لفظ ’مولی‘ کا استعمال اور نماز جنازہ

اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کے لئے 'مولیٰ' کے لفظ کا استعمال... سیاہ لباس پہننا
غائبانہ نمازِ جنازہ ... مشترکہ کاروبار پر زکوٰة...نماز کے دوران نبی ﷺ پر درود
سوال : اگر کوئی شخص اپنی بیٹی، ساس، سالی میں سے کسی ایک کو بغرضِ شہوت ہاتھ لگاتا ہے۔ جماع او رمباشرت تومقصودنہ ہو، محض لمس بالشہوة ہو تو کیا ایسے شخص کی اپنی بیوی اس پر حرام ہوجاتی ہے اور بطورِ میاں بیوی ان کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے ؟

(سید شہزاد عالم بخاری)

جواب: راجح مسلک کے مطابق شہوت سے چھونے سے حرمت ِمصاہرت (سسرالی) ثابت نہیں ہوتی، حدیث میں ہے: «لا يحرم الحرامُ الحلالَ» (دارقطنی، ابن ماجہ وغیرہ) ...حرام کے ارتکاب سے حلال شے حرام نہیں ہوتی، تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو فتح الباری (۹/۱۵۶)، اس کیلئے توبہ استغفار کرنا چاہئے۔
سوال: ایک آدمی نے اصل زر مبلغ ستر ہزار روپے سے دکان شروع کی۔کاروبار چل جانے کے بعد اپنی اصل رقم اس نے نکال لی، اب لوگوں کی رقم سے کاروبار چل رہا ہے۔ اس صورت میں دکان میں ۷۷ ہزار کا مال موجود ہے جبکہ اس نے جو سامان بطورِ قرض لوگوں کو دیا ہے اور لوگوں سے لینا بھی ہے وہ مبلغ ۶۷ ہزار ہے ۔بذمہ دکان ایک لاکھ چھہتر ہزار روپے قرض بھی ہے ۔تو اس صورت میں کتنی زکوٰة ادا کی جائے گی۔ ( محمد حسن احسن ، رینالہ خورد )
جواب:سال گزرنے پر دکان کی طرف منسوب سارے مال کا حساب لگا کر اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰة ادا کی جائے ۔ سنن ابوداود میں حضرت سمرة بن جندب سے روایت ہے، فرمایا: «أمرنا رسول اللهﷺ أن نخرج الصدقة مما نعدہ للبيع »
"رسول اللہ ﷺنے ہمیں حکم دیا کہ جومال خرید و فروخت کے لئے ہو، اس کی زکوٰة ادا کریں "
اورجو قرض لینا ہے، اگر اس کے بروقت ملنے کی امید ہو تو اس کی بھی زکوٰة ادا کرنی ہوگی اور جس قرضہ کے ملنے کی امید نہ ہو، اگر وہ کئی سالوں کے بعد مل جائے تو اس صورت میں صرف ایک سال کی زکوٰة ادا کرنا ہوگی۔ ( موطا ٴامام مالک)
اور دکان پر قرض کی صورت میں اگر شرکاءِ کاروبار کے ہاں وسعت ہے تو زکوٰة دینی پڑے گی ورنہ نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ مختلف اشخاص کی کسی شے کا حکم، مسئلہ زکوٰة میں ایک شخص کی شے کا حکم ہے۔ چنانچہ بکریوں والی حدیث اس امر کی واضح دلیل ہے جس میں شرکاء میں سے ہرایک کی بکریاں تو نصاب تک نہیں پہنچتی تھیں مگر اکٹھی ہونے کی صورت میں تکمیل نصاب سے زکوٰة پڑ جاتی ہے۔( صحیح بخاری) شرکاءِ دکان کا معاملہ بھی اسی طرح ہے، بقدرِ حصص سب پر زکوٰة واجب ہوتی ہے۔
سوال : صحیح مسلم کے حوالے سے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ آپ ﷺنے فرمایا: «ولا يقل العبد لسيدہ مولاي فان مولا کم الله عزوجل» اس حدیث کا سیاق و سباق کیا ہے؟ سورة البقرہ کے آخر میں بھی مولانا 'ربّ العٰلمین' کے لئے آیا ہے، وضاحت فرمائیں؟
جواب:صحیح مسلم میں مصنف نے اعمش پر اس میں اختلاف ذکرکیا ہے۔ بعض راویوں نے اعمش سے «ولايقل العبد لسيده ...» کی زیادتی کو ذکر کیا ہے جبکہ بعض نے حذف کردیا ہے۔ قاضی عیاض نے کہا: زیادہ صحیح بات اس کا حذف کرنا ہے اور قرطبی نے کہا: مشہور اس کا حذف کرنا ہے، پھر کہا «وإنما صرنا الی الترجيح للتعارض مع تعذرالجمع وعدم العلم بالتاريخ» "تعارض کی بنا پر ہم نے ترجیح کا مسلک اختیا رکیا ہے کیونکہ دونوں احادیث میں تطبیق مشکل ہے اورتاریخ کا علم نہ ہونے کی بنا پر ناسخ ومنسوخ بھی نہیں قرار دیا جاسکتا"۔ آپس میں مخاطبت کے آداب کے سلسلہ میں اس کا بیان کیا گیا ہے۔ لفظ مولیٰ کے استعما ل کی مختلف صورتیں ہیں :بلا اضافت کے اس کا اطلاق صرف ربّ تعالیٰ پر ہے۔ اور اضافت کی صورت میں اللہ کے علاوہ دوسروں پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے۔ صحیح بخاری میں باب «کراهية التطاول علی الرقيق میں ہے وليقل سيدي مولاي» لہٰذا اصل جواز ہے-
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو فتح الباری (۵/۱۸۰)
سوال: ایک کنواری لڑکی کی منگنی ایک لڑکے سے ہوئی اور ان دونوں نے آپس میں شادی سے پہلے ہی زنا کرلیا، کیا اب ان کا آپس میں نکاح جائز ہے؟
جواب: زانی اور زانیہ کا نکاح آپس میں ناجائز ہے ۔ قرآنِ کریم میں ہے ﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِ‌كَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِ‌كٌ ۚ وَحُرِّ‌مَ ذ‌ٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ٣ ﴾.... سورة النور "زانی مرد نہیں نکاح کرتا مگر زانیہ یا مشرکہ عورت سے اور انہیں مسلمانوں پر حرام کیا گیاہے "۔اس طرح قصہ مَرثد میں بھی عدمِ جواز کی دلیل ہے جس میں ہے کہ مَرثد مکہ میں داخل ہوے، وہاں انہوں نے عناق نامی ایک بدکارہ کودیکھا۔اس بدکار عورت نے مرثد کو بدکاری کی دعوت دی لیکن مرثد نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد جب مرثد مدینہ منورہ آئے تو نبی ﷺسے سوال کیا کہ کیا میں عناق سے نکاح کرلوں تو آپ نے کوئی جواب نہ دیا، جس پر مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی... البتہ اگر وہ سچی توبہ کرلیں تو پھر ان کے نکاح کا جواز ہے۔ صحیح حدیث میں ہے: «فإن العبد إذا اعترف بذنبه ثم تاب، تاب عليه»
"جب آدمی اپنے گناہ کا اعتراف کرکے اسکے بعد تو بہ کرلیتا ہے تو اللہ اس کو معاف فرما دیتا ہے "
اور دوسری روایت میں ہے: «التائب من الذنب کمن لا ذنب له»
"گناہ سے توبہ کرلینے والا ایسے ہی ہے، جیسے اس کا کوئی گناہ نہیں"
علاوہ ازیں استبراءِ رحم بھی ضروری ہے اور اگر عورت زنا سے حاملہ ہوچکی ہو تو وضع حمل کا انتظار کرنا ہوگا، حمل چاہے زانی کا ہو یا غیر کا!...مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو المغنی لابن قدامہ(ج۹،ص۵۶۳)۔
سوال:آج کل قبروں پر نام لکھے جاتے ہیں، کیا ایسا کرنا جائز ہے اور کیا قبریں پختہ بنانا جائز ہے۔ اگر قبروں پر نام لکھنا جائز نہیں تو اس پر کیا نشانی رکھنی جائے؟
جواب: حضرت جابر سے روایت ہے، انہوں نے کہا «نهی رسول اللهﷺ أن يجصّص القبر وأن يقعد عليه وأن يبنی عليه أو يزاد عليه أويکتب عليه» (ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ، مسلم، ابوداود)
"نبی ﷺنے منع فرمایا کہ قبر کو چونے گچ کیا جائے، اس پر بیٹھا جائے، اس پر عمارت بنائی جائے یا اس پر زائد مٹی ڈالی جائے یا اس پر کچھ لکھا جائے۔"اس سے معلوم ہوا کہ قبروں پر لکھنا اور انہیں پختہ بنانا ناجائز ہے۔ امام محمد 'الآثار' میں لکھتے ہیں کہ قبر پر لکھنا یا کتبہ لگانا مکروہ (حرام ) ہے، ہاں البتہ نشانی رکھنا جائز ہے۔ نبی ﷺنے عثمان بن مظعون کی قبر پر پتھر رکھتے ہوئے فرمایا کہ "اس سے میں اپنے بھائی کی قبر کو پہچان لوں گا اور ہمارے اہل سے جو فوت ہوگا اس کے قریب میں اسے دفن کروں گا"( ابوداود)
سوال:آج کل یہ رسم عام ہے کہ جب کوئی بڑا آدمی (مثلاً ہیڈ ماسٹر) کلاس روم میں داخل ہوتا ہے تو ٹیچر اور بچے اسکے اَدب میں کھڑے ہوجاتے ہیں، کیاایسا کرنا جائز ہے؟(محمد بلال کمبوہ ،کھڈیاں)
جواب: بچوں کا اس طرح کھڑے ہونا ناجائز ہے ، حدیث میں ہے
«من سرّه أن يتمثل له الرجال قياما فليتبوأ مقعده من النار»(ترمذی، ابوداود)
"جسے یہ بات اچھی لگتی ہو کہ لوگ اسکے احترام میں کھڑے ہوں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے"
سوال : کسی کام کاج یا کاروبار کے لئے قرآنی آیات کا عمل کرنا کیسا ہے؟ بعض کتابوں میں لکھا ہوا ملتا ہے کہ اس آیت کو اتنی مرتبہ پڑھنے سے فلاں کام ہوجائے گا وغیرہ وغیرہ۔ کیا اس طرح ان کی تعداد مقرر کرکے کوئی خاص قرآنی آیتوں کا عمل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
جواب :بلاشبہ قرآنی آیات کی تلاوت باعث ِخیر و برکت ہے لیکن ان کے وِرد اور وظائف میں اپنی طرف سے تعداد مقرر کرنا درست عمل نہیں ۔
سوال: فرض نماز کھڑی ہو یا الگ کوئی سنتیں ، نوافل وغیرہ ادا کر رہا ہو۔ نبی رحمت ﷺ کا اسم گرامی سن کر کیا وہ اپنے دل میں درود پڑھ سکتا ہے یا نہیں۔ بعض امام صاحب ایسی آیات کی تلاوت کردیتے ہیں جس میں آپ کا نام آتا ہو۔ دورانِ نماز آپ پر اس طرح سے درود پڑھنا کیسا ہے؟
جواب: اس صورت میں عمومِ اَحادیث کی بنا پر بحالت ِنماز نبی اکرم ﷺ پر درود پڑھنے کا جواز ہے۔ اور اگر کوئی نہ پڑھے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اس میں اس حدیث پر عمل ہوجائے گا۔
«لا تقروٴوا بشيیٴ من القرآن إذا جهرت إلا بأم القرآن»"جب میں اونچی آواز سے تلاوت کروں تو سورئہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھو" (ابو داود: کتاب استفتاح الصلوٰة، دار قطنی:۱/۳۱۹)
سوال :ایک عورت کو دو مختلف مجالس میں رجعی طلاقیں ہوچکی تھیں، بعد ازاں اس نے شوہر سے بذریعہ خُلع علیحدگی حاصل کرلی۔ کیا دو طلاقوں کے بعد تیسرے موقع پر خلع تیسری طلاقِ بائن کے حکم میں ہوگا یا عدت کے بعد وہ اسی شوہر سے نکاح کرسکتی ہے؟
۲۔ایک عورت کا صرف خُلع کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوا۔ کیا اس کے بعد کسی طلاقِ رجعی کی گنجائش رہ جاتی ہے یا کوئی ایک دی گئی طلاق، طلاقِ ثلاثہ کی مانند بائن ہوجائے گی؟ خُلعسے پہلے کوئی طلاق نہیں دی گئی تھی۔ (ڈاکٹر عبدالرحمن چوہدری، لاہور)
جواب:دو رجعی طلاقوں کے بعد خلع تیسری طلاق کے حکم میں ہے۔ قصہ ثابت بن قیس میں ا س کا نام 'طلاق' رکھا گیا ہے چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا: ثابت باغ لے لو اور اس کو ایک طلاق دے دو( صحیح بخاری وغیرہ) ...قرآنی آیت ﴿حَتّىٰ تَنكِحَ زَوجًا غَيرَ‌هُ﴾ پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ۲۔خلع کے بعد اسی شوہر سے نکاح کی صورت میں بقیہ طلاقوں کی گنجائش باقی رہتی ہے اور ان کی اصلی حیثیت برقرار ہے، دو طلاقوں میں سے پہلی رجعی اور دوسری بائن ہوگی جو خلع سمیت درحقیقت تیسری تصور ہوگی۔
سوال: کیا امیر لوگوں سے جہیز لینا جائز ہے۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ خود نہیں مانگنا چاہئے لڑکی والے جو دیں، وہ لے لینا چاہئے۔ لوگوں کو جہیز لینے سے روکا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ بڑے بڑے مولوی خود جہیز دیتے اور لیتے ہیں۔ (محمد بشیر احمد قصوری، ابوتراب)
جواب: جہیز ایک ہندووانہ رسم ہے جس سے احتراز از بس ضروری ہے۔جہیز دراصل عورت ذات کو وراثت سے محروم کرنے کی ایک سازش ہے۔ آج کل بالفعل ہمارے ماحول اور معاشرہ میں یہی کچھ نظر آرہا ہے کہ جو لوگ جہیز کے پابند ہیں وہ بعد میں اپنے کو لڑکی کی وراثت سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ یہ سراسر دھوکہ ہے ۔ ایسے لوگ جہاں حقوق کی عدم ادائیگی کے مجرم ہیں،وہاں کافرانہ رسموں سے بھی اپنے بوجھ میں اضافہ کررہے ہیں« لا حول ولا قوة الا بالله العلی العظيم...!»
ایک مسلمان کے لئے کسی پیر یا مولوی کا عمل نمونہ نہیں۔ یہود و نصاریٰ کے کتنے ہی اَحبار و رہبان ہیں جو عمل نہ کرنے کی وجہ سے کتاب و سنت میں قابل مذمت ٹھہرے ہیں۔ صراطِ مستقیم بالکل واضح ہے اس میں کسی قسم کی پوشیدگی نہیں۔نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ "اس کی رات بھی دن ہے، صرف بدقسمت ہی برباد ہوگا " لہٰذا ہر فرد کے لئے ضروری ہے کہ سوچ سمجھ کر قدم رکھے، کل حساب اکیلے ہی کو دینا ہوگا، دوسرا کوئی اس کا معاون و مددگار نہیں ہوگا او رجہاں تک تحائف کا تعلق ہے تو بلاشبہ ان کا جواز ہے لیکن تحائف کے بہانے جہیز کا جواز پیدا کرنا بھی موجب ِگرفت ہے۔ اصحاب ِسبت حیلوں کی وجہ سے ہی مستحق لعنت ٹھہرے تھے ... أعاذنا الله منها
سوال: کیا مردوں اور عورتوں کے لئے سیاہ لباس پہننا جائز ہے؟
جواب: مردوں اور عورتوں کے لئے سیاہ لباس پہنے کا جواز ہے، ممانعت نہیں۔ صحیح بخاری میں نبی ﷺ نے اُمّ خالد کو سیاہ لباس پہنایا تھا : باب الخميصة السوداء۔اور سنن ابوداود وغیرہ میں ہے حضرت عائشہ صدیقہ  فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے لئے سیاہ اُونی جبہ تیا رکیا، آپ ﷺ نے اس کو پہنا ( فتح الباری :۲۸۱۹)... عون المعبود ۴/۹۰۵ میں ہے
«والحديث يدل علی مشروعية لبس سواد وأنه لا کراه فيه»
"اور یہ حدیث سیاہ لباس کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے ، اوریہ کہ اس میں کوئی کراہت نہیں"
اور نسائی میں ہے کہ فتح مکہ کے دن آپ نے سیاہ پگڑی پہنی ہوئی تھی«لبس العمائم السود»
سوا ل: کراچی سے جنازہ نتھیاگلی کے لئے بذریعہ جہاز روانہ ہوا ۔ لوگ نتھیاگلی جمع ہوئے ، قبر تیار ہوئی تو اطلاع ملی کہ جہاز بوجہ خرابی ٴموسم کراچی واپس چلا گیا ہے۔ جہاز کی روانگی میں مزید تاخیر ہونے کی وجہ سے کیا وہاں جمع لوگ جنازہ پڑھ سکتے ہیں جبکہ میت ابھی دورانِ سفر ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ میت دوسرے دن یا رات اپنے آبائی گاؤں پہنچے گی، کیا اس طرح غائبانہ نمازِ جنازہ جائز ہے؟
جواب:غائبانہ جنازہ کا جواز تو ہے۔ نجاشی کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا:
«إن أخاکم قدمات بغير أرضکم فقوموا فصلوا عليه»
"تمہارا بھائی غیر زمین میں فوت ہوگیاہے ، اٹھو اس کی نمازِجنازہ پڑھو "
اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: قد توفی الیوم کہ وہ آج فوت ہوا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میت پر نمازِ جنازہ پڑھنا، اس کے لئے دعا کرنا اس کے کفن میں ملفوف ہونے کی صورت میں جائز ہے تو غائبانہ یا قبر پر اس کے لئے کیوں جائز نہیں ہے۔ (فتح الباری ۳/۳۱) اور امام شوکانی الدرر البهية میں فرماتے ہیں کہ نمازِ جنازہ قبر پر پڑھی جاسکتی ہے اور غائب میت پر بھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ میت کے دفن یا عدمِ دفن سے اصل مسئلہ کی نوعیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا، معاملہ دونوں کا ایک جیسا ہے، قصہ نجاشی عموم کی دلیل ہے لیکن صورتِ مسئولہ میں میت کی آمد کا انتظار کرنا چاہئے، کیونکہ اس کی آمد متوقع ہے۔

٭٭٭٭٭