نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور نماز میں سجدہ قرآنی کی دعا
٭نمازِ جنازہ میں سورۂ فاتحہ کی قرا ء ت پر اعتراضات کا جائزہ
٭سجدۂ قرآن اور نماز میں سجدئہ قرآنی کی دعا، مسئلہ وراثت
ماہنامہ 'محدث' اور ہفت روزہ 'الاعتصام' موٴرخہ ۱۵/ دسمبر ۲۰۰۰ء میں جنازہ کے بعد مروّجہ دعا کے سلسلہ میں حنفی، بریلوی فتویٰ کے تعاقب میں میرا ایک فتویٰ شائع ہوا۔ اس میں ضمناً جنازہ میں سورہٴ فاتحہ کی قرأت کامسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ اس پر اسلام آباد سے محترم ابوبکر صدیق صاحب بایں الفاظ معترض ہیں:
"بخاری میں اس سلسلہ کی کوئی مسند روایت کہاں ہے؟ اس بات کے ضعف کا آپ کو اندازہ تھا، اس لئے گول مول الفاظ استعمال کرکے قارئین کو یہ تاثر دیا گیا گویا بخاری میں کوئی مرفوع حدیث اس سلسلہ میں موجود ہے۔ اگر اس باب میں مرفوع حدیث ہوتی تو بحوالہ ابن حجر حضرت ابوہریرة اور ابن عمررضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ قراء تِ فاتحہ کیوں نہ کرتے؟"
قارئین کرام! اس وقت بنیادی طور پر اس بات کا جائزہ لینا مقصود ہے کہ کیا نمازِ جنازہ میں قراء ة فاتحہ ثابت ہے یا نہیں؟
(۱) پہلے صحیح بخاری میں باب قراء ة فاتحة الکتاب علی الجنازة کے تحت مشارالیہ حدیث ملاحظہ فرمائیں۔حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ
"انہوں نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی، جس میں سورة فاتحہ پڑھی اور فرمایا (میں نے فاتحہ اس لئے پڑھی ہے ) تاکہ تم جان لو کہ جنازہ میں سورہٴ فاتحہ پڑھنا سنت ہے"... اور حاکم کی روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباس نے ایک جنازہ میں الحمد جہر سے پڑھی، پھر فرمایا: میں نے جہر سے اس لئے پڑھا ہے تاکہ تم لوگوں کومعلوم ہوجائے کہ جنازہ میں الحمد پڑھنا سنت ہے۔"
(۲) اور حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ نمازِ جنازہ میں سنت یہ ہے کہ نمازی سورہٴ فاتحہ پڑھے اور رسول اللہﷺ پر درود بھیجے، پھر میت کے واسطے اِخلاص کے ساتھ دعا کرے اور قراء ت صرف ایک ہی مرتبہ کرے، پھر سلام پھیرے۔ ملاحظہ ہو کتاب فضل الصلاة علی النبیﷺ اور المنتقی ابن جارود۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیحین کے روای ہے کذا فی النیل۔
(۳) امام عبدالرزاق اور نسائی رحمہما اللہ نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ "نمازِ جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ نمازی اللہ اکبر کہے پھر سورہٴ فاتحہ پڑھے۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے۔ پھر میت کے لئے اِخلاص کے ساتھ دعا کرے اور قراء ت صرف پہلی تکبیر میں کرے"۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ إسنادہ صحیح "اس کی سند صحیح ہے"۔
(۴) سنن ترمذی میں مروی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک جنازہ پڑھایا تو فاتحہ پڑھی۔ طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا «إنه من السنة أو من تمام السنة» کہ نمازِ جنازہ میں فاتحہ سنت ہے، یا اس سے سنت کی تکمیل ہوتی ہے۔"
پھر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جنازہ کو نماز سے موسوم کیا گیا ہے جس کی دلیل نبی اکرم ﷺ کے یہ فرامین ہیں: «من صلی علی الجنازة..." ،"صلوا علی صاحبکم"، "صلوا علی النجاشی» اِمام بخار ی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "رسول اللہ ﷺ نے اسے نماز کہا ہے حالانکہ اس میں رکوع ہے نہ سجود، اس میں کلام نہ کرے اور اس میں تکبیر اور تسلیم ہے۔"
پھر یاد رہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث «لا صلاة لمن لم یقرأ بفاتحة الکتاب» کا عموم نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے۔
اس بحث میں جواہم شے قابل التفات ہے، وہ یہ ہے کہ صحابی کا کسی فعل یا عمل کو سنت قرار دینے سے کیا وہ واقعی سنت ِنبوی قرار پائے گا؟ اس سے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وأصحاب النبي لا يقولون بالسنة والحق إلا لسنة رسول اللهﷺ، إن شاء الله»
" نبی اکرم ﷺکے صحابہ کرام سنت اور حق کا اطلاق صرف سنت رسول ﷺ کیلئے ہی کرتے تھے "
اور امام نووی نے المجموع(۵/۲۲۴) میں اسی کو صحیح مذہب قرار دیا اور کہا ہے کہ اصول میں ہمارے اصحاب میں سے جمہور علماء اور دیگر اُصولی اور محدثین اسی بات کے قائل ہیں۔ محقق علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ حنفی نے التحریر میں اسی بات کو قطعی قرار دیا ہے ۔ اس کے شارح ابن امیر حاج کہتے ہیں: ہمارے متقدمین اصحاب کا یہی قول ہے۔ صاحب ِمیزان، رافع اور جمہور محدثین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔(۲/۲۲۴)
پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ اثباتِ سنت کے باوجود حنفیہ کا اس صحیح حدیث پر عمل نہیں حالانکہ ان کے اصول کے مطابق ہے۔ موطأ امام محمد میں ہے:«لاقراء ة علی الجنازة وهو قول أبي حنيفة» جنازہ میں عدمِ قراء ت ہے او رامام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ متاخرین حنفیہ نے جب بنظر غائر اسی کو صحیح پایا اور صحیح حدیث کے مقابلہ میں اپنے مسلک کو مرجوح دیکھا تو اس کی تاویل انہوں نے اس طرح کی کہ فاتحہ کی قراء ت کا جواز تو ہے بشرطیکہ نمازی دعا اور ثنا کی نیت کرے۔ یہ محض اس زعم کی بنا پر ہے کہ حدیث اور قولِ امام میں تطبیق ہوسکے۔ گویا کہ امام صاحب کا قول دوسری ایک حدیث ہے حالانکہ یہ شرط(تاویل) فی نفسہ باطل ہے۔ جب ایک حدیث ثابت ہے تو پھر عمل اسی پر ہونا چاہئے۔
دوسری عجیب بات یہ ہے کہ حنفیہ کے ہاں تکبیر اولیٰ کے بعد نمازِ جنازہ میں ثنا پڑھنا جنازہ کی سنتوں میں شمار ہوتا ہے حالانکہ سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ جو شے ثابت ہے، احناف اس کا انکار کرتے ہیں اور جو ثابت نہیں، اس کے اثبات کی ناکام سعی کرتے ہیں تلک إذا قسمة ضیزی! علامہ ابن ہمام فتح القدیر (۱/۴۵۹) میں لکھتے ہیں کہ
"جنازہ میں فاتحہ نہ پڑھی جائے اِلا یہ کہ ثنا کی نیت ہو، قراء ت رسول اللہ ﷺسے ثابت نہیں۔"
عجب تضاد ہے، خود ہی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ صحابی کا قولِ 'سنت' مسند مرفوع کے حکم میں ہے جس کانبی ﷺ تک اتصال ہوتا ہے جیسا کہ ابھی گزراہے پھر خود ہی اس قاعدہ کو مقامِ بحث میں ترک کردیا ہے۔
نیز ہدایہ میں ہے کہ میت کی چارپائی اُٹھاتے ہوئے چاروں اَطراف سے پکڑا جائے۔ سنت میں اسی طرح آیا ہے۔ علامہ ابن ہمام نے اس پر دلیل یہ قائم کی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو جنازہ کے پیچھے لگا، اسے چاہئے کہ سب طرفوں سے پکڑے «فإنه من السنة ، فوجب الحکم بأن هذا هو السنة» "سنت طریقہ یہی ہے (ابن ماجہ، بیہقی) یعنی اس طریقہ کار کو اختیار کرنا ہی سنت ہے۔ "
غور فرمائیے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول من السنة کو یہاں مرفوع کے حکم میں قرار دیا ہے جبکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول إنھا سنة سے عدمِ اعتناء کا مظاہرہ کیا ہے۔ اسے مذہبی تعصب کے علاوہ او رکیا نام دیا جاسکتا ہے؟ جبکہ اثر ابن مسعود رضی اللہ عنہ منقطع ہے اور ابن عباس کا اثر صحیح بخاری وغیرہ میں۔
محترم! اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے کہ اتنے بڑے محقق کی بات پر تعجب کا اظہار نہ کیا جائے تو اور کیا جائے؟ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ قلم سے بعض سخت جملے صادر ہوئے۔ عافانی اللہ۔ لیکن بنظر انصاف حقائق تک رسائی حاصل کرنا سب کا فرض ہے۔ حنفی علماء میں علامہ عبدالحئ لکھنوی رحمہ اللہ کافی حد تک انصاف پسند گزرے ہیں۔ عمدة الرعایہ (۱/۲۵۳) میں انہوں نے جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے مسلک کو دلیل کے اعتبار سے قوی قرار دیا ہے اور موطا ٴامام محمد کے حاشیہ میں رقم طراز ہیں کہ
"فاتحہ پڑھنا ہی اولیٰ ہے کیونکہ یہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔ "
بلکہ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ متاخرین علماءِ احناف نے جو جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے تو علامہ حسن الشرن بلالی نے اس کی تردید میں ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے: النظم المستطاب بحکم القراء ة في صلاة الجنازة بأم الکتاب (التعلیق الممجد: ص۱۶۵)
اور جن علماءِ احناف نے فاتحہ پڑھنے کی تاویل یوں کی ہے کہ بطورِ ثنا فاتحہ پڑھی جائے، ان کی تردید میں مولانا لکھنوی فرماتے ہیں کہ اگر اس قسم کی تاویلات کا دروازہ کھول دیا جائے تو بہت سی مسنون قراء ات بھی ختم ہو کر رہ جائیں گی۔ پھر یہ دعویٰ فی نفسہ باطل ہے کیونکہ نیت کا تعلق توباطن سے ہے جس پر نیت کرنے والے کے بتلائے بغیر مطلع ہونا ممکن نہیں۔ (غیث الغمام: ص۳۱۸)
دوسری طرف حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ او رابن عمر رضی اللہ عنہ بلاشبہ جلیل القدر صحابہ ہیں۔ لیکن مسند روایات کے مقابلہ میں ان کے اَقوال کو اختیار کرنا دن کی روشنی میں چراغ جلانے کے مترادف ہے۔ ویسے بھی صحابہ کرام کئی طرح سے عنداللہ معذور ہیں لیکن واضح دلائل ثابت ہونے کے بعد ہمارے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا۔
تعجب خیز بات یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ جن پر فقہ حنفی کا انحصار ہے، وہ بھی جنازہ میں سورہٴ فاتحہ پڑھنے کے قائل ہیں۔ان کے قول پر تو عمل نہیں کرتے دوسری طرف احناف حضرت ابوہریرہ کو تو غیرفقیہ قرار دیتے ہیں (جیسا کہ نور الانوار میں ہے) اس کے باوجود جنازہ میں فاتحہ پڑھنے کے سلسلہ میں ان کی بات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کا 'غیر فقیہ' ہونا انہیں نظر نہیں آتا۔ احناف کے ہاں ان دو صحابہ کی اگر اتنی ہی عظمت ہوتی جتنی ظاہر کر رہے ہیں تو وہ انکی روایات کو کبھی ردّ نہ کرتے حالانکہ واقعات اس کے خلاف ہیں۔ حدیث المصراة، حدیث التسبیع اور أحادیث رفع الیدین وغیرہ اس امر کے واضح شواہد ہیں۔
احناف کی نماز جنازہ کو' جھٹکا' سے تعبیر کرنا اگرچہ کسی حد تک سخت جملہ ہے لیکن امر واقعہ یہی ہے کہ نمازِ جنازہ میں یہ طرزِعمل جہاں خلافِ سنت ہے وہاں میت سے عدم اعتنائی کا مظہر بھی ہے۔
اب آخری بات یہ ہے کہ میرا تعاقب چونکہ ایک خاص مکتب ِفکر کے حاملین سے متعلق تھا۔ ظاہر ہے اس کے حقیقی مخاطب وہ لوگ ہیں جو اس بدعت کے موجد ہیں نہ کہ جملہ اَحناف، اگرچہ فقہی مسلک میں دیوبندی اور بریلوی سب متفق ہیں۔مجھے قوی اُمید ہے کہ یہ چند گزارشات آپ کی تشفی کے لئے کافی ہوں گی۔ اللہ ربّ العزت ہم سب کو صراط ِ مستقیم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین!
سوال:1۔عملی زندگی میں فقہ حنفی پر عامل میاں بیوی جب حنفی طلاق سے متاثر ہوجائیں تو حلالہ کی لعنت سے بچنے کے لئے مجبورا ً کسی اہلحدیث سے فتویٰ حاصل کرکے اپنی مطلب براری کرلیتے ہیں اور اپنے عقیدہ یا عمل میں کوئی تبدیلی کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ یہ رجوع شریعت کی نظر میں کیسا ہے؟
2۔ کچھ لوگ ایسے معروف ہوتے ہیں کہ سیاسی، سماجی حیثیت میں بہت مقبول ہوتے ہیں۔ ہر مسلک کے لوگوں سے ان کے تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ ان کا کوئی عزیز فوت جائے تو بلاتمیز مسلک و عقیدہ لوگ اس جنازہ میں صرف تعلقات نبھانے کی خاطر چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کے جنازہ میں اہل علم و شعور کو شامل ہونا چاہئے یا نہیں؟
3۔ رکوع میں تسبیحاتِ مسنونہ کے علاوہ کوئی دوسری دعا مانگ لینا کیسا ہے، سجدہ میں قرآنی دعا مانگے یا نہ؟
4۔ نماز میں سجدئہ تلاوت آجائے تو کتنے سجدے کرنے ہیں۔ مسنونہ دعا کے علاوہ کوئی دوسری دعا مانگ لینے کا کوئی حرج تو نہیں۔ امام اپنی ضرورت کی کوئی دعافرض نماز کے سجدہ میں مانگے تو خیانت تو نہیں بن جائے گی؟
5۔ دایاں ہاتھ لکھنے میں مصروف ہو، وقت کی تنگی ہو ، کوئی گرم مشروب مثلاً چائے وغیرہ بھی پینی ہو تو کیا یہ امر مجبوری بائیں ہاتھ سے مدد لی جاسکتی ہے؟
6۔ ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ کھجور کو سالم ہی منہ میں ڈال لو، توڑ کر نہ کھاؤ ...یہ مسئلہ کیسا ہے؟
7۔ دائمی مسافر قرآنِ کریم کو اپنی جیب میں رکھ سکتا ہے لیکن اگرسفر میں پیشاب وغیرہ کی حاجت پیش آجائے اور جیب سے نکال کر رکھنے کی کوئی صورت نہ ہو تو پھر کیا کرے یا اضطرار میں جیب سے نکالنا یاد ہی نہ رہے؟
8۔ دو آدمی باجماعت نماز پڑھ رہے ہیں اور تشہد میں بیٹھے ہیں۔ ان کے ساتھ تیسرا آدمی جماعت میں شامل ہونا چاہئے تو وہ کس طرح شامل ہو، کیا تشہد میں بیٹھے ہوؤں میں سے کسی کو اٹھائے؟
9۔ قنوتِ نازلہ اگر قیام میں بھول جائے تو کیا تشہد میں پڑھ لی جائے؟
10۔ عورت کو مہندی کس طرح لگانی چاہئے، پورا ہاتھ رنگ لے یا پھول بوٹے بنائے۔ علامہ وحیدالرزمان نے لغاتِ حدیث کی کتاب 'د' ص۶۴ پرام المومنین زینب رضی اللہ عنہا سے ایک قول نقل کیا ہے۔ صحیح صورت حال واضح کریں؟
11۔ گھنی داڑھی والے کو خلال کس طرح کرنا چاہئے جب کہ جلد تک پانی پہنچانا مشکل امر معلوم ہو؟
12۔ آدمی نماز میں سورہٴ فاتحہ پڑھنے کے بعدبھول گیا ، سمجھاکہ ابھی نہیں پڑھی اور د وبارہ پڑھتے ہوئے یاد آجائے کہ میں نے تو پہلے بھی پڑھ لی تھی۔ کیا اب بعد والی فاتحہ قرات کو کفایت کرجائے گی؟ (عبدالرزاق اختر،رحیم یار خان)
جواب : 1۔ اس قسم کے لوگوں سے کتاب و سنت پر مضبوطی سے عمل کرنے کا عہد لے کر پھر ہی فتویٰ دینا چاہئے۔ بہر حال دل کے بھیدوں کو جاننے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
2۔ أمر بالمعروف والنہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرے تو شرکت میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ بذاتِ خود ان کے شرکیہ امور اور بدعات سے اجتناب کرے۔ اگر دینی فرض ادا نہیں کرسکتا تو پھر شریک نہیں ہونا چاہئے۔
3۔ رکوع اور سجود میں منصوص دعائیں ، تسبیحات وغیرہ ہی پڑھنی چاہئیں۔
4۔ سجدۂ تلاوت صرف ایک ہے، صرف مسنون دعا ہی پڑھنی چاہئے، جس کے اَلفاظ یوں ہیں:
«اَللّٰهُمَّ اکْتُبْ لِیْ بِهَا عِنْدَکَ أَجْرًا وَضَعْ عَنْهُ بِهَا وِزْرًا وَاجْعَلْهَا عِنَدَکَ زُخْرًا وَتَقَبَّلْهَا مِنَّی وَ کَمَا تَقَبَّلْتَهَا مِنْ عَبْدِکَ» ( ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ) روایت ہذا شواہد کی بنا پر حسن درجہ کی ہے۔اور دوسری دعا سجدوجھی للذی خلقہ اس کا سجدئہ نماز میں پڑھنا تو ثابت ہے مگر سجدئہ قرآن میں پڑھنا بسند صحیح ثابت نہیں۔ صرف مسنون دعا پر اکتفا کرنا چاہئے۔ امام سجدہ میں صرف مسنون دعا کرے گا، اضافہ نہیں کرنا چاہئے۔ البتہ بحالت ِتشہد اختیار ہے کہ نمازی دین و دنیا کی بہتری کی جو دعائیں چاہے، کرسکتا ہے۔
5۔ اچھے کاموں کے لئے اصل صرف دایاں ہاتھ ہے ہاں البتہ معاونت کی ضرورت ہو تو بائیں ہاتھ کو بھی ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن اکیلے بائیں ہاتھ کو استعمال کرنا درست نہیں۔ الایہ کہ شدید اضطراری حالت ہو۔مگر آپ کی ذکر کردہ کیفیت کو حالت ِاضطراری قرار نہیں دیا جاسکتا۔
6۔ ایسا کوئی مسئلہ نہیں، حسب ِحاجت آدھی کھجور کھا سکتا ہے، چاہے سالم کھائے یا توڑ کر۔
7۔ حسب المقدور بحالت ِسفر قرآن جیب سے نکال کر قضاء حاجت کے لئے جانا چاہئے، اضطراری حالت میں جیب وغیرہ میں بھی چھپایا جاسکتاہے۔
8۔ تیسرا آدمی بحالت ِتشہد امام کے بائیں طرف آکر بیٹھ جائے، کسی کو اُٹھائے مت۔
9۔ قنوتِ نازلہ کا محل رکوع کے بعد ہے اور تشہد میں بھی دعائیں پڑھی جاسکتیں ہیں۔
10۔ ہر دو صورت میں عورت کو مہندی لگانے کا اختیار ہے۔ اُمّ الموٴمنین زینب رضی اللہ عنہا کا قول اس وقت میرے سامنے نہیں۔
11۔ داڑھی کے بال میں اُنگلیوں کو داخل کرکے خوب خلال کرنا چاہئے ، جڑوں تک ضرور پانی پہنچانا چاہئے، سخت تاکید ہے۔
12۔ ایسی صورت میں فاتحہ دوبارہ مکمل کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اللہ دتہ نے اپنی بیوی برکت بی بی کے ہاں پہلے بیٹے نیازعلی کی ولادت کے بعد اسے طلاق دے دی۔برکت بی بی نے بعد از تکمیل عدت فضل دین سے نکاح کرلیا۔ نیاز علی بھی اپنی والدہ کے پاس فضل کے گھر ہی پرورش پاتا رہا۔ اس دوران برکت بی بی کے ہاں ایک بیٹا محمد خان اور دو بیٹیاں نذیراں بی بی اور رشیدہ بی بی پیدا ہوئیں۔ نیازعلی کی زندگی میں ہی اس کی حقیقی والدہ برکت بی بی اور حقیقی والد اللہ دتہ دونوں فوت ہوگئے جبکہ نیازعلی نے زندگی بھر شادی نہیں کی ۔نیازعلی کا ایک ہی حقیقی چچا اللہ رکھا بھی نیاز علی کی زندگی میں وفات پاگیا۔
اب قضاءِ الٰہی سے نیازعلی بھی فوت ہوگیا ہے۔ اس کی وفات کے وقت اس کے قریبی رشتہ داروں میں اس کی ماں جائے بہن بھائی (محمدخان، نذیراں بی بی، رشیدہ بی بی) اور اس کے چچا زاد تین بھائی (فضل، عبدل،شفیع) زندہ تھے۔ ازراہِ کرم نیازعلی کی جائیداد کی شرعی تقسیم اور ورثا کے حصوں کی تفصیل بیان فرمائیں۔ ( حامدرحمن، وزیرآباد)
جواب:اس صورت میں اَخیافی (ماں جائے)بھائی محمد خان اور بہن نذیراں بی بی کے لئے کل ترکہ سے ایک تہائی ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿فَإِن كانوا أَكثَرَ مِن ذٰلِكَ فَهُم شُرَكاءُ فِى الثُّلُثِ ۚ مِن بَعدِ وَصِيَّةٍ يوصىٰ بِها أَو دَينٍ غَيرَ مُضارٍّ.....١٢ ﴾..... سورة النساء
"(اخیافی بھائی) اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔(یہ حصے بھی) بعد اداءِ وصیت و قرض، بشرطیکہ ان سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو( تقسیم کئے جائیں گے)۔
واضح ہو کہ بایں صورت لڑکے اور لڑکی کے لئے حصہ برابر ہے۔ اور باقی ماندہ جائیداد کے حقدار بحیثیت ِعصبہ فضل، عبدل، شفیع تین چچا زاد بھائی ہیں۔ بصورت ِنقشہ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں
تصحیح مسئلہ کل حصص : ۹
اَخیافی بھائی اَخیافی بہن اَخیافی بہن چچازاد چچا زاد چچازاد
محمدخان نذیراں بی بی رشیداں بی بی فضل عبدل شفیع
۱ ۱ ۱ ۲ ۲ ۲
سوال: محمد شفیع اور رضیہ بی بی کا نکاح ۸/ فروری ۱۹۹۸ء کو ہوا۔ اورموٴرخہ ۱۵ /جون ۱۹۹۹ء کو بچہ پیدا ہوا۔ محمد شفیع موٴرخہ ۴ جولائی ۱۹۹۹ء کو فوت ہوگیا۔ رضیہ بی بی اور بچہ اپنے والدین کے پاس ہیں، اب
الف: سامانِ جہیز کس کا حق ہے؟
ب: محمد شفیع نے جو زیور رضیہ بی بی کو بوقت شادی ڈالا تھا وہ کس کا حق ہے؟
ج: بچہ شرعی طور پر کس کے پاس رہے گا؟
جوابات: (الف) جہیز کا سامان چونکہ والدین کی طرف سے عورت کوملتا ہے۔ اس لئے یہ خالصتہً اس کا حق ہے، شوہر کو اس میں کوئی دخل نہیں۔
(ب) شوہر کی طرف سے بیوی کو عطا کردہ زیور عرفِ عام میں اگر تو عورت کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے تو المعروف کالمشروط کے اصول پر عورت اس کی مالکہ ہوگی۔
بصورتِ دیگر اس کو شوہر کے ترکہ میں شمار کرکے کل جائیداد کا آٹھواں حصہ بیوہ کو دیا جائے کیونکہ میت کی اولاد موجود ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿فَإِن كانَ لَكُم وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ.....١٢ ﴾..... سورة النساء
(ج) ماں کا حق تربیت سب سے زیادہ ہے جب تک وہ آگے نکاح نہیں کرتی۔ ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ کے پاس شکایت کی کہ میرا بچہ اس کے باپ نے چھین لیاہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک تو نکاح نہ کرے، اس کی زیادہ حقدار ہے۔ (بحوالہ مسنداحمد، سنن ابوداود اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے)
٭٭٭٭٭