'لغاتِ قرآن اور عور ت کی شخصیت'پر ایک نظر

مصنّف : پروفیسر خورشید عالم ...صفحات: 560 ... اشاعت: 2011ء
پیش نظر کتاب کے اس جائزے کی مصنفہ برسہا برس گورنمنٹ کالج برائے خواتین سمن آباد میں علوم اسلامیہ کی تدریس کے بعد اسی شعبہ کی سربراہی پر فائز رہنے کے ناطے اس میدان میں وسیع تجربے کی حامل ہیں۔'حقوقِ نسواں اور اسلام' کے موضوع پر مایہ ناز کتاب کی مصنفہ ہونے کے حوالے سے اہل علم میں اُنہیں ممتاز تعارف حاصل ہے اور اُن کی یہ تحقیق اپنے موضوع پر بنیادی کتاب سمجھی جاتی ہے۔پاکستان اور اسلام میں خواتین کے مسائل و حقوق کے حوالے سے متعدد کتب کے علاوہ آپ کے کئی ایک مضامین ومقالات علمی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ تعلیم وتحقیق سے اُن کا عشروں پر محیط رشتہ اس موضوع کے جن حساس پہلؤوں کی طرف اُنہیں متوجہ کرتا ہے ، اس کا اظہار زیر نظر تبصرہ میں بخوبی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ اس تحریر میں اُنہوں نے پیش نظر کتاب کے بعض پہلؤوں کو اجاگر کرکے اس کا محاکمہ اہل نظر قارئین کے سپرد کرنے پر اکتفا کیا ہے، کیونکہ ان موضوعات پر تفصیلی موقف مصنفہ کی کتب میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ ح م
اس کتاب کے مصنف پروفیسرخورشیدعالم وسیع علمی پس منظر رکھتے ہیں، خصوصاً اُنہیں عربی زبان و گرامر پر کافی عبور حاصل ہے۔اُنہوں نے30؍برس تک عربی زبان کی تدریس کا کام کیا۔ کچھ عرصہ پنجاب کے مختلف کالجوں میں، پھر 20؍سال تک ریاض (سعودی عرب) میں تعلیم و تدریس اور ملازمت کےسلسلے میں مقیم رہے۔
زیر بحث کتاب'لغات قرآن اورعورت کی شخصیت'میں، عورت کے بارے میں قرآن کریم کے نام پر مصنف نے اپنے نقطہ نظر کوپیش کیا ہے۔ خواتین سے متعلق قرآن پاک میں جتنے کلمات و اصطلاحات استعمال ہوئی ہیں، ان کو حروف ِ تہجی کے اعتبار سے جمع کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کتاب کے کل 28؍اَبواب ہیں۔ تاہم اس میں چند ایسے کلمات بھی آگئے ہیں جو اگرچہ عورت کے لیے براہ ِراست مخصوص نہیں مگر عورتیں ان احکامات میں مردوں ہی کی طرح مخاطب ہیں مثلاً الأنس، البشر، عبد، طائفة، الناس، النفس اور الیتیم وغیرہ
ہر باب میں متعلقہ لفظ کے معانی و مطالب کتبِ تفاسیر، حدیث، عربی لغت، گرامر اور عربی شاعری کی رو سےمتعین کئے گئے ہیں۔بعد اَزاں وہ ان سے اَخذ ہونیوالے مسائل و نتائج پر روشنی ڈالتے چلے جاتے ہیں۔اَندازِ بیان بظاہر علمی اور سائنٹفک ہے۔مقدمے میں خود ان کابیان ہے کہ
'' قرآن پاک پڑھنے اور سمجھنے کے لئے علم معانی و بیان کا'اسلوبِ تغلیب'پیش نظر رکھنا چاہیے،وگرنہ ٹھوکر لگے گی۔''
قرآن پاک کے اکثر اَوامر اور نواہی مذکر کے صیغے میں بیان کئے گئے ہیں اور سب علما کا اتفاق ہے کہ اس میں عورتیں بھی شامل ہیں۔مثلاً باب الإنس انسان کے تحت قرآنی آیت ﴿خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِيْفًا ﴾.... سورة النساء" پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
''آیت زیر بحث میں ضُعف سے مراد جسمانی ضُعف نہیں بلکہ اس سے مراد وہ محرکات ہیں جو شہوت اور لذت پرستی پر آمادہ کرتے ہیں۔کمزور آدمی اگر اللہ کی توفیق سے اس کمزوری پر قابو پالے تو وہ قوی شمار ہوگا۔ اور جسمانی طور پر قوی آدمی پر اگر یہ محرکات سوار ہوجائیں تو وہ کمزور شمار ہوگا،لیکن مفسرین کے ذہن میں چونکہ مرد کی فضیلت صرف مرد ہونے کی وجہ سے بیٹھی ہوئی ہے۔ اس لئے اُنہوں نے اس آیت کا عجب مفہوم بیان کیا ہے۔ ان کی رائے میں یہاں انسان سے مراد'مرد' ہیں۔ اُن کو ضعیف اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عورتوں سے جماع ترک کرنے سے عاجز ہیں او راس پر بے صبری کا اِظہار کرتے ہیں۔اس سے یہ نتیجہ اَخذ کیا گیا ہے کہ دنیا میں مرد کے لیے سب سے بڑا فتنہ عورت ہے۔ اُنہوں نے اس بیہودہ قول کو سعید بن مسیّب جیسےجلیل القدر تابعی کی طرف منسوب کیا ہے۔ گویا کہ مرد کی صرف ایک ہی بُرائی ہے اور وہ عورت کی وجہ سے ہے ۔ اگر یہ خامی اس میں نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ شادی بیاہ کے اَحکامات ہی نازل نہ کرتا۔''1
پھر وہ اسی موضوع میں آگے چل کر لکھتے ہیں :
''کھیت میں مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے والی ، میلوں چل کر سر پر توازن کے ساتھ تین تین گھڑے اُٹھانے والی، سر پر چارے اور گھاس کی گٹھ اُٹھانے والی، سڑکوں پر روڑی کوٹنےوالی ، سر پر نو، نو دس، دس اینٹیں اُٹھا کر دوسری تیسری منزل پرچڑھنے والی عورت کو کون کمزور کہہ سکتا ہے۔ ہمارےمفسرین جب بھی مرد کی فضیلت کے گن گاتے ہیں تو جسمانی طاقت کاتذکرہ سرفہرست ہوتا ہے اور جو بات عورت کی صحت کی علامت ہے اور اَفزائش نسل کےلئے اَز بس ضروری ہے، اسےعورت کی کمزوری اور خامی تصور کیا جاتا ہے۔میری مراد ماہواری اور حیض سے ہے۔''
مصنف زندہ درگور کرنے کی بحث کےدوران صفحہ 182 پرلکھ رہے ہیں:
''ایک سعودی باپ اپنی بیٹی کے بارے میں پریشان تھا وہ اپنے اِدارے کےسعودی ملازم سےکہنے لگا:''میری ایک جوان بیٹی ہے۔نو دس برس کے بعد میں نے اُسےگھر سے نکلنے نہیں دیا، اس پر سورج کی نظر بھی نہیں پڑی۔میں اس کی شادی کرناچاہتا ہوں، کوئی رشتہ نہیں مل رہا۔''
اس پر مصنّف تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
''گھر کی چار دیواری میں محبوس ایک اُجڈ اور اَن پڑھ انسانی رویوں سے ناآشنا سے کون شادی کرتا۔باپ نے تو اسے زندہ درگور کردیا تھا اور سمجھ رہا تھا کہ یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ بیٹی کو گھر سے باہر نہ نکلنے دیا جائے۔اسے اپنے عزیز و اَقارب سے بھی نہ ملنے دیا جائے اور اسے تعلیم سے محروم رکھا جائے۔ حالانکہ گھر میں مقید رکھنا ایک سزا ہے جو ایسی عورتوں کےلیے تجویز کی گئی ہے جوبدکاری کی مرتکب ہوتی ہیں اور اُن کے اس فعل پر چار گواہ گواہی دےچکے ہوتے ہیں۔''2
ملاحظہ کریں مصنف نےکس چرب زبانی سےنسوانی پردہ اور شرم و حیا کو ایک طرف زندہ درگور کرنا ، دوسری طرف اس کو بدکاری کرنے والی خواتین کی سزا قرا ر دے دیا۔
مسئلۂ شہادت
لکھتے ہیں کہ
''جاہلی معاشرے میں مرد کےمقابلے میں عورت کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی، شہادت دینا تو دور کی بات، اسے بحیثیتِ انسان بنیادی حقوق بھی حاصل نہ تھے۔ قرآن نے اسے یہ اعزاز بخشا کہ گواہی جیسے اہم فریضہ کی اَدائیگی کے لئے مرد کے شانہ بشانہ لاکھڑا کیا او ریہ اِعزاز بھی اس معاملہ میں، جس میں عام طور پر مردوں کی اِجارہ داری ہوتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے اعزاز سے آنکھیں موند کر اسی آیت کو بنیاد بنا کر ثابت کیا جاتا ہے کہ عورت مرد سے آدھی ہے۔''3
پھر آگے چل کر مسئلۂ شہادت پربحث کرتے ہوئے جناب مصنف سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر288 کی روشنی میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق گواہی کی اس بھاری ذمہ داری سے ہے جس کے ذریعے ایک مالدار آدمی اپنے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ عدالت کے فیصلے سے اس (آیت کا) کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔وہ مزید لکھتے ہیں:
1.  آیت میں مسلمانوں کو اِنفرادی طور پر مخاطب کیا گیا ہے، اس میں قانونی اِداروں سے خطاب نہیں۔
2.  اس آیت کاتعلق دستاویزی شہادت سے ہے، واقعاتی شہادت کو اس پر قیاس کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ دستاویز لکھتے وقت گواہ بنانا ہمارے اختیار میں ہوتا ہے۔ وہی لوگ گواہ کی حیثیت سے پیش ہوتے ہیں جو وہاں موجود ہوں۔ خواہ مرد ہوں یا خواتین اور خواہ ان کی تعداد کچھ بھی ہو۔
مسئلہ شہادت پر لمبی چوڑی بحث کرنے کے بعد صفحہ 99 پر نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ قرآن کی کسی آیت، کسی مرفوع حدیث اور اِجماع سے حدود میں خواتین کی شہادت کی عدمِ قبولیت ثابت نہیں ہوتی تو پھر خواتین کو حدود میں شہادت سے محروم رکھنا قرین انصاف نہیں۔
اسی طرح وہ عورت کی حکمرانی کوقرآن کےذریعے جائز ثابت کرتے ہیں اور ملکہ سبا بلقیس کو ایک مثالی خاتون حکمران قرار دیتے ہیں۔مزید لکھتے ہیں کہ یہ مسئلہ چھٹی صدی ہجری میں بھی متنازعہ تھا۔
مصنّف عورت کی نبوت کو بھی قرآن سے ثابت کرتے ہیں۔اس سلسلے میں حضرت سارہ زوجہ حضرت ابراہیم ، اُمّ موسیٰ ، حضرت مریم بنت عمرانؑ اور حضرت آسیہ زوجہ فرعون کی نبوت ثابت کرتےنظر آتے ہیں۔ اُن میں سے دو خواتین خصوصاً حضرت مریم بنتِ عمران والدہ حضرت عیسیٰ اور حضرت آسیہ زوجہ فرعون کو کامل خواتین قرار دیتے ہیں۔
پھر صفحہ 233 پرلکھتے ہیں کہ حضرت مریمؑ کی نبوّت پر تو سب علما متفق ہیں۔
مصنّف'صالحات'(سورۃ النساء:34) کا ترجمہ ''نیکو کارباصلاحیت عورتیں'' کرتے ہیں۔ وہ 'قانتات' کامعروف ترجمہ (شوہروں کی فرمانبردار) کو غلط قرار دیتے ہوئے اِصرارکرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اللہ کی اِطاعت و فرمانبرداری میں رہنے والیاں ہیں۔ یہی قانتات کا صحیح ترجمہ ہے۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ ''اس سے مراد شوہر کی فرمانبردار نہیں ہے۔''
لفظ 'حورٌ عین'کے بارے میں لکھتے ہیں:
'' حور بہشت کی ایک نعمت ہے او ریہ مرد و عورت دونوں کے لیے ہے۔ یہ ساتھی اور ہم نشین کےمعنوں میں ہے۔ یہ تزویج نکاح کے رنگ میں نہیں ہے۔''4
وہ ﴿ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ ﴾.... سورة الحجر" کاترجمہ یوں کرتے ہیں:
''وہ(جنّت میں)بہن بھائی بن کر آمنے سامنے مسندنشین ہوں گے۔ وہ دونوں ہم مشرب ہوں گے، محبت اور خلوص میں ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔ ان کےدل سے ہر طرح کےبغض و عناد کو نکال باہرکیا جائے گا۔''5
اسی طرح وَلهم أزواج مطهّرة کا ترجمہ بھی عجیب اَنداز میں کیاگیا ہے۔ یاد رہے کہ قرآنِ مجید میں یہ لفظ چھ مقامات پر آیا ہے۔ لکھتے ہیں :
''جنت کا تصور چونکہ مادی نہیں، اس لئے یہ کہنا مشکل ہےکہ وہاں حیاتیاتی یا جنسی تمیز اسی طرح رہے گی۔لہٰذا لفظ اَزواج سے ذہن کو جنسی تعلقات کی طرف منتقل نہیں ہونا چاہیے۔اس لئے یہاں اَزواج سے مراد ہم خیال اور ہم مشرب ساتھی ہوں گے جن میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔غرض مراد صاف ستھرے ساتھی ہے نہ کہ بیویاں۔''6
''جنت کاتصور مادی تصور نہیں۔''7
''نہ معروف معنوں میں شادی بیاہ ہوگا۔اُنہیں بقائے نوع کا مسئلہ بھی درپیش نہ ہوگا۔اسلئے زوج کے فعل سے ذہن کو جنسی تعلقات کی طرف مائل نہ ہونا چاہیے۔''8
خواتین کی تعلیم بارے بھی ان کا نقطہ نظر منفرد ہے کہ
''خواتین بھی تعلیم کے حصول کے سلسلہ میں دور دراز کا سفر کرتی رہی ہیں۔ اُنہوں نے نو خواتین کے نام بھی گنوائے ہیں جو حصولِ تعلیم کے لیے سفر کرتی رہی ہیں۔ وہ مردوں کے حلقہ ہائے درس میں شامل ہوتی تھیں اور عورتوں کے حلقہ ہائے درس میں مرد بھی شامل ہوتے تھے۔ آج کل ہمارے ہاں علما نے مردوں اور عورتوں میں علمی تمیز کا نعرہ بلند کیا ہے اور اُس کے فرائض کو گھر کی چار دیواری تک محدود کررہے ہیں۔ اُس دور میں اس بات کا نام ونشان تک نہ تھا، وہ اپنے وضع کردہ تصور کو اسلام کے نام پیش کررہے ہیں۔''9
بحث کا نتیجہ
کتاب کےایک ایک صفحے پر وہ یہ واضح کرتے نظر آتے ہیں کہ مرد و عورت میں کامل مساوات ہے۔ عورت بھی وہ ساری صلاحیتیں رکھتی ہے جو مردوں میں موجود ہیں:
''خاتون کو قدرو منزلت ، جوقرآن نےعطا کی تھی وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی، او ریہ تصور لوگوں کے رگ و پے میں سرایت کرگیاکہ خاتون مرد سے گھٹیا ہوتی ہے۔ قرآنی آیات کی غلط تاویل کی گئی۔ جن آیات میں قرآن نے وہ حقوق عطا کئے تھے، جو آج تک اُن کو حاصل نہ تھے۔ انہی آیات کو اس کی تنقیص کے لیے پیش کیا گیا، احادیث وضع کی گئیں محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مرد افضل ہے اور خاتون فروتر۔''10
''خواتین ان فنون میں بازی لے گئیں جو مردوں کےساتھ مخصوص سمجھے جاتے ہیں۔مثلاً حکمرانی، عسکری قیادت، تحریر و تقریر اور زہد و تقویٰ۔''11
''مردوزن میں جو حیاتیاتی امتیاز پایا جاتا ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایک دوسرے کے کام کی صلاحیت نہیں رکھتا او راُس کا دائرہ کار الگ ہے۔''12
''حیاتیاتی اختلاف فرد کے رویوں کو متعین نہیں کرتا۔ جب کسی معاشرے میں حالات بدلتے ہیں تو رویے بھی بدل جاتے ہیں۔ہر صنف کےوجود میں مردانہ اور زنامہ دونوں خصوصیتیں پائی جاتی ہیں۔ سرجری کےذریعے مرد خاتون بن جاتا اور خاتون مرد۔''13
''ماضی میں خاتون کی صرف ایک حیثیت تھی۔گھریلو ذمہ داری، اب ایک دوسری حیثیت یعنی کارکن کی بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اگر شوہر عورتوں کو ملازمت کی اجازت دے رہے ہیں تو ہمیں اعتراض کا کیا حق ہے۔کٹّر سے کٹر روایتی گھرانوں او رملکوں میں دائرہ کار کی تخصیص ختم ہوچکی ہے۔دنیا کی موجودہ اقتصادی صورتِ حال میں کسی ملک کی نصف آبادی کو زندگی کے تمام میدانوں میں شریک ہونے سے روک دیا جائے تو ترقی کیسے ہوگی؟ دونوں کےمل کر کام کرنے سےہوگی۔''14
ویسے بھی وہ چہرے کے پردے کے قائل ہی نہیں۔چنانچہ صفحہ 120 کے آخر میں لکھتے ہیں کہ'' چہرہ کا پردہ کتاب و سنت سےثابت نہیں۔''
اس طرح یہ کتاب عربی لغت اور گرامر کے پردے میں عورت کے بارے میں پورا مغربی ایجنڈا مسلمانوں میں قرآن کے نام پر رائج کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔اگر اپوائی بیگمات یا این جی اوز اسلام کے خاندانی او رتمدنی و معاشرتی مسائل کے بارے میں بات کریں تو سب کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ غلط مسائل مسلم معاشرے میں پھیلائے جارہے ہیں۔مگر گھمبیر مسئلہ تو اس وقت بنتا ہے جب نام نہاد علما و فاضلین حضرات اپنے علم و فضل کے زعم میں،عربی لغت کے زور پر اپنی چرب زبانی کی بنیاد پر وہی کام کرتے نظر آتے ہیں جو اہل مغرب کومطلوب ہےتو پھر یہ تلبیس ابلیس ہمارے لیےبہت خطرناک بن جاتی ہے۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ روشن خیال حضرات جو حسبُنا کتاب الله کا دعویٰ رکھتے ہیں، خود اللہ تعالیٰ اور اس کےرسولﷺ کو بھی قرآن پاک کی تشریح و تفسیر کا حق دینے کو تیارنہیں۔ اُن کو اپنی عربی دانی پر اتنا بھروسہ ہے کہ اسی کی بنیاد پر فرنگیت کو اسلام میں داخل کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ مغربی فکر کو زبردست لفاظی کے ذریعے قرآن و حدیث میں سے کشید کرنے لگ جاتے ہیں۔ وہ تاویل اور اجتہاد کاکلہاڑا ہاتھ میں لے کر عربی گرامر، لغت اور عربی شاعری کی مدد سے عورت کادائرہ کار وہی متعین کرتےنظر آتے ہیں جو یو این او کے ایجنڈے'سیڈا' (Cedaw) کو مطلوب ہے۔
غرض مصنّف نے پرویزی فکر کو آگے بڑھایا اور غامدی فکر کوخوب پروان چڑھایا ہے۔ لغاتِ قرآن کے پردے میں شیطان کو کمک بہم پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یہ ایسے مارِآستین ہیں جو اپنے فسادِ فکر و نظر سے اُمّتِ مسلمہ کو نقصان پہنچانے کےلیےپوری طرح کوشاں ہیں۔اس تمام خلط مبحث کا علمی تفصیلی جواب دیا جاسکتا ہے لیکن فی الوقت اہل نظر قارئین کے سپرد کرتے ہیں اور خود یہ ذمہ داری کسی اور موقع پہ اُٹھا رکھتے ہیں۔ فَاعتبروا یا أولي الأبصار


حوالہ جات

1. صفحہ 135: لفظ الإنس پر بحث

2. سورة النساء: 15... صفحہ 183

3. زير نظر كتاب :صفحہ 88

4. صفحہ 275

5. صفحہ 34

6. صفحہ 325، 328

7. صفحہ 325

8. صفحہ 341،342 کا خلاصہ

9. صفحہ 408

10. صفحہ 112

11. صفحہ 127: قاضی ابن العربی کے'احکام القرآن' کے حوالہ سے

12. صفحہ 130

13. ایضاً

14. صفحہ 131