فروری 2001ء

شیخ محمّد بن صالح العثیمین

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: قربِ قیامت امت فتنوں میں گھرجائے گی، «الفتن کالليل المظلم الفتن تموج کموج البحر»کہ فتنے سمندر کی لہروں کی طرح یلغار کریں گے اوراندھیری رات کی طرح پوری اُمت پہ چھا جائیں گے۔ فتنوں اور مصائب کی شکلیں مختلف ہوں گی :کہیں مال کا فتنہ ہوگا ،کہیں قتل وغارت کا فتنہ ہو گالیکن ان تمام فتنوں کا سبب ایک بہت بڑا فتنہ ہو گا اور وہ ہوگا علم صحیح کا اُٹھ جانا... علم صحیح اس وقت اُٹھ جائے گا جب علماءِ حق دنیا سے ختم ہو جائیں گے۔ علم صحیح اسلام کا مضبوط ترین قلعہ اور اس علم کے حامل علماء کا وجود اُمت کے لئے رحمت ہے ۔ایک عالم کی موت پورے عالَم کی موت ہوتی ہے، پیغمبرﷺ کا ارشاد ہے:
«إن الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولکن يقبض العلم بقبض العلماء حتی إذا لم يبق عالما اِتخذ الناس روٴوسا جهالا ، فسئلوا فأفتوا بغير علم فضلّوا وأضلوا» (بخاری)
"اللہ بندوں کے سینوں سے علم نہیں کھینچے گا بلکہ علماء کی موت سے علم کو قبض فرمائے گا حتیٰ کہ کوئی عالم دنیا میں باقی نہیں رہے گا تب لوگ جہلاء کو اپنا سرداربنا لیں گے۔ ان سے سوال کیا جائے گا، تووہ علم کے بغیر فتویٰ دیں گے۔ خود بھی گمراہ ہوں گے اورلوگوں کو بھی گمراہ کریں گے"۔
تھوڑے ہی عرصہ میں کتنے ہی علماءِ دارِفانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گئے ۔اُمت اسلامیہ ابھی شیخ الاسلام عبد العزیزابن باز  اور محدث العصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی کی وفات کے غم سے نکلنے نہ پائی تھی کہ علم و تحقیق کا ایک اورآفتاب بھی غروب ہو گیا جس سے عالم اسلام اس وقت روشنی حاصل کررہا تھا یعنی علامہ ،محدث، مفسر، فقیہ ،اُصولی، شیخ محمد بن صالح بن محمد العثیمین جو ۱۵/ شوال ۱۴۲۱ھ بمطابق۱۰/جنوری ۲۰۰۱ء کو جدہ میں راہ گیر عالم بقا ہو گئے ۔ إنا لله وانا اليه راجعون!
مولد/ مسکن
شیخ مرحوم ۱۳۴۷ھ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں قصیم کے شہرعنیزہ میں پیدا ہوئے۔ بچپن ہی سے علومِ شرعیہ کی تحصیل میں مصروف ہوگئے۔ جس علاقہ میں آپ زیر تعلیم تھے وہ علمی تحریکوں کی آماجگاہ تھا اور اس علاقہ کی مساجد حتیٰ کہ گھر بھی علمی حلقوں اور فکریمباحثوں کی ایک چراگاہ تھے۔ مرد تو مرد عورتیں بھی اس علمی تحریک میں شانہ بشانہ شریک تھیں جیسا کہ روضة الناضرين کے مصنف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
تعلیم وتربیت اور شیخ کے اساتذہ
شیخ نے صغر سنی میں ہی قرآنِ مجید حفظ کرلیا تھا اور اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے نانا شیخ عبدالرحمن سلیمان الدامغ سے کیا۔ اس کے بعد شیخ علامہ عبدالرحمن بن ناصر سعدی کے حلقہ درس میں شامل ہوگئے جو ان کے پہلے باقاعدہ اُستاد تھے۔ ان سے توحید، تفسیر، سیرتِ نبویہ، حدیث، نحوو صرف، فقہ ووراثت، اُصولِ فقہ اور اصولِ حدیث کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے اپنے اس استاذ سے بہت استفادہ کیا جو علم و عمل کا شاہکار، حسن اَخلاق کا پیکر، زہد و تقویٰ میں یکتا اور تواضع و فراخدلی میں بے مثل تھا۔ شیخ اپنے استاد کے طریقہ تدریس سے بہت متاثر تھے اور انہوں نے تدریس میں انہی کے نقش قدم کی پیروی کی۔
شیخ کی پروان ایک خالص علمی ماحول میں ہوئی۔ ہر چند کہ آپ کو بے شمار شیوخ سے شرف ِتلمذ حاصل ہوا، مگرجس استاذکا آپ کی زندگی پر گہرا اَثر تھا وہ عنیزہکے یہی ممتاز عالم شیخ عبدالرحمن سعدی تھے۔ شیخ عہد ِطفولت سے لے کر ایک طویل عرصہ ان کے زیر تربیت رہے۔ عظیم استاد نے اپنی کمالِ فراست سے ہونہار شاگرد میں نبوغت (مہارت) اور قابلیت کے آثار دیکھ لئے تھے چنانچہ جب شیخ کے والد نے عنیزہسے ریاض منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تو شیخ سعدی نے اپنے ہونہار شاگرد محمد بن صالح العثیمین کو اپنے حلقہ درس سے جدا کرنے سے انکار کردیا اور ان کے والد سے کہا کہ محمد کو چھوڑ جائیے، وہ ہمارے پاس علم سیکھےگا۔ آپ نے شیخ سعدی کی زندگی کے دوران ہی عنیزہکے معہد علمی میں داخلہ لیا اور وہاں کی تعلیم دو سال میں مکمل کرلی۔ اس کے بعد کلیة الشریعة میں داخل ہوئے، ۱۳۷۷ھ میں آپ وہاں سے فارغ ہوئے۔اس کے ساتھ ساتھ شیخ سعدی سے بھی تحصیل علم کا سلسلہ جاری رہا حتیٰ کہ ان کا یہ عظیم استاذ عالم آخرت کو سدھار گیا۔
شیخ سعدی کے علاوہ ایک عظیم المرتبت شخصیت اور بھی تھی جن کا شیخ کی زندگی پر خاصا اثر تھا، وہ عظیم شخصیت سماحة الشیخ عبد العزیزبن عبد الله بن بازرحمتہ الله علیہ کی تھی جن سے شیخ بہت متاثر تھے جیسا کہ شیخ محمد بن صالح العثیمین نے اپنے بارے میں حدیث میں دلچسپی اور وابستگی کے ضمن میں خود ذکر کیا ہے۔آپ نے ان سے صحیح بخاری اورعلامہ ابن تیمیہ اور ابن قیم کی بعض کتب پڑھیں۔
آپ کے دیگر اساتذہ میں شیخ علی بن احمدصالحی،شیخ محمد بن عبدالعزیز مطوع،علامہ کبیرشیخ محمد الامین بن محمد المختار شنقیطی (موٴلف اَضواء البيان) اور شیخ عبدالرحمن بن علی بن عودان رحمہم اللہ شامل ہیں۔
شیخ کی علمی خدمات
شیخ مرحوم اپنے استاذ شیخ سعدی کی وفات کے بعد ان کی جگہ پر جامع مسجد عنیزہ میں اِمامت وخطابت کے منصب پر فائز ہوئے۔ جامع مسجد عنیزہ کے ساتھ تدریسی حلقہ قائم کیا۔ جامعہ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ میں بھی تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ہیئة کبار العلماء ( سینئر علماء بورڈ) کے بھی موٴثر رکن رہے۔
شیخ ابن عثیمین ۱۳۷۱ھ میں مسند ِتدریس پرمتمکن ہوئے۔ آپ کی زندگی کا یہ پہلو قابل اظہار تھا کہ جب مفتی دیارِسعودیہ اور قاضی القضاة شیخ محمد ابن ابراہیم کی جانب سے آپ کو عہدئہ قضاکی پیش کش کی گئی تو انہوں نے اِسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد شیخ محمد بن ابراہیم نے شیخ کو 'احساء کورٹس' کا چیف بنانے کا فیصلہ صادر کیا لیکن شیخ نے اس فیصلہ کوبھی تسلیم نہ کیا اور اپنے حکیمانہ انداز سے شیخ محمد بن اِبراہیم کو اپنے اصرارسے دستبردار ہونے پر مطمئن کردیا۔
شیخ کی نابغہ روزگار شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ آپ بیسیوں رسائل کے مصنف اور بلندپایہ مدرّس تھے۔ سب سے پہلے شیخ نے جو کتاب تالیف فرمائی وہ علامہ ابن تیمیہ کے ایک طویل فتویٰ الحمویة جو علامہ ابن تیمیہ  نے اہل حماة کے جواب میں لکھا تھا، کا خلاصہ تھا۔ شیخ کی یہ کتاب ۱۳۸۰ ھ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد شیخ درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور دعوت و تبلیغ کے میدان میں سرگرم ہوگئے اور زندگی کی آخری سانسوں تک اسی میں مشغول رہے۔ علومِ شرعیہ میں معمولی دلچسپی رکھنے والے اس بات پر متفق ہوں گے کہ شیخ مرحوم نے نہ صرف سعودی عرب بلکہ پورے عالم اسلام میں علومِ شرعیہ کے مختلف میدانوں میں اپنی انتھک، متنوع اور پیہم کاوشوں سے علمی تحریک کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔آپ کی وہ کیسٹیں جن پر عقائدو توحید، فقہ و اُصول کی بحثوں اور صرف و نحو کے قواعد کی شروح ریکارڈ ہیں، ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ اگر ان کو ایک عظیم لائبریری کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔
اس کیسٹوں کی لائبریری سے بے شمار کتب، کتابی شکل میں آئیں جن میں سے ایک مذہب امام احمد بن حنبل کے متن کی مکمل شرح ہے۔ اس کے علاوہ ایک کتاب زاد المستقنع ہے جو اس وقت سے متواتر شائع ہو رہی ہے۔ اسی طرح چند جلدوں میں ریاض الصالحین کی شرح شائع ہوئی اور اس کے علاوہ بے شمار شروحات ہیں جو تمام کی تمام ان کیسٹوں سے مرتب کی گئی ہیں۔ یہاں یہ بات نوٹ رہنی چاہئے کہ علماءِ نجد کے ہاں سوائے چیدہ چیدہ علماء کے باقاعدہ کتابیں لکھنے کا رواج نہیں تھا۔ آپ کی وہ کتب اس کے علاوہ ہیں جو آپ کے شاگردوں نے آپ کی رضامندی سے آپ کی کیسٹوں سے از خود جمع ومرتب کیں۔ آپ نے چالیس سے زائد کتابیں تالیف کیں۔ اس طرح آپ کے فتاویٰ کئی جلدوں میں جمع کئے جاچکے ہیں۔ جناب فہد سلیمان نے آپ کے فتاویٰ ۱۴ سے زائد جلدوں میں مرتب کئے ہیں جو دارالثریا کی جانب سے شائع بھی ہوچکے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو علمی بصیرت اور تفقہ میں اتنا اونچا مقام عطا فرمایا تھا کہ بڑے بڑے علماء اس کے معترف تھے۔ اس کی وجہ وہ خصوصیات تھیں جو بہت کم لوگوں کو ودیعت ہوتی ہیں۔ ان کی پہلی خوبی یہ ہے کہ ان کی تالیفات حسن ترتیب کا مرقع ہیں۔ عبارت نہایت شاندار اور مربوطہے۔ شیخ ہمیشہ مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو اس طرحکھول کر بیان کرتے کہ طلباء کے سامنے ہر مسئلہ نکھر کر سامنے آجاتا۔
آپ کی دوسری خوبی یہ تھی کہ آپ کا طرزِ تدریس منفرد قسم کا تھا۔ آپ صرف لیکچر دینے پر اکتفا نہیں کرتے تھے جیسا کہ بعض اساتذہ کا معمول ہوتا ہے بلکہ آپ لیکچر کے دوران طلباء سے سوال و جواب کرتے۔ طلباء سے تبادلہ دلائل کرتے۔ حلقہ درس کے آخر میں بیٹھے ہوئے طالب ِعلم کو براہِ راست سوال سے اچانک متوجہ کرتے اور اس طرح سامعین کو ذ ہنی طور پر اپنی طرف متوجہ رکھتے اور یہ طریقہ تعلیم آج کی دینی تعلیم میں خال خال ہی ملتاہے۔ خاص طورپر نجد کے طرزِ تعلیم میں ،مباحثہ اور سوال و جواب کا معمول نہیں ہے۔ لیکن شیخ ابن عثیمین او ران کے استادِ مکرم شیخ سعدی مروّجہ طریقہ تعلیم کے مخالف تھے۔ آپ کے حلقہ درس کا فیضان بہت وسیع ہوتا تھا۔ ان کے گرد تشنگانِ علم کا ہجوم ائمہ محدثین کے دور کی یاد زندہ کیا کرتا تھا۔ ان کے علم کے بحر ذخار سے بہت سے تشنگانِ علم نے اپنی پیاس بجھائی۔
شیخ نے شاہ خالدمرحوم کے خرچ پر جامع عنیزہکے قریب طلباء کے لئے ایک ہوسٹل قائم کیا تھا جہاں سعودی عرب کے دور دراز علاقوں سے حتیٰ کہ دیگر ممالک سے بھی طلباء کشاں کشاں اپنی علمی پیاس بجھانے چلے آتے۔
شیخ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ تقلید شخصی کے مخالف تھے۔ کبھی کسی خاص مسلک و مکتب فکر سے جامدانہ وابستگی کا اظہار نہیں کیا۔ آپ علامہ ابن تیمیہ سے خاص طور پر متاثر تھے چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ  کے بے شمار اِجتہادات کو اختیار کیا یا ان  کے اجتہادات کو بنیاد بنایا۔
شاہ فیصل عالمی ایوارڈ
شیخ کی ان علمی کاوشوں کی وجہ سے انہیں شاہ فیصل عالمی ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا۔ ۱۴۱۴ھ /۱۹۹۴ء میں کمیٹی نے انہیں خدمت ِاسلام کے صلے میں شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازا۔ جن خصائل حمیدہ کی بنا پر آپ کو اس ایوارڈ کا اہل قرار دیا گیا، کمیٹی نے ان کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے :
۱۔ شیخ ان گونا گوں فضائل و کمالات سے آراستہ ہیں جو واقعی علماءِ حق کا خاصا ہوتے ہیں۔ زہدو ورع، حق گوئی، راست بازی، مسلم اُمہ کی مصالح کے لئے جدوجہد اور عام و خاص کے لئے خیرخواہی کا جذبہ آپ کے امتیازی اَوصاف ہیں۔
۲۔ بے شمار لوگوں نے آپ کی تدریس، تصنیف و تالیف اور فتوؤں سے علمی فائدہ اُٹھایا۔
۳۔ مملکت ِسعودی عرب کے مختلف علاقوں میں آپ نے نہایت نفع رساں لیکچر زدیئے۔
۴۔ آپ نے بڑی بڑی اسلامی کانفرنسوں میں موٴثرشرکت کی اور وہاں اپنے علم سے فیض پہنچایا۔
۵۔ آپ نے ﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَ‌بِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ.......١٢٥﴾..... سورة النحل" کے اُسلوب پر دعوت الیٰ اللہ کا فریضہ سرانجام دیا اور سلف صالحین کے منہج کی ایک زندہ مثال پیش کی۔
شیخ کی زندگی کا ایک عجیب واقعہ
دو سال قبل ریڈیو کے ایک مشہور پروگرام "نور علی الدرب"پر شیخ ابن عثیمین براہِ راست گفتگو کررہے تھے۔ سامعین میں سے ایک عورت نے ان سے فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ شیخ میں نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا ہے ، میں آپ سے اس کی تعبیر چاہتی ہوں۔ شیخ نے فرمایا کہ یہ پروگرام فقہی مسائل کے لئے مخصوص ہے۔ ویسے بھی مجھے خوابوں کی تعبیر کے متعلق کوئی زیادہ علم نہیں ہے۔ لیکن عورت نے اصرار کیا کہ شیخ ضرور خواب کی تعبیر بتائیں۔ آپ نے فرمایا: چلئے، بتائیے کیا خواب ہے ؟ تو عورت نے خواب بیان کرنا شروع کیا کہ میں نے ایک آدمی دیکھا جس سے میں واقف ہوں کہ وہ برہنہ حالت میں خانہٴ کعبہ کا طواف کر رہا ہے۔ شیخ نے فرمایا:
"خوش ہوجائیے، یہ خواب اس آدمی کے صالح اور اللہ کے بہت قریب ہونے کی دلیل ہے اور اس کا برہنہ ہونا اس با ت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ نے اس کے گناہ معاف کردیئے ہیں جیسا کہ آپ ﷺنے اس شخص کے متعلق فرمایا، جس کے گناہ معاف کردیئے جائیں کہ وہ ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ۔ میری مسلمان بہن! یہ شخص خیر عظیم کا حامل اور اللہ کے بہت زیادہ قریب ہے "
تو اس عورت نے کہا: یا شیخ !کیا آپ کومعلوم ہے کہ جس شخص کو میں نے خانہٴ کعبہ کا طواف برہنہ حالت میں کرتے ہوئے دیکھا ہے، وہ آپ ہی ہیں۔ یہ سن کر شیخ کی آواز بھرا گئی اور آپ کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے او راس دن آپ پروگرام مکمل نہ کرسکے۔
آپ کی اصابت ِرائے
علمی اور دعوتی سرگرمیوں کے دوران شیخ مختلف مسائل کے متعلق اپنی آراء کا اظہار کرتے تھے۔برائی کو روکنے کا طریقہ کیا ہونا چاہئے؟ اس کے متعلق شیخ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں " سختی اور تشدد سے اِصلاح ممکن نہیں ہے۔ اس سے سوائے شر کے کچھ حاصل نہیں ہوتا لہٰذا سختی کسی صورت روا نہیں کیونکہ دعوت و تبلیغ میں حکمت سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے۔ سختی اور تشددمثلاً سزا ئیں دینا یا قید کرنا حکمرانوں کا کام ہے۔ عامة الناس کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ وہ حق کو کھول کر بیان کردیں اور برائی کی بھرپور مذمت کریں۔
حکمرانو ں کے لئے ضروری ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، برائی کے آگے بند باندھیں کیونکہ وہی اس کے ذمہ دارہیں۔ اگر کوئی عام آدمی برائی کو اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے گا تو اس برائی سے بھی بڑا فتنہ کھڑا ہوجائے گا لہٰذا اس معاملہ میں حکمت سے کام لینا ضروری ہے۔آپ اپنے گھر میں تو برائی کو اپنے ہاتھ سے روک سکتے ہیں کیونکہ آپ اپنے گھر کے نگران ہیں لیکن بازار میں برائی کو ہاتھ سے روکنے کا نتیجہ اس برائی سے زیادہ شدید بھی نکل سکتا ہے ۔"
آپ نے اسلامی نظام کے نفاذکے لئے کبھی سختی کے استعمال کو تسلیم نہیں کیا اور اللہ کے اس قول پر اپنے استدلال کی بنیاد رکھی:
﴿ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَ‌بِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ ۖ وَجـٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ....... ١٢٥ ﴾..... سورة النحل
"(اے پیغمبر!) اپنے پروردگار کی راہ کی طرف لوگوں کو بلاؤ اور نہایت حکمت اور اچھے طریقے سے پندونصیحت کرو اور مخالفوں سے بحث و نزاع کرو تو وہ بھی احسن طریقہ کے ساتھ"
انتہا پسندی کو ماپنے کے لئے لوگوں کے ذوق کو معیار قرار نہیں دیا جاسکتا!
اسلام میں انتہا پسندی کے متعلق شیخ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا
"اکثر لوگ دین میں زہد اور دنیاسے کنارہ کشی کے ضمن میں انتہا پسندی کا شکار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہر معاملہ میں خواہ وہ دینی ہو یا دنیاوی، بالکل آزاد ہوں اوران کا نظریہ ہے کہ ہر انسان کو اپنے ہر قول و فعل میں آزاد ہونا چاہئے۔ ایسے لوگ یقینا بدترین انتہا پسند ہیں۔ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو دین میں انتہائی غلو کرتے ہیں اور اس غلو میں حد سے تجاوز کرتے اور صراطِ مستقیم سے ہٹ جاتے ہیں۔ لیکن اللہ کا دین اِفراط و تفریط سے مبراہے اور غلو اور دین سے مادر پدر آزادی کے درمیان ایک معتدل راستہ ہے۔ اس لئے لوگوں کے ذوق سے انتہا پسندی کا اندازہ نہیں کیاجاسکتا۔ اگر ہم لوگوں کے ذوق کو معیار قرار دیں تو لوگوں میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے جو دین پر مضبوطی سے کاربند ہونے کو بھی انتہا پسندی قرا ردیں گے لہٰذا انتہا پسندی کو جانچنے کا معیار اگر کوئی چیز ہوسکتی ہے تو وہ کتاب اللہ ہے یا سنت رسول اللہ ﷺ !"۔
شیخ ابن عثیمین کی اَہم اور مشہور تصانیف
شیخ نے مختلف کتب کے متون کی شروحات پر مبنی متعدد کتب تالیف فرمائیں ۔ اس کے مختلف مسائل پر رسائل اور کتابچے لکھے۔متنوع علوم وفنون پرمشتمل یہ کتب آپ کے بلند مرتبے اورعلمی رسوخ پر دلالت کرتی ہیں ۔ہم مختلف موضوعات کے لحاظ سے آپ کی مشہور کتب کی فہرست پیش کرتے ہیں :
تفسیر اور اُصولِ تفسیر
٭ أصول في التفسير
٭ تفسير آية الکرسي
ایمان وعقائد
٭ شرح لمعة الاعتقاد الهادی إلی سبيل الرشاد لابن قدامة
٭ القواعد المثلي فی صفات الله وأسمائه الحسنیٰ: بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۶ھ/ ۱۹۸۶ء
٭ فتح الرب البرية فی تلخيص الحموية(یہ کتاب ابن تیمیہ  کے اہل حماة کے اعتراضات کے جوابات کا خلاصہ ہے )
٭ عقيدہ أہل السنة والجماعة: مدینہ منورة، دارابن قیم، ۱۴۰۶ھ/ ۱۹۸۶ء
٭ نبذ فی العقيدہ الاسلامية
٭ شرح العقيدة الواسطية لشيخ الاسلام ابن تيمية
فقہ واصولِ فقہ
٭ الخلاف بين العلماء، أسبابه وموقفنا منه: (علماء کے مابین پائے جانے والے اختلافات کے اَسباب اور اس بارے میں ہمارا موقف) بیروت: المکتب الاسلامي، ۱۴۰۵ھ / ۱۹۸۵ء
٭ الأصول فی علم الأصول(اصولِ فقہ کے اُصول): (طبع سوم) بیروت، موٴسّسة الرسالہ: ۱۴۰۶ھ ، ۱۹۸۶ء
٭ الزواج في الشريعة الاسلامية: الریاض، جامعہ الامام ، ۱۴۰۵ھ/ ۱۹۸۵ء
٭ الدماء الطبعية للنساء ( حیض کے مسائل)
٭ عقد النساء وآثارہ
٭ تسهيل الفرائض: بیروت، موٴسسة الرسالہ ، ۱۴۰۵ھ / ۱۹۸۵ء ، طبع چہارم
(وراثت کے احکام کے متعلق عام فہم کتاب ہے )
٭ رسالة فی حکم تارک الصلاة(اسلام میں بے نماز کا حکم)
٭ رسالة فی الوضوء والغسل والصلاة(وضوء ،غسل اور نماز کے مسائل)
٭ رسالة فی الطهارة والصلاة لأهل الأعذار(اہل عذر کے لئے طہارت اور نماز کے احکام)
٭ رسالة فی مواقيت الصلاة (نماز کے اوقات)
٭ نبذ فی الصيام (روزوں کے مسائل )
٭ کيف توٴدی مناسک الحج والعمرة(مناسک حج اور عمرہ کے اَدا کرنے کا طریقہ)
٭ رسالة فی أقسام المداينة(باہمی لین دین کی اقسام)
٭ رسالة فی أحکام الأضحيةوالزکاة( قربانی اور زکوٰةکے مسائل)
٭ رسالة الحجاب (پردہ کے مسائل)
پندو نصائح اور دعوت وتبلیغ کے متعلق کتب
٭ الصحوة الاسلامية ، ضوابط وتوجيهات (طبع سوم )ریاض : دار العاسم، ۱۹۹۵ء
٭ الضياء اللامع فی الخطب الجوامع،۲جلد ( اسلامی خطبات پر مشتمل ہے )
٭ رسالة فی الدعوة إلی الله
٭ من مشکلات الشباب (نوجوانوں کے مسائل پر ایک اہم کتاب)
٭ حقوق دعت إليها الفطرة وقررتها الشريعة (طبع سوم) مدینہ منورہ، جامعہ اسلامیہ، ۱۳۰۷ھ / ۱۹۸۷ء۔ (محدث کے اس شمارہ میں اسی کتابچہ کا اُردو ترجمہ شامل اشاعت ہے)
٭ فتووٴں کا مجموعہ: جن کی اب تک ۱۴ جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔
٭ سونے کے زیورات جائز ہونے پر ایک کتابچہ
اس کے علاوہ بے شمارکیسٹیں ہیں جو علمی دروس ، مختلف کتابوں کے متون کی شروحات ، علمی محاضرات اور پروگرام نور علی الدرب کے سوالات وجوابات اور فتاوی وغیرہ پر مشتمل ہیں ۔آپ کی علمی اور دینی سرگرمیاں مذکورہ خدمات تک ہی محدود نہیں۔بلکہ اکثر آپ علمی مجالس اور اسلامی کانفرنسوں میں شرکت فرماکر علمی لیکچر بھی دیا کرتے تھے۔بلکہ کچھ عرصہ سے پاکستان اور دنیا کے مختلف خطوں میں لاکھوں کے اجتماعات میں ہر سال ان کے ٹیلی فونک خطاب بھی ہوتے تھے۔
واقعتا آپ ایسے مخلص، پرہیزگار، شب زندہ دار اور نمونہٴ اَسلاف شخصیت کے چلے جانے سے عالم اسلام میں پر نہ ہونے والا خلا پیداہوگیا ہے۔فرمانِ الٰہی ہے :
﴿مِنَ المُؤمِنينَ رِ‌جالٌ صَدَقوا ما عـٰهَدُوا اللَّهَ عَلَيهِ ۖ فَمِنهُم مَن قَضىٰ نَحبَهُ وَمِنهُم مَن يَنتَظِرُ‌ ۖ وَما بَدَّلوا تَبديلًا ٢٣ ﴾..... سورة الاحزاب "اہل ایمان میں سے وہ بندے بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پورا کر دکھایا، سو ان میں سے بعض تو اپنی باری پوری کرچکے اور بعض منتظر ہیں"
یقینا علماء کا وجود اُمت کے لئے باعث ِرحمت ہے۔ جب علماء اُٹھ جاتے ہیں تو علم اُٹھ جاتاہے اور جس قوم سے علم ختم ہوجائے ، پھر فتنے اس قوم پر یلغار کرتے ہیں اور مصیبتوں کے دروازے اس قوم کے لئے کھل جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شیخ محمد صالح عثیمین کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور انہیں انبیاء و شہداء اور صدیقین و صالحین کا ساتھ نصیب فرمائے۔ آمین!
شیخ کی وفات
شیخ اپنی وفات سے چند ماہ قبل جگر کے کینسرمیں مبتلا ہوئے اور وہی آپ کے لئے جان لیوا ثابت ہوا۔ آپ نے اپنی بیماری کو گناہوں کی بخشش کا ذریعہ سمجھ کر نہایت صبر و ضبط کے ساتھبرداشت کیا۔ اس دوران درس و تدریس اور محاضرات کے سلسلے برابر جاری رہے۔ ریڈیو پروگرام نور علی الدرب میں آپ برابر لیکچرز اور سامعین کے سوالوں کا جواب دیتے رہے۔ جب آپ کو چیک اَپ کے لئے امریکہ بھیجا گیا تو وہاں بھی آپ نے لیکچرز کا سلسلہ منقطع نہ کیا۔ بیماری کے علاج کے دوران شیخ کا ورع وتقویٰ ملاحظہ فرمائیے کہ کینسر کے علاج کے سلسلہ میں جب فزیوتھراپی (بجلی کا علاج) تجویز کیا گیا تو شیخ نے صرف اس لئے اس علاج سے انکار کر دیا کہ کہ اس سے ان کی داڑھی کے بال گر جائیں گے۔ اور کہا کہ "میں اپنے اللہ سے اس حالت میں نہیں ملنا چاہتا کہ میرے چہرے پر سنت ِرسول نہ ہو" ...لہٰذا امریکہ سے بغیر علاج واپس چلے آئے۔
رمضان میں بعد نمازِ تراویح بیت اللہ میں علمی درس دینا آپ کا سالہا سال سے معمول تھا جسے اس سال بھی باوجود شدید تکلیف کے ترک نہ کیا۔ اس کے بعد مرض بہت شدت اختیار کرگیا۔( اللہ تعالیٰ اس بیماری کو ان کے گناہوں کا کفارہ بنائے اور ان سے درگزر فرمائے)
آخر وہ دن آگیا جس سے کسی کو مفرنہیں اور عالم اسلام کا نامور عالم دین جدہ میں بروز بدھ ۱۵/شوال ۱۴۲۱ھ دارِآخرت کی طرف کوچ کرگیا۔ حکومت سعودی عرب کی طرف سے آپ کی وفات کا اعلان کیا گیا۔ آپ کو مکہ مکرمہ کے قبرستان معلی میں ان کے شیخ علامہ ابن باز کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ جنازہ میں شرکت کرنے والوں کا ایک جم غفیر تھا۔ اس کے علاوہ امیر نائف بن عبدالعزیز، صوبہ قصیم کے گورنر جناب شہزادہ فیصل بنبندر بن عبدالعزیز، جدہ کے گورنر جناب مشعل بن ماجد بن عبدالعزیز اور علماءِ عظام کی کثیر تعداد کے علاوہ هيئة کبار العلماء (سینئر علما بورڈ ) کے اَراکین اور طلباء کی کثیر تعداد آپ کے جنازہ میں شریک ہوئی۔
آپ کی وفات کی خبر پل بھر میں اقصائے عالم میں پھیل گئی جس سے عوام وخواصمیں دکھ واَلم کی لہر دوڑ گئی۔دنیا بھر میں آپ کی تدفین سے اگلے روز جمعہ کی نماز کے بعد غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ سعودی عرب کی تمام مساجد میں بھی اس نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا۔
لاہور میں مجلس التحقیق الاسلامی کے ذمہ داران کو سعودی عرب سے فون پر جونہی یہ اطلاع موصول ہوئی، ملک کے معروف علماء کو اس افسوسناک خبرسے مطلع کیاگیا۔ ملک کے اخبارات وجرائد میں اس خبر کی اشاعت کے لئے تمام نشریاتی اداروں کوپریس ریلیز فیکس کئے گئے۔جن میں سعودی سفارتخانہ سے بھجوائے جانے والے عربی اخبارات کے تراشوں سے استفادہ بھی کیا گیا۔لاہور میں نمازِ جنازہ کا سب سے بڑا اجتماع جامعہ لاہور الاسلامیہ میں ہوا جہاں حافظ عبد الرحمن مدنی نے خطبہ جمعہ کے بعد بہت بڑے مجمع کے سامنے شیخ کے فضائل بیان کرنے کے بعد غائبانہ جنازہ پڑھایا۔
شیخ کی وصیت
شیخ مرحوم نے مسلمان حکام اور رعایا کو قرآن مجید میں غوروخوض کرنے اور اس کی تفسیر کو سیکھنے کے علاوہ دین اسلام کو چہار سوئے عالم پھیلا دینے کی وصیت کی۔ اسی طرح انهوں نے حکمرانوں کی اطاعت اور باہمی تالیف ِقلبی کی وصیت کی کہ حاکم اور رعایا کے درمیان دلی اور ذہنی ہم آہنگی نہایت ضروری ہے۔ شیخ کی یہ وصیت سعودی وزراء اور حکمرانوں کے لئے تھی۔
شیخ کے متعلق معاصر علماء کے تعریفی کلمات
اگرچہ شیخ کی شخصیت کسی شخص کے تزکیہ و تعارف کی محتاج نہیں ہے لیکن پھر بھی بعض معروف اہل علم کے ثنائیہ کلمات پیش خدمت ہیں۔ سعودی عرب کے مفتی سماحة الشیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ آلِ شیخ آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:
«عالم فاضل ذوعلم و فضل وتواضع و أخلاق عالية»
"شیخ ابن عثیمین علم و فضل کے حامل ، نہایت متواضع اور اخلاق عالیہ سے متصف تھے"
وہ مزید فرماتے ہیں:
"ہمیں 'سینئر علماء بورڈ' میں آپ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ آپ علم و فضل اورعلمی مسائل میں گہرے غوروخوض کے حامل شخص تھے۔ صحیح بات معلوم ہوجانے کے بعد کبھی اپنی رائے پر اصرار نہ کرتے۔ جب آپ کے سامنے اہل علم کی بات واضح ہوجاتی تو حق کی طرف لوٹنے میں معمولی تاخیرنہ کرتے۔ اللہ آپ کو معاف فرمائے، جب اپنے موقف کے خلاف کوئی دلیل آجاتی تو اس پر تعصب کا قطعاً مظاہرہ نہ کرتے"
ہمیں چاہئے کہ اس فقید المثال عالم کی پاکیزہ سیرت سے فائدہ اُٹھائیں۔ اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اپنے تمام اَعمال میں خلوص پیدا کریں۔ خاص طور پر طلب ِعلم میں خلوص نیت کا ہونا نہایت ضروری ہے اور علم بھی وہ جو کتاب اللہ اور رسول اللہ ﷺکی صحیح سنت کے چشمے سے پھوٹنے والا ہو۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ نمونہٴ سلف علامہ الشیخ محمد بن صالح العثیمین پر رحم فرمائے اور مسلمانوں کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ انہیں جنت کے وسیع باغوں میں جگہ دے، ان کے درجات بلند فرمائے او رانہیں روزِقیامت انبیاء، شہداء اور صدیقین کے ساتھ اُٹھائے۔ دیگرعلماءِ کرام کی حفاظت فرمائے، انہیں راہ راست پر قائم رکھے او رمسلمانوں کوان کا احترام اور ان سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے!
کویت کی معروف علمی شخصیت، شیخ عبد الرحمن بن عبد الخالق آپ کے بارے میں فرماتے ہیں :
"شیخ ابن عثیمین ایک مربی عالم اور اسلام اور مسلمانوں کے خیر خواہ تھے جنہوں نے اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنے علم، قلم، تعلیم اور طرزِعمل اور ادب کو پوری دنیا میں پھیلایا۔ جب میں رُبع صدی قبل یا اس سے بھی پہلے اولین مرتبہ آپ کی کتب اور رسائل کی معرفت آپ کی شخصیت سے واقف ہوا تو مجھے ان کتب میں ایک متقی، زاہد، محقق اور معلم انسان کی تصویر نظر آئی اور جب آپ مجھ سے واقف ہوئے تو جو کوئی بھی آپ سے ملاقات کرنے جاتا تو اسے میرے لئے سلام کہتے۔
لیکن جب میں آپ سے ملا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آپ تو تواضع و انکساری، اَخلاقِ عالیہ، دنیا سے بے رغبتی، دین اسلام سے محبت اور تمام مسلمانوں کے لئے خیر خواہی، اسلام میں پیدا کئے جانے والے رخنوں کو بند کرنے اور پوری دنیا میں مسلمانوں کے معاملات سے دلچسپی رکھنے کے اعتبار سے سلف صالحین کی مثال ہیں۔ اور جب میری آپ سے مجلس ہوئی اور میں نے آپ کو قریب سے دیکھا تو مجھے آپ ایک خداطلب اور آخرت پرست انسان نظر آئے جن کے ہاں دنیا کسی شمارمیں نہیں تھی مگر اتنی کہ آپ اس سے گزر کر دارِآخرت کو سدھار گئے۔
آپ نے پچاس سال سے زائد عرصہ تک تعلیم و تعلّم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ دین و اسلام کی نشرواشاعت اور اس کے مطابق عمل کا فریضہ انجام دیا۔ آپ ایک مربی اور باعمل عالم تھے۔ آپ نے ہر جگہ اپنے علم و عمل کے پودے لگائے اور سب سے بہترین فصل ارض چیچنیا سے کاٹی جو آپ نے یورپ میں امریکیوں کے خلاف بوئی تھی۔ ہر علاقے اور ہر ملک میں آپ کے لگائے ہوئے تروتازہ پھول بلکہ طول طویل پودے موجود ہیں جو ہر وقت اللہ کے حکم سے اپنا پھل دے رہے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے ، جسے چاہے عنایت کردے!!
ہمارے شیخ اور متبحر عالم اپنے بھائیوں اور ساتھیوں کے پیچھے چلے گئے کہ اگر ان میں سے کسی ایک کا ذکر آتا تو سب کا تذکرہ ہوتا اور یوں کہا جاتا: ابن باز، ابن عثیمین اور علامہ البانی۔ آج جب ہم اپنے دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور مشرق و مغرب میں اپنی نگاہ دوڑاتے ہیں تو ہماری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آتی ہے۔ عالم اسلام پر ایک آنسو تھا جو میں دنیا کے آخری مصلح کے چلے جانے کے بعد بہا رہا ہوں۔"

٭٭٭٭٭