہی اس کا نصب کرنے والا ہے جیسا کہ فرمایا گیا:﴿وَأَنَّ هـٰذا صِر‌ٰ‌طى مُستَقيمًا.....١٥٣ ﴾..... سورة الانعام "اور یہ میرا سیدھا راستہ ہے" ایک دوسری جگہ فرمایا: ﴿وَإِنَّكَ لَتَهدى إِلىٰ صِر‌ٰ‌طٍ مُستَقيمٍ ٥٢ صِر‌ٰ‌طِ اللَّهِ......٥٣ ﴾..... سورة الشورىٰ "اور (اے رسول!) تم اللہ کے سیدھے راستے کی طرف بلاتے رہو" او رکبھی اس کی اضافت بندوں کی طرف جاتی ہے جیساکہ سورئہ فاتحہ میں بیان ہوا اوریہ اس لئے کہ بندے ہی اس پر چلیں گے، انہی کے لئے وہ نصب کیا گیا اور وہی اس پر گزرنے والے ہیں۔
ثامنًا: منعم علیھم کے ذکر او رمغضوب علیهم اورضالین کے گروہ سے انہیں ممیز کرتے ہوئے...لوگ حق کی معرفت اور اس پر عمل کرنے کے لحاظ سے ان تین فرقوں میں تقسیم کئے گئے ہیں اور وہ اس طرح کہ انسان یا تو حق کی معرفت رکھتا ہوگا یا نہیں او رپھر حق کی معرفت رکھنے والا یا تو اس پر عامل ہوگا یا اس کا مخالف ہوگا۔
کوئی بھی مکلف فرد ان تین اقسام سے باہر نہیں ہوسکتا۔ اس لئے حق کی معرفت رکھنے والا عالم باعمل شخص منعم علیھم کے گروہ میں سے ہے۔ یہ شخص مفید علم اور نیک عمل کے ساتھ اپنے نفس کا تزکیہ کرتا رہتا ہے : ﴿قَد أَفلَحَ مَن زَكّىٰها ٩ ﴾..... سورة الشمس"جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا، وہ کامیاب ہوگیا"
حق کی معرفت رکھنے والا عالم لیکن عمل سے محروم ہوائے نفس کا تابع شخص 'مغضوب علیهم' کی فہرست میں داخل ہوتا ہے۔ رہا حق کی معرفت سے کورا شخص تو اس کا شمار 'ضالین' (گمراہوں) میں ہوگا۔ مغضوب علیہ شخص عمل کی ضلالت (گمراہی) کے باعث ضال بھی ہے اور ضال شخص عمل کی راہ دکھانے والے علم سے محرومی کے باعث مغضوب علیہم میں بھی شمار ہوتا ہے۔ غرضیکہ ان دونوں میں سے ہر ایک پر ضال اور مغضوب علیہ کا وصف صادق آتا ہے۔ اِلا یہ کہ معرفت ِحق کے بعد عمل میں کوتاہی کرنے والا غضب کا زیادہ مستحق ہے۔اسی لئے یہود کے بیان میں بار بار اس کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہوا :
﴿بِئسَمَا اشتَرَ‌وا بِهِ أَنفُسَهُم أَن يَكفُر‌وا بِما أَنزَلَ اللَّهُ بَغيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضلِهِ عَلىٰ مَن يَشاءُ مِن عِبادِهِ ۖ فَباءو بِغَضَبٍ عَلىٰ غَضَبٍ...... ٩٠ ﴾.... سورة البقرة
"انہوں نے اللہ کے اُتارے ہوئے (اَوامر و نواہی) کے انکار کو اپنی جانوں کے بدلے خرید کر کیا ہی برا سودا کیا ہے۔ صرف اپنی اس سرکشی کی بنا پر کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے (وحی) اُتارتا ہے، اس لئے وہ خدا کے غضب پر غضب کا شکار ہوئے"
اور ایک جگہ اِرشاد ہوا :
﴿قُل هَل أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ‌ مِن ذ‌ٰلِكَ مَثوبَةً عِندَ اللَّهِ ۚ مَن لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيهِ وَجَعَلَ مِنهُمُ القِرَ‌دَةَ وَالخَنازيرَ‌ وَعَبَدَ الطّـٰغوتَ ۚ أُولـٰئِكَ شَرٌّ‌ مَكانًا وَأَضَلُّ عَن سَواءِ السَّبيلِ ٦٠ ﴾...... سورة المائدة
"کہہ دیجئے کہ کیا میں تمہیں بارگاہِ ایزدی میں اس سے بھی زیادہ شرانگیز سزا (پانے والوں) کے متعلق بتاؤں؟ وہ لوگ جو اللہ کی لعنت اور غضب کے مستحق ہوئے اوراللہ تعالیٰ نے ان میں سے کچھ کو بندر، سور اورعباد باطل بنا ڈالا، یہ لوگ سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے، بد ترین جگہ والے ہیں"
حق سے ناآشنا، لقب ضال کا زیادہ مستحق ہے۔اس لئے اس آیت میں نصاریٰ کو اس لقب سے یاد کیا گیا :
﴿قُل يـٰأَهلَ الكِتـٰبِ لا تَغلوا فى دينِكُم غَيرَ‌ الحَقِّ وَلا تَتَّبِعوا أَهواءَ قَومٍ قَد ضَلّوا مِن قَبلُ وَأَضَلّوا كَثيرً‌ا وَضَلّوا عَن سَواءِ السَّبيلِ ٧٧ ﴾..... سورة المائدة
"کہہ دیجئے: اے اہل کتاب ! سوائے حق بات کے اپنے دین میں تجاوز نہ کرو اور نہ ہی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا او رسیدھے راستے سے بھٹکتے رہے"
اس آیت میں خطاب نصاریٰ سے ہے جنہیں یہود کی پیروی سے منع کیا گیا ہے۔
ترمذی اور صحیح ابن حبان میں حضرت عدی بن حاتم سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«یهود مغضوب عليهم ہیں اور نصاریٰ ضالین»
منعم علیہم وہ لوگ ہیں جنہیں معرفت ِحق حاصل ہوئی، پھر وہ اس پر عمل پیرا ہوئے اور مغضوب علیہم وہ جو کہ حق جان لینے کے بعد بھی اپنی خواہشات کے تابع رہے او رضالین جو کہ حق سے ناآشنا رہے۔ ان تینوں اقسام کے ذکر سے بھی رسالت اور نبوت کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ واقعہ یہی ہے کہ لوگ ان تین فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اور درحقیقت رسالت ہی اس تقسیم کا باعث ہوئی ہے۔


نوٹ
1. یعنی ان کو لاتعداد نعمتوں سے پرورش کرنے والا ہے جن میں سے سب سے اعلیٰ و ارفع نعمت قرآن اُتارنا، رسولوں کا بھیجنا اور اپنے بندوں کو نورِ ہدایت اور علم و حکمت سے سرفراز کرنا ہے اور اسی کی ذات اپنے علم، حکمت اور قدرت سے تمام جہانوں کی تدبیر کئے ہوئے ہے۔ اسی کی ذات حکیم و خبیر ہے اور اپنے تمام بندوں پر غالب ہے۔ اس کی ذات آسمان اور زمین کو مسخر کئے ہوئے ہے اور وہی اپنی قدرت سے زمین و آسمان کی کچھ چیزیں انسان کی نشوونما کے لئے مسخر کردیتا ہے تاکہ وہ ترقی کے درجات طے کرتے ہوا انسانیت کے درجہ کمال تک پہنچ سکے اور ربّ کی نعمتوں اور اس کی بے پناہ رحمت کو یاد کرکے اس کا شکر بجا لاتا رہے۔
اس کے ساتھ ساتھ آیاتِ کونیہ میں سوچ بچار اور آیاتِ علمیہ میں غوروتدبر کرتے ہوئے اپنی روحانیت کیلئے تزکیہ و تصفیہ کا سامان بہم پہنچاتا رہے۔ اس کی محبت اور لگائو کا مرکز صرف خدا ہی کی ذات ہو کہ جس نے اپنے بے پناہ احسانات اور نعمتوں سے اسے نوازے رکھا اور دنیا و آخرت میں پاکیزہ زندگی عطا کی۔ تمام بندے اس لحاظ سے صرف اسی کے محتاج ہیں اور صرف خدا ہی ایک بے نیاز ہستی ہے۔ عبودیت کے ان مظاہر کے ساتھ ایک مخلص بندہ برابر کمالات کے زینے طے کرتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اعلیٰ علیین میں نیکوکاروں کے ساتھ جگہ پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس کی توفیق دے، آمین!