اِسلام میں بنیادی حقوق

اسلام میں فطری حقوق کا تصور
اللہ تعالی کی حمد وثنا کے بعد، شریعت ِالٰہیہ کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں عدل کا لحاظ رکھا گیا ہے تاکہ ہر صاحب ِحق کو کسی کمی بیشی کے بغیر اس کا حق دیا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے عدل، احسان اور قریبی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا۔ عدل کے ساتھ ہی رسول بھیجے اور کتابیں نازل کیں اور عدل سے ہی دنیا و آخرت کے اُمور قائم ہیں۔
عدفی کا معنی 'برابری کرنا' ہے، ہرصاحب ِحق کو اس کا پورا پورا حق دینا۔ یہ بات تب ہی پوری ہوسکتی ہے جب حقوق کی معرفت حاصل ہو تاکہ مستحق کو اس کا حق دیا جاسکے۔ اسی غرض سے ہم نے ان اہم حقوق کی وضاحت اور معرفت کے لئے زیر نظر مضمون لکھا ہے تاکہ ہر شخص حسب ِاستطاعت انہیں ادا کرسکے۔ اِن حقوق کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
(۱) اللہ تعالیٰ کے حقوق (۲) نبی کریم ﷺ کے حقوق (۳) والدین کے حقوق (۴) اَولاد کے حقوق
(۵) قریبی رشتہ داروں کے حقوق (۶) میاں بیوی کے حقوق (۷) ہمسایوں کے حقوق (۸) حاکموں اور رعیت کے حقوق (۹) عام مسلمانوں کے حقوق (۱۰) غیر مسلموں کے حقوق
(۱) اللہ تعالیٰ کا حق
اللہ تعالیٰ کا حق تمام حقوق سے زیادہ ضروری اور سب سے اہم ہے۔ کیونکہ وہ اس کائنات کا خالق ومالک اور تمام تر اُمور کی تدبیر کرنے والا ہے۔ وہ زندہٴ جاوید ہستی جو تمام کائنات کا نظام سنبھالے ہوئے ہے۔ اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور حکمت ِبالغہ سے اس کا اندازہ کیا۔ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اسی انسان کو اپنے احسانات یاد کرائے کہ اے انسان! تجھ پر اس ذات کا حق ہے جس نے نعمتوں کے ساتھ تیری پرورش کی۔ تو اپنی ماں کے پیٹ میں تین قسم کے اندھیروں میں تھا۔ جہاں مخلوقات میں سے کوئی بھی تجھے غذا یا ایسی اشیاء نہیں پہنچا سکتا تھا جو تیری افزائش اور زندگی کو قائم رکھنے والی ہوں۔ اسی نے ماں کی چھاتیوں میں وافر دودھ اُتارا اور تجھے اس کی راہ دکھلائی، تیرے والدین کو تیرے لئے مسخر بنا دیا ۔ تیری اِمداد کی اور تجھے تیار کیا :
﴿وَاللَّهُ أَخرَ‌جَكُم مِن بُطونِ أُمَّهـٰتِكُم لا تَعلَمونَ شَيـًٔا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمعَ وَالأَبصـٰرَ‌ وَالأَفـِٔدَةَ ۙ لَعَلَّكُم تَشكُر‌ونَ ٧٨ ﴾..... سورة النحل "اور اللہ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا جبکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے اور تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے تاکہ تم شکر کرو"
اے انسان! اگر اللہ تعالیٰ لمحہ بھر کے لئے اپنا فضل اور رحمت روک لے تو تو ہلاک ہوجائے۔ جب انسان پر اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل اور اس کی رحمت ہے تو پھر اس کا حق بھی تمام حقوق سے زیادہ ضروری اور اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان سے رِزق مانگتا ہے نہ کھانا۔ ارشادِ ربانی ہے
﴿لا نَسـَٔلُكَ رِ‌زقًا ۖ نَحنُ نَر‌زُقُكَ ۗ وَالعـٰقِبَةُ لِلتَّقوىٰ ١٣٢ ﴾..... سورة طه
"ہم تجھ سے رزق نہیں مانگتے، رزق تو ہم خود تجھے دے رہے ہیں اور (بہتر) انجام تقویٰ ہی کا ہے"
اللہ تعالیٰ تجھ سے صرف ایک ہی چیز کا مطالبہ کرتا ہے جس میں تیرا ہی فائدہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تو اس اکیلے کی عبادت کرے جس کا کوئی شریک نہیں:
﴿وَما خَلَقتُ الجِنَّ وَالإِنسَ إِلّا لِيَعبُدونِ ٥٦ ما أُر‌يدُ مِنهُم مِن رِ‌زقٍ وَما أُر‌يدُ أَن يُطعِمونِ ٥٧ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّ‌زّاقُ ذُو القُوَّةِ المَتينُ ٥٨ ﴾....سورة الذاريات
"میں نے جنات اور انسانوں کو پیدا ہی اس لئے کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں، میں ان سے رزق نہیں چاہتا، نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں۔ اللہ ہی خود رزق دینے والا، زور آور (اور) مضبوط ہے۔"
وہ تجھ سے یہ چاہتا ہے کہ عبودیت کے ہرپہلو سے تو اس کا بندہ بن جائے۔ جیسا کہ ربوبیت کے ہر پہلو سے وہ تیرا پروردگار ہے۔ ایسا بندہ جو صرف اسی کے سامنے عجز و انکساری کا اظہار کرے اور ا س کی مکمل اطاعت کرے کیونکہ اس نے تجھے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔کیا ایسے منعم حقیقی کی نافرمانی کرتے ہوئے تجھے شرم محسوس نہیں آ ئے گی؟
اگر لوگوں میں سے کسی کا تجھ پر احسان ہوتا تو (اے انسان) تو اس کی نافرمانی اور مخالفت پر اُتر آنے سے ضرور شرماتا۔ پھر اپنے پروردگار سے تیرا معاملہ کیسا ہے کہ جو کچھ بھی تیرے پاس ہے وہ اسی کے فضل سے ہے اور اگر تجھ پر کوئی مصیبت نہیں آتی۔ تو وہ صرف اسی کی رحمت سے رکی ہوئی ہے، اللہ نے فرمایا:
﴿وَما بِكُم مِن نِعمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ ثُمَّ إِذا مَسَّكُمُ الضُّرُّ‌ فَإِلَيهِ تَجـَٔر‌ونَ ٥٣ ﴾..... سورة النحل
"تمہیں جوبھی نعمت میسر ہے، وہ اللہ ہی کی طرف سے ہے پھرجب تمہیں کوئی دکھ پہنچتا ہے تو تم اس کی طرف گریہ زاری کرتے ہو"
اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے صرف یہ حق واجب کیا ہے کہ اس کی خالص عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کیا جائے۔ جسے اللہ تعالیٰ توفیق دے، اسے یہ حق ادا کرنا نہایت ہی آسان ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَجـٰهِدوا فِى اللَّهِ حَقَّ جِهادِهِ ۚ هُوَ اجتَبىٰكُم وَما جَعَلَ عَلَيكُم فِى الدّينِ مِن حَرَ‌جٍ ۚ مِلَّةَ أَبيكُم إِبر‌ٰ‌هيمَ ۚ هُوَ سَمّىٰكُمُ المُسلِمينَ مِن قَبلُ وَفى هـٰذا لِيَكونَ الرَّ‌سولُ شَهيدًا عَلَيكُم وَتَكونوا شُهَداءَ عَلَى النّاسِ ۚ فَأَقيمُوا الصَّلو‌ٰةَ وَءاتُوا الزَّكو‌ٰةَ وَاعتَصِموا بِاللَّهِ هُوَ مَولىٰكُم ۖ فَنِعمَ المَولىٰ وَنِعمَ النَّصيرُ‌ ٧٨ ﴾..... سورة الحج
"اوراللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تم کو برگزیدہ کیا اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں بنائی (تمہارے لئے) تمہارے باپ ابراہیم کا دین (پسندکیا) اس نے پہلی کتابوں میں بھی تمہارا نام مسلمان رکھا تھا اور ا س کتاب میں بھی وہی نام رکھا ہے (توجہاد کرو) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ بنو۔ لہٰذا نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو اور اللہ سے وابستہ ہوجاؤ وہی تمہارا کارساز ہے اور وہ بہت ہی اچھا کارساز ہے اور وہ خوب مددگار ہے"
یہ ہے عمدہ عقیدہ، اور حق کے ساتھ ایمان اور عمل صالح جو بار آور ہے۔ عقیدہ کا قوام محبت و تعظیم اور اس کا پھل اِخلاص و مداومت ہے۔ دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ خطاؤں کو معاف، درجات کو بلند اور دلوں کی اصلاح کرتا ہے۔ اصلاحِ احوال کے لئے حسب ِاستطاعت تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا: ﴿فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا استَطَعتُم﴾..... سورة التغابن
"جہاں تک تم سے ہوسکے، اللہ سے ڈرو"
حضرت عمران بن حصین جب بیمار تھے تو نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا:
«صلّ قائما فإن لم تستطع فقاعدا فإن لم تستطع فعلٰی جنب» (بخاری)
"کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اگر ایسا نہ کرسکو تو بیٹھ کر اور اگر یہ بھی نہ کرسکو تو پھر لیٹے لیٹے پہلو پر ادا کرلو"
زکوٰة : زکوةتیرے مال کا ایک قلیل سا حصہ ہے جسے تو سال میں ایک بار مسلمانوں کی اِمداد کرنے کے لئے فقیروں، مسکینوں، مسافروں، قرض داروں اور زکوٰة کے دوسرے مستحقین کو ادا کرتا ہے جبکہ روزے سال بھر میں صر ف ایک مہینہ ہیں اور اس میں بھی مریض اور مسافر کے لئے رعایت ہے کہ وہ باقی دنوں میں رکھ لے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَن كانَ مَر‌يضًا أَو عَلىٰ سَفَرٍ‌ فَعِدَّةٌ مِن أَيّامٍ أُخَرَ‌.....١٨٥ ﴾..... سورة البقرة
"اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرلے"
بیت اللہ کا حج صاحب ِاستطاعت کے لئے عمر بھر میں صرف ایک دفعہ ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کے بنیادی حقوق ہیں اور جو ان کے علاوہ ہیں تو وہ حالات کے مطابق واجب ہوتے ہیں جیسے جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ۔
میرے بھائی! دیکھئے یہ حق عمل کے لحاظ سے تھوڑا اور اجر کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔ جب تو اسے ادا کرے تو دنیا و آخرت میں سرخرو ہوجائے گا، آگ سے نجا ت پائے گا اور جنت میں داخل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَمَن زُحزِحَ عَنِ النّارِ‌ وَأُدخِلَ الجَنَّةَ فَقَد فازَ ۗ وَمَا الحَيو‌ٰةُ الدُّنيا إِلّا مَتـٰعُ الغُر‌ورِ‌ ١٨٥ ﴾..... سورة آل عمران
"تو جو شخص آگ سے بچا لیا گیا اورجنت میں داخل کیا گیا وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے"
(۲) رسول اللہ ﷺ کا حق
مخلوق کے حقوق میں سے آپ کا حق سب سے زیادہ اہم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنّا أَر‌سَلنـٰكَ شـٰهِدًا وَمُبَشِّرً‌ا وَنَذيرً‌ا ٨ لِتُؤمِنوا بِاللَّهِ وَرَ‌سولِهِ وَتُعَزِّر‌وهُ وَتُوَقِّر‌وهُ وَتُسَبِّحوهُ بُكرَ‌ةً وَأَصيلًا ٩ ﴾..... سورة الفتح"ہم نے آپ کو گواہ، خوشخبری دینے اور ڈرانے والابنا کر بھیجا ہے تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور دل و جان سے اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو"
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
«لا يوٴ من أحدکم حتی أکون أحب إليه من ولدہ ووالدہ والناس أجمعين»
"تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کی اولاد، والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں" (بخاری و مسلم)
نبی کریم ﷺکے حقوق یہ ہیں کہ آپ کی عزت افزائی ، آپ کا احترام اور آپ کی تعظیم کی جائے۔ تعظیم ایسی ہونی چاہئے جس میں مبالغہ ہو، نہ تقصیر۔ آپ کی عزت افزائی اور تعظیم اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ کی مکمل اطاعت کی جائے۔ جیسا کہ آپ کے صحابہ کرام کرتے تھے۔ اس اطاعت کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے ...قریش نے جب عروہ بن مسعود ثقفی کو صلح حدیبیہ کے وقت نبی کریم ﷺسے صلح کی بات چیت کرنے کے لئے بھیجا تو (واپس جاکر) اس نے کہا:
"میں شاہِ ایران، شاہِ روم اور شاہِ حبشہ کے دربار میں گیا ہوں، مگر میں نے کسی بادشاہ کے ساتھیوں کو اس کی ایسی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جیسے محمد(ﷺ) کے اصحاب، آپ کی تعظیم کرتے ہیں۔ جب وہ انہیں حکم دیتے ہیں تو جلد از جلد بجا لاتے ہیں۔ جب وہ وضو کرتے ہیں تو اس کے وضو کے پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ بات کرتے ہیں تو خاموش ہوجاتے ہیں اور تعظیم کی وجہ سے ان کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے۔"
صحابہ کرام اس انداز سے آپ کی تعظیم کیا کرتے تھے باوجودیکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی فطرت میں مکارمِ اخلاق، نرم پہلو اور سہولت ِنفس ودیعت کر رکھے تھے اور اگر آپ سخت طبیعت والے ہوتے تو صحابہ کرام آپ کے ہم نشین نہ بنتے۔
نبی کریم ﷺکے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کی تصدیق کی جائے، جس بات کا آپ نے حکم دیا ہو، وہ بجا لایا جائے اور جس سے منع کیا ہو یا سرزنش کی ہو، اس سے پرہیز کیا جائے اور اس بات پر ایمان ہو کہ آپ کی راہِ ہدایت تمام راہوں سے بہتر، آپ کی شریعت سب شریعتوں سے اکمل اور آپ کی شریعت پر کسی بھی قانون کو مقدم نہ کیا جائے خواہ اس کا ماخذ کچھ بھی ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَلا وَرَ‌بِّكَ لا يُؤمِنونَ حَتّىٰ يُحَكِّموكَ فيما شَجَرَ‌ بَينَهُم ثُمَّ لا يَجِدوا فى أَنفُسِهِم حَرَ‌جًا مِمّا قَضَيتَ وَيُسَلِّموا تَسليمًا ٦٥ ﴾..... سورة النساء
"تمہارے پروردگار کی قسم! یہ لوگ موٴمن نہیں ہوسکتے جب تک آپ کو اپنے تنازعات میں منصف نہ بنائیں او رجو فیصلہ آپ کریں ، اس سے اپنے دل میں کوئی گھٹن محسوس نہ کریں، بلکہ اس فیصلہ کے سامنے سر تسلیم خم کردیں۔ " ... اور فرمایا:
﴿قُل إِن كُنتُم تُحِبّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعونى يُحبِبكُمُ اللَّهُ وَيَغفِر‌ لَكُم ذُنوبَكُم ۗ وَاللَّهُ غَفورٌ‌ رَ‌حيمٌ ٣١ ﴾..... سورة آل عمران
"آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ خود تم سے محبت کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ معاف کردے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے"
اور نبی کریم ﷺکے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ آپ کی شریعت اور ہدایت کا ہر حال میں دفاع کیا جائے۔ اگر حالات اسلحہ کا تقاضا کرتے ہوں اور انسان اس کی قدرت بھی رکھتا ہو تو قوت کے ساتھ دفاع کرے جب دشمن دلائل و شبہات سے حملہ آور ہو تو علم سے اس کا دفاع کرے، اس کے دلائل و شبہات اور تخریبی بیانات کا اِزالہ کرے۔
کسی موٴمن کے لئے ممکن نہیں کہ وہ کسی کو نبی کریم ﷺکی شریعت یا آپ کی ذاتِ کریم پرحملہ کرتے سنے پھر خاموش رہے جبکہ وہ اس کے دفاع کی قدرت بھی رکھتا ہو۔
(۳) والدین کا حق
اولاد پر والدین کو جو فضیلت حاصل ہے، اس کا انکار ممکن نہیں کیونکہ والدین ہی اولاد کے وجود میں آنے کا ذریعہ ہیں لہٰذا ان کا اس پر بڑا حق ہے۔ ان دونوں نے اسے بچپن میں پالا، اسے ہر طرح کا آرام پہنچانے کے لئے خود تکلیفیں برداشت کیں۔ اے انسان! تیری ماں نے تقریباً نو ماہ تک تجھے اپنے پیٹ میں اُٹھائے رکھا اور اس کا خون تیری غذا کا باعث بنا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿حَمَلَتهُ أُمُّهُ وَهنًا عَلىٰ وَهنٍ﴾..... سورة القمان
"اس کی ماں نے اسے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر اپنے پیٹ میں رکھا"
پھر اس کے بعد دو سال دودھ پلانے کا معاملہ ہے جس میں تھکن بھی ہوتی ہے، کوفت بھی اور صعوبت بھی۔ اسی طرح باپ تیری زندگی اور بقا کے لئے بچپن سے ہی دوڑ دھوپ کرنے لگا حتیٰ کہ تو خود کھڑا ہونے کے قابل ہوگیا اور تجھے قابل عزت بنانے کے لئے کوشش کرتا رہا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اولاد کو والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا، ارشادِ ربانی ہے:
﴿وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِو‌ٰلِدَيهِ حَمَلَتهُ أُمُّهُ وَهنًا عَلىٰ وَهنٍ وَفِصـٰلُهُ فى عامَينِ أَنِ اشكُر‌ لى وَلِو‌ٰلِدَيكَ إِلَىَّ المَصيرُ‌ ١٤ ﴾..... سورة لقمان
"اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے بارے میں تاکیدی حکم دیا اس کی ماں نے تکلیف پر تکلیف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال کے اندر اس کا دودھ چھڑانا ہے، کہ تو میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کر (اور) لوٹ کر تجھے میری ہی طرف آنا ہے"...نیز فرمایا:
﴿وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا ۚ إِمّا يَبلُغَنَّ عِندَكَ الكِبَرَ‌ أَحَدُهُما أَو كِلاهُما فَلا تَقُل لَهُما أُفٍّ وَلا تَنهَر‌هُما وَقُل لَهُما قَولًا كَر‌يمًا ٢٣ وَاخفِض لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّ‌حمَةِ وَقُل رَ‌بِّ ار‌حَمهُما كَما رَ‌بَّيانى صَغيرً‌ا ٢٤ ﴾..... سورة اسرائيل
"اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر تمہارے سامنے ان دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کوپہنچ جائیں تو انہیں 'اُف' بھی نہ کہنا اور نہ ہی انہیں جھڑکنا اور ان سے ادب سے بات کرنا اور ان دونوں کے سامنے رحم سے عاجزی کا پہلو جھکا دو اور دعاکرو کہ اے میرے پروردگار! ان دونوں پررحم فرما جیسے کہ انہوں نے بچپن کی حالت میں مجھے پالا تھا"
والدین کا تجھ پر یہ حق ہے کہ تو ان سے نیکی کرے اور یہ ا س طرح ہوگا کہ تم ہر لحاظ سے ان سے بہتر سلوک کرو۔ ان کا حکم بجا لاؤ، اگر اس میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو تو پھر نہیں۔ ان سے بات نرمی سے کرو اور خندہ پیشانی سے پیش آؤ۔ ان کے مناسب ِحال ان کی خدمت کرو۔ نیز بڑھاپے، بیماری اور کمزوری کے وقت ان کو جھڑکو نہیں اور اس بات کو بوجھ بھی محسوس نہ کرو۔ کیونکہ کچھ وقت بعد تم بھی ان کے مقام پر پہنچنے والے ہو۔ تم بھی باپ بن جاؤ گے جیسا کہ وہ تمہارے والدین ہیں اور عنقریب تم بھی اپنی اولاد کے سامنے بوڑھے ہوجاؤ گے جیسا کہ وہ تمہارے سامنے بوڑھے ہوئے ہیں اور تم بھی اپنی اولاد سے نیکی کے محتاج ہوگے جیسا کہ آج وہ ہیں۔ اگر آج تم ان سے نیکی کر رہے ہو تو تمہیں بہت بڑے اجر اور اولاد سے ایسے ہی سلوک کی خوشخبری ہو۔ کیونکہ جس نے اپنے والدین سے نیکی کی، اس کی اولاد اس سے نیکی کرے گی اور جس نے والدین کو ستایا، اس کی اولاد ضرور اسے ستائے گی۔ یہ مکافاتِ عمل ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ اللہ تعالیٰ نے والدین کے حق کو بڑی اہمیت دی ہے، اسی لئے اس نے اپنے حق (عبادت) کے ساتھ والدین کے حق کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَاعبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشرِ‌كوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا.......٣٦﴾..... سورة النساء
"اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو"
نیز فرمایا: ﴿أَنِ اشكُر‌ لى وَلِو‌ٰلِدَيكَ﴾..... سورة لقمان
کہ " تم میرا شکر اداکرو اور اپنے والدین کابھی"
اور نبی کریم ﷺنے والدین سے نیکی کرنے کے عمل کو جہاد فی سبیل اللہ پر مقدم رکھا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود والی حدیث میں ہے، وہ کہتے ہیں : میں نے پوچھا:
«يارسول الله أي العمل أحب إلی الله؟ قال: الصلوٰة علی وقتها، قلت ثم أي قال: بر الوالدين قلت ثم أي؟ قال: الجهاد في سبيل الله» (بخاری)
"اے اللہ کے رسول ﷺ اللہ کو کون سے عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا میں نے پوچھا پھرکون سا؟ آپ نے فرمایا: والدین سے بہتر سلوک کرنا۔ میں نے کہا: پھر کون سا؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا"
اس حدیث کو بخاری اور مسلم دونوں نے روایت کیاہے اور یہ والدین کے اس حق کی اہمیت پر دلیل ہے جسے اکثر لوگوں نے ضائع کر رکھا ہے۔ وہ ان کو ستاتے اور قطع رحمی کرتے ہیں۔ پھر کچھ ایسے ہیں کہ انہیں حقیر سمجھتے، ڈانٹتے اور ان پر آوازیں بلند کرتے ہیں۔ ایسے لوگ عنقریب اس کا بدلہ پائیں گے!!
(۴) اولاد کا حق
اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں۔ اولاد کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سب سے اہم ان کی اچھی اور صالح تربیت ہے تاکہ وہ معاشرہ کے صالح فرد بن سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا قوا أَنفُسَكُم وَأَهليكُم نارً‌ا وَقودُهَا النّاسُ وَالحِجارَ‌ةُ ....... ٦ ﴾..... سورة التحريم
"اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کاایندھن انسان اور پتھر ہیں"
نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«کلکم راع و کلکم مسئول عن رعيته، والرجل راع في أهله ومسئول عن رعيته»
"تم میں سے ہر کوئی حکمران ہے اور ہر کوئی اپنی رعیت کے متعلق جواب دہ ہے اور آدمی اپنے گھر کا حکمران ہے، اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی" (بخاری و مسلم)
اولاد والدین کے لئے امانت ہے اور قیامت کے دن وہ اولاد کے متعلق جواب دہ ہوں گے۔ اگر انہوں نے اولاد کی تربیت اسلامی انداز سے کی ہوگی تو وہ والدین کے لئے دنیا وآخرت میں باعث ِراحت ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَالَّذينَ ءامَنوا وَاتَّبَعَتهُم ذُرِّ‌يَّتُهُم بِإيمـٰنٍ أَلحَقنا بِهِم ذُرِّ‌يَّتَهُم وَما أَلَتنـٰهُم مِن عَمَلِهِم مِن شَىءٍ ۚ كُلُّ امرِ‌ئٍ بِما كَسَبَ رَ‌هينٌ ٢١ ﴾..... سورة الطور
"جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ایمان لانے میں ان کے پیچھے چلی ہم ان کی اولاد کو بھی ان (کے درجے تک) پہنچا دیں گے اور والدین کے اَعمال سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے کئے ہوئے اعمال کے عوض رہن ہے"
نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«إذا مات العبد انقطع عمله إلا من ثلاث: صدقة جارية، أو علم ينتفع به من بعدہ أو ولد صالح يدعو له»
"جب بندہ مرجاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہوجاتا ہے مگر تین عمل باقی رہتے ہیں: صدقہ جاریہ، ایسا علم کہ لوگ اس کے بعد اس سے فائدہ اٹھائیں یا صالح اَولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے" (بخاری، مسلم)
یہ اولاد کی تربیت کا ثمر ہے۔ جب ان کی صالح تربیت کی جائے تو وہ والدین کے لئے ان کی زندگی میں بھی فائدہ مند ہوتی ہے اور ان کی وفات کے بعد بھی۔
بہت سے والدین اولاد کے حق کو معمولی سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو ضائع کرتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے بارے میں ان سے بازپرس ہوگی۔ وہ اپنی اولاد کے مشاغل اور ان کی سرگرمیوں سے غافل ہوتے ہیں، انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد کیا کررہی ہے۔ وہ کہاں جاتے ہیں اور کب واپس گھر آتے ہیں۔ وہ انہیں نیکی کی طرف توجہ دلاتے ہیں نہ بری خصلتوں سے منع کرتے ہیں اور عجیب تر بات یہ ہے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت اور اس کو بڑھانے میں سخت حریص ہوتے ہیں اور ہر اس بات کے لئے بیدار رہتے ہیں جو اس معاملہ کی اصلاح کرے۔ حالانکہ انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس مال کو وہ بڑھا رہے ہیں وہ دوسروں کا ہے۔ رہا اولاد کا مسئلہ تو یہ ان کی نظروں میں کچھ نہیں ہوتا۔ حالانکہ ان کی نگہداشت دنیا اور آخرت دونوں لحاظ سے ان کے لئے بہتر اور مفید تھی۔ نیز جیسے والد پر بچے کی خوردونوش اور پوشاک کی ذمہ داری ہے، ایسے ہی اپنے بچے کے دل کو علم و ایمان کی غذا مہیا کرنااور تقویٰ کا لباس پہنانا بھی واجب ہے اور یہ بات پہلی سے کہیں بہتر ہے...!
اولاد کے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ ان پر دستور کے مطابق خرچ کیا جائے جس میں اِسراف ہو نہ بخل کیونکہ اولاد پر خرچ کرنا اس کی لازمی ذمہ داری ہے اور اس میں اللہ کی نعمت کا شکر بھی ہے۔
اولاد کے حق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اولاد کو ہبہ اور عطیہ دینے میں کسی ایک کو دوسرے پر فضیلت نہ دے کہ کسی کو کچھ دے دے اور دوسرے کو محروم رکھے۔ کیونکہ یہ جور اور ظلم ہے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ نیز اس سے خاندانی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوجاتاہے۔
صحیحین یعنی بخاری اور مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ ان کے والد بشیر بن سعد نے انہیں ایک غلام ہبہ کیا اور نبی کریم ﷺکو یہ بات بتلائی تو آپ نے فرمایا: "کیا تو نے اپنے ہر بیٹے کو ایک ایک غلام ہبہ کیا ہے؟" بشیر کہنے لگے: نہیں! آپ نے فرمایا: "تو پھراس غلام کو واپس لے لے" اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
«اتقوا الله واعدلوا بين أولادکم» (بخاری و مسلم)
"اللہ سے ڈرو، اوراپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو"
ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں:
«أشهد علی هذا غيري فإني لا أشهد علی جور» (بخاری و مسلم)
"اس معاملہ پر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنا لو، میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا"
حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ا نے اولاد میں سے کسی ایک کو دوسروں پر فضیلت دینے کا نام جور رکھا اور جور کا معنی 'ظلم' ہے جو حرام ہے۔
لیکن اگر کسی بیٹے کو ایسی چیز دے جس کی اس کو تو ضرورت ہو لیکن دوسروں کو ضرورت نہ ہو۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تخصیص یا فضیلت کی بنا پر نہیں بلکہ حاجت کی بنا پر ہے۔ لہٰذا یہ نفقہ ہی کی صورت ہے اور جب والد وہ تمام باتیں جو اس پر واجب ہیں پوری کردے جیسے تربیت اور نفقہ وغیرہ تو وہ اس بات کا مستحق ہے کہ اولاد اس سے نیکی کرے اور اس کے حقوق کا خیال رکھے۔
(۵) قریبی رشتہ داروں کا حق
اسلام میں جس طرح باقی حقوق کا تحفظ ہے، ایسے ہی قرابت داروں اور رشتہ داروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا گیا ہے اور انہیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَءاتِ ذَا القُر‌بىٰ حَقَّهُ........٢٦ ﴾...... سورة اسرائيل
"قرابت دار کو اس کا حق ادا کرو"
نیز فرمایا:
﴿وَاعبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشرِ‌كوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا وَبِذِى القُر‌بىٰ.......٣٦ ﴾...... سورة النساء
"اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، والدین اور قرابتداروں سے بھلائی کرو"لہٰذا ہر قریبی پر واجب ہے کہ وہ اپنے قریبی سے صلہ رحمی کرے۔ اس کی مالی اور اخلاقی لحاظ سے ہر ممکن مدد کرے اور یہ ایسی بات ہے جس کا شرع، عقل اور فطرت سب تقاضا کرتی ہیں۔صلہ رحمی پر اُبھارنے کیلئے بہت سی احادیث ہیں۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے خلقت کو پیدا کیا جب اس سے فارغ ہوا تو رحم کھڑا ہوگیا اورکہنے لگا: میں قطع رحمی سے تیری پناہ مانگتا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اچھا کیا تو اس بات سے خوش نہیں کہ میں اسے ملاؤں جو تجھے ملائے اور اس کو قطع کروں جو تجھے قطع کرے؟ 'رحم' نے کہا: کیوں نہیں! اللہ نے فرمایا: تو یہ بات تیرے لئے منظور ہے"...پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:
﴿فَهَل عَسَيتُم إِن تَوَلَّيتُم أَن تُفسِدوا فِى الأَر‌ضِ وَتُقَطِّعوا أَر‌حامَكُم ٢٢ أُولـٰئِكَ الَّذينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُم وَأَعمىٰ أَبصـٰرَ‌هُم ٢٣ ﴾..... سورة محمد
"(اے منافقو) تم سے عجب نہیں کہ اگر تم حاکم ہوجاؤ تو ملک میں خرابی کرنے لگو اور اپنے رشتوں کو توڑ ڈالو۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اوران کو بہرا اوران کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے"
اور نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«من کان يوٴمن بالله واليوم الآخر فليصل رحمه» المسند الجامع: ۱۷/۱۴۰۳۵
"جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے"
بہت سے لوگ ہیں جو اِس حق کو ضائع کر رہے ہیں اورکچھ اس میں کمی کرتے ہیں۔ آپ ایسے لوگ بھی دیکھیں گے جو قرابت داری کا مطلق خیال نہیں کرتے۔ ان کی مالی یا اخلاقی لحاظ سے کسی طرح بھی مدد نہیں کرتے۔ دن اور مہینے گزر جاتے ہیں کہ وہ انہیں دیکھتے بھی نہیں۔ انہیں ملنے جاتے ہیں، نہ ان کو کوئی ہدیہ بھیجتے ہیں بلکہ انہیں ہر لحاظ سے دکھ پہنچانے کے لئے منصوبہ بندی کرتے رہتے ہیں۔
اورکچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اگر قریبی رشتہ دار صلہ رحمی کریں تو وہ بھی کرتے ہیں اور اگر وہ تعلقات توڑ دیں تو یہ بھی توڑ دیتے ہیں۔ ایسا آدمی حقیقتاً تعلق جوڑنے والا نہیں بلکہ یہ تواَدلے کا بدلہ ہے۔ دراصل تعلق جوڑنے والا وہ ہے جو انہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر جوڑے اور پرواہ نہ کرے کہ دوسرا بھی اتنا تعلق جوڑتا ہے یا نہیں جیسا کہ بخاری میں عبداللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا:
"اَدلے کا بدلہ دینے والا 'واصل' (تعلق جوڑنے والا) نہیں۔ 'واصل' تو وہ ہے کہ اگر تو قطع رحمی کرے تو وہ پھر بھی جوڑے"
کسی نے رسول ﷺسے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں، میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں لیکن وہ قطع کرتے ہیں، میں ان سے بہتر سلوک کرتا ہوں لیکن وہ مجھ سے بُرا سلوک کرتے ہیں، میں انکی باتیں برداشت کرتا ہوں لیکن وہ مجھ پر جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔نبیﷺنے یہ سن کر فرمایا:
"اگر بات ایسی ہے جیسی کہ تو نے کہی ہے توگویا تو نے ان کے چہروں کو خاک آلود کردیا اور جب تک تو اس حالت پر برقرار رہے گا۔ ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ ایک مددگار ہے" (اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا)
صلہ رحمی میں صرف یہی بات نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ صلہ رحمی کرنے والے کو دنیا و آخرت میں اپنے احسان کا مستحق بنا کر اس پر رحمت پھیلا دیتا ہے، اس کے کام آسان بنا کر اس کی سختیاں دور کردیتا ہے بلکہ صلہ رحمی سے خاندان میں باہمی قربت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔رشتہ دار ایک د وسرے پر مہربان ہوتے اور مصائب میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں جس کے نتیجہ میں انہیں مسرت اور راحت حاصل ہوتی ہے یہ بات تجربہ شدہ اور جانی پہچانی ہے۔اور جب قطع رحمی کی جائے تو یہ سب فوائد اس کے برعکس بن جاتے ہیں اور قریبی رشتہ دار دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔
(۶) میاں بیوی کا حق
شادی کے اَثرات بڑے دور رَس اور اس کے تقاضے بہت اہم ہیں۔ میاں اور بیوی کا باہمی تعلق کچھ اس طرح کا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے دوسرے پر مالی، بدنی اور اجتماعی حقوق عائد ہوتے ہیں۔ لہٰذا زوجین میں سے ہرایک کے لئے ضروری ہے کہ دستور کے مطابق رہن سہن رکھے اور ہر ایک دوسرے کے واجبی حق کو نہایت فراخدلی کے ساتھ کسی کراہت اور ٹال مٹول کے بغیر سرانجام دے۔ اللہ نے فرمایا:
﴿وَعاشِر‌وهُنَّ بِالمَعر‌وفِ.......١٩ ﴾..... سورة النساء
"اور بیویوں کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو"
نیز فرمایا:
﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعر‌وفِ ۚ وَلِلرِّ‌جالِ عَلَيهِنَّ دَرَ‌جَةٌ...... ٢٢٨ ﴾...... سورة البقرة
"اور عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے البتہ مردوں کو ان پرفضیلت حاصل ہے"
جس طرح عورت پر واجب ہے کہ اپنے خاوند کے حقوق ادا کرے، ویسے ہی خاوند کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کے حقوق ادا کرے ۔ جب تک زوجین میں سے ہر ایک ان حقوق کا خیال رکھتا ہے جو ان پر عائد ہوتے ہیں تو ان کی زندگی خوشگوار اور پرسکون بسر ہوتی ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو اس کا نتیجہ ضد اور جھگڑا ہوگا اور زندگی تلخ ہوجائے گی۔
بیوی سے اچھا سلوک کرنے کے متعلق بہت سی احادیث ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«استوصوا بالنساء خيرا فإن المرأة خلقت من ضلع وإن أعوج ما في أعلاہ فإن ذهبت تقيمه کسرته وإن ترکته لم يزل أعوج فاستوصوا بالنساء» (بخاری و مسلم)
"عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور کسی طرح تمہارے لئے سیدھی نہ ہوگی اور پسلی کا سب سے زیادہ ٹیڑھا حصہ وہ ہے جو اس کا بلند حصہ ہے اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ دے گا اور اگر چھوڑ دے گا تو ٹیڑھی ہی رہے گی لہٰذا عورتوں سے اچھا سلوک کرو"
ایک اور روایت میں ہے:
«إن المرأة خلقت من ضلع ولن تستقيم لک علی طريقة فإن استمتعت بها إستمتعت بها وفيها عوج وإن ذهبت تقيمها کسرتهاو کسرها طلاقها» (مسلم)
"عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور کسی طرح تمہارے لئے سیدھی نہ ہوگی۔ لہٰذااگر تو اس سے اِسی حال میں فائدہ اٹھا سکتا ہے تو اُٹھا لے اور اس میں ٹیڑھ ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے گا تو اسے توڑ ڈے گا اور اس کا توڑنا اس کو طلاق دینا ہے"
نیز آپ ﷺنے فرمایا:
«لا يفرک موٴمن موٴمنة إن کرہ منها خُلقا رضی منها خلقا آخر» (مسلم)
"کوئی موٴمن مرد، موٴمن عورت (اپنی بیوی) سے بغض نہ رکھے کیونکہ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہے تو کوئی دوسری پسند بھی ہوگی"
اور لا يفرک کا معنی 'بغض نہ رکھنا' ہے۔ ان احادیث میں نبی کریم ﷺکی اپنی اُمت کو ہدایت ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے کیسا برتاؤ کرے، اسے چاہئے کہ جو کچھ بیوی سے میسر آئے لے لے۔ کیونکہ جس طبیعت پر وہ پیدا کی گئی ہے وہ کامل اندازپر نہیں ہے بلکہ اس میں ٹیڑھ ہونا لازمی ہے اور آدمی اسی طبیعت سے اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جس پر وہ پیدا کی گئی ہے۔ ان احادیث میں ہدایت بھی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ اپنی بیوی کی خوبیوں اور خامیوں کا موازنہ کرے۔ کیونکہ اگر اسے اس کی کوئی عادت ناپسند ہوگی تو اس کے ساتھ دوسری عادت ایسی بھی ہوگی جو اسے پسند ہوگی۔ لہٰذا اس کی طرف صرف ناراضگی اور کراہت کی نظر سے ہی نہ دیکھے...بہت سے شوہر ایسے ہیں جو اپنی بیویوں کو درجہ کمال پر دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ یہ ناممکن ہے۔ اسی لئے ان کی گزران تنگ ہوجاتی ہے اور وہ اپنی بیویوں سے فائدہ اُٹھانے کے قابل نہیں رہتے جس کا نتیجہ بسا اوقات طلاق ہوتا ہے جیسا کہ آپﷺ نے فرمایا:
"اگر تو اسے سیدھا کرنے لگے تو اسے توڑ دے گا اور اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے"
لہٰذا خاوند کو چاہئے کہ بیوی سے اگر کوئی غلطی ہوجائے تو اس سے درگزر کرے، بشرطیکہ وہ دین اور شرافت سے خالی نہ ہو۔
بیوی کے خاوند پر حقوق
خاوند، بیوی کے کھانے، پینے ، پوشاک اور اس کے لوازمات کا ذمہ دار ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَعَلَى المَولودِ لَهُ رِ‌زقُهُنَّ وَكِسوَتُهُنَّ بِالمَعر‌وفِ........٢٣٣ ﴾....... سورة البقرة
"اور دستور کے مطابق ان کی خوراک اور پوشاک بچے کے باپ کے ذمہ ہے"
نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«وَلَهُنَّ عَلَيْکُمْ رِزْقُهنَّ وَکِسْوَتُهنَّ بِالْمَعْرُوْفِ» (ترمذی)
"اور دستور کے مطابق تمہاری بیویوں کی خوراک اور پوشاک تمہارے ذمہ ہے"
آپﷺ سے پوچھا گیا کہ بیوی کا مرد پر کیا حق ہے تو آپ نے فرمایا:
«أن تطعمها إذا طعمت وتکسوهاإذا اکتسيت ولا تضرب الوجه ولا تقبح ولاتهجر إلا في البيت»
"جب تو کھانا کھائے تو اسے کھانا کھلا اور جب تو پہنے تو اسے بھی پہنا اور اس کے منہ پر نہ مار، نہ اسے برا بھلا کہہ، نہ ہی اس سے قطع تعلق کر مگر یہ کہ گھر کے اندر ہو" (رواہ احمد، ابوداود، و ابن ماجہ)
بیوی کا ایک حق یہ ہے کہ اس سے عدل کیا جائے۔ اگر خاوند کی دوسری بیوی ہو تو ان دونوں کے اخراجات، رہائش، شب بسری غرضیکہ تمام اُمور میں ممکن حد تک عدل کرے کیونکہ ان میں سے ایک کی جانب میلان رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«من کانت له امرأ تان فمَالَ إلی إحداهما جاء يوم القيامة و شقه مائل» (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ و ابوداود)
"جس کی دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کی طرف مائل ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو جھکا ہوگا"
البتہ وہ اُمور جن میں عدل ممکن نہ ہو جیسے محبت اوردل کی خوشی تو ان میں خاوند پرکچھ گناہ نہیں کیونکہ یہ اس کے بس میں نہیں ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ وَلَن تَستَطيعوا أَن تَعدِلوا بَينَ النِّساءِ وَلَو حَرَ‌صتُم........١٢٩ ﴾....... سورة النساء
"اگر تم چاہو بھی تو اپنی بیویوں کے درمیان عدل نہ کرسکو گے"
اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں کے درمیان شب بسری کی باری مقرر کر رکھی تھی۔ آپ عدل کرتے اور فرماتے :
«اللهم هذا قسمي فيما أملک فلا تلمني فيما تملک ولا أملک»
"اے اللہ! یہ میری تقسیم ایسے معاملہ میں ہے جس میں میرا اختیار ہے اور جس بات میں تیرا اختیار ہے میرا نہیں، اس پر مجھے ملامت نہ کرنا" (ابوداود، ترمذی، نسائی و ابن ماجہ)
لیکن اگر کوئی بیوی شب بسری کے معاملہ میں اپنی خوشی سے دوسری بیوی کو فضیلت دے دے تو کوئی حرج نہیں۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے حضرت عائشہ کی باری ایک دن مقرر کی تھی پھر حضرت سودہ نے اپنی باری بھی حضرت عائشہ  کوہبہ کردی۔
رسول اللہ ﷺ اس بیماری کے دوران جس میں آپ نے وفات پائی پوچھا کرتے تھے: کل میں کہاں ہوں گا، کل میں کہاں ہوں گا ...؟ تو آپ کی بیویوں نے آپ کو اجازت دے دی کہ آپ جہاں چاہیں رہیں پھر آپ حضرت عائشہ کے گھر تشریف فرما رہے تاآنکہ آپ کی وفات ہوگئی۔
خاوند کے بیوی پر حقوق
جس طرح بیوی کے خاوند پر حقوق ہیں، ویسے ہی خاوند کے بیوی پر حقوق ہیں۔البتہ مردوں کو فضیلت حاصل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعر‌وفِ ۚ وَلِلرِّ‌جالِ عَلَيهِنَّ دَرَ‌جَةٌ....... ٢٢٨ ﴾....... سورة البقرة
"عورتوں کا حق (مردوں پر) ویسا ہی ہے جیسا کہ دستور کے مطابق مردوں کا عورتوں پر ہے۔ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے"
مرد اپنی عورت پر حاکم ہے جو اسکی مصلحتوں، تادیب اور عزت کو قائم رکھنے والا ہے۔ اللہ نے فرمایا:
﴿الرِّ‌جالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَمو‌ٰلِهِم.......٣٤ ﴾...... سورة النساء "مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اوراس لئے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں"
مرد کا اپنی بیوی پر ایک حق یہ ہے کہ وہ ہر ایسے کام میں ا س کی (خاوند) اطاعت کرے جس میں اللہ کی نافرمانی نہ ہو اور اس کے راز اور مال کی حفاظت کرے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«لو کنت آمرا أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» (ترمذی)
"اگر میں کسی کو یہ حکم دینے والا ہوتا کہ وہ کسی کو سجدہ کرے تو میں عورت کو حکم دیتا کہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے" ... نیز آپ انے فرمایا:
«إذا دعا الرجل امرأته إلی فراشه فأبت أن تجيیٴ فبات غضبان عليها لعنتها الملائکة حتی تصبح» (بخاری و مسلم)
"جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کردے اور خاوند ناراضگی کی حالت میں رات گزار دے تو صبح تک اس (بیوی) پر فرشتے لعنت بھیجتے رہتے ہیں"
خاوند کا بیوی پر اس قدر حق ہے کہ اگر وہ نفلی عبادت کرنا چاہے تو خاوند سے اجازت حاصل کرے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«لايحل لإمرأة أن تصوم وزوجها شاهد إلا بإذنه ولا تأذن لأحد في بيته إلا بإذنه»
"اگر کسی عورت کا خاوند گھر پر موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر روزہ (نفلی) نہ رکھے اور نہ ہی اس کی اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے" (بخاری)
نیز رسول اللہ ﷺنے خاوند کے اپنی بیوی سے خوش ہونے کو جنت میں داخلہ کے اَسباب میں سے ایک سبب قرار دیا۔ ترمذی نے اُمّ سلمہ  کی حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة» (ترمذی)
"کوئی بھی عورت جو اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو وہ جنت میں داخل ہوگی"
(۷) حکمرانوں اور رعایا کے حقوق
ولاة(حکمران) وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے اُمور کے نگران ہوتے ہیں خواہ یہ ولایت ِ'عامہ' ہو جیسے سلطنت کا رئیس اعلیٰ یا 'خاصہ' ہو جیسے کسی معین ادارہ یا معین کام کا رئیس اوران سب کا اپنی اپنی رعیت پرحق ہوتا ہے جس سے وہ اس کام کو قائم رکھ سکیں، اسی طرح رعیت کا بھی ان پر حق ہے۔
رعایا کے حکمرانوں پر حقوق یہ ہیں کہ وہ اس امانت کو قائم رکھیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے ذمہ ڈالی ہے اور رعیت کی خیرخواہی کے کام سرانجام دینا لازم سمجھیں اور ایسی متوازن راہ پر چلیں جو دنیوی اور اُخروی مصلحتوں کی کفیل ہو اور یہ موٴمنوں کے راستہ کی اتباع سے ہوگا۔یہی وہ طریقہ ہے جو رسول اللہ ﷺ کا تھا کیونکہ اسی میں ان کی، ان کی رعیت اور ان کے ماتحت کام کرنے والوں کی سعادت ہے اوریہی وہ چیز ہے جس میں رعیت زیادہ سے زیادہ اپنے حکمرانوں سے خوش اور ان سے مربوط رہ سکتی ہے۔ ان کے احکام کے سامنے سرتسلیم خم کرسکتی ہے اور اس امانت کی حفاظت بھی ہوسکتی ہے جس کیلئے رعیت نے اسے حاکم بنایا تھا کیونکہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اسے لوگوں سے بچاتا ہے اور جو شخص اللہ کو راضی رکھتا ہے اللہ اسے لوگوں کی رضا مندی اور مدد سے کفایت کرتا ہے کیونکہ دل تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں، وہ جیسے چاہتا پھیر دیتا ہے۔
حکمرانوں کے رعایا پر حقوق یہ ہیں کہ وہ ان حکمرانوں کو خیرخواہی کے جذبہ سے صحیح مشورے دیں انہیں نصیحت کرتے رہیں تاکہ وہ راہِ راست پر قائم رہیں اگر وہ راہِ حق سے ہٹنے لگیں تو انہیں راہِ راست کی طرف بلائیں، ان کے حکم میں اللہ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو تو اسے بجا لائیں۔ کیونکہ اسی صورت میں سلطنت کا کام اور انتظام درست رہ سکتا ہے اور اگر حکمرانوں کی مخالفت اور نافرمانی کی جائے تو انارکی پھیل جائے گی اور سب کام بگڑ جائیں گے ۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی، اپنے رسول اور حکمرانوں کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
﴿ يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّ‌سولَ وَأُولِى الأَمرِ‌ مِنكُم......٥٩ ﴾....... سورة النساء
" ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو، رسول کی اطاعت کرو اور ان حکمرانوں کی جو تم میں سے ہوں"
نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«علی المرء المسلم السمع والطاعة فيما أحب وکرہ إلا أن يوٴمر بمعصية، فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة»
"مسلمان پر لازم ہے کہ وہ سنے اور اطاعت کرے خواہ وہ کام اسے پسند ہو یا ناپسند مگر یہ کہ اسے نافرمانی والا حکم دیا جائے اور جب اللہ کی نافرمانی والا حکم دیا جائے تو پھر نہ سنے اور نہ ہی اطاعت کرے" (بخاری و مسلم)
اس حدیث پر شیخین کا اتفاق ہے اور عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم ﷺکے ساتھ تھے۔ ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو رسول اللہ ﷺ کے منادی نے الصلاة جامعة کی ندا کی۔ ہم سب رسول اللہ ﷺکے پاس اکٹھے ہوگئے، آپ نے فرمایا:
«إنه لم يکن نبي قبلي إلا کان حقا عليه أن يدل أمته علی خير ما يعلمه لهم، وينذرهم شر ما يعلمه لهم وإن أمتکم هذه جُعِل عافيتها في أولها وسيصيب آخرها بلاء وأمور تنکرونها وتجیٴ فتنة فيُرَقِّق بعضها بعضا وتجیٴ الفتنة فيقول الموٴمن هذه مهلکتي ثم تنکشف وتجیٴ الفتنة فيقول الموٴمن: هذه هذه فمن أحب أن يزحزح عن النار ويدخل الجنة، فلتأته منيته وهو يوٴمن بالله واليوم الآخر وليأت إلی الناس الذي يحب أن يوٴتی إليه ومن بايع إماما، فأعطاہ صفقةَ يدِہ وثمرة قلبه، فليُطِعْه إن استطاع فإن جاء اٰخر ينازعه فاضربوا عنق الاخر»
"اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی بھیجا، یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنی اُمت کی اس بھلائی کی طرف راہنمائی کرے جو اللہ تعالیٰ نے نبی کو اُمت کے لئے سکھلائی اور اس برائی سے ڈرائے جو اللہ نے اسے امت کے لئے سکھلائی اور تمہاری اس امت کے ابتدائی دور میں عافیت رکھی گئی ہے، آخری دور میں آزمائش اور ایسے امور پیش آئیں گے جنہیں تم ناپسند کرو گے۔ ایک فتنہ آئے گا جس کا ایک حصہ دوسرے کو کمزور بنا دے گا۔ فتنہ آئے تو موٴمن کہے گا کہ یہ مجھے ہلاک کرڈالے گا اور ایک اور فتنہ آئے گا تو موٴمن کہے گا یہ مجھے ہلاک کردے گا لہٰذا جو شخص چاہتا ہے کہ آگ سے بچا لیا جائے اورجنت میں داخل کیا جائے اسے چاہئے کہ وہ اس حال میں مرے کہ اللہ اور روزِقیامت پرایمان رکھتا ہو اورلوگوں کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے اور جس نے کسی امام کی بیعت کی، اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اوردل سے تسلیم کیا تو اسے چاہئے کہ جہاں تک ہوسکے اس کی اطاعت کرے اور اگر کوئی دوسرا امام آجائے جو اس سے جھگڑا کرے تو اس دوسرے کی گردن اُڑا دو" (بخاری و مسلم)
ایک شخص نے نبی کریم ﷺسے پوچھا " اے اللہ کے نبی! دیکھئے اگر ہم پرایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق تومانگتے ہوں لیکن ہمارا حق نہ دیتے ہوں تو اس کے بارے میں آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے اس شخص سے منہ پھیر لیا۔ اس شخص نے دوسری بار وہی سوال کیا تو رسول ﷺنے فرمایا:
«إسمعوا وأطيعوا فإنما عليهم ما حُمِّلوا وعليکم ما حُمِّلْتُمْ» (مسلم)
"اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ ان کی ذمہ داری کا بار (بوجھ) ان پر ہے اور تمہاری کا تم پر"
حکمرانوں کا رعیت پرایک حق یہ ہے کہ رعیت اہم اُمور میں حکمرانوں کے ساتھ تعاون کرے۔ کیونکہ جو اُمور حکمرانوں کو تفویض کئے گئے ہیں،ان کے نفاذ میں رعیت ان کی مددگار ہوتی ہے۔ نیز امیر کی مسئولیت ہر ایک کو معلوم ہونی چاہئے کیونکہ مسئولیت والے کاموں میں رعایا حکمرانوں کے ساتھ تعاون ہی نہ کرے تو وہ اسے مطلوبہ صورت میں کیسے سرانجام دے سکتے ہیں۔
(۸) ہمسایوں کا حق
ہمسایہ وہ ہے جو آپ کے گھر کے قریب ہو، اس کا تجھ پر بہت بڑا حق ہے۔ اگر وہ نسب میں تم سے قریب ہو اور مسلمان بھی ہو، تو اس کے تین حق ہیں: ہمسائیگی، قرابت داری اوراسلام کا حق۔ اسی طرح وہ نسب میں قریب ہے لیکن مسلمان نہیں تو اس کے دو حق ہیں۔ ایک ہمسائیگی کا اور دوسرا قرابت داری کا، اگر وہ رشتہ میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اس کا ایک حق ہے یعنی ہمسائیگی کا حق۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا وَبِذِى القُر‌بىٰ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينِ وَالجارِ‌ ذِى القُر‌بىٰ وَالجارِ‌ الجُنُبِ......٣٦﴾...... سورة النساء
"ماں باپ، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں (سب) کے ساتھ احسان کرو"نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«مازال جبريل يوصيني بالجار حتی ظننت أنه سيورثه» (بخاری و مسلم)
"جبریل (علیہ السلام) مجھے ہمسایہ کے حقوق کے متعلق اس قدر تاکید کرتے رہے تاآنکہ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ اسے وارث بنا دیں گے"
اس حدیث پر شیخین کا اتفاق ہے۔ ایک ہمسائے کے دوسرے پر حقوق یہ ہیں کہ جہاں تک ہوسکے اس کے ساتھ ہر لحاظ سے بھلائی کرے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«خير الجيران عندالله خيرهم لجارہ »(ترمذی)
"اللہ کے ہاں ہمسایوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے ہمسایہ کے لئے اچھا ہو" نیز فرمایا:
«من کان يوٴمن بالله واليوم الاخر فليحسن إلی جارہ» (مسلم)
"جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اسے اپنے ہمسایہ سے بہتر سلوک کرنا چاہئے"
اور فرمایا:«إذا طبخت مرقة فأکثر ماء هاو تعاهد جيرانک» (مسلم)
"جب تم شوربہ پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈال لو اور اس میں اپنے ہمسایوں کو شریک کرو"
احسان کی ایک صورت یہ ہے کہ تقریبات میں ہمسایہ کو تحائف پیش کئے جائیں۔ کیونکہ تحائف محبت پیدا کرتے اور عداوت کو دور کرتے ہیں۔ ایک ہمسائے کا دوسرے پر یہ حق ہے کہ اسے کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچائے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«والله لايوٴمن، والله لايوٴمن، والله لايوٴمن قالوا من يارسول الله؟ قال: الذي لا يأمن جارہ بوائقه» (بخاری)
"اللہ کی قسم! وہ شخص موٴمن نہیں، واللہ! وہ شخص موٴمن نہیں، واللہ! وہ شخص موٴمن نہیں۔ صحابہ نے پوچھا کون یارسول اللہ ﷺ! آپ نے فرمایا: جس شخص کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ اَمن میں نہ ہو"
ایک اور روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لا يدخل الجنة من لا يأمن جارہ بوائقه» (بخاری)
"وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو۔ بوائق'کا معنی 'شرارتیں' ہے لہٰذا جس شخص کے شر سے اسکا ہمسایہ امن میں نہ ہو تو وہ موٴمن ہے نہ جنت میں داخل ہوگا"
آج کل بہت سے لوگ حق ہمسائیگی کا کچھ اہتمام نہیں کرتے، نہ ہی ان کی شرارتوں سے ان کے ہمسائے امن میں ہوتے ہیں۔ آپ انہیں ہمیشہ آپس میں اُلجھتے، مخالفت کرتے، حقوق پر زیادتی کرتے، اورہرلحاظ سے ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہوئے دیکھیں گے اوریہ سب کچھ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہے اوریہ باتیں مسلمانوں کی آپس میں جدائی، دلوں کی دوری اور ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنے کا سبب بن جاتی ہیں۔
(۹) عام مسلمانوں کا حق
عام مسلمانوں کے حقوق بہت زیادہ ہیں۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«حق المسلم علی المسلم ست: إذا لقيته فسلم عليه وإذا دعاک فأجبه وإذا استنصحک فانصحه وإذا عطس فحمد الله فشمته وإذا مرض فعدہ وإذا مات فاتبعه»
"ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں جب اُسے ملے تو السلام علیکم کہے، جب وہ دعوت دے تو اسے قبول کرے، خیرخواہی طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرے، جب چھینک مارے اور الحمدللہ کہے تو یرحمک اللہ کہے، جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے اور جب مرجائے تو اس کے جنازہ میں شامل ہو۔ گویا اس حدیث میں مسلمانوں کے باہمی حقوق کا بیان ہے" (مسلم)
پہلا حق: السلام علیکم کہنا ہے۔ السلام علیکم سنت ِموٴکدہ ہے اور مسلمانوں میں اُنس و محبت پیدا کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے جیسا کہ یہ بات مشاہدہ میں آچکی ہے اوراس پر نبی کریم ﷺکا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے:
«والله لا تدخلوا الجنة حتی توٴمنوا ولا توٴمنوا حتی تحابوا ، أفلا أخبرکم بشيیٴ إذا فعلتموہ تحاببتم : أفشوا السلام بينکم» (مسلم)
" اللہ کی قسم! جب تک تم موٴمن نہ بن جاؤ جنت میں داخل نہیں ہوسکتے اور جب تک تم آپس میں محبت نہ کرو موٴمن نہیں بن سکتے کیا میں تمہیں ایسی چیز کی خبر نہ دوں کہ جب تم اسے کرو تو آپس میں محبت کرنے لگو... آپس میں السلام علیکم کو خوب پھیلاؤ"
رسول اللہ ﷺکو جو بھی ملتا آپ اسے سلام کہنے میں پہل کرتے اور جب بچوں کے پاس سے گزرتے تو انہیں بھی سلام کہتے۔سلام کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ چھوٹا بڑے کو سلام کہے اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو، سوار پیدل چلنے والے کو سلام کہے۔ لیکن سنت کے مطابق جسے سلام کہنا چاہئے تھا، اگر وہ سلام نہ کہے تو دوسرا کہہ لے تاکہ نیکی کا موقع ضائع نہ ہو۔ مثلاً جب چھوٹا سلام نہ کہے تو بڑا کہہ لے اور اگر تھوڑے سلام نہ کہیں توزیادہ کہہ لیں تاکہ دونوں کو اجر مل جائے۔عمار بن یاسر کہتے ہیں:
"تین چیزیں ایسی ہیں جو شخص انہیں اکٹھا کر لے اس کا ایمان مکمل ہوگیا۔ اپنے آپ سے انصاف کرنا، سب لوگوں کو سلام کہنا اور تنگی کی حالت میں خرچ کرنا"
سلام کہنا سنت اور اس کا جواب دینا فرضِ کفایہ ہے کہ اگرایک شخص بھی جواب دے دے تو سب کی طرف سے کافی ہوجاتا ہے۔ مثلاً کوئی شخص ایک جماعت پر سلام کہے اور ان میں سے ایک شخص سلام کا جواب دے دے تو باقی سب سے کافی ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ وَإِذا حُيّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيّوا بِأَحسَنَ مِنها أَو رُ‌دّوها ۗ....... ٨٦ ﴾...... سورة النساء
"اور جب تمہیں کوئی سلام کہے تو تم اس سے بہتر الفاظ سے جواب دو یا (کم از کم) ویسے ہی الفاظ سے جواب دے دو"
سلام کے جواب میں صرف أھلاً وسھلا کہہ دینا کافی نہیں، کیونکہ یہ الفاظ نہ تو سلام سے اچھے ہیں اور نہ ہی اس جیسے ہیں۔ لہٰذا جب کوئی السلام علیکم کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام کہے اور جب کوئی اھلاً کہے تو اس کے جواب میں اسی طرح اھلاً کہہ سکتا ہے اور اگر سلام میں کچھ زیادہ الفاظ ورحمة اللہ و برکاتہ کہے تو وہ افضل ہے۔
دوسرا حق: جب تجھے مسلمان بھائی دعوت دے تو اسے قبول کر یعنی جب تجھے اپنے گھر کھانے پر یا کسی اور کام کے لئے بلائے تو تجھے جانا چاہئے۔ دعوت قبول کرنا سنت ِموٴکدہ ہے کیونکہ ا س میں بلانے والے کے دل کی عظمت ہے۔ ا س سے محبت اُورالفت پیدا ہوتی ہے۔ جو شخص دعوت قبول نہیں کرتا، اس کے بارے میں نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«ومن لم يجب فقد عصی الله و رسوله» (بخاری)
"جس نے دعوت قبول نہ کی، اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی"
آپﷺ کا یہ فرمان: "جب تجھے دعوت دے تو اسے قبول کر" ایسی دعوت کے لئے بھی ہے جو امداد و معاونت کے لئے ہو کیونکہ تجھے اس کو قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«الموٴمن للموٴمن کالبنيان يشد بعضه بعضا» (بخاری و مسلم)
"ایک موٴمن دوسرے موٴمن کے لئے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے۔"
تیسرا حق: جب کوئی مسلمان تجھ سے خیر خواہی طلب کرے تو اس کی خیرخواہی کر یعنی جب وہ تیرے پاس آکر اپنے لئے کسی چیز میں تمہاری خیرخواہی کا طالب ہو تو اس کی خیرخواہی کرو۔ کیونکہ یہ بھی دین کا حصہ ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے:
«الدين النصيحة ، لله ولکتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم» (مسلم)
"دین خیرخواہی ہے۔ اللہ سے، اس کی کتاب سے، اس کے رسول سے، مسلمانوں کے سرداروں سے اور عام مسلمانوں سے"
البتہ اگر وہ خیرخواہی طلب کرنے کے لئے تیرے پاس نہ آئے اور صورتِ حال یہ ہو کہ اسے کوئی نقصان پہنچنے والا ہو یا وہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے والا ہو تو تجھ پر واجب ہے کہ اس کی خیر خواہی کرے۔
چوتھا حق: جب کوئی مسلمان چھینک مارے اور اس کے بعد اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہے تو دوسرا مسلمان اس کے جواب میں يَرْحَمُکَ اللهُ "اللہ تجھ پر رحم فرمائے" کہے۔ البتہ اگر وہ چھینک مارتے وقت اَلْحَمْدُلِلّٰہَ نہ کہے تو پھر اس کا کوئی حق رہا ،نہ اس کے لئے يَرْحَمُکَ الله ُکہا جائے گا کیونکہ اس نے اللہ کی تعریف بیان نہیں کی۔ لہٰذا اس کی جزا یہی ہے کہ يَرْحَمُکَ الله ُنہ کہا جائے۔
اور جب چھینک مارنے والا الحمدلله کہے تو پھر يرحمک الله کہنا فرض ہے اور چھینک مارنے والے پر اس کا جواب دینا واجب ہے کہ وہ يَهْدِيْکُمُ اللهُُ وَيُصْلِحُ بَالَکُمْ "اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال درست کرے" کہے اور جب اسے بار بار چھینکیں آرہی ہو تو تین باريرحمک الله کہے اور چوتھی بار يرحمک الله کی بجائے عَافَاکَ اللهُُ "اللہ تعالیٰ تمہیں عافیت میں رکھے" کہے۔
پانچواں حق: جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو تو اس کی بیمار پرسی کر۔ مریض کی عیادت کا معنی اس سے ملاقات کرنا ہے اور یہ مسلمان بھائیوں کا اس پر حق ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر عیادت کرنا واجب ہے اور جب مریض سے تمہاری قرابت، دوستی یا ہمسائیگی ہو تو عیادت اور بھی ضروری ہوجاتی ہے۔
عیادت مریض اور مرض کے حسب ِحال ہونی چاہئے۔ کبھی حالات کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بار بار عیادت کے لئے آتا رہے کیونکہ حالات کا لحاظ رکھنا بہت مناسب ہے اور جو شخص مریض کی عیادت کرے اس کے لئے سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کا حال پوچھے اور ا س کے لئے دعا کرے، کشادگی اور اُمید کا دروازہ کھولے کیونکہ یہ چیز صحت اور شفا کے لئے بڑے اَسباب میں سے ایک سبب ہے اور مناسب یہ ہے کہ اس سے توبہ کا ذکر اس انداز سے کرے جو اسے تعجب میں نہ ڈال دے۔ مثلاً اسے یوں کہے
"موٴمن کی بھی عجیب شان ہے کہ وہ ہر حال میں نیکیاں حاصل کرسکتا ہے کیونکہ مرض سے اللہ تعالیٰ خطائیں دور کرتا اور برائیاں مٹا دیتا ہے اور شاید تو اپنے اس مرض میں کثرتِ ذکر، استغفار اور دعا سے بہت بڑا اجر کما لے۔"
چھٹا حق : مسلمان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے بھائی کے جنازہ میں شریک ہو اوراس میں بہت بڑا اجر ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا:
«من تبع الجنازة حتی يصلی عليها فله قيراط، ومن تبعها حتی تدفن فله قيراطان، قيل وما القيراطان؟ قال مثل الجبلين العظيمين» (بخاری و مسلم)
"جو شخص جنازہ کے ساتھ چلے حتیٰ کہ اس پر نمازِ جنازہ پڑھی جائے، اس کے لئے ایک قیراط اجر ہے اور جو اس کے ساتھ چلے یہاں تک کہ دفن کیا جائے اس کے لئے دو قیراط ہیں۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یہ دو قیراط کیا ہیں؟ فرمایا : جیسے دو بڑے بڑے پہاڑ"
ساتواں حق: مسلمان کے دوسرے حقوق میں سے ایک یہ ہے کہ اسے تکلیف پہنچانے سے باز رہے کیونکہ مسلمانوں کو دکھ پہنچانا بہت بڑا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿وَالَّذينَ يُؤذونَ المُؤمِنينَ وَالمُؤمِنـٰتِ بِغَيرِ‌ مَا اكتَسَبوا فَقَدِ احتَمَلوا بُهتـٰنًا وَإِثمًا مُبينًا ٥٨ ﴾..... سورة الاحزاب
"اور جو لوگ موٴمن مردوں اور موٴمن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت) سے دکھ پہنچاتے ہیں جو انہوں نے کیا نہیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھا لیا"
اور اکثر یوں ہوتا ہے کہ جو شخص اپنے بھائی پر کوئی تکلیف مسلط کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی اس سے انتقام لے لیتا ہے اور رسول اللہ نے فرمایا:
«ولا تباغضوا ولا تدابروا وکونوا عباد الله إخوانا، المسلم أخو المسلم لايظلمه ولايخذله ولايحقرہ بحسب امرئ من الشر أن يحقر أخاہ المسلم، کل المسلم علی المسلم حرام دمه وماله وعرضه» (صحیح مسلم)
"آپس میں دشمنی رکھو، نہ تعلقات منقطع کرو اور اللہ تعالیٰ کے بندے بن کر بھائی بھائی ہوجاؤ، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے بے یارومددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے، آدمی کے لئے اتنی ہی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے۔ مسلمان پر مسلمان کا خون، مال اور اس کی عزت حرام ہے"
مسلمان پر مسلمان کے بہت سے حقوق ہیں نبی کریم ﷺکا فرمان ہے:
«المسلم أخو المسلم» (صحیح مسلم)
"مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے"
اخوت کا تقاضا یہی ہے کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو۔ اس کی ہر ممکن بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو۔
(۱۰) غیر مسلموں کے حقوق
غیر مسلموں میں ہرطرح کے کافر شامل ہیں اوران کی چار قسمیں ہیں:
(۱) حربی (۲) مستامن (۳) معاہد (۴) ذمی
حربی: حربی کفار کا ہم پرکوئی حق نہیں کہ ان کی حمایت /رعایت کی جائے۔
مستامن: ان کفار کا ہم پریہ حق ہے کہ ان کو امن دینے کے وقت (مدتِ امان) اور اس جگہ کا لحاظ رکھا جائے جہاں انہیں امان دی گئی ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿وَإِن أَحَدٌ مِنَ المُشرِ‌كينَ استَجارَ‌كَ فَأَجِر‌هُ حَتّىٰ يَسمَعَ كَلـٰمَ اللَّهِ ثُمَّ أَبلِغهُ مَأمَنَهُ...... ٦ ﴾...... سورة التوبة
"اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ چاہے تو اس کو پناہ دو تاآنکہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو"

معاہد: معاہدین کا ہم پر یہ حق ہے کہ ہم ان کا عہد اس مدت تک پورا کریں جو ہمارے اور ان کے درمیان اتفاق سے طے ہوا ہے۔ جب تک کہ وہ اس عہد پر قائم رہیں، اس میں سے کچھ کمی کریں نہ ہمارے خلاف کسی کی مدد کریں اورنہ ہی ہمارے دین میں طعنہ زنی کریں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِلَّا الَّذينَ عـٰهَدتُم مِنَ المُشرِ‌كينَ ثُمَّ لَم يَنقُصوكُم شَيـًٔا وَلَم يُظـٰهِر‌وا عَلَيكُم أَحَدًا فَأَتِمّوا إِلَيهِم عَهدَهُم إِلىٰ مُدَّتِهِم ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُتَّقينَ ٤ ﴾..... سورة التوبة
"مگر جن مشرکوں کے ساتھ تم نے عہد کیا ہو اورانہوں نے تمہارا کسی طرح کا نقصان کیا ہو نہ ہی تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو جس مدت تک ان سے عہد کیا ہوا ہے اسے پورا کرو، بلاشبہ اللہ پرہیز گاروں کو دوست رکھتا ہے" ... نیز فرمایا:
﴿ وَإِن نَكَثوا أَيمـٰنَهُم مِن بَعدِ عَهدِهِم وَطَعَنوا فى دينِكُم فَقـٰتِلوا أَئِمَّةَ الكُفرِ‌ ۙ إِنَّهُم لا أَيمـٰنَ لَهُم لَعَلَّهُم يَنتَهونَ ١٢ ﴾..... سورة التوبة
"اور اگر وہ عہد کرنے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کی قسموں کا اعتبار نہیں"
ذمی: ذمی کے حقوق باقی تمام کافروں سے زیادہ ہیں۔ ان کے کچھ حقوق ہیں اور کچھ ذمہ داریاں۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کے ملک میں زندگی بسر کرتے اور ان کی حمایت اور رعایت میں رہتے ہیں جس کے عوض وہ جزیہ ادا کرتے ہیں۔لہٰذا مسلمانوں کے حاکم پر واجب ہے کہ ان کے خون، مال اور عزت کے مقدمات میں اسلام کے حکم کے مطابق فیصلہ کرے اور جس چیز کی حرمت کا وہ عقیدہ رکھتے ہیں اس میں ان پرحدود قائم کرے اور حاکم پر ان کی حمایت اور ان سے تکلیف کو دور کرنا ضروری ہے۔
اور یہ بھی ضروری ہے کہ ان کا لباس مسلمانوں کے لباس سے الگ ہو اور وہ کسی ایسی چیز کا ا ظہار نہ کریں جو اسلام میں ناپسندیدہ ہو یا ان کے دین کا شعار (شناختی علامت) ہو، جیسے ناقوس اور صلیب۔ ذمیوں کے احکام اہل علم کی کتابوں میں موجود ہیں لہٰذا ہم یہاں اسے طول نہیں دیتے۔
ان حقوق پر عمل کرنا مسلمانوں میں محبت کا ذریعہ ہے۔ یہ ایسے حقوق ہیں جن پرعمل کرنے سے باہمی عداوت اور نفرت زائل ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ ان پر عمل برائیوں کے مٹنے، نیکیوں کے دوگنا چوگنا ہونے اور درجات کی بلندی کا سبب ہے۔ اللہ مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

٭٭٭٭٭

وَاعبُدُوا اللَّهَ وَلا تُشرِ‌كوا بِهِ شَيـًٔا ۖ وَبِالو‌ٰلِدَينِ إِحسـٰنًا وَبِذِى القُر‌بىٰ وَاليَتـٰمىٰ وَالمَسـٰكينِ وَالجارِ‌ ذِى القُر‌بىٰ