حضرت مولانا شیخ الحدیث محمد عبداللہ
(شخصیت، علمی وجماعتی خدمات ، چند ایمان افروز واقعات اور سفر آخرت )
شاہراہِ زندگی کی منازل طے کرنے کے بعد موت کے پل کو عبور کرکے دارِعقبیٰ میں قدم رکھنا ہر ذی روح کے لئے اللہ تعالیٰ کا مقررہ کردہ اٹل قانون ہے جس کے تحت لاکھوں انسان دارِفانی میں آنکھ کھولتے اور ہزاروں لوگ کچھ اس انداز سے رخت ِسفر باندھتے ہیں کہ کسی کوخبر تک نہیں ہوتی۔ مگر کچھ لوگ اپنے سیرت و کردار ، حسن اخلاق اور علمی کارناموں کی حسین یادیں کتابِ زمانہ کے اوراق میں بکھیر جاتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کبھی بھی محو نہیں ہوپاتیں۔ موت جتنی بڑی حقیقت ہے، اتنی ہی بری خبر بھی لیکن اس سے بڑھ کر یقین والی بات کوئی نہیں!!
اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روزِ اول سے اب تک اور آج سے روزِ آخر تک اللہ تعالیٰ پیغام توحید، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبرک اسوہٴ حسنہ، تعلیمات کی تبلیغ و ترویج او رانہیں ایک عہد سے دوسرے عہد تک منتقل کرنے کے لئے ایسی نابغہ روزگار شخصیات سے نوازتے رہے ہیں جن کی زندگی اعلیٰ و ارفع مقاصد، امربالمعروف اور نہی عن المنکرکی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقف رہی ہے اور رہے گی۔ ان شخصیات نے اپنے اپنے وقت میں، حالات و واقعات کے مطابق، نہایت مشکل اور نامساعد حالات کے باوصف ، ناقدری ٴ زمانہ کے باوجود، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامِ دلنشین کو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچانے میں جو بے نظیر خدمات سرانجام دی ہیں، وہ ہماری تاریخ کا قیمتی ورثہ ہے۔ انہی جیسی شخصیات میں سے ایک روشن ستارہ مولانا محمد عبداللہ ہیں، جو ۲۸/ اپریل ۲۰۰۱ء بروز ہفتہ ۸۱ برس کی عمر میں ہمیں داغِ مفارقت دے گئے(إنا لله وإنا إليه راجعون)... آئیے ان کے ایمان پرور روشن ابوابِ زندگی ملاحظہ کرتے ہیں
پیدائش ، نام و نسب
حضرت مولانا کی پیدائش ۱۸/ مارچ ۱۹۲۰ء بمطابق ۲۶/جمادی الثانی ۱۳۳۸ھ بروز جمعرات، سرگودھا سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور بھیرہ اور ملک وال کے تاریخی قصبات کے پاس تحصیل بھلوال کے نواحی گاؤں چک نمبر ۱۶ جنوبی میں ہوئی۔ آپ کے والد گرامی مولانا عبدالرحمن نے آپ کا نام محمد عبداللہ رکھا۔ بعدازاں آپ 'شیخ الحدیث' کے لقب کے ساتھ مشہور ہوئے۔ اکثر و بیشتر علماء و طلباء آپ کو شیخ الحدیث کے نام سے ہی یادکیا کرتے تھے۔
درمیانہ قد، اُٹھا ہوا ورزشی جسم، سعادت کے نور سے روشن کشادہ پیشانی، درمیانی سفید داڑھی، سفیدی مائل گندمی رنگ، چوڑا چہرہ، ذہانت کی لو سے چمکتی ہوئی خوبصورت آنکھیں، گندمی ہونٹ، باوقار اور وجیہ شخصیت، پروقار چال ڈھال کے مالک مولانا محمد عبداللہ مرحوم تھے۔ مولانا محترم ایامِ شباب میں پہلوانی کرتے رہے ہیں، ورزش ان کامعمول ہوا کرتا تھا، خوراک کی طرف خصوصی توجہ دیتے تھے، اسی وجہ سے وہ مضبوط اور گٹھے ہوئے جسم کے مالک تھے۔ آخری ایام تک مضبوطی جسم کا یہی حال تھا۔ آپ حدیث نبوی: «الموٴمن القوي خير من الموٴمن الضعيف» کا مصداق تھے۔ بلند علمی مرتبہ کی وجہ سے عالمانہ شان اور وقار بھی رکھتے تھے۔
محترم مولانا عبدالرشید راشد، جامعہ لاہور الاسلامیہ کے استادِ گرامی بیان فرماتے ہیں :
"ہم چند ماہ قبل شیخ عبداللہ صالح العبید (ریاض،سعودیہ) کی معیت میں مولانامرحوم سے بغرضِ زیارت ملنے کے لئے گئے۔ مولانا سخت علالت کی وجہ سے زبان کو حرکت تو نہ دے سکتے تھے، البتہ ہوش و حواس قائم تھے، جب میرے سے مصافحہ کیا تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں صاحب ِفراش سے نہیں بلکہ کسی مضبوط شخصیت سے مصافحہ کر رہا ہوں۔ مصافحہ اتنا جاندار تھا کہ محسوس ہوتا تھا کہ کسی سے ہاتھ ملایا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جوانی میں پہلوانی کرتے رہے تھے۔"
تعلیم و تعلّم
مولانا موصوف نے ۱۹۳۳ء میں مقامی گورنمنٹ سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا، پھردینی تعلیم کی طرف رغبت کی وجہ سے ۱۹۳۴ء میں مدرسہ محمدیہ، چوک اہلحدیث، گوجرانوالہ میں داخلہ لیا۔ اسی مدرسہ سے دینی تعلیم عرصہ آٹھ سال میں مکمل کرکے ۱۹۴۱ء میں سند ِفراغت حاصل کی۔ دورانِ تعلیم سے ہی وہ خطابت میں دلچسپی رکھتے تھے اور گاہے بگاہے منبر خطابت پر اپنے جوہر دکھاتے رہتے تھے۔لیکن ۱۹۴۲ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد مستقلاً تدریس اور خطابت کا آغاز کیا۔ مدرسہٴ محمدیہ چوک اہلحدیث میں تدریس کا آغاز کیا تو اس وقت یہاں حضرت حافظ محمدگوندلوی بھی کرسی ٴتدریس پر متمکن تھے۔ دوسری طرف جامع مسجد دال بازار، گوجرانوالہ میں انہوں نے درسِ قرآن اور خطابت کا سلسلہ شروع کردیا جو حضرت مولانا اسماعیل سلفی کی وفات (۱۹۶۸ء)تک جاری رہا۔ بعد ازاں گوجرانوالہ کی جماعت اہلحدیث نے انہیں مولانا اسماعیل سلفی کا جانشین مقرر کردیا ۔ آپ تقریباً دس سال تک مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر رہے۔ دال بازار کی جامع مسجد پر محکمہ اوقاف کے قبضہ کے بعد بوجوہ انہیں کوئٹہ جانا پڑا جہاں سے انہوں نے محکمہ اوقاف کی کوئٹہ اکیڈیمی سے فاضل کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں منشی فاضل اور مولوی فاضل کی سندات بھی حاصل کیں۔
اساتذہ کرام
مدرسہٴ محمدیہ کے جن اساتذہ سے آپ نے اکتسابِ فیض کیا، ان میں سے سرفہرست اُستاذ الاساتذہ حضرت مولانا حافظ محمد گوندلوی ہیں۔ حضرت حافظ گوندلوی سے آپ نے مشکوٰة المصابیح، موطأ امام مالک، ہدایہ، شرح وقایہ، مسلم الثبوت، شرح جامی، اشارات، کافیہ اور صحیح بخاری پڑھیں۔
آپ کے دوسرے نامور استاد حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی ہیں جن سے آپ نے جامع ترمذی، سنن نسائی، ابوداود اور صحیح مسلم کے علاوہ مختصر المعانی اور مطوّل وغیرہ کا علم حاصل کیا۔
ایک گراں قدر قربانی
مولانا موصوف جب کوئٹہ سے تکمیل نصاب کے بعد واپس گوجرانوالہ تشریف لائے تو اپنے تدریسی ذوق کے چڑھاؤ کی وجہ سے دال بازار میں جامعہ شرعیہ مدینة العلم کے نام سے ایک دینی مدرسہ قائم کیا جوکچھ عرصہ کے بعد ایک پرشکوہ عمارت کا حامل اِدارہ بن گیا تھا۔ ۱۹۶۸ء کی بات ہے جب ان کے استادِ گرامی شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی دارِفانی سے کوچ فرماگئے تو احبابِ اہلحدیث کی طرف سے حضرت مولانا کو مولانا اسماعیل سلفی کے منبر خطابت چوک نیائیں فروکش کیا گیا تو آپ نے اپنی مصروفیات اور احبابِ جماعت کی خواہش پر جامعہ شرعیہ مدینة العلم کو اپنی مادرِ علمی مدرسہ (جامعہ محمدیہ) میں ضم کردیا۔ چنانچہ جامعہ شرعیہ مدینة العلم کی پرشکوہ عظیم الشان عمارت پر جامعہ محمدیہ کا بورڈ آویزاں کردیا گیا۔ درحقیقت مولانا کا یہ گراں قدر ایثار و قربانی ہے جو انہوں نے اپنے مربی استاد اور اپنی عزیز مادرِ علمی کے لئے دی تھی۔ بنا بریں جامعہ محمدیہ کے فیض میں حضرت موصوف کا بصورتِ صدقہ جاریہ بہت بڑا ہاتھ ہے۔
فنِ تدریس و خطابت
حضرت مولانا محمد عبداللہ جماعت اہلحدیث کی صف ِاول کے ایک نامور رہنما، کہنہ مشق مدرّس، ممتاز اور قدآور علمی شخصیت تھے۔ اللہ نے آپ کو ذہن رسا اور کمال استحضارِ علمی سے نوازا تھا، علمی دسترس کی وجہ سے آپ علمی مکالمہ میں خصوصی ملکہ رکھتے تھے۔ مولاناموصوف کو تدریس وخطابت کا فن اپنے اساتذہ خصوصاً مولانا اسماعیل سلفی سے ملا تھا۔ آپ نے عرصہ ۳۱ سال تک اپنے استادِ گرامی کے جاری کردہ درسِ قرآن اور خطبہ جمعہ کو بالاہتمام نبھایا۔ منفرد اور اعلیٰ تدریسی مہارت کے ساتھ ساتھ آپ ایک بلند پایہ خطیب بھی تھے۔ بیان کرنے کا انداز عام فہم، پرمغز، مدلل، موٴثر اور دلنشین ہوتا تھا۔
تفسیر میں آپ کوایسا ملکہ حاصل تھا جو کم ہی علما کے حصہ میں آیا ہے۔ بیان کرنے کا ایسا اسلوب رکھتے تھے کہ جو بھی سنے گویا خود کو ان حالات و واقعات سے گزرتا محسوس کرے۔ مولانا کے درسِ خطابت میں بڑی خوبی جو بیان کی جاتی ہے وہ یہ کہ موضوع کے متعلقہ پہلوؤں میں سے کسی پہلو کو تشنہ نہ چھوڑتے تھے۔ کئی اشکالات جو موقع بہ موقع جنم لیتے تھے، ساتھ ساتھ حل ہوتے جاتے۔ چنانچہ مولانا سے کسی نقطہ کی وضاحت یا اعتراض کا جواب لینے کی گنجائش باقی نہ رہتی تھی۔ ہر درس و خطاب میں ان کی عالمانہ شان موجود ہوا کرتی تھی۔بعض ایسے مسائل جن پر دیگرعلماے کرامکچھ بیان کرنے سے قاصر ہوتے، مولانا صاحب اپنے جواہر کی جولانی دکھاتے تو حلقہ درس میں ہر شخص ہمہ تن گوش ہوجاتا۔ شرعی احکام کی تفصیل، عذابِ قبر کا منظر، اور احوالِ قیامت کے تذکرہ میں دل کی تیز دھڑکنوں کے ساتھ ہر آنکھ آشکبار ہوجاتی۔ کسی بھی واقعہ کا منظر، پس منظر، پیش منظر اور تہہ منظر کچھ اس انداز اور ترتیب سے پیش فرماتے کہ پورے واقعہ کا نقشہ اَثرات سمیت دل میں پیوست ہوجاتا۔ اور سامع اپنے دل کی کیفیت باوجود کوشش کے چھپانہیں سکتا تھا۔ آپ کے محترم حافظ عبدالقدوس صاحب (گوجرانوالہ) کے بقول :
"ہم جامعہ محمدیہ نیائیں چوک میں حفظ ِقرآن کرتے تھے کہ دیکھتے ہیں کہ ایک بزرگانہ وضع قطع کا جواں سال رات کے آخری حصہ میں بیدار ہو کرغسل کرتا ہے، پھرنمازِ تہجد کے لئے اللہ کے حضور ہاتھ باندھے کھڑے ہو کر مناجات ہوتی ہے، راز و نیاز کی نہ جانے کیا کیا باتیں ہوتی ہیں۔ تہجد سے فراغت کے بعد وہ مطالعہ میں مصروف ہوجاتا ہے، اتنے میں نمازِ فجر کا وقت ہوجاتاہے، نماز فجر کے بعد وہ درس دینے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں تو راز منکشف ہوتا کہ یہ حضرت مولانا محمد عبداللہ ہیں۔ پھر درس کیا ہوتا، ایک جادو ہوتا تھا۔جس موضوع پر گفتگو کرتے جاتے، ہر ہر بات سامع کے دل میں اُترتی چلی جاتی۔ بات کرنے کا ڈھنگ اور سمجھانے کے ڈھب سے خوب واقف تھے۔ ہر روز ایک نئے موضوع پر درس ہوتا۔ ایسے ایسے موضوعات چھیڑتے پھر ان پر سیر حاصل بحث کرتے کہ دوبارہ، سہ بارہ سننے کو جی چاہتا مگر ایک لمباعرصہ ان کے زیر سایہ گزارنے کے باوجود آج تک انہوں نے دوبارہ کسی سابقہ موضوع کونہ چھیڑا۔مولانا کی قوتِ بیانیہ اس قدر ٹھوس اور عام فہم ہوتی کہ اردو زبان میں فصیح وبلیغ تقریر کرنے کے مدعی حضرات کی تقریرمیں وہ کیف اور لطف نہ ملتا جو مولانا کے خطاب سے حاصل ہوتا تھا۔"
مولانا کا خطبہ جمعہ بھی مولانا اسماعیل سلفی کی طرح عوامی انداز میں بہترین خطبہ ہوا کرتا تھا، جس میں ملک میں پیش آمدہ مسائل، ان کا تجزیہ پھر ان کا حل کتاب و سنت کی روشنی میں اس قدر تفصیل سے دیا جاتا کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جاتا۔ بدعات اور کفر و شرک کے خلاف جہاد مولانا کے خطبات کی اصل روح ہوتے تھے۔ اگرچہ تقریر کی طرف میلان کم تھا مگر وہ خطبہ سے ہی تقریر کا کام نکال لیا کرتے تھے، ویسے بھی تدریسی مشاغل اور تعلیمی و خطابتی ذمہ داریاں اس قدر حاوی رہیں کہ جلسوں میں تقریریں کرنے کے مواقع بہت کم میسر آئے۔ پھربھی جب کبھی کانگریس کی مخالفت کا وقت آیا یا مسلم لیگ کی حمایت کی ضرورت پیش آئی تو آپ نے اپنے خطباتِ جلیلہ سے پاکستان کی خوب حمایت کی اور کانگرس کے نظریات پر سخت چوٹیں لگائیں، حتیٰ کہ آپ نے ان حضرات کا اپنے خطبات سے خوب محاکمہ کیا جو سیاست کو مذہب سے الگ چیز گردانتے تھے۔ درحقیقت آپ دین وسیاست کی تفریق اور دو رنگی کے قائل نہیں تھے۔ آپ کا نظریہ مذہب و سیاست کے متعلق یہ تھا کہ مذہب اور سیاست ایک ہی جسم کے دو اعضاء یا ایک ہی درخت کی دو شاخیں ہیں۔ ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا گویا ایک جسم کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔
مزید آپ نے تدریس و خطابات کے ساتھ ساتھ اِفتاء کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ باوجود علومِ شرعیہ پر عبور کے آپ نے مستقلاً مسند ِافتا تو نہیں جمائی مگر گاہے بگاہے اور بوقت ِضرورت کافی حد تک فتویٰ نویسی کا کام سرانجام دیتے رہے۔ ان کے فتاویٰ کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے۔ یہ فتاویٰ الگ مقام پر اکٹھے کرکے شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
گوجرانوالہ شہر کی خوش قسمتی
تاریخی، ملی اور دینی اعتبار سے وزیرآباد اور گوجرانوالہ کو ایک اہمیت حاصل رہی ہے، چنانچہ جب حضرت مولانا استاذ الاساتذہ حافظ محمد محدثگوندلوی ، حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی اور حضرت مولانا ابوالبرکات کی وفات کا عظیم سانحہ در سانحہ پیش آیا تو ان جلیل القدر بزرگان کا سایہ اٹھ جانے کے غم کے ساتھ ساتھ احبابِ جماعت کوایک فکر یہ بھی دامن گیر تھی کہ ان متذکرہ بالا شخصیات کے حلقہ کے حضرات کاکسی اور کی خطابت و اِمامت پر اس قدر جلد مطمئن ہونا کیونکر ممکن ہوسکے گا۔ مگر اللہ جل شانہ نے اس مشکل کو مولانا محمد عبداللہ کی صورت میں ایک جلیل عالم باعمل دے کر آسان فرما دیا۔ بظاہر یہ ایسا خلا تھا جو جلد پُر ہونے والا نظر نہ آتا تھا۔ مگر حضرت مولانا مرحوم جب جانشین بنے تو سلفی بزرگان کا لگایاہوا گلشن پہلے کی طرح ہی رونق دینے لگا۔اللہ تعالیٰ نے خلا کو پُر کرنے کے لئے ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جو اس منصب کے لائق اور موزوں ترین شخصیت تھی او رہر شخص ان کے علم کا دل سے معترف بھی تھا۔
عادات و خصائل
مولانا مرحوم زہد و تقویٰ، تہجد گزاری، دیانتدارانہ اور کریمانہ اخلا ق واوصاف کے حامل تھے۔ آپ کی شخصیت میں درج ذیل صفات نمایاں تھیں :
(۱) دیانت و امانت: آپ کی دیانتداری او رامانت داری مسلم تھی۔ لاکھوں روپے پر مشتمل بھاری رقوم کامکمل حساب کتاب رکھا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے جامعہ محمدیہ کاگوشوارہ آمدوخرچ باقاعدہ ہر سال شائع کیا جاتاہے کہ کسی کے ذہن میں غلط خیال جنم نہ لینے پائے۔ رسیدوں کو فائلوں میں محفوظ رکھنا، باقاعدہ چیک کرنا، اخراجات پر کڑی نگاہ رکھنا، مشکوک رسید کی بغیر تحقیق کے منظوری نہ دینا، قوم کے صدقات کو ضرورت سے زیادہ یا بلا ضرورت خرچ کرنا، آمدن کو خفیہ رکھنا یا سالانہ حساب و کتاب سے لوگوں کو آگاہ نہ کرنا، مولانا کے نزدیک سخت معیوب تھا ۔اولاً تو مولانا کسی ہاتھ سے کوئی رقم لیتے ہی نہ تھے، بلکہ انجمن کے سفیر کے ذریعہ سے ہی حاصل کرتے، اگر لے بھی لیتے تو بلاتاخیر رسید کاٹ کر واپس فرماتے، یہی وجہ ہے کہ مولانا پر آج تک کسی بڑے سے بڑے مخالف کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ وہ مولانا مرحوم کی دیانت و امانت پرانگشت نمائی کرسکے۔
(۲) قناعت پسندی: مولانا کی ایک بڑی خوبی ان کی قناعت پسندی ہے۔جماعت نے جو بھی مشاہرہ ان کے لئے مقرر کیا، اسی پر اکتفا کیا۔ حالات کے مدوجزر کے باوجود کسی سے دست سوال دراز نہیں کیا۔ خطباتِ جمعہ یا دیگر خطبات میں باوجود اصرار کے مولانا نے کبھی معاوضہ نہیں لیا۔ موقع بموقع پیسے لینے کی عادت قناعت پسندی کے خلاف تو ہے ہی، مزید اس سے علما کا وقار اور خوداری متاثر ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ علما کے احترام میں وہ حقیقی جذبہ مفقود ہوتا جارہا ہے جو ہر دور میں ائمہ اسلاف کی علامت رہاہے۔ قناعت پسندی اور عزتِ نفس کی بقا اسی پر منحصر ہے کہ علما قناعت پسندی اختیار کریں، کسی کے سامنے دست ِسوال دراز نہ کریں۔
(۳)تحقیق: آپ کی یہ صفت بھی نمایاں تھی کہ آپ ہرمعاملہ میں چاہے شرعی ہو یا غیر شرعی، تحقیق کے بغیر کوئی رائے یا نظریہ قائم نہ کرتے تھے۔ یقینا تحقیق کے بغیر انسان کی عقل اپاہج اور علم اُدھورا نظر آتا ہے۔ جس شخص میں تحقیق کا مادّہ نہ ہو، وہ نہ تو خود علم سے صحیح فائدہ اٹھا سکتا ہے نہ دوسروں کی درست طور پر رہنمائی کرسکتا ہے۔ صحیح فیصلہ کے لئے تحقیق کے راستہ سے گزرنا ضروری ہوتا ہے، اس سے ذہن کو جلا اور دل کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ تحقیقی رجحان کا یہ حال تھا کہ عام لڑائی جھگڑے کے فیصلے میں بھی معاملات کی پوری چھان بین کیا کرتے۔فریقین کے درمیان تنازعہ شدت پکڑ کران کے سامنے آتا تو دونوں فریقوں کی گفتگو سنے بغیر کبھی فیصلہ صادر نہ کرتے تھے۔
(۴) قول کے ساتھ عمل بھی: حضرت مولانا مرحوم ان بزرگوں میں سے تھے جو بات کہتے تھے اس پر عمل بھی کرتے تھے یعنی قرآن و سنت کا عملی نمونہ تھے۔ ایسا آج تک دیکھنے میں نہیں آیا کہ ان کانقطہ نظر تو کوئی اور ہو لیکن عمل اس کے خلاف۔
(۵) جامعہ محمدیہ کی دیکھ بھال اورپیدل سفر کرنا: یہ علالت سے پہلے اس دور کی بات ہے جب شیخ الحدیث مولانا محمد عبد اللہ صاحب جامعہ محمدیہ کے مہتمم ہوا کرتے تھے۔ تب اکثر مولانا جامعہ محمدیہ،نیائیں چوک سے جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ تک پیدل آتے تھے۔ ان کا درمیانی فاصلہ تقریباً ۵ کلومیٹر ہے۔ پھر جامعہ میں آکر جامعہ کے متعلقہ ہر چیز کی دیکھ بھال خود کرنے کی کوشش میں رہتے، وسیع وعریض جامعہ کے اشجار، درودیوار کے متعلق پوری معلومات رکھتے تھے۔
چند روح پرور روشن واقعات
(۱) مولانامودودیسے مکالمہ: تشکیل پاکستان کے بعد جماعت اسلامی کا پہلا اجتماع گوالمنڈی، ریلوے روڈ لاہور پرواقع 'تسنیم' کے دفتر میں ہوا تھا۔ مختلف اضلاع سے آنے والے وفود کے لئے مولانا مودودی سے ملاقات کاالگ الگ وقت متعین تھا تاکہ ہر ضلع سے آنے والے احباب کے ساتھ تبادلہ خیالات ہوسکیں۔ گوجرانوالہ سے آئے ہوئے وفد میں حضرت مولانا محمد عبداللہ مرحوم بھی شامل تھے۔ نمازِ عشا کے بعد جب ملاقات کا وقت آیا تو گوجرانوالہ کے احباب مولانا کی معیت میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی خدمت میں حاضر ہوئے، کچھ دیر تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ آخر میں مولانا مودودی نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص استفسار کرنا چاہتا ہے تو کرسکتا ہے۔ دیگر بہت سے قومی نوعیت کے سوالات کے دوران مولانا عبداللہ مرحوم نے ایک سوال یہ بھی کیا کہ آپ قرآن و سنت کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں، آپ کانصب العین ملک میں اسلامی نفاذ ہے اور اسلام قرآن و سنت کا نام ہے اور حدیث میں صحیحین کا مقام سب کے نزدیک مسلم ہے۔ جبکہ رفع الیدین فی الصلوٰة کی احادیث صحیحین میں آتی ہیں اورآپ ان پر عمل نہیں کرتے۔ احادیث صحیحین کے ساتھ یہ رویہ مناسب نہیں ہے۔ اس پر مولانا مودودی نے یہ جواب دیا "رفع الیدین سے لوگ متوحش ہوتے اور بدک جاتے ہیں، اس لئے میں عام جگہوں پر جب نماز پڑھتا ہوں تو رفع الیدین نہیں کرتا لیکن جب گھر میں تہجد کی نماز پڑھتا ہوں تو رفع الیدین کرلیتا ہوں۔" (تذکرہ علمائے اہلحدیث پاکستان : ص۳۸۴)
(۲) مولانا امین احسن اصلاحی سے ایک مکالمہ: ۱۹۴۴ء کی بات ہے کہ تحصیل پٹھان کوٹ ضلع گورداسپور کے ریلوے اسٹیشن 'سرانہ' میں جماعت اسلامی کا سالانہ اجلاس تھا۔ مولانا عبداللہ مرحوم بھی تین چار افراد سمیت سرانہ پہنچ گئے۔ اجلاس میں شامل ہو کر باقاعدہ کارروائی سنتے رہے، وقفہ میں چہل قدمی کے لئے نکل جاتے۔ ایک مرتبہ بعد از نمازِ عصر مولانا باہر سے تشریف لائے تو دیکھا چارپائی پر مولانا امین احسن اصلاحی تشریف فرما ہیں اور قریب کی چارپائیوں پربیٹھے افراد سے یہ تذکرہ فرما رہے تھے کہ خبرواحد حجت نہیں ہے۔ مولانا عبداللہ مرحوم جب وہاں پہنچے تو اصلاحی صاحب فرما رہے تھے، میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں مدلل انداز سے یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ خبرواحد حجت نہیں اور اس کتاب کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ تو مولانا عبداللہ مرحوم نے فرمایا: اصلاحی صاحب! آپ یہ بتائیے کہ خبر واحد حجت کیوں نہیں ہے؟ اصلاحی صاحب متوجہ ہوئے اور پوچھا :آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟ مولانا نے فرمایا: ہمارا نظریہ ہے کہ خبر واحد حجت ہے۔ پوچھا: اس پر کوئی دلیل؟ مولانا نے کہا کہ صحیح بخاری میں حدیث ہے
"حضرت عمر کے دورِ خلافت میں علاقہ شام میں جنگ ہورہی تھی ۔ابوعبیدہ بن جراح کی قیادت میں مسلمان فوجیں پیش قدمی کر رہی تھیں۔ اطلاع ملی کہ آگے طاعون ہے ، لشکر رُک گیااور پڑاؤ ڈال دیا گیا۔ حضرت عمر کو بلایا گیا۔ حضرت عمر وہاں پہنچے، مہاجرین کوجمع کرکے پوچھا کہ کس کومعلوم ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طاعون کے متعلق کوئی ارشاد؟ جواب نفی میں ملا، پھر انصارکوجمع کرکے ایسے ہی پوچھا، جواب نفی میں ملا۔ لشکر کو رات آرام کرنے کے لئے کہا گیا، صبح ہونے پر پھر سبھی انصار و مہاجرین کو پوچھا گیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف نے پوچھا کہ خلیفہ کیا با ت ہے؟ بات بتائی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مجھے معلوم ہے کہ طاعون کی وبا کے مقام پر نہ کسی کو جانا چاہئے اور نہ وہاں سے کسی کو نکلنا چاہئے۔ چنانچہ لشکر کو حکم مل گیا کہ اس سے آگے نہیں بڑھنا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف تمام صحابہ سے تنہا تھے، لہٰذا خبر واحد حجت ہوئی۔ حضرت عمر نے اسے تسلیم کیا ہے، سب صحابہ کرام نے اسے تسلیم کیا ہے، تو آپ کس طرح انکار کرسکتے ہیں؟ ۔"
اصلاحی صاحب فرمانے لگے کہ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ عمومِ بلویٰ کی صورت میں اگر کوئی مسئلہ ہو اور ایک ہی راوی بیان کرے، تو تب خبر واحد حجت نہیں ہے۔ مولانا عبداللہ صاحب نے فرمایا: اس پر بھی دلیل موجود ہے۔ اصلاحی صاحب نے پوچھا، بتاؤ کیا حدیث ہے؟ تو مولانا موصوف نے فرمایا:
"حضرت عمر کے زمانہ میں کچھ لوگ ایک عورت کو پکڑ لائے کہ اس کا نہ نکاح ہوا ہے اور نہ شوہر موجود ہے لیکن یہ حاملہ ہے؟ آپ نے رجم کا حکم دے دیا۔ راستہ میں حضرت علی ملے، قصہ کاعلم ہوا تو کہا: اس عورت کو واپس لے چلو، حضرت عمر کے پاس پہنچے اور فرمایا: امیرالموٴمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک حاملہ عورت آئی تھی، اس نے گناہ کا اعتراف کیا اور اپنے رجم کئے جانے کا مطالبہ بھی کیا تو آپ نے فرمایا کہ تیرے پیٹ میں بچہ ہے۔ وضع حمل کے بعد آنا، جب عورت وضع حمل کے بعد آئی تو فرمایا: ابھی بچہ کودوسال دودھ پلاؤ۔ دو سال دودھ پلانے کے بعد عورت آئی اور مدتِ رضاعت ختم ہونے کی خبر دی تو فرمایا کہ اب اس عورت کورجم کردو۔ چنانچہ رجم کردیا گیا۔"
اس عورت کو رجم کرنے والے بے شمار لوگ تھے اور یہ واقعہ اہل مدینہ کے سامنے رونما ہوا۔ جبکہ بیان کرنے والے صرف حضرت علی اکیلے ہیں اور یہ خبر واحد ہے۔عمومِ بلویٰ کی صورت میں حضرت عمر نے حضرت علی کی شہادت قبول فرمائی۔ اس پر مولانا اصلاحی فرمانے لگے: اصل بات یہ کہ حضرت علی کا مقام بہت بلند تھا۔ مولانا عبداللہ مرحوم نے جواب دیا کہ ہم بھی اس شخص کی خبر واحد کو حجت مانتے ہیں جو ثقہ اور معتبر ہو، غیر ثقہ روایت کو تو ہم بھی نہیں مانتے۔ اس کے بعد مولانا اصلاحی صاحب خاموش ہوگئے او رکچھ نہ بولے۔ (تذکرہ علمائے اہلحدیث پاکستان: ص ۳۸۱)
(۳) جامعہ اشرفیہ لاہور کا واقعہ: ایک تیسرا واقعہ نہایت اہم ہے وہ یہ کہ مولانا چند رفقا کے ساتھ لاہور جامعہ اشرفیہ دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچ کر پہلے جامعہ کے کمرے دیکھے، پھر مینار چڑھے، مینار بہت شاندار او رکمرے بڑے خوبصورت پائے، جب مسجد سے باہرنکلنے لگے تو حوض سے متصل ایک کتبہ پر نظر پڑی، جس پرنمایاں حروف میں شیخ الفقہ لکھا ہوا تھا۔ جب مولانا وہاں سے گزرنے لگے تو ایک کلاس فارغ ہو کر کمرہ سے نکل رہی تھی اور دوسری کلاس ا س کی جگہ لے رہی تھی، دیکھا تو کلا س میں ایک بز رگ بیٹھے ہیں جوطلبا کو پڑھاتے تھے۔ مولانا کے دل میں خیال گزرا کہ چند ساعتیں شیخ الفقہ کے حلقہ سبق میں بیٹھ کر ہم بھی مستفید ہولیں، رفقا کو ساتھ لیا او ربیٹھ گئے۔ ایک طالب علم نے 'کنز' نامی کتاب کھول کر باب الرضاعة نکالا اور عبارت پڑھی۔ اب شیخ الفقہ نے تقریر شروع کی اورکہا مدتِ رضاعت میں اختلاف ہے، مدتِ رضاعت کا مطلب ہے کہ کتنی مدت ماں اپنے بچہ کو دودھ پلا سکتی ہے اور اس مدت میں جو بچہ اس عورت کا دودھ پی لے وہ اس کا رضاعی بیٹا یا بیٹی بنتے ہیں۔
شیخ الفقہ نے فرمایا: امام شافعی فرماتے ہیں ، دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے اور امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں، اڑھائی سال ہے۔ اس پر مولانا نے اعتراض کیا کہ شیخ صاحب ان دو جلیل القدرائمہ میں یہ اختلاف کیوں ہے؟ کیا یہ مسئلہ قرآن میں نہیں ہے کہ دونوں اِمام متفق ہوجاتے اور اختلاف سے بچ جاتے۔ یہ سوال سن کر شیخ چونک اٹھے۔ اورپوچھنے لگے: تمہارا گھر کہاں ہے؟ مولانا موصوف فرمانے لگے: ضلع سرگودھا کا رہنے والا ہوں۔ شیخ نے پھر پوچھا: یہاں کیا لینے آئے ہو؟ عرض کیا یہاں ماڈل ٹاؤن میں کسی عزیز کے ہاں تعزیت کے لئے آئے تھے۔ آج واپسی کی اجازت نہ ملی تو سوچا جامعہ اشرفیہ ہی دیکھ لیں۔ یہاں پہنچے تو آپ کا کتبہ دیکھا، کلاس دیکھی، سوچا آپ سے مستفید ہولیں۔ پھر شیخ الفقہ نے سوال کیا: آپ کا مسلک کیا ہے؟ فرمایا ہم مسلمان ہیں۔ اس پر اعتراض ہوا: مسلمان تو سب ہیں، کس فرقہ سے تعلق رکھتے ہو؟ مولانا نے جواباً فرمایا ہم کسی فرقہ سے تعلق نہیں رکھتے۔ نہ فرقہ پرستی کو اچھا سمجھتے ہیں ہم اول و آخر مسلمان ہیں او راسلام ہی سے ہمیں واسطہ ہے۔اس پر شیخ الفقہ نے فرمایا: بات یہ ہے کہ ائمہ کی نظر ہماری طرح سطحی نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر بڑی دقیق اور نکتہ رس ہوتی ہے۔ اور جہاں ائمہ کی نظر پہنچتی ہے وہاں تک ہماری نظر کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔
مولانانے فرمایا: لیکن ایک امام کی نظر دو سال تک اور دوسرے کی اڑھائی سال تک کیوں پہنچتی ہے، کیا قرآن میں یہ مسئلہ مذکور نہیں ہے؟ شیخ الفقہ نے فرمایا ، قرآن و حدیث میں اڑھائی سال کا اشارہ پایا جاتا ہے، مولانانے فرمایا: وہ اشارہ مجھے بھی دکھائیے قرآن میں تو دو سال کا حکم موجود ہے اوریہ آیت پڑھی ﴿وَالوٰلِدٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ......٢٣٣ ﴾..... سورة البقرة "مائیں اپنے بچوں کو دو سال تک دودھ پلائیں" تو 'حولین کاملین' میں اڑھائی سال کا اشارہ کہاں؟ اس پر شیخ الفقہ نے فرمایا بعض احکام کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ خاص ہے، آج ان پرعمل نہیں ہوسکتا۔
قصہ مختصر اس کے بعد خوب بحث چلی، دلائل کے لئے کتابیں منگوا لی گئیں، اتنے میں شیخ صاحب کے تلامذہ میں سے دو تین پٹھان بول اٹھے۔ ارے بڈھے! تو یہاں سے جاتا ہے یا نہیں؟ مولانا مرحوم اشارہ سمجھ گئے اور جواباً فرمایا: اگر آپ لوگوں نے مارپیٹ کر مسئلہ سمجھانا ہے تو پھر میں خود ہی چلا جاتا ہوں۔ آپ اٹھے، جوتا پہنا اور چل دیئے۔ اتنے میں دوسری کلاس کے کسی طالب علم نے جو حضرت عبداللہ مرحوم کو جانتے تھے کہا کہ یہ مولانا عبداللہ صاحب ہیں اور گوجرانوالہ میں جامع مسجد اہلحدیث کے خطیب ہیں۔ تب انہیں خیال آیا کہ کوئی اچھا کام نہیں ہوا اور لڑکے بھیجے کہ ایک مرتبہ دوبارہ تشریف لائیں ہم اپنے رویہ پر معذرت خواہ ہیں ۔ مولانا نے معذرت قبول فرمائی اور فرمایا کہ بدنامی اور رسوائی کاڈر ہو تو پہلے ہی سوچ سمجھ کرکام کرنا چاہئے۔ (تذکرہ علمائے اہلحدیث پاکستان: ص ۳۷۷)
علمی ثقاہت کے چند واقعات
مولانا عبداللہ مرحوم کے شاگرد شیخ عبدالرحیم صاحب سیالکوٹی فرماتے ہیں :
"مولانا عبداللہ مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ جو آدمی میرا شاگرد بن کر مکمل مشکوٰة المصابیح پڑھ لے وہ کبھی کسی غلط موقف کا شکار نہیں ہوسکتا۔"
اور مولانا عبدالرشید راشدصاحب (مدرّس جامعہ لاہور الاسلامیہ) کے مطابق:
"مولانا موصوف جب جامعہ محمدیہ میں تشریف لاتے، کبھی علمی مجلس کی صورت پیداہوجاتی، تو اساتذہ جامعہ محمدیہ مقابل میں بیٹھنے سے گھبراتے تھے اور کوئی خود میں اتنی ہمت نہیں پاتا تھا کہ مولانا موصوف کے مقابل میں گفتگو کرسکے۔ اور مولانا موصوف بھی فرمایا کرتے تھے کہ میرے سے اگر کوئی علمی موضوع پر بات کرسکتا ہے تو وہ صرف اور صرف مولانا عبدالمنان نورپوری ہیں۔"
مرکزی جمعیت اہلحدیث کی اِمارت اور جامعہ محمدیہ کے اہتمام کامسئلہ
مولانا عبداللہ مرحوم کو جب علامہ احسان الٰہی ظہیرنے اپنی جمعیت اہلحدیث کا امیر بنایا جبکہ اس وقت مرکزی جمعیت اہلحدیث موجود تھی تو ان کا تعارف گوجرانوالہ ضلع سے باہر بھی پھیلنے لگا، لیکن مولانا ہمیشہ کی طرح اپنے دورِ امارت میں بھی مثبت اور تعمیری رویہ کے حامل رہے، اور باہم اتفاق و اتحاد کے لئے کوششیں جاری رکھیں۔ چنانچہ علامہ ظہیر کی وفات کے بعد جب دونوں جمعیتیں، مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان اور جمعیت اہلحدیث پاکستان باہم ضم ہوگئیں اور متفقہ نام "مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان" ہی قرار پایا تو متفقہ طورپر آخری لمحات تک اس کی سرپرستی فرماتے رہے۔
عرصہ سے شیخ الحدیث کی علالت کی بنا پر جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ کا انتظام مولانا موصوف کے چھوٹے صاحبزادے حافظ عمران عریف صاحب کے پاس ہے۔ اللہ ان کے ہمت و حوصلہ کو مزید بڑھائے اور صبرجمیل عطا فرمائے۔ آمین!
خدمات
آپ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے تقریباً دس سال تک امیر رہے۔ ۱۹۹۰ء میں مرکزی جمعیت اہلحدیث اور جمعیت اہلحدیث پاکستان کے اِدغام کے بعد آپ بوجوہ امارت سے دستبردار ہوگئے۔ دونوں جماعتوں کے اتحاد میں آپ کی کوششیں قابل قدر و تحسین ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریک پاکستان میں خوب کردار ادا کیا۔ کانگریس کے نقطہ نظر کی تردید زوردار خطابانہ انداز میں فرماتے رہے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد آپ نے تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفی اور تحریک نفاذِ کتاب و سنت میں بھرپور قائدانہ کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوانے کے سلسلہ میں مولانا صاحب کی مرکزی جامع مسجد اہلحدیث ، چوک اہلحدیث گوجرانوالہ کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اکثر و بیشتر وہاں سے جلوس نکلتے، حتیٰ کہ مرزائیوں کو اقلیت قرار دے دیا گیا۔ اور یہ مرکزی مسجد وہی مسجد ہے جس کی بنیاد ۱۹۲۱ء میں مولانا محمد اسماعیل سلفی نے رکھی تھی۔ حقیقتاً شیخ الحدیث موصوف نے جانشینی کاحق ادا کردیا۔
اپنی علمی اور جماعتی خدمات کی وجہ سے آپ کو انگلستان، سعودی عرب، کویت، عراق، متحدہ عرب امارات، اردن، شام اور دوسرے ممالک کے تبلیغی دورے بھی کروائے گئے چنانچہ ہر جگہ پر علم و فضل کے ساتھ فصیح و بلیغ خطابت کا لوہا بھی منوایا۔
یہ بات بھی یاد رہنی چاہئے کہ آپ صرف گوجرانوالہ کی ۲۰۰ مساجد کی سرپرستی کے علاوہ دیگر شہروں کے کچھ اِدارہ جات کی سرپرستی بھی فرماتے رہے ہیں۔ آپ اپنے پیچھے عظیم صدقہ جاریہ جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ کی صورت میں چھوڑ گئے ہیں جس کا اجر انہیں اللہ تعالیٰ نصیب فرماتارہے گا۔ یہ وہ عظیم جامعہ محمدیہ ہے جہاں سے مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ، مولانا حنیف ندوی، مولانا محمد عبدہ، مولانا محی الدین لکھوی، مولانا معین الدین لکھوی، حافظ عبدالمنان نورپوری، پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی جیسی فاضل شخصیات فارغ التحصیل ہیں۔
مولانا کی خدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ نصف صدی تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے کوئی دو چار برس کی بات نہیں ہے۔ ۱۹۳۲ء کے قرب و جوار کا وقت تھا جب علم تجوید و قراء ت کو سلفی العقیدہ حضرات اس قدر اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ تب حضرت مولانا داؤد غزنوی نے لاہور کی مسجد چینیانوالی میں علم تجوید و قراء ت کا پودا کاشت کیا توگوجرانوالہ میں حضرت مولانااسماعیل سلفی نے جامعہ محمدیہ چوک اہلحدیث میں علم تجوید وقراء ت کی تعلیم اور ذوق عام کرنے کے لئے ایک شعبہ قائم کیا۔ جس کی عرصہ ۲۷،۲۸ سال تک مولانا مرحوم نے بڑی بڑی مشقتیں برداشت کرکے آبیاری اور پرورش کی اور شعبہ پر آنچ نہ آنے دی۔ آج علومِ قرآن سے فیض یافتہ قراء حضرات کے پیچھے حضرت مولانا مرحوم کی انتھک محنتوں کا ہاتھ ہے۔ حضرت مولانا جب سخت علیل ہوئے تو اس شعبہ کی ذمہ داری مولانا حافظ محمد امین محمدی صاحب کے سر آن پڑی، جواپنی بلند ہمتی کی بنا پر اس شعبہ کو عام کرنے کابیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ مولانا امین محمدی صاحب جامعہ اسلامیہ نصر العلوم عالم چوک گوجرانوالہ کے بانی ہیں۔
سفرِ آخرت
مولانا عبداللہ مرحوم صاحب اپنے بڑے بیٹے عبدالرحمن کی اچانک وفات کے بعد مسلسل نحیف ہوتے چلے گئے۔ اوپر سے بڑھاپے نے اثرات دکھانا شروع کردیئے۔ بالآخر ۲۸/اپریل ۲۰۰۱ء کو صبح چھ بجے علامہ اقبال میموریل ہسپتال، گوجرانوالہ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کی نماز جنازہ سہ پہرساڑھے پانچ بجے شیرانوالہ باغ میں پڑھی گئی جو گوجرانوالہ شہر کی تاریخی نماز جنازہ تھی۔ جس میں بلا امتیاز ہر مکتب ِفکر کی مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی ... اللهم اغفرله وارحمه!
چمن علماء (جامعہ محمدیہ ) سے شیرانوالہ باغ تک
مولانا مرحوم کے وفات کی خبر جیسے جیسے پھیلتی گئی۔ عورتوں و مردوں کا ہجوم مولانا کے گھر اور جامعہ محمدیہ میں بڑھتا گیا۔ ۱۲ بجے کی خبروں میں مولانا کی خبر وفات نشر کردی گئی تھی، اس خبر کا نشر ہونا تھا کہ لوگ دوسرے شہروں سے گوجرانوالہ پہنچناشروع ہوگئے۔ انتظام کرنے والے احباب نے جنازہ کے لئے شیرانوالہ باغ کا چناؤ کیا اور ساڑھے پانچ بجے کا وقت مقرر ہوا۔ حسب ِپروگرام گھر سے بعد از غسل و تکفین جسد خاکی کو جامعہ محمدیہ چمن علماء میں لایا گیا، جہاں میت کو کچھ وقت کے لئے دیدارِ عام کے لئے رکھا گیا۔ علماء طلباء جامعہ اور دیگر حضرات دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے کہ وہ عبداللہ جس نے اس چمن کی خون پسینہ سے آبیاری کی تھی، آج اسی چمن سے اپنا سایہٴ شفقت اٹھائے چل دیئے ہیں۔
دوسری طرف شیرانوالہ باغ میں لوگ دیدار اور شرکت ِجنازہ کے لئے دو بجے سے ہی پہنچنا شروع ہوگئے تھے، باغ کی طرف نکلنے والا ہر راستہ لوگوں سے بھراہوا نظر آتا تھا۔ ساڑھے چار بجے کے قریب کا وقت ہوگا کہ مولانا کی میت کوباغ میں لے جایا گیا، اس وقت باغ کے جس طرف بھی نظر اٹھائیں، اِنسانی سروں کی ایک فصل نظر آتی تھی۔ باغ میں اتنا رش تھا کہ باغ اپنی تنگی ٴداماں کونہ چھپاسکا۔ نمازِ جنازہ کے لئے صفوں کی درستگی بمشکل عمل میں آئی۔ اس کے بعد مولانا محمداعظم صاحب نے شیخ الحدیث مرحوم کے متعلق پانچ منٹ کی گفتگو فرمائی، اس کے بعد پروفیسرساجد میر،امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث نے حضرت مرحوم کی فضیلت اورجماعتی خدمات پر جامع تقریر کے بعد نمازِ جنازہ پڑھائی۔
آخری دیدار کرنے والے لوگ انتظامیہ کو ہراعتبار سے بے بس کرچکے تو میت کونقصان پہنچ جانے کے خوف سے اُٹھا لیا گیا۔ بنابریں بہت سے عقیدت مند آخری دیدار نہ کرسکے۔ میت کی چارپائی کو لمبے بانسوں کے ساتھ باندھا گیا تھا، قبرستان میں میت پہنچی ہی تھی کہ لوگوں کا جم غفیر قبر کی طرف کچھ اس انداز سے اُمڈ آیا کہ چارپائی رکھنے کے لئے بھی جگہ نہ بچی۔ بالآخر چاروناچار میت کو لوگوں کے سروں کے اوپر سے گزار کر قبر تک پہنچایا گیا۔
لاہور اور ملک بھر سے بہت سے علما آپ کے جنازے میں شرکت کے لئے حاضر ہوئے۔ ادارئہ محدث سے مدیر اعلیٰ حافظ عبد الرحمن مدنی، کلیہ الشریعہ کے پرنسپل مولانا شفیق مدنی ، شیخ التفسیر مولانا عبدالسلام ملتانی اور ناظم جامعہ محمد یوسف صاحب نے بھی جنازہ میں شرکت کی اور رات گئے واپسی ہوئی۔
تدفین :حضرت شیخ الحدیث صاحب مرحوم کی قبر گوجرانوالہ کے قبرستان کلاں میں حضرت مولانا علاؤ الدین اور مولانا محمد اسماعیل سلفی کے پہلو میں اورحضرت حافظ محمد گوندلوی کی قبر کے قریب تیار کی گئی تھی، بعد از نمازِ مغرب میت کو لحد میں اتارا گیا، تدفین مکمل ہونے کے بعد حضرت مولانا محمد رفیق سلفی صاحب نے قبر پر رقت آمیز دعا مانگی۔ زندگی بھر مولانا محمد اسماعیل سلفی کی جانشینی کا حق ادا کر دینے والا جانشین اس شہر خموشاں میں بھی اپنے قائد مولانا اسماعیل سلفی کے پہلو میں جاسویا۔ (إنا لله وإنا إليه راجعون)
شاید انہی کے لئے شاعر نے کہا تھا:
فما کان قيس هلکه هلك واحد ولکنه بنيان قوم تهدما
إلی الله أشکو لا إلی الناس أنني أري الأرض تبقي والأخلاء تذ هب
أخلاء! لو غير الحمام أصابکم عقبت ولکن ما علی الموت معبث
"قیس کی موت تنہا آدمی کی موت نہیں، اس کے مرنے سے تو پوری قوم کی عمارت گرپڑی ہے۔ میرا شکوہ اللہ سے ہے، لوگوں سے نہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ زمین کی آبادیاں جوں کی توں قائم ہیں اور دوست ہیں کہ چلے جارہے ہیں۔ دوستو! موت کے سوا کوئی اور مصیبت ہوتی تو اس کا گلہ کیا جاتا، لیکن میرے سے موت پرکیسا گلہ!"
تلامذہ: محترم مولانا عبداللہ مرحوم کے تلامذہ کا شمار تو بہت مشکل ہے ، البتہ چند نامور تلامذہ کے اسماے گرامی درج ذیل ہیں :
1۔ مولانا شمشاد احمد سلفی (نارنگ منڈی ) 2۔ مولانا عبدالغفور (جہلم)
3۔ مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری 4۔ مولانا پروفیسر قاضی مقبول احمد
5۔ مولانا بشیرالرحمن (گوجوانوالہ) 6۔ مولانا عبدالرحمن الواصل (گوجرانوالہ)
7۔ مولانا یوسف ضیاء (قلعہ دیدار سنگھ ) 8۔مولانا عبدالقیوم (نارووال )
9۔ مولانا محمد علی جانباز (سیالکوٹ) 10۔ مولانا عبدالسلام بھٹوی
11۔ شیخ عبدالرحیم صاحب (سیالکوٹی) 12۔ مولانا محمد عبداللہ (گجرات)
سوگواران: مولانا کے سوگوران بیٹوں میں سے حافظ عمران عریف صاحب جو اس وقت مرکزی جمعیت اہلحدیث گوجرانوالہ کے ناظم ہیں، جامعہ محمدیہ کی انتظامی ذمہ داری بھی اٹھائے ہوئے ہیں،ان کے علاوہ مجیب الرحمن اور محمد نعمان ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اور اساتذہ و طلباء جامعہ محمدیہ کے علاوہ احباب ِجماعت کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین!
٭٭٭٭٭