عیسائی پادری کی توہین آمیز جسارت!
سیالکوٹ کے ایک پادری ولیم مسیح نے حال ہی میں ایک پمفلٹ نما اشتہار شائع کیا ہے جس کا عنوان ہے: "مسلمانو! جواب دو"۔ اس حد درجہ اشتعال انگیز اور توہین آمیز پمفلٹ میں پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی شانِ اقدس میں بے حد نازیبا کلمات ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کوبلا استثنا 'چمار سے بھی زیادہ ذلیل' قرار دیا گیا ہے۔ اس پمفلٹ میں چند مسلمان علما کی کتابوں سے بعض جملے سیاق و سباق سے ہٹا کر نقل کئے گئے ہیں اور انہیں گستاخانہ جسارتوں کی تائید میں پیش کیا گیاہے۔
پمفلٹ میں من جملہ دیگر گستاخانہ کلمات کے لکھا گیا ہے (نقل کفر، کفر نباشد) :
" مسلمانو! جب تمہارے نبی مر کر مٹی میں مل گئے۔ جب تمہارے نبی کے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ جب تمہارے نبی کا علم بچوں اور پاگلوں جیسا ہے (نعوذ باللہ) تو ہم تمہیں دعوت دیتے ہیں کہ ہمارے عیسیٰ کاکلمہ پڑھو کیونکہ تمہارے مسلمانوں کے قرآن سے ثابت ہے کہ ہمارے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اور ہمارے عیسیٰ مسیح اندھوں کو بینائی بخشتے، کوڑھیوں کو تندرستی بخشتے، مردوں کو زندہ کرتے تھے اور ہمارے نبی عیسیٰ مسیح نے اپنی ماں کی گود میں اپنے نبی ہونے اور کتاب ملنے کا بتایا اور اپنی ماں کی پاک دامنی کا اعلان فرمایا او رہمارے نبی عیسیٰ مسیح ہر پوشیدہ بات کا علم رکھتے تھے۔
اس لئے آؤ اے مسلمانو! ہمارے نبی عیسیٰ مسیح کا کلمہ پڑھو جو زندہ بااختیار اور علم والے ہیں۔ ورنہ مردہ بے اختیار بے علم نبی پر تمہارا ایمان رکھنا بے سود ہے اور تم کافر ہی رہو گے۔ (استغفراللہ) ... مسلمان چھوٹا ہو یا بڑا، ربّ کے نزدیک چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے۔"1
راقم الحروف کے علم کے مطابق اس شرانگیزی اور انتہا درجہ کی دل آزاری پر مبنی اشتہار کے متعلق نہ تو کسی معروف قومی روزنامے میں اب تک کوئی خبر شائع ہوئی ہے ، نہ ہی سیالکوٹ یا قریبی علاقوں کے مسلمانوں کی جانب سے اس توہین رسالت پر مبنی اِقدام کی مذمت میں کوئی بیان شائع ہوا ہے، گستاخ پادری ولیم مسیح کے خلاف 'توہین رسالت' کے قانون کے تحت مقدمہ کے اندراج کا معاملہ تو بعید از قیاس ہے کیونکہ اس صورت میں این جی اوز نے طوفانِ بدتمیزی ضرور کھڑا کیا ہوتا!!
اسلام دشمن این جی اوز آئے دن واویلا کرتی رہتی ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی جارہی ہے۔ اقلیتوں پرمبینہ ظلم و ستم کی بڑی الم انگیز رپورٹیں تیار کرکے امریکہ اور یورپ بھجوائی جاتی ہیں۔ امریکی وزارت خارجہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر یورپی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے حکومت پاکستان پر مسلسل تنقید کی جاتی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام رہی ہے۔
پاکستان میں متعصب قادیانی، عیسائی اور سیکولر دانشور اقلیتوں کا ذکر ایسے کرتے ہیں جیسے انہیں یہاں زندہ رہنے کا حق تک میسر نہیں ہے۔ یہودی لابیوں کے تنخواہ دار یہ 'دانشور' مسلسل پاکستان اور مسلمانوں کوبدنام کر رہے ہیں کہ وہ اقلیتوں کو ان کے مذہبی حقوق نہیں دیتے۔ یہ شرانگیز پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ مسلم اکثریت اقلیتوں کونہ تو ان کے عقیدے کے مطابق مذہبی رسومات کی ادائیگی کی اجازت دیتی ہے نہ ہی انہیں اپنے عبادت خانوں میں آزادانہ عبادت کے حقوق میسر ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی تمام سالانہ رپورٹوں اور اس ادارے کے ماہانہ پرچے 'جہد حق' میں قادیانی اور عیسائی اقلیت پر ظلم و ستم کی مبالغہ آمیز رپورٹیں تسلسل کے ساتھ شائع ہوتی ہیں۔عیسائیوں کی زیر ادارت نکلنے والے رسالوں 'شاداب' ، کلامِ حق'، 'المکاشفہ' وغیرہ میں عیسائی اقلیت کی زبوں حالی کے من گھڑت واقعات شائع کرکے عیسائی اقلیت کو احتجاج پر اُبھارا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ سے روزنامہ 'پاکستان' میں اقلیتوں کے لئے کنول نصیر کی اِدارت میں الگ سے ایک ہفتہ وار ایڈیشن چھپ رہا ہے، اس کا مطالعہ کرنے سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں عیسائی اقلیت کا ناطقہ بند کردیا گیاہے، انہیں کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔
قارئین کرام! ذرا پادری ولیم مسیح کے مذکورہ بالا اشتہار کے لب و لہجے اور گستاخانہ کلمات کا موازنہ این جی اوز کی رپورٹوں سے کیجئے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کسی استدلال کے طومار کی ضرورت نہیں ہے کہ این جی اوز کی رپورٹیں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ جس ملک کا ایک معمولی پادری مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے پیغمبر کے خلاف اس قدر آزادانہ اور بے باکانہ زبان درازی میں کسی قسم کا خوف محسوس نہ کرتا ہو، اس اقلیت کو اپنے مذہب کے مطابق عبادات سے آخر کیونکر روکا جاسکتا ہے۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاے کرام قابل احترام ہیں۔ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی سچا نبی سمجھتے ہیں۔ لیکن ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت محمدﷺ انبیا کے سلسلہ کی آخری کڑی ہیں، ان کی تشریف آوری کے بعد سابقہ انبیاے کرام کی شریعتیں منسوخ ہوگئی ہیں۔ اب الہامی تعلیمات پر اگر کوئی عمل کرنا چاہتا ہے تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی کی شریعت پر ایمان لائے۔ مسلمان غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینا نیک عمل سمجھتے ہیں، مگر وہ اس مقصد کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا کسی اور نبی کی تحقیر و تضحیک اور تخفیف کو حد درجہ قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔ حتی کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے
"تم مجھے دیگر انبیاء پر فضیلت نہ دو...مجھے حضرت موسیٰ پر فضیلت نہ دو " وغیرہ (متفق علیہ)
مگر پادری ولیم مسیح نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے 'دعوت' کا جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ ایک ناپاک جسارت ہے اور ۲۹۵۔سی کے قانون کے مطابق توہین ر سالت کے زمرے میں آتی ہے۔ پاکستان میں ۲۹۵۔ سی کے مخالفین یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اس قانون کے تحت ۹۹ فیصد مقدمات غلط درج کرائے جاتے ہیں، اس کے پس پشت محرکات ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، اکثر مسلمان عیسائیوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے لئے اس طرح کے بے بنیاد مقدمات درج کراتے ہیں وغیرہ۔ ۲۹۵ سی کے قانون کے خلاف چیخ و پکار کرنے والی حقائق ناآشنا این جی اوز پادری ولیم مسیح کی اس جسارت کے متعلق سکوت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دیگر این جی اوز کو فی الحال ہم ایک طرف رکھتے ہیں، انسانی حقوق کمیشن پاکستان جو پاکستان میں این جی اوز کے نیٹ ورک کے لئے 'کوآرڈی نیٹر' کاکام کررہا ہے، ہم کمیشن کے چیئرمین افراسیاب خٹک سے دریافت کرتے ہیں :
1۔ کیا ولیم مسیح پادری کی طرف سے جاری کردہ مذکورہ بالااشتہار کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی نہیں ہے؟
2۔ کیا اس اشتہار سے کروڑوں مسلمانوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ارتکاب نہیں کیا گیا؟
3۔ اگر یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ، تو کیا انسانی حقوق کمیشن نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے؟ اگر پہلے نہیں کیا، تو اب نشاندہی پر وہ کیا اس مکروہ فعل کی مذمت کریں گے؟
4۔ اگر ولیم مسیح پادری کے توہین آمیز اشتہار پر اس کے خلاف قانونِ توہین رسالت کے تحت مقدمہ درج کرایا جائے، تو کیا ا س پر کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش ہوسکتی ہے؟
5۔ کیا پاکستان کی اقلیتوں کو اس قدر آزادی دی جاسکتی ہے کہ وہ مسلم اکثریت کے خلاف اس طرح کی اشتعال انگیز کارروائی کی جسارت کرتی پھریں؟
6۔ کیا انسانی حقوق کمیشن صرف اس وقت حرکت میں آتا ہے، جب کسی اقلیت کے حقوق کی پامالی کا خدشہ ہو، کیا مسلمانوں کے انسانی حقوق کی حفاظت اور وکالت اس کمیشن کے دائرہ کار سے باہر ہے؟
7۔ اگر کمیشن کے دائرہ کار میں مسلمانوں کے حقوق شامل نہیں ہیں، تو اس کمیشن کا نام اقلیتی حقوق کمیشن کیوں نہیں رکھا جاتا؟
8۔ اگر کسی مسلمان کی طرف سے عیسائیوں کو مسلمان بنانے کے لئے اس طرح کے اشتہار کے ذریعے دعوت دی جاتی تو کیا انسانی حقوق کمیشن اس طرح سکوت اختیار کرتا؟
قارئین کرام! ہم ابھی سے پیشین گوئی کرتے ہیں کہ این جی اوز اور انسانی حقوق کمیشن کے محققین اس واقعہ کی 'تحقیق' فرمانے کے بعد اس کی ذمہ داری بھی مسلمانوں پر ڈالیں گے اور پادری صاحب کے "اظہارِ رائے کی آزادی کے تحفظ' کے لئے اپنا بھرپور تعاون پیش کریں گے۔
بعض افراد یہ کہہ کر ولیم مسیح پادری کا دفاع کرسکتے ہیں کہ اس نے یہ گستاخانہ کلمات بعض مسلمان علماء کی کتابوں سے نقل کئے ہیں۔ وہ یہ سوچنے کی زحمت ہرگز گوارا نہیں کریں گے کہ یہ اقتباسات سیاق وسباق کے بغیر نقل کئے گئے ہیں او ریہ کہ ان علما پر یہ صریحاً بہتان تراشی ہے کہ انہوں نے یہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مثلاً اشتہار میں مولانا اشرف علی تھانوی کا نامِ گرامی بھی لکھا گیاہے مگر ان کی کسی تصنیف کاکوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ مولانا تھانوی کی تصانیف، ان کے عقائد اور حب ِرسول کے متعلق معمولی سا علم رکھنے والا شخص ولیم پادری کی ان سے منسوب اس طرح کی کسی بھی بات کو جھوٹ اور افترا پردازی ہی قرار دے گا۔ اسی طرح 'تقویة الایمان' سے بھی ایک آدھ جملہ جو نقل کیا گیا ہے، مصنف کے پیش نظر اس کا وہ مفہوم ہرگز نہیں تھا جو افترا پرداز پادری نے سمجھا ہے یا دوسروں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
علم غیب کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف علما کی جانب سے قرآن و حدیث کی روشنی میں مختلف تعبیرات پیش کی گئی ہیں۔ موحد علما کا ایک گروہ علم غیب کو اللہ تعالیٰ سے ہی مخصوص قرار دیتا ہے، اس میں کسی مخلوق کی شراکت کو وہ شرک قرار دیتا ہے۔ جب کہ پاکستان کے علما بالخصو ص بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے حضورِ اکرمﷺ کی ذات میں علم غیب کے ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں، مگر وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ نبی اکرم کو یہ علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی دیا گیا تھا، ان کا اپنا نہیں تھا۔ گویا حقیقی عالم غیب اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اس موضوع پر 'تقویة الایمان' میں مفصل بحث ملتی ہے۔ مسیحی پادری کا علمی درجہ اس قدر نہیں ہے کہ وہ ان دقیق بحثوں کو سمجھ پاتا، البتہ اپنے خبث ِباطن کے اظہار کے لئے اس نے ایک آدھ جملہ یا چند الفاظ عبارت سے الگ کرکے اپنے واہیات دعویٰ کی تائید میں پیش کردیئے ہیں۔
پادری ولیم مسیح نے جو منطق، استدلال، عقلیات جیسی علمی صلاحیتوں سے بے بہرہ لگتا ہے، اپنے تئیں چند الفاظ نقل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام "ہرپوشیدہ بات کا علم رکھتے تھے مگر مسلمانوں کے پیغمبر کے پاس ہر پوشیدہ با ت کا علم نہیں تھا۔" نہیں معلوم، اس کوتاہ فکر نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ کا بغور مطالعہ کیا بھی ہے یا نہیں۔ اگر وہ ان کی سیرت کے متعلق واجبی علم بھی رکھتا تو یہ لغو دعویٰ کبھی نہ کرتا۔ کیا اسے اتنا بھی معلوم نہیں ہے کہ اگر حضرت عیسیٰعلیہ السلام "ہربات کا پوشیدہ علم رکھتے" تو انہیں یہودیوں کی اپنے خلاف سازش کا بروقت علم ہوجاتا۔ انہیں تو آخر وقت تک معلوم نہ تھا کہ یہودی انہیں مصلوب کرنے کے ناپاک عزائم بھی رکھتے ہیں!!
سیالکوٹ کا پاکستانی عیسائیوں کے لئے وہی مقام ہے ، جو چناب نگر (ربوہ) کا قادیانیوں کے لئے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل ربوہ کا سیالکوٹ سے گہرا تعلق ہے۔ جھوٹی نبوت کے داعی مرزا غلام احمد کی اُٹھان سیالکوٹ شہر سے ہوئی تھی، وہ ۱۸۶۴ء سے لے کر ۱۸۶۸ء تک سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر آفس میں بطورِ کلرک ملازمت کرتا رہا تھا۔ یہیں سب سے پہلے اس کی ملاقات مسیحی پادریوں سے ہوئی تھی۔ سیالکوٹ شروع ہی سے عیسائی مشنریوں کی سرگرمیوں کا اہم مرکز رہا ہے۔ یہ لاہور سے بھی بڑا مسیحی مرکز رہا ہے۔ ضلع سیالکوٹ میں عیسائیوں اور قادیانیوں کی اچھی خاصی تعداد اب بھی موجود ہے جو آئے روز فتنہ برپا کرتی رہتی ہے۔
گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے درمیان ایک پٹی ہے۔ جہاں عیسائی مشنری 'تاکستان' کے نام سے اپنی سٹیٹ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ کئی صحافیوں نے اپنے کالموں میں عیسائیوں کے اس خفیہ ناپاک منصوبے کی نشاندہی کی ہے۔ 'تاک' بائبل میں مقدس انگور کو کہتے ہیں، تاکستان کا نام اسی حوالہ سے ہے۔ یہ علاقہ عیسائی مشنریوں کی سرگرمیوں کا گڑھ ہے جہاں وہ سادہ لوح مسلمانوں کو عیسائی بنانے کا ہر فریب انگیز حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ جہاں ترقی اور مادّی سہولیات کا لالچ دے کر غریب دیہاتیوں کوان کے دین سے منحرف کر رہے ہیں۔ راقم الحروف کو ایک سی ایس پی آفیسر نے بتایا ، جو ضلع سیالکوٹ کے چار سال ڈپٹی کمشنر رہے ہیں کہ ایک دفعہ عیسائیوں کا ایک گروہ ان سے ملنے آیا، انہوں نے درخواست پیش کی کہ انہیں ضلع سیالکوٹ کے فلاں فلاں گاؤں میں 'ترقیاتی' کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو اجازت دے دی، البتہ ایجنسیوں کو حکم دیا کہ ان کی سرگرمیوں کو نگاہ میں رکھیں۔
ایجنسیوں نے جو رپورٹ دی اس کے مطابق عیسائی مشنریوں کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے وہ ایک خاص گاؤں منتخب کرتے ہیں۔ شروع کے مرحلے میں اس گاؤں کی صفائی کرتے ہیں اور نالیوں کو پختہ بناتے ہیں۔ کوڑاکرکٹ جمع کرنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد اس گاؤں میں ہیلتھ ڈسپنسری قائم کرکے وہاں کے باشندوں کا مفت علاج کرنا شروع کردیتے ہیں۔ کچھ ہفتوں بعد وہاں سکول قائم کرتے ہیں۔ وہاں کے غریب والدین کے بچوں کی مفت تعلیم کے ساتھ ساتھ، ان کے لباس اور خوراک وغیرہ کا بندوبست بھی کرتے ہیں۔ اس دوران خفیہ غیرمحسوس طریقے سے لوگوں کو عیسائیت کی طرف مائل کرتے رہتے ہیں۔ وہ لوگوں کوکہتے ہیں کہ دیکھیں جی! ہم مسلمان نہیں ہیں لیکن ہمیں آپ کا کس قدر خیال ہے، ہم آپ کی یہ امداد اس لئے کر رہے ہیں کیونکہ ہمارے مذہب کا ہمیں حکم ہے۔
ڈسپنسری کے ذریعے شعبدہ بازی کی جاتی ہے۔ پہلے دن آنے والے مریضوں کو بوتلوں میں پانی بھر کر دیا جاتا ہے یا ایسی دوائی دی جاتی ہے جس کا اُلٹا اثر پڑتا ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ یہ دوائی استعمال کرتے ہوئے بار بار اپنے نبی محمدﷺ کا ذکر بھی ضرور کریں۔ دو تین دن کے بعد جب وہ مریض واپس آتے ہیں تو وہ شکایت کرتے ہیں کہ مرض بدستور باقی ہے یا مزید بڑھ گیا ہے تو انہیں دوائی بدل کر دی جاتی ہے۔ او رانہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ دوائی کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر بھی کرتے رہیں۔ کچھ دنوں بعدوہ سادہ لوح آکر بتاتے ہیں کہ اس طرح دوائی استعما ل کرنے سے وہ ٹھیک ہوگئے ہیں تو عیسائی پادری انہیں کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام میں اس قدر برکت ہے، تو ان کامذہب اختیا رکرنے میں کس قدر فائدہ ہوگا، اس کا آپ خود ہی اندازہ لگالیں۔ بہرحال جب ۲۰ کے قریب لوگ عیسائی بن جاتے ہیں تو اس بستی میں چرچ قائم کردیا جاتا ہے۔2
مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی سیالکوٹ میں عیسائی پادری کی جانب سے یہ پہلی واردات نہیں ہے۔ ایسی مکروہ سرگرمیاں تسلسل سے سامنے آتی رہتی ہیں۔ آج سے چندماہ قبل سیالکوٹ کے ایک گاؤں میں چند اوباش عیسائی نوجوانوں نے ایک مسلمان لڑکی کو اغوا کیا، اس کو مسلسل ایک ہفتہ تک 'ریپ' کانشانہ بناتے رہے۔ اخبارات میں اس کے متعلق خبر شائع ہوئی تو ہم نے اخباری تراشہ عاصمہ جہانگیر کو اس درخواست کے ساتھ ارسال کیا کہ انسانی حقوق کمیشن اس مظلوم مسلمان لڑکی کے حقوق کے لئے جدوجہد کرے اور اس واقعہ کی خبر اپنے رسالہ 'جہد ِحق' میں شائع کرے، مگر اس پر کوئی قدم نہ اٹھایا گیا۔ Marital Rape کے لئے عمر قیدکی سزا تجویز کرنے والی حقوقِ نسواں کی یہ نام نہاد علمبردار ایک حقیقی ریپ شدہ مسلمان لڑکی کو انصاف دلانے کے لیے کوئی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہے!!
تعزیراتِ پاکستان کی روسے کوئی ایسا لٹریچر شائع کرنا سنگین جرم ہے جس میں کسی قسم کا فرقہ وارانہ مواد پایا جاتا ہو یا اور اس سے کوئی فرقے کی دل آزاری ہوتی ہو۔ ۲۹۵سی کے مطابق گستاخِ رسول کی سزا موت ہے ۔ حکومت آئے دن قابل اعتراض مواد کی اشاعت پر مقدمے درج کرتی رہتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گستاخِ رسول پادری مسیح کی طرف سے توہین رسالت پر مبنی مذکورہ بالا اشتہار حکومت پنجاب کے نوٹس میں نہیں ہے ؟ اگر ایسا ہے تو تسلیم کرلینا چاہیے کہ حکومتی ایجنسیاں اپنے فرائض کی بجا آوری میں غفلت سے کام لے رہی ہیں۔کیا یہ ضروری ہے کہ حکومت اس وقت کاروائی کرے جب لوگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں یا کسی گستاخِ رسول کو خود ہی سزا دے دیں۔سیالکوٹ کے ڈپٹی کمشنر صاحب جو اپنے ضلع میں قانون کی عملداری کے ذمہ دارہیں اور اس طرح کے قابل اعتراض مواد کو فوری ضبط کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے، کیا وہ اب تک اس واقعہ سے بے خبر ہیں ؟ کیا وہ انتظار کر رہے ہیں کہ اس گستاخانہ جسارت پر مشتعل ہو کر مسلمانوں کا کوئی گروہ ان کے دفتر کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کرے تو وہ کوئی قدم اٹھائیں گے...!!
اگر حکومت بوجوہ ایک گستاخِ رسول پادری کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کرنے میں کسی قسم کے تامل کا شکار ہے ، تو سیالکوٹ میں موجود دینی جماعتوں کے راہنما بے عملی کاشکار کیوں ہیں۔ انہوں نے اب تک توہین رسالت کے اس واقعے کا نوٹس کیوں نہیں لیا؟ درخواست گزار خاتون نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ اس اشتہارسے کافی لوگ متاثر ہو کر گمراہ ہو رہے ہیں۔ کیا علماے دین اپنے ہم مذہب مسلمانوں کے عیسائی بننے کا یونہی خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہیں گے؟ کیا سیالکوٹ میں عیسائی پادریوں کی توہین رسالت پر مبنی ذلیل حرکتیں یونہی جاری رہیں گی؟... حکومت اور مسلمانوں کے لئے مقام فکر ہے !!
نوٹ
1. یہ اشتہار ماہنامہ المذہب کے مئی2001 کے شمارے میں شائع ہوا ہے جسے ایک مسلمان خاتون نے بھجوایا تھا۔
2. عیسائی مشنریوں کے تبلیغی ہتھکنڈے کے تفصلی مطالعہ کے لیے اسی شمارے میں مطبوعہ مضمون دیکھیں